مقاصد شریعت کی تعلیم ۔

ولی ﷲ مجید قاسمی ۔

دنیا اور اس کی تمام آسائشوں ،کائنات اور اس میں موجود تمام چیزوں کا مقصد وجود بنی آدم کی ضرورت و حاجت آسانی و راحت اور آرائش و زینت کی تکمیل ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ قُلۡ ہِیَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا خَالِصَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ۔
کہو کہ : آخر کون ہے جس نے زینت کے اس سامان کو حرام قرار دیا ہو جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے اور (اسی طرح) پاکیزہ رزق کی چیزوں کو ؟ کہو کہ : جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کو یہ نعمتیں جو دنیوی زندگی میں ملی ہوئی ہیں، قیامت کے دن خالص انہی کے لیے ہوں گے۔ اسی طرح ہم تمام آیتیں ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو علم سے کام لیں۔,,(سورہ الاعراف : 32)
اور انسان کا مقصد وجود یہ ہے کہ وہ ان سے اللہ کی عبادت کے لیے قوت اور ان کے ذریعے اس کی معرفت حاصل کرے:
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ۔
اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔(سورہ الذّٰریٰت : 56)
دنیا فانی میں رہتے ہوئے حیات جاودانی کی تیاری کیسے کی جائے ؟ رنج و علم کے اس جنگل کو سکون و اطمینان کا گہوارہ کیسے بنایا جائے ؟ کس طرح سے اسے جنت نمونہ بھی بنایا جا سکتا ہے اور آخرت کی کامیابی سے بھی ہمکنار ہوا جا سکتا ہے؟
قرآن کہتا ہے اسلام ایک ایسا نظام زندگی ہے جو دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی اور سرخروئی کی ضمانت دیتا ہے۔ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایات پوری دنیا کے لیے سراپا رحمت و برکت ہیں اور امن و سکون اور عدل و مساوات کی پیاسی انسانیت کے لیے اب حیات۔ رب کائنات کا ارشاد ہے :
* یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ.
لوگو تمہارے پاس ایک ایسی چیز آئی ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک نصیحت ہے، اور دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے، اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا سامان ہے۔(سورہ یونس آیت : 57)
* ہٰذَا بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ ۔
یہ (قرآن) تمام لوگوں کے لیے بصیرتوں کا مجموعہ ہے، اور جو لوگ یقین کریں ان کے لیے منزل تک پہنچانے کا ذریعہ اور سراپا رحمت ہے۔(سورہ الجاثیہ : 20)
کتاب و سنت میں بکثرت کسی حکم کو بیان کرنے کے ساتھ اس کے مقصد اور پس منظر کو اجاگر کیا گیا ہے جیسا کہ مذکورہ آیات میں دیکھا جا سکتا ہے؛ اس لیے یہ خیال غلط ہے کہ شرعی احکام میں کسی حکمت و مصلحت ،غرض و غایت اور مقصد کی تلاش بے معنی اور بے فائدہ ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے:
شرعی احکام میں کسی حکمت و مصلحت کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے ان میں کسی علت و غایت کی رعایت نہیں ہے۔ اعمال اور ان پر مرتب ہونے والی جزا اور سزا میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ ان احکام کی حیثیت بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ آقا اپنے کسی غلام کی وفاداری اور اطاعت شعاری کا امتحان لینا چاہے اور اس کے لیے پتھر اٹھانے یا کسی درخت کو چھو کر آنے کا حکم دے۔ اور اطاعت یا نافرمانی کی شکل میں انعامات سے نوازے یا کوئی سزا دے ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح اس جرم و سزا اور حکم میں کوئی ربط نہیں ہے بلکہ مقصود صرف امتحان اور آزمائش ہے۔ اسی طرح سے اللہ کی طرف سے نازل کردہ احکامات کا مقصد بھی صرف بندوں کی آزمائش ہے ۔ان میں کسی طرح کی حکمت و مصلحت کی رعایت نہیں ۔
محدث دہلوی کہتے ہیں کہ اس طرح کا خیال "ظن فاسد "ہے اور کتاب و سنت سے اس گمان کی تردید ہوتی ہے اور خیر القرون کے طویل دورانیہ سے اس رائے کی مخالفت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ تفصیل سے قرآن و حدیث میں مذکور بعض مقاصد پر روشنی ڈالتے ہیں ۔صحابہ کرام سے منقول مقاصد کو بیان کرتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں:
ثم لم يزل التابعون ثم من بعدهم العلماء المجتهدون يعللون الاحكام بالمصالح ويفهمون معانيها ويخرجون للحكم المنصوص مناطا مناسبا لدفع ضر او جلب نفع ۔
تابعین اور ائمہ مجتہدین حکم کی مصلحت و حکمت بیان کرتے رہے اور اس کی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے اور کتاب و سنت میں مذکور حکم کی ایسی وجہ تلاش کرتے جو جلب منفعت اور دفع مضرت کے مناسب ہو۔ (حجة الله البالغة/6-5)
غزوہ احزاب کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ وہ عصر کی نماز بنو قریظہ میں جا کر پڑھیں صحیح بخاری میں مذکور روایت کے الفاظ یہ ہیں:
لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ ". فَأَدْرَكَ بَعْضَهُمُ الْعَصْرُ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : بَلْ نُصَلِّي ؛ لَمْ يُرَدْ مِنَّا. ذَلِكَ فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ.
