(9)

مصارف زکاۃ

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو ۔

اسلامی تعلیمات وہدایات کی وسعت و ہمہ گیری کو سمیٹا جائے تو محض دو لفظوں سے عبارت ہے، اللہ کی بندگی اور بندگانِ خدا کی مدد، نماز رب کی بندگی کی ایک اہم علامت اور خالق ومالک سے تعلق و قربت کا سامان ہے تو زکات انسانوں سے تعلق،اعانت اور ان کے دکھ درد میں شرکت کا روشن عنوان ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں اکثر جگہوں پر نماز اور زکات کا تذکرہ ایک ساتھ کیا گیا ہے۔
زکات اسلام کا ایک اہم رکن،عبادت اور دینی فریضہ ہے، زکات نام ہے اس حق کا جو صاحب ثروت کی دولت میں نادار و محتاج کا ہے، صاحب حق ہی کو یہ حق ملنا چاہئے ، حقدار کو محروم کرنا اور غلط جگہوں پر خرچ کرنا بڑا ظلم ہے اس سے معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوگا اس لئے قرآن حکیم نے بڑی وضاحت کے ساتھ مصارف زکات کا تذکرہ کیا ہے تاکہ بیجا استعمال پر بند لگایا جاسکے اور غیرمستحقین کی حریصانہ نگاہیں اس مال کی طرف نہ اٹھیں چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
منہم من یلمزک فی الصدقات فان اعطوا منہا رضوا وان لم یعطوا منہا اذاہم یسخطون ولو انہم رضوا ما اٰتاہم اللہ و رسولہ وقالوا حسبنا اللہ سیوتینا اللہ من فضلہ ورسولہ انا الی اللہ راغبون۔ انما الصدقات للفقراؤالمساکین والعاملین علیہا والمؤلفۃ قلوبہم وفی الرقاب والغارمین وفی سبیل اللہ وابن السبیل فریضۃ من اللہ واللہ علیم حکیم (1)
منافقین میں کچھ ایسے ہیں جو تقسیم صدقات کے بارے میں تم پر الزام لگاتے ہیں، اگر اس میں سے انہیں بھی مل جائے تو خوش رہتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض ہوجاتے ہیں، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول نے جو انھیں دیا ہے اس پر اگر وہ راضی رہتے تو اور کہتے کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے، اللہ اپنے فضل سے ہمیں نوازے گا،اور اس کا رسول بھی عطا کرے گا، اور ہمیں تو بس اللہ کی طرف رغبت اوراسی کی طلب ہے(تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا) خیرات تو بس فقیروں، مسکینوں،زکات کے لئے کام کرنے والوں کے لئے ہے اور ان لوگوں کے لئے ہے جن کی دلجوئی مقصود ہو، نیز گردنوں کو چھڑانے اور قرض داروں کے قرض کی ادائیگی،اللہ کے راستے میں(جہاد کرنے والوں) اور مسافر کے لئے ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ بڑا علم و حکمت والاہے۔
قرآن میں زکات کی ادائیگی کا حکم محض اجمالی طور پر دیا گیا ہے اور اس سے متعلق تفصیلات سے قطع نظر کیا گیاہے لیکن مصرف زکات کی پوری تفصیل دی گئی ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ ہر مذہب اور معاشرہ میں صدقہ وخیرات کا تصور پایا جاتاہے، داد و دہش کا رجحان ہر سماج میں ملتاہے،ہر حکومت، فلاح وبہبود کے نام پر اور غربت و افلاس دور کرنے کے لئے صاحب استطاعت شہریوں سے کچھ وصول کرتی ہے لیکن یہ بھی ہوتا آیاہے کہ غریبوں اور حاجت مندوں کے نام پر جمع ہونے والی دولت کا بڑا کم حصہ حقداروں تک پہونچ پاتاہے، اس دولت سے حکومت کے اہل کار اور قریبی لوگ ہی زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں،سلاطین و حکمراں اپنی عیش کوشی اور عشرت سامانی پر خرچ کرتے ہیں اور غیر مستحقین اس مال کے لئے کوشاں رہتے ہیں، اس بے راہ روی پر روک لگانے کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مصارف زکات اور مدات خرچ کو متعین کردیا، اور حدیث میں ناحق وصول کرنے والوں کے لئے ایسی وعیدیں بیان کی گئیں اور زکات کے لئے ایسی تعبیر اختیار کی گئی کہ اسے لیتے ہوئے کراہیت اور ہتک شان محسوس ہو،تاکہ اس طرح سے حقداروں کا حق محفوظ رہے۔
آئندہ صفحات میں مصارف زکات سے متعلق قرآن وحدیث اور فقہ کی روشنی میں کچھ تفصیلات اور وضاحتیں ذکر کی جائیں گی۔

فقیر اور مسکین:

مصارف زکات میں سب سے پہلے فقراء اور مساکین کا تذکرہ کیا گیا ہے،جو اس بات کے لئے دلیل ہے کہ قرآن کی نگاہ میں سب سے اہم مصرف یہی ہے،یہی لوگ اولین حقدار ہیں،نوع انسانی کی محتاجی،مسکینی اور غربت کو دور کرنا،ان کو مفلسی اور بدحالی کے دلدل سے نکالنا اور حاجت مندوں کی ضروریات کی تکمیل،اور گداگری کے دروازے کو بند کرنا ہی زکات کا بنیادی مقصد ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض احادیث میں زکات کا مصرف صرف فقراء کو بیان کیا گیا ہے۔
فقیر و مسکین ہم معنیٰ ہے یا ان میں باہم کوئی فرق ہے؟ اس سلسلہ میں امام ابویوسف اور ابن قاسم مالکی کا خیال ہے کہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے(2) اس کے برعکس جمہور فقہاء فرق کے قائل ہیں،لیکن فرق کی حدبندی میں ان کے درمیان اختلاف ہے،حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ مال و جائداد ہو لیکن اس سے اس کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو، اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو،گویا کہ مسکین فقیر سے زیادہ بدحال اور ضرورت مند ہے اس کے برخلاف حنابلہ اور شافعیہ کے نزدیک فقیر مسکین سے زیادہ بدحال اور حاجت مند ہے(3)یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ فقیر کا تذکرہ پہلے کرنا بظاہر دلیل ہے کہ فقیر مسکین سے زیادہ حاجت مند اور حقدار ہے، نیز قرآن کی دیگر آیات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بے سروسامانی کی حالت میں مصر سے مدین پہونچنے کے بعد کہا تھا:
رَبِّ اِنِّیْ لِمَا اَنْزَلْت اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٍ۔
پروردگار! جو نعمت بھی آپ مجھے بھیج دیں میں اس کا ضرورت مند ہوں(4)
دوسری جگہ کہا گیاہے
اَمَّاالسَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِیْنَ یَعْلَمُوْنَ فِیْ الْبَحْرِ۔
کشتی چند مسکینوں کی ملکیت تھی جو سمندر میں کام کیا کرتے تھے۔(5)
معلوم ہوا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھوک مٹانے کے لئے کچھ نہ تھا تو انھوں نے اپنے آپ کو فقیر کہا، اور دوسری آیت میں مساکین کشتی کے مالک تھے اور اس سے روزگار حاصل کرتے تھے لیکن اس سے اتنی آمدنی نہیں ہوتی تھی جس سے ان کی ضرورت پوری ہوجائے، اس لئے ان کو مسکین کہا گیا،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فقیر وہ کہلائے گا جس کے پاس زندگی گزارنے کے لئے کچھ نہ ہو، اور مسکین وہ ہے جو کسی قدر مال کا مالک ہو لیکن اس سے اس کی ضرورت کی تکمیل نہ ہوتی ہو۔ چونکہ اس اختلاف کی وجہ سے مسائل زکات پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتاہے، اس لئے اس سے متعلق دیگر تفصیلات کو نظرانداز کرتے ہوئے اس مصرف سے متعلق ایک اہم اور بنیادی مسئلہ کی طرف توجہ دلانا ہے اور وہ ہے فقر و مسکنت کا معیار، فقہاء حنفیہ کے نزدیک جس شخص کے پاس نصابِ زکات سے کم مال ہو یا نصاب کے بقدر اموال زکات کے علاوہ دیگر مال کا مالک ہو لیکن وہ اس کی ضروریات زندگی سے فاضل نہ ہو وہ فقیر و مسکین سمجھا جائے گا اور اس کے لئے زکات درست ہے، اس معیار کے مطابق یہ لوگ زکات کے حقدار ہوں گے:
(الف) جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو
(ب) جو شخص زمین و جائداد،گھر بار،سازوسامان،یہاں تک کہ غلام اور سواری کا مالک ہے،لیکن ان چیزوں کی اسے ضرورت ہے، ضروریات زندگی سے زائد اور فاضل نہیں ہے،چنانچہ فتاویٰ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر کسی کے پاس دوکان اور مکانات ہوں جسے اس نے کرایہ پر اٹھا رکھاہے لیکن اس کا کرایہ اس کی اور اس کے اہل وعیال کی ضروریات کے لئے کافی نہیں ہے تو وہ فقیر ہے، اسے زکات لینی جائز ہے، ایسے ہی امام محمد سے دریافت کیا گیا کہ اگر کسی کے پاس کھیتی،کرایہ کی دوکان اور مکانات ہوں جن سے تین ہزار کی آمدنی ہو لیکن پورے سال کی ضروریات کے کافی نہ ہوتا ہو تو کیا اس کے لئے زکات درست ہے، تو انھوں نے فرمایا کہ ہاں! گرچہ اس کی قیمت ہزاروں کو پہونچ جائے، اور حضرت حسن بصری سے منقول ہے کہ صحابہ ایسے لوگوں کو بھی زکات کی رقم دیا کرتے تھے جو دس ہزار درہم کی مالیت کے بقدر گھوڑا، ہتھیار، نوکر چاکر اور گھر کے مالک ہوا کرتے تھے(6)
(ج) جو دو سو درہم سے کم چاندی،بیس مثقال سے کم سونا اور مطلوبہ تعداد سے کم مویشی اور سامانِ تجارت کا مالک ہو۔
امام مالک،شافعی اور احمد بن حنبل کے نزدیک فقر و مسکنت کا معیار حاجت اور ضرورت ہے،لہٰذا اگر کسی کی ضروریات زندگی مہیا نہ ہوں وہ فقیر ہے،خواہ وہ کتنے ہی نصاب زکات کا مالک کیوں نہ ہو، مثلاً کسی کے پاس مطلوبہ معیار کے مطابق سامان تجارت ہے لیکن کساد بازاری یا کثرت اولاد کی وجہ سے اس دوکان کی آمدنی سے اس کی ضروریات کی تکمیل نہ ہوتی ہو وہ فقیر ہی سمجھا جائے گا اور اس کے لئے زکات درست ہے،اور اگر اس کی ضروریات کی تکمیل ہوجاتی ہے تو وہ مالدار ہے گرچہ اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو،اس معیار کے مطابق درج ذیل قسم کے لوگ زکات کے حقدار ہوں گے۔
(الف) جس کے پاس کچھ مال نہ ہو،اور نہ ہی کوئی حلال اور مناسب کام ملتا ہو۔
(ب) کچھ مال اس کے پاس موجود ہے،یا کسی حلال مناسب کام پر لگا ہوا ہے لیکن وہ اس کی اور اس کے اہل وعیال کی ضروریات کے لئے کافی نہ ہو، مثلاً اسے ضرورت ہو روزانہ دس روپئے کی لیکن وہ پانچ روپئے سے کم ہی حاصل کرپاتا ہو،یہ دونوں قسمیں فقیر کے ذیل میں آتی ہیں۔
(ج) اتنا مال ہو جس سے اس کی اور اس کے اہل وعیال کی حاجت کی کفایت ہوسکتی ہے لیکن اس کی تکمیل نہیں ہوسکتی ہے یعنی اس سے اس کی مکمل ضرورت پوری نہ ہوتی ہو، جیسے دس روپئے کی جگہ پانچ یا آٹھ روپئے حاصل کرپاتا ہو۔
واضح رہے کہ گھر بار، زمین جائداد،لباس و پوشاک عورتوں کے زیورات اور علمی کتابوں کا ہونا فقر و مسکنت کے لئے مانع نہیں ہے بلکہ ان چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ فقیر و مسکین سمجھا جائے گا اگر اسے ان کی ضرورت ہو اور ان کے ذریعہ اس کی ضروریات زندگی پوری نہ ہوتی ہوں۔(7)
حاصل یہ ہے کہ حنفیہ اموال زکات اور غیر اموال زکات میں فرق کے قائل ہیں کہ اگر اموال زکات کسی کے پاس سال بھر تک موجود ہوں تو گو وہ ضرورت مند اور محتاج ہو وہ غنی سمجھا جائے گا اور اسے زکات لینی درست نہیں ہوگی، اور اگر اموال زکات کے علاوہ دیگر مال ودولت کا مالک ہے لیکن وہ اس کی ضرورت سے زائد اور فاضل نہیں ہے تو وہ فقیر ہے خواہ اس کی مالیت کتنی ہی کیوں نہ ہو، اس کے برخلاف دیگر ائمہ اس فرق کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ بہرصورت فقر و حاجت کو معیار مانتے ہیں کہ مال زکات کا نصاب کے بقدر مالک ہونے کے باوجود اگر وہ ضرورت مند ہے تو وہ فقیر ہے، ان کے دلائل یہ ہیں
1۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیصہ بن مخارق نامی صحابی کو مخاطب کرکے کہا
لا تحل المسألۃ الا لاحد ثلاثۃ رجل اصابتہ فاقۃ فحلت لہ المسئلۃ حتی یصیب قواما من عیش اوسداد من عیش۔ رواہ المسلم
مانگنا صرف تین شخصوں کے لئے حلال ہے، ایک وہ آدمی جو فاقہ میں ہو تو اس کے لئے مانگنا حلال ہوجاتاہے یہانتک کہ وہ گذارے کے بقدر حاصل کرلے۔
اس حدیث میں اس وقت تک سوال کو جائز قرار دیا گیاہے جب تک کہ گذارے کے بقدر مال اس کے پاس موجود نہ ہو، اور اگر گذارے کے بقدر مال حاصل کرلیتا ہے تو اس کے لئے سوال جائز نہیں ہے،جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتاہے۔
2۔ فقر و مسکنت، حاجت وضرورت ہی کا دوسرا نام ہے چنانچہ قرآن میں کہا گیا ہے:
یَاَیُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلَی اللّٰہِ۔
لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو (8)
لہٰذا جو بھی ضرورت مند ہو وہ فقیر اور مسکین کے دائرہ میں آئے گا خواہ اس کے پاس اموال زکات ہوں یا اموال غیر زکات۔ اور اگر محتاج نہ ہو تو وہ اس دائرے سے خارج ہے چاہے وہ کسی بھی طرح کے مال کا مالک ہو کیونکہ دفع حاجت کے لیے مال زکات اور غیر مال زکات میں کوئی فرق نہیں ہے۔(9)
حنفیہ کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں انسانوں کو دو گروپ میں تقسیم کیا گیا ہے مالدار اور فقیر، چنانچہ حضرت معاذ کو زکات کے متعلق بتاتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ
اعلمہم ان علیہم صدقۃ توخذ من اغنیاءہم فترد فی فقراءہم (10)
انھیں بتاؤ کہ ان کے اوپر زکات فرض ہے، جو ان کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے فقیروں کو دیا جائے گا۔
مالدار پر زکات کو فرض کیا گیا ہے اور اس کے لئے ایک نصاب متعین ہے لہٰذا جس کے پاس اس نصاب کے بقدر مال ہو وہ مالدار ہے اور اس پر زکات فرض ہے اور جس کے پاس مطلوبہ مقدار کے مطابق مال زکات نہ ہو وہ مالدار نہیں ہے لہٰذا وہ فقیروں کے زمرے میں آجائے گا اور اس کے لئے زکات درست ہے۔(11)
اس سے متعلق بعض باتیں شرائط استحقاق زکات کے ذیل میں آئیں گی۔

عاملین زکات:

زکات وصدقات کی وصولی اور تقسیم، امیرالمؤمنین کے فرائض میں سے ہے اور ظاہر ہے کہ کوئی حکمراں بذات خود یہ تمام کام انجام نہیں دے سکتا ہے بلکہ اسے دوسروں سے مدد لینے کی ضرورت ہوگی، انھیں مددگاروں کو عاملین زکات کہا جاتا ہے(12)
نظام زکات میں ان کی حیثیت ایک ناگزیر عامل کی ہوتی ہے اس لئے اس کا تذکرہ دوسرے ہی نمبر پر کیا گیا ہے، چونکہ زکات کی جمع و تقسیم میں یہ اپنا وقت لگاتے ہیں اس لئے مال زکات ہی سے ان کی کفالت کی جاتی ہے،اور مالدار ہونے کے باوجود اس رقم سے ان کے لئے لینا درست ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو جمع و تقسیم کے نظام کو باقی رکھنا دشوار ہوجائے گا۔
عاملین زکات کے مفہوم میں وہ تمام لوگ آتے ہیں جو وصول زکات کے ادارے سے متعلق ہیں، زکات کے اہتمام اور انتظام سے متعلق چھوٹے بڑے تمام کارکنوں کو اس مد سے تنخواہ دی جائے گی،چنانچہ علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
زکات کی اس مد سے محاسب،منشی،مالداروں کو اکٹھا کرنے والے،خزانچی، نگراں،چرواہے اور اس جیسے دیگر لوگوں کو دیا جائے گا،یہ تمام عاملین زکات میں شمار ہوں گے۔(13)
یہی بات امام نووی اور قرطبی نے بھی لکھی ہے۔ (14)
یہ عاملین زکات ایسے ہوں کہ انھیں نظام زکات سے متعلق مطلوبہ معلومات حاصل ہوں، چونکہ یہ خالص اسلامی ادارہ ہے اس لئے اس سے متعلق عملہ کا مسلمان ہونا ضروری ہے،جمہور فقہاء کی یہی رائے ہے، البتہ امام احمدبن حنبل سے ایک قول یہ منقول ہے کہ کافر کو بھی عامل زکات بنایا جاسکتاہے کیونکہ قرآن میں اس کے لئے عام لفظ استعمال کیا گیا ہے جس میں مسلمان اور کافر دونوں شامل ہیں، اور اس لئے بھی کہ عامل ایک طرح سے مزدور ہوا کرتاہے اور اس کو اس کام کی اجرت دی جاتی ہے، لہٰذا جس طرح سے دیگر معاملات میں کافر مزدور کو رکھا جاسکتاہے اسی طرح یہاں بھی اس کام کے لئے کسی کافر کو متعین کرسکتے ہیں۔ ان کی دلیل میں جو کمزوری ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے، کیونکہ قرآن میں تمام مصارف کے لئے عام لفظ استعمال کیا گیا ہے،تو اس کو دلیل بناکر کہا جاسکتا ہے کہ کافر فقیر و مسکین ،مسافر،مقروض وغیرہ کو بھی زکات کی رقم دی جاسکتی ہے؟ نیز عامل کو دی جانے والی رقم اجرت نہیں ہے بلکہ بطور کفالت ہے، اس لئے اسے مزدور پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ امام احمد کی دوسری روایت جمہور کے موافق ہے اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں کہ عامل کو مسلمانوں پر ولایت حاصل ہوتی ہے اور کوئی کافر مسلمان کا والی نہیں ہوسکتاہے، نیز عامل کے لئے امانت دار ہونا شرط ہے اور کفر امانت داری کے منافی ہے،چنانچہ حضرت عمر کا فرمان ہے کہ
لا تاتمنوہم وقد خونہم اللہ۔
انھیں امانت دار مت سمجھو کیونکہ اللہ نے انھیں خیانت دار کہا ہے۔
ایسے ہی حضرت موسیٰ اشعری نے جب ایک نصرانی کو اپنا سکریٹری بنایا تو حضرت عمر نے ان پر نکیر فرمائی تو زکات کا معاملہ اس سے زیادہ اہم ہے کہ وہ اسلام کا ایک اہم رکن ہے لہٰذا یہاں بدرجہ اولیٰ کسی کافر کو عامل وغیرہ بنانا درست نہیں۔
عامل کے لئے عاقل و بالغ اور دیانت دار ہونا بھی شرط ہے(15) ایسے ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا تعلق آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ہو، حنفیہ اور شافعیہ کا یہی مذہب ہے، بعض حنبلی علماء بھی اسی کے قائل ہیں، اور علامہ ابن قدامہ نے اسی کو ترجیح دیا ہے،اس کے برخلاف بعض شافعی اور حنبلی فقہاء کی رائے ہے کہ آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطور عامل زکات میں سے لینا جائز ہے (16) ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ عمل کی اجرت ہے،لہٰذا جس طرح سے مالدار عامل کے لئے اس مد سے لینا درست ہے ایسے ہی آل نبی ﷺ کے لئے بھی بحیثیت عامل اس مد سے اجرت لینا جائز ہے، حنفیہ وغیرہ کی دلیل وہ حدیث ہے جسے امام مسلم وغیرہ نے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ فضل بن عباس اور مطلب بن ربیع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تاکہ انھیں وصولی صدقہ کے لئے متعین کردیں، انھوں نے عرض کیا:
یا رسول اللہ ! جئناک لتؤمرنا علی ہذہ الصدقات فنصیب ما یصیب الناس من المنفعۃ ونودی الیک ما یودی الناس فقال ان الصدقۃ لا تنبغی لمحمد ولا لآل محمد انما ہی اوساخ الناس، مختصرا لاحمد ومسلم وفی لفظ لہما لا یحل لمحمد ولا لآل محمد (17)
یا رسول اللہ! ہم آپ کے پاس یہ مقصد لے کر آئے ہیں کہ آپ ہمیں وصولی صدقات کے لئے مامور کردیں تاکہ دوسرے لوگ جو اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں وہ ہم بھی حاصل کریں اور جو وہ لاکر دیتے ہیں ہم بھی لاکر دیں گے، یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محمد اور آل محمد کے لئے صدقہ مناسب نہیں ہے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ محمد اور آل محمد کے لئے صدقہ حلال نہیں، یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے ۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو عامل زکات بناکر کسی جگہ بھیجا تو انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ تم بھی کچھ حاصل کرلو، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر میں نہیں جاسکتا ہوں، لہٰذا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان الصدقۃ لا یحل لنا وان موالی القوم من انفسہم۔
ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ہے اور کسی قوم کے غلام انھیں میں شمار ہوتے ہیں (18)
یہ احادیث اپنے موضوع سے متعلق صریح بھی ہیں اور صحیح بھی لہٰذا قیاس کے مقابلہ میں لائق ترجیح ہیں.
آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور عامل دوسرے مد سے اجرت دی جائے تو یہ بالاتفاق جائز اور درست ہے (19)
مال زکات عامل کے قبضہ سے ہلاک ہوجائے تو وہ اس کی اجرت سے محروم رہے گا، البتہ زکات ادا کرنے والے بری الذمہ ہوجائیں گے، کیونکہ عامل کی حیثیت فقراء وغیرہ کی طرف سے نائب اور وکیل کی ہوتی ہے، اس لئے عامل کے قبضہ کرتے ہی زکات دینے والوں کی زکات ادا ہوجاتی ہے(20)
اگر کوئی شخص خود ہی اپنے مال کی زکات بیت المال کے حوالے کر جائے تو وہ اجرت کا حقدار نہ ہوگا۔(21)

