بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(12) دوا علاج سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242
12-متعدی امراض:
بعض بیماریوں کے بارے میں قدیم زمانے سے یہ تصور چلا آرہا ہے کہ ان میں منتقل ہونے کی صلاحیت ہے ، یہ چھوا چھوت کی بیماری ہے ، مریض کے ساتھ میل جول سے تندرست انسان بھی اس مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے، فن طب میں بھی بعض بیماریوں کو متعدی خیال کیاجاتا ہے، لیکن کیا اسلام بھی اس نظریہ سے متفق ہے؟ احادیث سے اس کا جواب ’’ہاں‘‘میں ملتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ ".
کوڑھی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔(صحيح بخاری:5707)
نیز ارشاد ہے:
لَا يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ
جس کے اونٹ بیمار ہوں وہ ان کو پانی پلانے کے لئے اس گھاٹ پر ہرگز نہ لے جائے جہاں تندرست اونٹ پانی پیتے ہیں۔‘(صحيح بخاري: 5770.صحيح مسلم:2221)
جن احادیث سے اس کے برخلاف معلوم ہوتاہے اس کی توجیہ کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا عقیدہ تھا کہ مرض میں اپنے طور پر منتقل ہونے کی صلاحیت ہے۔ خاصیت طبعی لازمی ہے کہ ضرور متعدی ہوتا ہے۔اور مرض کے پھیلنے میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلہ کا کوئی دخل نہیں ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشاد وعمل سے اس عقیدہ کی تردید فرمائی کہ مرض کے اندر ذاتی طور پر متعدی ہونے کی صلاحیت نہیں ہے۔ لا عدوى (صحیح بخاری:5707. صحیح مسلم: 2220)اور عملی طور پر اس بد اعتقادی کو ختم کرنے کے لئے ایک جذامی کے ساتھ کھانا تناول فرمایا اور ارشاد ہوا: اللہ پر اعتماد اور بھروسہ رکھو اور کھاؤ ( مرض و شفا اسی کے قبضۂ قدر ت میں ہے) (ترمذی 4/2)، لیکن اسباب کے درجہ میں اللہ نے بعض بیماریوں میں متعدی ہونے کی صلاحیت رکھ دی ہے ، اس لئے آپ ﷺ نے فرمایاکہ جذامی سے اس طرح دور رہو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ دونوں طرح کی حدیثوں میں موافقت پیدا کرنے کے لئے اکثر علماء نے اسی توجیہ کو اختیار کیاہے۔(فتح الباری 161/10،شرح نووی علی مسلم 230/2)
یعنی اسباب کے درجے میں مرض متعدی ہوسکتا ہے لیکن انسان کی نادانی ہے کہ وہ اسباب کو ہی سب کچھ سمجھ لیتا ہے اور اس حقیقت سے غافل ہوجاتا ہے کہ سبب اور اس کا نتیجہ دونوں اللہ تعالیٰ کے حکم و فیصلہ کے پابند ہیں ،وہ چاہے تو سبب کے بغیر نتیجہ ظاہر کرسکتا ہے اور نہ چاہے تو سبب کے باوجود نتیجہ نہیں نکل سکتا ہے اس لئے کوئی بیماری اپنے طور پر کسی کو نہیں لگتی ہے بلکہ اگر متعدی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے غرضیکہ حدیث میں اسباب کے درجے میں مرض کے متعدی ہونے کا انکار نہیں ہے البتہ اسباب کو خالق کائنات کا درجہ دینے سے منع فرمایا گیا ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ ". فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا بَالُ إِبِلِي تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ، فَيَأْتِي الْبَعِيرُ الْأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ بَيْنَهَا فَيُجْرِبُهَا ؟ فَقَالَ : ” فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ .
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”نہ کوئی بیماری خود سے متعدی ہوتی ہے،اور نہ صفر مہینہ میں اور ھامہ نامی پرندہ میں کوئی نحوست ہے۔ایک دیہاتی نے عرض کیا:یارسولَ اللہ! پھر یہ کیا بات ہے کہ میری اونٹنیاں ریت میں ہرنوں کی طرح صحت مند ہوتی ہیں، پھر ایک خارش زدہ اونٹ آتا ہے اور ان کے درمیان گھس جاتا ہے تو وہ سب خارش زدہ ہوجاتی ہیں؟”آپ ﷺ نے فرمایا:پھر پہلے اونٹ کو کس نے متعدی کیا؟”(یعنی اصل مُسبّب اللہ تعالیٰ ہے، اس کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا)
(صحيح بخاري :5717)
تاہم بعض لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ امراض متعدی نہیں ہوتے ہیں اور جن حدیثوں سے متعدی ہونا معلوم ہوتا ہے وہ ان لوگوں کے لئے ہے جو کمزور دل اور کمزور ایمان رکھتے ہیں کہ جن بیماریوں کو وہ متعدی سمجھتے ہیں ان میں مبتلا شخص سے میل جول نہ رکھیں کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ اتفاقی طور سے انھیں بھی یہ مرض لگ جائے تو ان کا اعتقاد خراب ہوگا کہ اس مرض کے اندر متعدی ہونے کی صلاحیت ہے اور اس طرح سے ان کا ایک وہم اعتقاد کا درجہ اختیار کرسکتاہے۔(فتح الباری 161/10)
یہاں اس بحث کی ضرورت نہیں کہ دلیل کے اعتبار سے ترجیح کس کو ہے ؟ کیونکہ یہ مسئلہ اب نظری نہیں بلکہ مشاہداتی ہے ، عقل و دل کی نگاہوں سے نہیں بلکہ سر کی آنکھوں سے ’’ایڈز‘‘ وغیرہ کے جراثیم منتقل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس لئے اب اس سے انکار، مشاہدہ اور تجربہ کا انکار ہے اور مان لینے میں نہ تو روح شریعت مجروح ہوتی ہے اور نہ حدیث کا انکار لازم آتاہے۔