تم میں سے ہر شخص بنو قریظہ ہی میں جا کر عصر کی نماز پڑھے( لوگ تیزی سے چلے) مگر راستہ ہی میں عصر کا وقت ہوگیا(اور اندیشہ ہوا کہ وہاں تک پہنچنے میں عصر کی نماز قضا ہو جائے گی) کچھ لوگوں نے کہا ہم وہاں پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھیں گے (گرچہ قضا ہو جائے) .دوسرے لوگوں نے کہا بلکہ ہم راستے ہی میں نماز پڑھیں گے ۔اللہ کے رسول کا یہ مقصد نہیں تھا (کہ عصر کی نماز قضا کر دی جائے بلکہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ ہم لوگ تیزی سے وہاں جائیں چنانچہ ان لوگوں نے راستے ہی میں نماز پڑھ لی.) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے کسی پر نکیر نہیں فرمائی۔(صحيح بخاري: 946)
راستے میں نماز پڑھنے والے وہ لوگ تھے جو ظاہر کے ساتھ کسی حکم کے مقصد پر بھی نگاہ رکھتے تھے اور یہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی حکم کی حقیقت تک رسائی ہوتی ہے اور حکم دینے والے کی مرضی اور منشا کی تکمیل ہوتی ہے چنانچہ علامہ ابن القیم لکھتے ہیں:
کل من الفريقين ماجور بقصده الا من صلى في الطريق حاز الفضيلتين امتثال الامر في الاسراع وامتثال الامر في المحافظه على الوقت۔
نیک نیتی کی وجہ سے دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک کو اجر و ثواب ملے گا لیکن جس نے راستے میں نماز پڑھی تھی اسے دو فضیلتیں حاصل ہو گئیں ایک یہ کہ جلدی چلنے کے سلسلے میں اللہ کے رسول کے حکم کی پابندی بھی ہو گئی دوسرے وقت پر نماز پڑھنے کے حکم کی رعایت بھی ہو گئی۔(فتح الباري410/7)
حقیقت یہ ہے کہ شریعت کے تمام احکامات و تعلیمات. دین و ایمان، عقل و خرد ،جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور عدل و انصاف، آزادی و خود مختاری اور ہر ایک کے ساتھ رحمت و شفقت جیسے بلند مقاصد پر مبنی ہیں اور منفعت کی رعایت اور نقصان دہ چیزوں سے کنارہ کشی جیسی حکمتوں سے عبارت ہیں۔ اور یہی وہ ہدایات ہیں جن میں انسانیت کی صلاح و فلاح کی ضمانت ہے علامہ ابن قیم کے الفاظ میں:
ان الشريعة مبناها و اساسها على الحكم و مصالح العباد في المعاش و المعاد .وهي عدل كلها .و مصالح كلها .و حكمة كلها فكل مسالة خرجت عن العدل الى الجور و عن الرحمة الى ضدها وعن المصلحة الى المفسدة وعن الحكمة الى العبث فليست من الشريعة وان ادخلت فيها بالتاويل .