مدارس کے سفراء اور محصلین:

زکات کی وصولی اور تقسیم کا اصل اختیار اسلامی حکومت ہی کو ہے، امیرالمومنین کی طرف سے وصولی زکات کے کام کے لئے مقرر شخص ہی اصلاً عامل کہا جائے گا، لیکن کہیں مسلمانوں کی حکومت اور سلطنت قائم نہ ہو تو وہاں زکات کی وصولی اور تقسیم کا نظم کیا ہوگا؟ کیا کسی غیر سرکاری ادارے کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے طور پر زکات کی جمع و تقسیم کا انتظام وانصرام کرے، نیز کیا اس ادارے کی طرف سے متعین کردے وہ کارکن’’عامل‘‘ کے حکم میں ہوں گے؟
اس سوال کے جواب سے پہلے ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ زکات کی وصولی اور تقسیم کے لئے حکومت و سلطنت کی شرط لازمی ہے یا انتظامی، کہ کوئی دوسرا بھی اس کے قائم مقام ہوسکتاہے؟ ظاہر ہے کہ یہ شرط انتظامی ہے، لازمی اور ضروری نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جمعہ اور عیدین کے لئے عام طور پر کتابوں میں سلطان یا اس کے نائب کی قید لگائی گئی ہے لیکن بھارت جیسی جگہوں میں ان شرطوں کی ضرورت نہیں سمجھی گئی ہے، اور باہمی مشورہ اور اہل مسجد کی طرف سے متعین کردہ امام کو سلطان کے قائم مقام سمجھا گیا ہے، ایسے ہی قاضی کی تقرری بھی سلطان کے اختیار میں ہے لیکن جہاں مسلمانوں کی حکومت نہ ہو وہاں مسلمان باہمی رضامندی سے جسے قاضی بنالیں وہ قاضی ہوسکتاہے۔ غرضیکہ اگر کسی وجہ سے کسی حکم کو اس کے مطلوبہ معیار کے مطابق روبہ عمل نہیں لایا جاسکتا ہے تو اسے بالکل ترک کی اجازت نہیں ہوتی ہے بلکہ جس شکل میں بھی ہوسکے بوقت ضرورت اس پر عمل کیا جاتا ہے، فقہ اسلامی میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں،لہٰذا جن جگہوں پر اسلامی نظام کے مطابق حکومت قائم نہیں ہے وہاں کے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے طور پر زکات کی وصولی اور تقسیم کے لئے کوئی ادارہ قائم کریں تاکہ ایک حد تک اجتماعی شان باقی رہے، بہتر تو یہ ہے کہ اس کام کے لئے اجتماعیت کو باقی رکھنے کے مقصد سے صرف ایک ہی ادارہ قائم کیا جائے، البتہ اگر یہ صورت ممکن نہ ہو توپھر ایک سے زائد ادارے قائم کئے جاسکتے ہیں جو اپنے اپنے دائرۂ اعتماد میں رہ کر اس فریضہ کو انجام دیں۔ لیکن وصولی زکات اور چندہ کے موجودہ نظام کی کسی بھی حیثیت سے تائید نہیں کی جاسکتی ہے کہ اس نے تو اس اجتماعی نظام کا تصور ہی مٹا کر رکھ دیاہے، اوراس کی وجہ سے علماء اور اہل مدارس کی جو بے وقعتی اور آپسی نزاع کی جو کیفیت ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔
حاصل یہ ہے کہ جن جگہوں پر اسلامی نظام حکومت نہ ہوں وہاں پبلک ادارے اپنے طور پر وصولی زکات کا نظم کرسکتے ہیں، بلکہ کرنا چاہئے، اور ممکن حد تک اس نظام میں اجتماعی شان مطلوب اور مقصود ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں گروہ بندی اور انتشار سے بچ کر ایک اجتماعی ادارہ قائم کرنا چاہئے، چنانچہ مفتی کفایت اللہ لکھتے ہیں:
زکات و عشر وغیرہ فرائض مالیہ کا وجوب جن حکم شرعیہ اور مصالح بشریہ پر مبنی ہے ان کا تقاضا ہے کہ ادائے زکات و عشر اور مستحقین پر ان کی تقسیم میں تنظیم کا کامل لحاظ رکھا جائے اور ظاہر ہے کہ انفرادی تصرفات میں تنظیم مفقود ہوتی ہے، اس غلامی کے دور میں جو تفریق اور تشتت کا دور ہے امکانی صورت یہی نظر آتی ہے کہ اہل حل وعقد کی کوئی جماعت اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے ۔(22)
اور اس ادارہ کی طرف سے متعین کردہ کارکن ایک طرح سے عامل کے حکم میں ہوں گے اور انھیں اس مد سے تنخواہ دینا درست ہے کیونکہ عاملین زکات دہندہ کے وکیل تو ہوتے ہی ہیں، ساتھ ہی وہ فقراء کے بھی وکیل ہوتے ہیں، چنانچہ ایک زمانہ میں علماء ہند کے درمیان یہ مسئلہ زیربحث رہا کہ مدارس کے مہتمم زکات دہندہ کے وکیل ہیں یا طلبہ کے یا دونوں کے؟ زکات دہندہ کے وکیل ہونے پر سب متفق تھے،لیکن طلبہ کے وکیل ہیں یا نہیں؟ اس سلسلہ میں اختلاف رائے رہا، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کا خیال تھا کہ مہتمم مدرسہ کا،قیم و نائب جملہ طلباء کا ہوتا ہے، جیسا امیر،جملہ عالم کا ہوتا ہے، پس جو شئ کسی نے مہتمم کو دی، مہتمم کا قبضہ خود طلبہ کا قبضہ ہے، اس کے قبضہ سے ملک معطی سے نکلا اور ملک طلبہ ہوگیا، اگرچہ وہ مجہول الکمیت و الذوات ہوں مگر نائب معین ہے، اور مہتمم بعض وجوہ میں وکیل معطی کا بھی ہوسکتا ہے ۔(23)
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری بھی اسی کے قائل تھے اور حضرت تھانوی سے ان کی طویل مراسلت ہوئی ہے، جس کے بعد وہ بھی اسی رائے پر مطمئن ہوگئے (24) گویا کہ عام طور پر علماء نے مہتمم مدرسہ کو طلبہ کا وکیل تسلیم کرلیا ہے اور یہ بات بھی کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ عامل کو مد زکات سے تنخواہ اس لئے دی جاتی ہے کہ وہ فقراء کے کام کے لئے اپنا وقت لگاتا ہے، لہٰذا جب مہتمم مدرسہ طلبہ کے وکیل ہوگئے تو ان کی طرف سے اس کام کے لئے مامور شخص کو مد زکات سے تنخواہ دینی جائز ہے، اور ان سفراء و محصلین کو زکات دے دینے سے زکات دہندہ کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی، چنانچہ مفتی کفایت اللہ لکھتے ہیں:
زکات کی رقم وصول کرکے لانے والوں کو اس رقم میں سے اجرت عمل دینے کی گنجائش ہے خواہ وہ غنی ہوں مگر کسی حال میں ان کی وصول کی ہوئی رقم کے نصف سے زیادہ نہیں دی جائے گی۔ (25)

مولفۃ القلوب:

زکات کا چوتھا مصرف ’’مولفۃ القلوب‘‘ ہے، یعنی وہ لوگ جن کی دلجوئی کی جائے جنھیں اسلام سے مانوس کرنا اور اسلام پر ثابت قدم رکھنا مقصود ہو، اس کے دائرے میں درج ذیل قسم کے لوگ شامل سمجھے جاتے ہیں۔
1۔ غیرمسلم روسا اور لیڈر جن کے متعلق امید ہوکہ وہ اس طرح کے تعاون سے اسلام کی طرف مائل ہوں گے۔
2۔ وہ با اثر اور طاقت ور غیرمسلم جس کے اسلام کی امید نہ ہو لیکن اگر کچھ مالی تعاون کردیا جائے تو اسلام اور مسلمان اس کے شر سے محفوظ رہیں گے۔
3۔ وہ نو مسلم جس کا ایمان کمزور ہو، اس مد سے اعانت کے ذریعہ اسے اسلام پر ثابت قدم رکھا جائے۔
4۔ وہ مسلمان جو بذات خود راسخ الاعتقاد ہیں لیکن ان کی اعانت سے ان جیسے دوسرے کافر سرداروں کے ایمان لانے کی امید ہو۔
5۔ وہ مسلمان رؤسا جو اپنے علاقے میں زکات کی وصولی میں عاملین کی مدد اور سرحدی علاقوں میں دشمن کے خطرات سے محفوظ رکھنے میں حکومت کے ساتھ تعاون کریں ۔(26)
عام طور پر فقہاء اور محدثین نے ان تمام قسموں کو ’’مولفۃ القلوب‘‘ کے دائرہ میں شامل مانا ہے، لہٰذا کافر اور غیرمسلم کو بھی مذکورہ مقاصد کے حصول کے لئے زکات کی رقم دی جاسکتی ہے، ان کے پیش نظر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل ہے۔
1۔ امام مسلم اور ترمذی وغیرہ نے صفوان بن امیہ کے حوالے سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ
واللہ لقد اعطانی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وانہ لابغض الناس الی فمازال یعطینی حتی انہ لاحب الناس الی۔
اللہ کی قسم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر نوازش کرتے رہے حالانکہ وہ میرے نزدیک سب سے ناپسندیدہ تھے لیکن اس لگاتار نوازش کی وجہ سے وہ میرے لئے سب سے زیادہ محبوب بن گئے ۔(27)
حالانکہ صفوان ابھی ایمان نہیں لائے تھے، ان عطایا کے ملنے کے بعد اسلام قبول کیا اور راسخ مسلمان ہوئے۔
2۔ عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یسال شئیا علی الاسلام الا اعطاہ قال فاتاہ رجل فسالہ فامرلہ بشیاہ کثیرۃ بین جبلین من شاۃ الصدقۃ قال فرجع الی قومہ فقال یا قوم اسلموا فان محمدا یعطی عطاء من لا یخشی الفاقہ، رواہ احمد باسناد صحیح(28)
حضرت انس سے روایت ہے کہ اسلام کے نام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو مانگا جاتا عطا کردیتے، حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقات کی بکریاں جو دوپہاڑوں کے درمیان کثیر تعداد میں تھیں اسے دے دی جائیں وہ آدمی اپنی قوم کے پاس گیا اور کہا لوگو! مسلمان ہوجاؤ کیونکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم فقروفاقہ کے خوف سے بے نیاز ہوکر دادودہش کرتے ہیں،امام احمد نے اس کو صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے، بظاہر معلوم ہوتاہے کہ آنے والا غیرمسلم تھا۔
3۔ عن ابن عباس ان قوما کانوا یاتون النبی صلی اللہ علیہ وسلم فان اعطاہم من الصدقات مدحوا الاسلام وقالوا ہذا دین حسن وان منعہم ذموا عابوا۔
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے اور اگر انھیں صدقات کی رقم سے کچھ دے دیا جاتا تو اسلام کی اچھائی بیان کرتے اور کہتے کہ یہ بہتر دین ہے اور اگر نہ دیا جائے تو برائی اور عیب جوئی کرتے۔ (29)
4۔ کافرومشرک کو اسلام کی طرف مائل کرنے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے زکات دینا درحقیقت ایک طرح سے جہاد ہے، کیونکہ مشرک وکافر تین طرح کے ہوسکتے ہیں کچھ تو وہ ہیں جو دلیل کے ذریعہ مطمئن ہوکر اسلام میں داخل ہوتے ہیں، بعض ایسے ہیں جو قوت وطاقت کی زبان سمجھتے ہیں، اور چند ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے لئے سکوں کی جھنکار ہی میں کشش ہوتی ہے، وہ نوازش اور احسان کی وجہ سے اسلام قبول کرسکتے ہیں، لہٰذا مالی تعاون کے ذریعہ انھیں اسلام کی طرف مائل کرنا ایک طرح سے جہاد ہے ۔(30)
اس کے برخلاف امام شافعی کی رائے ہے کہ مولفۃ القلوب کے حکم میں کافر ومشرک شامل نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ
مولفۃ القلوب وہ لوگ ہیں جو اسلام میں داخل ہوچکے ہیں، اور کسی مشرک کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی غرض سے زکات نہیں دی جائے گی، اگر کوئی کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فتح حنین کے موقع پر بعض مشرکوں کو دیا تھا، ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ مال زکات سے نہیں دیا گیا تھا بلکہ انھیں مال فئ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخصوص مال سے دیا گیا تھا۔ (31)
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ زکات ایک مالی عبادت ہے جو مسلمان سے حاصل کیا جاتاہے اور مسلمانوں ہی میں خرچ کیا جائے گا، غیر مسلم اس کے حقدار نہیں ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
توخذ من اغنیاءہم فترد الی فقراء ہم۔
زکات مسلمان مالداروں سے لی جائے گی اور انھیں کے فقیروں میں اسے خرچ کیا جائے گا (32)
اور کسی روایت سے ثابت نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کافر کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے زکات کی رقم سے دیا ہو ۔(33) اور جن روایتوں سے بعض کافروں کو بطور تالیف قلب دینا ثابت ہے ان میں صراحت ہے کہ یہ رقم غنیمت سے دی گئی تھی اور زکات کی رقم سے دینا ثابت نہیں ہے، چنانچہ رافع بن خدیج سے مروی ہے کہ
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قسم غنائم حنین فاعطی ابا سفیان بن حرب مأۃ من الابل وصفوان بن امیۃ وعینیۃ بن الحصن الخ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حنین‘‘ کی غنیمت کو تقسیم کیا تو سفیان بن حرب، صفوان بن امیہ اور عینیہ بن حصن کو سو سو اونٹ دیا۔ (34)
ایسے ہی امام ترمذی نے صفوان بن امیہ کے حوالے سے لکھاہے کہ
اعطانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم حنین وانہ لابغض الخلق فما زال یعطینی حتی انہ لاحب الخلق الی (35)
بلکہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے مال غنیمت سے بھی جن لوگوں کو دیا گیا وہ غیرمسلم نہیں بلکہ نومسلم تھے چنانچہ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ…..اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فانی اعطی رجالا حدیثی عہد بکفر اتالفہم
میں دلجوئی کے مقصد سے بعض نومسلموں کو مال دیتا ہوں (36)
امام قرطبی نے ان لوگوں کے ناموں کو تفصیل سے لکھاہے جنھیں رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت سے دیا تھا،اس کے بعد وہ لکھتے ہیں، یہ تمام لوگ مومن تھے،ان میں کوئی کافر نہ تھا ۔(37)
اور جن صاحب کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات کی بکریاں دی تھیں ان کے مسلمان ہونے کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتاہے، نیز اس روایت میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ وہ بکریاں بطور صدقات نافلہ جمع تھیں یا واجبہ اور حضرت ابن عباس کی روایت میں خود وضاحت ہے کہ وہ لوگ مسلمان تھے لیکن ان کے دلوں میں اسلام راسخ نہیں تھا،چنانچہ ابن جریر طبری نے انپی سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ مولفُ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام لا چکے تھے، وہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آتے اور آپ انھیں صدقات میں سے دیا کرتے تھے (38)
حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو مال غنیمت سے دیا گیا تھا یہ وہ لوگ تھے جن کی معاشی حالت مسلسل جنگوں کی وجہ سے بکھر گئی تھی، فتح مکہ نے اس کی رہی سہی کسر پوری کردی، یہ وہ سردار تھے جو بڑی شان وشوکت اور مال ودولت کے مالک تھے لیکن اس وقت ان کی سرداری مٹی میں مل چکی تھی، اور گرچہ وہ اسلام قبول کرچکے تھے، اس کی صداقت پر ایمان لا چکے تھے،ان کا ایمان جبر و دباؤ کے زیرِ اثر نہیں تھا بلکہ انھوں نے اسلام کی فطری قوت وطاقت سے متاثر ہوکر اطاعت قبول کی تھی تاہم ان کے دل میں یہ خیال آسکتا تھا کہ اسلام ہی کی وجہ سے انھیں آج یہ دن دیکھنا پڑا ہے، اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اتنا کچھ دے دیا کہ ان کی معاشی حالت میں سدھار ہوسکے اور وہ ماضی کے واقعات کو فراموش کردیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں یہ صراحت مذکور ہے….. ورنہ تو مال ودولت کے کسی کے عقیدہ و ضمیر کا سودا کرنے، غریب عوام کی غربت کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر مالی امداد کے ذریعہ کسی دین ومذہب کی طرف مائل کرنے کی کوشش کو سراہا نہیں جاسکتاہے، اور نہ ہی اس سے کسی بہتر تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے، اور اشاعت اسلام کے لئے مالی امداد کی بیساکھی کی ضرورت نہ کبھی رہی ہے اور نہ رہے گی، اسلام کا دامن اس طرح کی آلودگی سے پاک و صاف ہے، اشاعت اسلام اور دین کی تبلیغ کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈوں کو استعمال کرنا’’اکراہ‘‘ میں داخل ہے، اور قبول اسلام کے سلسلہ میں کسی طرح کا جبر و اکراہ درست نہیں ہے۔
مولفُ القلوب کے ذیل میں داخل بقیہ تینوں قسموں کو… بشرطیکہ وہ مالدار ہوں… بھی زکات کے مد سے دینا کسی صحیح حدیث یا خلفائے راشدین کے عمل سے ثابت نہیں ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں عام طور پر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے۔
انہ صلی اللہ علیہ وسلم اعطی عدی بن حاتم والزبر ثانی بن بدر۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کے متعلق لکھاہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے … امام شافعی نے اسے حضرت ابوبکر کی طرف منسوب کیاہے کہ
ان عدی بن حاتم جاء ابی بکر الصدیق بثلاث مأۃ من الابل من صدقات قومہ فاعطاہ ابوبکرؓ ثلاثین بعیراً۔
لیکن یہ روایت بھی بے سند ہے۔(39)
اس کے برخلاف صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ زکات کی رقم مالداروں کو نہیں دی جائے گی، علاوہ چند قسم کے لوگوں کے ، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل کی حدیث گزر چکی ہے کہ زکات مالداروں سے وصول کی جائے گی اور فقیروں پر خرچ ہوگا، نیز ایک دوسری حدیث میں ہے کہ
لا تحلّ الصدقۃ لغنی الا فی سبیل اللہ او ابن السبیل او جار فقیر یتصدق علیہ فیہدی لک (40)
مالدار کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے، سوا اس شخص کے جو اللہ کے راستے میں ہو یا مسافر ہو یا کوئی کسی فقیر کا پڑوسی ہو اور اس فقیر کو صدقہ دیا جائے جسے وہ مالدار پڑوسی کو بطور تحفہ دے دے۔
اس حدیث میں مولفۃ القلوب کا تذکرہ نہیں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رقم سے کسی مالدار مولفۃ القلوب کو نہیں دیا جائے گا،لہٰذا صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولفۃ القلوب سے مراد وہ غریب اور محتاج نو مسلم ہیں جن کے متعلق اندیشہ ہو کہ اگر مالی تعاون نہ کیا جائے تو معاشی پریشانی کی وجہ سے ان کا ایمان پر باقی رہنا دشوار ہے، ان کی طرف خصوصی توجہ دلانے کے لئے علیٰحدہ سے ان کا تذکرہ کیا گیا ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ عام کے بعد خاص کا ذکر کیا جاتا ہے۔
اس تفصیل کے بعد اسے منسوخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے اور نہ یہ کہنے کی حاجت ہے کہ انھیں ایک مخصوص مقصد کے تحت دیا جاتا رہا اور غلبۂ اسلام کی وجہ سے وہ مقصد باقی نہیں رہا بلکہ یہ مصرف کبھی ختم نہیں ہوا، اب بھی باقی ہے اور تا قیامت باقی رہے گا اور اس قسم کے باقی رہنے پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔
واضح رہے کہ امام ابوحنیفہ،مالک اور احمد بن حنبل کے نزدیک’’مولفۃ القلوب‘‘ میں کافر بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ان کی دلجوئی اور انھیں اسلام کی طرف مائل کرنے یا ان کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے زکات کی رقم دی جاتی تھی، ان حضرات کے دلائل کا تذکرہ تفصیلی طور پر گذر چکا ہے، لیکن امام ابوحنیفہ اور امام مالک اس بات کے قائل ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عددی قوت حاصل کرنے کے مقصد سے کفار کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے زکات کی رقم دی جاتی تھی،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مسلمانوں کو غلبہ اور قوت حاصل ہوگئی تو اب اس طرح کی تدبیر کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
اس رائے کے مطابق نبی کریم ﷺ کے عہد میں کفار کو ایک خاص مقصد کے تحت زکات دی جاتی تھی اور اب وہ مقصد باقی نہیں رہا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی وہ حالات پیدا ہوجائیں تو پھر انھیں زکات کی رقم دی جاسکتی ہے۔
امام احمدبن حنبل کے نزدیک مولفۃ القلوب کے دائرے میں کافر بھی شامل ہیں، اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی انھیں زکات کی رقم اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے دی جائے گی (41) فقہ مالکی میں بھی اسی کو ترجیح حاصل ہے (42) اور علامہ ابن رشد نے امام ابوحنیفہ اور شافعی کی رائے کو اسی کے مطابق نقل کی ہے(43) جو حضرات اس حکم کو اب باقی نہیں سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم کے پاس ’’مولفۃ القلوب‘‘ میں سے عینیہ بن حصن اپنا حصہ لینے آئے تو انھوں نے فرمایا:
الحق من ربکم فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر ای لیس الیوم مولفۃ (44)
معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ایک مقصد کے تحت دیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ مقصد نہیں رہا اس لئے فاروق اعظم نے انھیں دینے سے انکار کردیا۔
بعض فقہاء کا خیال ہے کہ حضرت عمر کے اس عمل پر صحابہ نے سکوت اختیار کیا، لہٰذا یہ ایک اجماعی فیصلہ ہوا اور اس کے ذریعہ سے مولفۃ القلوب کا حکم منسوخ ہوگیا، لیکن یہ ایک غلط تاویل ہے اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتاہے،علامہ بابرتی حنفی وغیرہ نے اس خیال پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ولیس بصحیح من المذہب کیونکہ کتاب اللہ کی کوئی آیت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں منسوخ ہوسکتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اجماع وغیرہ کے ذریعہ اسے منسوخ نہیں کیا جاسکتاہے، بعض حضرات نے مذکورہ آیت فمن شاء فلیومن کے ذریعہ سے منسوخ مانا ہے لیکن یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ یہ آیت مکی ہے جبکہ آیت مصارف مدنی ہے،نیز ان دونوں آیتوں میں کوئی تعارض بھی نہیں کہ نسخ ماننے کی ضرورت پیش آئے اور نہ ہی حضرت عمر کے طرز عمل میں اس کی کوئی دلیل ہے کیونکہ عینیہ بن حصن حضرت عمر سے زکات لینے نہیں آئے تھے بلکہ زمین کی درخواست لے کر آئے تھے، کچھ لوگوں نے حضرت معاذ کی حدیث توخذ من اغنیاء ہم الخ کو ناسخ مانا ہے، لیکن یہ بھی غلط ہے کیونکہ ایسی صورت میں تو فقیر کے سوا تمام مصارف منسوخ کرنا لازم آئے گا، نیز آیت وحدیث میں کوئی تعارض بھی نہیں ہے کہ منسوخ ماننے کی ضرورت پیش آئے۔
جو حضرات اس حکم کو اب بھی باقی سمجھتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن میں مولفۃ القلوب کے حصے کو بیان فرمایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مطابق زندگی بھر مولفۃ القلوب کو دیتے رہے، اور نسخ کے لئے کتاب وسنت میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے (45) ….. لیکن جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ کسی روایت میں صراحت نہیں ہے کہ کسی کافر کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زکات کی رقم دی ہو، اس لئے صحیح یہی ہے کہ کافر’’مولفۃ القلوب‘‘ کے حکم میں شامل نہیں ہیں، اس لئے نہ تو نسخ کی ضرورت ہے اور نہ یہ کہنے کی حاجت ہے کہ پہلے ایک مقصد کے تحت دیا جاتا تھا اب وہ باقی نہیں ہے۔

فی الرقاب:

قرآن حکیم میں زکات کے کل آٹھ مصارف بیان کئے گئے ہیں، جن میں سے چار کاتذکرہ آچکا ہے، بقیہ چار قسموں میں سے سب سے پہلے ’’الرقاب‘‘ کا بیان ہے، ’’الرقاب‘‘ سے مراد جمہور ائمہ کے نزدیک وہ غلام ہے جسے کو آقا نے آزاد کرنے کے لئے کچھ مال کا مطالبہ کیا ہو، جسے فقہ کی اصطلاح میں’’مکاتب‘‘ کہا جاتا ہے، زکات کی رقم سے ایسے غلام کی مدد کی جائے گی تاکہ اس کی آزادی کی صورت پیدا ہوسکے، امام مالک اور امام احمد سے ایک روایت یہ ہے کہ اس سے مراد زکات کی رقم سے غلام خرید کر آزاد کرنا ہے، امام زہری کہتے ہیں کہ آیت کے مفہوم میں دونوں شامل ہیں لہٰذا مکاتب کی آزادی میں بھی اس رقم سے تعاون کریں اور مالکوں سے غلام خرید کر آزاد بھی کرسکتے ہیں ۔(46)
چونکہ اب غلامی کا مسئلہ ختم ہوچکا ہے اس لئے دلیل اور مزید تفصیل کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اسی سے ملتا جلتا ایک دوسرا مسئلہ قابل توجہ ہے کہ کیا اس مد سے بے قصور مسلم قیدیوں کو آزاد کرایا جاسکتا ہے؟ حنبلی فقہاء کے یہاں صراحت ملتی ہے کہ ایسا کیا جاسکتا ہے، چنانچہ دبستان فقہ حنبلی کے ترجمان علامہ ابن قدامہ حنبلی کہتے ہیں:
مشرکین کے قبضہ سے کسی مسلم قیدی کو زکات کی رقم سے خریدنا جائز ہے، کیونکہ یہ عمل قید سے ایک گردن کو آزاد کرانا ہے لہٰذا یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کسی غلام کو غلامی سے آزاد کرانا، نیز اس میں اعزاز دین بھی ہے لہٰذا یہ مولفۃ القلوب پر خرچ کرنے کی طرح ہے، اور اس لئے بھی کہ قیدی کو اپنی گردن چھڑانے کے لئے دیا جاتا ہے،لہٰذا یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کسی مقروض کو قرض کے بار سے اس کی گردن کو آزاد کرانے کے لئے دیا جاتا ہے۔ (47)
فقہاء مالکیہ کے یہاں اس مسئلہ میں اختلاف رائے ہے، اصبغ اسے درست قرار نہیں دیتے، اس کے برخلاف ابن حبیب پرزور طریقہ پر اس کی حمایت کرتے ہیں (48) ….. فقہ حنفی کی جو کتابیں اس وقت پیش نظر ہیں ان میں متوقع جگہوں پر اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے یہی صورت حال فقہ شافعی کی کتابوں میں ہے، اصولی طور پر فقہ حنفی میں بھی اس کی اجازت ہونی چاہئے، کیونکہ فقہاء حنفیہ مصارف زکات میں عامل کے سوا تمام قسموں میں فقر و حاجت کی شرط لگاتے ہیں، لہٰذا اگر کوئی قیدی تنگدست اور حاجت مند ہے تو اسے بھی زکات کی رقم دے سکتے ہیں تاکہ اس کی رہائی ہوسکے، واللہ اعلم بالصواب۔

غارم:

’’غارم‘‘ بمعنیٰ مقروض، قرض دو طرح کے مقصد کے لئے لیا جاتا ہے، ایک ذاتی مقصد اور مصلحت کے لئے، مثلاً گھر کا خرچ چلانے، مریض کا علاج کرنے، غلطی سے کسی کا سامان ضائع کردیا ہو اس کا تاوان دینے کے لئے قرض لینا، اسی کے دائرے میں وہ قرض بھی آتاہے جو کسی سماوی حادثہ (سیلاب،زلزلہ،قحط سالی وغیرہ) کی وجہ سے لیا گیا ہو یا کاروباری خسارے کی وجہ سے قرض کے نیچے دب گیا ہو، ان تمام صورتوں میں قرض لینے والے کے قرض کی ادائیگی زکات کی رقم سے کی جاسکتی ہے، بلکہ عام فقراء کے مقابلہ میں ایسے لوگوں کو دینا زیادہ بہتر ہے۔ (49) چنانچہ حضرت قبیصہ بن مخارق کی روایت کا ایک ٹکڑا یہ ہے:
رجل اصابتہ جائحۃ اجتاحت مالہ فحلت لہ المسئلۃ حتی یصیب قواما من عیش۔
ایک وہ آدمی جس پر کوئی آفت آپڑی ہو جس نے اس کے مال کو ضائع کردیا تو اس کے لئے مانگنا جائز ہے یہاں تک کہ گذارے کے بقدر حاصل کرلے۔ (50)
اور حضرت ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ
اصیب رجل فی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ثمار ابتاعہا فکثر دینہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تصدقوا علیہ فتصدق علیہ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص کے خریدے ہوئے پھل آفت کا شکار ہوگئے جس کی وجہ سے اس پر بہت زیادہ قرض ہوگیا(قرض کی ادائیگی کے لئے) اللہ کے رسول نے فرمایا کہ اسے صدقہ دو،تو لوگوں نے ان پر صدقہ کیا (51)
اور جلیل القدر مفسر حضرت مجاہد کا بیان ہے کہ
تین آدمی غارم میں سے ہیں،ایک وہ آدمی جس کا مال سیلاب کی نذر ہوگیا ہو، دوسرا وہ جس کا مال آگ لگنے کی وجہ سے تباہ ہوگیا ہو، تیسرا وہ جو صاحب عیال ہو لیکن خرچ چلانے کے لئے اس کے پاس مال نہ ہو تو وہ قرض لے کر اپنے اہل وعیال پر خرچ کرسکتاہے ۔(52)
حقیقت یہ ہے کہ نظام زکات ایک طرح سے انشورنس ہے، جس کے ذریعہ سے آفت زدہ اور مصیبت کے مارے اور حاجت مندوں کی اشک شوئی کی جاتی ہے،معاشرہ کے کماؤ اور لائق افراد کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل بنایا جاتا ہے، انھیں گرنے اور تباہ ہونے سے بچایا جاتا ہے چنانچہ شیخ یوسف قرضاوی کہتے ہیں:
انشورنس کے جدید طریقے رائج ہونے سے بہت پہلے اسلام نے اسے رائج کیا اور اسلام کا رائج کردہ انشورنس کا طریقہ مغربی طرز کے انشورنس سے کہیں اچھا اور بہتر ہے، کیونکہ مغربی طرز انشورنس میں اس شخص کی مدد کی جاتی ہے جس نے بیمہ کمپنی کو اس کی طرف سے مقرر قسط کو ادا کیا ہو، نیز جمع کردہ رقم کے اعتبار ہی سے اس کا تعاون کیا جاتا ہے اس کے نقصان اور ضرورت کو نہیں دیکھا جاتاہے، لہٰذا کسی نے بڑی رقم کا بیمہ کرایا ہوگا تو اسے زیادہ معاوضہ ملے گا اور جس نے چھوٹی رقم کا بیمہ کرایا ہوگا اسے تھوڑا معاوضہ ملے گا خواہ وہ کتنے بڑے حادثہ سے دوچار ہوا ہو اور اس کی ضرورت کتنی زیادہ ہی کیوں نہ ہو، اس کے برخلاف اسلام کے اس نظام انشورنس میں پہلے کچھ رقم ادا کرنے کی شرط نہیں ہے، نیز آفت زدہ کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ نقصان کی تلافی ہوسکے اور وہ مصیبت کے بھنور سے چھٹکارا پاسکے۔ (53)
ذاتی مصالح کے تحت قرض لینے والے کے قرض کی ادائیگی زکات سے ادا کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ:
الف: قرض کی ادائیگی کے لئے اس کے پاس مال نہ ہو یا اتنا مال ہو کہ قرض ادا کرنے کے بعد وہ صاحب نصاب نہ رہے، ضروریات زندگی کے سامان اس سے مستثنیٰ ہیں، لہٰذا کسی کے پاس، زمین و جائداد، سازوسامان، یا گاڑی وغیرہ ہے جسے فروخت کرکے وہ قرض ادا کرسکتاہے پھر بھی اسے زکات کی رقم دی جائے گی اور مذکورہ چیزوں کو فروخت کرنے کا پابند نہیں بنایا جائے گا (54)، چنانچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے گورنروں کو لکھا کہ قرض داروں کے قرض کو ادا کرو، انھوں نے ان سے دریافت کیا:
قرض داروں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس مکان، نوکرچاکر اور گھوڑا موجود ہے، گھریلو ساز وسامان کے مالک ہیں،کیا ایسے لوگوں کی قرض کی ادائیگی کی جائے؟
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواب لکھا:
ایک مسلمان کے لئے رہنے کا مکان، کام کاج کے لئے نوکر اور دشمن کے مقابلہ کے لئے گھوڑا ضروری ہے، نیز گھر میں کچھ سازو سامان ناگزیرہے، لہٰذا ان لوگوں کے قرضے بھی ادا کئے جائیں ۔(55)
ب: کسی نیک اور جائز مقصد کے لئے قرض لیا گیا ہو،معصیت اور برائی…مثلاً شراب نوشی اور جوا کھیلنے… کے لئے نہ لیا گیا ہو، اس لئے اگر کوئی معصیت اور برائی کے کام کی وجہ سے مقروض ہوگیا ہے تو اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے زکات کی رقم نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ ایک طرح سے معصیت میں تعاون اور غلط کاری کی حوصلہ افزائی ہے …. فضول خرچی اور اسراف کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ یہ بھی معصیت میں شامل ہے، چنانچہ ارشادِربانی ہے:
کلوا واشربوا ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین۔
کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو کیونکہ اللہ اسراف کرنے والے کو پسند نہیں کرتاہے۔ (56)
نیز ارشاد ہے:
ولا تبذر تبذیراً ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہ کفوراً۔
اور مال کو بے موقع نہ اڑا،بیشک بے موقع اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے ۔(57)
لیکن اگر کوئی شخص معصیت سے توبہ کرلے اور گمان غالب ہو کہ توبہ کے سلسلہ میں مخلص ہے تو معصیت کے قرض کی ادائیگی بھی زکات کی رقم سے کی جاسکتی ہے، لیکن اس پر نگاہ رکھنا چاہئے کہ محض قرض کی ادائیگی کے لئے تو توبہ کا اظہار نہیں کررہاہے اور اس کے بعد پھر وہ معصیت کے لئے قرض اس امید پر لینے لگے کہ توبہ کرکے پھر زکات کی رقم لے کر ادا کردوں گا۔
ج: اس قرض کا تقاضا کسی انسان کی طرف سے ہو، لہٰذا اگر ایسا قرض اور دَین ہے جس کی ادائیگی کا تقاضا شریعت کی طرف سے ہے جیسے دین کفارہ، دین نذر وغیرہ تو اس کی ادائیگی کے لئے زکات کی رقم نہیں دی جائے گی ۔(58)
2: قرض کی دوسری قسم وہ ہے جو مسلمانوں کے آپس کے جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے حاصل کیا گیا ہو، مثلاً دو فریقوں کے درمیان خوں بہا کے مسئلہ کو لیکر آویزش کا اندیشہ ہے اور کوئی شخص درمیان میں پڑ کر اپنی طرف سے رقم ادا کرنے کی ذمہ داری لے کر صلح کرادے۔
اسلام سے پہلے بھی عربوں میں اس کا رواج تھا چنانچہ ان کے درمیان کسی مالی مطالبہ مثلاً خوں بہا وغیرہ کے لئے جھگڑا برپا ہوتا تو ایک شخص اٹھتا اور جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے اس کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرلیتا اور جب لوگوں کو معلوم ہوتاہے کہ کسی شخص نے اس طرح کی ذمہ داری قبول کرلی ہے تو بڑھ چڑھ کر اس کا تعاون کرتے یہانتک کہ وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتا، اور اگر اس کے لئے لوگوں سے مانگنے کی ضرورت آپڑتی تو اس کے لئے یہ ناگوار نہ ہوتا، اور نہ اس کی عزت میں کمی آتی بلکہ اسے باعث فخر سمجھاجاتا، اس طرح کی ذمہ داری قبول کرنے کو’’حمالہ‘‘ کہا جاتا ہے، اسلام نے بھی اس کو باقی رکھا اور اس مقصد کے لئے مانگنے کو جائز قرار دیا (59)، چنانچہ حضرت قبیصہ بن مخارق سے مروی ہے کہ
تحملت حمالۃ فاتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسالہ فیہا فقال اقم حتی تاتینا الصدقۃ فنامر لک بہا ثم قال یا قبیصۃ ان المسالۃ لا یحل الا لاحد ثلثۃ رجل یحمل حمالۃ فحلت لہ المسالۃ حتی یصیبہا ثم یمسک۔
میں نے ایک مال کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرلی تھی ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس سلسلہ میں مدد کی درخواست لے کر گیا تو آپ نے فرمایا انتظار کرو یہانتک کہ ہمارے پاس کوئی صدقہ آئے تو ہم اس میں سے تمہیں دینے کا حکم دیں گے، پھر آپ نے فرمایا: قبیصہ! مانگنا صرف تین ہی آدمی کے لئے جائز ہے،ایک وہ آدمی جس نے کوئی ذمہ داری قبول کرلی ہو تو اس کے لئے مانگنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے بقدر مال حاصل کرلے پھر رک جائے ۔(60)
جو آدمی اس طرح کی ذمہ داری کو قبول کرتاہے اسے زکات کی رقم سے اس وقت امدادکی جائے گی جبکہ وہ خود ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو لہٰذا اگر کوئی شخص اتنا مالدار ہے کہ اپنی طرف سے ادا کرکے اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوسکتاہے اور ادائیگی کے باوجود وہ نصاب کا مالک ہے تو اسے زکات کی رقم نہیں دی جائے گی، یہ حنفی فقہاء کا نقطۂ نظر ہے، چنانچہ ان کی ترجمانی کرتے ہوئے علامہ ابن ھمام رقم طراز ہیں:
ہمارے نزدیک ایسا مقروض اسی وقت زکات لے سکتا ہے جبکہ قرض کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس نصاب کے بقدر مال نہ بچتاہو(61)
دیگر فقہاء کے نزدیک مالدار ہونے کے باوجود ایسے شخص کو ذمہ داری سے سبکدوش کرنے کے لئے زکات کی رقم دی جائے گی…. اس سے متعلق بعض تفصیلات اور دلائل کا تذکرہ آئندہ ہوگا۔

میت کے قرض کی ادائیگی:

اگر کوئی شخص ناداری کی وجہ سے قرض ادا نہیں کر پارہا ہے کہ اسی حالت میں فرشتے نے پیغام اجل سنا دیا تو کیا مرنے کے بعد زکات سے اس کے قرض کو چکایا جاسکتاہے؟ امام ابوحنیفہ اور احمدبن حنبل کے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے، امام شافعی کی ایک روایت بھی یہی ہے، فقہاء مالکیہ کے نزدیک اور امام شافعی کی دوسری روایت کے مطابق زکات کی رقم سے میت کے قرض کو چکایا جاسکتاہے بشرطیکہ ادائیگی کے لئے اس نے کچھ مال و جائداد وغیرہ نہ چھوڑا ہو، کیونکہ آیت عام ہے اور زندہ مردہ ہر طرح کے مقروض کو شامل ہے، نیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
انا اولی بکل مؤمن من نفسہ من ترک مالا فلاہلہ و من ترک دینا او ضیاعا فالی وعلی۔
میں ہر مومن کے اس کی ذات سے بھی زیادہ قریب ہوں، لہٰذا جوکوئی مال چھوڑ کر مرے تو اس کے وارثوں کے لئے ہے اور جو کوئی قرض چھوڑ کر مرے وہ میرے ذمہ ہے۔(62)
جو لوگ اسے نادرست کہتے ہیں ان کے پیش نظر یہ بات ہے کہ زکات کے لئے تملیک شرط ہے اور وہ یہاں موجود نہیں ہے اس لئے نادرست ہے۔

فی سبیل اللہ:

لغت کے اعتبار سے’’فی سبیل اللہ‘‘ کا مفہوم بڑا وسیع ہے اور ہر طرح کی نیکی کے کاموں کو شامل ہے، لیکن اس آیت میں ایک محدود مفہوم اللہ کی راہ میں جہاد وقتال مراد ہے، اس کے علاوہ کوئی اور کام اس میں داخل نہیں ہے، چنانچہ علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں:
سبیل‘ دراصل راستہ کو کہا جاتاہے اور ’’سبیل اللہ‘‘ عام ہے اور ہر ایسے خالص عمل کے لئے استعمال ہوتاہے جو اللہ سے نزدیکی کا ذریعہ ہو،جیسے فرائض و نوافل اور مختلف قسم کے نیک کام، لیکن جب مطلق بولا جائے تو اس سے مراد جہاد ہوا کرتاہے، یہانتک کہ اس مفہوم میں بکثرت استعمال ہونے کی وجہ سے ایک طرح سے اسی مفہوم کے لئے خاص ہوگیاہے ۔(63)
اور ماہر لغت علامہ ابن منظور افریقی کہتے ہیں۔
اللہ نے جن اچھے کاموں کا حکم دیا ہے وہ تمام ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں داخل ہیں، لیکن’’سبیل اللہ‘‘ زیادہ تر جہاد کے لئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ جہاد ہی وہ راستہ ہے جس میں اقامت دین کے لئے جنگ لڑی جاتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کے قول’’فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو جہاد کا ارادہ رکھتا ہے لیکن میدان جنگ تک پہونچنے کے لئے وسائل نہیں پاتا ہے، لہٰذا ایسے شخص کو ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے حصہ سے دیا جائے گا۔(64)
حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
لا تحل الصدقۃ لغنی الا لخمسۃ لعامل علیہا او رجل اشتراہا بمالہ او غارم او غاز فی سبیل اللہ او مسکین تصدق علیہ منہا فاہدی لغنی منہا۔
صدقہ کسی مالدار کے لئے حلال نہیں سوائے پانچ مالداروں کے: وصولی زکات کے لئے کام کرنے والا،وہ آدمی جس نے صدقہ کے مال کو کو خرید لیا ہو،مقروض، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا،اور ایسا شخص ہے جسے کسی مسکین نے زکات کا مال بطور ہدیہ دیا ہو۔ (65)
اس روایت میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی وضاحت’’غازی‘‘ کے لفظ سے ہورہی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کا اضافہ کرکے فی سبیل اللہ کا مصداق متعین کردیا ہے، یہ حدیث آیت کی بہترین تفسیر ہے چنانچہ علامہ قرطبی کہتے ہیں:
فکان ہذا الحدیث مفسرا لمعنی الایۃ۔
یہ حدیث آیت کے مفہوم کی تفسیر کررہی ہے (66)یہی بات امام ابوعبید قاسم بن سلام (وفات 432ھ)(67) اور علامہ خطابی نے بھی لکھی ہے(68)اور علامہ ابن حزم نے مذکورہ حدیث کی روشنی میں اسی کی تائید کی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
اگر کہا جائے کہ حج فی سبیل اللہ میں داخل ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس کا فتویٰ ہے کہ زکات کا مال حج کے لئے دیا جائے تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ ہاں ہر نیک کام ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں داخل ہے لیکن اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ زکات کے معاملہ میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد تمام نیکی کے کام نہیں ہیں، لہٰذا یہ درست نہیں ہے کہ حدیث نے بہ صراحت جس مفہوم کو بیان کردیاہے یہاں اس کے سوا کوئی اور معنیٰ لیاجائے ۔(69)
عام طور پر مفسرین نے بھی یہاں’’فی سبیل اللہ‘‘ سے غزوہ اور جہاد کو مراد لیا ہے چنانچہ مشہور تابعی عبد الرحمٰن بن زید مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’فی سبیل اللہ‘‘ قال الغازی فی سبیل اللہ (70) مشہور مفسر مقاتل بن سلیمان سے بھی یہی تفسیر منقول ہے، بلکہ صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی سے بھی ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے متعلق عمومی مفہوم مروی نہیں ہے، جمہور فقہاء بھی اسی کے قائل ہیں، چنانچہ امام مالک سے منقول ہے کہ سبیل اللہ کثیرۃ و لکنی لا اعلم خلافا فی ان المراد بسبیل اللہ ہہنا الغزو من جملۃ سبیل اللہ۔
اللہ کے راستے تو بہت ہیں، لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد یہاں غزوہ ہے ۔
امام ابوحنیفہ اور شافعی کا یہی مذہب ہے، امام احمد سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے،جسے ابن قدامہ حنبلی نے اصح قرار دیا، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
امام احمد سے دوسری روایت یہ ہے کہ زکات کو حج میں خرچ نہیں کیا جائے گا، امام مالک، لیث، ابوحنیفہ سفیان ثوری،شافعی، ابوثور اور ابن المنذر اسی کے قائل ہیں اور یہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ ’’سبیل اللہ‘‘ جب مطلق بولا جاتا ہے تو اس سے مراد جہاد ہوتاہے، اور قرآن میں جہاں بھی سبیل اللہ آیاہے وہاں اس سے مراد جہاد ہے سوا چند جگہوں کے،لہٰذا ضروری ہے کہ مصارف زکات کی آیت میں بھی اسے جہاد ہی پر محمول کیا جائے، کیونکہ بظاہر وہی مراد ہے، اور اس لئے بھی کہ مصارف زکات صرف دو طرح کے لوگوں کو دی جاتی ہے ایک وہ شخص جو خود محتاج ہو جیسے فقیر، مسکین،مکاتب، مقروض وغیرہ کہ انھیں اپنے قرض وغیرہ کی ادائیگی کے لئے زکات کی ضرورت ہے، دوسرے وہ شخص جس کی مسلمانوں کو ضرورت ہو ،جیسے عامل، غازی۔ مولفۃ القلوب اور اصلاح ذات بین کے لئے قرض لینے والا، اور فقیر کے حج سے نہ تو مسلمانوں کا نفع ہے اور نہ خود فقیر کو اس کی ضرورت ہے کیونکہ اس پر حج فرض نہیں ہے(71)
گرچہ حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، امام احمد،اسحاق بن راہویہ اور امام محمد کے نزدیک فی سبیل اللہ میں’’جہاد‘‘ کے علاوہ حج بھی داخل ہے،لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ عہد صحابہ سے لے کر تیسری صدی تک جمہور علماء، فقہاء محدثین اور مفسرین کا اتفاق رہا ہے کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے صرف غزوہ مراد ہے،ہاں گنے چنے چند حضرات ایسے تھے جنھوں نے غزوہ کے ساتھ حج کو بھی اس مفہوم میں داخل سمجھا ، لیکن اس کو اختیار کرنے والے اس قدر کم تھے کہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس قول پر عمل کرنے والے اب نہیں رہے چنانچہ ابوعبید قاسم بن سلام(وفات 422) لکھتے ہیں:
ہذا القول مہجور غیر معمول بہ
یہ قول متروک اور غیر معمول ہے۔ (72)
غرض یہ کہ عہد صحابہ سے لیکر تیسری صدی ہجری تک اس پر اتفاق اور اجماع رہا کہ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے ان دو مفہوم کے علاوہ کوئی اور مفہوم مراد نہیں ہے… البتہ امام رازی(وفات 606) کی تفسیر کے ذریعہ قفال کے حوالے سے بعض فقہاء کی یہ رائے معلوم ہوتی ہے کہ:
وہ نیکی کے تمام کاموں میں زکات کی رقم کو لگانے کو جائز سمجھتے ہیں جیسے مردے کو کفن دینا، قلعہ تعمیر کرنا،مسجد بنانا،اس لئے اللہ تعالیٰ کا قول ’’فی سبیل اللہ‘‘ عام ہے۔(73)
لیکن مشکل یہ ہے کہ خود قفال کی شخصیت کا اتا پتا نہیں ہے کہ کون ہے؟، نیز جن فقہاء کی طرف منسوب کیا ہے ان کا نام بھی مذکور نہیں ہے کہ ان کی اس رائے کو کوئی حیثیت دی جاسکے…. بعض علماء نے قیاس اور قرائن کے ذریعہ قفال کے نام کی تعیین کی کوشش کی ہے، چنانچہ شیخ یوسف القرضاوی کہتے ہیں کہ شاید قفال صغیر عبداللہ بن احمد (وفات 714) مراد ہیں (74)، لیکن مولانا عتیق احمد بستوی اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ امام رازی سے پہلے تین قفال گزرے ہیں۔
1۔ محمدبن علی القفال کبیر (وفات 563ھ)
2۔ عبداللہ بن احمد القفال الصغیر (وفات 714ھ)
3۔ محمدبن احمد بن حسین (وفات 705ھ)
ان میں سے دوسرے اور تیسرے کے حالات و تصنیفات میں کسی تفسیر کا ذکر نہیں آتا ہے، البتہ قفال کبیر محمدبن علی کے حالات میں تفسیر قرآن کا ذکر آتا ہے، اور داؤدی نے طبقات المفسرین میں لکھا ہے کہ امام رازی نے قفال کبیر کے حوالے سے اپنی تفسیر میں بہت سی باتیں لکھی ہیں، اس کے برخلاف قفال صغیر کا ذکر صرف علم فقہ میں آتا ہے لہٰذا قفال سے مراد یہاں قفال کبیر ہیں، وہ ہمیں یہ بھی بتلاتے ہیں کہ قفال کبیر ایک ممتاز شافعی عالم ہیں لیکن انہیں کے ہم مسلک ایک پرجوش شافعی فقیہ اور تذکرہ نگار علامہ تاج الدین سبکی نے لکھا ہے کہ قفال اپنے ابتدائی دور میں معتزلی تھے اور ان کی تفسیر اسی زمانہ اعتزال کی یادگار ہے ۔(75)
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ قفال کبیر کو بعض فقہاء کی بات سمجھنے میں مغالطہ ہوا ہو جس طرح مشہور فقیہ ابن قدامہ حنبلی (وفات 026ھ) غلط فہمی کا شکار ہوئے، چنانچہ انھوں نے انس بن مالک اور حسن بصری کی طرف یہ رائے منسوب کی ہے کہ زکات کا مال پل اور راستہ کی تعمیر میں خرچ کرنا درست ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات بھی’’فی سبیل اللہ‘‘ کے مصداق میں تعمیم کے قائل ہیں، ابن قدامہ نے انس بن مالک اور حسن بصری کے مقولہ’’ما اعطیت فی الجسور و الطرق فہی صدقۃ ماضیۃ‘‘ کا یہی مطلب سمجھا ہے کہ پل اور سڑک بنانے میں زکات کا مال خرچ کرنا درست ہے لیکن مشہور مجتہد ابوعبید قاسم بن سلام نے اس کا دوسرا مفہوم بیان کیا ہے کہ سڑکوں اور پلوں پر حکومت کی طرف سے متعین کردہ عشر و زکات وصول کرنے والے کسی کے مال کی زکات وصول کرلیں تو زکات ادا ہوجائے گی، خود حسن بصری سے اس مفہوم کی صریح روایت موجود ہے، اور ابراہیم نخعی، شعبی وغیرہم کا بھی یہی خیال ہے اس کے برخلاف میمون بن مہران کا مسلک ہے کہ اس سے زکات ادا نہیں ہوگی۔ ایسے ہی ابن ابی شیبہ نے حضرت انس بن مالک اور حسن بصری کا مسلک ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔
ما اخذ منک علی الجسور و القناطیر فتلک زکات قاضیۃ (76)
معلوم ہوا کہ ان دونوں حضرات کے نقطۂ نظر کے سمجھنے میں ابن قدامہ سے چوک ہوئی ہے،کیا بعید ہے کہ قفال کو بھی بعض فقہاء کی اسی طرح کی عبارتوں سے مغالطہ ہوا ہو اور اسی کو بنیاد بناکر انھوں نے تعمیم والا نظریہ پیش کردیا ہو، یہ شبہہ اس لیے ہوتاہے کہ کتب تفسیر وحدیث وفقہ کی طرف کافی مراجعت کے باوجود ہمیں نہیں ملا کہ قفال کبیر کے معاصر یا متقدم کسی فقیہ نے تمام امور خیر کو’’فی سبیل اللہ‘‘ میں داخل کیا ہو ۔(77)
قفال کے بعد مکمل طور پر خاموشی چھا جاتی ہے، کہیں موافقت کی آواز نہیں آتی ہے، کوئی ہمنوا نظر نہیں آتا ہے، یہانتک کہ دو صدی گذر جاتی ہے مگر تعمیم کے سلسلہ میں کسی متعین فقیہ کا نام نہیں آتا ہے، یہانتک کہ چھٹی صدی ہجری میں ملک العلماء کاسانی نے تعمیم کا نظریہ پیش کیا چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
وفی سبیل اللہ عبارۃ عن جمیع القرب فیدخل فیہ کل من سعی فی طاعۃ اللہ وفی سبیل الخیرات۔
فی سبیل اللہ سے مراد تمام نیک کام ہیں، لہٰذا اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیکی کی راہوں کے لئے سعی اور کوشش کرے۔(78)
لیکن ایک طرف وسعت برتی تو تو دوسری طرف’’اذاکان محتاجا‘‘ کی قید لگاکر تنگی پیدا کردی، اس لئے اس سے تعمیم کے نظریہ کی تائید نہیں ہوسکتی ہے، کاسانی کے بعد دوسرے فقیہ ظہیرالدین ابوبکر بن محمد(وفات 915) نے اس کا مصداق طالب علموں کو قرار دیا لیکن عام طور پر فقہاء نے طالب علموں کو زکات کے لئے فقر و احتیاج کی شرط لگائی ہے اور مالدار طالب علم کو زکات دینے کے قول کو قبول نہیں کیا گیا (79)حاصل یہ ہے کہ صحابہ، تابعین،ائمہ اربعہ کے متبعین کا اس پر اتفاق ہے کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کا مصداق غزوہ ہے، اور جمہور اسے صرف غزوہ تک محدود رکھتے ہیں اور بعض ائمہ مثلاً امام احمدبن حنبل وغیرہ غزوہ کے ساتھ حج کو بھی اس میں شامل مانتے ہیں، ان کے علاوہ کچھ اور مراد نہ ہونے پر ایک طرح سے اجماع ہے، اور اس اجماع کی پشت پر یہ دلائل ہیں۔
1۔ ’’فی سبیل اللہ‘‘ شرعی اصطلاح ہے، اس لئے جب مطلق بولا جائے تو اس سے مراد جہاد اور غزوہ ہی ہوگا، چنانچہ امام ابویوسف کہتے ہیں۔
’’فی سبیل اللہ‘‘ شریعت کی زبان میں جب مطلق استعمال ہو تو اس سے مراد جہاد ہوتاہے۔ (80)
اور علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں:
اذا اطلق ذکر فی سبیل اللہ فالمراد بہ الجہاد
’’فی سبیل اللہ‘‘ کا تذکرہ مطلق ہو تو اس سے مراد جہاد ہوا کرتاہے۔
یہی بات علامہ ابن قدامہ حنبلی، ابن اثیر جزری، ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے بھی کہی ہے(81)، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تمام مکاتب فقہ کے محققین کی یہی تحقیق ہے کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کسی قرینہ کے بغیر مطلق استعمال ہو تو اس سے مراد جہاد ہوتا ہے اور بعض جدید علماء نے مثلا شیخ یوسف قرضاوی وغیرہ نے قرآنی استعمالات کے ذریعہ اسی کو ثابت کیا ہے،اور ابواب الجہاد سے متعلق احادیث سے بھی اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے، اور شرعی اصطلاح میں لغوی مفہوم کے پیش نظرعموم اختیار کرنا درست نہیں ہے،جیسے کہ لفظ’’صلاۃ‘‘ لغت کے اعتبار سے دعاء کے مفہوم میں آتاہے، خود قرآن نے’’صلاۃ‘‘ کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
وصل علیہم ان صلوتک سکن لہم۔
آپ ان کے لئے دعاء کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعاء ان کے لئے باعث سکون ہے۔ (82)
لیکن اصطلاح شرع میں نماز ایک مخصوص کیفیت کے ساتھ مختلف امور انجام دینے کا نام ہے، اور جہاں بھی قرآن وحدیث میں مطلق استعمال ہوتا ہے اس سے یہی شرعی مفہوم مراد ہوتا ہے،لغوی مفہوم مراد لے کر عموم پیدا کرنا درست نہیں ، بعینہٖ یہی بات’’سبیل اللہ‘‘ میں بھی ہے کہ گرچہ وہ لغت کے اعتبار سے ایک عام مفہوم رکھتاہے، اور اس عام مفہوم میں کتاب وسنت میں کہیں کہیں استعمال بھی ہوا ہے مگر بعض جگہوں پر قرائن کی روشنی میں عمومی مفہوم مراد لیا گیاہے تو اس پر قیاس کرکے ہر جگہ عام معنیٰ مراد لینا درست نہ ہوگا۔
2۔ حدیث میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے ساتھ’’غازی‘‘ کی قید لگاکر اس کے مفہوم اور مصداق کو متعین کردیا گیا ہے، جیسا کہ اس سے متعلق حدیث گذر چکی ہے۔
3۔ سورہ توبہ میں حصر کے ساتھ زکات کے آٹھ مصارف بیان کئے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے شریعت کی نگاہ میں اس کی ایک متعین حد ہے، اگر فی سبیل اللہ کو عام کردیا جائے تو پھر تحدید باقی نہیں رہ جاتی ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں کہا گیا ہے :
عن زیاد بن الحارث الصدائی قال اتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فبایعتہ فاتی رجل فقال اعطنی من الصدقۃ فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ لم یرض بحکم نبی ولا غیرہ فی الصدقات حتی حکم ہو فیہا فجزاہا ثمانیۃ اجزاء فان کنت من تلک الاجزاء اعطیتک۔
زیاد بن حارث صدائی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر بیعت کی، اس کے بعد ایک شخص آیا اور کہا کہ مجھے صدقہ میں سے کچھ دے دیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے صدقات کی تقسیم کسی نبی یا غیر نبی کے حوالے نہیں کی ہے بلکہ خود ہی اسے آٹھ مصارف مین تقسیم کردیاہے، اگر تم ان آٹھ میں داخل ہو تو میں تمہیں زکات دے سکتاہوں۔(83)
اس حدیث کو بعض لوگوں نے عبدالرحمٰن بن زیاد افریقی کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن ان کے ضعف پر اتفاق نہیں ہے بلکہ بعض محدثین اور ناقدین نے ان کی توثیق بھی کی ہے، چنانچہ امام بخاری انھیں قوی اور مقارب الحدیث قرار دیاہے، ابن صالح کہتے ہیں کہ ان کی احادیث لائق حجت اور صحیح ہیں، اور جو لوگ ان پر کلام کرتے ہیں غیر مقبول ہے، یعقوب بن شیبہ نے ثقہ اور صدوق کہا ہے،ابن سفیان کہتے ہیں کہ ’’لاباس بہ‘‘ یحی القطان ایسے ناقد حدیث نے انھیں ثقہ گردانا ہے(84) لہٰذا یہ حدیث درجہ حسن سے کمتر نہیں ہے، اگر ’’فی سبیل اللہ‘‘ کو عام کردیا جائے تو مصارف کی تحدید بے معنیٰ ہوکر رہ جائے گی، اور اس کی عمومیت پر بند لگانا دشوار ہوجائے گا اور اس کے دائرے میں انسان تو انسان، چرند و پرند، نباتات و جمادات وغیرہ بھی شامل ہوجائیں گے یہ صرف امکان ہی نہیں ہے، بعض لوگ اس کے قائل بھی ہیں، چنانچہ علامہ مرتضیٰ زبیدی کہتے ہیں:
انسانی مصالح عامہ کے لئے اس مد سے خرچ کیا جاسکتا ہے، بلکہ حیوان کے لئے بھی، یہانتک کہ اگر کوئی درخت پانی نہ ملنے کی وجہ سے خشک ہو رہا ہو تو وہ زکات کے مال سے اسے سیراب کرنے کے لئے پانی لے سکتاہے، کیونکہ یہ بھی’’فی سبیل اللہ‘‘ میں شامل ہے ۔(85)
نیز اگر عمومی مفہوم مراد لیا جائے کسی تکلف کے بغیر بقیہ سات مصارف بھی اس کے دائرے میں آجاتے ہیں، ایسی صورت میں ان مصارف کا علیٰحدہ سے تذکرہ ایک طرح سے تکرار اور زائد از ضرورت ہوگا۔

عموم سے متعلق بعض روایات کی توجیہ:

بعض روایات سے مصرف زکات’’فی سبیل اللہ‘‘ میں عموم کا شبہ پیدا ہوتاہے، ان میں سے پہلی روایت یہ ہے۔
1۔ ایک صحابی مقام خیبر میں مقتول پائے گئے، ان کے ورثاء نے یہودیوں پر قتل کا دعویٰ کیا لیکن اس دعویٰ کے ثبوت کے لئے ان کے پاس گواہ نہ تھے، اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قسم کھانے کے لئے کہا لیکن بن دیکھے وہ قسم کھانے پر آمادہ نہ ہوئے، یہودیوں سے قسم کھانے کے کہا گیا تو وہ تیار ہوگئے مگر مقتول کے ورثاء نے ان کی کذب بیانی کی عام روش کو دیکھتے ہوئے ان کی قسم پر اعتبار نہیں کیا، اس لئے جھگڑے کو چکانے کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی دیت اداکردی، اس کی تعبیر بعض راوی نے’’وداہ من عندہ یا من قبلہ‘‘ یا اسی سے ملتے جلتے الفاظ سے کی ہے، اور بعض دوسرے راویوں نے’’وداہ من ابل الصدقۃ‘‘ نقل کیا ہے(86)، اور اسی لفظ سے عموم کا شبہ پیدا ہوتاہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کارخیر میں زکات کی رقم خرچ کی جو دلیل ہے کہ نیکی کے کاموں کے لئے زکات کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔
لیکن اس روایت سے عمومیت پر استدلال کرنا محل نظر ہے کیونکہ (الف) محدثین نے لکھا ہے کہ ’’من ابل الصدقۃ‘‘ کا لفظ صرف ایک راوی سعید بن عبید نقل کرتے ہیں، بقیہ تمام راوی’’من عندہ‘‘ یا اس جیسے الفاظ ذکر کرتے ہیں، لہٰذا’’من عندہ‘‘ والی روایت اس کے بالمقابل قوی اور محفوظ ہے، اس لئے اسی کو ترجیح حاصل ہوگی۔ (87)
(ب) بالفرض اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو دوسرے الفاظ سے موافقت پیدا کرنے کے لئے توجیہ ضروری ہوگی،کیونکہ ایک ہی واقعہ کے سلسلہ میں مختلف الفاظ ہیں، شارحین نے متعدد توجیہات نقل کی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’صدقات‘‘ کے مد سے قرض لیکر اپنی طرف سے دیت ادا کی، لہٰذا بعض لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ یہ صدقات کے اونٹ ہیں ’’من ابل الصدقۃ‘‘ نقل کردیا، اور جن کے پیش نظر حقیقت تھی انھوں نے’’من عندہ‘‘ کہا ۔(88)
2۔ عن ابی لاس قال حملنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ابل الصدقۃ للحج۔
ابو لاس سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حج کے لئے صدقات کے اونٹ مرحمت فرمائے ۔(89)
یہ روایت اسنادی حیثیت سے صحیح نہیں ہے اس لئے اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتاہے، نیز یہ احتمال بھی ہے کہ وہ محتاج اور ضرورت مند رہے ہوں اس بناپر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات کے اونٹ میں سے دیا تھا ۔(90)
3۔ ام معقل نامی ایک صحابیہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم ہمارے ساتھ حج میں شریک کیوں نہ ہوئی، انھوں نے عرض کیا ہمارے پاس ایک ہی اونٹ ہے جس پر ہم حج کیا کرتے تھے مگر ہمارے شوہر نے اسے ’’فی سبیل اللہ‘‘ وقف کردیاہے، اس لئے میں حج نہ کرسکی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’فہلا خرجت علیہ فان الحج فی سبیل اللہ‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج میں جانے دیجئے، انھوں نے کہا ہمارے پاس صرف ایک ہی اونٹ ہے اور وہ بھی’’فی سبیل اللہ‘‘ وقف ہے، شوہر نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
’’اما انک لو احججتہا علیہ کان فی سبیل اللہ‘‘
مذکورہ دونوں احادیث کی امام داؤد نے روایت کی ہے، پہلی حدیث پر اسنادی اعتبار سے کلام ہے، لیکن دوسری حدیث سندی حیثیت سے صحیح ہے۔ (91)
4۔ ایک عورت نے حضرت عبداللہ بن عمر سے مسئلہ دریافت کیا کہ کسی نے ’’فی سبیل اللہ‘‘ خرچ کرنے کی وصیت کی ہو تو اسے کہاں صرف کیا جائے،انھوں نے کہا
’’فہوکما قال فی سبیل اللہ‘‘ اس مبہم جواب سے ان کا سوال حل نہیں ہوا اس لئے ایک صاحب نے ابن عمر کو اس کی طرف توجہ دلائی تو انھوں نے فرمایا تم چاہتے ہو کہ میں اس سے کہوں کہ ان فوجیوں پر خرچ کرے جو زمین میں فساد برپا کئے ہوئے ہیں، انھوں نے کہا پھر کس مصرف میں خرچ کرنے کا حکم دیتے ہیں، تو انھوں نے جواب دیا حج کرنے والوں پر خرچ کرے کہ وہ اللہ کے مہمان ہیں ۔(92)
5۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا فتویٰ ہے کہ زکات کے مال سے غلام آزاد کیا جائیگا، اور حج میں خرچ کیا جائے گا۔ (93)
ان احادیث اور صحابہ کے فتاویٰ کی روشنی میں کہا جاتاہے کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کسی ایک معنی کے لئے مخصوص نہیں ہے، لیکن غور کی نگاہ سے دیکھا جائے تو حقیقت نکھر کر سامنے آجائے گی کہ مذکورہ روایات اور ابن عمر کے فتوے میں مصرف زکات’’فی سبیل اللہ‘‘ کا تذکرہ نہیں ہے، بلکہ’’فی سبیل اللہ‘‘ وصیت اور وقف کا مسئلہ ہے، جس میں لغوی مفہوم کی رعایت کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو بھی شامل کیا، اس سے یہ کہاں لازم آتاہے کہ’’مصارف زکات‘‘ میں بھی ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے اندر عموم ہے، بلکہ انھیں روایتوں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ صحابہ کے درمیان’’فی سبیل اللہ‘‘ کا ایک ہی مصداق غزوہ وجہاد متعین تھا، اس لئے وہ حج کے لئے’’فی سبیل اللہ‘‘ وقف یا وصیت کردہ جانور کو استعمال کرنے میں جھجکتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث میں اضطراب ہے، اس لئے لائق استدلال نہیں۔ (94)

جہاد کی حقیقت:

بعض حضرات نے ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد جہاد لیا ہے لیکن انھوں نے جہاد کے مفہوم میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ جہاد سے مراد صرف قتال نہیں بلکہ اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لئے جو کوششیں کی جائیں وہ سب اس میں شامل ہیں، خواہ وہ عسکری جہاد ہو،فکری، معاشی، اقتصادی اور سیاسی جہاد ہو، زبان کے ذریعہ ہو یا قلم کے ذریعہ، سب جہاد کے مفہوم میں شامل ہیں۔
اس نقطۂ نظر سے متعلق ہم صرف عرض کرنا چاہیں گے کہ جس طرح سے’’فی سبیل اللہ‘‘ ایک شرعی اصطلاح ہے، اسی طرح سے جہاد بھی ایک اصطلاح شرع ہے، چنانچہ زیادہ تر احادیث میں اسی شرعی مفہوم کے لئے استعمال ہوا ہے، اور حضرت ابوسعید خدری کی روایت میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی وضاحت غازی کے لفظ سے کی گئی ہے، اور غزوہ قتال کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، اور عام طور پر مفسرین نے فی سبیل اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے اس شرعی مفہوم کو پیش نظر رکھا ہے، بعض احادیث میں غزوہ وقتال کے علاوہ چیزوں کو جہاد کہا گیا ہے تو وہ لغوی مفہوم کی رعایت کرتے ہوئے ہے، اور اگر لغوی مفہوم کی رعایت کرتے ہوئے، لسانی و قلمی جہاد وغیرہ کو بھی داخل مانا جائے تو پھر اس میں بھی وہی عمومیت پیدا ہوجائے گی جو کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘کے لغوی مفہوم مراد لینے کی صورت میں پیدا ہوئی تھی اور کوئی بھی دیندار مسلمان اس دائرہ سے خارج نہ ہوگا، کیونکہ حدیث میں اسے بھی مجاہد کہا گیا ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے مجاہدہ کرتاہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل ہمارے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے، آپ کی زندگی قرآنی آیات کی تفسیر ہے، اور اسلاف کی رائے ہمارے لئے سب سے بہتر اور محفوظ راستہ ہے اسی کو اختیار کرنا چاہئے، اسلام کی پوری تاریخ میں مسلمان عسکری، فکری، اقتصادی یلغار سے دوچار تھے،جہاد کے تمام محاذ کھلے ہوتے تھے لیکن کسی سے ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے ’’فی سبیل اللہ‘‘ یا جہاد سے مراد عسکری جہاد کے علاوہ دیگر قسموں کو مراد لیا ہو یا اس میں زکات کی رقم خرچ کی ہو۔

’’فی سبیل اللہ‘‘ میں تملیک کی شرط:

علماء حنفیہ کے نزدیک زکات کے دیگر مصارف کی طرح ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں بھی تملیک شرط ہے، یعنی زکات کی رقم کا کسی مجاہد کو مالک بنادینا ضروری ہے، مصالح جہاد مثلاً جنگی ساز وسامان زکات کی رقم سے خرید کر رکھنا اور بوقت ضرورت مجاہدین کو محض استعمال کے لئے دینا صحیح نہیں ہے، بلکہ انھیں اس کا مالک بنادینا شرط ہے، حنفیہ کے علاوہ دیگر فقہاء کے نزدیک جنگی ساز وسامان خرید کر’’فی سبیل اللہ‘‘ وقف کیا جاسکتاہے اور بوقت ضرورت مجاہدین کو استعمال کے لئے دیا جائے گا اور استعمال کے بعد اسے واپس لے لیا جائے گا ۔(95)

استحقاق زکات کی شرط:

امام ابوحنیفہ کے نزدیک مجاہد کو جہاد کے لئے بھی زکات اسی وقت دی جاسکتی ہے جبکہ وہ فقیر و محتاج ہو، کسی مالدار کو جہاد کے لئے زکات کی رقم نہیں دی جائے گی، جمہور ائمہ کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے بلکہ مالدار غازی کو بھی جہاد کے لئے زکات دی جائے گی، البتہ امام شافعی اور احمد کے نزدیک یہ شرط ہے کہ حکومت کی طرف سے اس کی تنخواہ مقرر نہ ہو، بلکہ رضاکارانہ طور پر یہ کام انجام دے رہاہو (96)، گویا کہ ایک گونہ احتیاج کی شرط یہاں بھی موجود ہے۔

مسافر:

زکات کا آٹھواں اور آخری مصرف مسافر ہے، سفر بجائے خود ایک ایسی حالت ہے جو انسان کو بے نوا اور محتاج بنادیتی ہے، خصوصاً ان لوگوں کو جن کے پاس زاد راہ نہ ہو، گھر پر رہتے ہوئے کوئی ضرورت پیش آجاتی ہے تو رشتہ دار، دوست اور جان پہچان کے لوگوں کے ذریعہ اس کی تکمیل ہوجاتی ہے، اگر کوئی یونہی دینے کے لئے آمادہ نہ ہو تو قرض ملنے کی امید تو ہوتی ہے، لیکن سفر یقیناً نمونۂ سقر ہے جہاں کوئی کسی پر اعتماد کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے، اس لئے مدد تو دور کی بات ہے قرض دینے والا کوئی نہیں مل سکتا ہے، اس وقت کی محتاجی اور بے چارگی حضر کی محتاجی اور فقیری سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہوتی ہے اس لئے قرآن حکیم نے متعدد جگہوں پر محتاجوں کی فہرست میں مسافرین کو بھی شمار کیا ہے۔
جمہور فقہاء کے نزدیک مصرف زکات وہ مسافر ہے جس کے پاس سفر جاری رکھنے یا واپسی کے لئے زاد راہ نہ ہو، سفر کی شروعات کرنے والے کے پاس اخراجات سفر نہ ہوں تو وہ مصرف زکات نہیں ہے،ایسے شخص کو سفر کرنے کے لئے زکات نہیں دی جائے گی،اس کے برخلاف امام شافعی کے نزدیک ایسا شخص بھی مصرف زکات ہے، اسے زکات کی رقم دی جاسکتی ہے (97) ،لیکن یہ اختلاف حقیقی اور نتیجہ خیز نہیں ہے کیونکہ بالاتفاق تمام فقہاء کے نزدیک مسافر کو زکات دینے کے لئے احتیاج اور فقر شرط ہے اس لئے اگر وہ حالت مسافرت میں احتیاج اور ضرورت کی بنیاد پر زکات لے سکتاہے تو حالت حضر میں فقر و احتیاج کی وجہ سے اسے زکات کی رقم دی جاسکتی ہے تاکہ وہ اس رقم کے ذریعہ سفر کرکے روئے زمین پر رزق تلاش کرے۔

استحقاق زکات کی شرط:

ایک مسافر کو درج ذیل شرائط کے ساتھ زکات کی رقم دی جائے گی:
(الف) ابتداء سفر، سفر جاری رکھنے یا واپسی کے لئے اخراجات سفر نہ ہوں، آخر کی دونوں صورتوں میں اس وقت بھی اسے زکات کی رقم دی جاسکتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر کے مال کے اعتبار سے غنی ہو، لیکن دورانِ سفر وہ محتاج اور ضرورت مند ہے۔
(ب) سفر طاعت ہو یا سفر مباح جیسے حج، جہاد،طلب علم یا تلاش معاش، سیر وتفریح کے لئے سفر کے مسئلہ میں شافعی اور حنبلی علماء سے مختلف رائیں منقول ہیں، ہماری رائے یہ ہے کہ دوران سفر واپسی کے لئے انھیں زکات کی رقم دی جاسکتی ہے لیکن محض سیر و سپاٹا کے مقصد سے ابتداء سفر یا سفر جاری رکھنے کے لئے زکات کی رقم دے کر ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئے۔
معصیت کے لئے مثلاً چوری ،قتل یا حرام تجارت کے لئے سفر کرنے والے کو زکات نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ ایک طرح سے معصیت کے کام میں تعاون ہے، چاہے دوران سفر ہو یا ابتداء سفر، البتہ سفر کی ابتداء معصیت کے ارادہ سے ہو لیکن دوران سفر تائب ہوکر واپس ہونے لگے اور کسی افتاد کی وجہ سے اخراجات سفر ختم ہوجائیں تو اسے زکات دی جائے گی۔ (98)
(ج) بعض شافعی اور مالکی علماء کے نزدیک مسافر کو زکات اس وقت دی جائے گی جبکہ اخراجات سفر کے لئے کوئی قرض دینے والا نہ ہو، لیکن علامہ ابن عربی مالکی اور علامہ قرطبی کے نزدیک مسافر کے لئے قرض مانگنا کوئی ضروری نہیں ہے، یہی رائے امام نووی شافعی کی بھی ہے (99)، حنفی علماء کے نزدیک بہتر تو یہی ہے کہ قرض لے کر کام چلائے تاہم قرض مانگنا لازم اور شرط نہیں ہے۔
حنفی فقہاء کے نزدیک وہ لوگ بھی مسافر کے حکم میں داخل ہیں جو اپنے وطن ہی میں ہوں لیکن اپنے مال تک ان کی پہنچ نہ ہونے کی وجہ سے محتاج اور ضرورت مند ہوں۔(100)
مسافر کے لئے ضرورت سے زائد زکات لینا درست نہیں ہے، لیکن ضرورت کے بقدر لینے کے باوجود کسی وجہ سے مال بچ رہے، مثلاً گم شدہ مال مل جائے تو اس کے لئے زکات کی رقم واپس کرنا ضروری نہیں ہے،جس طرح سے فقیر اگر مالدار ہوجائے تو اس کے پاس زکات کا موجودہ مال صدقہ کرنا واجب نہیں ہے۔یہ علماء حنفیہ کی رائے ہے(101) شافعی اور حنبلی فقہاء کے نزدیک مالدار ہونے کی صورت میں ضرورت سے زائد رقم واپس کرنا ضروری ہے گرچہ اس نے تنگی کے ساتھ خرچ کرکے بچایا ہو۔(102)

شرائط استحقاق زکوۃ:

قرآن کی مذکورہ آیت میں زکات کے کل آٹھ مصارف بیان ہوئے ہیں، زکات کی رقم انھیں لوگوں کو دی جائے گی، لیکن استحقاق زکات کے لئے بعض شرائط ہیں کہ ان شرائط کی موجودگی ہی میں انھیں دینے سے زکات ادا ہوگی اور اگر یہ شرطیں نہ پائی جائیں تو پھر زکات کی ادائیگی درست نہ ہوگی،ان شرائط میں سے بعض پر ائمہ اربعہ کے درمیان اتفاق ہے اور بعض میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
اسلام
متفقہ شرائط میں سے پہلی شرط اسلام ہے، لہٰذا کسی کافر کو زکات نہیں دی جاسکتی ہے، کیونکہ زکات ایک اسلامی فریضہ اور بندگی کا مظہر ہے جو مسلمانوں سے وصول کیا جاتا ہے،اور انھیں میں تقسیم کیا جائے گا، چنانچہ حضرت معاذ کی حدیث گذر چکی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ان علیہم صدقۃ توخذ من اغنیاء ہم فترد الی فقراء ہم‘‘
ان پر زکات ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور انھیں کے فقیروں میں تقسیم کی جائے گی۔
البتہ ’’مولفۃ القلوب‘‘ کے دائرے میں بعض فقہاء کے نزدیک کافر شامل ہیں جیسا کہ اس سے متعلق تفصیل گذر چکی ہے، اور امام احمد کے ایک قول کے مطابق بحیثیت عامل کافر کو بھی زکات دی جاسکتی ہے۔(103)
لیکن یہ اتفاق صرف زکات کے مسئلہ میں ہے، صدقۃ الفطر اور دیگر صدقات واجبہ کے متعلق امام ابوحنیفہ اور امام محمد کی رائے ہے کہ اس کے ذریعہ کافر کی مدد کی جاسکتی ہے، کیونکہ ارشاد ربانی ہے۔
ان تبدوا الصدقات فنعما ہی وان تخفوہا وتؤتوہا الفقراء فہو خیر لکم ویکفر عنکم من سیاتکم۔
اگر تم صدقات کو ظاہر کرکے دو تب بھی ٹھیک ہے، اور اگر مخفی طور پر فقیروں کو دے دو تو زیادہ بہتر ہے،اور اللہ اس کی وجہ سے تمہارے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا۔ (104)
اس آیت میں فقیر کا لفظ عام استعمال ہوا ہے اس لئے کافر و مسلم ہر طرح کے فقیر کو شامل ہے۔
ایسے ہی کفارہ کے سلسلہ میں قرآن حکیم میں کہا گیا ہے :
فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اہلیکم۔
تو اس قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، اوسط درجے کا کھانا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو (105)
نیز صدقات وغیرہ کی رقم کافروں کو دینا حسن سلوک کے دائرہ میں آتا ہے ،اور مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ حسن سلوک سے منع نہیں کیا گیا ہے (106) دیگر فقہاء کے نزدیک صدقۃ الفطر اور کفارہ وغیرہ کی رقم بھی کافر کو نہیں دی جاسکتی ہے ۔(107)
صدقات نافلہ کے مسئلہ میں تمام فقہاء متفق ہیں کہ کافروں کو دیا جاسکتاہے، نیز اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ کافر حربی، مرتد اور ملحد کو نہ صدقات واجبہ دی جاسکتی ہے اور نہ نافلہ، کیونکہ ارشاد باری ہے:
انما ینہاکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم وظاہروا علی اخراجکم ان تولوہم ومن یتولہم فاولئک ہم الظالمون۔
اللہ صرف ان لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کرتاہے جنھوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ کی، تمہیں گھروں سے باہر کیا اور تمہارے نکالنے میں مدد کی اور جو شخص ایسے لوگوں سے دوستی کرتا ہے تو وہ ظالموں میں سے ہے ۔(108)

فقر وحاجت:

زکات کے لئے فقر واحتیاج شرط ہے ،کسی مالدار اور غنی کو زکات دینا درست نہیں ہے، اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے، لیکن مالداری کا معیار کیا ہے؟ اس میں خاصا اختلاف ہے، حنفی فقہاء نے مالداری کے تین درجے متعین کئے ہیں۔
1- وہ مالداری جس کی وجہ سے زکات دینا واجب ہوجاتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص ایسے نصاب نامی کا مالک ہو جو دین سے فارغ ہو، نصاب نامی سے مراد دوسودرہم چاندی یا بیس مثقال سونا یا اس کی قیمت کے بقدر سامان تجارت یا مطلوبہ تعداد کے مطابق جانور ہے، جو شخص ان میں سے کسی چیز کا مالک ہو اور اس کے ذمہ قرض نہ ہو تو سال گذرنے پر اس کے ذمہ زکات واجب ہے۔
2 -وہ مالداری جس کی وجہ سے زکات لینا حرام ہے،وہ یہ ہے کہ کوئی شخص نصاب نامی کا مالک نہ ہو لیکن اس کے پاس ضرورت سے زائد مکان، کپڑا،سواری کے جانور، اتنے ہوں کہ ان کی مالیت دوسودرہم کے بقدر ہو، ایسے شخص پر گرچہ زکات واجب نہیں ہے لیکن زکات لینا بھی درست نہیں ہے۔
3 -وہ مالداری جس کی وجہ سے زکات لینا درست ہے، مگر مانگنا حرام ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص نہ تو نصاب نامی کا مالک ہو اور نہ ہی ضرورت سے زائد دوسودرہم کی مالیت کے بقدر حاجت اصلیہ رکھتاہو مگر اس کے اندر کمانے کی صلاحیت ہے وہ کماکر کھا سکتا ہے، اپنی زندگی گذار سکتا ہے یا اس کے پاس ایک دن وایک رات کے گذارے کے بقدر مال ہو یا پچاس درہم کا مالک ہو ایسے شخص کے لئے زکات لینا درست ہے لیکن دست طلب دراز کرنا جائز نہیں ہے۔(109)
امام مالک ،شافعی اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل کے نزدیک مالداری کی کوئی متعین حد نہیں ہے بلکہ جس کی اور جس کے اہل وعیال کی ضروریات زندگی کی تکمیل ہوجاتی ہو وہ مالدار ہے، خواہ ان ضروریات کی تکمیل کسی موجود مال کے ذریعہ ہورہی ہو یا کسب وعمل کے ذریعہ، اور جس کی زندگی کی ضروریات موجود مال اور کسب و عمل کے ذریعہ پوری نہ ہوں وہ محتاج اور فقیر ہے گرچہ وہ متعدد نصاب نامی کا مالک ہو۔
امام احمد کا دوسرا قول یہ ہے کہ جو شخص پچاس درہم یا اس کی قیمت کے بقدر سونے کا مالک ہو، یا تجارت،کسب وعمل، زمین وجائداد وغیرہ سے اتنی آمدنی ہوجاتی ہو جو اس کی ضروریات کے لئے کافی ہو تو وہ مالدار ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو فقیر ہے، حضرت سفیان ثوری اور ابن المبارک، اسحق بن راہویہ وغیرہ کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے، امام احمد کے پہلے اور دوسرے قول میں فرق یہ ہے کہ پہلے کا دارومدار کفایت پر ہے، خواہ یہ کفایت درہم ودینار کے ذریعہ حاصل ہو یا اس کے علاوہ کسی دوسری چیز سے، اس کے برخلاف دوسری روایت میں درہم ودینار اور دیگر چیزوں میں فرق کیا گیا ہے کہ درہم ودینار میں مالداری کے لئے ایک متعین حد ہے اور اس کے علاوہ دیگر چیزوں میں پہلے قول کی طرح مالداری کو معیار بنایا ہے (110) اس دوسرے قول کی بنیاد اس حدیث پر ہے۔
عن عبداللہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سال ولہ ما یغنیہ جاء ت یوم القیامۃ خدوشا اوکدوشا فی وجہہ قالوا یا رسول اللہ وما غناہ قال خمسون درہما او حسابہا من الذہب۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص غنی ہونے کے باوجود مانگتا ہے وہ قیامت کے دن اس حال میں ہوگا کہ مانگنے کی وجہ سے اس کے چہرے پر خراشیں پڑی ہوں گی، لوگوں نے دریافت کیا،کوئی شخص غنی کب ہوگا ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جبکہ اس کے پاس پچاس درہم یا اس کی قیمت کے بقدر سونا ہو۔ (111)
اس روایت پر امام شعبہ نے حکیم بن جبیر کی وجہ سے کلام کیا ہے لیکن ان کے علاوہ ایک دوسرے راوی زبید بن حارث سے بھی یہ حدیث منقول ہے جو ثقہ اور قابل اعتماد ہیں، اس لئے حدیث قابل استدلال ہے(112)،لیکن موضوع سے غیر متعلق ہے، کیونکہ اس روایت سے محض اتنا معلوم ہورہا ہے کہ جو شخص پچاس درہم یا اس کی مالیت کے بقدر سونے کا مالک ہو اس کے لئے دست سوال دراز کرنا جائز نہیں ہے، لیکن ایسے شخص کے لئے زکات حلال ہے یا نہیں ؟ حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔(113)
امام مالک ،شافعی اور امام احمد بن حنبل کی پہلی روایت کی بنیاد اس حدیث پر ہے:
عن قبیصت بن مخارق الہلالی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تحل المسالۃ الا لاحد ثلاثۃ رجل یحمل حمالۃ فحلت لہ المسالۃ حتی یصیب قواما من عیش ورجل اصابتہ فاقۃ حتی یقول ثلاثلۃ من ذری الحجا من قومہ لقد اصابتہ فلانا فاقۃ فحلت لہ المسا لۃ حتی یصیب قواما من عیش فما سواہن من المسالۃ فسحت یا قبیصۃ یا کلہا صاحبہا سحتا۔ رواہ احمد ومسلم والنسائی وابوداؤد۔
قبیصہ بن مخارق ہلالی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مانگنا صرف تین شخصوں کے لئے جائز ہے، ایک وہ آدمی جس نے صلح کرانے کے لئے کوئی مالی ذمہ داری قبول کرلی ہو تو اس کے لئے مانگنا جائز ہوجاتا ہے،یہانتک کہ اس کے بقدر حاصل کرے پھر سوال سے باز رہے، دوسرے وہ آدمی جس کا مال کسی آفت کی وجہ سے تباہ ہوجائے تو اس کے لئے مانگنا حلال ہوجاتا ہے یہانتک کہ گذارے کے بقدر مال حاصل کرلے، تیسرا وہ آدمی جو فاقہ کی مصیبت سے دوچار ہے اور اس کی قوم کے تین عقلمند اس کی فاقہ کشی کی اطلاع دے رہے ہیں تو اس کے لئے مانگنا درست ہوتاہے اس کے علاوہ مانگ کر لینا حرام ہے، قبیصہ! اس طرح سے مانگ کر کھانے والا حرام کھاتا ہے، امام احمد،مسلم،نسائی اور ابوداؤد نے اس کی روایت کی ہے۔(114)
اس حدیث کی صحت پر کلام نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن یہ حدیث بھی اپنے موضوع پر صریح نہیں ہے کیونکہ اس میں بے ضرورت سوال کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے، اور بطور تشدید ایسے مال کو’’سحت‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، ایسے شخص کو زکات دینا جائز ہے یا نہیں؟ روایت میں اس کا تذکرہ نہیں ہے، دراصل اس طرح کی احادیث سوال کی حوصلہ شکنی اور دریوزہ گری کے سد باب سے متعلق ہیں، چنانچہ بعض احادیث میں یہانتک کہا گیا ہے :
من سال وعندہ ما یغنیہ فانما یستکثر من جمر جہنم قالوا یا رسول اللہ وما یغنیہ قال ما یغدیہ او یعشیہ، رواہ احمد واحتج بہ ابوداؤد وقال الشوکانی اخرجہ ابن حبان وصححہ۔
جو شخص غنی ہونے کے باوجود دست سوال دراز کرتاہے وہ جہنم کے شعلے کو طلب کرتا ہے لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! غنی ہونے کی کیا صورت ہے؟ آپ نے فرمایا: جبکہ اس کے پاس صبح وشام کا گذارا موجود ہو امام احمد نے اس کی روایت کی ہے اور امام ابوداؤد نے اسے بطور حجت پیش کیا ہے، علامہ شوکانی نے کہاکہ ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے(115)
اس لئے اختلاف درحقیقت اس بنیاد پر ہے کہ مالداری ایک شرعی اصطلاح ہے یا لغوی مفہوم مراد ہے؟ جن لوگوں کے نزدیک غنا کا لغوی مفہوم مراد ہے وہ کہتے ہیں کہ جو شخص ضرورت مند نہ ہو وہ مالدار ہے اور جو محتاج اور نیاز مند ہے وہ فقیر ہے، جیسا کہ امام مالک ،شافعی، اور امام احمد بن حنبل کا خیال ہے، اس کے برخلاف ائمہ حنفیہ کے نزدیک’’غنا‘‘ ایک شرعی اصطلاح ہے، شریعت نے اس کے لئے ایک مخصوص نصاب متعین کیا ہے لہٰذا جو شخص بھی اس نصاب کا مالک ہو وہ غنی اور مالدار ہے اور جو اس کا مالک نہ ہو وہ فقیر اور نادار ہے (116)،اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس سلسلہ سے متعلق تمام احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے غنا کے تین درجات متعین کئے، اور کہا کہ جس کے پاس نصاب نامی کے بقدر مال ہو اس پر زکوۃ واجب ہے کیونکہ شریعت نے زکات دینے کے لئے جو معیار متعین کیا ہے یہ شخص اس معیار پر پورا اترتا ہے، اور کوئی شخص مال نامی کا مالک نہ ہو لیکن اس کے سوا دیگر مال وجائداد ضرورت سے زائد اس کے پاس موجود ہیں اور ان کی مالیت دوسو درہم کے بقدر ہے تو وہ بھی ایک طرح سے غنی ہے کیونکہ ایک نصاب کے مالیت کے بقدر مال اس کے پاس موجود ہے، لہٰذا اس کے لئے زکات لینا حرام ہے لیکن ایک حیثیت سے وہ فقیر بھی ہے کہ غنی کی شرعی تعریف اس پر صادق نہیں آتی ہے اس لئے اسے زکات ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اور اگر کسی کے پاس مال وجائداد نہیں ہے، یا محض بقدر ضرورت ہے لیکن اس میں کمانے طاقت وقوت اور صلاحیت موجود ہے تو سوال سے اسے روکنا چاہئے تاکہ کسی پر بوجھ بن کر نہ رہے بلکہ اپنی صلاحیت کو استعمال کرکے خود فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو فائدہ پہونچائے، اس کا بیکار بیٹھے رہنا جرم ہے لیکن باعتبار حقیقت یہ محتاج اور ضرورت مند ہے لہٰذا اسے زکات دی جاسکتی ہے۔
نیز ان کے پیش نظر یہ بات بھی ہے کہ اموال زکات میں اکتناز اور ذخیرہ اندوزی درست نہیں ہے لہٰذا جس شخص کے پاس بھی اموال زکات سال بھر تک موجود رہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ زکات ادا کرے تاکہ ذخیرہ اندوزی کی کیفیت پیدا نہ ہو نیز ایسا شخص جو سال بھر تک اموال زکات کو روکے رکھتا ہے اسے محتاج کیسے مانا جائے گا، اگر وہ واقعی ضرورت مند ہے تو ان اموال کو بازار میں لاکر اپنی ضرورت پوری کرے۔

فقر واحتیاج ہر مصرف کے لئے ضروری ہے:

علماء حنفیہ کے نزدیک فقر و احتیاج ہر مصرف کے لئے ضروری ہے، سوائے عامل اور مولفۃ القلوب کے، دیگر ائمہ اس کے ساتھ غازی اور قرض لیکر مسلمانوں کے درمیان نزاع واختلاف کو ختم کرانے والے کا بھی استثنا کرتے ہیں، مسافر، ذاتی ضرورت کے تحت قرض لینے والے اور مکاتب میں بالاتفاق فقر و احتیاج شرط ہے، جمہور ائمہ کے استدلال کی عمارت اس حدیث پر قائم ہے:
عن ابی سعید الخدری عن النبی صلی اللہعلیہ وسلم قال لا تحل الصدقۃ لغنی الا لخمسۃ لغاز فی سبیل اللہ او لعامل علیہا او لغارم او لرجل اشتراہا بما لہ او لرجل لہ جار مسکین فتصدق علی المسکین فاہدی المسکین للغنی۔
حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ طرح کے مالداروں کے علاوہ کسی اور مالدار کے لئے زکات حلال نہیں ہے، وہ پانچ یہ ہیں: اللہ کی راہ میں جنگ کرنے والا، وصولی زکات کے لئے کام کرنے والا،مقروض، جس شخص نے صدقہ کی چیز کو کسی فقیر سے خرید لیا ہو، کسی شخص کے مسکین پڑوسی کو صدقہ دیاگیا اوراس نے مالدار کو بطور ہدیہ دے دیا۔
امام مالک اور امام داؤد وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے اور علامہ نووی نے کہا کہ حدیث حسن یا صحیح ہے (117) .
ائمہ حنفیہ کے دلائل یہ ہیں۔
1۔ فاعلمہم ان اللہ افترض علیہم صدقۃ توخذ من اغنیاء ہم فترد علی فقراء ہم
انھیں بتلاؤ کہ اللہ نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے فقیروں پر خرچ کیا جائے گا۔
علامہ کاسانی کہتے ہیں اس روایت میں انسانوں کو دو گروہ میں بانٹ دیا گیا ہے، ایک وہ جس سے زکات لی جائے گی اور وہ مالدار ہے، دوسرا وہ جسے زکات دی جائے گی اور وہ فقیر ہے، لہٰذا غنی اور مالدار کو زکات دینے کا مطلب ہے کہ پھر اس تقسیم کا کوئی مفہوم اور فائدہ نہیں ہے، بلکہ یہ تقسیم ہی باطل ہوجائے گی (118) اور علامہ ابن ہمام کہتے ہیں کہ یہ خیال غلط ہے کہ اس حدیث میں زکات کا صرف ایک مصرف بیان کیا گیا ہے دیگر مصارف کے بیان سے حدیث خاموش ہے لہٰذا حضرت ابوسعید خدری کی روایت اور اس حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ یہ تعلیم اور مکمل بیان اور وضاحت کا موقع ہے، کیونکہ یہ بات آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن بھیجتے ہوئے ارشاد فرمائی تھی، اور لفظ فقیر سے سمجھا جارہا ہے کہ اس سے وہ شخص مراد ہے جس میں فقر کی صفت ہو،چاہے وہ مقروض ہویا مجاہد، لہٰذا اگر مالدار مجاہد اور مقروض کو زکات دینا درست ہو تو یہ بوقت ضرورت وضاحت نہ کرنے سے بڑھ کر ہوگا… نیز آیت میں مذکور اسماء خود دلالت کرتے ہیں کہ انھیں زکات دینے کا دارومدار احتیاج ہے کیونکہ یہ معلوم ہے کہ جب حکم کسی مشتق پر لگایا جاتا ہے تو ماخذ اشتقاق علت ہوتا ہے اور ان اسماء کا ماخذ اشتقاق حاجت کو بتلاتا ہے لہٰذا حاجت ہی زکات دینے کی علت ہے، سواء مولفۃ القلوب اور عامل کے کہ پہلے میں علت تالیف قلب ہے اور دوسرے میں عامل کا عمل ۔(119)
2۔ عن عبیداللہ بن عدی قال اخبرنی رجلان انہا اتیا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع وہو یقسم الصدقۃ فسئلاہ منہا فرفع فینا البصر وخفضہ فرأنا جلدین فقال ان شئتما اعطیتما ولا حظ فیہا لغنی ولا لقوی مکتسب۔
عبیداللہ بن عدی سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حجۃ الوداع کے موقع پر آئے اس وقت آپ ﷺصدقات تقسیم کررہے تھے، ان دونوں نے بھی اس میں سے مانگا، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر دیکھا تو یہ دونوں قوی اور تندرست نظر آئے تو فرمایا کہ اگر چاہو تو میں دے دوں گا، لیکن اس میں کسی مالدار اور کمانے والے تندرست کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔(120)
3۔ عن عبداللہ بن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تحل الصدقۃ لغنی ولا لقوی مرۃ سوی۔
حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ کسی مالدار اور تندرست، طاقتور کے لئے درست نہیں ہے۔(121)
یہ دونوں حدیثیں اسنادی حیثیت سے صحیح بھی ہیں اور اپنے موضوع پر صریح بھی لیکن مشکل یہ ہے کہ علماء حنفیہ توانا اور کمانے پر قادر شخص کو زکات دینے کو درست قراردیتے ہیں اور اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ زجر و توبیخ پر محمول ہے تو کیا دوسرے فقہاء کے لئے اس کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ حضرت ابوسعید خدری کی مذکورہ حدیث کی وجہ سے مالدار کے حق میں بھی یہی مفہوم مراد لیں یا اس حدیث کے عموم میں تخصیص اور استثنا کریں؟۔
جمہور کی طرف سے پیش کردہ حضرت ابوسعید خدری کی روایت مختلف طریقوں سے توجیہ وتاویل کی گئی ہے، بعض حضرات نے اس روایت پر سند ومتن کی حیثیت سے کلام کیا ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اسنادی حیثیت سے یہ روایت اگر صحیح نہیں ہے تو حسن ضرور ہے، جیسا کہ امام نووی نے لکھا ہے۔ بعض حضرات نے اسے صحیح تسلیم کرتے ہوئے حضرت معاذ کی حدیث کے معارض دکھانے کی کوشش کی ہے، اور کہا ہے کہ حضرت معاذ کی حدیث جسے امام بخاری ومسلم وغیرہ نے نقل کیا ہے اسنادی حیثیت سے قوی ہے لہٰذا اسے ترجیح دی جائے گی، ہمارے خیال میں ان دونوں احادیث میں تعارض ثابت کرنا بھی بڑا دشوار ہے، البتہ حدیث کی قابل قبول توجیہ کی جاسکتی ہے کہ مالدار مجاہد اور مقروض سے مراد وہ مجاہد اور مقروض ہے جو بظاہر مالدار ہو، اس کے پاس دوسو درہم یا اس کے علاوہ دیگر اموال زکات نصاب کے بقدر موجود ہیں لیکن ادائیگئ قرض کے بعد وہ صاحب نصاب نہ رہے، جنگی سازوسامان اور جہاد کے سفری اخراجات کی تکمیل اس سے نہیں ہوسکتی ہے تو ایسے شخص کو جو بظاہر مالدار ہے حقیقت پر نظر رکھتے ہوئے زکات دی جاسکتی ہے، امام جصاص رازی اور علامہ کاسانی نے یہی تاویل اختیار کی ہے (122)، اور یہ نہایت عمدہ اور قوی توجیہ ہے۔
جو لوگ تمام مصارف کے لئے فقر و احتیاج ضروری قرار دیتے ہیں ان کے اس نظریہ پر دو اعتراض کیا جاتا ہے ایک یہ کہ محض فقر و حاجت ہی علت ہے تو پھر آٹھ مصارف کا ذکر بے معنی اور فضول تکرار ہے، حالانکہ اللہ کا کلام اس سے منزہ اور پاک ہے، دوسرے یہ کہ عامل زکات اور مولفۃ القلوب کا استثناء کس بنیاد اور دلیل پر ہے؟۔
پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ پھر تو مساکین، مسافرین، ذاتی مقصد کے لئے قرض لینے والا اور مکاتب کا ذکر بھی بے معنی ہونا چاہئے کیونکہ ان سب میں بہ اتفاق فقرواحتیاج شرط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فقر وحاجت زکات کے لئے بنیادی شرط ہے اور فقر وحاجت کی مختلف صورتیں اور شکلیں ہیں، قرآن نے ان میں سے چند اہم صورتوں کا تذکرہ کیا ہے، عمومی طور پر پہلے فقراء اور مساکین کو ذکر کیا اور اس کے بعد مخصوص حاجت مندوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآن مجید کی بعض دوسری آیتوں میں کہا گیا ہے :
واتی المال علی حبہ ذوی القربی والیتامی و المساکین وابن السبیل۔
اور اللہ کی محبت میں قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافر کو مال دیتا ہو۔ (123)
یہ آیت یا اس جیسی دیگر آیتوں میں سب کے سب ضرورت مند ہیں اور ہر ایک میں بنیادی طور پر احتیاج شرط ہے تو کیا اس وجہ سے اسے فضول تکرار کیا جاسکتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ بعض اوقات اس طرح کی تفصیل کے ذریعہ بعض ایسی چیزوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے جو عمومی طور پرکسی حکم میں شامل تو ہوتے ہیں لیکن امکان ہے کہ کچھ لوگوں کی نگاہ اس پر نہ پڑے یا اس کی طرف خصوصی توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے، یہی بات آیت مصارف میں ہے کہ فقیر ومسکین کے دائرے میں بقیہ چھ مصارف بھی داخل ہیں لیکن ان کی اہمیت کے پیش نظر خصوصی طور سے ان کا تذکرہ کیا گیا اور اس لئے بھی کہ ممکن ہے کہ ایک مکاتب بذات خود مالدار ہو لیکن گلوخلاصی کے لئے ضرورت مند ہو، مقروض بظاہر مالدار نظر آتا ہے لیکن اس کے موجودہ مال کے ذریعہ اس کے قرض کی ادائیگی نہیں ہوسکتی ہے، مسافر اپنے لباس وپوشاک سے مالدار نظر آتاہے اور حقیقت کے اعتبار سے وہ مالدار ہے بھی مگر وہ مال گھر پر ہے، سفر میں وہ ضرورت مند اور محتاج ہے(124)، ایک شخص حضری زندگی کے اعتبار سے مالدار ہے لیکن سامان حرب وضرب اور سفری اخراجات کے اعتبار سے ضرورت مند ہے، ان کی ظاہری حالت کو دیکھ کر خیال ہوسکتا ہے کہ ان کو زکات دینا کیونکر درست ہوگا اس لئے قرآن نے صراحت کردی کہ ان کی ضرورت پر نگاہ رکھو، اگر بظاہر مالدار ہونے کے باوجود ضرورت مند اور محتاج ہوں تو انھیں زکات کی رقم دی جائے گی۔
دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ عامل زکات کو صدقہ کی رقم نہیں دی جاتی ہے بلکہ وہ فقراء کے وکیل ہوتے ہیں اور وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ مانا جاتا ہے اس اعتبار سے زکات عامل کے قبضہ میں آتے ہی فقراء کی ملکیت میں آجاتی ہے اور فقراء کی طرف سے بطور حق الخدمت عامل کو دیا جاتا ہے لہٰذا یہ زکات نہیں ہے بلکہ فقراء کی طرف سے ایک طرح سے اجرت اور مزدوری ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی فقیر کسی مالدار کو بطور تحفہ زکات کی رقم دے دے تو اس کے لئے لینا جائز ہے، ایسے ہی مولفۃ القلوب کو دیا جاتا ہے تاکہ فقراء اور تمام مسلمان اس کی ایذارسانی سے محفوظ رہیں، امام جصاص رازی نے ان دونوں کے استثنا کی یہی دلیل ذکر کی ہے (125)،مجھے عامل زکات کے سلسلہ میں اس دلیل سے اتفاق ہے مگر ’’مولفۃ القلوب‘‘ سے متعلق یہ تاویل برائے تاویل ہی کہی جاسکتی ہے اور اس طرح کی تاویل کے ذریعہ مجاہد اور اصلاح ذات البین کے لئے قرض لینے والے کا بھی استثناء کیا جاسکتا ہے، اس لئے میری نگاہ میں صحیح یہی ہے جیسا کہ ’’مولفۃ القلوب‘‘ کے ذیل میں تفصیل سے ذکر کیا جاچکا ہے۔ مولفۃ القلوب کے لئے بھی فقر شرط ہے، اور اگر استثناء ہے تو صرف عامل کا۔

توانا فقیر:

وہ نادار جو جسمانی اعتبار سے صحت مند ،سلیم الاعضاء اور کمانے کی طاقت وصلاحیت رکھتا ہو اور اس کے لائق مناسب کام بھی موجود ہو مگر کاہلی اور سستی کی وجہ سے کام نہ کرنے کی بناپر ضرورت مند اور محتاج ہو تو اسے زکات دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، امام ابوحنیفہ اور مالک کے نزدیک ایسے شخص کو بھی زکات دی جاسکتی ہے، امام شافعی اور احمد بن حنبل کے نزدیک ایسا شخص زکات کا حقدار نہیں ہے، کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لا تحل الصدقۃ لغنی ولا لذی مرۃ سوی۔
کسی مالدار اور تندرست وتوانا کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے۔
امام ابو داؤد اور ترمذی نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے، بعض لوگوں نے اسنادی حیثیت سے اس پر کلام کیا ہے لیکن ایک دوسری سند نیز متعدد صحابہ کرام سے اس طرح کی حدیث منقول ہونے کی وجہ سے حدیث درجہ حسن میں آجاتی ہے اور لائق استدلال ہے۔ (126)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ کی درخواست لے کر آئے آپ نے دیکھا کہ وہ توانا اور تندرست ہیں تو فرمایا:
ان شئتما اعطیتکما ولا حظ فیہا لغنی ولا لقوی مکتسب۔
اگر تم چاہو تو دے سکتا ہوں، لیکن صدقات میں کسی مالدار اور طاقتور کمانے والے کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
امام احمد اور ابوداؤد اور نسائی نے اس کی روایت کی ہے، اور امام احمد کہا کرتے تھے کہ اس سلسلہ کی احادیث میں اس حدیث کی سند سب سے عمدہ ہے (127) اور امام نووی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ (128)
حنفی اور مالکی علماء کہتے ہیں کہ ایسے شخص کے لئے دست سوال دراز کرنا ممنوع اور ناجائز ہے، سوال اور گداگری کی حوصلہ شکنی ہی کرنے کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تندرست اور کمانے والے کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے، لیکن استحقاق زکات کی اصل علت فقروضرورت ہے اور وہ اس میں موجود ہے لہٰذا اسے زکات دے دی جائے تو ادا ہوجائے گی، البتہ بہتر ہے کہ ایسے شخص کو زکات نہ دی جائے،خود ممانعت کی حدیث میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے کہ ایسے شخص کو زکات دی جاسکتی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکات کی درخواست کرنے والے تندرست وتوانا سے کہا تھا کہ ’’ان شئتما اعطیتکما‘‘ اگر تم چاہو تو میں تمہیں دے سکتا ہوں، اگر انھیں زکات دینی درست نہ ہوتی تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد نہ فرماتے۔
جو لوگ تندرست اور کمانے والے کے لئے زکات درست قرار نہیں دیتے ہیں ان کے نزدیک شرط یہ ہے :
(الف) اس کے لائق اور مناسب کام ملتا ہو، اگر تندرست وتوانا ہے لیکن تلاش کے باوجود کام نہیں ملتا ہے تو وہ زکات کا مستحق ہے، یا کام تو ملتا ہے لیکن اس کے معیار اور حالت کے مناسب نہ ہو تو وہ بھی زکات لے سکتا ہے۔
(ب) وہ کام شرعی طور پر جائز اور حلال ہو۔
(ج) اس کام میں برداشت سے زیادہ بوجھ نہ پڑے۔
(د) اس کمائی سے اتنا حاصل ہوجائے کہ اس کے لئے اور اس کے اہل وعیال کے لئے کافی ہو۔
اگر کسی تندرست وتوانا شخص میں یہ شرطیں نہ پائی جائیں تو وہ زکات لے سکتا ہے (129)
واضح رہے کہ امام شافعی اور احمد کے نزدیک بھی یہ شرط صرف فقیر و مسکین کے لئے ہے، مقروض، مسافر،مکاتب،مجاہد وغیرہ میں بالاتفاق یہ شرط نہیں ہے۔

طالب علم اور عبادت گذار فقیر:

کوئی شخص تندرست اور کمانے کی صلاحیت وطاقت رکھتا ہے لیکن شرعی علوم کے حصول میں مشغول ہے تو بہ اتفاق اسے زکات دی جاسکتی ہے بلکہ ایسے شخص کو زکات دینا بہتر ہے، کیونکہ حصول علم فرض ہے اور بیک وقت حصول علم اور تلاش معاش مشکل اور دشوار ہے، لیکن یہ حکم اسی وقت تک ہے جبکہ حصول علم فرض عین ہو بایں طور کہ وہ دین کی ضروریات سے ناواقف ہے لیکن اگر اس حد تک علم حاصل کرچکا ہے اور اب ایسے علوم کی طلب میں ہے جن کا حصول فرض کفایہ ہے تو ایسے شخص کو زکات دینے کے لئے بعض شافعی علماء نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ لائق اور شریف ہو اور اس کے حصول علم سے عام مسلمانوں کا نفع متعلق ہو۔
کمانے پر قادر شخص عبادت وریاضت کی وجہ سے کام نہ کرسکے تو اسے زکات دینا درست نہیں ہے کیونکہ اسلام میں اس طرح سے عبادت و ریاضت کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور زمین میں پھیل کر اللہ کے رزق کو تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
طالب علم اور عبادت گذار کے سلسلہ میں یہ تمام تر تفصیل فقہ شافعی اور حنبلی کے مطابق ہے(130)،حنفی اور مالکی فقہ میں اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے بلکہ ہر محتاج اور ضرورت مند کو زکات دی جاسکتی ہے۔

آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم:

خاندان نبوت کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے، اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ ان کے ہاتھ عوامی مال سے آلودہ نہ ہوں، وہ زکات و صدقات کی طرف کبھی نگاہ اٹھاکر نہ دیکھیں، وہ زکات لیتے ہوئے کراہیت اور ہتک شان کا احساس کریں اور لوگ انھیں زکات دیتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کریں کہ انھیں زکات دے کر ان کی حیثیت کو مجروح کرنا ہے، اس لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الصدقۃ لا تحل لمحمد ولا لآل محمدانما ہی اوساخ الناس۔
صدقہ محمد اور آل محمد کے لئے حلال نہیں ہے، یہ تو لوگوں کے مال کا میل کچیل ہے۔ (131)
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت حسن نے ایک مرتبہ صدقات کی کھجور میں سے ایک کھجور منہ میں اٹھا کر ڈال لیا تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تھو،تھو، جلدی منہ سے نکالو، کیا تمہیں علم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ تمہیں علم نہیں کہ آل محمدکے لئے صدقہ حلال نہیں ہے (132) یہانتک کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع نے وصولی زکات کے لئے اجازت چاہی تو فرمایا:
ان الصدقۃ لا تحل لنا وان موالی القوم من انفسہم۔
ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ہے اور کسی قوم کے آزادکردہ غلام انھیں میں شمار ہوتے ہیں ۔(133)
ان احادیث کی بنا پر جمہور فقہاء اس کے قائل ہیں کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زکات حرام ہے، صرف امام مالک سے ایک قول جواز کا منقول ہے۔

آل نبی سے کیا مراد ہے:

آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بہ اتفاق بنی ہاشم شامل ہیں، بنی ہاشم سے مراد آل عباس،آل علی،آل جعفر، آل عقیل اور حارث بن عبدالمطلب کی اولاد ہیں، آل ابولہب اس حکم میں شامل نہیں ہیں کیونکہ بنی ہاشم کے لئے زکات کی حرمت بطور تعظیم و شرافت ہے، نیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و مدد اور معاونت کی وجہ سے اس کے بدلے میں انھیں خمس (غنیمت کا پانچواں حصہ) میں سے دیا جاتا ہے، چونکہ ابولہب نے آپ کی نصرت و مدد نہیں کی تھی بلکہ ہمیشہ درپئے آزار تھا، اس لئے اس کی اولاد اس اعزاز سے محروم رہے گی(134)، بنی مطلب آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں شامل ہیں یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں فقہاء کے درمیان قدرے اختلاف ہے، امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک یہ لوگ آل محمد میں شامل نہیں ہیں، امام احمد سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے دوسرے قول کے مطابق بنی مطلب بھی اس حکم میں شامل ہیں، ان کی دلیل یہ حدیث ہے:
عن جبیر بن مطعم قال مشیت انا وعثمان بن عفان الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقلنا یا رسول اللہ اعطیت بنی المطلب من خمس خیبر وترکنا ونحن وہم بمنزلۃ واحدۃ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انما بنو المطلب وبنو ہاشم شئ واحد۔
جبیربن مطعم کہتے ہیں کہ میں اور عثمان بن عفان نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ نے خیبر کے’’خمس‘‘ سے بنی مطلب کو دیا اور ہمیں محروم رکھا، حالانکہ ہم اور وہ ایک ہی ہیں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی ہاشم اور مطلب ایک ہی ہیں۔ (135)
امام شافعی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس میں بنی ہاشم کے ساتھ بنی مطلب کو بھی شامل کیا اور ان کے علاوہ دیگر قبائل قریش کو اس میں سے کچھ نہیں دیا، اور خمس صدقہ سے محرومی کا بدلہ ہے لہٰذا جب بنی مطلب کو خمس میں سے دیا جاتا ہے تو وہ صدقہ سے محروم رہیں گے، لیکن یہ دلیل اس وقت تام ہوتی جبکہ ’’خمس‘‘ وغیرہ کو صدقہ کا عوض تسلیم کرلیا جائے، حالانکہ روایت میں اس کی کوئی صراحت نہیں ہے بلکہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی مطلب کو ’’خمس‘‘ میں شریک کرنے کی علت نصرت و مدد ہے، چنانچہ مطّلب نے ہر موقع پر بنی ہاشم کی مدد کی یہانتک معاشی بائیکاٹ میں کافر ہونے کے باوجود ان کے ساتھ رہے۔

خمس سے محروم ہونے کی صورت میں:

آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زکات وصدقات سے دور رکھا گیا اور مال غنیمت وغیرہ کے پانچویں حصہ سے ان کی ضروریات کی تکمیل کی گئی، اس لئے ائمہ کا اتفاق رہا کہ انھیں زکات نہیں دی جائے گی لیکن جب وہ ’’خمس‘‘ سے محروم کردیئے گئے اور ان کے لئے یہ مد باقی نہ رہا تو بعض فقہاء نے فتویٰ دیا کہ اب ان کے لئے زکات حلال ہے، جیسا کہ امام ابوحنیفہ سے ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے اور امام محمد کہتے ہیں کہ
وبالجواز ناخذ لان الحرمۃ مخصوصۃ بزمانہ علیہ الصلوٰۃ والسلام۔
جواز ہی پر ہمارا عمل ہے کیونکہ حرام ہونے کا حکم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی تک محدود ہے ۔(136)
اور امام طحاوی لکھتے ہیں :
ان الصدقات انما کانت حرمت علیہم من اجل ما جعل لہم فی الخمس سہم ذوی القربیٰ فلما انقطع ذالک منہم ورجع الیٰ غیرہم بموت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حل لہم بذالک ما قد کان محرما علیہم من اجل ماقد کان احل لہم۔
بنی ہاشم پر صدقات اس لئے حرام تھا کہ’’خمس‘‘ میں ذوی القربیٰ کا حصہ تھا،اور جب ان کا حصہ ختم ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے دوسروں کی طرف منتقل ہوگیا تو اس کی وجہ سے جو ان کے لئے حرام تھا اب حلال ہوگیا۔
امام طحاوی کہتے ہیں کہ اسی پر ہمارا عمل ہے وبہ ناخذ ۔(137)
امام مالک سے بھی ایک قول جواز کا منقول ہے، فقہاء مالکیہ میں ابہری کا اسی طرف رجحان ہے (138) فقہاء شوافع میں سے ابوسعید اصخری اسی کے قائل ہیں اور محمد بن یحیٰ اسی کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے (139)، حنبلی فقہاء میں قاضی یعقوب اور امام ابن تیمیہ نے اسی کو ترجیح دی ہے چنانچہ وہ کہتے ۔
وبنو ہاشم اذا منعوا من خمس الخمس جاز لہم الاخذ من الزکات…لانہ محل حاجۃ وضرورۃ۔
بنی ہاشم جب ’’خمس‘‘ سے محروم کردیئے گئے تو ان کے لئے زکات جائز ہے….. اس لئے کہ وہ ضرورت وحاجت کا محل ہے ۔(140)
فقہاء کی آراء کو نقل کرتے ہوئے ان کے دلائل کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، وہ دلائل قدرے مجمل ہیں اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ان کی کچھ وضاحت کردی جائے، جو لوگ جواز کے قائل ہیں ان کے اقوال کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاً وہ بنی ہاشم کے لئے زکات کو ناجائز اور حرام قرار دیتے ہیں، لیکن ’’خمس‘‘ سے محروم ہوجانے کی وجہ سے ان کے لئے زکات کو درست کہتے ہیں، کیونکہ
(الف) سادات پر زکات حرام قرار دینے کی علت شرافت و کرامت نہیں بلکہ نصرت و معاونت ہے اور اس نصرت ومعاونت کی وجہ سے صدقات کے بدلے میں انھیں ’’خمس‘‘ دیا گیا، چنانچہ بعض روایتوں میں کہا گیا ہے کہ
لا یحل لکم اہل البیت من الصدقات شئ انما ہی غسالۃ الایدی وان لکم فی خمس الخمس لما یغنیکم۔
اہل بیت کے لئے صدقات میں سے کچھ بھی حلال نہیں ہے، یہ ہاتھوں کا دھون ہے اور تمہارے لئے خمس ہے جو تمہیں اس سے بے نیاز کردے گا۔ (141)
اور جب ’’خمس‘‘ ان کے لئے باقی نہ رہا ، جس کی وجہ سے انھیں زکات سے منع کیا گیا تھا وہ ختم ہوگیا تو اب ان کے لئے زکات حلال ہے، اس دلیل کی بنیاد اس پر ہے کہ’’خمس‘‘ زکات کا عوض ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ کسی حدیث میں اس کی وضاحت نہیں ہے، اس لئے اس دلیل میں کوئی خاص وزن نہیں ہے۔
(ب) بنی ہاشم پر زکات حرام ہونے کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک محدود تھا، شیخ یوسف قرضاوی کہتے ہیں کہ اس خیال کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ حرمت سے متعلق احادیث میں’’آل‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اور قرآن حکیم کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ آل سے مراداہل بیت بمعنیٰ بیٹا، پوتا،بیوی اور قریبی رشتہ دار ہیں، قیامت تک آنے والی ذریت مراد نہیں ہے ۔(142)
(ج) ’’خمس‘‘ سے محروم ہونے کی صورت میں غریب ومسکین سادات کی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ کیا ہوگا؟ اگر اس حالت میں بھی ان کے لئے صدقات کو حرام قرار دیا جائے تو پھر ان کی حاجت کیسے پوری ہوگی؟ کیا انھیں بھوکوں مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے،یا در،در ہاتھ پھیلانے پر مجبور کیا جائے، کیا لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ذلت زکات لینے کی ذلت سے کم تر ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی ان سوالوں کا جواب’’ہاں‘‘ میں نہیں دے سکتا ہے، بلکہ کہے گا کہ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ وہ زکات لے کر کام چلائے، گویا کہ’’خمس‘‘ سے محروم ہوجانے کی وجہ سے زکات ان کے لئے ضرورت بن گئی ہے، لہٰذا سادات کے فقیر و مسکین کو بھی زکات دی جاسکتی ہے۔
بعض حضرات کی رائے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی بنی ہاشم وغیرہ کے لئے زکات محض مکروہ تنزیہی تھی، وہ حضرات حرمت سے متعلق احادیث کو کراہیت تنزیہی پر محمول کرتے ہیں، نیز اپنی بات کی تائید میں ایسی روایتوں کو پیش کرتے ہیں جن میں بظاہر بنی ہاشم کو زکات دینے کا تذکرہ ہے (143)، مثلاً عبداللہ بن عباس کی یہ روایت:
بعث بی ابی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ابل اعطاء ایاہا من الصدقۃ ببدلہا۔
میرے والدنے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجاتاکہ آپ نے انھیں جو صدقہ کا اونٹ دیا تھا اسے بدل کر دوسرا دے دیں۔(144)
ایسے ہی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سامان خریدا اور نفع کے ساتھ فروخت کرکے بنی عبدالمطلب کے محتاجوں پر صدقہ کردیا۔
فتصدق بہاعلی ارامل بنی عبدالمطلب (145)
لیکن حدیث کے الفاظ میں اس طرح کی تاویل کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ احادیث سے صراحۃً معلوم ہورہاہے کہ بنی ہاشم کے لئے زکات حرام ہے، اور جمہور فقہاء اور محدثین نے اس سے حرمت ہی کا مفہوم لیا ہے، اس لئے اس طرح کی تاویل قابل قبول نہیں ہے، اس کے برخلاف جواز سے متعلق روایات کی عمدہ اور قوی توجیہ ہوسکتی ہے، چنانچہ امام نووی نے ابوداؤد کی روایت کردہ حدیث کو نقل کرکے لکھا ہے کہ اس کی دو توجیہ ہوسکتی ہے، ایک یہ کہ روایت بنی ہاشم پر صدقہ حرام ہونے سے پہلے کی ہو، بعد میں مذکورہ احادیث کی وجہ سے یہ حکم منسوخ ہوگیا ہو، دوسرے یہ کہ آپ کے پاس کوئی ضرورت مند آیا ہو اور بیت المال میں اسے دینے کے لئے کچھ نہ ہو تو آپ نے حضرت عباس سے قرض لے کر اس کی ضرورت پوری کردی اور پھر صدقہ کے اونٹ سے ان کے قرض کو ادا کیا ہو، بعض دوسری روایتوں سے اس تاویل کی تائید ہوتی ہے ۔(146)
اور دوسری روایت کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ سے مراد نفلی صدقہ ہے زکوٰہ مراد نہیں ہے۔
واضح رہے کہ جمہور فقہاء ومحدثین اسی بات کے قائل ہیں کہ بنی ہاشم وغیرہ کے لئے زکات کو حرام کیا گیا ہے، نیز حرمت کی وجہ آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شرافت و کرامت ہے اور یہ علت’’خمس‘‘ سے محروم ہونے کے باوجود باقی ہے، لیکن جیسا کہ گذشتہ تفصیل سے معلوم ہوچکا ہے کہ امام ابوحنیفہ کی ایک روایت یہ ہے کہ آپؐ کی وفات کے بعد آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زکات حلال ہے، اور دیگر ائمہ کے متبعین میں سے بعض محققین کی بھی یہی رائے ہے، اور اس خیال کی بنیاد قوی دلائل پر ہے لہٰذا ہم اسی کو قابل ترجیح سمجھتے ہیں۔

نفلی صدقات:

آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو صدقات دینے سے متعلق یہ اختلاف صرف صدقات واجبہ کے سلسلہ میں ہے، صدقات نافلہ میں عمومی رجحان جائز ہونے کی ہے، چنانچہ علامہ قرطبی لکھتے ہیں ۔
واختلفوا فی جواز صدقۃ التطوع بنی ہاشم فالذی علیہ جمہور اہل العلم وہو الصحیح ان صدقۃ التطوع لا باس بہا لبنی ہاشم وموالیہم لان علیا والعباس وفاطمۃ رضوان اللہ علیہم تصدقوا واوقفوا اوقافا علی جماعۃ من بنی ہاشم قصدقات المرقوفۃ معروفۃ مشہورۃ۔
بنی ہاشم کے لئے نفلی صدقہ کے جواز کے سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے،جمہور کی رائے ہے … اور یہی رائے صحیح ہے۔ کہ بنی ہاشم اور ان کے آزاد کردہ غلاموں کے لئے صدقۂ نفلی میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ حضرت علی، عباس اور فاطمہ نے بنی ہاشم کے ایک گروہ کے لئے صدقہ اور وقف کیا تھا اور ان کے اوقات معروف ومشہور ہیں ۔(147)

والدین، نسبی رشتہ دار اور زوجین:

زکات کا مستحق ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جس شخص کو زکات دی جارہی ہے وہ زکات دینے والے کے آبا واجداد میں سے نہ ہو، ایسے ہی زکات دینے والا اپنی اولاد کو زکات نہیں دے سکتا ہے، نیز اپنی بیوی کو بھی زکات دینا درست نہیں ہے، تمام فقہاء اسی کے قائل ہیں،چنانچہ علامہ ابن المنذر کہتے ہیں
اجمع اہل العلم علی ان الزکات لا یجوز دفعہا الی الوالدین… لان دفع زکوۃ الیہم تغنیہم عن النفقۃ وتسقطہا عنہ ویعود نفعہا الیہ فکانہ دفعہا الی نفسہ۔
اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ والدین کو زکات دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ ان کو زکات دینے کی وجہ سے پھر اسے نفقہ دینے کی ضرورت نہیں رہ جائے گی اور اس کے ذمہ سے ان کا خرچ ساقط ہوجائے گا تو زکات دینے کا فائدہ لوٹ کر اسی کو مل رہاہے اس اعتبار سے گویا کہ اس نے خود کو زکات دے دی ہے ۔(148)
اجمع اہل العلم علی ان الرجل لا یعطی زوجتہ من الزکات وذالک لان نفقتہا واجبۃ علیہ فتستغنی بہا عن اخذ الزکات فلم یجز دفعہا۔
اہل علم کا اتفاق ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو زکات نہیں دے سکتاہے کیونکہ بیوی کا نفقہ اس پر واجب ہے، اور زکات لے لینے کی وجہ سے بیوی کو نفقہ کی ضرورت نہیں رہے گی لہٰذا اسے زکات دینا جائز نہیں ہے۔(149)
بیوی اپنے شوہر کو زکات دے سکتی ہے یا نہیں اس مسئلہ میں اختلاف ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک بیوی کے لئے شوہر کو زکات دینا درست نہیں ہے، اس کے برخلاف امام مالک، شافعی اور امام احمد کی ایک روایت کے مطابق عورت کے لئے اپنے شوہر کو زکات دینا جائز ہے، امام ابو یوسف اور محمد کی بھی یہی رائے ہے، امام احمد کی دوسری روایت امام ابوحنیفہ کے موافق ہے (150) ،اور امام مالک سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے ۔(151)

خلاصہ کلام:

اسلامی تعلیمات وہدایات کی وسعت وہمہ گیری کو سمیٹا جائے تو محض دو لفظوں سے عبارت ہے، اللہ کی بندگی اور بندگانِ خدا کی مدد، نماز رب کی بندگی کی ایک اہم علامت اور خالق ومالک سے قربت کا سامان ہے تو زکات انسانوں سے تعلق، اعانت اور ان کے دکھ درد میں شرکت کا روشن عنوان ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں اکثر جگہوں پر نماز اور زکات کا تذکرہ ایک ساتھ کیا گیا ہے۔
زکات اسلام کا ایک اہم رکن، عبادت اور دینی فریضہ ہے،زکات نام ہے اس حق کا جو صاحب ثروت کی دولت میں نادار اور محتاج کا ہے، صاحب حق ہی کو اس کا حق ملنا چاہئے، حقدار کو محروم کرنا اور غلط جگہوں پر خرچ کرنا بڑا ظلم ہے، اس سے معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوگا، اس لئے قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ مصارف زکات کا تذکرہ کیا ہے تاکہ بیجا استعمال پر بند لگایا جاسکے، اور غیر مستحقین کی حریصانہ نگاہیں اس مال کی طرف نہ اٹھیں، قرآن میں زکات کے کل آٹھ مصارف بیان کئے گئے ہیں۔
پہلے نمبر پر فقیر ومسکین کا ذکر ہے جو ذکر ہے جو اس بات کے لئے دلیل ہے کہ قرآن کی نگاہ میں سب سے اہم مصرف اور اولین حقدار یہی ہیں،نوع انسانی کی محتاجی ومسکینی کو دور کرنا، غربت مفلسی اور بدحالی کے دلدل سے نکالنا اور گداگری کو روکنا ہی زکات کا بنیادی مقصد ہے، لیکن فقر ومسکنت کا کیا معیار ہے، اس سلسلہ میں فقہاء کے درمیان قدرے اختلاف ہے، امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک جس شخص کے پاس اموال زکات نصاب کے بقدر، یا غیراموال زکات ضرورت سے زائد اور نصاب کے بقدر ہوں، تو وہ غنی اور مالدار ہے اگر ایسا نہیں ہے تو وہ فقیر اور مسکین ہے، دیگر ائمہ کے نزدیک فقر ومسکنت کا معیار ضرورت وحاجت ہے، لہٰذا کسی شخص کے پاس نصاب کے بقدر مال ہے لیکن اس کی ضرورت اس سے پوری نہیں ہوتی تو وہ فقیر ومسکین ہے، اس کے برخلاف کسی کے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن روزانہ کی کمائی سے اس کی ضرورت پوری ہورہی ہے تو وہ غنی مالدار ہے، امام ابوحنیفہ کی رائے اس باب میں متوازن اور منضبط ہے اور اس رائے کو اختیار کرنے میں زکات کی وصولی وتقسیم میں سہولت ہوگی۔
تیسرا مصرف ’’عامل زکات‘‘ ہے اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو وصولی زکات اور اس کی تقسیم کے ادارے سے متعلق ہیں، یہ عامل خلیفۃ المسلمین کی طرف سے مامور ہوا کرتا ہے، لیکن جن جگہوں پر اسلامی حکومت نہ ہو وہاں مسلمان اپنے طور پر زکات کی وصولی وتقسیم کا نظم کرسکتے ہیں اور ان کی طرف سے اس کام کے لئے مقرر کردہ افراد ’’عامل‘‘ کے حکم میں ہوں گے، بہتر یہ ہے کہ اجتماعیت کو باقی رکھنے کے لئے ایک ہی ادارہ قائم کیا جائے لیکن اگر ایسا کرنا دشوار ہو تو ایک سے زائد ادارے بھی قائم کئے جاسکتے ہیں جو اپنے دائرۂ اعتماد میں رہ کر اس فریضہ کو انجام دیں، لیکن وصولی زکات اور چندہ کے موجودہ نظام کی تائید نہیں کی جاسکتی ہے کہ اس نے تو اجتماعت کا تصور ہی مٹا کر رکھ دیا ہے، اور اس کی وجہ سے چندہ وصول کرنے والوں کی جو بے وقعتی اور بے آبروئی ہوتی ہے وہ محتاج بیان نہیں، کاش کہ مسلمان اس طرف توجہ کرتے اور اپنی تنگنائیوں سے اوپر اٹھ کرخود کو ملت میں گم کردینے کی کوشش کرتے۔
زکات کا چوتھا مصرف’’مولفۃ القلوب‘‘ ہے، اس سے مراد وہ غریب اور نادار نومسلم ہیں جن کے متعلق اندیشہ ہو کہ مالی تعاون نہ کیا جائے تو معاشی پریشانی کی وجہ سے اسلام کو مجبوراً خیرباد کہہ دیں گے، فقیروں اور محتاجوں کی فہرست میں گرچہ وہ بھی شامل تھے،لیکن ان کی طرف خصوصی توجہ دلانے کے لئے علیٰحدہ سے ان کا تذکرہ کیا گیا ہے، کسی کافر کو اسلام کی طرف مائل کرنے یا اس کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے زکات دینا جائز نہیں ہے کیونکہ زکات ایک مالی عبادت ہے،جو مسلمانوں سے وصول کی جاتی ہے اور انھیں پر خرچ کی جائے گی اور کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کافر کو زکات کی رقم سے کچھ دیا ہو، بعض کافروں کو تالیف قلب کے مقصد سے دینے کا جو تذکرہ احادیث میں آتاہے تو وہاں صراحت ہے کہ وہ مال غنیمت میں سے دیا گیا تھا، یہ حقیقت ہے کہ مال ودولت کے ذریعہ کسی کے عقیدہ وضمیر کا سودا کرنے کو اچھا نہیں کہا جاسکتا ہے، اور نہ ہی اس سے کسی بہتر تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے، اور اشاعت اسلام کے لئے مالی امداد کی بیساکھی کی کبھی ضرورت نہیں رہی اور نہ رہے گی،اسلام کا دامن اس طرح کی آلودگی سے پاک ہے کیونکہ جس طرح سے تلوار کے زور سے مذہب کی تبلیغ ناجائز ہے اسی طرح دولت کے سہارے مذہب کی طرف مائل کرنا بھی اکراہ میں داخل ہے اور نا درست ہے۔
پانچواں مصرف’’الرقاب‘‘ ہے،اس سے مراد جمہور ائمہ کے نزدیک وہ غلام ہے جس کے آقا نے آزاد کرنے کے لئے کچھ مال کا مطالبہ کیا ہو جسے فقہ کی اصطلاح میں مکاتب کہا جاتاہے، چونکہ غلامی کا مسئلہ ختم ہوچکاہے اس لئے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے،البتہ ایک مسئلہ یہاں قابل توجہ ہے کہ کیا زکات کی رقم سے مسلم قیدیوں کو رہا کرایا جاسکتا ہے،حنبلی اور بعض مالکی فقہاء کے یہاں اس کی اجازت ہے اور اصولی اعتبار سے حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک بھی درست ہونا چاہئے،بشرطیکہ وہ قیدی محتاج اور نادار ہو۔
چھٹا مصرف’’مقروض‘‘ ہے، قرض دو طرح کے مقاصد کے لئے جاتے ہیں، ذاتی ضرورت کے لئے،مسلمانوں کے درمیان باہمی نزاع کو ختم کرانے کے لئے، دونوں طرح کے قرض میں زکات کی رقم لگائی جاسکتی ہے بشرطیکہ مقروض نادار ہو اور ضرورت مند ہو، یہ شرط حنفی علماء کے نزدیک ہے، دیگر ائمہ کے نزدیک پہلی قسم کے لئے احتیاج شرط ہے لیکن دوسری قسم کے لئے نہیں، میت کے قرض کی ادائیگی میں زکات کی رقم دی جاسکتی ہے یا نہیں اس سلسلہ میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے، مالکی فقہاء کے نزدیک درست ہے، امام شافعی سے بھی ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے، دیگر ائمہ اس سے اختلاف کرتے ہیں، دلیل کے اعتبار سے پہلی رائے زیادہ قوی ہے۔
ساتواں مصرف’’فی سبیل اللہ‘‘ ہے، اس سے مراد وہ غازی ہے جس کے پاس سفر،جہاد اور سامان حرب وضرب کی استطاعت نہ ہو، عدم استطاعت اور احتیاج کی شرط فقہ حنفی کے مطابق ہے دیگر ائمہ کے نزدیک اس مقصد کے لئے مالدار شخص کو بھی زکات کی رقم دی جاسکتی ہے، بشرطیکہ حکومت کی طرف سے اس کی تنخواہ متعین نہ ہو۔
آٹھواں اور آخری مصرف وہ مسافر ہے جس کے پاس سفرجاری رکھنے یا واپسی کے لئے زادِ راہ نہ ہو۔
ان مصارف پر زکات خرچ کرنے کی شرائط یہ ہیں
(الف) اسلام ۔ لہٰذا کسی غیرمسلم کو زکات کی رقم نہیں دی جاسکتی، اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے، صرف امام احمد کا ایک مرجوح قول ہے کہ بحیثیت عامل کافر کو زکات دی جاسکتی ہے، علامہ ابن المنذر نے اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، لیکن اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ غیرمسلم شہریوں کو بھوکا مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے، بلکہ بیت المال کے دیگر مدات سے اس کی کفالت کی جائے گی۔
(ب) فقر وحاجت۔ ائمہ حنفیہ کے نزدیک عامل اور مولفۃ القلوب کے علاوہ تمام مصارف کے لئے فقر وحاجت شرط ہے دیگر ائمہ کے نزدیک ان دو کے علاوہ غازی اور مسلمانوں کے درمیان باہمی نزاع کو ختم کرانے کے مقصد سے قرض لینے والے کے لئے بھی فقر واحتیاج ضروری نہیں ہے۔
(ج) امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک زکات کا حقدار وہی فقیر اور مسکین ہے جو کمانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو،یا کمانے کی قدرت تو ہے مگر اس کے لائق جائز کام نہیں ہے، یا کمائی کے ذریعہ اس کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو،امام ابوحنیفہ اور مالک کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے بلکہ تندرست اور کمانے کے لائق شخص کو بھی زکات دی جاسکتی ہے گوکہ ایسے شخص کے لئے سوال کرنا حرام ہے۔
(د) مستحق زکات کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خاندان نبوت کا فرد نہ ہو۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ’’خمس‘‘(مال غنیمت کا پانچواں حصہ) سے محروم ہوجانے کی وجہ سے آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زکات دی جاسکتی ہے، ترجیح اسی رائے کو ہے۔
(ہ) جس شخص کو زکات دی جارہی ہے وہ زکات دینے والے کے آبا واجداد میں سے نہ ہو، ایسے ہی زکات دینے والا اپنی اولاد کو زکات نہیں دے سکتا ہے نیز میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کو اپنی زکات نہیں دے سکتے ہیں۔
زکات کے ان مصارف پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اس نظام کے ذریعہ معاشرہ کے دبے کچلے، غریب وبے کس اور بے سہارا افراد کو اوپر اٹھانا مقصود ہے،نادار ومجبور، آفت زدہ اور مصیبت کے مارے کو سہارا دینا ہے، اور معاشرہ کے کماؤ اور لائق افراد کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے، یہ نظام مسافروں اور بے ٹھکانوں کے لئے ایک پناہ گاہ فراہم کرتا ہے، دردربھٹکنے،لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی اخلاقی پستی اور گراوٹ سے روکتا ہے،عزت نفس، انسانی شرافت وغیرت اور خودداری کی حفاظت کرتا ہے، بے آبروئی اور بے وقعتی سے بچاتا ہے، یہ ایک طرح سے انشورنس ہے جس کے ذریعہ ضرورت مند اور محتاج کی حاجت پوری کی جاتی ہے، اسلام کا رائج کردہ یہ نظام مغربی نظام انشورنس سے کہیں اچھا ہے اور بہتر ہے، کیونکہ مغربی نظام انشورنس میں اسی شخص کی مدد کی جاتی ہے جس نے بیمہ کمیٹی کو اس کی طرف سے مقرر کردہ قسط کی ادائیگی کی ہو، نیز جمع کردہ رقم کے اعتبار سے اس کا تعاون کیا جاتا ہے، اس کے برخلاف اسلام کے اس نظام میں پہلے کچھ ادا کرنے کی شرط نہیں ہے، نیز آفت زدہ کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جاتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ نقصان کی تلافی ہوسکے اور وہ مصیبت کے بھنور سے چھٹکارا پاسکے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر مسلمان زکات کی ادائیگی اور صحیح جگہوں پر خرچ کرنے کی طرف توجہ دیں تو معاشرہ میں کوئی غریب اور مفلوک الحال نہ رہ جائے، چنانچہ صادق ومصدوق کا قول ہے:
ان اللہ فرض علی الاغنیاء فی اموالہم بقدر ما یکفی فقراء ہم وان جاعوا وعرواوجہدوا فمنع الاغنیاء وحق علی اللہ ان یحاسبہم یوم القیامۃ یعذبہم۔
اللہ نے مالداروں پر جو زکات فرض کی ہے وہ اتنی ہے کہ فقراء کے لئے کافی ہوجائے، اس کے باوجود لوگ بھوکے،بے لباس اور پریشان حال رہیں تو یہ مالداروں کے زکات ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہوگا، اور اللہ کو حق ہے کہ قیامت کے دن ان سے بازپرس کرے اور عذاب دے۔(152)

حواشی:

(1)سورہ توبہ /60
(2)رد المحتار 3/284، حاشیۃ الدسوقی 1/492
(3)الدرالمختار مع رد المحتار 3/284، المجموع 6/197، الفقہ الاسلامی وادلتہ 2/869، المغنی 9/306مسئلہ 1086 (4)سورہ قصص/24 (5)سورہ کہف /79
(6)بدائع الصنائع 2/158۔159، رد المحتار 3/296
(7)المجموع 6/190۔197 ، نہایۃ المحتاج 6/151۔153
(8)سورہ فاطر/15
(9)المغنی 4/119۔122(10)رواہ الجماعۃ ، نیل الاوطار 4/114(11)البدائع 2/159(12)البدائع 2/151
(13)المغنی 4/108مسئلہ 427، حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی یہ منقول ہے ، دیکھئے نیل الاوطار 4/169، باب الصرف فی سبیل اللہ وابن السبیل (14)المجموع 6/188، الجامع لاحکام القرآن 8/178
(15)المغنی 9/313، باب قسمۃ الفئی والغنیمۃ والصدقۃ مسئلہ 1087 (16)المغنی 4/112، البدائع 2/151، فتح القدیر 2/204، المجموع 6/167
(17)ناوطار 4/164ن
(18)رواہ الخمسۃ الا ابن ماجۃ، وصححہ الترمذی وابن خزیمۃ وابن حبان ، نیل الاوطار 4/174 (19)المجموع 6/168، رد المحتار 3/285، حضرت علیؓ کو آپ ﷺ نے عامل زکات بناکر بھیجاتھا، مذکورہ احادیث کی وجہ سے کہاجائے گا کہ انھیں سے کسی دوسرے مد سے اجرت دی جاتی تھی ۔ دیکھئے البدائع 2/152 (20) الہندیۃ 1/188، البحر2/241(21)الہندیۃ 1/188
(22)کتاب العشر والزکات /107عبدالصمد رحمانی (23)تذکرۃ الرشید /132
(24)فتاویٰ مظاہر علوم 1/319 (25)کفایت المفتی 4/269
(26)تفسیر ابن کثیر 2/451، المجموع 6/196، غایۃ المنتھی وشرحہ 2/141 (27)تفسیر ابن کثیر 2/451
(28)نیل الاوطار 4/166 (29)جامع البیان 10/161
(30)الجامع لاحکام القرآن 8/179(31) الام 2/61(32)رواہ الجماعۃ ، نیل الاوطار 4/114 (33) دیکھئے معارف القرآن 4/401
(34)صحیح مسلم 2/738، حدیث 138(35)سنن ترمذی مع تحفۃ الاحوذی 2/269، نیز صحیح مسلم 4/1806، کتاب الفضائل حدیث 59(36)صحیح مسلم 3/434، حدیث 132
(37)الجامع لاحکام القرآن 8/181 (38) جامع البیان 10/161
(39)ارواء الغلیل 3/370
(40)نیل الاوطار 4/169، روایت اسنادی حیثیت سے صحیح ہے۔ دیکھئے المجموع 6/206، ارواء الغلیل / 377۔378
(41)المغنی 4/124(42)مواھب الجلیل 1/425(43)جامع البیان 10/163(44)اعنایۃ علی ھامش الفتح 3/201
(45)المغنی 4/124
(46)البدائع 2/153، المجموع 6/200، نیل الاوطار 4/167، الفقہ الاسلامی 2/873(47) المغنی 9/321۔ 322، مسئلہ 1090
(48)احکام القرآن لابن العربی 2/956
(49)تاتارخانیہ2/270
(50)رواہ مسلم نیل الاوطار 4/168(51)صحیح مسلم 3/1191حدیث 207(52)مصنف ابن شیبہ 3/207
(53)فقہ الزکات /423۔424(54)المجموع 6/208، البدائع 2/154
(55)کتاب الاموال /556(56)الاعراف/31(57)الاسراء /27
(58)المجموع 6/208(59)المغنی 9/324، نیل الاوطار 4/168
(60)رواہ احمد و مسلم والنسائی وابوداؤد، نیل الاوطار 4/168(61)فتح القدیر 2/205
(62)متفق علیہ
(63)النھایۃ فی غریب الحدیث 2/156 (64) لسان العرب 2/91
(65) لسان العرب 2/91(66)الجامع لاحکام القرآن 8/186(67)چنانچہ وہ کہتے ہیں : ونراھا تاویل ھذہ الآیۃ قولہ فی سبیل اللہ ، کتاب الاموال /610(68)فاما سھم السبیل فھو علی عمومہ وظاھرہ فی الکتاب وقد جاء فی ھذا الحدیث ما بینہ و وکد امرہ فلا وجہ للذھاب عنہ، معالم السنن 2/64(69)المحلی 6/151(70)احکام القرآن لابن العربی 2/969
(71)المغنی 9/328(72)کتاب الاموال /799(73) تفسیر کبیر16/113
(74)طبقات المفسرین 2/197(75) طبقات الشافعیہ الکبری 3/201بحوالہ مجلہ فقہ اسلامی 5/74
(76)مصنف ابن ابی شیبہ 3/166، نیز دیکھئے فقہ الزکات 2/645۔646(77)مجلہ فقہ اسلامی 5/73۔74
(78)البدائع 2/154(79)رد المحتار 2/59(80)البدائع 2/154
(81)فتح الباری 7/29، اور 48، النھایۃ 2/338(82)سورہ توبہ/203، نیز دیکھئے تفسیر قرطبی 8/250
(83)رواہ ابوداؤد، نیل الاوطار 4/171
(84)تہذیب التہذیب6/173۔175 (85)الاتحاف 4/235
(86)صحیح بخاری 2/1019، صحیح مسلم 2/54(87)فتح الباری 12/235(88) زاد المعاد 3/201
(89)رواہ البخاری تعلیقاً وایضاً اخرجہ احمدوابن خزیمہ والحاکم وغیرہ ورجالہ ثقات الا أن فیہ عنعنۃ ابن اسحاق ولھذا توقف ابن المنذر فی ثبوتہ ، عمدۃ القاری 9/46، فتح الباری 3/332(90) فتح الباری 3/332 (91)المجموع 6/158۔159
(92)تفسیر قرطبی 8/185(93)صحیح بخاری 2/128(94)فتح الباری 3/332
(95)الشرح الکبیر مع حاشیۃ الدسوقی 1/497، روضۃ الطالبین للنوی 2/326، مطالب اولی النھی 2/147۔148 (96)تحفۃ المنھاج 3/96، نہایۃ المحتاج 6/155، مطالب اولی النھی 2/147۔148
(97)فتح القدیر 2/205، المجموع 6/214، المغنی 9/330
(98)المجموع 6/215(99)احکام القرآن 2/958، الجامع لاحکام القرآن 8/187، المجموع 6/216 (100)البحرالرائق 2/242
(101)فتح القدیر 2/205 (102)المجموع 6/216، المغنی 9/331 (103)المغنی 4/107
(104)سورۃ البقرہ/271(105)سورہ مائدہ /89(106)البدائع 2/161(107) المجموع 6/228
(108)الممتحنۃ/9
(109)البدائع 2/158۔161، فتح القدیر 2/203(110)مواھب الجلیل 1/425، المغنی 4/119
(111)راہ الخمسہ ، نیل الاوطار 4/161(112) تہذیب التہذیب3/310۔311، معالم السنن 2/56، المغنی 4/119 (113)معالم السنن 2/56
(114)نیل الاوطار 4/168
(115)نیل الاوطار 4/160۔161(116) بدایۃ المجتہد 1/276
(117)المجموع 6/206 (118)البدائع 2/155
(119)فتح القدیر 2/209
(120)سنن ابوداؤد1/231، سنن نسائی 1/364 (121) سنن ابوداؤد1/231، سنن نسائی 1/363، مصنف ابن ابی شیبہ 2/207
(122)احکام القرآن لجصاص 3/127، البدائع 2
(123)سورۃ البقرہ /177 (124)حضرت ابوسعید خدری سے منقول بعض روایتوں کے الفاظ یہ ہیں: لایحل الصدقۃ لغنی الا فی سبیل اللہ عزوجل او ابن السبیل او جار فقیر تصدق علیہ فیھدی لک او یدعوک ، اس روایت میں مالدار مسافر کو بھی زکات دینے کا تذکرہ ہے حالانکہ بہ اتفاق مسافر کے لیے ضرورت مند ہونا شرط ہے، اس لیے امام بیہقی نے حدیث کی یہ توجیہ کی ہے کہ وہ مسافر مراد ہے جو سفر میں ضرورت مند ہو لیکن گھر کے اعتبار سے مالدار ہو ، دیکھئے حاشیہ ابوداؤد م/247۔ تو کیا اس طرح کی توجیہ مقروض اور مجاہد میں نہیں ہوسکتی ہے جبکہ مقروض کے سلسلہ میں ایک دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ اس کے لیے فقرو حاجت شرط ہے چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : المسألۃ لایحل لثلاثۃ لذی فقر مدقع او لذی غرم مقظع او لذی دم موجع رواہ احمدوابوداؤد واخرجہ ایضاً ابن ماجۃ و الترمذی وحسنہ ، نیل الاوطار 4/159، اس روایت میں ذاتی مقصد کے تحت قرض اور اصلاح ذات البین کے لیے قرض لینے والے کی کوئی تفصیل نہیں ہے بلکہ ہر طرح کے مقروض کے لیے فقر کوضروری قرار دیاگیاہے۔
(125)احکام القرآن لجصاص 3/127
(126)نصب الرایۃ 2/399، ارواء الغلیل 3/381۔385(127) نیل الاوطار 4/159(128)المجموع 6/189
(129)المجموع 6/190۔191
(130)المجموع 6/190۔191، الانصاف 3/218
(131)بعض روایتوں میں ان الصدقۃ لاتنبغی لمحمد کے الفاظ ہیں، امام احمد اور مسلم نے ان رویاتوں کی تخریج کی ہے ، نیل الاوطار 4/175(132) متفق علیہ(133) سنن ترمذی 1/87وقال حسن صحیح، وصححہ ایضاً ابن خزیمہ وابن حبان، نیل الاوطار 4/174
(134)فتح القدیر2/213
(135)صحیح بخاری بحوالہ مشکوٰۃ 2/349(136)مجمع الانھار 1/424
(137)شرح معانی الآثار 1/301(138)فتح الباری 3/354(139)المجموع 6/227(140)فتاویٰ شیخ الاسلام 4/256
(141)طبرانی عن ابن عباس ، الدرایۃ علی ھامش الھدایۃ 2/206(142)فقہ الزکات 2/735۔736
(143)فقہ الزکات 2/734۔735(144)سنن ابوداؤد
(145)شرح معانی الآثار 1/297، حضرت عباسؓ سے منقول ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا انک حرمت علینا صدقات الناس ھل تحل لنا صدقات بعضنا لبعض قال نعم۔ آپ نے ہمارے لیے لوگوں کے صدقات کو حرام قرار دے دیا ہے تو کیا بنی ہاشم اپنی زکات ایک دوسرے کو دے سکتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ ان روایات کی بنیاد پر امام ابویوسف کہتے ہیں کہ بنی ہاشم کو آپس میں ایک دوسرے کو زکات لے سکتے ہیں۔ گرچہ اس خیال کے لیے ایک استدلالی بنیاد موجود ہے لیکن احادیث اس موضوع پر صریح اور صحیح نہیں ہیں ، جس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلی روایت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتاہے کہ نفلی صدقات مراد ہیں اور دوسری روایت جو صریح ہے اس پر کلام کیاگیاہے۔ (دیکھئے شرح معانی الآثار 1/297، نیل الاوطار 4/173(146)المجموع 6/227
(147)الجامع لاحکام القرآن 8/191(148)المغنی 4/98
(149)المغنی 4/100(150)المغنی 4/100، فتح القدیر /205(151)نیل الاوطار 4/177
(152)کنزالعمال 3؍300

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے