مصافحہ کا مسنون طریقہ۔
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔
سلام اور مصافحہ ، الفت و محبت کی علامت اور اخلاص و وفا کا شعار ، تعلقات کی درستگی اور مضبوطی کا سبب ہے ، اجنبیت ، بیگانگی ، کینہ کپٹ اور بغض وحسد ختم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے ، چنانچہ رحمت عالم ﷺ کا ارشاد ہے :
’’ تصافحوا یذھب الغل وتھادوا تحابوا وتذھب الشحناء‘‘ .
’’مصافحہ کرو ، یہ کینہ کپٹ کو ختم کردے گا اور تحفہ دیا کرو ، اس سے محبت پیدا ہوگی اور دشمنی ختم ہوگی ‘‘۔( الموطا:365،قال المنذری رواہ مالک معضلا وقد أسند من طرق فیھا مقال،الترغیب: 434/3)
سلام ، امن و امان اور بے خوفی کا پیغام ، بے ضرر ، غم گسار اور ہمدرد ہونے کا عہد اور سراپا سلامتی کا اظہار و اعلان ہے اور مصافحہ کے ذریعہ اسی عہد کی تکمیل ہوتی ہے ، جیسے کسی وعدہ اور معاملہ کی پختگی کے لیے ہاتھ ملانے کا رواج ہے ، چنانچہ حضرت ابوامامہؓ نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ :
’’ وتمام تحیاتکم بینکم المصافحۃ‘‘
’’اور تمہارے سلام کی تکمیل مصافحہ سے ہوتی ہے ‘‘۔
(مسند أحمد:260/5،قال الالبانی روی من حدیث عبداللّٰہ بن مسعود وابی امامۃ والبراء بن عازب…ضعیف مرفوعا، صحیح موقوفا(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ،حدیث:1288)
معاہدہ کی تکمیل اور مضبوطی کے لیے موقع اور وقت کی مناسبت سے ایک ہاتھ بھی ملایاجاسکتا ہے اور دو ہاتھ بھی ، حدیث سے دونوں طرح کی کیفیت ثابت ہے اور ان میں سے کسی ایک طریقے کو دوسرے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے اور شریعت نے کسی ایک کیفیت کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی ہے ، یہی وجہ ہے کہ حدیث کی بیشتر کتابوں میں اس طرح کا کوئی عنوان نہیں ملتا کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے مسنون ہے یا دو ہاتھ سے ، حالانکہ ان کتابوں میں معمولی معمولی مسائل پر عنوانات قائم کیے گئے ہیں ، اس لیے کسی ایک کیفیت پر اصرار اور دوسرے طریقے کو بدعت یا کفار و مشرکین کا شعار قرار دینا غلط اور ناروا ہے ۔
ایک ہاتھ سے مصافحہ کی احادیث:
1۔ تمام التحیۃ الاخذ بالید والمصافحۃ بالیمنی۔ رواہ الحاکم فی الکنی عن ابی امامۃ۔
’’سلام کی تکمیل ہاتھ پکڑنے اور داہنے ہاتھ کے ذریعہ مصافحہ سے ہوتی ہے” ( کنزالعمال:131/9)
یہ روایت ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کی بالکل واضح دلیل ہے ، کاش یہ روایت صحیح ہوتی تو اس مسئلے کے لیے قول فیصل کی حیثیت رکھتی مگر یہ روایت ضعیف ہے ،(تحفۃ الاحوذی:731/7)اور استدلال کے لائق نہیں ہے ۔
2۔عن انس بن مالک قال رجل یا رسول اللّٰہ! الرجل منا یلقی اخاہ اوصدیقہ أینحنی لہ؟ قال: لا ، قال: أفیلتزمہ ویقبلہ؟ قال: لا، قال: فیأخذ بیدہ ویصافحہ؟ قال: نعم۔
’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ اللہ کے رسول! اپنے بھائی یا دوست سے ملاقات کے وقت جھکا جاسکتا ہے ؟ فرمایا: نہیں ، دریافت کیا کہ اس سے لپٹ جانا اور اسے بوسہ دینا درست ہے ؟ فرمایا: نہیں ، کہا کیا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کرسکتا ہے ؟ فرمایا : ہاں ‘‘۔(جامع ترمذی:97/2، وقال حدیث حسن)