شریعت کی بنیاد دنیا اور اخرت دونوں میں بندوں کی مصلحت اور حکمت پر ہے یہ شریعت سراپا عدل و انصاف اور حکمت و مصلحت ہے اس لیے اگر کسی بھی مسئلے میں عدل کی جگہ ظلم. رحمت کی جگہ زحمت .صلاح کی جگہ فساد اور حکمت کے بجائے بیکاری نظر آئے تو جان لینا چاہیے کہ شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں اگرچہ کچھ لوگ تاویل کے ذریعے اسے شریعت کا حصہ بنائے ہوئے ہوں۔(مفتاح دار السعادہ: 2/2)
شریعت کی غایت و مقصد اور حکمت و فلسفہ کو جانے بغیر نہ تو اس کی قدر و قیمت سے صحیح آگاہی ہو سکتی ہے اور نہ ہی مختلف حالات و ضروریات اور ہر زمان و مکان میں اس کا انطباق کیا جا سکتا ہے ۔وہ اجتہادی روح جس کے ذریعے شارع کی مرضی و منشا معلوم ہو سکے ہرگز پیدا نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ مقاصد شریعت کا علم نہ ہو ۔چنانچہ امام الحرمین فرماتے ہیں کہ جو شخص اوامر و نواہی میں شریعت کے مقاصد کا فہم نہیں رکھتا اسے شریعت کے معاملے میں بصیرت حاصل نہیں ہو سکتی (البرہان 913/2)اور علامہ شاطبی نے اجتہاد کے لیے دو شرطیں ذکر کی ہیں ان میں سے ایک مقاصد کا علم ہے۔ دوسری میں ان تمام علوم کا بیان ہے جسے عام طور پر اجتہاد کی شرائط میں ذکر کیا جاتا ہے۔
مقاصد شریعت کو جاننے سے درج ذیل فائدے حاصل ہوں گے:
1-مومن کا ایمان تازہ ہوگا. اطمینان اور یقین کی کیفیت پیدا ہوگی .عبادت میں دلجمعی حاصل ہوگی .اور عبودیت کی لذت اور چاشنی نصیب ہوگی.
2-مدعو قوم کے سامنے یہ واضح کیا جا سکے گا کہ اسلام ہی وہ نظام حیات ہے جو دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی اور کامرانی کی ضمانت دیتا ہے. ظلم و ستم .رنگ و نسل .ذات اور برادری اور مختلف نظریات و تہذیب کی چکی میں پستی، سسکتی اور دم توڑتی ہوئی انسانیت کے لیے نسخہ شفا ہے۔ یہی وہ کار گاہ حیات ہے جہاں انسان کو انسان بنایا جاتا ہے۔ مقاصد شریعت کے علم کے بغیر دعوتی میدان میں کام کرنے سے نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا کہ اس کے بغیر اس فریضے کی ادائیگی نا ممکن ہے۔ اور نہ ہی اس کے بنا اسلام کے امتیازات کی وضاحت ہو سکتی ہے۔
3-مسلمانوں میں فرقہ پرستی جڑ پکڑتی جا رہی ہے بلکہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کے کانٹوں سے ملت کا دامن تار تار ہے اور جس کے کڑوے، کسیلے اور زہریلے پھل سے اسلام کی وحدت اور امن و سلامتی جان بلب ہے ۔بعض فروعی اختلاف کی وجہ سے طعن و تشنیع۔ تذلیل و تفسیق سے آگے بڑھتے ہوئے تکفیر اور الحاد کی گولہ باری ہو رہی ہے۔ مقاصد شریعت کو جاننے کی وجہ سے اختلافات کے اس وسیع ہوتے ہوئے خلیج کو پاٹا جا سکتا ہے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت پروان چڑھے گی جیسا کہ بنو قریظہ کا واقعہ اس کے لیے بہترین مثال ہے.
4-بعض فرقے یا افراد کم علمی یا غلط فہمی کی وجہ سے اسلام کی بعض تعلیمات کو عدل و انصاف اور عقل و خرد کے خلاف اور آزادی و خود مختاری اور احترام انسانیت کے منافی قرار دیتے رہے ہیں جیسے کہ نظام وراثت، نکاح و طلاق ، عورتوں کے حقوق، اور تعدد ازدواج وغیرہ
ان احکامات کے پس پشت کار فرما مقاصد کو جاننے اور بیان کرنے کی وجہ سے ان کے تعلق سے پھیلی ہوئی غلط فہمی ختم ہوگی۔ اور جو مسلمان اس طرح کے اعتراضات سے متاثر ہو رہے ہیں ان کو مطمئن کیا جا سکے گا.
