سلسله(1)
پیدائش اور نسب سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242
1-مصنوعی تولید:
مصنوعی تولید کا مطلب یہ ہے کہ کسی وجہ سے طبعی طریقے پر حمل نہ ٹھہر سکے اور بچے کا خواہشمند جوڑا اس کے لیے طبی طریقہ اختیار کرے جس میں جماع کے بغیر عورت کو بار آور کر دیا جائے مثلا سرنج اور پچکاری کے ذریعے مرد کے منی کو عورت کے بچے دانی تک پہنچا دیا جائے یا دونوں کے مادہ تولید کو لے کر کسی ٹیوب میں بارآور کیا جائے اور پھر بار آور نطفے کو بچے دانی میں منتقل کر دیا جائے.مڈیکل سائنس میں اسے ان وٹرو فرٹیلائزیش( in vitro fertilization) اور مختصرا ivf کہا جاتا ہے۔ اس کی متعدد صورتیں ہیں۔
1-میاں بیوی کی زندگی میں مرد کے تولیدی مادے کو حاصل کر کے سرنج کے ذریعے بیوی کی بچے دانی میں داخل کر دیا جائے اور وہیں پر اسے بار آور کیا جائے.
2-قیام زوجیت کی حالت میں مرد و عورت کے تولیدی مادے کو لے کر کسی ٹیوب میں بارآور کیا جائے اور پھر اسے بیوی کی بچی دانی میں منتقل کر دیا جائے جہاں طبعی طریقے پر بچے کی نشو و نما ہوگی.
3-قیام زوجیت کی حالت میں مرد و عورت کے مادے کو حاصل کیا جائے اور ٹیوب میں بار آور کرنے کے بعد اسی شخص کی دوسری بیوی کے بچے دانی میں منتقل کر دیا جائے.
بوقت ضرورت ان تینوں شکلوں کی اجازت ہوگی بشرطیکہ تولیدی مادے کو حاصل کرنے میں شرعی ضابطوں کا لحاظ رکھا جائے اور کسی دوسرے شخص کے تولیدی مادے کے ساتھ خلط ملط سے بچنے کی تمام احتیاطی تدبیریں اپنائی جائیں تاکہ اختلاط نسب سے بچا جائے۔ اور رشتہ زوجیت فی الحال موجود اور قائم ہو۔ اور ستر پوشی کی تمام تدبیریں اپنائی جائیں اور بوقت ضرورت صرف ضرورت کے بقدر جسم کے حصے کو کھولا جائے اور مرد کے مادے کو مرد ڈاکٹر اور عورت کے مادے کو عورت ڈاکٹر حاصل کریں البتہ ہم جنس ڈاکٹر دستیاب نہ ہونے کی حالت میں بدرجہ مجبوری غیر جنس ڈاکٹر کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ کوشش کی جائے کہ اس کے لیے کسی مسلم ڈاکٹر کی خدمات حاصل کی جائیں اور بدرجہ مجبوری غیر مسلم کو اختیار کیا جائے اور بار آوری کے دوسرے متبادل طریقوں سے مایوسی کے بعد ہی اسے اپنایا جائے.
یہ طریقے گرچہ پیدائش کے عام طریقے کے مطابق نہیں ہیں لیکن انھیں خلاف فطرت نہیں کہا جاسکتا ہے بلکہ علاج کا ایک طریقہ ہے جیسے کہ آپریشن کے ذریعہ پیدائش، حقیقی ماں کے بجائے دوسری عورت کا یا گائے،بھینس کا دودھ یا ڈبے کا دودھ پینا،پیچھے کے راستے سے دوا داخل کرنا، آپریشن اور چیر پھاڑ وغیرہ ۔
4-بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے مادے کو مرد کے نطفے سےٹیوب میں بار اور کیا جائے اور پھر اسے اس شخص کی بیوی کی بچے دانی میں منتقل کر دیا جائے جس سے نطفہ حاصل کیا گیا ہے۔
5-کسی شخص کی بیوی کے مادے کو شوہر کے علاوہ دوسرے مرد کے نطفے سے ٹیوب میں بار آور کیا جائے اور پھر اسے اس شخص کی بیوی کے بچے دانے میں منتقل کر دیا جائے جس سے مادہ حاصل کیا گیا ہے.
6-میاں بیوی کے علاوہ کسی بھی مرد عورت کے نطفے کو ٹیوب میں بارآور کیا جائے اور پھر اسے کسی شخص کی بیوی کے رحم میں منتقل کر دیا جائے۔
میاں بیوی کے علاوہ کسی اور کے مادہ تولید کے استعمال کی تمام شکلیں ناجائز ہیں۔کیونکہ ان میں نسب کا اختلاط ہوتا ہے اور زنا سے ممانعت کی بنیادی وجہ یہی ہے ، نیز اس کی وجہ سے عائلی نظام کی پائیداری متاثر ہوتی ،شکوک و شبہات سے جنم لیتے ہیں ،وراثت کا نظام مشکوک ہوجاتا ہے اور معاشرتی و اخلاقی نظام کی برقراری مشکل ہوجاتی ہے ۔اور عدت کی مشروعیت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے ۔اور اس میں دوسرے کی کھیتی میں تخم ریزی یا اسے سیراب کرنا پایا جاتا ہے جس سے حدیث میں بہ صراحت منع کیا گیا ہے ۔حضرت رویفع بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
” مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَسْقِ مَاءَهُ وَلَدَ غَيْرِهِ ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ : لَا يَرَوْنَ لِلرَّجُلِ إِذَا اشْتَرَى جَارِيَةً وَهِيَ حَامِلٌ أَنْ يَطَأَهَا حَتَّى تَضَعَ.
جو کوئی اللہ اور اخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے تو وہ اپنے پانی سے دوسرے بچے کو سیراب نہ کرے۔۔۔امام ترمذی کہتے ہیں کہ اہل علم کا اسی کے مطابق عمل ہے وہ اس بات کے قائل ہیں کہ جب کوئی شخص حاملہ باندی کو خریدے تو اس کے لیے وضع حمل سے پہلے اس سے وطی کرنا صحیح نہیں ہے۔( ترمذي: 1131)
چونکہ اس میں زنا اپنی ظاہری شکل کے ساتھ نہیں پائی جاتی ہے اس لئے اس عمل پر اس کی سزا جاری نہیں ہوگی ،البتہ چونکہ یہ عمل زنا کی طرح ہے اس لئے قاضی مناسب سرزنش کرسکتا ہے ۔
اور اگر کوئی عورت ان طریقوں میں سے کسی کے ذریعے حاملہ ہو جائے تو بچے کا نسب اس کے شوہر سے ثابت ہوگا نہ کہ اس شخص سے جس کا نطفہ لیا گیا ہے ۔چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی عتبہ نے مرتے وقت پیغام بھیجا کہ زمعہ (ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کا باپ) کی لونڈی کا بیٹا عبدالرحمن میرے نطفہ سے ہے۔ لہذا تم اس کو لے لینا۔ فتح مکہ کے موقع پر جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ اسے لینا چاہا تو زمعہ کا بیٹا کہنے لگا کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں وہ اپنا معاملہ لے کے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سننے کے بعد فرمایا ۔
الولد للفراش وللعاهر الحجر.
"بچہ تو اس کا ہے جس کےبستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔”
لہذا یہ زمعہ کا بیٹا سمجھا جائے گا البتہ اپنی بیوی حضرت سودہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
احْتَجِبِي مِنْهُ ” ؛ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ، فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ۔
"سودہ رضی اللہ عنہ، اس سے پردہ کیا کرو۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس بچہ کی صورت عتبہ سے ملتی تھی چنانچہ اس لڑکے نے حضرت سودہ کو کبھی نہیں دیکھایہاں تک کہ اس کی وفات ہوگئی۔”.(بخارى2053. كتاب البيوع بات التفسير المشتبهات)
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچہ کی شکل و صورت سے یہ معلوم ہو گیا تھا، کہ وہ عتبہ کا ہی بیٹا ہے اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو زمعہ کا بیٹا قرار دیا، جس کی لونڈی نے اسے جنا تھا۔
البتہ حرمت مصاہرت کے معاملے میں احتیاط کا تقاضا ہے کہ اس طرح سے پیدا ہونے والے بچے کے لئے اس شخص کے اصول و فروع سے نکاح کو نادرست کہا جائے جس کے مادہ تولید سے وہ پیدا ہوا ہے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔کیونکہ درحقیقت وہی اس کا باپ ہے ۔اور حنفیہ اور دوسرے بعض اماموں کے نزدیک زنا سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے ۔
البتہ اگر شوہر اسے اپنا بچہ ماننے سے انکار کرکے لعان کرلے یا کوئی غیر شادی شدہ عورت اس طرح سے ماں بن جائے تو بچے کا نسب نہ تو شوہر سے ثابت ہوگا اور نہ اس شخص سے جس کا مادہ تولید لیا گیا ہے ۔اور وہ صرف اپنی ماں کی طرف منسوب ہوگا اور اس کی وراثت کا حقدار مانا جائے گا چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عمویمر عجلانی نے اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگایا اور اس نے انکار کیا پھر دونوں نے لعان کیا ،راوی کہتا ہے :
فَتَلَاعَنَا وَأَنَا شَاهِدٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَارَقَهَا، فَكَانَتْ سُنَّةً أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، وَكَانَتْ حَامِلًا، فَأَنْكَرَ حَمْلَهَا، وَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا، ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي الْمِيرَاثِ أَنْ يَرِثَهَا، وَتَرِثَ مِنْهُ مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهَا.و في رواية: فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَصْدِيقِ عُوَيْمِرٍ، فَكَانَ بَعْدُ يُنْسَبُ إِلَى أُمِّهِ.
رسول ﷲ ﷺ کے پاس میں موجود تھا ،ان دونوں نے لعان کیا پھر شوہر نے اسے طلاق دے دی ،اس کے بعد یہی سنت جاری ہوگئی کہ لعان کے بعد میاں بیوی میں علاحدگی کرادی جائے گی ۔عورت حاملہ تھی اور اس کے شوہر نے کہا کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے چنانچہ وہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوتا تھا پھر وراثت کے سلسلے میں یہ سنت جاری ہوئی کہ وہ لڑکا اپنی ماں کا وارث ہوگا اور ماں اس کی وارث ہوگی ۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ بچہ ہوبہو اسی صفت پر پیدا ہوا جسے اللہ کے رسول ﷺ نے بیان فرمایا تھا اور جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ شوہر اپنی بات میں سچا ہے ۔(صحیح بخاری :4746-4745)
اور اگر کسی عورت کے مادہ تولید کو دوسری کسی عورت میں منتقل کیا گیا تو ماں وہی عورت شمار ہوگی جس کے پیٹ سے وہ بچہ پیدا ہوا ہے کیونکہ قرآن کریم میں لفظ "ماں” کے لیے دو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں: ایک "والدۃ” اور دوسرے "اُم” لغت کے اعتبار سے "والدۃ” کا اطلاق صرف اس عورت پر ہوگا جو بچہ کو جنم دے۔چنانچہ سورہ البقرۃ میں ہے:
وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ؕ وَ عَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہٗ رِزۡقُہُنَّ وَ کِسۡوَتُہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ لَا تُکَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَہَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِہَا وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ ٭
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں، یہ مدت ان کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہیں، اور جس باپ کا وہ بچہ ہے اس پر واجب ہے کہ وہ معروف طریقے پر ان ماؤں کے کھانے اور لباس کا خرچ اٹھائے، ۔ (ہاں) کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی، نہ تو ماں کو اپنے بچے کی وجہ سے ستایا جائے، اور نہ باپ کو اپنے بچے کی وجہ سے ۔ (سورہ البقرۃ آیت نمبر 233)
ماں کے لیے دوسرا لفظ "اُم” ہے۔ جسکا مفہوم والدہ سے وسیع ہے۔ یعنی حقیقی ماں اور دادی، ، نانی،وغیرہ سب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔قرآن حکیم میں "اُم” کا لفظ بھی اس عورت کے لیے استعمال کیا گیا جس نے بچہ جنم دیا ہو:
إِن أُمَّهـٰتُهُم إِلَّا الّـٰـٔى وَلَدنَهُم.
ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا ہے” (سورة المجادلة:2)
ایک دوسری آیت میں ہے :
﴿حَمَلَتهُ أُمُّهُ كُرهًا وَوَضَعَتهُ كُرهًا.
اس کی ماں نے بڑی مشقت سے اس کو پیٹ میں اُٹھائے رکھا اور بڑی مشقت سے اسے جنا .( سورة الاحقاف:15)
پہلی آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ماں وہی ہے جو بچہ کو جنم دیتی ہے۔ اور دوسری آیت میں تو مزید صراحت آگئی کہ ماں وہ ہے جو حمل کو پیٹ میں رکھتی اور پھر اسے جنتی ہے۔
مذکورہ آیات سے واضح ہوگیا کہ ماں اسے سمجھا جائے گا جس نے اسے جنم دیا ہے نہ کہ اسے جس کا مادہ تولید استعمال کیا گیا ہے ۔
البتہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ جس عورت کے تولیدی مادے کو استعمال کیا گیا ہے حرمت رضاعت کی طرح اس سے بھی حرمت کا رشتہ قائم سمجھا جائے کیونکہ بہر کیف اس کی تخلیق میں اصل کردار اسی کے جوہر حیات کا ہے ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے جدید فقہی مسائل 168/6)
واضح رہے کہ علماء کرام کی ایک بڑی تعداد مصنوعی تولید کی تمام شکلوں کو ناجائز قرار دیتی ہے اس لئے اس سے احتیاط کرنا بہتر ہے .