3۔ قال عبد اللّٰہ بن ہشام: کنا مع النبیﷺ وھو اخذ بید عمر الخطاب، فقال لہ عمر: یا رسول اللّٰہ! لأنت احب الی من کل شییٔ الا نفسی، فقال النبیﷺ لا، والذی نفسی بیدہ حتی اکون احب الیک من نفسک، فقال عمر: فانہ الآن واللّٰہ لأنت احب الی من نفسی، فقال لہ النبیﷺ: الآن یا عمر۔
’’حضرت عبداللہ بن ہشام کہتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے ،آپ ﷺ عمر بن خطابؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے ، حضرت عمرؓ نے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ میری نگاہ میں میری ذات کے علاوہ تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ میں تمہاری ذات سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں ، حضرت عمرؓ نے کہا : اللہ کی قسم ! اس وقت آپ میری ذات سے بھی زیادہ محبوب ہیں ، نبیﷺنے فرمایا : عمر! اب تمہارا ایمان مکمل ہوگیا ‘‘۔(صحیح بخاری:981/2)
4۔ اللہ کے رسول ﷺاور لخت جگر حضرت فاطمہؓ کے طرزعمل پر زوجـہ مطہرہ حضرت عائشہؓ ان الفاظ کے ذریعہ روشنی ڈالتی ہیں :
کانت اذا دخلت علیہ قام الیھا فأخذ بیدھا فقبلھا وأجلسھا فی مجلسہ وکان اذا دخل علیھا قامت الیہ فأخذت بیدہ فقبلتہ وأجلستہ فی مجلسھا۔
’’حضرت فاطمہؓ جب آپؐ کے پاس آتیں تو آپؐ کھڑے ہوجاتے ، ان کا ہاتھ تھام لیتے ، بوسہ دیتے اور اپنی جگہ انہیں بٹھاتے اور اللہ کے رسولﷺ جب ان کے پا س تشریف لے جاتے وہ بھی کھڑی ہوجاتیں ، ہاتھ تھام کر بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں ‘‘۔(سنن ابوداؤد:352/2)
5۔ حضرت انسؓ ملاقات اور مصافحہ کے سلسلے میں رحمت عالمؐ کے اسوۂ حسنہ کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
کان النبیﷺ اذا لقی الرجل فکلمہ لم یصرف وجھہ عنہ حتی یکون ھو الذی ینصرف واذا صافحہ لم ینزع یدہ من یدہ حتی یکون ھوالذی ینزعھا۔
’’نبیﷺ جب کسی سے ملتے اور گفتگو کرتے تو اپنی توجہ اس وقت تک نہیں ہٹاتے تھے جب تک کہ دوسرا شخص خودہی نہ رخ موڑ لے اور جب کسی سے مصافحہ کرتے تو اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ کھینچتے جب تک کہ دوسرا شخص اپناہاتھ نہ کھینچ لے‘‘۔( سنن ابن ماجہ:1224/2،فی الزوائد: مدارالحدیث علی زید العمی وھو ضعیف قالہ محمد فواد عبد الباقی)
6۔ حضرت حذیفہؓ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے سلام و مصافحہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
ان المومنین اذا لقی المومن فسلم علیہ وأخذ بیدہ فصافحہ تناثرت خطایاھم کما یتناثر ورق الشجر، رواہ الطبرانی فی الاوسط ورواتہ لا اعلم فیھم مجروحا۔
’’ مومن جب کسی مومن سے ملتا ہے اور اسے سلام کرتا ہے ، اس کاہاتھ تھام کر مصافحہ کرتا ہے تو ان کی خطائیں اس طرح سے جھڑتی ہیں جس طرح سے درخت کے پتے جھڑتے ہیں ‘‘۔۔(الترغیب والترھیب:433/3)
7۔ حضرت براء بن عازبؓ نبی کریم ﷺ کاارشاد نقل کرتے ہیں :
أیما مسلمین التقیا فأخذ أحدھما بید صاحبہ ثم تفرقا لیس بینھما خطیئۃ۔
’’جب دو مسلمان ملاقات کرتے ہیں ، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیتے ہیں ، پھر اللہ کی تعریف بیان کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ جداہوجاتے ہیں ان کی کوئی خطا باقی نہیں رہتی ‘‘۔( مسند احمد:291/4)
۸۔ اسی طرح کی روایت حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت انسؓ سے بھی منقول ہے ۔( الترغیب والترھیب:432/3)
مذکورہ احادیث کے ذریعہ ایک ہاتھ سے مصافحہ پر اس طور پر استدلال کیا جاتا ہے کہ ان تمام روایتوں میں مصافحہ کے موقع پر’’ید ‘‘(ہاتھ ) کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جو ’’واحد‘‘ ہے اور ایک ہاتھ پر دلالت کرتا ہے ، دو ہاتھ کے لیے عربی زبان میں ’’یدان‘‘ استعمال ہوتا ہے اور ان میں سے کسی بھی حدیث میں ’’یدان‘‘ کا لفظ نہیں آیا ہے بلکہ پورے ذخیرۂ حدیث میں کہیں بھی مصافحہ کے موقع پر بہ صراحت اس کا تذکرہ نہیں ہے ۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کے لیے یہ احادیث واضح اور صریح نہیں ہیں ، کیونکہ ’’ید‘‘ واحد بول کر بھی دونوں ہاتھ مراد لیے جاسکتے ہیں ، اس لیے کہ ہر زبان میں بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں واحد اور جمع دونوں کے مفہوم کی گنجائش ہوتی ہے اور موقع و محل کے اعتبار سے کسی ایک مفہوم کی تعیین کی جاتی ہے ، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اس کی آنکھ بڑی ہے اور اس سے اس کی دونوں آنکھیں مراد ہوتی ہیں، اور ایسے ہی پیدل چلنے کو پاپیادہ چلنا کہا جاتا ہے اور ’’پا‘‘ واحد ہے لیکن اس کا اطلاق دونوں پیروں پر ہوتاہے ،اصطلاح میں اس طرح کے لفظ کو اسم جنس کہاجاتا ہے ،
اسم جنس وہ اسم ہے جو کسی ذات مبہم پر دلالت کر ے ، ’’ذات مبہم‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں عدد کی تعیین نہیں ہوتی ہے بلکہ اس میں جنس کا فرد واحد یا پور ی جنس دونوں مراد لینے کا احتمال رہتا ہے ، یہ احتمال اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ کسی خارجی دلیل سے کسی ایک معنی کی تعیین نہ ہوجائے ، چنانچہ قرآن وحدیث میں متعدد جگہوں پر لفظ واحد جمع کے لیے استعمال ہوا ہے ، جیسے ’’ان الانسان لفی خسر ‘‘(بلاشبہہ انسان خسارے میں ہے )اس آیت میں ’’انسان‘‘ لفظ واحد ہے اور اسم جنس ہے اور مراد پوری جنس انسانیت ہے ، اسی طرح سے مشہور حدیث میں کہا گیا ہے کہ :
’’ المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ‘‘
’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔(صحیح بخاری:6/1)
اس حدیث میں ’’ید‘‘ واحد استعمال ہوا ہے لیکن مراد صرف ایک ہاتھ نہیں ہے بلکہ پوری جنس ’’ید‘‘ یعنی دونوں ہاتھ مراد ہیں ، اسی طرح سے اس حدیث میں بھی جسے حضرت ابوہریرہؓ نقل کرتے ہیں ، ’’ید ‘‘ واحد استعمال ہوا لیکن مقصود دونوں ہاتھ ہیں :
’’ اذا استیقظ احدکم من نومہ فلا یغمسن یدہ فی الاناء حتی یغسلھا ثلاثا فانہ لایدری أین باتت یدہ‘‘ .
’’جب تم میں سے کوئی سوکر اٹھے تو ہاتھ کو اس وقت تک برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے تین بار نہ دھولے ، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا؟ ‘‘۔۔( جامع ترمذی:5/1)
اور حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ :
’’ قال لی النبیﷺ ناولینی الخمرۃ من المسجد، فقلت: انی حائض، فقال: ان حیضتک لیست فی یدک ‘‘ .
’’نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ مسجد سے چٹائی اٹھا دو ، میں نے کہا کہ میں حیض کی حالت میں ہوں، فرمایا: تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے ‘‘۔ صحیح مسلم:43/1)
اس جیسی اور بھی احادیث ہیں جس میں ’’ید‘‘ مفرد استعمال کیا گیا ہے ، لیکن مراد پوری جنس یعنی دونوں ہاتھ ہیں ، اسی طرح سے مصافحہ سے متعلق احادیث میں بھی ’’ید ‘‘ سے صرف ایک ہاتھ مراد نہیں ہے بلکہ ہاتھ کی جنس مراد ہے اور ہاتھ کی پوری جنس دو ہے کیونکہ صحیح الاعضاء انسان کے دو ہی ہاتھ ہوتے ہیں ۔
دو ہاتھ سے مصافحہ کی احادیث:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ :
’’علمنی رسول اللّٰہﷺ التشہد وکفّی بین کفیہ‘‘ .
’’رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس حال میں تشہد سکھلایا کہ میری ہتھیلی آپؐ کے دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی ‘‘۔(صحیح بخاری:924/2)
مذکورہ حدیث میں اس احتمال سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ محفل میں پہلے سے موجود ہوں اور اللہ کے رسولﷺ نے تشہد کی اہمیت کے پیش نظر توجہ مبذول کرانے کے لیے ان کے ہاتھ کو اپنے دست مبارک میں لیا ہو ، لیکن اس امکان سے صرف نظر کرنا بھی غیرحقیقت پسندانہ رویہ ہوگا کہ ابن مسعودؓ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ہوں اور سلام کے بعد دوران مصافحہ آپﷺ نے انہیں تشہد کی تعلیم دی ہو ، اس لیے کہ سلام و مصافحہ کے وقت ہر ایک دوسرے کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتا ہے اور اس دوران جو بات کہی جاتی ہے مخاطب اسے پوری توجہ، انہماک اور دھیان سے سنتا ہے اور یاد رکھنے کی کوشش کرتا ہے ،اول ملاقات اور مصافحہ کے درمیان کی گفتگو مخاطب کے لیے ایک وصیت ، نصیحت اور یادگار بن جاتی ہے اور متکلم کی حیثیت اور مرتبہ کے اعتبار سے اس یادگار کی قدر
کی جاتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اس روایت کو بڑے ذوق و شوق ، اور فخر کے ساتھ بیان کرتے تھے اور وہ بھی اسی کیفیت کے ساتھ لوگوں کو تشہد سکھایا کرتے تھے اور اسی یادگاری حیثیت کو باقی رکھنے کے لیے بعض فقہاء اور محدثین نے اپنے تلامذہ کو تشہد سکھلاتے ہوئے اس کیفیت کی بھی نقل اتاری ۔
اس امکان کے پیش نظر کہ تشہد سکھلانے کے لیے مصافحہ نہیں کیاگیا بلکہ مصافحہ ہی کے وقت تشہدکی تعلیم دی گئی ، امام بخاری نے باب المصافحۃ کے تحت آنے والی چار حدیثوں میں اسے سب سے پہلے نقل کیا اور اس کے بعد ایک دوسرا عنوان قائم کیا ہے ہے ’’باب الاخذ بالیدین‘‘ (دونوں ہاتھ تھامنا)اس کے ذیل میں جلیل القدر محد ث اور فقیہ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ اور حماد بن زید کا عمل نقل کیا ہے :
’’ صافح حماد بن زید ابن المبارک بیدیہ ‘‘ .
’’حماد بن زید نے عبداللہ بن مبارک سے دونوں ہاتھ سے مصافحہ کیا ‘‘۔(صحیح بخاری:924/2)
جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تابعین یا تبع تابعین(1)کے عہد میں دو ہاتھ سے مصافحہ کا معمول تھا اور ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ طریقہ صحابہ یا تابعی سے سیکھا ہوگا کہ یہ حضرات بدعت ایجاد کرنے والے نہ تھے بلکہ اس سے نفور اور بہت دور تھے ۔
اس عمل کے نقل کرنے کے بعد امام بخاری نے دوبارہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کو بیان فرمایا ہے اور اس کے علاوہ اس عنوان کے ذیل میں کوئی دوسری حدیث نقل نہیں کی ہے ، ان کے اس طرز بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ میں اس روایت سے نفس مصافحہ کا ثبوت بھی ہوتا ہے اور مصافحہ کی کیفیت اور طریقہ بھی ثابت ہوتا ہے ۔
حضرت انسؓ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
’’ ما من مسلمین التقیا أخذ احدھما بید صاحبہ الا کان حقا علی اللّٰہ عزوجل ان یحضردعاھما ولا یفرق بین ایدیھما حتی یغفر لھا ‘‘۔
’’جب دو مسلمان باہم ملتے ہیں اور ان میں سے ایک اپنے ساتھی کا ہاتھ تھام لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرنے کی ذمہ داری لے لیتا ہے اور ہاتھوں کے الگ ہونے سے پہلے ان کی مغفرت کر دی جاتی ہے ‘‘۔(مسند احمد:142/3، قال الھیثمی: رجال احمد رجال الصحیح غیرمیمون بن عجلان وثقہ ابن احبان ولم یضعفہ أحد (مجمع الزوائد:37/8)
اس طرح کی ایک حدیث حضرت ابوامامہؓ سے بھی منقول ہے جس میں’’اکف‘‘ (ہتھیلیاں)کا لفظ استعمال ہوا ہے مگر روایت ضعیف ہے ۔( قال الھیثمی: فیہ مہلب بن العلاء ولم اعرفہ وبقیۃ رجالہ ثقات (مجمع الزوائد:37/8)
اس روایت میں’’ید ‘‘ کی جمع ’’ایدی‘‘ استعمال کی گئی ہے اور جمع کا اطلاق تین سے کم پر نہیں ہوتا ہے بلکہ جمع کا لفظ عربی زبان میں تین یا ا س سے زیادہ کے لیے بولاجاتا ہے ، اس لیے مصافحہ کے لیے دونوں طرف سے دو ہاتھ یا کم از کم ایک طرف سے دونوں ہاتھ کا استعمال ہونا چاہیے کہ جمع کا مفہوم اور معنی اسی وقت صحیح ہوگا ۔
لیکن یہ روایت بھی دو ہاتھ سے مصافحہ کے لیے صریح نہیں ہے بلکہ اس طرح کی روایات سے دو ہاتھ کے مصافحہ پر استدلال غلط اور عربی زبان کے قواعد سے ناواقفیت کی دلیل ہے ، اس لیے کہ ضابطہ یہ ہے کہ اگر ’’تثنیہ‘‘ کی اضافت ’’تثنیہ ‘‘ کی طرف ہو تو مضاف کو تثنیہ کے بجائے جمع کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں ، جیسے کہ قرآن حکیم میں ہے "فقد صغت قلوبکما”اور "فاقطعوا ایدیہما”۔(دیکھیے ہدایۃ النحو:۷۰)
اس روایت میں بھی تثنیہ کی اضافت تثنیہ کی طرف ہے اس لیے مضاف کو جمع کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ذخیرۂ حدیث میں ایک یا دو ہاتھ سے مصافحہ کی صریح روایت نہیں ملتی ہے ،(2) البتہ بیعت کے لیے صریح اور صحیح احادیث موجود ہیں جن میں ایک اور دوہاتھ سے بیعت کرنے کا تذکرہ ہے ، جیسے حضرت عمر و بن العاص کا یہ واقعہ :
’’ قال أتیت النبیﷺ فقلت ابسط یمینک فلأبایعک فبسط یمینہ ‘‘.
’’میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا اپنا داہنا ہاتھ دیجیے تاکہ میں آپ سے بیعت ہوجاؤں تو نبی ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھا دیا ‘‘۔( صحیح مسلم:74/1)
اور حضرت عبدالرحمن بن رزین کہتے ہیں :
’’ مررنا بالربذۃ فقیل لنا: ھھنا سلمۃ بن الاکوع فأتیتہ فسلمنا علیہ فاخرج یدیہ فقال بایعت بھاتین نبی اللّٰہﷺ ‘‘.
’’ہم ربذہ نامی جگہ سے گزرے تو ہمیں بتلایا گیا کہ یہاں حضرت سلمہ بن اکوع موجود ہیں ، ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ، سلام کیا، انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دکھایا اور کہا کہ میں نے ان دونوں ہاتھوں کے ذریعہ اللہ کے نبیﷺ سے بیعت کی ہے ‘‘۔ ( الادب المفرد:253)
اس طرح کی روایت کے پیش نظر شارح بخاری علامہ قسطلانی لکھتے ہیں :
’’ کما کان یبایع الرجال بالمصافحۃ بالیدین ‘‘
’’جیسا کہ مردوں کو دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرکے بیعت کیا کرتے تھے ‘‘۔۔( ارشاد الساری:38/7)
ایسے ہی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے واقعہ کو اگر مصافحہ نہ سمجھاجائے بلکہ دوران مجلس اور درمیان گفتگو تعلیم کی طرف توجہ اور اہمیت کے پیش نظر ہاتھ تھامنا مقصود ہو تو یہ بھی بیعت ہی کی ایک شکل ہے جس سے یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جس طرح سے بیعت کے ذریعہ لیے گئے عہد اور وعدہ کو اہتمام کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے اسی طرح سے اس دعا اور تعلیم کو بھی ذہن نشین کرلینا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ اس کے علاوہ متعدد مواقع پر بھی اللہ کے رسول ﷺ نے ہاتھ پکڑ کر صحابہ کرام کو کسی چیز کی تعلیم دی ہے ، اس اعتبار سے یہ روایت بھی دوہاتھ سے بیعت کی دلیل ہوگی ۔
اور مصافحہ بھی بیعت ہی کی ایک قسم اور شکل ہے کہ سلام کے ذریعہ محبت و تعلق ، اعزاز و اکرام کا اظہار اور امن و سلامتی کا پیغام دینے کے بعد عملی طور پر ہاتھ ملاکر اس عہد اور پیمان کو مزید پختہ بنایاجاتا ہے ، چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری اس حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ملاقات کے وقت مصافحہ درحقیقت زبانی سلام کو مضبوط اور پختہ بنانا ہے کیونکہ زبان کے ذریعہ سلام کرنا امن و سلامتی کا اعلان ہے اور مصافحہ ، بیعت کی طرح ہے اور اس عمل کے ذریعہ سلامتی اور شانتی کی تلقین ہے تاکہ ملاقات کرنے والا اپنے ساتھی سے بے خوف وخطر ہوجائے اور جیسا کہ ہم نے کتاب کے شروع میں بیان کیا ہے کہ عربوں نے زمانۂ جاہلیت میں قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کر رکھا تھا وہ سب کو معلوم ہے ، یہاں تک کہ راہ چلنا مشکل اور سفر کرنا دشوار تر تھا ، راستے ویران اور سفر بند ہوجاتے تھے ، بے خوف وخطر سفر کرنا صرف محترم مہینوں میں ممکن تھا لیکن جب اسلام کا سورج طلوع ہوا ، امن و سلامتی کی روشنی ہر طرف پھیل گئی ، خوف اور خطرہ کے بجائے ہر طرف امن و امان کا دور دورہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ملاقات کے وقت دیگر الفاظ کے مقابلہ میں سلام کا لفظ متعین فرمایا تاکہ ملاقات کرنے والا اپنے ساتھی سے بے خوف اور مطمئن رہے ‘‘۔(فیض الباری:412/4)
اور اسی مناسبت اور یکسانیت کی وجہ سے بعض حدیثوں میں ’’بیعت‘‘ کے لیے بھی مصافحہ کا لفظ استعمال کیاگیاہے ، جیسا کہ اس روایت میں ہے :
’’ عن أمیمۃ قالت: أتیت النبیﷺ فی نساء لنبایعہ…قلنا: اللّٰہ ورسولہ: أرحم بنا، ھلم نبایعک، فقال رسول اللّٰہﷺ انی لا اصافح النساء ‘‘ (۲)
’’امیمہ کہتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں چند عورتوں کے ساتھ میں بیعت کے لیے حاضر ہوئی …ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ہم پر بہت زیادہ مہربان ہیں ، ہاتھ بڑھائیے تاکہ ہم آپ سے بیعت ہوجائیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ہوں ‘‘۔(سنن نسائی:149/7)
حاصل یہ ہے کہ دونوں طرح سے مصافحہ کرنا ثابت ہے ، ایک ہاتھ سے بھی اور دوہاتھ سے بھی ، موقع اور وقت کے اعتبار سے ہر ایک کی اجازت ہے اور کسی ایک کیفیت کو دوسرے پر کوئی اہمیت اور فضیلت حاصل نہیں ہے ، ان میں سے کسی ایک طریقے پر اصرار اور اہتمام ، غیر اہم کو اہم بنانے کے ہم معنی ہے جس کی وجہ سے یہ بدعت کے دائرے میں آجائے گا ، بلکہ خاص اہمیت ، محبت ، یگانگت اور امن و سلامتی کو ہے ، اگر یہ حاصل ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے کیاجائے یا دو ہاتھ سے ، لیکن اگر سلام و مصافحہ دلوں کی کدورت ، بے گانگی اور اختلاف ختم کرنے کاذریعہ نہ بنے تو وہ بے روح لاش کی طرح ہے اور ایک ہاتھ اور دو ہاتھ سے مصافحہ ہی نہیں بلکہ معانقہ کا بھی کوئی حاصل نہیں ہے ۔
۔(1) شیخ ولی الدین ابو عبداللّٰہ نے انہیں تابعین میں شمار کیا ہے، دیکھیے الاکمال فی اسماء الرجال:591-608،لیکن علامہ مبارک پوری نے انہیں تابعی ماننے سے انکار کیا ہے اور تبع تابعی قرار دیا ہے، دیکھیے: المقاصد الحسنیٰ:56، طبع: اہل حدیث اکیڈمی، مئو، یوپی۔
(2) قال العلامۃ ظفر احمد عثمانی: وھی بالید الواحدۃ اوبالیدین فلا نص فیہ،( اعلاء السنن: 37/8) واما المصافحۃ بالیدین فلم ارہ نصا بعد غیر مافی البخاری عن حدیث ابن مسعود فی التشھد، (حاشیہ بذل المجہود48/20)