5- دور حاضر جو نت نئے مسائل کا دور ہے۔ صنعتی انقلاب اور سائنسی ترقی نے مسائل کا ایک انبار لا کھڑا کر دیا ہے ۔ان مسائل کے حل میں مقاصد شریعت کا بڑا اہم رول ہے ۔اسے نظر انداز کر کے جو قانون سازی ہوگی وہ یا تو حرج و تنگی پر مشتمل ہوگی یا اس کے ذریعے اباحیت کا دروازہ چوپٹ کھل جائے گا.
مقاصد شریعت جو فقہ اسلامی کا جوہر اور روح ہے اور جس کی اہمیت اور ضرورت محتاج بیان نہیں لیکن اس کے باوجود اس کی طرف خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اصول فقہ کی بعض کتابوں میں مقاصد کا تذکرہ ضرور ملتا ہے لیکن آج درس نظامی میں شامل اصول فقہ کی کتابیں اس کے ذکر سے خالی ہیں اور خصوصی طور پر اس فن سے متعلق جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں سے زیادہ نہیں۔ حالانکہ یہ فن خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔ دور حاضر میں عرب دنیا میں اس کے تعلق سے کچھ بیداری آئی ہے ۔اور ہر سال دو چار نئی کتابوں کا چرچا ہوتا رہتا ہے۔ لیکن خالص نصابی اور موجودہ ذہن کا لحاظ رکھتے ہوئے تطبیقی کتاب کی آج بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اللہ کرے یہ کام ہندوستان میں انجام پائے اور جس طرح سے محدث دہلوی نے اس موضوع پہ تطبیقی کتاب لکھی ہے اسی طرح اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے ۔
اور سر دست حدیث و فقہ کی کتابوں کی تدریس کے دوران احکام کی حکمتیں بھی بیان کی جائیں اور عربی پنجم سے حجت اللہ البالغہ کے وہ ابواب پڑھائے جائیں جو احکام کی حکمتوں پر مشتمل ہیں اور آخری سال کے طلبہ کے سامنے محاضرات کے ذریعے عمومی مقاصد کی تفہیم اور اس کے اصول و ضوابط بیان کیے جائیں کہ اس طرح کی چیزوں کی تفہیم کے لیے محاضرہ اور لیکچر ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے کم وقت میں زیادہ فائدہ اور اچھے نتیجے کی امید ہوتی ہے.
مقاصد شریعت کے ساتھ ساتھ دینی درسگاہوں سے میدان عمل میں آنے والوں کے لیے کائنات اور انسان کے تعلق سے سائنسی اکتشافات سے واقفیت بھی ضروری ہے تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے وجود اس کی وحدانیت اور رسالت کی ضرورت اور قرآنی تعلیمات کی حقانیت کے سلسلے میں دریافت شدہ مواقع سے فائدہ اٹھایا جا سکے نیز میڈیکل سائنس کے ذریعے حلال چیزوں کے فوائد اور حرام کی مضرتیں منظر عام پر آچکی ہیں ان سے آگاہی بھی ضروری ہے.
ان چیزوں سے واقفیت کے ساتھ جو افراد تیار ہوں گے وہ مقاصد شریعت اور اس کے انطباق کی نازک اور اہم ذمہ داری سے عہدہ برا ہوسکیں گے۔ اور بہتر انداز میں دین کی تبلیغ اور اس کی دعوت کا فریضہ انجام دے سکیں گے ۔وہ اسلامی تعلیمات کی عظمت و رفعت اور امتیازات کو جا کر کر سکیں گے۔ اور ایسے لوگوں سے اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ وسیع الخیال اور اعلی ظرف بھی ہوں گے اور اختلافی مسائل میں برداشت کا مظاہرہ کر سکیں گے ۔اور یہی وہ لوگ ہوں گے جن کے کاندھوں پر نئے مسائل کے حل کی ذمہ داری ڈالی جا سکتی ہے.

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے