نظامِ خاندان : مشترکہ یا جداگانہ؟

ولی اللہ مجید قاسمی

اسلام نے خاندانی نظام کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اس نے ہر ایسی کوشش کی حوصلہ افزائی کی ہے جس کے ذریعہ خاندان کو استحکام حاصل ہو، اورایسے ہر طرز عمل کی مذمت اور ہمت شکنی کی ہے جو اس نظام میں خلل انداز ہو۔ خاندانی نظام اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ وہ ایک فطری گہوارہ ہے، جہاں شفقت و محبت بھی ملتی ہے اور باہم تعاون، ہم دردی اور پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے۔ بغیر خاندان کا انسان ایک کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہے، جس کی زندگی ہوا کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔
نظامِ خاندان کو مستحکم اور پائدار رکھنے کے لیے اسلامی شریعت میں اراکینِ خاندان میں سے ہر ایک کے حقوق اور فرائض تفصیل سے بیان کردیے گئے ہیں۔ والدین، اولاد، میاں بیوی، اعزا و اقارب ، ہر ایک کے حدود اور حقوق متعین ہیں ، تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور ظلم و جور راہ نہ پا سکے۔ عدل و انصاف پر مبنی نظام خوش گوار بھی ہوتا ہے اور دیر پا بھی، اس لیے اہم چیز ان حقوق و فرائض کی حفاظت اور خاندانی نظام کا استحکام ہے، اور مشترکہ اور جداگانہ نظام خاندان میں سے اس کے لیے جو زیادہ معاون ہو وہی بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب و سنت میں نہ ان میں سے کسی ایک طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور نہ اسے بہتر کہا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے عہد مبارک میں اور اس سے پہلے بھی دنیا کی دیگر قوموں کی طرح عرب میں بھی دونوں طرح کے نظام رائج تھے۔

اہلِ بیت کا گھریلو نظام :

اللہ کے رسول ﷺ سے بڑھ کر رشتہ داروں کے حقوق و فرائض کی رعایت اور حفاظت کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے؟ اس لیے آپ نے ازواج مطہرات کو الگ الگ گھروں میں رکھا، ان کے کھانے پینے کا نظام اور مالی معاملات کو بھی ایک دوسرے سے بالکل جداگانہ رکھا، یہاں تک کہ اگر ایک کے یہاں دوسرے کا کوئی سامان ضائع ہوجاتا تو آپؐ اس کا تاوان ادا کرتے، حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ اپنی بیویوں میں سے کسی کے یہاں تھے، دوسری بیوی نے خادم کے ذریعہ پیالے میں کھانے کی کوئی چیز بھیجی۔ جس بیوی کے پاس موجود تھے انھیں یہ ناگوار گذرا۔ انھوں نے پیالہ پر ہاتھ مارا، جس سے وہ گر کر ٹوٹ گیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ٹوٹے ہوئے حصہ کو ملاکر اس میں کھانے کو رکھ دیا اور گھر میں موجود لوگوں سے کہا : کھاؤ، اور خادم کو روکے رکھا۔ جب لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے تو آپ نے دوسرا اچھا پیالہ اس خادم کو دے کر بھیج دیا اور ٹوٹا ہوا پیالہ رکھ لیا۔ (1)
ازواج مطہرات کے کھانے کے نظام کو مشترک رکھنے کی صورت میں قدرے بچت ہوسکتی تھی، اس لیے کہ دس لوگوں کا کھانا الگ الگ پکانے میں خرچ زیادہ آئے گا اور ایک جگہ پکانے میں اس کے بالمقابل کم خرچ آئے گا، لیکن اس صورت میں سوکنوں کی فطری چپقلش سے نہیں بچا جاسکتا ہے، جس کا مشاہدہ مذکورہ واقعہ میں بھی کیا جاسکتا ہے، اس لیے حقوق کی ادائی اور تلخیوں سے بچنے کے لیے رہائش اور خوردو نوش کے نظام کو الگ رکھنا ہی بہتر تھا۔ اسی پس منظر میں جب حضرت فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے ہوا تو آپؐ نے ان کے لیے بھی علیٰحدہ گھر کا انتظام کیا۔ وہ آپؐ کے چچیرے بھائی تھے، آپ انھیں اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے اور اپنی چہیتی بیٹی سے ان کا رشتہ کیا تھا، لیکن ایک کمرے پر مشتمل گھر میں ان کو ساتھ رکھنے سے ان کی انفرادیت متاثر ہوسکتی تھی۔

صحابۂ کرام کا نظامِ زندگی:

صحابۂ کرام کے معاشرے کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عام طور پر جداگانہ رہائش کے نظام پر عمل پیرا تھے، چنانچہ قرآن حکیم میں ہے: لَیْْسَ عَلَی الْأَعْمَی حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَی أَنفُسِکُمْ أَن تَأْکُلُوا مِن بُیُوتِکُمْ أَوْ بُیُوتِ آبَائِکُمْ أَوْ بُیُوتِ أُمَّہَاتِکُمْ أَوْ بُیُوتِ إِخْوَانِکُمْ أَوْ بُیُوتِ أَخَوَاتِکُمْ أَوْ بُیُوتِ أَعْمَامِکُمْ أَوْ بُیُوتِ عَمَّاتِکُمْ أَوْ بُیُوتِ أَخْوَالِکُمْ أَوْ بُیُوتِ خَالَاتِکُمْ أَوْ مَا مَلَکْتُم مَّفَاتِحَہُ أَوْ صَدِیْقِکُمْ لَیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْکُلُوا جَمِیْعاً أَوْ أَشْتَاتاً۔ (النور: 61) نابینا، لنگڑا، بیمار اور خود تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ کھانا کھاؤ اپنے گھر، یا اپنے باپ کے گھر، یا اپنی ماں کے گھر، یا اپنے بھائی کے گھر، یا اپنی بہن کے گھر، یا اپنے چچا کے گھر، یا اپنی پھوپھی کے گھر، یا اپنے ماموں کے گھر، یا اپنی خالہ کے گھر، یا ایسے لوگوں کے یہاں جن کی کنجیوں کے تم مالک ہو، یا دوست کے گھر، اور تم پر اس میں بھی کوئی حرج اور تنگی نہیں ہے کہ تم کھانا کھاؤ ایک ساتھ یا الگ الگ ہوکر۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت باپ، بھائی وغیرہ کے گھر الگ الگ ہوتے تھے، نیز ان کا خورد و نوش بھی علیٰحدہ ہوتا تھا۔
احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں عام طور پر لوگ شادی کے بعد الگ گھر بسا لیتے تھے۔ حضرت عبدالرحمان بن ابی بکرؓ کہتے ہیں کہ ایک موقع پر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کہ جس کے گھر دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ ایک مہمان لیتا جائے۔ ۔۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے کر آئے۔ عبدالرحمان کہتے ہیں کہ اس وقت ہمارے یہاں کل پانچ افراد تھے۔ میرے والدین، میں اور میری بیوی اور ایک خادم جو میرے اور میرے والد کے گھر دونوں جگہ کام کرتا تھا۔ (2)
اس روایت میں مزید یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور ان کے لڑکے عبدالرحمان الگ الگ گھروں میں رہائش پذیر تھے۔ اور اس کی بھی صراحت ہے کہ الگ رہنے کے باوجود وہ اپنے والد کی خدمت سے کنارہ کش نہیں ہوئے۔ وہ اس بات کے پابند تھے کہ والدین کی گھریلو ضروریات اور خدمات کا لحاظ رکھیں اور اس میں کوتاہی پر وہ اپنے والد کی ناراضگی بھی برداشت کرتے تھے۔ بعض صحابۂ کرام مشترکہ رہائش اختیار کیے ہوئے تھے۔ ان کے حالات کا یہی تقاضا تھا اور اسی شکل میں حقوق کی ادائی اور زیر کفالت افراد کی دیکھ ریکھ ہوسکتی تھی۔ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں: ’’میرے والد شہید کردیے گئے، اور اپنے پیچھے سات یا نو لڑکیاں چھوڑ گئے۔ میں نے ایک ثیّبہ (شوہر دیدہ) عورت سے شادی کرلی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے مجھ سے پوچھا: جابر! تمھاری شادی ہوگئی؟ میں نے کہا: ہاں ۔ فرمایا: کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟ میں نے کہا: شوہر دیدہ سے- آپ نے فرمایا: کسی دوشیزہ سے شادی کیوں نہیں کی کہ تم اس سے کھیلتے، وہ تم سے کھیلتی؟ میں نے کہا: میرے والد کا انتقال ہوگیا اور وہ بیٹیاں چھوڑ گئے، مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں انہی جیسی کوئی لڑکی لے آؤں ، اس لیے میں نے ایسی عورت سے شادی کی جو ان کی دیکھ بھال کرسکے اور ان کے معاملات کو ٹھیک رکھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تمھیں برکت عطا فرمائے۔ ‘‘ (3)
اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت جابرؓ کے اس طرز عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور ان کی تعریف فرمائی۔ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس چیز کو اپنی نعمت قرار دیا ہے کہ کسی کے لڑکے اس کے ساتھ اور اس کے پاس رہیں :
ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْداً۔ وَجَعَلْتُ لَہُ مَالاً مَّمْدُوداً۔ وَبَنِیْنَ شُہُوداً۔ وَمَہَّدتُّ لَہُ تَمْہِیْداً۔ (المدّثّر: 11-14)
چھوڑدو مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا اور بہت سا مال اس کو دیا اور اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے اور اس کے لیے سرداری کی راہ ہموار کی۔ مولانا مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’ولید بن مغیرہ پر اللہ تعالیٰ نے جو دنیا میں انعامات مبذول فرمائے تھے، ان میں ایک یہ بھی فرمایا کہ ’’بنین شہودا‘‘ یعنی اولاد حاضر و موجود۔ اس سے معلوم ہوا کہ جیسے اولاد کا پیدا ہونا اور اس کا باقی رہنا اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں ، اسی طرح اولاد کا اپنے پاس حاضر و موجود ہونا بھی ایک بڑا انعام ہے جو والدین کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلب کے سکون کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ان کی حاضری سے اپنی خدمت اور کاروبار میں امداد کا فائدہ مزید براں ہے‘‘۔ (4)

قابلِ اصلاح مشترکہ نظام:

اس سے کسی کو انکار نہیں کہ مشترکہ نظام خاندان میں بعض خرابیاں در آئی ہیں ، جن کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ ان بے ضابطگیوں کے ساتھ یہ نظام فائدہ مند اور نتیجہ خیز ہونے کے بجائے ضرر رساں اور تکلیف دہ ثابت ہورہا ہے، اور گھٹن کے اس ماحول میں ایک ساتھ زندگی گذارنا مشکل ہورہا ہے۔ رشتوں کا احترام اور پاس و لحاظ رکھنے کی جگہ دشمنیاں جنم لے رہی ہیں ، نزدیکیاں، دوریوں میں تبدیل ہورہی ہیں ، ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنے کی جگہ اس پر خوش ہونے کا مزاج بن رہا ہے، شب و روز کی توٗتوٗ میں میں نے گھر کے سکون کو درہم برہم کردیا ہے۔ معاملات کی خرابی معاملات کی صفائی اوراسے ہر طرح کے لڑائی جھگڑے سے پاک رکھنے، خاص طور سے مالی معاملات میں شفافیت کی اہمیت محتاج بیان نہیں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً۔ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ عُدْوَاناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَاراً وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللّہِ یَسِیْراً۔ (النساء: ۲۹-۳۰) ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے پر مت کھاؤ، سوائے اس کے کہ باہمی رضامندی اور خوش دلی سے تجارت کے ذریعہ کسی کا مال لیا گیا ہو اور تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، بلاشبہ اللہ تم پر بہت مہربان ہے اور جو کوئی سرکشی اور ظلم کی وجہ سے ایسا کرے گا اسے ہم جلد ہی جہنم میں داخل کردیں گے اور یہ اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔
اور اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں :
* لایدخل الجنۃ جسد غذّی بحرام۔(5)
جس جسم کی پرورش حرام غذا سے ہوئی ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
* الا لا یحل مال امرء الا بطیب نفسہ۔( 6) سن لو ، کسی دوسرے کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال نہیں ہے۔
وہ مال حلال اور پاکیزہ ہے جو اپنی کمائی یا وراثت کے ذریعہ حاصل ہو، یا باہمی رضا مندی سے تجارت یا خوشی کے ساتھ تحفہ کے ذریعہ ملا ہو، یا اس کے علاوہ کسی جائز ذریعہ سے حاصل کیا گیا ہو۔ کسی کی رضا مندی اور خوش دلی کے بغیر اس کے مال کو لے لینا، یا حرام ذیعہ سے مال کمانا باطل اور روحانی خود کشی کے مترادف ہے۔ علامہ ابن کثیرؒ آیت بالا کی تفسیر میں لکھتے ہیں : وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ای بارتکاب محارم اللہ وتعاطی معاصیہ وأکل اموالکم بینکم بالباطل۔ (7)
’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ حرام اور معصیت کا ارتکاب کرکے، نیز آپس میں ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے پر کھاکر اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔
مشترک نظام خاندان میں مالیاتی پہلو سے بے ضابطگی ایک امر واقعہ ہے۔ اس نظام میں لڑائی جھگڑا ، دشمنی، نفرت، الزام تراشی اور تہمت وغیرہ کی بنیادی وجہ مالی معاملات اور لین دین میں عدم شفافیت ہے، اس لیے مالی معاملات اور خورد و نوش کا نظام مشترک ہونے کی صورت میں ہر چیز معلوم اور متعین ہونی چاہیے، کوئی چیز راز اور سربستہ نہ ہو، ہر ایک کی ملکیت الگ یا متعین ہونی چاہیے اور اشتراک کے لیے کسی پر کسی قسم کا جبر اور دباؤ نہ ہو، بلکہ خوش دلی اور باہمی رضا مندی سے ایک معاہدہ کرلیا جائے، زور زبردستی اور معاشرتی جبر و دباؤ کے ذریعہ کسی کو اس نظام کے ساتھ باندھ کر رکھنا صحیح نہیں ہے۔
فضول خرچی اور لاپروائی :
مال مشترک ہونے کی صورت میں ہر شخص اسے پرایا مال سمجھ کر نہایت بے احتیاطی کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح سے کھانے پینے کی چیزوں میں فضول خرچی ایک عام بات ہے۔ علاوہ ازیں اس سے خود کمانے کھانے کی جگہ دوسروں پر انحصار کا مزاج بنتا اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ ناکارہ اور نکمے افراد کی تعداد بڑھتی ہے، جس کی وجہ سے کمانے والے افراد کے بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے اور معاشی اور اقتصادی ترقی گھٹتی ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی جائے، اپنے ہاتھ کی کمائی کھانے کا مزاج بنایا جائے، شدید مجبوری کے بغیر دوسروں سے مالی مدد نہ لی جائے، نیز میانہ روی کی حوصلہ افزائی اور فضول خرچی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

نامحرم کے ساتھ خلوت:

پردہ کی مشروعیت کا بنیادی مقصد عصمت و عفت کی حفاظت اور جنسی تعلقات کی پوشیدگی ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے بعض اوقات محرم مردوں کو بھی گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت لینے کا حکم دیا گیا ہے (النور: ۵۸) اور ایسے لوگوں کی تعداد کم سے کم رکھی گئی ہے جن کے سامنے عورت کو بے حجاب آنے کی اجازت ہے (النور: ۳۱)
اور وہ ایسے لوگ ہیں جن سے رشتۂ نکاح قائم کرنا عورت کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہے، یا انھیں جنسی تعلقات سے آگاہی یا کوئی جنسی محرک نہیں ہوتا۔ نامحرم کے سامنے عورت کا بے حجاب آنا اور اس کے ساتھ تنہائی میں رہنا حرام ہے۔
ہمارے معاشرے میں دیور بھابھی کا آپس میں بے ہودہ مذاق اور تنہائی میں یکجائی ایک عام بات ہے، خاص کر مشترک خاندان میں اس کے مواقع زیادہ ملتے ہیں اور اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ غیروں کی نسبت اپنوں سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ایاکم والدخول علی النساء، فقال رجل من الانصار یا رسول اللہ افرأیت الحمو قال الحمو الموت۔
عورتوں کے پاس جانے سے بچو، ایک انصاری نے دریافت کیا شوہر کی طرف سے غیر محرم رشتہ داروں (بھائی، بھتیجا، چچا، چچازاد بھائی وغیرہ) کا کیا حکم ہے؟ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ان لوگوں سے تو موت کی طرح بھاگنے کی ضرورت ہے‘‘۔
علامہ نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ان الخوف منہ أکثر من غیرہ والشر یتوقع منہ والفتنۃ اکثر لتمکّنہ من الوصول الی المرء ۃ والخلوۃ من غیر ان ینکر علیہ بخلاف الاجنبی۔(9)
دوسروں کے بالمقابل شوہر کے رشتہ داروں سے اندیشہ زیادہ ہوتا ہے، ان سے برائی کے امکانات اور فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے کہ انھیں عورت تک رسائی اور تنہائی میں یکجائی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی، اور اسے غلط اور برا بھی نہیں سمجھا جاتا، اس کے برخلاف دوسرے لوگوں کو ایسی چھوٹ حاصل نہیں ہوتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: لاتلجوا علی المغیبات، فان الشیطان یجری من احدکم مجری الدم۔ (10)
جن عورتوں کے شوہر گھر پر موجود نہ ہوں ان کے یہاں مت جاؤ کیوں کہ شیطان تمھارے اندر خون کی طرح رواں ہوتاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلہ میں بے پروائی اور بے حسی کو دور کیاجائے، اوراس سلسلے میں لوگوں کو حساس بنایا جائے، تاکہ ایک صالح اور برائیوں اوربے حیائیوں سے پاک معاشرہ وجود میں آئے۔

پردہ پوشی اور سامان کی حفاظت:

مشترکہ نظام خاندان میں انسان کی راز داری اور PRIVACY متاثر ہوتی ہے، اور بے تکلف اور خوش گوار ازدواجی زندگی گذارنا دشوار تر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں شوہر کے گھر کے افراد عورت کے سازو سامان کو مالِ مفت سمجھ کر بے رحمی سے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کو ایک الگ کمرہ مہیا کرے ، جس میں وہ اس کے ساتھ بے تکلف جنسی تعلقات قائم کرسکے، نیز اس کے سامان کی حفاظت ہوسکے۔ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں :
وعلی الزوج ان یسکنہا فی دار مفردۃ لیس فیہا أحد من أہلہ الا ان تختار ذٰلک۔ ۔۔ واذا وجب حقاً لہا لیس لہ أن یشرک غیرہا فیہ، لأنہا تتضرّر بہ فانہا لا تأمن علی متاعہا، ویمنعہا عن المعاشرۃ مع زوجہا ومن الاستمتاع۔ (11)
شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کو الگ گھر میں رکھے، جس میں اس کے گھر کے لوگوں میں سے کوئی نہ ہو، مگر یہ کہ خود عورت ان کو رکھنا چاہیے۔ ۔۔ اور یہ جب عورت کے حق کے طور پر واجب ہے تو شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس میں دوسروں کو شریک کرے، اس لیے کہ اس کی وجہ سے عورت کو پریشانی ہوگی، اس کا سامن محفوظ نہیں رہے گا، اور نہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ بے تکلف رہ سکتی ہے اور نہ اس سے لطف اندوز ہوسکتی ہے۔
اور علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ لکھتے ہیں :
ویجب لہا مسکن بدلیل قولہ تعالیٰ اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِنْ وُجْدِکُمْ فاذا وجبت السکنی للمطلقۃ فللتی فی صلب النکاح اولیٰ، قال تعالیٰ وعاشروہن بالمعروف و من المعروف ان یسکنہا فی مسکن، و لانہا لاتستغنی عن المسکن للاستتار عن العیون وفی التصرف والاستمتاع وحفظ المتاع۔ (12)
عورت کے لیے گھر ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنی وسعت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو، وہاں ان کو بھی رکھو‘‘ اور جب طلاق یافتہ عورت کے لیے گھر ضروری ہے تو جو عورت نکاح میں ہے اس کے لیے بدرجۂ اولیٰ گھر واجب ہے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے’’عورتوں کے
ساتھ ’معروف‘ کے مطابق رہا کرو‘‘ اور ’معروف‘ کا تقاضا ہے کہ شوہر ،عورت کے لئے ایک گھر مہیا کرے اور اس لیے بھی کہ لوگوں کی نگاہوں سے بچنے اور شوہر کے ساتھ رہنے، اور سامان کی حفاظت کے لیے ایک عورت گھر سے بے نیاز نہیں ہوسکتی ہے۔
غرضیکہ عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی کو جنسی تعلقات قائم کرنے کی آزادی اور مواقع حاصل ہوں۔ وہ دن اور رات کے جس حصے میں چاہیں اپنی ضرورت پوری کرلیں ، خصوصاً نوجوان جوڑوں کے لیے ان کے سرپرستوں کی طرف سے اس سلسلہ میں پابندی مناسب نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے انھیں آسانی اور مواقع میسر ہونے چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
اذا دعا الرجل زوجتہ لحاجتہ فلتأتہ وان کانت علی التنور۔( 13)
جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ضرورت پوری کرنے کے لیے بلائے تو وہ فوراً آجائے، اگرچہ وہ تنور پر بیٹھی ہوئی ہو۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے کسی عورت کو دیکھا تو آپ اپنی بیوی حضرت زینبؓ کے پاس آئے۔ اس وقت وہ چمڑے کو دباغت دینے میں مصروف تھیں ، آپ نے انھیں بلایا اور ان سے اپنی ضرورت پوری کی۔ پھر اپنے اصحاب کے پاس آئے اور فرمایا: ’’عورت شیطان کی صورت میں آتی جاتی ہے، اس لیے اگر تم میں سے کسی کی نظر دوسری عورت پر پڑ جائے تو وہ اپنی بیوی سے اپنی ضرورت پوری کرلے کہ یہ چیز اس کی پریشان خیالی کو ختم کرے گی‘‘۔ (14)
علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں :
ولانہ یحتاج الی جماعہا ومعاشرتہا فی أی وقت یتفق ، ولا یمکن ذلک مع ثالث۔ (15)
اور اس لیے بھی کہ شوہر کو کسی بھی وقت عورت کے ساتھ رہنے اور ہم بستری کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اور یہ کسی تیسرے کی موجودگی میں ممکن نہیں ہے۔ میاں بیوی کی تنہائی کے لیے علیٰحدہ گھر ضروری نہیں ہے، ایک کمرے سے بھی یہ ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔(16)
اور یہ شوہر کے حالات پر منحصر ہے۔ اگر کسی کے پاس وسعت ہو تو وہ اس انداز سے گھر بنائے کہ اس میں ایک دو کمروں پر مشتمل مختلف یونٹیں ہوں ، ہر یونٹ ایک مستقل گھر کی حیثیت رکھتی ہو، اس طور پر کہ ساتھ میں کچن اور باتھ روم وغیرہ بھی ہو، بیوی شوہر کے لیے ایک یونٹ اور بالغ اولاد، والدین اور زیرکفالت دیگر رشتہ داروں کے لیے دوسری یونٹ۔ اس طرح والدین کی دیکھ ریکھ بھی ہوسکے گی اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی بھی۔ اور آج کل یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

جداگانہ نظام کی خرابیاں:

یہ صحیح ہے کہ جداگانہ رہائش کے ذریعہ بہت سی معاشرتی خرابیوں سے بچا جاسکتا ہے، لیکن اس کا تاریک پہلو یہ ہے کہ اس طرح والدین اور دیگر زیر کفالت افراد کے حقوق کی ادائی نہیں ہوپاتی اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، وہ بالکل تنہا اور بے سہارا ہوجاتے ہیں۔ بوڑھوں کے لیے مستقل ہاسٹل کی تعمیر، جداگانہ رہائش ہی کا نتیجہ ہے، جس کا چرچا کبھی مغربی ملکوں میں تھا، لیکن اب مشرق میں بھی اس کی ابتدا ہوچکی ہے۔ جداگانہ رہائش میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اللہ کے خوف یا معاشرے کے ڈر سے والدین یا طلاق یافتہ بہنوں اور یتیم بھتیجوں کو اپنے ساتھ رکھ لیتا ہے، لیکن اس کے دوسرے بھائی اپنے بیوی بچوں میں مشغول ہوکر ان کو یکسر فراموش کردیتے ہیں اور والدین اپنے دوسرے بچوں کی شکل دیکھنے کے لیے بھی ترس جاتے ہیں اور کبھی والدین کی باری لگادی جاتی ہے کہ وہ چند دن ایک بیٹے کے ساتھ رہیں اس کے بعد دوسرے اور تیسرے بیٹے کے یہاں گذارہ کریں۔ یہ کیفیت والدین کے لیے، خصوصاً حساس طبیعت والوں کے لیے کس درجہ تکلیف دہ ہے ، الفاظ اس کے بیان سے عاجز ہیں۔
والدین کے حقوق کی ادائی میں کوتاہی، ان سے متعلق ذمہ داریوں سے فرار، بیوہ، مطلقہ اور یتیموں کی حق تلفی ایسی خرابی ہے جو مشترکہ نظام خاندان کی تمام خرابیوں پر بھاری ہے۔ اس لیے جداگانہ رہائش کی حوصلہ افزائی کی جگہ حقوق و فرائض کی اہمیت بیان کی جائے اور ان کی ادائی کی طرف توجہ دلائی جائے، جن کے متعلق کتاب و سنت میں واضح اور صاف لفظوں میں نہایت تاکیدی حکم دیا گیا ہے، نیز معاملات کی صفائی، پردہ کی رعایت، اجنبی کے ساتھ یکجائی سے متعلق اسلامی احکام کو رواج دیا جائے، کہ ان کی روشنی میں ہر ایک سے متعلق ذمہ داریوں اور اصول و ضوابط کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور مشترکہ اور جداگانہ رہائش کے تعلق سے خاموشی اختیار کی گئی ہے، ان میں سے کوئی بہ ذات خود نہ تو باعث فضیلت ہے اور نہ قابل نفرت، حالات کی روشنی میں ان میں سے جس کے ذریعہ حقوق بہتر طریقے سے ادا ہوں اسے اختیار کیا جاسکتا ہے۔

بہو کی ذمہ داری:

امورِ خانہ داری اور اس سے متعلق چیزیں عورت کی ذمہ داری میں شامل ہیں یا نہیں ؟ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ سلف و خلف میں سے ایک جماعت کی رائے میں گھر سے متعلق امور کی انجام دہی عورت پر واجب ہے۔ امام ابوثورؒ کہتے ہیں کہ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر چیز میں اپنے شوہر کی خدمت کرے۔ (17) امام مالکؒ سے منقول ہے کہ شوہر کے تنگ دست ہونے کی صورت میں امور خانہ کی انجام دہی بیوی پر واجب ہے، اگرچہ اس کا تعلق کسی مال دار اور شریف گھرانے سے ہو۔ (18) حنفیہ میں سے علامہ ابن ہمامؒ نے لکھا ہے کہ یہ چیزیں عورت پر اخلاقی طور پر واجب ہیں ، قانونی طور پر نہیں۔ (19) امام شافعیؒ ، امام ابوحنیفہؓ اور بعض دوسرے فقہاء کی رائے ہے کہ یہ چیزیں عورت پر واجب نہیں ہیں۔ علامہ ابن قیمؒ نے دونوں طرح کی رایوں سے متعلق دلائل کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ واجب نہ کہنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ عقدِ نکاح کاتقاضا صرف یہ ہے کہ مرد عورت سے صرف جنسی فائدہ حاصل کرے، اس سے خدمت لینا تقاضائے عقد کے برخلاف ہے۔ صحابیات کا امور خانہ داری کو انجام دینا ان کی طرف سے رضاکارانہ تعاون تھا، اس لیے اس طرح کے واقعات کو وجوب کے لیے دلیل بنانا صحیح نہیں ہے اور جو لوگ اسے واجب کہتے ہیں وہ درج ذیل دلیلیں پیش کرتے ہیں :
1- جس ماحول اور معاشرہ میں قرآن نازل ہوا وہاں کے عرف اور رواج کے مطابق گھریلو کام عورت ہی سے متعلق تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔ (البقرۃ:۲۲۸) اور عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔
2- نیز فرمان باری تعالٰی ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ۔ (النساء: 34)
مرد عورتوں پر قوّام ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے کہ انھوں نے ان پر اپنا مال خرچ کیا ہے۔
اگر گھریلو کام عورت کے بجائے مرد انجام دینے لگیں تو ایسی صورت میں عورتیں قوّام ہوں گی نہ کہ مرد۔
3- حدیث میں ہے:
اتقواللہ فی النساء فانہن عوان عندکم۔ عورتوں کے سلسلہ میں اللہ کے ڈرو، اس لیے کہ وہ تمھارے پاس قیدی ہیں۔
اس روایت میں عورتوں کو قیدی کہا گیا ہے اور قیدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مالک کی خدمت کرے اور اس کے حکم کو بجا لائے۔
4- حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کے متعلق صحیح روایتوں میں ہے کہ وہ اپنے شوہر حضرت زبیر بن عوامؓ کے گھر کا تمام کام انجام دیا کرتی تھیں اور گھریلو کام کے علاوہ ان کے گھوڑے کی دیکھ بھال بھی کرتی تھیں ، پانی ڈھوکر لاتیں ، اور گھر سے کافی فاصلہ پر جاکر گھوڑے اوراونٹ کے لیے چارے کا نظم کرتی تھیں۔
5- حضرت فاطمہؓ کے گھریلو کام کرنے اور پانی لانے کا واقعہ بہت مشہور ہے، یہاں تک کہ جب کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا تو وہ رسول اکرم ﷺ کے پاس ایک غلام کے لیے حاضر ہوئیں۔ اس موقع پر آں حضرت ﷺ نے انھیں سو مرتبہ سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر پڑھنے کی ترغیب دی۔
اس وقت آپؐ نے حضرت علیؓ سے یہ نہیں فرمایا کہ یہ تمھاری ذمہ داری ہے، فاطمہ کو پریشان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تم اگر گھر کا کام خود انجام نہیں دے سکتے ہو تو اس کے لیے کسی خادم یا خادمہ کا بندوبست کرو۔
اسی طرح حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کے سر پر چارے اور گھاس کا ٹوکرا دیکھ کر آپؐ نے حضرت زبیرؓ سے یہ نہیں کہا کہ یہ اس پر ظلم ہے، یہ تمھارا کام ہے، تم اسے انجام دو، یا اس کا کوئی انتظام کرو۔
6- دیگر صحابۂ کرام کی بیویاں بھی ان کی خدمت اور گھریلو کام انجام دیا کرتی تھیں ، لیکن آپؐ نے کبھی اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا، بلکہ اس عرف و رواج کو باقی رکھا۔
7- اللہ تعالیٰ نے عورت کا خرچ، کھانا، کپڑا، رہائش وغیرہ مرد پر واجب قرار دیا ہے۔ یہ چیزیں مرد کے ذمے کیوں ہیں ؟ کیا صرف اس لیے کہ مرد اس سے اپنی جنسی ضرورت پوری کرتا ہے، لیکن اس میں تو عورت بھی مرد کے ساتھ شریک ہے۔ وہ بھی اپنی خواہش مرد کے ذریعہ پوری کرتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد پر یہ ذمہ داری اس لیے ہے کہ عورت پر گھر کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ (20)
علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں : ’’شوہر کی خدمت عورت پر ضروری ہے یا نہیں ، جیسے گھر کی صفائی ستھرائی، کھانے پینے کا نظم، اس کے جانوروں کے لیے چارہ مہیا کرنا، وغیرہ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ واجب نہیں ہے۔ یہ ایک کم زور نقطۂ نظر ہے، جیسے کہ ان لوگوں کا قول ضعیف ہے جو کہتے ہیں کہ شوہر پر عورت کے ساتھ رہنا اور اس سے صحبت کرنا واجب نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ معروف معاشرت کے برخلاف ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں عورت پر واجب ہیں اور یہی صحیح ہے‘‘۔(21)
خلاصہ یہ کہ عورت پر اپنے شوہر اور اس کے ماں باپ سے متعلق خانگی ذمہ داریاں واجب ہیں ، خاص کر اس وقت جب بیٹیاں سسرال چلی جائیں اور ساس کو اپنی ضروریات کے لیے تعاون کی ضرورت ہو اور تعاون ایسا ہو کہ بیٹا خود اسے انجام نہ دے سکتا ہو۔ دوسرے یہ کہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ عورت پر شوہر کی اطاعت فرض ہے۔ اس لیے اگر شوہر اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت کا پابند بنائے تو اس صورت میں عورت کے لیے اس کی اطاعت ضروری ہے۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ردالمحتار میں ہے: وحقہ علیہا ان تطیعہ فی کل مباح یأمرہا بہ (الدرّ المختار) ظاہرہ انہ عند الأمر بہ منہ یکون واجباً علیہا کأمر السلطان الرعیۃ بہ۔ (22)
شوہر کا حق عورت پر یہ ہے کہ وہ ہر جائز کام میں اطاعت کرے جس کا شوہر اسے حکم دیتا ہے (در مختار) اس عبارت سے بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کوئی حکم دیے تو عورت پر اس کی اطاعت واجب ہے، جیسا کہ بادشاہ کی اطاعت رعایا پر واجب ہوتی ہے جب وہ کوئی حکم دے۔
حواشی و مراجع :
(1) صحیح بخاری:493 (2) دیکھیے: صحیح بخاری مع فتح الباری، 2614/2، کتاب المناقب، باب علامۃ النبوۃ (3) صحیح بخاری : 1164 (4) معارف القرآن، 614/8 (5) رواہ ابویعلی والبزار والطبرانی وحسنہ المنذری بعض اسانیدہ، وقال الالبانی صحیح لغیرہ۔ الترغیب والترہیب للمنذری، 714/2 مکتبہ المعارف (6) مشکوٰۃ المصابیح، ص:255، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ (7) تفسیر ابن کثیر، 587/1، اسماعیل بن کثیر الدمشقی، دار عالم الکتب الریاض، ۱۹۹۷ء (8) صحیح بخاری:1135، صحیح مسلم: 1360 (9) المنہاج فی شرح صحیح مسلم بن حجاج ابوزکریا یحییٰ بن شرف النووی، بیت الافکار الدولیۃ (10) الجامع للترمذی مع التحفۃ ، 1188/1 (11) الہدایۃ، 441/2، علی بن ابی بکر المرغینانی، مکتبہ اشرفیہ دیوبند (12) المغنی355/11، ابومحمد عبداللہ بن احمد بن محمد بن قدامہ، دار عالم الکتب الریاض، 1986ء (13) الجامع للترمذی مع التحفہ : 1182، وقال الترمذی حسن غریب و صححہ الالبانی (14) صحیح مسلم مع المنہاج، :870 کتاب النکاح (15) ردالمحتار ، 321/5، محمد أمین الشہیر بابن عابدین، مکتبہ زکریا دیوبند (16) دیکھیے الہدایۃ، 441/2 (17) زاد المعاد، 187/5 ابوعبداللہ محمد بن ابی بکر الشہیر بابن القیم الجوزیۃ ، موسسۃ الرسالۃ بیروت (18) فتح الباری، 3845/3، بیت الافکار الدولیۃ (19) فتح القدیر، 201/4 (20) دیکھیے زادالمعاد187/5 (21) دیکھیے فتاویٰ ابن تیمیہ، 234/2 (22) ردالمحتار388/4

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے