مہینوں اور دنوں کے فضائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

(1)*اللہ کا مہینہ*

محرم کی فضیلت   

محترم مہینے چار ہیں ،محرم ،رجب، ذو القعدہ ،ذوالحجہ، اور ان میں سب سے افضل محرم کا مہینہ ہے ، جس کے مرتبے اور درجے کے اظہار کے لئے اسے اللہ کا مہینہ کہا گیا ہے ، حضرت حسن بصری سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سال کی ابتداء اور انتہاء دونوں محترم مہینوں سے کیا ہے اور اللہ کی نگاہ میں رمضان کے بعد کوئی مہینہ محرم سے زیادہ بہتر نہیں ہے (لطائف المعارف:70)

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں :

افضل الصیام بعد رمضان شہر اللہ المحرم ، و افضل الصلاۃ بعد الفریضۃ صلاۃ اللیل(صحیح مسلم:1163)

رمضان کے بعد سب سے افضل اللہ کے مہینہ محرم کا روزہ ہے ، اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل تہجد کی نماز ہے ۔

اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

سألت النبی صلی اللہ علیہ وسلم أی اللیل خیر؟ و ای الاشہر افضل ؟ فقال :خیر اللیل جوفہ و افضل الاشہر شہر اللہ الذی تدعونہ المحرم ( السنن الکبریٰ للنسائی :4216، سنن الدارمی : 1757عن ابی ھریرۃ ، شعب الایمان :3774)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے دریافت کیا : رات کا کونسا حصہ سب سے بہتر ہے اور کونسامہینہ سب سے افضل ہے ؟ فرمایا : رات کا سب سے بہتر حصہ اس کا درمیانی حصہ ہے ، اور سب سے افضل مہینہ اللہ کا مہینہ ہے جسے تم  لوگ محرم کہتے ہو۔

اور محرم کے مہینے کا ابتدائی دس دن بقیہ دنوں کی بہ نسبت زیادہ فضیلت رکھتا ہے ۔ ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ سلف تین عشرے کو بہت اہمیت دیتے تھے ،یعنی رمضان کا آخری دس دن اور ذو الحجہ اور محرم کا ابتدائی دس دن ۔اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت قتادہ سے منقول ہے کہ  "سورۃ الفجر ” میں جس فجر کی قسم کھائی گئی ہے اس سے مراد محرم کے پہلے دن کا فجر ہے جس سے سال کی شروعات ہوتی ہے (شعب الایمان :3771،لطائف المعارف :71)

محرم کا مہینہ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس سے ہجری اور ہلالی سال شروع ہوتا ہے ، اس طرح سے وہ ماہ احتساب بھی ہے کہ انسان اس کی ابتداء میں گزشتہ پورے سال کا جائزہ لے اور عبادتوں کی توفیق اور دوسری نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرے اور اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں پر ندامت کے احساس کے ساتھ توبہ کرے اور اس سال کو اللہ کی عبادت و طاعت کا سال بنانے کا عزم اور عہد کرے ۔

اور افضل یہ ہے کہ سال کے پہلے مہینے کی ابتداء روزے سے ہو جس کی برکت سے امید ہے کہ پورے سال بندگی کی توفیق ملتی رہے گی اور خیر وعافیت کے گہوارے میں زندگی بسر ہوگی ، اس لئے کہ بارہ مہینوں میں سے صرف اِس ماہ کو اللہ کا مہینہ کہا گیا ہے اور عبادتوں میں سے صرف روزے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے :

قال اللہ : کل عمل ابن آدم لہ الا الصیام فانہ لی و انا اجزی بہ (صحیح بخاری:1904،صحیح مسلم:1151)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انسان کا ہر عمل اس کے لئے ہوتا ہے سوائے روزے کے کہ وہ میرے لئے ہوتا ہے اور میں اس کا بدلہ دونگا۔

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ایک روایت میں ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل محرم کا روزہ ہے ۔(صحیح مسلم :1163)

عاشوراء کا روزہ

محرم کے پورے مہینے میں روزہ رکھنا باعث فضیلت ہے اور خصوصاً عاشوراء کے روزے کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یوم عاشواء کانت تصومہ الانبیاء فصوموہ انتم (مصنف ابن ابی شیبہ:9355)

انبیاء کرام علیہم السلام عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اس لئے اس دن تم بھی روزہ رکھو۔

اور گزشتہ انبیاء کی جو تعلیمات صحیح شکل میں مکہ کے لوگوں میں موجود تھیں ان میں ایک عاشوراء کا روزہ بھی تھا چنانچہ قریش کے لوگ عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی یہی تھا ،  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :

کانت عاشوراء یوما تصومہ قریش فی الجاھلیۃ و کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصومہ 

قریش کے لوگ زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی تھا ۔

اور مدینہ ہجرت کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس معمول کو باقی رکھا بلکہ اسے فرض روزے کی حیثیت دی ، البتہ رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد اس کی یہ حیثیت برقرار نہیں رہی تاہم اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ،

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول حدیث میں ہے کہ :

کانت عاشوراء یوما تصومہ قریش فی الجاھلیۃ و کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصومہ فلما قدم المدینہ صامہ و امر بصیامہ فلما نزلت فریضۃ شہر رمضان کان رمضان ھو الذی یصومہ فترک یوم عاشوراء فمن شاء صامہ ومن شاء افطرہ (صحیح بخاری:2002، صحیح مسلم :1125)

قریش کے لوگ زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی تھااور مدینہ ہجرت کے بعد بھی آپ نے اس روزے کو رکھا اور لوگوں کو اس روزے کو رکھنے کا حکم دیا لیکن جب رمضان کی فرضیت کا حکم نازل ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان ہی کا روزہ رکھا کرتے اور( بحیثیت فرض )عاشوراء کا روزہ ترک کردیا ،تو جو چاہے رکھے اور جو چاہے نہ رکھے ۔

اور سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

امر النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجلا من اسلم أن أذن فی الناس ان من کان اکل فلیصم بقیۃ یومہ ومن لم یکن اکل فلیصم فان الیوم عاشوراء ۔(صحیح بخاری:2007،صحیح مسلم :1135)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کردے کہ جو کھانا کھاچکا ہو وہ بقیہ دن کا روزہ رکھے اور جس نے نہ کھایا ہو وہ روزہ رکھ لے کیوں کہ آج عاشوراء کا دن ہے ۔

اور حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :

ارسل النبی صلی اللہ علیہ وسلم غداۃ عاشوراء الی قری الانصاری من اصبح مفطرا فلیصم بقیۃ یومہ ومن اصبح صائما فلیصم قالت کنا نصومہ بعد ونصوم صبیانناو نجعل لھم اللعبۃ من العھن فاذا بکی احدھم علی الطعام اعطیناہ ذاک حتی یکون عند الافطار(صحیح بخاری:1960،صحیح مسلم :1136)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کی صبح میں انصار کی آبادیوں میں پیغام بھیجا کہ جو کوئی صبح میں کچھ کھاچکا ہو وہ بقیہ دن کا روزہ رکھےاور جس نے نہ کھایا ہو وہ کچھ نہ کھائے بلکہ روزہ رکھ لے ، وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد ہم اس دن روزہ رکھتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی رکھا تی تھیں اور ان کے لئے روئی کا کھلونا بنادیتی تھیں لہذا اگر کوئی بھوک کی وجہ سے روتا تو اسے وہ کھلونا دے کر بہلادیتی تھیں یہاں تک کہ افطار کا وقت آجاتا۔

مدنیہ منورہ آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہود بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا پس منظر پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی دن حضرت موسٰی کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دی تھی ، اور انہوں نے شکر انے کے طور پر اس دن روزہ رکھا اور ہم انہیں کی اقتداء کرتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں حضرت موسٰی سے تم سے زیادہ محبت و تعلق ہے ،اس سلسلے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول روایت کے الفاظ یہ ہیں :

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما قدم المدینۃ وجدھم یصومون یوما یعنی عاشوراء فقالو ھذا یوم عظیم وھو یوم نجی اللہ فیہ موسیٰ و اغرق آل فرعون فصام موسی شکراً للہ فقال انا اولیٰ بموسی منھم فصامہ و امر بصیامہ (صحیح بخاری: 3397)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ آئے تو یہود کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا اور اس کے بارے میں معلوم کرنے پر انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم الشان دن ہے ، اسی دن اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دی اور فرعون اور اس کے خاندان کو سمندر میں غرق کردیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کےطور پر روزہ رکھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہم تمہاری بہ نسبت حضرت موسیٰ سے زیادہ قریب ہیں تو آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی رکھنے کا حکم دیا ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کی عمر تیرہ چودہ سال تھی اور فتح مکہ کے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں ،غرضیکہ انہیں بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بالکل آخری مرحلے کے مشاہدہ کا موقع ملا ، وہ کہتے ہیں :

ما علمت ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صام یوما یطلب فضلہ علی الایام الا ھذا الیوم و لا شہراً الا ھذا الشہر یعنی رمضان (صحیح مسلم :1132)

میرے علم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے دنوں کے بالمقابل عاشوراء کے دن کو اس کی فضیلت کی وجہ سے اہمیت دیتے ہوئے اس دن روزہ رکھاکرتے تھے اور اس طرح سے دوسرے مہینوں کی بہ نسبت رمضان کے مہینے کو خاص اہمیت دیتے تھے ۔

اور انہیں سے منقول ہے کہ :

حین صام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشوراء و امر بصیامہ قالو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ یوم تعظمہ الیہود والنصاریٰ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاذا کان العام المقبل ان شاء اللہ صمنا الیوم التاسع قال فلم یات العام المقبل حتی توفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (صحیح مسلم :1134)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عاشوراء کا روزہ رکھا اور دوسروں کو رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہود و نصاریٰ کے نزدیک یہ دن لائق عظمت اور قابل احترام ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان شاء اللہ آئندہ ہم نو محرم کا روزہ( بھی) رکھیں گے ، لیکن اس کے آنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ۔

اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

… ثلاث من کل شہر و رمضان الی رمضان فھذا صیام الدھر کلہ ،صیام یوم عرفۃ احتسب علی اللہ ان یکفر السنۃ التی قبلہ والسنۃ التی بعدہ و صیام یوم عاشوراء احتسب علی اللہ ان یکفر السنۃ التی قبلہ (صحیح مسلم :1162)

ہر مہینے کا تین روزہ اور رمضان کا روزہ پورے سال کا روزہ ہے ، اور عرفہ کے روزے کے بارے میں اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اس کے ذریعے گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہ معاف کردیں گے اور عاشوراء کے روزے کے بارے میں اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اس کے ذریعے گزشتہ سال کے گناہ معاف کردیں گے ۔

حاصل یہ ہے کہ رمضان کے روزے کی فرضیت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کے روزے کو ایک فرض کی طرح رکھا کرتے تھے ، اور اس کے بعد اس کی وہ حیثیت باقی نہیں رہی اور پھر الگ سے آپ نے کوئی نیا حکم اس کے روزہ کے بارے میں جاری نہیں فرمایا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی پابندی کے ساتھ عاشوراء کا روزہ رکھتے اور اس کی فضیلت بیان کرتے اور صحابہ کرام بھی آپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ھذا یوم عاشوراء ولم یکتب اللہ علیکم صیامہ و انا صائم فمن احب منکم ان یصوم فلیصم ومن احب ان یفطر فلیفطر (صحیح مسلم : 1129،نیز دیکھئے صحیح بخاری:2003)

یہ عاشوراء کا دن ہے ، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے کو فرض نہیں کیا ہے اور میں اس روزے کو رکھنے والا ہوں تو تم میں سے جو چاہے روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے ۔

اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یامرنا بصیام یوم عاشوراء و یحثنا علیہ و یتعاھدنا عندہ فلما فرض رمضان لم یامرنا ولم ینھنا ولم یتعاھدنا عندہ ( صحیح مسلم : 1128)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عاشوراء کے روزے کا حکم دیا کرتے اسے رکھنے کے لئے ہمیں ابھارتے اور ہماری نگرانی کرتے لیکن جب رمضان کا روزہ فرض ہوگیا تو ہمیں اس کے رکھنے کا حکم دیا اور نہ اس پر ابھارا اور نہ ہی ہماری نگرانی کی ۔

اور حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

امر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان نصوم عاشوراء قبل ان ینزل صیام رمضان فلما نزل صیام رمضان لم یامرنا ولم ینھنا ونحن نفعلہ (مسند احمد: 15477)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے روزے کے حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے اور جب رمضان کے روزے کا حکم آگیا تو ہمیں نہ تو اس کا حکم دیا گیا اور نہ روکا گیا اور ہم اسے رکھتے ہیں ۔

عاشورہ کے دن کھانے پینے میں فراخی:

ایک روایت میں ہے :

من وسع على نفسه واهله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته۔

جو کوئی اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اوپر عاشوراء کے دن فراخی اختیار کرے اللہ تعالی اسے پورے سال فراخی عنایت کریں گے۔

اس حدیث کو متقدمین میں سے کسی نے صحیح قرار نہیں دیا ہے اور نہ ہی حدیث کی چھ مشہور کتابوں میں اسے ذکر کیا گیا ہے امام احمد بن حنبل سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے اسے بے حیثیت قرار دیا (فلم يره شيئا) علامہ ابن رجب حنبلی کہتے ہیں کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی حیثیت سے اس کی سند صحیح نہیں ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث متعددسندوں سے منقول ہے لیکن اس میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے محمد بن عبداللہ بن حکم اسی کے قائل ہیں اور عقیلی نے لکھا ہے کہ حدیث غیر محفوظ ہے *(لطائف المعارف/ص١٠٧)*

اور متاخرین میں سے بعض لوگوں نے متعدد سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے اس پرحسن کا حکم لگایا ہے اور اس کے برخلاف بعض لوگوں نے بہت زیادہ ضعیف یا من گھڑت قرار دیا ہے۔

یہ روایت چار صحابہ کرام کے واسطے سے ہم تک پہنچی ہے حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابو سعید خدری، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت جابر رضی اللہ عنہم

حضرت ابوہریرہ کی طرف منسوب روایت کی سند میں موجود ایک راوی محمد بن ذکوان کو امام بخاری نے منکر الحدیث قرار دیا ہے یعنی ان کے نزدیک اس سے روایت نقل کرنا حلال نہیں ہے۔ اور ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ شخص قابل اعتماد راویوں کی طرف نسبت کرکے منکر روایتیں بیان کرتا ہے۔ اسی طرح سے اس کے دوسرے راوی حجاج اور تیسرے راوی سلیمان پر بھی کلام کیا گیا ہے۔

حضرت ابو سعید خدری کے حوالے سے منقول روایت کی سند میں ایک راوی کا نام مذکور نہیں ہے، اور اس کے بارے میں کچھ اتا پتا نہیں ہے کہ وہ کون ہے؟ اس روایت کی ایک دوسری سند اس سے بھی بدتر ہے اس کا ایک راوی محمد بن اسماعیل جعفری متروک ہے اور ابو حاتم نے اسے منکرالحدیث قرار دیا ہے اسی طرح سے اس کے استاد عبداللہ بن سلمہ کو ابو زرعہ نے منکر الحدیث قرار دیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود کی طرف منسوب روایت کے ایک راوی ھیصم کے بارے میں ابن حبان نے لکھا ہے کہ محدث اعمش کی طرف نسبت کرکے یہ روایتوں میں بڑا غضب ڈھاتا ہے اور بڑی مصیبتیں لے آتا ہے اور ابو زرعہ نے اسے متہم قرار دیا ہے اور عقیلی کہتے ہیں کہ ھیصم مجہول اور حدیث غیر محفوظ ہے اور ھیثمی کہتے ہیں وہ بہت زیادہ ضعیف ہے۔

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مذکورہ روایت محمد بن یونس کریمی سے منقول ہے جس کے بارے میں امام ذہبی کہتے ہیں "هالك” اور حبان وغیرہ نے لکھا ہے کہ قابل اعتماد راویوں کے حوالے سے من گھڑت روایتیں بیان کرتا تھا اس نے شاید ایک ہزار سے زیادہ حدیث گھڑی ہیں اور ابن عدی کہتے ہیں کہ اس پر حدیث کے گھڑنے کا الزام لگایا گیا ہے اور اس کے استاد عبداللہ ابن ابراہیم کے متعلق حاکم نے لکھا ہے کہ وہ ضعیف راویوں کی ایک جماعت سے موضوع حدیث نقل کرتا تھا۔

اس کی ایک دوسری سند بھی ہے جس کے بارے میں سیوطی نے لکھا ہے کہ اس سلسلے کی صحیح ترین سند ہے لیکن اس کے متن کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ "منكرا جدا” ۔

حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عمر کے قول کی حیثیت سے بھی اسے نقل کیا جاتا ہے جس کے بارے میں دارقطنی کہتے ہیں حدیث منکر اور ذہبی کہتے ہیں کہ خبر باطل اور ابن رجب حنبلی نے لکھا ہے کہ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے جس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں *(حوالہ سابق اور لطائف المعارف/ص١٠٧)*

حاصل یہ ہے کہ تمام راوایتوں کامدار منکر اور مجہول راویوں پر ہے اور اس طرح کی روایت متعدد سندوں سے منقول ہونے کے باوجود قوی نہیں ہو سکتی ہیں دوسرے یہ کہ درایت کے اعتبار سے بھی یہ لائق اعتماد نہیں ہیں کیونکہ صحیح احادیث میں اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جب کہ اس میں اس دن نفقے میں فراخی اور وسعت کی بات کہی گئی ہے یعنی دسترخوان کے وسیع رکھا جائے اور انواع و اقسام کے کھانے کھلائے جائیں بعض لوگوں نے اس تضاد  کو دور کرنے کے لیے تاویل کی ہے کہ اہل و عیال کو نقدی کی شکل میں دے دیا جائے یا افطار میں وسعت اختیار کی جائے لیکن ظاہر ہے کہ افطار کے وقت دس عاشوراء کا دن باقی نہیں رہے گا نیز نقدی دینے کو نفقے میں فراخی اختیار کرنا نہیں کہا جاتا۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بے اصل حدیث ہے اور یہی وجہ ہے کہ محدثین اور ائمہ مجتہدین میں سے کوئی اس کا قائل نہیں ہے صرف حضرت سفیان بن عیینہ نے ابراہیم بن محمد بن منتشر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ:

*كان يقال انه من وسع على عياله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته (دیکھیے شعب الايمان :٣٧٩٦)*

اور اسے بیان کرنے کے بعد حضرت سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسے پچاس یا ساٹھ سال تک آزمایا ہےاور ہمارا تجربہ بہتر رہا ہے لیکن ظاہر ہے کہ کسی کے تجربے سے کسی حدیث کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہو سکتا ہے اس کے علاوہ بعض صحابہ کرام کا تجربہ بھی نقل کیا جاتا ہے لیکن وہ مذکورہ سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہیں 

اصلاً یہ احادیث شیعوں کے مقابلے میں ایجاد کی گئی ہیں وہ اس دن کو غم کا دن مانتے ہیں اور ماتم کرتے ہیں اس کے مقابلے میں ملک شام کے ناصبیوں نے اسے خوشی اور کھانے پینے کا دن قرار دیا علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

ملک شام کے ناصبیوں نے عاشوراء کے دن کو شیعوں کے مقابلے میں خوشی کا دن بنا لیا وہ اس میں مختلف طرح کے غلوں کو (کھچڑا) پکاتے ہیں غسل کرتے ہیں، خوشبو لگاتے ہیں اور عمدہ سے عمدہ کپڑا زیب تن کرتے ہیں انہوں نے اسے عید کا دن بنا لیا اس میں قسم قسم کے کھانے بناتے ہیں فرحت و مسرت کا اظہار کرتے ہیں اور یہ سب رافضیوں کی ضد میں ہوتا ہے (البداية،ج٨/ص٢٨٣)

اور ابن عز حنفی لکھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے دن صرف روزہ رکھنا ثابت ہے، روزے کے علاوہ کسی اور چیز سے متعلق حدیث صحیح نہیں ہے، حضرت حسین کی شہادت کی وجہ سے جب شیعوں نے اس دن غم کا اظہار اور ماتم کرنا شروع کیا تو اہل سنت میں سے جاہلوں نے خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا شروع کردیا اور اس کے لئے مختلف قسم کے دانے اور طرح طرح کے کھانے پکانے لگے اور سرمہ لگانے لگے اور اہل و عیال سے فراخی سے متعلق موضوع حدیثیں بیان کرنے لگے *(التنبيه على مشكلات الهدايه، ج١/ص٩٣٠)*

اور اس پر تمام لوگوں کا تقریباً اتفاق ہے کہ عاشوراء کے دن سرمہ اور خضاب لگانے اور غسل کرنے کی روایتیں من گھڑت ہیں *(دیکھئے لطائف المعارف ،ص١٠٧)*

 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

(2)

ماہ صفر کی حقیقت 

نحوست صرف معصیت میں ہے

 

سال، مہینہ، دن اور وقت اللہ تعالی کا بنایا ہوا اور دستِ قدرت کا ایک نمونہ ہے، وہی دن اور رات کا خالق ہے اور زمانے کی گردش کا مالک ہے، اس لیے کسی وقت، دن اور مہینے کو منحوس سمجھنا درحقیقت اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں عیب نکالنا اور اس کی تخلیق پر اعتراض کرنا ہے اور یہ حد درجہ بدعقیدگی اور زبان درازی ہے اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں:

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ (الزمر: ٥)

اس نے سارے آسمان اور زمان برحق پیدا کئے وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے سورج اور چاند کو کام پر لگایا ہوا ہے، ہر ایک، کسی معین مدت تک کے لیے رواں دواں ہے ہے یاد رکھو وہ بڑے اقتدار کا مالک، بہت بخشنے والا ہے

اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں : 

قال الله عز وجل: يؤذيني ابن آدم، يسب الدهر وأنا الدهر، بيدي الأمر، أقلب الليل والنهار (صحيح بخاري: ٤٨٢٦، صحيح مسلم: ٢٢٤٦)

اللہ عزوجل فرماتے ہیں انسان مجھے ستاتا ہے، زمانے کو برا بھلا کہتا ہے حالانکہ  کی زمانے کا مالک میں ہی ہوں معاملہ میرے ہاتھ میں ہے میں ہی دن اور رات کو الٹتا پلٹتا ہوں

اچھا یا برا،مبارک یا منحوس وقت نہیں بلکہ انسان کا قول و عمل ہے اگر وہ کسی وقت کو اللہ کی اطاعت  و ذکر میں مشغول رکھتا ہے تو اس کے لئے بابرکت ہے اور اگر اس کا وقت معصیت اور غفلت میں گزر رہا ہے تو وہ بے برکت ہے غرضیکہ اللہ کی نافرمانی کا نام نحوست ہے

 

صفر نام رکھنے کی وجہ:

ذو القعدہ، ذی الحجہ، محّرم اور رجب کو زمانہ جاہلیت میں بھی قابل احترام سمجھا جاتا تھا، کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو ہدایات و تعلیمات ان میں باقی رہ گئی تھیں ان میں سے چار مہینوں کا احترام بھی تھا اس لیے وہ ان میں لوٹ مار اور جنگ و جدال سے بچتے تھے اور مسلسل تین ماہ رکے رہنے کے بعد جب صفر کا چاند دکھائی دیتا تو وہ لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے لیے نکل کھڑے ہوتے اور ان کے گھر خالی ہو جاتے اس مناسبت سے انہوں نے اس مہینے کا نام صفر رکھ دیا چنانچہ امام ابن کثیر نے آیت "ان عدة الشهور” کی تفسیر میں علامہ علم الدین سخاوی کے حوالے سے لکھا ہے:

سمي بذلك لخلو بيوتهم منهم حين يخرجون للقتال والأسفار، يقال: صفر المكان، إذا خلا، 

اس مہینے کا نام صفر اس لئے رکھا گیا کہ جنگ اور سفر کے لئے جانے کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہوتے تھے اور جب کوئی جگہ خالی ہو تو اس موقع پر کہا جاتا ہے صفرالمکان (جگہ خالی ہو گئی) (ابنِ کثیر جلد٣/ص٣٤٧)

اور جنگ و جدال کے نتیجے میں لوگ تباہ و برباد اور مصیبتوں سے دوچار ہوجاتے جس کی وجہ سے ان میں اس مہینے کی نحوست کا عقیدہ رواج پانے لگا حالاں کہ بربادی اور ویرانی کی وجہ خود ان کی باہمی آویزش تھی لیکن  اصل سبب پر غور کرنے کے بجائے وہ اس مہینے کو منحوس سمجھنے لگے اور انہیں اپنے اس عمل کے برے نتیجے اور انجام کار کا احساس نہیں رہا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدعقیدگی کی سختی کے ساتھ تردید فرمائی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا عدوى ولا صفر ولا هامة (صحيح بخاري: ٥٧١٧ ، صحيح مسلم: ٢٢٢)

کوئی مرض بذات خود متعدی نہیں ہوتا اور نہ ہی صفر کی نحوست کوئی چیز ہے اور نہ مردے کی روح پرندے کی شکل اختیار کرتی ہے۔

امام ابو داؤد نے محمد بن راشد کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے "لاصفر” کی وضاحت کرتے ہوئے کہا

سمعنا ان الجاهلية يستشئمون بصفر فقال النبي صلى الله عليه وسلم لا صفر (ابوداؤد: ٣٩١٦)

ہم نے سنا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ صفر کے مہینے سے بدشگونی لیتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صفر میں کوئی نحوست نہیں ہے 

اور علامہ طیبی لکھتے ہیں :

عرب کے مشرکوں کا خیال تھا کہ اس مہینے میں آلام و مصائب اور فتنے بہت زیادہ ہوتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاصفر کہہ کر ان کی تردید فرمائی (الكاشف: جلد ٩/ص٢٩٨٠)

اور حافظ ابن رجب حنبلی کہتے ہیں:

اسلام سے پہلے عرب کے لوگ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باطل قرار دیا اور فرمایا کہ صفر میں کوئی نحوست نہیں ہے حدیث کی تاویل میں منقول مختلف اقوال میں یہ سب سے زیادہ مناسب تاویل ہے (لطائف المعارف: ١٤٦)

حقیقت یہ ہے کہ کسی زمانے کو منحوس سمجھنا اور اس کے تقاضے پر عمل کرنا ایک شرکیہ عمل  اور زمانہ جاہلیت کی پیداوار ہے جس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں مسلمانوں کو اس طرح کی چیزوں سے بہت دور رہنا چاہیے اگر انسان کبھی برے حالات سے دوچار ہو جائے تو وہ اس کو اپنی غلطیوں کا نتیجہ سمجھے اور کسی خلاف شریعت کام میں مبتلا ہے تو اس سے باز آجائے اور توبہ و استغفار کے ذریعہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے کی صرف وہی حالات کو بدلنے کے قدرت رکھتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وما اصابكم من مصيبة فبما كسبت ايديكم ويعفو عن كثير (سورةالشورى: ٣٠)

اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے 

اور اگر کوئی نیک بندہ کسی مصیبت کا شکار ہوتا ہے تو وہ اسے اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش اور بلندی درجات کا سبب خیال کرے اور اپنے خالق و مالک سے اپنے ربط و تعلق کو مزید مضبوط کرے اور ہر مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد رکھنا چاہئے:

احفَظِ اللهَ يحفَظْك ، احفَظِ اللهَ تجِدْه تُجاهَك ، إذا سألتَ فاسألِ اللهَ ، وإذا استعنْتَ فاستعِنْ باللهِ ، واعلمْ أنَّ الأمةَ لو اجتمعتْ على أن ينفعوك بشيءٍ ، لم ينفعوك إلا بشيءٍ قد كتبه اللهُ لك ، وإنِ اجتمعوا على أن يضُرُّوك بشيءٍ لم يضُروك إلا بشيءٍ قد كتبه اللهُ عليك ، ( جامع الترمذي: ٢٥١٦، مسنداحمد: ٢٦٦٩ )

تو اللہ کا خیال رکھ (یعنی اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے حقوق کی ادائیگی سے غافل نہ ہو) اللہ تعالی تیرا خیال رکھیں ( یعنی دنیا و آخرت کی آفات و بلیات سے تیری حفاظت کریں گے) تو اللہ کو یاد رکھ اس کو تو اپنے سامنے پائے گا اور جب تو کسی چیز کو مانگنا چاہے تو بس اللہ سے مانگ اور جب کسی مدد کی ضرورت ہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کر، اور جان لو ک ساری انسانی برادری مل کر تجھ کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو صرف اتنا ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے جو اللہ نے تیرے مقدر میں لکھ رکھا ہے اور اگر ساری دنیا تجھ کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو صرف اتنا ہی نقصان پہنچا سکتی ہے جو اللہ تعالی نے پہلے ہی تیرے مقدر میں لکھ دیا ہے 

اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ ہر فرض نماز کے بعد کہا کرتے تھے: 

اللَّهمَّ لا مانعَ لما أعطيتَ ، ولا مُعطيَ لما منعتَ ، ولا رادَّ لما قضيتَ ، ولا ينفعُ ذا الجَدِّ منك الجَدُّ (صحيح بخاري: ٨٤٤، صحيح مسلم: ٥٩٣)

اے اللہ جو تو دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو نہ دینا چاہے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور نہ ہی تیرے مقابلے میں کسی مال دار کی مال داری فائدہ پہنچا سکتی ہے .

صفر کی نحوست کے سلسلے میں بعض کتابوں میں یہ روایت لکھی ہوئی ہے:

من بشرني بخروج صفر بشرته بالجنة

جو مجھے صفر کے ختم ہونے کی خوشخبری سنائی میں اسے جنت کی بشارت دوں گا

یعنی اس مہینے کی نحوست کی وجہ سے بخیروعافیت اس کے گذر جانے پر اس کی اطلاع دینے والے کو جنت کی خوش خبری دی جارہی ہے.

لیکن تمام محدثین متفق ہیں کہ مذکورہ روایت من گھڑت اور بے بنیاد ہے اور اسلامی ہدایات و تعلیمات کے صراحتاً خلاف ہے (دیکھئے الموضوعات الکبریٰ: ٤٣٧ تذکرہ الموضوعات: ١١٦) اور فتاوی ہندیہ میں ہے کہ کچھ لوگ صفر کے مہینے میں سفر میں نہیں جاتے اور نہ کوئی کام جیسے کہ نکاح اور رخصتی وغیرہ اس مہینے میں کرتے ہیں ہیں اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی جو کوئی مجھے صفر کے ختم ہونے کی خوش خبری دے میں اسے جنت کی بشارت دوں گا کیا یہ حدیث صحیح ہے کیا اس مہینے میں کسی طرح کی نحوست ہے اور کوئی کام شروع کرنا ممنوع ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ صفر کے سلسلے میں جو باتیں کہی جاتی ہیں اصلاً وہ نجومیوں کا نظریہ ہے اور وہ لوگ اپنی بات کو رواج دینے کے لیے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیتے ہیں حالانکہ یہ خالص جھوٹ ہے (الھندیہ: جلد٥/ص ٥٦١)

لہذا ماہ صفر کے بارے میں نحوست کا اعتقاد رکھنا اور اس کے آخری بدھ کو روزہ رکھنا یا مخصوص طریقے سے نماز پڑھنا یہ عقیدہ رکھنا کی آخری بدھ کو آخرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں افاقہ ہوا تھا اور اس خوشی میں کھانا پکانا، اچھا کپڑا پہننا اور سیر و تفریح کے لیے جانا نہایت غلط اور خلاف حقیقت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آخری بدھ کو بیماری کی ابتداء اور ربیع الاول میں وفات ہوئی تھی۔

 

*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*

 

(3)*عظمت والا مہینہ*

 

ماہ رجب کی اہمیت 

 

اللہ تعالیٰ ہی پوری کائنات کا خالق اور مالک ہے، دن اور مہینے بھی اسی کے بنائے ہوئے اس لئے بذات خود کسی دن یا مہینے کو کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ، اور اگر رب کائنات نے کسی خاص دن یا مہینے کو افضل قرار دیا ہے تو اس کی وجہ سے کسی خاص عبادت کو کوئی مخصوص فضیلت حاصل نہیں ہوگی الا یہ کہ وحی الٰہی کے ذریعے اس میں کسی عبادت کا خاص اجر و ثواب بیان کیا گیا ہو ، انسان محض اپنی چاہت اور سوچ سے کسی عبادت کا کوئی ثواب متعین نہیں کر سکتا ہے۔

کتاب و سنت میں محرم ،رجب،ذی قعدہ اور ذی الحجہ کو ادب اور احترام کا مہینہ قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس مہینے میں جنگ و غارت گری کی ممانعت ہے اور ان میں عبادت کے ثواب اور نافرمانی کے گناہ  میں اضافہ ہو جاتا ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر چار مہینوں کو قابل احترام قرار دیا ہے اور ان کی عظمت و احترام کو بڑا عظیم قرار دیا ہے ان میں گناہ کرنے کے عذاب کواور نیک عمل کے ثواب کو بہت بڑھا دیا ہے(لطائف المعارف/ص٢٢٥)

عظمت وعزت والے مہینوں میں سے دوسرے مہینے کا نام رجب ہے جس کے معنی ہیں تعظیم کرنا اور اس کو رجب مضر بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ قبیلہ مضر کے لوگ دوسروں کی بہ نسبت اس مہینے کی زیادہ تعظیم کیا کرتے تھے اس لئے ان کی طرف منسوب کرکے رجب مضر کہا جانے لگا (لسان العرب/ج١ ص٤١١)

عظمت و عزت والے مہینوں کے تعلق سے قرآن حکیم میں کہا گیا ہے

*اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ* *(سورةالتوبة:٣٦)*

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے جو اللہ کی کتاب (لوح محفوظ)کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں ،یہی ہے سیدھا دین۔ لہذا ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم مت کرو

"ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم مت کرو” سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمت والے مہینوں میں بطور خاص گناہوں سے بچنا چاہیے کہ ان میں نافرمانی کا گناہ زیادہ ہوجاتا ہے (ایسیر التفاسیر ج ٢ /ص٧٤) اور امام جصاص رازی نے لکھا ہے کہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان با برکت مہینوں کی خاصیت یہ ہے کہ جو کوئی ان میں عبادت کرتا ہے اسے بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق مل جاتی ہے اور جو شخص کوشش و ہمت کرکے ان میں اپنے آپ کو معصیت اور برے کاموں سے بچائے تو بقیہ مہینوں میں اس کے لئے برائیوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے اس لئے ان مہینوں سے فایدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے (دیکھئے معارف القرآن ج٤ ص٣٧٣)

عظمت و حرمت کے تین مہینے مسلسل ہیں اور اہل عرب کے لئے اتنے دنوں تک جنگ و غارت گری سے دور رہنا بڑا شاق گزرتا تھا اس لئےوہ اس کے لئے محرم اور صفر کے مہینے کو آگے پیچھے کر دئیے تھے جس سے چار مہینوں کی تعداد تو پوری ہوجاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے جس مہینے کو قابل احترام قرار دیا ہے اس کی حرمت پامال ہوجاتی چناں چہ قرآن حکیم میں ہے

*اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِ یُضَلُّ بِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّیُوَاطِــٴُـوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰهُؕ-زُیِّنَ لَهُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِهِمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ۠(٣٧)*

اور یہ نسیئ( یہ یعنی مہینوں کو آگے پیچھے کر دینا) تو کفر میں ایک مزید اضافہ  ہے جس کے ذریعے کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے یہ لوگ اس عمل کو ایک سال حلال کر لیتے ہیں  اور ایک سال حرام قرار دے دیتے ہیں تاکہ اللہ نے جو مہینے حرام قرار دیئے ہیں ان کی بس گنتی پوری ہوجائے اور اس طرح جو بات اللہ نے حرام قرار دی تھی اسے حلال سمجھ لیں ان کی بدعملی ان کی نگاہ میں خوشنما بنا دی گئی ہے اور اللہ ایسے کافروں کو ہدایت نہیں پہنچاتا

 

چونکہ قمری مہینے مختلف موسموں میں آتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے حج کبھی ایسے موسم میں آجاتا جو ان کی تجارت کے لئے سازگار نہیں رہتا جس کے لیے انہوں نے کبیسہ کا حساب ایجاد کرلیا تھا کہ حج ہمیشہ ایک معتدل موسم میں آتا ہے اور اس کے لیے ہر سال کچھ دنوں کا اضافہ کرکے قمری مہینوں کو شمسی مہینے کے موافق کرلیتے جیسا کہ آج بھی ہندی مہینوں کے لیے ایسا کیا جاتا جاتا ہے ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ٣٣ سال تک حج اپنے اصل وقت پر نہیں ہوتا صرف چوتیسویں سال ایک مرتبہ ٩ اور ١٠ ذوالحجہ کو  حج ادا ہوتا ٩ ہجری کو حج ٹھیک اپنی صحیح تاریخ میں ادا ہوا اور مکہ فتح ہو جانے کی وجہ سے ان کو اضافہ کرنے کا موقع نہیں ملا جس کی وجہ سے دس ہجری کو بھی وہ اپنی جگہ پر باقی رہا  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:

*إِنَّ الزمانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضَ: السنةُ اثنا عَشَرَ شَهْرًا، منها أربعةٌ حُرُمٌ: ثلاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ: ذُو القَعْدَةِ، وذُو الحَجَّةِ، والمحرمُ، ورَجَبُ مُضَرَ الذي بين جُمَادَى وشَعْبَانَ، (صحیح* *بخاری:٣١٩٧، صحيح مسلم:١٦٧٩)*

زمانہ گردش کرکے اپنی اس حالت پر واپس آ گیا ہے جس پر وہ زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت تھا سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ اور قبیلہ مضر کا رجب شعبان اور جمادی کے درمیان ہے

اسلام سے پہلے رجب کے مہینے میں جانور ذبح کیے جاتے تھے جیسے "عتیرۃ” کا نام دیا گیا تھا،

 کیا اب اس مہینے میں جانور ذبح کرنے کا حکم باقی ہے یا ختم ہوگیا ہے؟ اس سلسلے میں اختلاف ہے اکثر علماء کے نزدیک یہ طریقہ ختم کر دیا گیا ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لافرع ولا عتیرہ (صحیح البخاری ٥٤٧٤، صحيح مسلم ١٩٧٦)

جانور کے پہلے بچے کو ذبح یا رجب میں جانور ذبح کرنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے

اس کے برخلاف بعض لوگ کہتے ہیں مذکورہ دونوں عمل اب بھی مستحب ہیں اور حدیث میں غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ مشرکین عرب کیا کرتے تھے یا یہ کہ اس کے وجوب کی نفی کی گئی ہے مشہور تابعی محمد بن سیرین کی بھی یہی رائے ہے امام شافعی اور امام احمد بن حنبل سے ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے (دیکھئے لطائف المعارف/ ٢٣١، فتح الباری) ان حضرات کے دلائل یہ ہیں :

1-حضرت مخنف بن سلیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم میدان عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں فرمایا :

*يا ايها الناس ان على كل اهل بيت في كل عام اضحيه وعتيرة. اتدرورن ماالعتيرة هذه التي يقول الناس الرجبيه (ابو داود: ٢٧٨٨،ترمزي ١٥١٨، ابن ماجه ٣١٢٥ ۔صحيح)*

اے لوگو! ہر گھر والے پر سال میں ایک بار قربانی کرنا ہے اور عتیرہ دینا ہے، تمہیں معلوم ہے کہ عتیرہ کیا ہے؟ عتیرہ وہی ہے جسے لوگ رجبیہ کہتے ہیں۔

2-اور حضرت نبیشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جانور ذبح کیا کرتے تھے، اب آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*اذبحوا الله في اي شهر كان بروا الله عز وجل واطعموا (ابو داود٢٨٣٠ نسائى ٤٢٢٨، ابن ماجه ٣١٦٧ صحيح)*

اللہ کے لیے ذبح کرو خواہ کسی بھی مہینے میں ہو اور اللہ تعالی کی اطاعت کرو اور دوسروں کو کھلاؤ

3- حضرت عمر بن شعیب کی سند سے منقول ہے کہ لوگوں نے پوچھا کہ اللہ کے رسول عتیرہ کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے کہا کہ عتیرہ حق ہے، عتيرہ حق ہے(نسائى ٤٢٢٥ حسن)

4- حضرت ابورزین کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے دریافت کیا کہ رجب کے مہینے میں ہم زمانۂ جاہلیت میں جانور ذبح کیا کرتے تھے خود بھی کھاتے تھے اور آنے والے مہمانوں کو بھی کھلاتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں، لا باس به (نسائى ٤٢٣٣)

اس سلسلے کی تمام حدیثوں کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عید قرباں کی طرح سے رجب کے مہینے میں ایک خاص عبادت کی حیثیت سے خون بہانے کا حکم باقی نہیں رہا اور "ولا عتيره” کہہ کر اس کی حیثیت کو ختم کردیا گیا البتہ جانور ذبح کرکے اس کے گوشت کو ضرورت مندوں میں تقسیم کر دینا ایک کار ثواب ضرور ہے اور یہ رجب کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ کسی بھی مہینے میں جانور ذبح کر کے تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور خون بہانے کا ثواب کا بطور ایک خاص عبادت  بس قربانی اور عقیقہ کے موقع پر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں رجب کے  مہینے  کو عید کی طرح  منایا جاتا تھا اور اسی دن جانور ذبح کیا کرتے تھے جس کی حدیث میں تردید کی گئی ہے چناں چہ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ اسلام میں عتیرہ نہیں ہے، عتیرہ تو زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا لوگ رجب کے مہینے میں روزہ رکھتے اور پھر جانور ذبح کرتے (مسند علی بن الجعد ٣٢٣٧)

اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے منقول ہے کہ وہ رجب کو عید بنانے کو مکروہ سمجھتے تھے اور مشہور تابعی حضرت عطاء کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رجب کے پورے مہینہ میں روزہ رکھنے سے اس لیے منع کرتے تھے تاکہ لوگ اسے عید نہ بنائیں اور حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ کسی مہینے اور دن کو عید نہ بناؤ(مصنف عبدالرزاق ٧٨٥٣، ٧٨٥٤،٧٨٥٥)

علامہ ابن رجب حنبلی ان روایتوں کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس کی بنیاد اور وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے طور پر کسی دن کو عید بنالیں اور شریعت نے صرف یوم فطر، یوم اضحی، ایام تشریق اور یوم جمعہ کو عید قرار دیا ہے جمعہ ہفتے کی عید ہے اور بقیہ سالانہ عید ہے اس کے علاوہ کسی دن کو عید بنانا بدعت ہے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے(لطائف المعارف/٢٣٢)

حضرت انس بن مالک سے منقول ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے :

*اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان -*

یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے مگر متعدد سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے اس میں کچھ قوت آجاتی ہے نیز فضائل میں ضعیف حدیث سے بھی کام چل جاتا ہے (دیکھئے تذکرۃ الموضوعات محمد طاہر الفتنی/١١٧ الفتح الربانی للساعاتی ج٩/ص٢٣)

اور علامہ ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے فضیلت والے زمانے تک جینے کی دعا کرنا مستحب ہے ہے تاکہ وہ ان اوقات میں نیک عمل کرنے کا موقع حاصل کرسکے (لطائف المعارف ٢٣٨)

رجب کے مہینے میں کسی دن کوئی مخصوص نماز حدیث سے ثابت نہیں ہے رجب کے پہلے جمعہ کو مخصوص طریقے پر نماز پڑھنے کا تذکرہ بعض کتابوں میں موجود ہے جسے صلاۃ رغائب کہا جاتا ہے ہے مگر یہ روایتیں بالکل من گھڑت اور باطل ہیں علامہ ابن رجب حنبلی کہتے ہیں کہ اس نماز کا رواج اور اس سے متعلق روایتوں کا وجود چوتھی صدی ہجری کے بعد ہوا اس لئے متقدمین اسے بالکل جانتے ہی نہیں اور اسی لئے انھوں نے اس سے متعلق روایتوں پر کوئی کلام نہیں کیا ہے (لطائف المعارف ٢٣٣)

اورامام نووی کہتے ہیں کہ یہ من گھڑت نماز ہے،قابل مذمت ،ناپسندیدہ اور باطل ہے قوت القلوب اور احیاء علوم الدین میں موجود ہونے کی وجہ سے تم دھوکے میں نہ پڑ جانا (الاتحاف ج/٣ ص٧٠٣)

اسی طرح سے رجب کے روزے کے سلسلے میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ رجب کا روزہ رکھنے والوں پر سختی کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ رجب کیا چیز ہے؟ رجب کے مہینے کو زمانے جاہلیت میں اہمیت دی جاتی تھی اور اس میں ختم کر دی گئی اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کہیں اس کے روزے کو سنت نہ سمجھ لیا جائے (لطائف المعارف ٢٣٤)

اور حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

رجب کے مہینے کی فضیلت یا اس کے روزے یا اس میں کسی متعین دن کے روزے یا اس کی کسی خاص رات کی فضیلت کے معاملے میں کوئی صحیح اور لائق استدلال حدیث موجود نہیں ہے یہ ہے(تبیین العجب/١١) 

حاصل یہ ہے  کہ ستائیس رجب کے روزے کے متعلق روایات من گھڑت اورباطل ہیں جس کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ ایک روزے کا ثواب ایک ہزار روزے کے برابر ہے اور اسی وجہ سے اسے ہزاری روزہ کہا جاتا ہے

اسی طرح سے ستائیس رجب کی رات کو شب معراج منانا اور نوافل وغیرہ کا اہتمام کرنا بھی غلط اور بدعت ہے اس لئے کہ ایک تو ستائیس رجب کی رات کو شب معراج قرار دینا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے بلکہ معراج کس رات کو ہوئی اس کے بارے میں مختلف رائیں ہیں ، ربیع الاول ،ربیع الثانی ،رمضان، شوال، ذوالحجۃ اور رجب کے مہینے کے بارے میں معراج کے واقعہ کا پیش آنے کا تذکرہ سیرت وغیرہ کی کتابوں میں مذکور ہے اور جب اس کی تعیین کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے تو اپنے طور پر کسی مہینہ کو متعین کر لینا درست نہیں ہے

دوسرے یہ کہ معراج کا واقعہ ہے جس رات میں پیش آیا اس کی کوئی خاص فضیلت کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی اس رات میں کسی عبادت کی ترغیب دی گئی ہے ہے چناں چہ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں

متقدمین میں سے کسی کے بارے میں منقول نہیں ہے کہ انہوں نے معراج کی رات کو باقی راتوں سے خصوصاً لیلۃ القدر سے افضل قرار دیا ہو اور نہ صحابہ کرام اور تابعین عظام معراج کی رات میں خصوصی طور سے کوئی عبادت کیا کرتے تھے بلکہ وہ تو اس انداز سے اس کا تذکرہ ہی نہیں کرتے اور یہ بات بھی معلوم نہیں کہ متعین طور پر وہ رات کون سی تھی اگرچہ معراج کی رات آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل مبارک میں ایک عظیم الشان حیثیت رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود شرعاً اس رات یا اس جگہ (بیت مقدس جہاں سے معراج ہوئی) کوئی عبادت شروع نہیں کی گئی بلکہ غار حرا جس میں سب سے پہلی وحی نازل ہوئی اور بعثت سے پہلے جہاں آپ جاکر عبادت کیا کرتے تھے مگر بعثت کے بعد مکہ میں رہتے ہوئے بھی آپ نے یا کسی صحابی نے اس غار میں جا کر اس دن کوئی عبادت کی ہو اور نہ ہی اس دن اور اس جگہ کوئی مخصوص عبادت شروع کی گئی (زادالمعاد ج١/ص١٤٤)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں جو عبادت اور خیر کے کاموں کی طرف رہنمائی کرتے اور خود بھی اس کی طرف تیزی سے بڑھا کرتے تھے جس طرح سے ہم دنیا کمانے کی فکر اور تدبیر کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب کے کاموں کے لیے حریص تھے اور نیکی کی راہوں کی طرف دوڑ کر آیا کرتے تھے معراج کا واقعہ بعثت کے پانچویں سال پیش آیا جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ١٨ مرتبہ وہ رات آئی لیکن کسی ضعیف بلکہ موضوع حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے کہ آپ نے اس رات کے منانے کا اہتمام فرمایا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تقریباً سو سال تک صحابہ کرام موجود رہے لیکن کسی کے بارے میں منقول نہیں ہے کہ انہوں نے اس رات کو کوئی خاص اہمیت دی ہو اور جو چیز کتاب و سنت اور صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے، علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

*اما اهل السنة والجماعة فيقولون كل فعل وقول لم يثبت عن الصحابة ه‍و بدعة لانه لو كان خيرا سبقونا اليه انهم لم يتركوا خصلة من خصال الخير الا وقد بادروا ايها (تفسير ابن كثير سوره الاحقاف)*

اہل سنت وجماعت اس بات کے قائل ہیں کہ جو قول و فعل صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اس لیے کہ اگر وہ نیکی کا کام ہوتا تو وہ اس کی طرف سبقت کرتے، اور خیر و بھلائی کا کوئی کام ایسا نہیں ہے جس کی طرف انہوں نے سبقت نہ کی ہو

بعض جگہوں پر ٢٢ رجب کو کونڈے بنانے کا رواج ہے جسے حضرت جعفر صادق کا فاتحہ بھی کہا جاتا ہے اور اس سلسلے میں بعض کہانیاں بھی عوام میں رائج ہیں لیکن یہ قصہ من گھڑت ہے۔ حضرت جعفر صادق کی ذات ان واہیات سے بری ہے۔ ٢٢ رجب کو نہ تو ان کی پیدائش ہوئی اور نہ وفات بلکہ ان کی پیدائش رمضان ســــــنہ٨٣ ه‍جری میں اور وفات شوال ســــــنہ١٤٨ه‍جرى میں ہوئی ہے بلکہ یہ شیعوں کی ایجاد ہے کیونکہ ٢٢ رجب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات ہے جن سے شیعہ شدید بغض رکھتے ہیں اس لئے ان کی وفات کی خوشی میں وہ میٹھی چیز تقسیم کرتے ہیں اور اسے سنیوں میں رواج دینے کے لئے حضرت جعفر صادق کے نام سے ایک قصہ گھڑ لیا

حاصل یہ ہے کہ رجب کا مہینہ حرمت و عزت والے مہینوں میں سے ہے اس اعتبار سے اس کی ایک اہمیت ہے اس لیے اس میں خاص طور سے گناہوں سے بچنا چاہیے اور عبادت کی پابندی ہونی چاہیے لیکن بطور خاص اس مہینے میں کوئی نفلی نماز یا روزہ وغیرہ ثابت نہیں ہے۔

 

(4)شب براءت

 

ماہ شعبان کی پندہویں رات کو ’’شب براءت ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’براءت‘‘ عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں بری ہونا،نجات اوررہائی پانا۔ چونکہ یہ گناہوں سے معافی اور جہنم سے نجات کی رات ہے، اس لیے اسے ’’شب براء ت‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس رات کے ساتھ شعبا ن کا پورا مہینہ ہی اللہ کی رحمت اور انواروبرکات کے نزول کا مہینہ ہے۔ اس میں اس سے زیادہ اہم بابرکت اور مقدس مہینے کے استقبال کی تیاری کرائی جاتی ہے۔اس لئے اس ماہ مبارک میں اللہ کی رحمتوں کی بارش ہوتی رہتی ہے تاکہ بندہ گناہوں سے دھل دھلاکر بالکل پاک وصاف ہوجائے اور مضان المبارک کی برکتوں سے صحیح معنی میں فیض یاب ہوسکے۔

اوریہی وہ مہینہ ہے جس میں بندوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ بندہ جس کے متعلق فرشتے جاکر کہیں کہ بارالہا ! ہم ایک بندہ کو اس حال میں چھوڑ آئے ہیں کہ وہ تیری محبت اور یاد میں زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت(کھانے اور پینے سے) کنارہ کش تھا،چنانچہ حدیث میں ہے کہ:

عن أسامۃ بن زید قال: قلت یارسول اللہ ﷺ! لم أرک تصوم فی شھر من الشھور ماتصوم من شعبان ۔ قال: ذالک شھر یغفل الناس عنہ بین رجب ورمضان وھو شھر یر فع فیہ الاعمال الی رب العالمین و احب ان یرفع عملی وانا صائم ۔ (اخرجہ النسائی وابوداؤد وصححہ ابن خزیمۃ)

’’حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ جس قدرشعبان کے مہینہ میں آپ روزہ رکھتے ہیں، میں آپ کو دوسرے مہینوں اتنا روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں! آپ ﷺ نے فرمایا کہ رجب اورمضان کے درمیان یہ ایسا مہینہ ہے جسے لوگ غفلت میں گزاردیتے ہیں، حالانکہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں رب العالمین کے حضور بندوں کے اعمال پیش کئے

جاتے ہیں،لہذا میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حالت مین پیش کئے جائیں کہ میں روزے سے ہوں۔ ‘‘

(امام نسائی اور ابوداؤد نے اس کی روایت کی ہے اور محدث ابن خزیمہ نے اسے صحیح قراردیا ہے۔ )

  • خلوت وجلوت کی راز دار اور مزاج آشنائے رسول، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اس ماہ مبارک میں آپؐ کی سرگرمیوں کا ذکر ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:

مارأیت رسول اللہﷺ استکمل صیام شھر قط الاشھر رمضان، وما رایت فی شھراکثر منہ صیاما فی شعبان ۔(متفق علیہ)(1)

’’ میں نے رسول اللہﷺ کو رمضان کے سوا کسی دوسرے مہینے میں پورے مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا؛ اور شعبان کے مہینے میں جس کثرت سے روزہ رکھتے ہوئے انہیں دیکھا ہے اس طرح سے کسی دوسرے مہینے میں نہیں دیکھا۔ ‘‘

(امام بخاری ومسلم نے اس کی روایت کی ہے۔)

حضرت عائشہؓ ہی سے منقول ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:

ان النبی ﷺ کان یصوم الشعبا ن کلہ۔ قالت ، قلت یا رسول اللہﷺ احب الشھور الیک ان تصومہ شعبان :قال: ان اللہ یکتب فیہ علی کل نفس میتۃ تلک السنۃ فاحب ان یاتینی اجلی وانا صائم ۔

(رواہ ابویعلی وھو غریب واسنادہ حسن)(2)

’’نبی ﷺ پورے شعبان کاروزہ رکھتے تھے۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! روزہ رکھنے کے لئے آپ کا سب سے پسندیدہ مہینہ شعبان ہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس سال مرنے والے کا نام لکھ دیتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری موت جب آئے تو میں روزے سے ہوں۔ ‘‘

(ابویعلی نے اس کی روایت کی ہے اور سندحسن ہے۔)

اور آپﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ بیان فرماتی ہیں:

ان النبی ﷺ لم یکن یصوم من السنۃ شھر اتاما الا شعبان یصل بہ رمضان ۔(رواہ الخمسۃ)  (3)

’’نبیﷺ سال کے کسی مہینہ میں پورے مہینہ روزہ نہ رکھتے تھے، البتہ شعبان میں مہینے بھر روزہ رکھتے تھے یہاں تک کہ رمضان آجاتا ۔‘‘

واضح رہے کہ آخر دونوں روایتوں میں پورے مہینے نفلی روزہ رکھنے کاتذکرہ موجودہے جب کہ پہلی روایت میں مہینے کے بیشتر دنوں میں روزہ رکھنے کا ذکر ہے۔ ان دونوں روایتوں کے پیش نظر شارحین حدیث کا خیال ہے کہ کبھی آپؐ شعبان کے پورے مہینے روزہ رکھتے تھے اور کبھی مہینے کے بیش تر دنوں میں۔

یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ شعبان کی عظمت کاتقاضا یہ ہے کہ اس میں کثرت سے روزہ رکھاجائے جیسا کہ آنحضور ﷺ سے منقول بھی ہے مگر امت کے ضعف کا خیال کرتے ہوئے آنحضورﷺ نے فرمایا کہ:

اذا انتصف شعبان فلا تصوموا۔(4)

’’پندرہویں شعبان کے بعد روزہ مت رکھو ۔‘‘

تاکہ رمضان کے روزے کے لئے قوت اور نشاط باقی رہے اورضعف اورکمزوری پیدا نہ ہوجائے۔ چنانچہ مشہورمحدث ملا علی قاری اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:

والنھی للتنزیہ رحمۃ علی الأمۃ أن یضعفوا عن القیام بصیام رمضان علی وجہ النشاط۔

’’یعنی پندرہ شعبان کے بعد روزہ نہ رکھنے کا حکم تنزیہی ہے اور یہ آپؐ نے امت کے حق میں شفقت ورحمت کیوجہ سے منع فرمایا ہے تاکہ رمضان کے لئے جو نشاط مطلوب ہے ، اس میں کمی نہ آجائے۔ ‘‘

غرض یہ کہ شعبان کا پورا مہینہ اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے اس لائق ہے کہ اس میں کثرت سے روزہ رکھاجائے اور عبادتوں کا خصوصی اہتمام کیاجائے البتہ امت کی کمزوری کے پیش نظر رمضان کی تیاری کے مقصد سے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے گویا کہ ان کے روزہ کے لئے پندرہ شعبان آخری سرحد ہے اور اس آخری دن میں ایسی خصوصیت پیداکردی گئی ہے کہ اگر کوئی دوسرے دنوں میں غافل رہا تو صرف اسی ایک رات اور دن میں استغفار ، عبادت اور روزہ کے ذریعہ اللہ کی رحمتوں سے فیضیاب اورگناہوں کی آلائش سے پاک وصاف ہوسکتا ہے، جیسا کہ رسول کریمﷺ کاارشاد گرامی ہے:

عن معاذ بن جبل عن النبیﷺ قال: یطلع اللہ علیٰ جمیع خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ الالمشرک او مشاحن۔

’’حضرت معاذ بن جبل نبیﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: پندرہ شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ تمام مخلوق پر خصوصی توجہ فرماتا ہے اور سب کی مغفرت کردیتا ہے سوائے مشرک اور عداوت رکھنے والے کے ۔‘‘

علامہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ محدث طبرانی نے اس حدیث کو اپنی کتاب ’’المعجم الکبیر‘‘ اور ’’ المعجم الأ وسط‘‘ میں نقل فرمایا ہے اور اس کے راوی قابل اعتماد ہیں

(ورجالھماثقات) (5)ا لمعجم الکبیر،حمدی عبدالمجید سلفی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوچکی ہے۔ انہوں نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے کہ ہمارے (شیخ علامہ البانی)نے پندرہ شعبان سے متعلق ایک رسالہ کی تعلیق میں لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے کیوں اس کے بکثرت شواہد موجود ہیں۔ اور اس حدیث کے مختلف سندوں سے جوشخص آگاہ ہوگااسے اس میں کوئی شک نہیں رہ جائے گا کہ حدیث صحیح ہے۔ (6)

اس حدیث کو علامہ بیہقی نے بھی ’’شعب الایمان‘‘(7) اور ’’فضائل الاوقات ‘‘ میں نقل کیا ہے اس کے محقق عدنان عبدالرحمن نے لکھا ہے کہ ’’اسنادہ حسن ‘‘ ۔(8)محدث ابن حبان نے بھی اس حدیث کی روایت کی ہے، اور محقق شعیب ارناؤط نے لکھا ہے کہ حدیث صحیح ہے اور اس کے رجال ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔ (9)

عن عبداللہ بن عمرو ان رسول اللہﷺ قال: یطلع اللہ عزوجل الی خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لعبادہ الا الاثنین: مشاحن وقاتل نفس۔

’’حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات میں اپنی مخلوق کی طرف خصوصی نظر رحمت فرماتا ہے اور تمام بندوں کی مغفرت کردیتا ہے سوائے دشمنی کرنے والے اور قاتل کے۔‘‘

امام احمد بن حنبل نے اس حدیث کی روایت کی ہے، اور محدث ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی قابل اعتماد ہیں، صرف ایک روای ’’ ابن لہیعہ ‘‘ (لین) کمزور ہے۔(10)

یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ ابن لہیعہ ایک سچے اور صحیح راوی ہیں، عدالت و صداقت کے اعتبار سے ان پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ، لیکن ان کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ حدیث کی جو کتاب انھوں نے مرتب کی تھی وہ جل گئی اور پھر اس کے بعد یاداشت میں بھی کمی واقع ہوگئی جس کی وجہ سے زبانی روایت میں اختلاط کا شکار ہوجایا کرتے تھے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:صدوق من السابعۃ خلط بعد احتراق کتبہ‘‘ (11) لہذا دوسرے ذریعہ سے ان کی روایت کی تائید ہوجائے تو ا س میں قوت آجاتی ہے اور استدلال کے لائق ہوجاتی ہے، یہاں بھی صورت حال یہی ہے کہ ’’ابن لہیعہ‘‘ اس روایت کو تنہا نقل نہیں کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ رشدین بن سعد بن حیی بھی ہیں۔ لہذا یہ روایت درجہ حسن سے کمتر نہیں ہے۔ چنانچہ شیخ ناصرالدین البانی لکھتے ہیں:

قال الحافظ المنذری: واسنادہ لین ولکن تابعہ رشدین بن سعد بن حیی بہ اخرجہ ابن حیوۃ فی حدیثہ فالحدیث حسن۔(12)

’’حافظ منذری نے کہا کہ اس کی سند قدرے کمزور ہے لیکن رشد بن سعدنے ان کی متابعت کی ہے جس کی تخریج ابن حیوۃ نے کی ہے۔ لہذا حدیث حسن ہے۔ ‘‘

عن ابی بکر الصدیق عن النبی ﷺ قال: ینزل اللہ الی سماء الدنیاء لیلۃ النصف من شعبان فیغفر۔لکل شی الا رجل مشرک او رجل فی قلبہ شحناء۔

’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ پندرہ شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ دنیاوی آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے۔ اور ہرکسی کی مغفرت فرمادیتا ہے۔سواء مشرک کے یا اس شخص کے جس کے دل میں عداوت ہو۔ ‘‘

علامہ بیہقی اور محدث بزار نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور حافظ منذری نے لکھا ہے کہ اس کی سند میں کوئی حرج نہیں ہے۔(13) اور شیخ البانی کا بھی یہی خیال ہے۔ (14)

اسی طرح کی روایت حضرت ابوہریرہؓ اورحضرت عوف بن مالک سے بھی منقول ہے لیکن سلسلہ سند کے بعض راوی ضعیف ہیں۔(15)نیز کثیر بن مرہ حضرمی بھی اسی جیسی روایت نبیﷺ سے نقل کرتے ہیں لیکن سلسلہ اسناد متصل نہیں ہے،تاہم روایت کرنے والے قابل اعتماد ہیں چنانچہ علامہ بیہقی لکھتے ہیں کہ ھذامرسل جید۔(16)

حضرت عائشہؓ سے منقول ایک طویل حدیث کاآخری ٹکڑا یہ ہے:

قال: ھٰذہ لیلۃ النصف من شعبان ۔ ان اللہ عزو جل یطلع علیٰ عبادہ فی لیلۃ النصف من شعبان فیغفر للمستغفرین ویرحم المستر حمین ویو خر اھل الحقد کما ھم۔

’’ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے، اللہ تعالیٰ اس رات اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتا ہے۔ لہذا مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت اور رحم چاہنے والوں پررحم فرماتا ہے ۔اورکینہ وروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

علامہ بیہقی نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور کہاکہ ’’ ھذا مرسل جید ‘‘ کیونکہ حضرت عائشہؓ سے نقل کرنے والے راوی حضرت علاء کاسماع ان سے ثابت نہیں ہے۔ (17)

حضرت عائشہؓ سے منقول ایک دوسری حدیث میں ہے کہ

ان اللہ تبارک وتعالیٰ ینزل لیلۃ النصف من شعبان الٰی سماع الدنیا فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب ۔

’’اللہ تبارک وتعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرمادیتاہے۔ ‘‘

امام ترمذی وغیرہ نے اس حدیث کونقل کیاہے اور اسنادی حیثیت سے اسے ضعیف قراردیا ہے۔ لیکن متعدد ذرائع سے روایت کی تائید ہونے کی وجہ سے اس میں قوت آجاتی ہے جیسا کہ شیخ البانی کہتے ہیں:

وجملۃ القول ان الحدیث بمجموع ھذہ الطرق صحیح بلا ریب والصحۃ تثبت باقل منھا عدداً مادامت سالمۃ من الضعف الشدید کمال ہوا لشان فی ھذا الحدیث ۔ (18)

’’حاصل گفتگو یہ ہے کہ حدیث ان تمام طرق کی وجہ سے بلاشبہ صحیح اورحدیث کی صحت تو اس سے کم سے بھی ثابت ہوجاتی ہے جب کہ اس میں شدید ضعف نہ پایا جائے جیسا کہ اس حدیث کا معاملہ ہے۔ ‘‘

 

پندرہ شعبان کی فضیلت سے متعلق ایک روایت حضرت ابو موسیٰ اشعری سے بھی منقول ے جسے شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔(19) نیز صحابی رسول حضرت ابوثعلبہ خشنی نے بھی اس طرح کی روایت نقل کی ہے جس کے متعلق علامہ بیہقی نے لکھا ہے کہ یہ ایک عمدہ مرسل روایت ہے( مرسل جید)(20) ۔ اسی طرح حضرت عثمان بن ابی العاص سے بھی اس کی فضیلت سے متعلق حدیث مروی ہے جسے علامہ بیہقی نے ’’فضائل الأ وقات‘‘ میں نقل کیا ہے اور اس کے محقق عدنان عبدالرحمن نے لکھا ہے کہ اس کی سند حسن ہے۔(21)

غرض یہ کہ پندرہ شعبان کی فضیلت واہمیت سے متعلق اتنی احادیث ہیں کہ اس کے ہوتے ہوئے یہ کہہ دینا کہ اس کی فضیلت سے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے، جہالت اور لاعلمی پر مبنی ہے۔اور جیسا کہ گزرچکا ہے کہ اس سلسلہ کی بعض احادیث صحیح اور کچھ حسن ہیں، بعض روایتوں کا ضعف بھی ہمیں تسلیم ہے لیکن دیگر تائید ی روایتوں کی وجہ سے اس میں بھی قوت آجاتی ہے۔اور مجموعی طور پر ان سے پندرہ ہویں شعبان کی فضیلت ثابت ہوجاتی ہے۔ چنانچہ مشہور اہل حدیث عالم دین شیخ عبدالرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں:

فھذہ الاً حادیث بمجموعھا حجۃ علی من زعم أ نہ لم یثبت فی فضیلۃ النصف من شعبان شیء۔(22)

’’ یہ احادیث مجموعی اعتبار سے ان لوگوں کے خلاف دلیل ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ پندرہ شعبان کی فضیلت کے سلسلہ میں کچھ ثابت نہیں ہے۔ ‘‘

اور علامہ عبیداللہ مبارک پوری لکھتے ہیں:

’’یہ تمام حدیثیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ پندرہ شعبان کی رات بڑی فضیلت کی رات ہے۔ اس کا مقام ومرتبہ بڑا بلند ہے۔عام راتوں کی طرح نہیں یہ ہے۔ لہذااس سے غفلت برتنا مناسب نہیں بلکہ مستحب ہے کہ عبادت اورذکر وفکر میں یہ رات گزارے۔ ‘‘(23)

متعدداحادیث کے سلسلہ میں شیخ البانی کی رائے گزرچکی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں شب براءت سے متعلق احادیث کی صحت پر مکمل اطمینان ہے۔ چونکہ انہوں نے اس مسئلہ میں بڑی چھان بین کی ہے۔ اس لیے وہ بڑے واضح انداز میں کہتے ہیں کہ:

’’جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ پندرہ شعبان کی رات سے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے، ان پراعتماد نہیں کرناچاہئے۔ اگر کسی نے یہ بات کہی ہے تو وہ جلد بازی کانتیجہ ہے اور اس نے اس طرح سے احادیث کے طریقوں کی جستجو اورتحقیق نہیں کی ہے جس طرح کی تحقیق تمہارے سامنے ہے۔(24)

ان احادیث کے ساتھ سلف کے عمل سے بھی اس رات کی فضیلت اوراہمیت کی تائید ہوتی ہے کہ وہ اس رات کو دیگر راتوں کے بالمقابل خصوصی اہمیت دیتے تھے اورشب بیداری کااہتمام کرتے تھے۔ چنانچہ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

اما لیلۃ النصف من شعبان فقد روی فی فضلھا احادیث وآثار و نقل عن طائفۃ من السلف انھم کانو ا یصلون فیھا۔ فصلا ۃ الرجل فیھا وحدہ قد تقدمہ فیہ سلف ولہ فیہ حجۃ فلا ینکر مثل ھذا۔ (25)

’’شعبان کی پندرہویں رات کے متعلق بہت سی احادیث اورآثار مروی ہیں اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ وہ اس رات میں نماز پڑھا کرتے تھے، لہٰذا اس رات میں تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے سلف کا عمل بطور نمونہ موجود ہے،اس میں اس کے لیے دلیل ہے لہٰذا اس جیسے عمل کاانکار نہیں کیاجاسکتا ہے۔‘‘

علامہ ابن الحاج مالکی سنت کے بڑے دلدادہ اور بدعت سے سخت متنفر تھے بلکہ اس سلسلہ میں ان کی اندر ایک گونہ شدت پائی جاتی تھی۔ ’’المدخل‘‘ کے نام سے انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے اور عوام کے درمیان رائج بدعات پر بڑی تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور دلائل سے ان کو رد کیا ہے۔ اس کتاب میں شب براءت کی فضیلت واہمیت پر انھوں نے لکھا ہے:

’’بلا شبہ یہ رات بڑی بابرکت اور اللہ کے یہاں بڑی عظمت والی ہے ۔۔۔ ہمارے اسلاف اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس کے آنے سے پہلے ہی تیاری کرلیتے اور جب یہ رات آجاتی تو وہ اس کی ملاقات اوراس کی حرمت و عظمت کو بجالانے کے لیے بالکل مستعد ہوتے ، کیوں کہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ وہ شعائر اللہ کا بہت احترام کرتے تھے۔ (26)

حضرت خالد بن سعد ان بڑے درجے کے فقیہ اور محدث ہیں۔ ستر صحابہ کرام کی دیدار کا شرف انہیں حاصل رہا ہے۔ اسی طرح حضرت مکحول شامی ایک جلیل القدر تابعی ہیں۔ اس دور کے علماء اورفقہا ء آپ کی جلالتِ علمی کے معترف اور آپ کی شاگردی پر نازاں تھے۔ حدیث کی کتابوں میں سینکڑوں حدیثیں ان کے واسطے سے منقول ہیں، خود شعبان کی فضیلت سے متعلق حدیث کے وہ راوی ہیں۔ یہ دونوں حضرات شعبان کی پندرہویں شب کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس میں خوب عبادت کیا کرتے تھے(27)۔

ان حضرات کے علاوہ دوسرے تابعین اور تبع تابعین کا بھی یہی طرز عمل تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ تاریخ کے صفحات نے ان میں سے صرف چند افراد ہی کے نام کو محفوظ رکھا جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن الحاج مالکی کے حوالے سے نقل کیا جاچکا ہے۔

حاصل یہ ہے کہ شعبان کا پورا مہینہ بڑی عظمت ،اہمیت اوربرکت کا حامل مہینہ ہے۔ اس پورے مہینے میں عبادت وغیرہ کااہتمام کرناچاہئے، خصوصی طور پر اس کی فضیلت کا مرکزی نقطہ پندرہویں شب ہے جس کی فضیلت کے سلسلہ میں دس صحابہ کرام سے احادیث منقول ہیں جن سے مجموعی طور پر اس شب کی فضیلت کااندازہ ہوتا ہے اور خود صحابہ کرام اور تابعین عظام کے دور میں اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیاجاتا رہا ہے،بلکہ ہر دور میں اس امت کے فقہا ء علماء کے یہاں اس رات میں ذکر وتلاوت اور عبادت وغیرہ کا معمول رہا ہے۔ اور یہ عملی تواتر بذات خود ایک دلیل ہے، کیوں کہ امت محمدیہ کااجتماعی طور پر کسی چیز کو قبول یارد کردینا دین کے مجموعی مزاج سے موافقت اور عدم موافقت کو ظاہر کرتاہے، یقیناًیہ عملی تواتر اور تاریخی تسلسل اس لائق ہے کہ اس وجہ سے روایت بھی قبول کی جائے جن کے راویوں میں کچھ کمزوری ہے کیوں کہ امت کا یہ باہمی تعامل اسے قوی سے قوی تر بنادے گا، یہ خود ایک قوی سلسلۂ اسناد ہے کہ اس کے سامنے وہ سلسلہ اسناد ہیچ ہے جس میں محض ایک ایک راوی ہوں جیسا کہ علامہ سخاوی لکھتے ہیں: وکذااذا تلقت الأمۃ الضعیف بالقبول یعمل بہ علی الصحیح حتی انہ ینزل منزلۃ المتواترفی انہ ینسخ بہ المقطوع۔(28)

’’ایسے ہی جب امت کسی ضعیف حدیث کو قبول کرلیتی ہے تو صحیح قول کے مطابق اس ضعیف حدیث پر عمل کیاجائے گا یہا تک کہ وہ متواتر کے درجے میں ہوجاتا ہے کہ اس سے قطعی حکم کو بھی منسوخ کیاجاسکتاہے۔

لہذااس رات کو غنیمت جان کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس شب میں بیدار رہ کر اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں، زندگی جو معصیت میں گزری ہے، اس سے توبہ کریں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہدو پیماں باندھیں ، رزق حلال طلب کریں۔ لیکن یہ خیال رہے کہ نفلی عبادتوں میں تنہائی افضل ہے لہذااس رات میں مساجد وغیرہ کے اندر اجتماعی عبادت مکروہ ہے۔(29) کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نوافل کے ذریعہ سے اپنے دربار میں خلوت اورتنہائی کا موقع فراہم کیا ہے،یہ اس ذات پاک کی طرف سے بندہ کے لیے ایک انعام ہے لہذا اس خلوت کے موقع کوجلوت سے بدل دینا، انفرادی ملاقات کو جماعت کی شکل دے دینااس انعام کی ناقدری ہے، اور سنت رسول اللہﷺ کی خلاف ورزی ہے کہ اس رات میں آپﷺ سے انفرادی عبادت ہی منقول ہے،اورسنت کے مطابق اخلاص کے ساتھ چند لمحے کی عبادت رات بھر کے اس عبادت سے بہتر ہے جس میں سنت کی خلاف ورزی ہورہی ہو۔ چنانچہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کاارشاد ہے کہ:

’’ (شب براءت میں) کوئی اپنے گھر میں صرف ایک سپارہ پڑھے، یہ اس کے لیے مسجد میں پورا قرآن ختم کرنے سے بہتر ہے۔ ‘‘(30)

لہذااس خیال کو ذہن سے نکال دیناچاہئے کہ تنہا عبادت کرنے میں نیند آنے لگتی ہے لہذا زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کے لیے اجتماعی نظم مناسب ہے۔ کیونکہ اللہ کے یہاں مقدار اور سائز کااعتبار نہیں ہے بلکہ وہاں اتباع سنت اوراخلاص دیکھاجاتا ہے۔

دوسرے یہ کہ جہاں بکثرت لوگ جمع ہوتے ہیں، وہاں شور وشغب سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔ بھلا ایسے شوروشغب میں عبادت کے لیے مطلوب یکسوئی اورسکون کیسے میسرہوسکتاہے؟ اس طرح سے شب بیداری کرناتو رات کو ضائع کرنا ہے۔

یہ بھی ذہن میں رہناچاہئے کہ یہ رات جشن اورتہوار منانے کی رات نہیں ہے، اورنہ تو روحوں کے آنے کی رات ہے، لہذا عمدہ کھانے کااہتمام کرنا، برادری اور فقیروں میں تقسیم کرنا، گھروں کو سجانا ، چراغاں کرنا سب ناجائز اورممنوع ہے، کیونکہ یہ سب ہندوانہ رسم ورواج کی نقل ہے جسے وہ دیوالی کے موقع پر کیاکرتے ہیں۔(31)

 

پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنا مستحب ہے کیونکہ حضرت علیؓ سے منقول ایک حدیث میں آنحضورﷺ نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔یہ حدیث گرچہ ضعیف ہے لیکن بقول محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ ، کسی ماہر حدیث عالم نے اس حدیث کو موضوع نہیں کہا ہے۔(32) لہذااس سے اس دن روزہ رکھنے کی ایک گونہ فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ 13، 14، 15،تینوں دن روزے رکھے جائیں کہ ہر مہینہ کے ان ایام میں روزہ رکھنے کی فضیلت صحیح حدیثوں سے ثابت ہے۔

حواشی:

 

1۔ ایضاً ،4؍245

2۔الترغیب والترھیب للمنذری ،2؍79

 

3۔ نیل الاوطار 4؍245

4۔ امام ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ نے حدیث کی روایت کی ہے اور سند صحیح ہے۔ دیکھئے ۔بلوغ المرام، 139، تحقیق محمد حامد الفقی۔

5۔ مجمع الزوائد 8/56 ۔

6۔ المعجم الکبیر ، 20؍108

7۔ شعب الایمان ،7؍415

8۔ فضائل الاوقات ،119،

9۔ صحیح ابن حبان، 12؍481

10۔ مجمع الزوائد ، 8؍56

11۔ التقریب ، 1؍244

12۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ۔ 3؍ 136

13۔ الترغیب ، 3؍ 283

14۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، 3؍137

15۔ مجمع الزوائد ، 8؍ 65

16۔ شعب الایمان 7؍ 414

17۔ حوالہ مذکورنیز الترغیب ، 3؍284

18۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 3؍138۔ اس روایت کو علامہ بیہقی نے شعب الایمان میں نقل فرمایا اوراس کے محقق عبدالعلی نے لکھا ہے کہ اس کے راوی قابل اعتماد ہیں البتہ راوی حدیث یحیٰ کا سماع حضرت عروہ سے ثابت نہیں ہے۔ (شعب الایمان ، 7؍410) واضح رہے کہ مشہور ناقد حدیث حضرت ابن معین کا خیال ہے کہ یحیٰ *  کا سماع عروہ سے ثابت ہے،۔دیکھئے معارف السنن ، 6؍98۔

19۔ دیکھئے صحیح ابن ماجہ ،1؍233۔

20۔ شعب الایمان 7؍414۔1۔

21۔ فضائل الاوقات، 125۔

 

22۔ تحفۃ الاحوذی، 2؍53

23۔ مرعاۃ المفاتیح، 4؍342

24۔ سلسلۃ الأ حادیث الصحیحۃ، 3؍138۔

25۔ فتاوی ابن تیمیہ، 23؍132

 

26۔ المدخل، 1؍292۔

27۔ لطائف المعارف ، 144۔

 

28۔ فتح المغیث، 140، تفصیل کے لیے دیکھئے،’’نماز کے بعد دعا‘‘ صفحہ 74۔75۔

29۔ دیکھئے ردالمحتار،1؍507 البحرالرئق 2؍52 وغیرہ

30۔ فوائد الفواد، 24،ط: نول کشور، 1326ھ

31۔ دیکھئے ماثبت بالسنۃ ،363

32۔ دیکھئے مجلہ المآثر، صفحہ :17، شمارہ جنوری تا مارچ 1994ء

 

(5)

 

نیکیوں کا موسم بہار

 

ماہ رمضان کی فضیلت 

1-مہمان کی آمد  

 

معزز مہمان کی آمد ہے ، خیر وبرکت کا چاند طلوع ہو رہا ہے ، داد و دہش اور بخشش کا مہینہ آرہا ہے ،دعا ، توبہ ، انابت اور تلاوت کا موسم بہار آرہا ہے ، جنت کو سنوارا جارہاہے اور اس کے تمام دروازے کھول دیئے گئے ہیں اور جہنم سے نجات کا پروانہ دیا جارہا ہے اور اس کے تمام دروازے بند کر دئیے گئے ہیں ۔ 

تم بھی اپنے دل کا دروازہ کھول دو اور ہنستے، مسکراتے اس مہمان کے استقبال کے لئے نکل پڑو،سستی اور کاہلی کے لحاف سے باہر آجاؤ اور توبہ واستغفار کے ذریعے گناہوں سے غسل کرلو، شدت سے اس کا انتظار کرواور اس کی راہ میں پلکیں بچھا دو ۔

باہر نکل کر دیکھو فضاء میں کس قدر پاکیزگی چھائی ہوئی ہے ، ہرطرف اخلاص اور روحانیت کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے اور رنگ و نور کی بارش ہورہی ہے ہر چیز دھلی اور نکھری ہوئی ہے ، عبادت و اطاعت کی باد بہاری چل رہی ہے ، اور اللہ کی طرف سے پکارنے والا پکار رہاہے : اے اچھائی کے متوالے ! قدم آگے بڑھاؤ ، اور اے برائی کے طلب گار ! اپنے قدم روک لے ۔ اس لئے دل کے دریچے کھول دو ، غفلت اور کاہلی کا شکار مت بنو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس عظیم نعمت سے محروم رہ جاؤ اور اس سے بڑھ کر کوئی محرومی نہ ہوگی ۔

لہذا رمضان کی آمد کی اطلاع سے تنگ دلی اور گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوناچاہئے بلکہ خوشی اور فرحت محسوس کرنا چاہیے اور اس بات کی خواہش اور دعا کی جائے کہ ہمیں یہ مبارک مہینہ نصیب ہوجائے اور اس وقت ہم صحت و عافیت کے ساتھ رہیں تاکہ چستی اور نشاط کے ساتھ روزہ رکھ سکیں اور اس کے تقاضے پر عمل کرسکیں ، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رجب کا چاند دیکھ کر یہ دعا کرتے : 

اللہم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان۔( احمد ، طبرانی)

اور سلف صالح چھ ماہ تک دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! ہمیں رمضان تک زندگی نصیب فرمادے۔ اور رمضان بعد چھ ماہ تک دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! ہمارے رمضان کو قبول فرما لے ۔

رمضان کا چاند دیکھ کر اللہ کی حمد و ثناء اور شکر کرنا چاہئے کہ ہمیں یہ سنہرا موقع ملا اور ہمیں عبادت و اطاعت کے لائق سمجھا گیا کیونکہ بندگی کی توفیق ایک گرانقدر انعام اور بہت بڑا شرف و اعزاز ہے ، اس پر اللہ کی جتنی بھی حمد و ثناء کی جاۓ ، کبریائی و عظمت بیان کی جائے ،اور سجدہ شکر بجا لایا جائے کم ہے ، لتکبروا اللہ علی ما ہداکم ولعلکم تشکرون۔ 

رمضان کی آمد پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا اور دوسروں کو اس خوشخبری میں شریک کرنا چاہئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ میں رمضان کی خوشخبری سنایا کرتے تھے:

 رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آگیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس مہینے کا روزہ فرض کیا ہے ، اور اس ماہ میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک ایسی رات رکھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اور جو شخص اس رات کی برکت اور خیر سے محروم رہا وہی حقیقی بد قسمت ہے . (الترغیب والترہیب للمنذری)

حقیقت یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر مسرت و فرحت کی بات کیا ہوگی کہ نیکیوں کا موسم آگیا ہے جس کی آمد کی راہ میں صالحین کی نگاہیں بچھی ہوئی تھیں اور دل مشتاق و بےتاب تھا۔ رحمت کی باد بہاری چل رہی ہے ، کرم و نوازش کی بارش ہو رہی ہے ، آسمان اور جنت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے نیکی کی راہ میں آسانی پیدا ہوگئی ہے ، جہنم کے دروازے بند کردیئے گئے ہیں اور شیطان کو جکڑ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے عبادت کے راستے کی ایک بہت بڑی رکاوٹ دور ہوگئی ہے ۔

غور کروکہ بہت سے لوگ پچھلے رمضان میں تمہارے ساتھ تھے لیکن اب وہ تم سے بچھڑ کر آخرت کے سفر پر روانہ ہوچکے ہیں اور وہ امسال اس شرف سے محروم رہے تمہیں یہ شرف اور سنہرا موقع ملا ہے اس لئے اس وقت کی قدر و قیمت پہچانو اور اللہ کا شکر ادا کرو اور کوشش کرو کہ تم بھی ان لوگوں میں شامل ہوجاؤ جنھیں جہنم سے نجات کا پروانہ دیا جائے گا۔

رمضان کے بابرکت مہینے سے فائدہ اٹھانے کے لئے منصوبہ بندی اور پلاننگ ضروری ہے ، افسوس یہ ہے کہ لوگ دنیاوی معاملات میں باریکی کے ساتھ پلاننگ کرتے ہیں اور نفع نقصان کے ہر پہلو پر دھیان دیتے ہیں مگر آخرت کے معاملے میں دنیا داروں کو چھوڑۓ عام طور پر دیندار  طبقے کے پاس بھی کوئی پلان اور منصوبہ نہیں ہوتا ہے، بہت کم لوگ ہیں جو اس کے لئے منصوبہ بناتے اور اس پر عمل کرتے ہیں ۔

عبادت اور نیک عمل کے لئے پختہ ارادہ اور ارادے کے مطابق عمل کی کوشش ضروری ہے ، مخلصانہ ارادے کے ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے اور راستے کی مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں ۔

یقیں محکم، عمل پیہم ، محبت فاتح اعظم۔

جہاد زندگانی میں ہے یہ مردوں کی شمشیریں۔

اسی کے ساتھ روزہ سے متعلق مسائل کو جاننے کی کوشش ہونی چاہئے، اس لئے کہ فرائض کے معاملے میں ناواقفیت اور لاعلمی عذر نہیں ہے، لہذا روزہ کے صحیح اور اللہ کی نگاہ میں لائق قبول ہونے کے لئے اس سے متعلق احکام کا جاننا ضروری ہے ۔

آؤ! اس مہینے سے نیکی اور پرہیزگاری کے ایک نئے باب کا افتتاح کریں اور ایک نئی اور تابناک زندگی کی ابتدا کریں ، اس طور پر کہ توبہ واستغفار کے ذریعے اپنے پروردگار کی طرف واپس آجائیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے خود اس کے پابند اور دوسروں کو اس تک لانے والے اور جن چیزوں سے روکا ہے  اس سے دور رہنے اور دوسروں کو منع کرنے والے بن جائیں ۔ والدین ، بیوی ، بچوں ، رشتے داروں اور عام لوگوں سے اپنے تعلقات ٹھیک کرلیں،ان کے حقوق ادا کریں ، لڑائی، جھگڑے اور اختلافات کو ختم کردیں ، حسد ، تکبر ، کینہ ، کپٹ اور بغض سے اپنے سینے کو پاک و صاف کرلیں ۔ تاکہ ہم اللہ کی رحمت کے مستحق ہو سکیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ہمیشہ نیک کام کرتے رہو اور اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کی ہواؤں کے لئے پیش کردو ، کیونکہ اللہ کی رحمت کی ہواؤں کے کچھ خاص مواقع ہوتے ہیں اور اللہ تعالی جسے چاہتے اسے اس کا مستحق بنا دیتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے رہا کرو کہ وہ تمہاری خامیوں اور عیوب پر پردہ ڈال دیں اور تمہارے خوف اور بے اطمینانی کو ختم کردیں۔(سلسلۃ الصحیحہ : 189)

 

2-* وقت ہی زندگی ہے *

 

انسان کی زندگی بہت محدود ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ مسلسل ختم ہورہی ہے ، اور گزری ہوئی زندگی واپس نہیں لائی جاسکتی ہے اورنہ ہی موت کے بعد دوبارہ دنیا میں آنا ہے ۔

اور ہمیں اس حقیقت کا بھی یقین ہے کہ مرنے کے بعد اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا اورزندگی کے ایک ایک پل کا حساب دینا ہے ، اس لئے برف کی طرح پگھلتے ہوئے زندگی کے اس سرمایہ کو جلد سے جلد نیک کاموں میں لگا دینا چاہیے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

* وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ۔

اور اپنے رب کی طرف سے مغفرت اور وہ جنت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاؤ جس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں تمام آسمان اور زمین سما جائیں۔ وہ پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔(سورہ آل عمران: 133)

* فَفِرُّوْۤا اِلَی اللّٰہِ ؕ اِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ۔

لہذا دوڑو اللہ کی طرف ۔ یقین جانو، میں اس کی طرف سے تمہارے لیے صاف صاف خبردار کرنے والا (بن کر آیا) ہوں۔(سورہ‌ الذاریات: 50)

یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے دین پر ایمان لانے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے میں جلدی کرو۔

* فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ؕ

 لہذا تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ (سورہ البقرۃ : 148)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

* نیک عمل کرنے میں جلدی کرو‌، ( نہ معلوم پھر موقع ملے یا نہ ملے) ایسے فتنوں کے آنے سے پہلے اچھا کام کرلو جو تاریک رات کی طرح ہونگے ، صبح کے وقت بندہ مومن ہوگا اور شام میں کافر ہوجائے گا، رات میں مومن ہوگا اور صبح میں کافر ہوجائے گا ، ( آزمائش اور فتنے سے پریشان ہوکر ) وہ اپنے دین کو دنیا کے بدلے بیچ دیگا۔ (مسلم )

* سات چیزوں کے آنے سے پہلے نیک عمل کرلو ، تمھیں کس چیز کا انتظار ہے ؟ ایسی غربت اور افلاس کا جو انسان کو خود فراموشی میں مبتلا کر دیتا ہے ؟ یا ایسی مالداری کا جو سرکشی پر آمادہ کردیتی ہے ؟ یا بیکار کردینے والی بیماری کا  ؟ یا بے عقل کر دینے والے بڑھاپے کا ؟  یا کام تمام کر دینے والی موت کا ؟ یا دجال کا ؟ تو یہ ایک بدترین شخص کا انتظار ہے ، یا قیامت کا انتظار ہے ؟ تو یاد رکھو وہ بہت خوفناک اور کڑوا ہے ۔(ترمذی)

اللہ کے سامنے زندگی کے ہر لمحے کا حساب دینا ہے ، اگر اس کی اطاعت اور عبادت میں زندگی بسر ہوئی ہے تو جنت کی بیش بہا نعمتیں میسر ہونگی اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ نصیب ہوگی، چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :

وَ ہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَا ۚ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ ؕ اَوَ لَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَ جَآءَکُمُ النَّذِیْرُ ؕ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ ۔

اور وہ اس دوزخ میں چیخ پکار مچائیں گے کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں باہر نکال دے تاکہ ہم جو کام پہلے کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ کر نیک عمل کریں۔ (ان سے جواب میں کہا جائے گا کہ) بھلا کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کسی کو اس میں سوچنا سمجھنا ہوتا، وہ سمجھ لیتا ؟ اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی آیا تھا۔  اب مزا چکھو، کیونکہ کوئی نہیں ہے جو ایسے ظالموں کا مددگار بنے۔( سورہ فاطر : 37)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن کوئی شخص اپنی جگہ سے قدم نہیں ہٹا سکتا ہےجب تک کہ وہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے ، زندگی کہاں بسر ہوئی ؟ جوانی کہاں گزری ؟ مال کیسے کمایا ؟ کہاں خرچ کیا ؟ علم پر کہاں تک عمل کیا ؟( ترمذی : 2416)

اس لئے زندگی ، صحت ، فراغت اور جوانی جیسی انمول دولت کی قدر کرنا چاہئے کیونکہ یہ دولت ہمیشہ نہیں رہتی ہے ، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ، کب ساتھ چھوڑ دے ، مال ڈھلتی چھاؤں کی طرح ہے ، صحت ہمیشہ نہیں رہتی ، بیماری پوچھ کر نہیں آتی ، جوانی نیند کے جھونکے کی طرح ہے ، اور فرصت کے لمحات دبے پاؤں گز جاتے ہیں، اس لئے انھیں غنیمت سمجھنا چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 

پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو ، زندگی کو موت سے پہلے ، صحت کو بیماری سے پہلے ، فرصت کو مصروفیت سے پہلے ، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ، مالداری کو محتاجی سے پہلے ۔ ( الترغیب والترہیب للمنذری 1215)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بہتر کون ہے ؟ فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو اور اچھا کام کرے ۔ دریافت کیا گیا: سب سے بڑا کون ہے ؟ فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو مگر عمل خراب ہو (مسلم)

اور حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو قضاعہ کے دو لوگ ایک ساتھ مسلمان ہوئے جس میں سے ایک کسی جنگ میں شہید ہوگیا اور دوسرا اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہا ، طلحہ بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ دوسرا شخص شہید سے پہلے جنت میں داخل ہوگیا ، مجھے بڑا تعجب ہوا ، اور صبح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نےفرمایا:  کیا اس نے اس کے بعد رمضان کا روزہ نہیں رکھا اور اتنی اتنی مقدار میں پورے سال نماز نہیں پڑھی ؟ (صحیح الترغیب والترہیب:365)

اس لئے ہمیں وقت کی قدر کی قدر کرنا چاہئے خصوصا رمضان کے اس مہینے کی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک زریں موقع عنایت فرمایا ہے ، پچھلے رمضان میں بہت سی لوگ ہمارے ساتھ تھے لیکن ان کی زندگی پوری ہوگئی اور وہ اس گراں قدر دولت سے محروم ہوگئے اور ہوسکتا ہے کہ اگلے رمضان سے پہلے ہم بھی ان کے پاس پہونچ جائیں اور دوبارہ ہمیں رمضان میسر نہ ہو اس لئے پوری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہوجائیں جن کی مغفرت کردی جائے اور جنھیں باب ریان سے جنت میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے اور ہمارا شمار ان بدنصیبوں میں نہ ہو جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : وہ شخص ناکام و نامراد ہو جس کے سامنے میرا نام آئے لیکن وہ درود نہ پڑھے ، وہ شخص ناکام و نامراد ہو جسے رمضان کا مہینہ ملا مگر وہ اپنی مغفرت نہ کرا سکا ، وہ شخص ناکام و نامراد ہو جس نے اپنے والدین کو پایا مگر وہ ان کے ذریعے جنت میں داخل نہ ہوسکا ( صحیح الجامع الصغیر)

 

3-توبہ اور انابت :

 

رب کائنات کا ارشاد ہے :

 وَ تُوْبُوْۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ 

اے مومنو! تم سب اللّٰہ سے توبہ کرو تاکہ کامیاب ہوجاو(سورہ النور /31)

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ۔

آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندو!تم نے گناہوں کے ذریعے اپنے اوپر جو زیادتی کی ہے تو اس کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو ۔ اللہ ہر طرح کے گناہوں کو معاف کر دیگا ، بیشک وہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے، اور اپنے رب کی طرف واپس آجاؤ اور اس کے فرمانبردار بن جاؤ اس سے پہلے کہ تمہیں عذاب آدبوچے اور پھر تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔ (سورہ الزمر /54)

اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بندہ کی توبہ سے اللہ تعالی کو اس شخص سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جسے صحرا کا سفر درپیش ہو اور سواری کا جانور جس پر اس کا کھانا پانی بھی ہو غائب ہوجائے اور ملنے کی امید نہ رہے ۔ وہ شخص ایک درخت کے سایہ میں آکر کر لیٹ گیا کہ وہ جانور کے ملنے سے مایوس ہوچکاہے( اور خود اس کے بچنے کی بھی امید نہیں رہی)

لیکن جب نیند کھلی تو دیکھا کہ سواری کا جانور اس کے پاس موجود ہے تو وہ خوشی کے مارے کہنے لگا اے اللہ!تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں، خوشی کی زیادتی اور شدت کی وجہ سے اس نے جملے کو الٹ دیا(  صحیح مسلم )

اللہ تعالیٰ رات میں اپنا دامن پھیلاتے ہیں تاکہ دن کا خطاکار توبہ کرلے اور دن میں اپنا دامن پھیلاتے ہیں تاکہ رات میں غلطی کرنے والا تائب ہوجائے ( صحیح مسلم)

توبہ کا مطلب یہ ہے کہ بندہ گناہ سے باز آجاۓ، معصیت کے ارتکاب پر اسے ندامت اور پشیمانی ہو اور پختہ ارادہ کرے کہ دوبارہ گناہ کے قریب نہیں جائے گا اور اگر اس گناہ کا تعلق کسی انسان کے حق سے ہو تو اسے ادا کرے یا معاف کرالے۔

رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے توبہ و استغفار ضروری ہے کہ معصیت میں مبتلا رہ کر نہ تو روزہ سے کوئی فائدہ ہوگا اور نہ شب بیداری سے ، گناہ کی وجہ سے دل سخت اور تاریک ہوجاتا ہے اور سخت و تاریک دل پر رمضان کے انوار و تجلیات کا کوئی اثر نہیں ہوتاہے ۔

اس مہینے میں جنت کا دروازہ اس لئے کھول دیا جاتا ہے تاکہ بندہ توبہ و استغفار کرکے اس میں داخل ہوسکے اور آسمان کے دروازے اس لئے کھولے جاتے ہیں تاکہ انعام و اکرام اور نور کی بارش ہو ، جس کی وجہ سے عمل کی تاثیری صلاحیت اور اجروثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔اور شیطان کو اس لئے جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ نیکی کی راہ کی رکاوٹ ختم ہو جائے ، اس کے باوجود اگر کوئی خواہش نفس کے پیچھے بھاگتا ہے تو اس سے بڑا بدبخت کون ہوگا ؟؟؟

اس لئے آئیے ہم رمضان کو عہد و پیمان کا مہینہ بنائیں، اور اس وعدے کے ساتھ رمضان شروع کریں کہ ہم

1_نماز کی پابندی کریں گے اور زندگی کے آخری لمحے تک ادا کریں گے ۔

2_زکات ادا کریں گے اور غریبوں کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کریں گے ۔

3_رشوت ، خیانت ، سودی لین دین ،ملاوٹ ، دھوکہ دہی اور دوسرے مالی اور معاملاتی بدعنوانی سے باز رہیں گے۔

4_زبان ، کان اور آنکھ کی حفاظت کریں گے ، بدگوئی ، بے حیائی ، غیبت ، حسد ، کینہ اور چغل خوری سے دور رہیں گے۔

5_قرآن تجوید کے ساتھ پڑھیں گے ، سمجھیں گے اور اس پر عمل کریں گے ۔

6_بھلائی اور نیکی کریں گے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں گے ، برائی سے دور رہیں گے اور دوسروں کو بھی اس سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے ۔

 

4-* حقیقی روزہ *

 

قانونی زبان میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور جماع سے رکے رہنے کو روزہ کہا جاتا ہے، اور اگر کوئی مقررہ وقت میں ان چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے تو قانون کی نگاہ میں اسے روزہ دار کہا جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ اس کے ذمے سے فرض روزہ ساقط ہو گیا ہے اور اسے دوبارہ روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا جائے گا ۔

مگر روزے کا مقصد ،اس کی روح، اور اسکا فیض اس وقت حاصل ہوگا جب کہ بندہ معصیت اور گناہ کے کاموں سے باز آجاۓ اس لئے رمضان کے شروع ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا دی جاتی ہے: اے خیر کے طلب گار ! قدم آگے بڑھا ۔ اور اے شر کے متلاشی ! اپنے قدم  روک لے ۔اور ایک حدیث میں ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنھیں بھوک اور پیاس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور بہت سے رات میں نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جنھیں نیند خراب کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے. ( الترغیب والترہیب للمنذری)

اور حضرت علی رض کہتے ہیں کہ کھانا پانی چھوڑ دینے کا نام روزہ نہیں ہے بلکہ روزہ یہ ہے کہ جھوٹ، باطل اور لغو کو چھوڑ دیا جائے ۔

اور حضرت جابر رض کہتے ہیں کہ جب تم روزہ رکھو تو جھوٹ اور گناہ سے کان، زبان اور آنکھ کا بھی روزہ رکھو  اور غلام کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور وقار و سکون کے ساتھ رہو ۔

لہذا روزہ کے مقصد اور فیض کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان سات چیزوں کی حفاظت پر خصوصی دھیان دے ۔

1_آنکھ کی حفاظت: 

قرآن مجید میں ہے :

* اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا ۔

 یقین رکھو کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں (تم سے) سوال ہوگا۔(سورہ الاسراء: 36)

* قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ؕ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ .

مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے۔ وہ جو کارروائیاں کرتے ہیں اللہ ان سب سے پوری طرح باخبر ہے۔(سورہ النور : 30)

اور حدیث میں ہے : نظر ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے اورجو اللہ کے خوف کی وجہ سے بدنگاہی باز رہا تو اللہ تعالیٰ اسے ایسے ایمان سے نوازیں گے جس کی مٹھاس کو وہ اپنے دل میں محسوس کریگا۔ (الترغیب والترہیب للمنذری) 

اور ایک حدیث میں بدنگاہی کو زنا کہاگیا ہے( بخاری)

لہذا ان تمام چیزوں سے بچنا ضروری ہے جن کا دیکھنا حرام اور ناجائز ہے جیسے کہ غیرمحرم عورت یا اس کی تصویر یا ناجائز کھیل تماشا وغیرہ۔

2_زبان کی حفاظت:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

* مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ .

انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اس پر ایک نگراں مقرر ہوتا ہے، ہر وقت (لکھنے کے لیے) تیار۔(سورہ ق:18)

* یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا ۔

یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ۔

اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو، اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔اللہ تمہارے فائدے کے لیے تمہارے کام سنوار دے گا، اور تمہارے گناہوں کی مغفرت کردے گا۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاع کرے، اس نے وہ کامیابی حاصل کرلی جو زبردست کامیابی ہے۔ (سورہ الاحزاب: 70,71)

 اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

* جو اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ذمہ داری لے تو میں اس کے لئے جنت کا ذمہ دار ہوں (بخاری)

* کسی بندے کا ایمان درست نہیں ہوگا جب تک کہ اس کا دل درست نہ ہو اور دل درست نہیں ہوگا جب تک کہ زبان درست نہ ہو.( مسند احمد)

*اللہ کی نگاہ میں سب سے بہتر کام زبان کی حفاظت ہے ۔(الترغیب والترہیب للمنذری)

* روزہ ڈھال ہے ، لہذا روزہ کی حالت میں گندی بات زبان سے مت نکالو اور نہ شور کرو ، اگر کوئی اسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو کہدے کہ میں روزہ سے ہوں (بخاری و مسلم)

* کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام روزہ نہیں ہے بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ وہ بے ہودہ اور گندی بات کو چھوڑ دے ، اس لئے اگر تمہیں کوئی گالی دے یا تمہارے ساتھ جاہلوں جیسا برتاو کرے تو کہہ دو کہ میں روزہ سے ہوں (الترغیب للمنذری)

* جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو تو اللہ کی نگاہ میں اس کے کھانا پانی چھوڑنے کی کوئی وقعت نہیں ہے ( بخاری و مسلم)

3_ کان کی حفاظت: 

جس طرح سے جھوٹ، غیبت ،بہتان تراشی ، چغلی اور بری بات اور فضول گوئی وغیرہ کا ارتکاب ناجائز ہے اسی طرح سے اسے سننا بھی حرام ہے ، اور اس کی شناعت کے لئے یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حرام کھانے والے اور جھوٹ سننے والے کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے ۔

سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ ؕ

یہ کان لگا لگا کر جھوٹی باتیں سننے والے، جی بھر بھر کر حرام کھانے والے ہیں۔

اور حدیث میں ہے : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے گانا گانے سے اور گانا سننے سے ، غیبت کرنےسے اور غیبت سننے سے اور چغل خوری کرنے سے اوراسےسننے سے (الجامع الصغیر)

4_پیٹ کی حفاظت: 

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

* یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ .

اے لوگو ! زمین میں جو حالال پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤ (١٠٦) اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو کہ وہ تمہارے لیے ایک کھلا دشمن ہے۔ (سورہ البقرۃ: 168)

* وَ لَا تَاْکُلُوْۤا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ .

اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، (سورہ البقرۃ: 188)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

* جنت میں وہ خون اور گوشت داخل نہیں ہوگا جو حرام سے پلا بڑھا ہو ، اس کے لئے تو دوزخ ہی مناسب جگہ ہے (ترمذی)

* جس نے پاکیزہ کمائی کھائی اور سنت پر عمل کیا اور لوگوں کو ایذا پہنچانے سے باز رہا وہ جنت میں داخل ہوگا (ترمذی)

5_شرمگاہ کی حفاظت:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

* وَ الَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ .اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ.فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْعٰدُوْن.

جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں.سوائے اپنی بیویوں اور باندیوں کے کہ ( اس میں ) ان پر کوئی ملامت نہیں.ہاں ، جو ( اپنی شہوت پوری کرنے کے لئے ) ان دو کے علاوہ کے طلب گار ہوں تو وہ حد سے گذر جانے والے ہیں .

* وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا.

اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو، وہ یقینی طور پر بڑی بےحیائی اور بےراہ روی ہے۔(سورہ الاسراء: 32)

6,7_ہاتھ اور پیر کی حفاظت:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں (بخاری وغیرہ)

مذکورہ اعضاء کی حفاظت رمضان اور غیر رمضان دونوں میں ضروری ہے لیکن رمضان میں ان کی حفاظت کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

 

5-*بہترین زاد راہ:*

 

زندگی کے سفر کا بہترین توشہ تقوا ہے( سورہ البقرۃ 197)اور سب سے اچھا لباس تقوا کا لباس ہے (سورہ الأعراف 26)اور جس کے پاس تقوا کا توشہ اور لباس موجود ہوتو اسے اللہ کی معیت اور نصرت حاصل ہوتی ہے (سورہ النحل 128)اور اسے اللہ کی قربت اور دوستی کا شرف حاصل ہوتا ہے( الانفال 34)اور آخرت میں تاریکی کے موقع پر اسے روشنی عطاء کی جاتی ہے( الحدید 28)اور ایسی بصیرت دی جاتی ہے جس کے ذریعے وہ حق و باطل میں فرق کرسکتا ہے (الانفال 29)اور ایسا شخص اللہ کی نگاہ میں افضل ترین اور سب سے معزز ہوتا ہے( الحجرات 13)اسے روزی کی فکر سے بے نیاز کردیا جاتاہے اور ایسی جگہ سے رزق کا انتظام کیا جاتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا (الطلاق 3) اور دنیاوی زندگی کے خاتمے پر اچھا نتیجہ اور بہتر انجام اس کے انتظار میں ہے( طہ 136)اور قیامت کےہولناک دن میں اسے نہ کوئی غم ہوگا اور نہ کوئی پریشانی ( الأعراف35) اور وہ ان خوش نصیبوں میں شامل ہوگا جو پل صراط سے بخیر و عافیت گزر جائیں گے ( مریم 72)اور جنت تو صرف متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔

اور جو اس صفت سے خالی ہوگا تو وہ ناکام و نامراد ہوگا اور اسے حسرت و پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا ( الزمر 57)

*اللہ کی محبت وخشیت کی وجہ سے شریعت کے احکام کی پابندی کا نام تقوا ہے،* *اس طرح سے زندگی گزارنا تقوا ہے جیسے کوئی شخص کانٹے دار راستوں میں دامن سمیٹ کر اور بچ بچا کر چلتاہے ، اور ہر قدم اور ہر لمحے یہ احساس ہو کہ اس کی نگرانی کی جا رہی ہے اور اس کے ہر عمل کا ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے ۔*  اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی زندگی بہت محتاط اور نہایت صاف ستھری ہوگی ،وہ عبادات و معاملات اور زندگی کے ہر گوشے میں شریعت کا پابند ہوگا ۔

اسی یقین اور کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے نماز وروزہ اور دیگر عبادتیں فرض کی گئی ہیں ، البتہ دیگر عبادتوں کی بہ نسبت روزہ میں یہ کیفیت زیادہ نمایاں ہے کہ بندہ سخت گرمی میں پیاس کی شدت کی وجہ سے مچھلی کی طرح تڑپ رہاہے ، بھوک کی وجہ سے مرا جارہاہے ، بند کمرے میں جہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے قسم قسم کی نعمتیں اور مشروبات موجود ہیں لیکن ایک قطرہ پانی سے حلق تر کرنا گوارہ نہیں ، اس لئے کہ جس کی خاطر وہ بھوکا پیاسا ہے وہ اسے دیکھ رہا ہے ۔

کھانا‌پانی زندگی کی ناگزیر ضروریات میں سے ہے کہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہا جاسکتا لیکن مہینہ بھر محدود وقت کے لئے اس سے اس مقصد سے روک دیا جاتا ہےکہ پوری زندگی حرام اور ناجائز کو چھوڑنا آسان ہوجائے کہ *جو شخص اللہ کے حکم پر جائز اور ضروری چیزوں دست بردار ہوسکتا ہے اس سے امید کی جانی چاہیے کہ وہ حرام اور ناجائز چیزوں سے یقینی طور پر دور رہیگا* ۔ اور اگر کوئی شخص محض اللہ کے حکم کی وجہ سے ایک جائز چیز سے کنارہ کش ہے مگر حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب کئے جارہاہے تو اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ وہ جائز سے کنارہ کشی کی حقیقت سے بے خبر ہے ، چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 

*روزہ ڈھال ہے ، لہذا روزہ کی حالت میں گندی بات زبان سے مت نکالو اور نہ شور کرو ، اگر کوئی اسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو کہدے کہ میں روزہ سے ہوں* (بخاری و مسلم)

کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام روزہ نہیں ہے بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ وہ بے ہودہ اور گندی بات کو چھوڑ دے ، اس لئے اگر تمہیں کوئی گالی دے یا تمہارے ساتھ جاہلوں جیسا برتاو کرے تو کہہ دو کہ میں روزہ سے ہوں (الترغیب للمنذری)

بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنھیں بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور رات میں نماز پڑھنے والے بہت سے ایسے ہیں جنہیں اپنی نیند خراب کرنے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا (الترغیب للمنذری)

جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو تو اللہ کی نگاہ میں اس کے کھانا پانی چھوڑنے کی کوئی وقعت نہیں ہے ( بخاری و مسلم)

یہ روزہ دار کی حقیقی اور سچی تصویر ہے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا روزہ کی حالت میں ہماری یہی حالت ہوتی ہے یا اس کے برعکس روزہ کو بے صبری اور غصہ کا ذریعہ بنالیا گیا ہے کہ روزہ کی حالت میں طیش میں آجانا اور لڑنا جھگڑنا بالکل عام بات ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ روزہ کا طبعی نتیجہ ہے اس لئے بیچ بچاؤ کرنے والے کہتے ہیں کہ اسے معاف کردو کہ یہ روزہ سے ہے ۔

*تقوا دل کی صفت ہے اور جس دل میں یہ صفت پیدا ہوجاتی ہے اس کی پوری زندگی بندگی کے رنگ میں رنگ جاتی ہے*

اور یہ محض  گھڑی دوگھڑی کے لئے نہیں ہے بلکہ ایک مستقل صفت ہے اس لئے مرتے دم تک اس پر قائم رہنا ہے ، لہذا روزہ محض ایک مہینے کا نہیں ہے بلکہ پورے سال کاہے اور نہایت خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے لئے ایک مہینے کا روزہ پورے سال کے روزہ کا ذریعہ بن جائے اور وہ پوری زندگی حرام کردہ چیزوں سے دور اور اللہ کے حکموں کے فرمانبردار رہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

 یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴿۱۰۲﴾

*اے ایمان والو ! اﷲ سے ڈرو ، جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ، اورمرتے دم تک اسلام پر قائم رہو۔*

 

6-قرآن کا مہینہ :

 

سسکتی اور دم توڑتی ہوئی انسانیت کے لئے قرآن زندگی کا پیام  ،خوارگی ،درماندگی اور ذلت و پستی سے نکلنے کا ذریعہ، رنج و الم اور مصائب و مشکلات سے نجات کا سبب ،ہر مرض کے لئے نسخۂ شفاء اور دنیا وآخرت کی کامیابی کے لئے شاہ کلید ہے ۔

جس نے اسے پڑھا اور اس کے مطابق زندگی گزری وہ دنیا میں بھی سربلند ہوا اور آخرت کی جیت بھی یقینی ہے، اور جس نے اس سے اعراض کیا وہ ہر جگہ ناکام و نامراد ہوا۔

رہنمائی اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی کتاب رمضان کے مہینے میں نازل ہوئی ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَ الْفُرْقَانِ۔

رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے سراپا ہدایت، اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق و باطل کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردیتی ہیں، 

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے رمضان کی پہلی رات میں، تورات چھ رمضان ، انجیل تیرہ رمضان ، زبور اٹھارہ رمضان کو اور قرآن چوبیس رمضان گزرنے کے بعد نازل ہوا ۔ ( سلسلہ الصحیحہ /1575)

قرآن زندگی بھر پڑھنے ، سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ہے مگر چونکہ رمضان کا مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے اس لئے اس ماہ میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ، اس لئے اس میں تلاوت کا خصوصی اہتمام اور التزام ہونا چاہیے ،اور کم سے کم ایک ختم ضرور کرلینا چاہئے اور اس کے ساتھ معنی اور مفہوم کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تبور، لِیُوَفِّیَہُمْ اُجُوْرَہُمْ وَ یَزِیْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ ؕ اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ 

جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اور جنہوں نے نماز کی پابندی کر رکھی ہے، اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے وہ (نیک کاموں میں) خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی نقصان نہیں اٹھائے گی۔تاکہ اللہ ان کے پورے اجر ان کو دیدے، اور اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا، بڑا قدر دان ہے۔

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

دو لوگ قابل رشک ہیں ، ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن سے نوازا ہواور وہ دن‌اور رات میں نماز کے اندر اس کی تلاوت کرتا ہو۔ اور دوسرا وہ جسے اللہ نے دولت عطاء کی ہو اور وہ اسے رات و دن خرچ کرتا ہو ۔( بخاری و مسلم )

سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھاۓ ۔(بخاری)

میں تمہیں تقوا کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ ہر عمل کی بنیاد ہے ۔ اور اپنے لئے جہاد کو لازم بنالو اس لئے کہ وہ اسلام میں رہبانیت کا بدل ہے ۔ اور ذکر و تلاوت کو اپنے لئے ضروری سمجھ لو کیونکہ یہ آسمان میں تمہارے لئے باعث رحمت و راحت اور زمین میں ذکر خیر کا ذریعہ ہے ۔(صحیح الجامع الصغیر 6289)

جس نے قرآن کا ایک حرف پڑھا تو اسے ایک نیکی ملے گی اور ہر نیکی دس گنا تک بڑھائی جائے گی، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے ۔( ترمذی)

جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا محبوب بن جائے تو اسے قرآن مجید دیکھنا چاہئے ۔ (صحیح الجامع الصغیر 6289)

قرآن پڑھو ، کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی بن کے آئے گا (مسلم)

روزہ اور قرآن دونوں قیامت کے دن سفارش کریں گے ، روزہ کہے گا : میرے رب ! میں نے دن میں اسے کھانے پینے اور خواہش نفس سے روکے رکھا اس لئے میری شفاعت قبول کی جائے ۔اور قرآن کہے گا : میرے رب ! میں نے اسے رات میں سونے سے باز رکھا ،اس لئے میری شفاعت قبول کی جائے۔ اور اللہ کی بارگاہ میں دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی۔ (الترغیب والترہیب للمنذری)

قرآن کا ماہر معزز اور پاکباز فرشتوں کے ساتھ ہوگا ، اور جو شخص اٹک اٹک کر قرآن پڑھتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہے (بخاری و مسلم )

قرآن پڑھنے والے سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھو اور اوپر چڑھو ،اور اسی طرح سے ٹھہر ٹھہر کے پڑھو جیسے کہ دنیا میں پڑھا کرتے تھے ، کیونکہ تمہاری منزل اس آخری آیت کے پاس ہے جسے تم پڑھوگے ۔(ابوداؤد، ترمذی ) 

جب کچھ لوگ اللہ کے گھر میں جمع ہوکر قرآن کی تلاوت کرتے ، اسے باہم دہراتے اور سمجھتے ہیں ( ١)

تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے ، رحمت انھیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انھیں گھیر لیتے  ہیں اور اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے ان کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ (مسلم )

رمضان کے مہینے میں قرآن پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی خاص اہمیت ہے کہ اسی مہینے میں قرآن نازل ہوا اور اسی مہینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبریل امین کے ساتھ قرآن دہرایا کرتے تھے (بخاری)

اور قرآن وہ کتاب ہے جس میں دنیا و آخرت کی خوش بختی کا پیغام ہے جس نے اسے جانا اور اس پر عمل کیا وہ نہ تو دنیا میں بھٹکے گا اور نہ آخرت میں ناکام ہوگا ،اور جس نے اس سے منہ موڑا وہ دنیا میں گھٹ گھٹ کر جئے گا اور آخرت میں اندھا اُٹھایا جائے گا ۔

فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰی ۔وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی ۔

جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ نہ گمراہ ہوگا، اور نہ کسی مشکل میں گرفتار ہوگا۔اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔

(١)

( يتدارسونه ) قيل شامل لجميع ما يتعلق بالقرآن من التعلم والتعليم والتفسير والاستكشاف عن دقائق معانيه ( حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ)

 

7- بے شمار اجر و ثواب

 

عام طور پر عبادتوں اور نیکی اور بھلائی کے کاموں کا ایک متعین اجر وثواب ہے جسے فرشتے نامہ اعمال میں لکھتے ہیں، لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا ثواب بے شمار اور بے حساب ہے جس سے اللہ کے سوا کوئی واقف نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ 

یقینا صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر عطا کیا جائے گا۔

روزہ صبر کی ایک اہم شکل ہے جس میں انسان محض اللہ کے حکم کی وجہ سے کھانے پینے جیسی ناگزیر ضرورت سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے، اور اسی وجہ سے رمضان کو صبر کا مہینہ کہاگیا ہے اور بعض مفسرین نے صبر کی تفسیر روزے سے کی ہے ۔ 

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ کے علاوہ انسان کے دوسرے اعمال اسی کے لئے ہوتے ہیں ، البتہ روزہ میرے لئے ہوتا ہے ،اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا ، روزہ ڈھال ہے ، اس لئے روزہ دار زبان سے بری بات نہ نکالے اور نہ شور ہنگامہ کرے ، اگر کوئی اسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو وہ اس سے کہہ دے میں روزہ سے ہوں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے ، روزہ دار کے لئے دو خوشی ہے ، ایک افطار کے وقت اور دوسری اللہ سے ملاقات کے وقت (روزہ کے بے پناہ اجر و ثواب کو دیکھ کر خوش ہوگا ) بخاری و مسلم ۔

انسان کے ہر عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک ملتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ کا حکم اس سے الگ  ہے ، اس لئے کہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا۔ روزہ دار میرے لئے اپنی خواہش اور کھانے پینے کو چھوڑ دیتا ہے (مسلم)

مغفرت کا پروانہ

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس نے ایمان کی حالت میں اور ثواب کے لئے رمضان کا روزہ رکھا تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں (بخاری و مسلم)

 

 

8-قبولیت کی گھڑی : 

 

انسان سراپا محتاج ، نیاز مند اور ہر لمحہ اللہ کی مدد اور دستگیری کا ضرورت مند ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کی نگاہ ہر گھڑی اللہ کی طرف لگی رہے، دل ہمہ وقت اس کی طرف متوجہ اور زبان ہمیشہ اس سے دعا میں مشغول رہے ۔

اللہ تعالی کے سامنے اپنی محتاجی ، نیاز مندی ،عاجزی اور بے بسی کے اظہار کا نام دعا ہے اور یہی عبادت کی حقیقت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا ہی عبادت ہے اور پھر آپ نے دلیل کے طور پر یہ آیت تلاوت فرمائی :

وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ ۔

تمہارے پروردگار کا فرمان ہے : مجھ سے دُعا مانگو میں تمہاری دُعا قبول کروں گا ، بے شک جو لوگ تکبر کی بناپر میری عبادت کرنے سے کتراتے ہیں ، وہ عنقریب ذلیل ہوکر دوزخ میں داخل ہوں گے ، 

روزہ اور دعا میں ایک خاص مناسبت ہے ، روزہ کے احکام  کے درمیان میں دعا کا تذکرہ اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان اور دعا میں خصوصی ربط ہے ، چنانچہ سورہ البقرۃ کی آیت 180 سے 187تک رمضان سے متعلق مسائل کا بیان ہے اور 185 میں دعا کا ذکر ہے ، ارشاد ربانی ہے:

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ؕ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ ۔

اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دیجئے ) کہ میں قریب ہی ہوں ، جب کوئی مجھ سے دُعاء کرتا ہے تو دُعاء کرنے والوں کی دُعاء قبول کرتا ہوں ، تو لوگوں کو بھی چاہئے کہ میرے احکام کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں ؛ تاکہ وہ ہدایت سے سرفراز ہوں۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تین آدمیوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتی ہیں، روزہ دار کی یہاں تک کہ وہ روزہ کھول لے ، انصاف کرنے والے حکمراں کی ، اور مظلوم کی ، جس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میری عزت کی قسم ! میں ضرور تیری مدد کرونگا گرچہ کچھ دیر بعد سہی ۔(ترمذی)

دعا کے آداب : 

‌باوضو اور قبلہ رو ہونا ۔ دعا سے پہلے حمد وثناء اور درود وسلام پڑھنا ۔ اللہ تعالیٰ کے نام و صفات اور اپنے اچھے کام کے واسطے سے دعا مانگنا۔ جائز کام کے لئے دعا کرنا ، گناہ اورقطع تعلق کی دعا نہ کرنا ۔چپکے چپکے اور عاجزی و انکساری اور گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرنا ۔ گنہ گار اور قصور وار ہونے کا اعتراف کرنا ۔ اللّٰہ سے اچھا گمان اور دعا کی قبولیت کا یقین رکھنا اور دل لگا کر دعا کرنا ۔ حرام غذا اور لباس سے بچنا کیونکہ یہ دعا کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔

آداب دعا کی رعایت کرتے ہوئے بندہ اپنے رب سے جو کچھ مانگتاہے اسے وہ دیا جاتا ہے ، اور اگر اللہ کے علم کے مطابق اس کے لئے وہ چیز مفید نہیں ہے تو اس کے بدلے دوسری چیز دی جاتی ہے یا اس کے اوپر آنے والی کوئی مصیبت ٹال دی جاتی ہے یا اس کا بدلہ آخرت میں دیا جاتا ہے ۔

یاد رکھئے اللہ تعالیٰ دعا سے خوش ہوتے ہیں کہ دعا کرنا ہی بندگی اور عبادت ہے اور دعا نہ کرنے سے ناراض ہوتے ہیں کیونکہ یہ بندگی سے سرتابی اور اعراض ہے اور دعا کی توفیق رحمت کے در کے دروازے کے کھلنے کی علامت ہے اور نیکی کے بعد نیکی کی توفیق نیکی کا فوری اجر ہے اور برائی کے بعد برائی کرنا برائی کی فوری سزا ہے ۔

 

9-*سخاوت کا موسم*

 

رب کائنات کا ارشاد ہے:

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔

جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے (اور) ہر بال میں سو دانے ہوں ۔ اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے ( ثواب میں) کئی گنا اضافہ کردیتا ہے، اللہ بہت وسعت والا (اور) بڑے علم والا ہے۔

مذکورہ آیت کی تفسیر میں مولانا محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:

اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سوگنا ثواب ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کا ثواب چاہیں اور بڑھا سکتے ہیں، واضح رہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کا قرآن کریم نے بار بار ذکر کیا ہے اور اس سے مراد ہر وہ خرچ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا جائے اس میں زکوٰۃ صدقات اور خیرات سب داخل ہیں۔

اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

* ہر روز صبح کے وقت دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ، ان میں سے ایک دعا کرتا ہے : اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عنایت کر ۔ اور دوسرا کہتاہے : اے اللہ !  خرچ نہ کرنے والے کا مال ضائع کردے ۔(بخاری و مسلم )

*اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اے آدم کے بیٹے ! خرچ کر ، تجھے اور دیا جائے گا ۔( بخاری و مسلم )

*لوگو! آگ سے بچو ، گرچہ چھوہارے کا ایک ٹکڑا خرچ کر کے٠( بخاری و مسلم)

اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت اور اہمیت متعدد آیتوں اور حدیثوں میں بیان کی گئی ہے جن میں سے بعض ذکر کی گئیں ، اور رمضان میں اس کی اہمیت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے کہ یہ عطاء اور بخشش کا مہینہ اور سخاوت و فیاضی کا موسم ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں کو نازل کر کے سخاوت احسان فرمایا نیز اس ماہ میں رحمت و مغفرت اور جہنم سے آزادی دیکر فیاضی اور احسان فرمایا رہتے ہیں ۔

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ بااخلاق ، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے (بخاری و مسلم) آپ کی سخاوت اور فیاضی پورے سال جاری رہتی تھی مگر رمضان کے مہینے میں اس میں اور اضافہ ہوجاتا تھا ، حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں : 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت میں اضافہ ہوجاتا تھا جب کہ جبریل امین آپ سے ملاقات کے لئے آتے اور آپ ان کے ساتھ قرآن دہراتے ، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیر اور بھلائی کے کاموں کے لئے تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ فیاض ہوتے  .(بخاری و مسلم )

رمضان کے مہینے میں خرچ کرنے کی فضیلت کا ایک سبب یہ بھی ہے اس سے روزہ داروں اور شب بیداری کرنے والوں کی مدد ہوگی جس کی وجہ سے ان کے روزے اور شب بیداری کا ثواب خرچ کرنے والے کو بھی ملیگا ۔

اور سخاوت و فیاضی کا دائرہ محض مال خرچ کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ لوگوں کے لئے اپنا وقت صرف کرنا اور اپنے آرام کو تج دینا بھی سخاوت ہے ، دینی باتوں کو سکھانا بھی سخاوت ہے ، یہاں تک کہ لوگوں سے مسکراہٹ کے ساتھ ملنا بھی سخاوت ہے ۔

 

10-*ناقابل تلافی نقصان* 

 

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی کسی عذر اور مرض کے بغیر رمضان میں ایک دن کا روزہ بھی چھوڑ دے تو زندگی بھر روزہ رکھنے سے بھی اس کی تلافی نہیں ہوسکتی ۔( ابوداؤد ، ترمذی . حدیث ضعیف ہے)        یعنی رمضان کے مہینے کی جو خیر و برکت ہے وہ کبھی بلاوجہ روزہ ترک کرنے والے کو  حاصل نہیں ہوگا گرچہ اس کے بدلے میں ایک روزہ رکھ لینے کی وجہ سے فریضہ ساقط ہوجائے گا ۔

11-* شدید وعید *

حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خواب میں میرے پاس دو فرشتے آۓ اور انھوں نے میرے بازؤں کو پکڑ کر مجھے اٹھایا اور ایک دشوار چڑھائی والے پہاڑ کے پاس لے جاکر مجھ سے اس پر چڑھنے کی درخواست کی ، میں نے کہا : اس پر چڑھنا میرے بس کی بات نہیں ، انھوں نے کہا: آپ کوشش کیجئے ہم مدد کریں گے ، چنانچہ میں چڑھتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر پہونچ گیا ۔ میں نے وہاں چیخنے چلانے کی آواز سنی ، میں نے پوچھا: یہ کیسی آواز ہے ؟ انھوں نے کہا: یہ جہنمیوں کی چیخ و پکار ہے ۔ پھر میں آگے چلا تو دیکھا کہ کچھ لوگ الٹے لٹکے ہوئے ہیں ، ان کی بانچھیں چیر دی گئی ہیں اور اس سے خون بہہ رہا ہے ، میں نے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں؟ جواب ملا یہ وہ لوگ ہیں جو وقت سے پہلے روزہ کھول لیتے ہیں ۔ (صحیح الترغیب والترہیب : 1005)

12* برکت کا سبب* 

روزہ رکھنے کے لئے سحری کھانے کا اہتمام کرنا چاہیے ، اور اس میں کوتاہی نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ سحری کھانا دنیا و آخرت میں خیر کا ذریعہ ہے ، اس سے روزہ رکھنے میں قوت اور مدد حاصل ہوگی ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

* سحری کھاؤ کیونکہ اس میں برکت ہے (بخاری و مسلم)

* اللہ تعالیٰ سحری کھانے والوں پر رحمت نازل کرتے اور فرشتے اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں ۔(الترغیب والترہیب للمنذری: 1066)

*ہمارے اور یہود و نصارٰی کے روزے میں فرق سحری کے ذریعے ہے (مسلم ) 

سحری کے لئے بیدار ہونے کی وجہ سے رات کے آخری حصے میں نماز ، دعا اور تلاوت وغیرہ کا موقع مل جاتا ہے اور رات کے اس پہر میں اللہ کی رحمت و برکت نازل ہوتی ہے، اور دعا قبول ہوتی ہے۔

سحری کھانے میں تاخیر کرنا چاہیے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عمل تھا ، اور اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ جماعت کے ساتھ فجر کی نماز مل جائے گی ، کیونکہ جلدی سحری کرلینے کی وجہ سے نیند آنے لگتی ہے اور نماز فوت ہونے کا اندیشہ ہوتاہے ۔

سحری میں کھجور کا استعمال سنت ہے ۔( الترغیب والترہیب للمنذری 1072)

سحری کے برعکس افطار کرنے میں جلدی کرنا سنت ہے اور سورج غروب ہونے کے بعد فوراً افطار کر لینا چاہیے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں اس وقت تک خیر باقی رہےگا جب تک وہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے .(بخاری و مسلم)

افطار میں کھجور کا استعمال سنت اور برکت کا ذریعہ ہے ۔ (ترمذی )

 

13*فتح و نصرت کا مہینہ*

 

زندگی کے میدان میں نفس اور شیطان سے مستقل جنگ جاری رہتی ہے ، اور اس مسلسل آویزش سے نبرد آزما ہونے کے لئے نماز اور روزہ سب سے کارگر اسلحہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔

صبر کی ایک اہم صورت روزہ ہے ، اس لئے بعض لوگوں نے مذکورہ آیت میں صبر کی تفسیر روزے سے کی ہے اور اس اعتبار سے آیت کا یہ مفہوم ہوگا کہ اے ایمان والو! نماز اور روزے سے مدد حاصل کرو۔

اور یہ حقیقت ہے کہ روزہ صبر وتحمل کے حصول ، نفس پر قابو پانے اور محنت و مشقت کا عادی بنانےکا ایک اہم ذریعہ ہے ، اس سے رنج و الم اور مصائب و مشکلات کو سہنے کی قوت حاصل ہوتی ہے  اور عجلت پسندی اور جلد بازی سے حفاظت ہوتی ہے  ، اور جس شخص میں یہ صفات پیدا ہوجائیں تو وہ معرکۂ حق و باطل میں چٹان کی طرح ثابت قدم رہتاہے اور کامیابی اس کا قدم چومتی ہے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے متعدد جنگیں اسی خیر و برکت کے مہینے کے سایہ میں لڑیں اور کامیابی سے ہم کنار ہوئے اور مشہور اسلامی فتوحات کی تاریخ اسی مہینے میں رقم کی گئی ۔

* غزوۂ بدر ۔

ہجرت کے دوسرے سال روزہ فرض ہوا ، اور اسی سال سترہ رمضان کو جمعہ کے دن کفر و اسلام کی پہلی جنگ لڑی گئی جس میں اسلام کا جھنڈا سربلندہوا  اور کفر کی کمر ٹوٹ گئی ، تعداد اور ہتھیار کی کمی کے باوجود مسلمان فتحیاب ہوئے اور ہتھیار سے لیس اور تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود کافر شکست سے دوچار ہوئے ، قرآن میں اس جنگ کو یوم الفرقان کہا گیا ہے یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی جنگ ۔

*فتح مکہ۔

ہجرت کے آٹھویں سال بیس رمضان کو دس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے، ایک وقت تھا کہ مکہ کی زمین آپ اور آپ کے ساتھیوں کے لئے تنگ کردی گئی تھی اور آپ اپنے پیارے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے اور آج اسی مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہورہے ہیں لیکن کوئی کوئی اتراہٹ اور گھمنڈ نہیں بلکہ اللہ کے عظیم احسان کے سامنے آپ کا سر جھکا ہوا ہے ، اور اپنے ان جانی دشمنوں کو بھی معاف کردیا جنھوں نے آپ کو بے گھر کیا تھا اور آپ اور آپ کے ساتھیوں کو ہر طرح سے ستایا تھا ۔

*فتح قادسیہ ۔

ہجرت کے پندرہویں سال رمضان میں قادسیہ کی جنگ ہوئی اور مسلمان فتحیاب ہوئے ، کسرا کے ایوانوں پر اسلامی پرچم لہرایا ، اور اس زمانے کی سپر پاور پرسین امپائر نیست ونابود ہوگئی اور اور آتش پرستوں کے گڑھ سے ہمیشہ کے لئے آتش پرستی ختم ہوگئی۔

*فتح بیت مقدس۔

حضرت عمر فاروق رض 13رمضان کو فلسطین پہنچے اور بیت مقدس کی کنجی حاصل کی ۔ اس طرح سے ایک طویل عرصے کے بعد انبیاء کی سرزمین فلسطین اور ان کی عبادت گاہ ان کے حقیقی پیروکاروں اور وارثوں کے قبضے میں آگئی ۔

*فتح اندلس۔

رمضان 92ھ میں طارق بن زیاد کی قیادت میں مسلمان اندلس کی ساحل پر اترے اور کشتیاں جلا کر پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے اور آگے بڑھنے کی ایک نئی تاریخ بنائی ۔

*فتح سندھ۔

رمضان 95ھ میں نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم کے ہاتھوں سندھ پر اسلام کا پرچم لہرایا گیا۔

* فتح عموریہ ۔

6رمضان 223ھ میں معتصم باللہ کی قیادت میں رومیوں سے جنگ ہوئی اور مسلمان فتحیاب ہوئے ، جنگ کا پس منظر یہ تھا کہ رومیوں نے ایک مسلمان عورت کو قید کرکے اسے ایک طمانچہ مارا تھا ، اور اس نے معتصم کی غیرت کو آواز دی ، جس کی اطلاع اسے ملی اور اس نے فوراً کوچ کا نقارہ بجانے کا حکم دیااور اس عورت کی مدد کو پہنچ گیا اور اس طرح سے عیسائیت کا ایک اہم مرکز عموریہ فتح ہوا ۔

* معرکۂ حطین ۔

26رمضان 584ھ میں صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں حطین کی جنگ لڑی گئی اور صلیبیوں کو شکست فاش ہوئی اور ان کا سپہ سالار گرفتار ہوا ۔

* معرکہ عین جالوت ۔

24رمضان 685ھ میں عین جالوت کے قریب وحشی تاتاریوں کو پہلی مرتبہ شکست نصیب ہوئی، جنھوں نے عالم اسلام کے ایک بڑے حصے کو تباہ و برباد کردیا تھا اور جو ناقابل شکست تصور کئے جاتے تھے۔

 

14-*حج کا بدل *

 

رمضان کی برکت سے نیک عمل کی تاثیری صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے ، کیونکہ رمضان نیکیوں کے لئے موسم بہار ہے جس میں نیکیاں پھلتی اور پھولتی ہیں ، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے. (بخاری و مسلم)

اللہ کے گھر کا دیدار اور اس کے چاروں طرف چکر لگانا (طواف کرنا) ایک اہم عبادت اور باعث شرف و فضیلت ہے ، یہ رتبہ بلند جسے ملا مل گیا ۔ اور یہ عمل گناہوں کے لئے کفارہ ہے (بخاری و مسلم) اور دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے ، حدیث میں ہے کہ عمرہ کرنے والے کی ہر دعا قبول ہوتی ہے. (ابن ماجہ)

بڑا‌ خوش قسمت ہے وہ شخص جسے رمضان کے مہینے میں کعبہ کے دیدار ، طواف اور مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا زریں موقع مل جائے۔

 

15-* غریب نوازی * 

 

قرآن حکیم میں عام طور پر نماز اور زکاۃ کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز ، اللہ سے تعلق اور اخلاص کا روشن عنوان ہے اور زکاۃ اللہ کے بندوں کے ساتھ ربط اور حسن سلوک کا سامان ۔ اور انسان کی نیک بختی اور کامرانی یہ ہے کہ وہ اپنے خالق اور معبود کے ساتھ مخلص رہے اور اس کی مخلوق کو نفع پہنچانے کی کوشش کرے ، اور بدبختی کی نشانی یہ ہے کہ نہ وہ اپنے معبود کے ساتھ مخلص ہو اور نہ مخلوق کے لئے فائدہ مند ۔

زکات و صدقات کی ادائیگی مال میں اضافہ اور برکت کا ذریعہ ہے (سورہ الروم :29)اور آخرت میں غم و اندوہ سے بے خوفی اور اطمینان کا سبب۔ (سورہ البقرۃ:277)

اس کے ذریعے انسان میں اچھی خصلتیں پیدا ہوتی ہیں اور  بداخلاقی اور کنجوسی کی صفت ختم ہوتی ہے ، اس سے باطن بنتا اور سنورتا ہے اور ایمان مضبوط ہوتاہے ، اس کی وجہ سے بری موت سے حفاظت ہوتی ہے اور عمر بڑھتی ہے اور بلاؤں اور مصیبتوں سے زندگی محفوظ رہتی ہے ۔

اور زکاۃ ادا نہ کرنے والوں کو دردناک اور عبرت ناک سزا دی جائے گی، چنانچہ قرآن مجید میں ہے۔

* یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَ جُنُوْبُہُمْ وَ ظُہُوْرُہُمْ ؕ ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ ۔

جس دن اس دولت کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹیں اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور کہا جائے گا کہ) یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، اب چکھو اس خزانے کا مزہ جو تم جوڑ جوڑ کر رکھا کرتے تھے۔ (سورہ التوبہ : 35)

* وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیْرًا لَّہُمْ ؕ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ وَ لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۔

اور جو لوگ اس (مال) میں بخل سے کام لیتے ہیں جو انہیں اللہ نے اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے، اس کے برعکس یہ ان کے حق میں بہت بری بات ہے، جس مال میں انہوں نے بخل سے کام لیا ہوگا، قیامت کے دن وہ ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔  اور سارے آسمان اور زمین کی میراث صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔(سورہ آل عمران: 180) 

اور حدیث میں ہے :

* آخرت میں مال وزر کو ایک گنجے سانپ کی شکل میں پیش کیا جائے گا اور وہ گلے کا طوق بن کر اسے ڈستا رہے گا اور وہ اس کی باچھیں چیرتا ہوا کہے گا کہ میں تیرامال ہوں ، تیرا خزانہ ہوں جسے تونے جمع کر رکھا تھا (بخاری، نسائی)

* جس مال کی زکاۃ ادا نہ کی جائے وہ مال ضائع ہوجاتا ہے۔ (مشکاۃ) 

زکاۃ کی ایک قسم صدقۃ الفطر ہے جس کے بارے میں حدیث میں کہا گیا ہے کہ :

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ فطر کو اس لئے فرض قرار دیا ہے تاکہ روزہ دار کا روزہ بیہودہ ، لغواور فضول کاموں سے پاک ہوجائے اور مسکینوں کے کھانے کا بندوبست ہوجائے ، تو جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کردیا تواس کی زکاۃ قبول کرلی گئی اور جس نے اسے نماز کے بعد اد کیا تواسے صدقہ و خیرات کا ثواب ملیگا ۔( ابوداؤد، ابن ماجہ)

غرضیکہ فطرہ کی ادائیگی کا مقصد یہ ہے کہ روزہ میں جو کوتاہی رہ گئی ہے اس کی تلافی ہوسکے اور اس کے ذریعے نادار اور غریب بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکے اور اسی کے پیش نظر نماز عید سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، بلکہ عید سے کچھ پہلے ادا کر دینا بہتر ہے  تاکہ آسانی سے غریب کی ضرورت پوری ہوسکے ۔

 

(14)

* آخری موقع *

ولی اللہ مجید قاسمی۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک رمضان کی آخری دس راتیں افضل اور محبوب ترین راتیں ہیں ، اور آخر کے دس دن جہنم سے نجات اور چھٹکارا پانے کے دن ہیں گویا کہ یہ آخری موقع ہے جس میں گذشتہ بیس دنوں کے نقصان اور کوتاہی کی تلافی کی جاسکتی ہے،ہیں کیونکہ معلوم نہیں کہ دوبارہ یہ مبارک دن اور بابرکت راتیں دیکھنے کو ملیں یا نہ ملیں ، اس لئے ان دنوں میں عبادت کے لئے بالکل یکسو ہوجانا چاہیے کہ یہ دن اعتکاف میں گزارنے کے دن ہیں اور یہ راتیں شب قدر کی تلاش میں رہنے کی راتیں 

ہیں ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رض کہتی ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جس قدر عبادت میں خود کو تھکاتے دوسرے مہینوں میں اتنا نہیں کرتے اور آخری دس دنوں میں جتنی محنت کرتے رمضان ککے۔ دوسرے دنوں میں اتنی نہ کرتے ( مسلم) نیز وہ بیان کرتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری دس دن آجاتا تو عبادت کے لئے کمرکس لیتے ، پوری رات عبادت میں بسر کرتے اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کے لئے جگا دیتے ( بخاری و مسلم).

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بیان کیا جاچکا ہے کہ دوسرے دنوں کی بہ نسبت آخری دس دنوں میں زیادہ۔ عبادت کرتے تھے لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ابتدائی دنوں میں کچھ جوش وخروش پایا جاتا ہے، مسجدیں آباد نظر آتی ہیں، لوگ ذکر و تلاوت وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں، لیکن آخری دنوں میں جوش ٹھنڈا پڑجاتاہے ، مسجدوں کی رونق ماند پڑنے لگتی ہے اور بازاروں کی رونق میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔

(15)

* اللہ کے گھر میں*

بعض مذاھب کے پیروکار عبادت اور نجات کے لئے تمام رشتے اور تعلقات ٹوڑ کر کسی غار یا جنگل میں پناہ لے لیتے ہیں اور ہر ایک سے کٹ کر عبادت وریاضت کے لئے یکسو ہوجاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر فطری طریقہ ہے اس لئے اسلام میں اس سے منع کیا گیا ہے اور اس کے بدلے میں کچھ دنوں کے لئے مسجد میں اعتکاف کو بہتر قرار دیا گیا ہے خصوصاً رمضان کے آخری دس دنوں کے اعتکاف کو سنت کہاگیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رمضان میں اعتکاف کرتے رہے۔ (بخاری)

اعتکاف کرنے والا سوتے جاگتے ہر حال میں عبادت میں رہتاہے اور مسجد سے باہر رہ کر وہ خیر کا جوکام کرسکتا تھا اسے اس کا ثواب بھی ملتا رہتاہے اور اعتکاف کا سب سے اہم فائدہ شب قدر کا حصول ہے کہ وہ بہر کیف شب قدر میں عبادت کا ثواب حاصل کرلیگا کیونکہ اس کا پورا وقت عبادت میں شمار ہوتا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کی تلاش کے لئے میں نے پہلے دس دنوں کا اعتکاف کیا ، 

 

(16)

 

  شب قدر  *

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ۔ وَ مَاۤ اَدْرٰىکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ﴿۲﴾ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ۬ۙ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ ۔ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ ۚ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ ۔ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ۔

بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہےاور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا چیز ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں۔

وہ رات سراپا سلامتی ہے فجر کے طلوع ہونے تک۔(سورہ القدر )

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

* جوشخص شب قدر میں ایمان کی حالت میں اور ثواب سمجھتے ہوئے قیام کرے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے .(بخاری و مسلم)

* تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آگیاہے ، یہ برکت کا مہینہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کا روزہ فرض کیا ہے ، اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور سرکش جناتوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات کی بھلائی سے محروم رہنے والا شخص حقیقی بد قسمت ہے ۔(الترغیب والترہیب للمنذری:1435)

* جو شخص اس رات سے محروم رہا وہ ہر خیر سے محروم رہا اور بدبخت ہی اس رات کی بھلائیوں سے محروم رہ سکتا ہے. ( الترغیب والترہیب للمنذری: 1437)

شب قدر ایک انمول تحفہ، گرانقدر انعام ، اور خیر و برکت کا سرچشمہ ہے، اس کے ثواب اور فضیلت کو جان لینے کے بعد اس کی ناقدری وہی شخص کرسکتا ہے جس کا دل بالکل سرد اور ایمانی حرارت سے خالی ہو ۔

البتہ اس رات کے احترام کا مفہوم یہ ہرگز نہیں ہے کہ کسی بھی طرح سے پوری رات جاگ کر گزار دی جائے، اور اگر نیند آنے لگے تو تاش کے پتے یا موبائل سے دل بہلایا جائے یا گپ شپ کیا جائے ، ایسے لوگوں کو جاگنے اور نیند خراب کرنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے بلکہ یہ شب قدر کی ناقدری میں شمار ہوگا جس کی وجہ سے بدبختی کا سیاہ دفتر اور زیادہ سیاہ ہوجائے گا۔

شب قدر کی تلاش:

شب قدر ایک بیش بہا نعمت ہے لیکن اسے دفینے کی شکل میں چھپا دیا گیا ہے تاکہ ذوق وشوق اور محنت و مشقت کے ساتھ اسے تلاش کیا جائے کیونکہ بے محنت اور مفت ہاتھ آئی ہوئی چیز کی قدر نہیں کی جاتی ہے ۔

اس لئے کسی آیت و روایت میں شب قدر کی تعیین نہیں کی گئی ہے،البتہ رمضان آخری دس دنوں میں اور ان کی طاق راتوں میں شب قدر کا زیادہ امکان ہے اور طلاق راتوں میں سے ستائیسویں رات کو شب قدر ہونے کی زیادہ امید رہتی ہے ۔

شب قدر کی علامت:

یقینی طور پر کسی رات میں شب قدر ہونے کا علم نہیں ہوسکتا ہے ، تاہم احادیث میں مذکور بعض نشانیوں کے ذریعے شب قدر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔چنانچہ بعض روایتوں میں ہے کہ:

1_وہ رات صاف و شفاف اور پر نور ہوتی ہے، اور موسم معتدل ہوتا ہے ، نہ بہت زیادہ گرم اور نہ بہت زیادہ سرد۔

2_چونکہ وہ رات نورانی اور پرکیف ہوتی ہے اور ہر جگہ کثرت سے فرشتے موجود ہوتے ہیں اس لئے عبادت میں لذت محسوس ہوتی ہےاور دل بالکل پرسکون اور نہایت مطمئن ہوتا ہے۔

3_چاند کی روشنی پھیلی اور نکھری ہوتی ہے اور اس رات میں آسمان سے کوئی ستارہ نہیں ٹوٹتا ہے ۔

4_اس رات کی صبح کے سورج میں شعائیں نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ چودہویں کے چاند کی طرح سے بالکل ہموار ہوتا ہے ۔

لڑائی، کینہ اور قطع تعلقی کی نحوست:

حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کی تعیین کے بارے میں بتانے کے لئے حجرہ سے باہر تشریف لائے دیکھا کہ دولوگ لڑ رہے ہیں ، آپ نے فرمایا میں اس لئے آیاتھا تاکہ شب قدر کے بارے میں تمہیں باخبر کروں لیکن فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے میرے ذہن سے اس کی تعیین نکال دی گئی، ہوسکتا ہے کہ یہی تمہارے لئے بہتر ہو (بخاری)

اس حدیث کی شرح میں ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ لڑائی بہت بری چیز ہے اور اس کی وجہ سے انسان معنوی اور روحانی سزا سے دوچار ہوتا ہے اور بہت سے خیر سے محروم ہو جاتا ہے۔ (فتح الباری)

اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں چار لوگوں کے سوا سب کی مغفرت فرمادیتے ہیں ، اور وہ چار لوگ یہ ہیں ، شراب کا عادی، والدین کا نافرمان،  قطع رحمی کرنے والا اور کینہ پرور (الترغیب والترہیب للمنذری:1439)

لہذا شب قدر کی عبادت و ریاضت کے ساتھ ہمیں اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ والدین کے ساتھ ہمارہ رویہ کیسا ہے ؟ رشتے داری کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں یا نہیں ؟ اور کسی کے تعلق سے ہمارے دل میں کینہ کپٹ تو نہیں ہے ؟اور کسی کے ساتھ ہماری لڑائی اور دشمنی تونہیں ہے ؟ اور اگر اس معاملے میں ہم سے کوتاہی ہوئی ہے تو پہلے اس کی تلافی کی کوشش کریں ورنہ تو ہم شب قدر کی رحمتوں اور برکتوں سے محروم رہ جائیں گے۔

شب قدر کی دعا: 

حضرت عائشہ صدیقہ رض نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو اس رات میں کیا دعا مانگوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ دعا کرو:

اللهم انك عفو تحب العفو فاعف عني .

اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے ، پس مجھ کو معاف فرما۔ (ترمذی)

شب قدر اور نماز:

شب قدر میں ذکر ، تلاوت، دعا اورتوبہ و استغفار میں سے ہر ایک پسندیدہ ہے البتہ نفل نماز کی زیادہ اہمیت ہے کیونکہ نماز میں ذکر و تلاوت بھی ہے اور دعا اور توبہ وانابت بھی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو کوئی شب قدر میں ایمان کی حالت میں اور ثواب سمجھتے ہوئے قیام کرے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے ۔(بخاری و مسلم)

پھر درمیان کے دس دنوں کا اعتکاف کیا ، اس کے بعد مجھے بتایا گیا کہ شب قدر آخر کے دس دنوں میں ہے اس لئے تم میں سے جو اعتکاف کرنا چاہے تو وہ آخر کے دس دنوں کا اعتکاف کرے. (مسلم)

اعتکاف کرنے والا عبادت ، ذکر و تلاوت اور نماز و تسبیحات کے لئے یکسو ہوجاتا ہے ، اور دنیا کے جھمیلوں سے نکل کر اللہ کے در پر حاضر ہوجاتا ہے، اور ایک ایسی جگہ خیمہ زن ہوجاتا ہے جو روئے زمین کی سب سے بہتر جگہ ہے ، جہاں ہر وقت رحمت ،برکت اور روحانیت و نورانیت کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ 

 

(17)

* سجدہ شکر * 

 

دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں افضل ترین مخلوق اور پسندیدہ ترین انسان ہونے کا شرف حاصل تھا ،سمندر اپنے سینے کو چاک کرکے ان کے لئے راستہ فراہم کردیتا،  بادل ان پر سایہ فگن ہوجاتا ، ان کے لئے پتھر سے پانی کے چشمے ابل پڑتے، اور آسمان سے کھانا نازل ہوجاتا ۔

لیکن یہ لوگ سرکشی پر آمادہ ہوگئے ، اللہ کے حکموں سے اعراض کرنے ،  شریعت کی حدوں کو توڑنے اور پامال کرنے، اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے فریضے سے غفلت برتنے لگے۔

ان کے علماء دولت اور جاہ و عزت کی خاطر اللہ کی کتاب کو بدلنے اور غلط تاویل کرنے میں مصروف ہوگئے اور کتاب الہی سے ناواقف عوام بداعمالیوں کے باوجود مغفرت    اور جنت کے خام خیالی میں مبتلا ہوگئی۔

ان میں یہ سوچ اور عقیدہ رواج پاگیا کہ وہ نسلی اعتبار سے اللہ کے چہیتے اور لاڈلے ہیں ، وہ چاہے جو کچھ کریں چند دنوں کی سزا کے بعد وہ جنت میں ضرور جائیں گے ، اور اصلاح کی کوشش کرنے والے برگزیدہ اور منتخب بندوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے لگے ۔

جب اس قوم کی سرتابی اور برگشتگی حد سے گزر گئی تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور وہ ذلت و پستی اور خوارگی میں مبتلا کردی گئی،  اور وہ اس لائق نہیں رہ گئی کہ اسے اللہ کے احکام کا مخاطب بنایا جائے۔

اور ان کی جگہ پر صحرا میں رہنے والی ایک قوم کو منتخب کیا گیا اور کلام الٰہی کو لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر منتقل کر دیا گیا ، جس رات میں اللہ کا پیغام آسمان دنیا پر نازل گیا وہ قدر و منزلت کی رات کہلائی، کیونکہ یہ رات ایک قوم کو محروم کرنے اور دوسری قوم کو عزت دینے اور نوازنے کی رات تھی ۔

اور انھیں حکم دیا گیا کہ اس عظیم نعمت کے پانے کی خوشی میں اظہار تشکر کے لئے اللہ کی کبریائی اور اس کی عظمت کے گن گائیں کہ انھیں اس لائق سمجھا گیا کہ اللہ کے احکام کا مخاطب بنایا جائے اور شریعت کا تاج ان کے سرپر سجایا جائے، لتكبروا الله على ما هداكم ولعلكم تشكرون.

اور انھیں اس پر مامور کیا گیا کہ ہرنماز میں اس ہدایت اور شرف عبودیت کو باقی رکھنے اور پچھلی قوموں کے انجام بد سے بچنے کی دعا مانگیں ۔

اور اسی مقصد سے عیدگاہ جاتے ہوئے کثرت سے تکبیر پڑھی جاتی ہے اور وہاں پہونچ کر اس بیش بہا انعام و نوازش پر اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے، اور اس دن کو خوشی و مسرت کا دن بنایاگیا ہے :

قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰهِ وَبِرَحۡمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلۡيَـفۡرَحُوۡا ؕ هُوَ خَيۡرٌ مِّمَّا يَجۡمَعُوۡنَ ۞ 

کہہ دو کہ (یہ کتاب) خدا کے فضل اور اس کی مہربانی سے (نازل ہوئی ہے) تو چاہیئے کہ لوگ اس سے خوش ہوں۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ (سورہ یونس: 58)

اور حدیث میں ہے : تمام قوموں کے لئے خوشی کا ایک دن ہوتا ہے اور یہ ہماری خوشی کا دن ہے. إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا (بخاری: 952)

لیکن خوشی اور مسرت کا دن ان لوگوں کے لئے ہے جنھوں نے اللہ کے احکام کی پابندی کی ، خصوصاً رمضان کا روزہ رکھا اور اس کے تقاضوں پر عمل کیا اور رمضان کی ناقدری سے محفوظ رہا ۔ ایسے ہی لوگوں سے متعلق اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھیں گے: جس مزدور نے پوری محنت اور دیانتداری سے اپنا کام کیا ہے اس کی کیا جزا ہے ؟ فرشتے عرض کریں گے: اس کا بدلہ یہ ہے کہ فوری طور پر اس کی پوری مزدوری دے دی جائے۔  اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : فرشتو! تم گواہ رہو ، میں نے انھیں بخش دیا ، تو یہ لوگ عیدگاہ سے بخشے بخشاۓ گھر واپس ہونگے ۔

اور جو لوگ پچھلی قوموں کے راستے پر چلتے رہے اور سرکشی و نافرمانی میں ڈوبے رہے اوررمضان جیسے بابرکت اور پر رحمت اور مغفرت کے  مہینے کی قدر نہیں کی ۔ ایسے لوگوں کے لئے عید خوشی کا دن نہیں بلکہ اللہ کے غضب اور عذاب کا دن ہے ،وہ عیدگاہ سے ناکام و نامراد واپس ہوتے ہیں اور زرق برق لباس زیب تن کرنے کے باوجود ان کے چہرے بے رونق اور سیاہ ہونگے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ عید کے دن کچھ لوگ عیدگاہ سے اجر وثواب لے کر لوٹتے ہیں  جن کی کوشش اور جد وجہد کی قدر کی جاتی ہے  اور کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں رحمت ِ الہی  سے دھتکار دیا جاتا ہے اور انہیں کوئی حیثیت نہیں دی جاتی ہے ۔ ‘‘ [یعود الناس یوم العید من المصلی فمنھم المأجور المشکور ومنھم المطرود والمھجور] (مصنف ابن ابی شیبہؒ:۱۱۸۲۲)

(18)

 

عیدین کی راتوں میں نوافل

 

عید کے معنی خوشی کے ہیں‘ لیکن اسلام میں خوشی‘عیش پرستی اور رنگ رلیوں میں مصروف ہوجانے کا نام نہیں‘ بلکہ خوشی کا دن بھی روحانیت کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہے کہ بندہ ان اوقات میں اللہ کی نوازشوں اور کرم واحسان کے احساس سے سرشار اوربے خود ہوکر اس کے سامنے جھک جاتا ہے‘ اس کی ہر ادا سے تشکر اور بندگی کے جذبات نمایاں ہوتے ہیں۔

ایسی پرمسرت گھڑیوں میں جو کوئی اپنے رب کو یاد کرتا ہے‘ اپنے دل کو اس کی یاد میں مشغول رکھتا ہے تو اس وقت جب کہ قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے دل مردہ ہوجائیں گے۔ اسے ایک طرح سے اطمینان اور سکون کی کیفیت میسر ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

من احیی لیلۃ الفطر ولیلۃ الاضحیٰ لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب ( فیہ عمرو بن ہارون البلغی والغالب علیہ الضعف واثنی علیہ ابن مھدی وغیرہ لکن ضعفہ جماعۃ کثیرۃ وقال البخاری مقارب الحدیث ( دیکھئے: اعلاء السنن 7؍35)

جو کوئی عیدالفطر اور عیدالاضحی کی راتوں میں عبادت کرے تو جس دن کہ دلوں پر موت طاری ہوجائے گی اس کا دل مردہ نہیں ہوگا۔

ایک دوسری حدیث میں ہے:

من قام لیلۃ العید محتسبا لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب (رواہ ابن ماجہ‘ وروایۃ ثقات الاان بقیۃ مدلس وقد عنعنہ ( اعلاء السنن 7؍35)

جو شخص عید کی شب میں ثواب کی نیت سے نمازپڑھے تو جس دن دل مردہ ہوجائیں اس کا دل زندہ رہے گا۔

یہ دونوں حدیثیں گرچہ ضعیف ہیں لیکن فضائل میں ضعیف حدیثوں کا بھی اعتبار کرلیا جاتا ہے‘ امام نووی لکھتے ہیں

یجوز عنداھل الحدیث التساھل فی الاسانید الضعیفۃ وروایتہ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ من غیر بیان ضعفہ فی غیر صفات اللہ والاحکام (تدریب الراوی ؍196)

محدثین کے یہاں ضعیف سندوں میں نرمی برتنا اور موضوع کے سوا ضعیف حدیثوں کوروایت کرنا اور ان کا ضعف بیان کئے بغیراور اس پرعمل کرنا جائز ہے‘ البتہ اللہ کی صفات اور احکام کی حدیثوں میں ایسا کرنا درست نہیں ۔

اس لئے ان راتوں میں جاگنا اور نوافل وغیرہ پڑھنا بہتر اور افضل ہے(مراقی الفلاح ؍218)۔ افسوس کہ اس قدر فضیلت اور اہمیت کی رات کو لوگ کھیل کود‘سیروتفریح میں گنوادیتے ہیں۔خود ان کا گھر تو عبادت کے نور سے تاریک رہتا ہے لیکن بازار کی رونق میں اضافہ ہوتا ہے۔

(19)

*احتساب کا وقت*

 

ایک ماہ تک شب و روز ساتھ رہنے والا ھمدم و دمساز ہم سے جدا ہونے والا ہے اور معلوم نہیں کہ سال بھر کے بعد پھر اس سے ملاقات ہوگی یا نہیں ۔  مسرت کا مقام ہے کہ ایک ماہ اس کے ساتھ رہنے کا موقع ملا اور حسرت کا مقام ہے کہ اب وہ رخصت ہو رہا ہے ۔ خوشی اور غم کے اس سنگم  پر غوروفکر اور احتساب کی ضرورت ہے کہ اس ایک ماہ میں ہم نے کیا حاصل کیا ؟ قرآن حکیم میں روزے کا مقصد تقوا کا حصول بتایا گیا ہے ، اور تقوا کے عناصر تین ہیں:

 1— اس بات کا خوف اور ڈر کہ ہمارے کسی عمل سے ہمارا مالک اور پروردگار ناراض نہ ہوجائے ، اس لئے کہ اس کی ناراضگی  دنیا و آخرت کی تباہی ، جنت سے محرومی اور آگ میں داخل ہونے کے ہم معنی ہے ۔ اور اس سے بڑھ کر کوئی ناکامی اور بربادی نہیں ہے ۔ اور اس کی خوشنودی جہنم سے دوری اور جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے اور یہی حقیقی کامیابی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے :

كُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِ‌ؕ وَاِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ‌ؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدۡخِلَ الۡجَـنَّةَ فَقَدۡ فَازَ ‌ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ‏ ۞ 

ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔(سورہ آل عمران: 185)

2—اس بات کا شعور اور احساس اللہ عز و جل ہمارے تمام حرکات و سکنات سے باخبر ہیں ،اور ان سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی ہے یہاں تک کہ وہ دلوں کے بھید سے بھی آگاہ ہیں ۔

3—اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف اور اس کی نگرانی کے احساس کے نتیجے میں فرمانبرداری کی کوشش اور نافرمانی سے اجتناب ۔

اور تقوا کو حاصل کرنے کے لئے مسلسل ایک ماہ تک محدود وقت کے لئے زندہ رہنے کی ضروری چیزوں سے بھی دور رکھا گیا تاکہ بقیہ گیارہ مہینوں میں اللہ کی نافرمانی سے دور رہنا آسان ہوجائے اور بھوکا پیاسا رہ کر نفس اور شیطان پر قابو پانا مشکل نہ رہ جائے،کیونکہ تقوا محض چند دنوں کے لئے نہیں ہے بلکہ زندگی بھر اس پر عمل کرنا ہے ، پروردگار کا فرمان ہے:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡـتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ۞ 

ٖ) اے اہل ایمان ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں (سورہ آل عمران:102)

 ۔ اور اگر مہینے بھر کی تربیت کے باوجود نفس اور شیطان کا غلبہ رہا اور نافرمانی میں زندگی گزرتی رہی   تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم  رمضان سے کچھ بھی حاصل نہ کرسکے اور اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوگی ؟ 

(6)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

 

حج کا پہلا مہینہ

  (شوال کی فضیلت)

 

اہمیت و فضیلت کے اعتبار سے جن مہینوں کو نمایاں اور امتیازی حیثیت حاصل ہے ان میں سے ایک شوال کا مہینہ بھی ہے اس مہینے کو متعدد جہتوں سے خصوصی حیثیت حاصل ہے چنانچہ یہ حج کا پہلا مہینہ ہے

قرآن حکیم میں ہے:

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ  (سورة البقرة: ١٩٨)

حج کے چند مہینے متعین ہیں چنانچہ جو شخص ان مہینوں میں احرام باندھ کر اپنے اوپر حج لازم کر لے تو حج کے دوران نہ وہ کوئی فحش بات کرے ،نہ کوئی گناہ ،نہ کوئی جھگڑا۔

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ شوال ،ذوقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن حج کے مہینے ہیں (صحيح بخاري)

دوسرے یہ کہ اس کی پہلی تاریخ کو عید فطر ہے جو ایک طرح سے رمضان بھر کی محنت کا اجر و ثواب ملنے کا دن ہے نیز رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنے احکام کا مخاطب بنایا اور تاج خلافت کے لیے ہمیں منتخب کیا اس کے اس کرم و نوازش پر خوشی منانے اور اس کی عظمت و کبریائی کے اعلان و اظہار کا دن ہے۔چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:

{وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (سورةالبقرة:١٨٥)

تاکہ تم روزوں کی گنتی پوری کر لو اور اللہ نے تمہیں جو راہ دکھائی ہے اس پر اس کی کبریائی بیان کرو اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔

اور حضرت عمر بن عبدالعزیز عید الفطر کے خطبہ میں کہا کرتے تھے تمہیں معلوم ہے کہ تم گھر سے نکل کر عید گاہ کیوں آئے ہو؟ تم نے تیس دن تک روزہ رکھا تیس راتوں میں قیام کیا پھر گھر سے باہر نکل کر آئے ہو اپنے رب سے درخواست لے کر کہ وہ تمہارے اعمال کو قبول (حلیۃ الاولیاء جلد ٥/ص٣٠٢) 

اور حضرت انس بن مالک سے روایت ہے:

قدِمَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ المدينةَ ولَهم يومانِ يلعَبونَ فيهما فقالَ ما هذانِ اليومانِ قالوا كُنَّا نلعبُ فيهما في الجاهليَّةِ فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إنَ اللَّهَ قد أبدلَكم بِهِما خيرًا مِنهما يومَ الأضحى ويومَ الفطرِ (ابوداؤد:١١٣٤،نسائى:١٥٥٦، احمد: ١٢٠٠٦) 

رسول اللہ صلی اللہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں کے لوگ سال کے دو دنوں میں کھیل تماشا کیا کرتے تھے آپ نے ان سے پوچھا کہ ان کی حیثیت کیا ہے ؟انہوں نے عرض کیا:ہم زمانہ جاہلیت میں ان دنوں میں کھیل کود کیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں اس سے بہتر دو دن تمہیں عنایت کر دیئے ہیں عید فطر اور عید قرباں کا دن.

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

دَخَلَ أبو بَكْرٍ وعِندِي جَارِيَتَانِ مِن جَوَارِي الأنْصَارِ تُغَنِّيَانِ بما تَقَاوَلَتِ الأنْصَارُ يَومَ بُعَاثَ، قالَتْ: وليسَتَا بمُغَنِّيَتَيْنِ، فَقالَ أبو بَكْرٍ: أمَزَامِيرُ الشَّيْطَانِ في بَيْتِ رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وذلكَ في يَومِ عِيدٍ، فَقالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: يا أبَا بَكْرٍ، إنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وهذا عِيدُنَا. (صحيح بخاري:٩٥٢،صحيح مسلم:٨٩٢)

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے گھر آئے اور میرے پاس انصار کی دو بچیاں فخریہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث  کے موقع پر کہے تھے اور وہ پیشہ ور گانے والیاں نہیں تھیں، حضرت ابوبکر نے کہا: اللہ کے رسول کے گھر میں شیطان کی بانسری بج رہی ہے، وہ عید کا دن تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر!چھوڑ دو، ہر قوم کے لیے عید کا دن ہے اور یہ ہماری عید کا دن ہے.

نیز وہ کہتی ہیں:

وكانَ يَومَ عِيدٍ، يَلْعَبُ السُّودانُ بالدَّرَقِ والحِرابِ، فَإِمَّا سَأَلْتُ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، وإمَّا قالَ: تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ؟ فَقُلتُ: نَعَمْ، فأقامَنِي وراءَهُ، خَدِّي علَى خَدِّهِ، وهو يقولُ: دُونَكُمْ يا بَنِي أرْفِدَةَ. حتَّى إذا مَلِلْتُ، قالَ: حَسْبُكِ؟ قُلتُ: نَعَمْ، قالَ: فاذْهَبِي. (صحيح بخاري:٩٤٩،صحيح مسلم ٨٩٢)

عید کے دن حبشہ کے لوگ نیزوں اور ڈھالوں سے کھیلتے تھے میں نے آپ سے درخواست کی یا خود آپ نے فرمایا کیا یہ تم کھیل دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا ہاں آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا میرا رخسار آپ کے رخسار کے پاس تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: حبشہ کے لوگو! اور تماشا دکھاؤ یہاں تک کہ میں جب میں اکتا گئی تو آپ نے پوچھا: بس، میں نے کہا: ہاں ،

فرمایا: تب چلی جاؤ ۔

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں

بينا الحبشة يلعبون عند النبي صلى الله عليه وسلم بحرابهم، دخل عمر فأهوى إلى الحصى فحصبهم بها، فقال: دعهم يا عمر (صحيح بخاري ٢٩٠١، صحيح مسلم٨٩٣)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حبشہ کے لوگ اپنے نیزوں سے کھیل رہے تھے اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگئے انہوں نے کنکری لے کر انہیں مارا، آپ نے فرمایا: عمر! انہیں چھوڑ دو،

ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عید کے دن کی خوشی میں جائز کھیل تماشے میں کوئی حرج نہیں ۔

 

عید کی بعض سنتیں:

 

حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر عید قرباں اور عید الفطر کے دن جب عیدگاہ کے لیے نکلتے تو آواز کے ساتھ تکبیر کہتے یہاں تک کہ عید گاہ پہنچ جاتے اور وہاں پہنچنے کے بعد بھی تکبیر کہتے رہتے ہیں یہاں تک کہ امام نماز پڑھانے کے لئے آجاتا (سنن دارقطنی١٨١٦- صحیح)۔

  عیدین میں کثرت سے تکبیر کی مشروعیت پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے اور یہ درحقیقت مذکورہ آیت پر عمل کی ایک شکل ہے جس میں کہا گیا ہے کی تمام روزوں کی گنتی پوری کرو اور اللہ تعالی نے جس ہدایت سے تمہیں صرف سرفراز کیا ہے اس پر اس کی کبریائی اور عظمت کا اعلان کرو اور شکر گزار بنو (دیکھئے سورۃ البقرة،١٨٥)

حنفیہ کے نزدیک عید فطر میں قدرے پست آواز سے اور عید قرباں میں کچھ بلند آواز سے تکبیر کہی جائے گی۔ اور حضرت علی و حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے تکبیر کے الفاظ منقول ہیں

الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله والله اكبر الله اكبر ولله الحمد (مصنف ابن ابي شيبه،٥٦٥٣)

عید کے لیے غسل کرنا اور اچھے سے اچھا کپڑا پہننا مستحب ہے نیز بہتر ہے کہ عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے کھجور تناول کرلے اور اس میں طاق عدد کی رعایت کرے (صحیح بخاری،٩٥٣)

سنت یہ ہے کہ عیدین کی نماز عید گاہ میں پڑھی جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا (صحیح بخاری ٩٥٦صحیح مسلم ٨٨٩) الا یہ کہ بارش ہو رہی ہو یا کوئی اور عذر ہو تو مسجد میں عید کی نماز پڑھی جا سکتی ہے لیکن بلاوجہ مسجد میں عیدین کی نماز پڑھنا خلاف سنت ہے

عید گاہ پیدل جانا چاہیے اور پیدل ہی واپس آنا چاہیے (سنن ابن ماجہ، ١٢٩٥) اور ایک راستے سے جائے اور دوسرے راستے سے واپس آئے (صحیح بخاری ٩٨٦) تاکہ قیامت کے دن دو جگہیں  اس کے لئے گواہی دیں اور متعدد جگہوں پر اللہ کی کبریائی کا اعلان ہو ۔

عید فطر کی نماز میں قدرے تاخیر بہتر ہے علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید فطر کی نماز تاخیر سے اور عید قرباں کی نماز جلدی پڑھا کرتے تھے (زاد المعاد جلد ١/ص ٤٢٥)

عید کی نماز سے پہلے اور اس کے بعد عیدگاہ میں کوئی نفل نماز نہیں پڑھی جائے گی حضرت عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں

أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوم الفطر، فصلى ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها (صحيح بخاري ٩٦٤ صحيح مسلم ٨٨٤)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے دن دو رکعت نماز پڑھی اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھی 

حنفیہ کے نزدیک عیدین کی نماز میں چھ زائد تکبیریں کہی جائیں گی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ان تکبیروں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا

يكبر اربعا ثم يقرأ ثم يكبر فيركع ثم يقوم في الثانيه فيقرأ ثم يكبر اربعا بعد القراءة (مصنف عبد الرزاق،٥٦٨٧ ابن ابي شيبه،٥٦٩٩ السنن الكبرى، ٦١٨٤)

چار تکبیریں کہے پھر قرأت کرے پھر تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے پھر دوسری رکعت کے لئے اٹھے اور قرأت کرے اور اس کے بعد چار تکبیریں کہے

یاد رہے کہ پہلی چار تکبیروں میں تکبیر تحریمہ اور دوسری چار تکبیروں میں رکوع کی تکبیر شامل ہے اور اس طرح سے زائد تکبیریں صرف چھ ہوئیں حضرت ابو موسی اشعری اور حضرت حذیفہ سے بھی اسی طرح منقول ہے (دیکھئے نصب الرایۃ جلد ٢/ص ٢١٤) حضرت عبداللہ ابن عباس،حضرت مغیرہ بن شعبہ اور تابعین میں سے ایک کثیر تعداد سے یہی رائے منقول ہے اور علامہ ابن رشد مالکی لکھتے ہیں کہ اس مسئلے میں اصل دلیل صحابہ کرام کا فتویٰ اور عمل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز ثابت نہیں ہے اور سب کو معلوم ہے کہ اس طرح کی چیزوں میں صحابی کا فتوی اور عمل مرفوع حدیث کے حکم میں ہے کیونکہ اس میں قیاس کو کوئی دخل نہیں (بدايةالمجتهد جلد ١/ص٢٢٦)

 

عیدین کا خطبہ:

عیدین میں سب سے پہلے نماز ہوتی ہے اور پھر خطبہ دیا جاتا ہے، سنت سے یہی ثابت ہے اور اسی پر امت کا عمل ہے عیدین کے خطبہ میں بھی کثرت سے تکبیر کہنا چاہیے بہتر یہ ہے کہ پہلے خطبہ میں کم سے کم نو مرتبہ اور دوسرے میں کم سے کم سات مرتبہ تکبیر کہی جائے مشہور تابعی حضرت مسروق کہتے ہیں:

كان عبد الله يكبر في العيدين تسعا تسعا يفتح بالتكبير ويختم به (السنن الكبرى للبيهقي ٦٢١٥)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عید فطر اور عید قرباں میں نو نو مرتبہ اللہ اکبر کہا کرتے تھے ،خطبہ کے شروع میں بھی تکبیر کہتے اور آخر میں بھی 

اور حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کی سنت یہ ہے کہ عید فطر اور عید قربان میں منبر پر خطبہ سے پہلے نو مرتبہ مسلسل تکبیر کہی جائے اور ان کے درمیان کوئی کلام نہ ہو اس کے بعد خطبہ دیا جائے اور پھر بیٹھ جایا جائے اور دوسرے خطبہ کے لیے اٹھنے کے بعد شروع میں مسلسل سات مرتبہ تکبیر کہی جائے اور ان کے درمیان کوئی کلام نہ ہو اور امام شافعی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ اسماعیل ابن علیہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سنا ہے کہ  پہلے خطبہ کے شروع میں نو مرتبہ مسلسل تکبیر کہی جائے گی اور دوسرے میں سات مرتبہ (معرفۃ السنن جلد ٥/ص ٨٨)

تکبیرات کے درمیان الحمداللہ اور لا الہ الا اللہ کہنا بھی بہتر ہے 

امام شافعی لکھتے ہیں :

فان ادخل بين التكبيرتين الحمد والتهليل كان حسنا ولا ينقص من عدد التكبير شيئا (كتاب الام جلد ١/ص٢٣٩)

اگر دو تکبیروں کے درمیان الحمدللہ اور لا الہ الا اللہ داخل کردے تو بہتر ہے اور تکبیر کی تعداد میں کوئی کمی نہ کرے.

اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خطبہ کے شروع میں دو مرتبہ تکبیر تشریق کہہ لے اور پھر الگ سے ایک مرتبہ اللہ اکبر کہہ لے تو کل نو تکبیریں ہو جائیں گی کیونکہ کی تکبیر تشریق میں چار مرتبہ اللہ اکبر موجود ہے اور دوسرے خطبہ کے شروع میں ایک مرتبہ تکبیر تشریق اور الگ سے تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ لے تو سات تکبیریں ہو جائیں گی .

 

عید فطر کی مبارک بادی:

محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ باہلی اور دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ رہا ہوں جب یہ لوگ عید سے واپس ہوتے تھے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ اللہ تعالی ہماری اور آپ کی عبادت قبول فرمائے ،تقبل اللہ منا ومنکم (الجوہر النقی جلد ٣/ص ٣٢٠ المغنى جلد ٢/ص٢٩٦)

اور حضرت جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ عید کے دن جب صحابہ کرام باہم ملتے تو ایک دوسرے سے کہتے اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی عبادت قبول فرمائے (المغنی جلد ٢/ص ٢٩٦

اس کے علاوہ دوسرے جائز کلمات سے بھی مبارکباد دی جاسکتی ہے

 

شوال کے چھ روزے :

 

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من صام رمضان ثم أتبعه ستًّا من شوال كان كصيام الدهر (صحيح مسلم١١٦٤)

جو کوئی رمضان کا روزہ رکھے اور اس کے بعد شوال میں سے چھ روزے رکھ لے تو وہ پورے سال کے روزے کی طرح ہے 

اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

صيام شهر بعشرة أشهر وستة أيام بعدهن بشهرين فذلك تمام سنة يعني شهر رمضان وستة أيام بعده سنن دارمى ١٧٩٦، مسنداحمد ٢٢٤١٢،)

ایک مہینہ کا روزہ دس مہینے کے برابر ہے اور چھ دن اس کے بعد کا روزہ دو مہینہ کے برابر ہے تو یہ پورے سال کا روزہ ہو جائے گا یعنی رمضان اور اس کے بعد چھ دن کا روزہ ۔

امام ابن ماجہ نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:

من صام ستة أيام بعد الفطر كان تمام السنة من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها (سنن ابن ماجه ١٧١٥),

جو کوئی عید فطر کے بعد چھ روزے رکھے تو پورے سال کا روزہ ہوجائے گا جو نیکی کرے گا اسے دس گناہ ملے گا.

علامہ ابن رجب حنبلی نے لکھا ہے کہ شعبان اور شوال کے روزے کی حیثیت فرض نماز سے پہلے اور بعد کی سنت جیسی ہے جس کے ذریعہ فرض روزے میں کمی کوتاہی کی تلافی ہو جاتی نیز رمضان کے روزے کے بعد روزہ رکھنے کی توفیق اس کی قبولیت کی علامت ہے کیوں کہ نیکی کے بعد دوسری نیکی پہلی نیکی کی قبولیت کی علامت ہے، اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرض کی بجا آوری کی توفیق اور ہمت دی اس کے شکریہ میں دوبارہ روزہ رکھا جائے (لطائف المعارف٤١٨)

اس قدر فضیلت اور برکت والے مہینے کو زمانے جاہلیت میں منحوس  سمجھا جاتا تھا کہا جاتا ہے کبھی  اسی مہینے میں طاعون آگیا جس کی وجہ سے بہت سی دلہنیں مر گئیں اس لئے اس کو منحوس سمجھا جانے لگا اور اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے تھے (لطائف المعارف ١٤٧) 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے اس عقیدے کی تردید فرمائی وہ کہتی ہیں:

تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، وَبَنَى بِي فِي شَوَّالٍ، فَأَيُّ نِسَاءِ رَسُولِ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ- كَانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي قَالَ وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءهَا فِي شَوَّالٍ (صحیح مسلم ١٤٢٣)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں مجھ سے نکاح کیا اور اسی مہینے میں رخصتی عمل میں آئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں ان کی محبت کی بہ نسبت مجھ سے زیادہ خوش قسمت کون ہے راوی کہتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے متعلق عورتوں کی رخصتی شوال میں کرانا پسند کرتی تھیں.

(7)

*عید قرباں*

ذوالحجۃ کی فضیلت 

 

ولی اللہ مجید قاسمی۔

کتنی عجیب تاریخ ہے کہ اسی(80) برس کے بعد جس کے یہاں لڑکا پیدا ہوا تھا وہ بوڑھا باپ اسی لاڈلے بچے کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنے جارہا ہے اور اس کے پیروں میں لغزش نہیں ۔ دوسری طرف اس تیرہ سالہ معصوم بچے کی سعادت مندی دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی معلوم ہوجانے کے بعد ذبح ہونےکے لئے ہنسی خوشی دوڑتا جارہا ہے ۔باپ پوچھتا ہے : بیٹا ! تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمھیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ذبح کر رہا ہوں ۔ بیٹے نے برجستہ کہا : ابا جان ! جو بھی مالک کا حکم ہے جلدی سے اسے کر گزرۓ، میں ہر تکلیف برداشت کرلونگا ۔قرآن اس کے آگے کہتا ہے : 

فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَتَلَّهٗ لِلۡجَبِيۡنِ‌ۚ. وَ  نَادَیۡنٰہُ  اَنۡ  یّٰۤاِبۡرٰہِیۡمُ .قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ.(سورہ الصافات)

چنانچہ (وہ عجیب منظر تھا) جب دونوں نے سر جھکا دیا، اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرایا۔اور ہم نے انہیں آواز دی : اے ابراہیم ! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یقینا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔

یہ ہے قربانی کی ایسی تاریخ جس کی نظیر پوری تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی کہ اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر باپ بھی راضی اور بیٹا بھی راضی ۔ باپ بیٹے کی اطاعت شعاری، فداکاری ، خود سپردگی اور خلوص نے اس واقعہ کو ایک یادگار واقعہ بنا کر تاریخ اسلام کا ایک جز بنا دیا اور اس دن کو انسانیت کے علمبرداروں کے لئے عید کا دن قرار دیا ، اور حکم دیا گیا کہ اس روز ہر صاحب استطاعت پر جانور کی قربانی ضروری ہے ۔

قربانی کی حقیقت:

قربانی کی مشروعیت کا مقصد اس شعور کو بیدار کرنا اور یہ جذبہ پیدا کرنا ہے کہ دیکھنے میں تو وہ ایک جانور کے گلے پر چھری چلا رہا ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ اپنے مالک کی خوشنودی کےلئے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ رہا ہے اور اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر نامرضیات کی گردن پر چھری پھیر رہا ہے ۔

اگر قربانی سے یہ اسپرٹ پیدا نہ ہو تو وہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی سنت نہیں بلکہ محض ایک رسم ہے جہاں بیش قیمت جانوروں کی فراوانی تو ہوگی لیکن تقوا کی وہ روح ناپید ہوگی جو قربانی کا مقصود و مطلوب ہے ۔ رب کائنات کا فرمان ہے :

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ  لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمۡ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ ؕ وَ بَشِّرِ  الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورہ الحج: 37)

اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے، اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دئیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی، اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں، انہیں خوشخبری سنا دو ۔

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جس چیز کی قدر ہے وہ پرہیزگار دل ہے نہ کہ کوئی چوپایہ ۔اس لئے کہ اسلام میں عبادت کے نام پر جو چیزیں مشروع کی گئیں ہیں ان تمام کا مقصد” تقوا” ہے  یعنی ان عبادات کی وجہ سے اس کی روحانی حس اس قدر حساس ہو کہ جب وہ کچھ کہنے اور کرنے کا ارادہ کرے تو اندر سے آواز آئے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے ۔

جانور کی قربانی اسی جذبہ دروں کا خارجی اظہار ہے اور اگر دل میں یہ جذبہ نہ ہو تو اس خارجی عمل کی اللہ عزوجل کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں ہے  ۔

قربانی کا ثبوت:

اسلامی عبادات میں قربانی کا ایک اہم مقام ہے ، قرآن حکیم کی متعدد آیتوں میں اس کی مشروعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ، کہیں نماز کے ساتھ بیان کرکے اس کی اہمیت بتلائی گئی ہے ۔

فصل لربک و انحر ۔

اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۔(1)

تو کہیں دینی شعائر کہہ کر اس کی حیثیت واضح کی گئی ہے ۔

وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ  شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ ٭ۖ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ۔ (سورہ الحج : 36)

اور قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے۔ چنانچہ جب وہ ایک قطار میں کھڑے ہوں، ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب (ذبح ہوکر) ان کے پہلو زمین پر گرجائیں تو ان (کے گوشت) میں سے خود بھی کھاؤ، اور ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو صبر سے بیٹھے ہوں، اور ان کو بھی جو اپنی حاجت ظاہر کریں۔ اور ان جانوروں کو ہم نے اسی طرح تابع بنا دیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔

اور کبھی یہ کہہ کر” ہم نے پچھلی تمام امتوں کے لئے قربانی مشروع کی ہے” امت محمدیہ کو تاریخی تسلسل کا ایک حصہ بنا دیا گیا ہے اس طرح سے قربانی کرنے والا کوئی نیا کام کرنے والا نہیں  بلکہ وہ ایک پاکیزہ جماعت کے نقش قدم پر چلنے والا ہوتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :

وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ  وَّاحِدٌ فَلَہٗۤ اَسۡلِمُوۡا ؕ وَ  بَشِّرِ  الۡمُخۡبِتِیۡنَ ۔ (سورہ‌الحج : 34) 

اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔ لہذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ تم اسی کی فرمانبرداری کرو، اور خوشخبردی سنا دو ان لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔

اورحدیث میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر کوئی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے (الترغیب والترہیب للمنذری 155/2)

اور ایک دوسری حدیث میں ہے :

اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں قربانی کے دنوں میں کوئی عمل قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ہے (سنن الترمذي: 1493  •  حسن غريب  •)

اور اس کی مشروعیت اور اہمیت کے لئے یہی کیا کم ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے قربانی کی اور مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد ہمیشہ قربانی کرتے رہے اور کبھی ترک نہیں کیا. (مشکاۃ :129/1)

قرآن حکیم کی مذکورہ آیات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایات اور امت مسلمہ کا چودہ سو سال سے ہر زمانہ اور ہر ملک میں قربانی کا اہتمام اس کے ثبوت کے ایسے واضح دلائل ہیں کہ کسی انصاف پسند کے لئے اس کا انکار  ناممکن ہے ۔

البتہ عقل و خرد سے کورے اور کتاب و سنت سے ناواقف اور اللہ سے تعلق اور روحانی عظمت سے ناآشنا کے لئے اس کا انکار ممکن ہے چنانچہ اس طرح کے لوگ کہتے ہیں کہ قربانی ایک نامناسب عمل ہے ، نیز اس کی وجہ سے چند دنوں میں ایک خطیر رقم یونہی ضائع ہوجاتی ہے ، حالانکہ اس کو محتاجوں کے معاشی استحکام اور دین کی اشاعت و تبلیغ میں لگا کر ایک بڑا اہم اور مفید کام انجام دیا جاسکتا ہے ۔

اس طرح کی سوچ سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ  ان کے سامنے قربانی کا مقصد اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ ان دنوں میں جانور کو ذبح کرکے خود کھائیں اور رشتہ داروں میں بانٹ دیں ۔ شاید ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ قربانی اخلاص ، اطاعت اور جانثاری کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور اللہ تعالی سے ربط وتعلق کا ایک عنوان اور اس کے حکم کے سامنے خود سپردگی کی ایک علامت اور پہچان ہے ۔ اسے ختم کرنے یا محدود کرنے  کا مطالبہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی ہندوستان کی آزادی کے دن کے موقع پر یہ مشورہ دینے لگے کہ وطن عزیز کے سیکڑوں فرزند دوگز کپڑے کو ترس رہے ہیں اس لئے خدارا ان جھنڈوں میں اپنے کپڑے ضائع مت کرو بلکہ اسے غریبوں میں تقسیم کردو ۔

ظاہر ہے کہ کوئی اسے معقول نہیں کہہ سکتا اس لئے کہ یہ وطن کی آزادی میں قربانی کی عظیم تاریخ کو یاد رکھنے کا ذریعہ ہے ، اور  اس مقصد کے لئے سر بکف پھرنے والے جوانوں کی داستان عزیمت کے سامنے ان چند گز کپڑوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

علاوہ ازیں سوچنے کا یہی انداز رہا تو پھر دین کا کونسا شعبہ محفوظ رہیگا ، آج قربانی کی باری ہے اور کل حج کے بارے میں کہا جائے گا کہ اتنی رقم خرچ کرکے مکہ جانے کی ضرورت کیا ہے کیوں نہ ان کے ذریعے غربت دور کرنے کی کوشش کی جائے ‌۔

سوچنے کا یہ انداز وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جو آخرت کے تقاضوں سے ، روحانیت کی حقیقت سے ، دین کی عظمت سے ، عبودیت کی لذت  اور ایمان کی حلاوت و لطافت سے ناآشنا ہو ،  عقل پرستی اور خواہشات نفس کی پیروی میں اندھا ہوگیا ہو اور مادہ پرستی کی بھول بھلیوں میں پھنس کر اپنی حقیقت کو فراموش کر بیٹھا ہو ۔

اللہ اسے ہدایت دے ، اس کی نگاہوں میں وسعت ، دلوں میں نور اور اللہ و رسول کی محبت پیدا کردے ۔

(1) اکثر مفسرین کے یہاں "نحر ” سے مراد قربانی ہے، حضرت مجاہد اور قتادہ وغیرہ کی یہی رائے ہے ۔ (تفسیر مظہری 253/10) امام ابو بکر رازی کہتے ہیں کہ ایک عرب  کے ذہن میں لفظ” نحر” سے قربانی کے علاوہ کوئی اور مفہوم نہیں آسکتا ہے ( احکام القرآن 5/3)

(شائع شدہ : ترجمان دار العلوم  دہلی ۔ اپریل ، مئی ۔ 1995ء)

 

*خود سپردگی اور جانثاری کی ایک انوکھی تاریخ*

 

اسلام در حقیقت خود سپردگی اور قربانی کا نام ہے اللہ تعالی کی اطاعت و رضا میں اپنی مرضی و خواہش کو قربان کر دینا ہی اسلام ہے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اسی سے عبارت ہے چنانچہ قرآن حکیم میں ہے:

اذ قال له رب اسلم قال اسلمت لرب العالمين (سورة البقرة: ١٣١)

جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا کہ سر تسلیم خم کر دو تو فوراً بولے میں نے رب العالمین کے (ہر حکم کے) آگے سر جھکا دیا

اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:

یہاں سر تسلیم خم کرنے کے لئے قرآن نے اسلام کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے لفظی معنی سر جھکانے اور کسی کے مکمل تابعِ فرمان ہو جانے کے ہیں ہمارے دین کا نام اسلام اسی لیے رکھا گیا ہے کہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے ہر قول و فعل میں اللہ ہی کا تابع دار بنے (آسان ترجمہ)

حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے ہیں اور اسی کے ساتھ یہ دعا بھی مانگ رہے ہیں

ربنا واجعلنا مسلمين لك ومن ذريتنا امة مسلمة لك وارنا مناسكنا وتب علينا انك انت التواب الرحيم (سورة البقرة:١٢٨)

اے ہمارے پروردگار! ہم دونوں کو اپنا مکمل فرمانبردار بنا لے اور ہماری نسل سے بھی ایسی امت پیدا کر جو تیری پوری تابع دار ہو اور ہم کو ہماری عبادتوں کے طریقے سکھا دے اور ہماری توبہ قبول فرما لے بے شک تو اور صرف تو ہی معاف کردینے کا خوگر اور بڑی رحمت کا مالک ہے۔

پوری زندگی ہی کوشش کرتے رہے کہ اللہ کا کوئی حکم ٹوٹنے اور چھوٹنے نہ پائے اور اس کی انجام دہی میں کوئی تاخیر اور کوتاہی نہ ہو اللہ تعالی کی رضا جوئی کی خاطر ماں باپ سے رشتہ توڑا خاندان اور رشتہ ناتا  چھوڑا ۔گھر سے بے گھر ہوئے زندگی کے آخری مرحلے میں اولاد کی نعمت سے نوازے گئے مگر حکم ہوا کہ ماں اور بچے کو ایک ایسی جگہ چھوڑ آؤ جہاں نہ پانی ہے اور نہ سبزہ اور نہ جینے کے لیے کوئی دوسرا سہارا اور یہاں تک کہ جب وہ بچہ چلنے پھرنے کے لائق ہو گیا تو خواب کے ذریعے حکم ہوا کہ اسے ذبح کر دو اور وہ بے چون وچرا ذبح کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے اور اس کے بارے میں معصوم بیٹے سے پوچھا تو اس نے برجستہ عرض کیا:

يا أبت أفعل ما تؤمر ستجدني ان شاء الله من الصابرين (سورة الصافات ١٠٢)

ابا جان! آپ وہی کیجئے جس کا حکم دیا جا رہا ہے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔

اس کے آگے کے منظر کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ (١٠٣) وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ (١٠٤) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (١٠٥) إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ (١٠٦) وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ(١٠٧) (سورة الصافات)

چنانچہ جب دونوں نے ہمارے حکم کے آگے سر جھکا دیا اور باپ نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے پیشانی کے بل گرا دیا تو ہم نے انہیں آواز دی: اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا یقیناً ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں یقیناً یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ کا فدیہ دے کر اس بچے کو بچا لیا.

اور اللہ عزوجل کو یہ جذبہ اطاعت اس درجہ پسند آیا کہ حکم ہوا کہ لوگ ہر سال اس کی یاد میں جانور کی قربانی کیا کریں

وتركنا عليه في الاخرين (سورةالصافات:١٠٨)

اور جو لوگ ان کے بعد آئے ان میں یہ روایت قائم کی۔

اور زندگی کے آخری مرحلے میں انہوں نے اپنی اولاد کو جو وصیت کی ہے اس کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے

وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (سورة البقره:١٣٢)

اور اسی بات کی ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی اور یعقوب نے بھی کی کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے یہ دین تمہارے لئے منتخب فرما لیا ہے لہذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میں آئے کہ تم فرماں بردار ہو

حج وقربانی در حقیقت حضرت ابراہیم، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی کی یادگار ہے جس میں قدم قدم پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اصل عبادت اللہ کے حکم کی اطاعت ہے اور بذات خود کسی عمل یا جگہ میں کوئی فضیلت نہیں، مثلاً مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے لیکن آٹھ ذوالحجۃ کو حکم الہی ہوتا ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ کر منی چلے جاؤ اور پانچ وقت کی نماز وہاں جا کر پڑھو حالانکہ اس دن وہاں حج کا کوئی کام انجام نہیں دیا جاتا نہ قربانی کرنا ہے نہ جمرات پر پتھر مارنا اور نہ ہی وہاں نماز پڑھنے کا کوئی زائد ثواب ہے مگر حکم کی تعمیل میں وہاں جانا ضروری ہے اور اگر کوئی حرم کی فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے وہیں رہ جائے تو ثواب  درکنار وہ گنہ گار ہوگا۔

اسی طرح سے دوسرے دنوں میں عرفات کے میدان میں جا کر ٹھہرنا اور جبل رحمت کے پاس جانا کوئی ثواب کا کام نہیں ہے لیکن نویں ذوالحجۃ کو وہاں جا کر ٹھہرنے کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کے بغیر حج ہی درست نہیں یہی حال جمرات پر پتھر مارنے کا ہے کہ عام دنوں میں اس کی کوئی اہمیت نہیں لیکن حج کے ایام میں وہ ایک اہم عبادت ہے۔

معلوم ہوا کہ اصل چیز حکم الہی کی اتباع ہے نہ کہ خواہش اور جذبات کی پیروی اور اسی وجہ سے کسی چیز اور جگہ میں اہمیت و فضیلت آتی ہے اور وہ عبادت بنتی ہے خواہ وہ حکم عقل کے سانچے میں فٹ ہو یا نہ ہو اس کی حکمت ومصلحت سمجھ میں آئے یا نہ آئے ہمیں اس کی پابندی کرنی ہے اس لئے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں عقل کے بندے نہیں

طواف،صفا و مروہ کی سعی، جمرات کی رمی اور قربانی وغیرہ کی عقلی توجیہ مشکل ہے اور توجیہ کی ضرورت بھی نہیں ہے اس لیے کہ ان کے ذریعہ تو عقل و خرد کے بت کو پاش پاش کرنا مقصود ہے یہ سب کیا ہی جاتا ہے اس لیے کہ اِس حقیقت کو دل و دماغ میں پیوست کیا جائے کہ اصل چیز اللہ کے حکم کی اطاعت ہے نہ عقل و خواہش کی غلامی اور پیروی۔

 

عبادت و ریاضت کا موسم

ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی اس درجہ اہمیت ہے کہ قرآن کریم میں اس کی قسم کھائی گئی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس اور جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ والفجر ولیال عشر (قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی) میں دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی دس راتیں ہیں (لطائف المعارف ٥٠٤)

اور قرآن حکیم میں ایک دوسری جگہ کہا گیا ہے کہ یہ ایام اللہ کی کبریائی کے اعلان اور ذکر کے ایام ہیں

 ارشاد ربانی ہے:

اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ(۲۷)لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِۚ-فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىٕسَ الْفَقِیْرَ٘ (سورة الحج: الآية. ٢٧/۲۸)

اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو وہ تمہارے پاس پیدل آئیں اور دور دراز کے راستے سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہوکر آئیں (جو لمبے سفر سے) دبلی ہو گئی ہوں تاکہ وہ ان فوائد کو دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو انہیں عطا کئے گئے ہیں لہذا ان جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اور اور تنگ دست و محتاج کو بھی کھلاؤ

حضرت عبداللہ بن عمر ابن عباس اور جمہور علماء کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں "اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ” (متعین دنوں) سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں اور چوپایوں پر اللہ کا نام لینے کے سلسلے میں زیادہ صحیح تاویل یہ ہے کہ اس سے مراد جانوروں کی تسخیر کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ادا کرنا ہے اور یہ محض ذبح کے وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے جیسا کہ دوسری آیت میں کہا گیا ہے

كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْؕ (سورة الحج:٣٧)

اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اللہ کی کبریائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی (لطائف المعارف٥٠٧) 

اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ما من أيَّامٍ العملُ الصَّالحُ فيهنَّ أحبُّ إلى اللهِ من هذه الأيَّامِ العشرِ . قالوا : يا رسولَ اللهِ ولا الجهادُ في سبيلِ اللهِ ؟ فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ولا الجهادُ في سبيلِ اللهِ إلَّا رجل خرج بنفسِه ومالِه فلم يرجِعْ من ذلك بشيءٍ جامع ترمذى:٧٥٧ ،نيز دیکھئے صحيح بخاري: ٩٦٩)

ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے مقابلے میں کوئی ایسا دن نہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہو صحابہ کرام نے عرض کیا: کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی؟ فرمایا: ہاں، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی، البتہ اس شخص کا عمل اس سے بہتر ہے جو اللہ کی راہ میں جان و مال لے کر جہاد کے لیے نکلے اور جان و مال میں سے کچھ بھی واپس لے کر نہ آئے

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أفضل أيام الدنيا أيام العشر يعني عشر ذي الحجة قيل: ولا مثلهن في سبيل الله؟ قال: ولا مثلهن في سبيل الله إلا رجل عفر وجهه بالتراب (الترغيب والترهيب:جلد٢/ص١٩٠؛  وا اسناده حسن قاله الہیثمى والمنذرى وقال الباني صحيح لغيره صحيح الترغيب: ١١٥٠)

دنیا کے دنوں میں سب سے بہتر اور افضل دن ذوالحجہ کے دس دن ہیں صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی اس کے برابر نہیں ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی، الا یہ کہ وہ شہید ہو جائے.

ذوالحجہ کے مہینے کو اس اعتبار سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ حج جیسی عظیم الشان عبادت اسی ماہ میں ادا کی جاتی ہے حج کے علاوہ دوسری تمام عبادتیں سال بھر ادا کی جا سکتی ہیں لیکن ان دونوں کو صرف مخصوص دنوں میں ہی ادا کیا جاسکتا ہے اسی طرح سے وقوف عرفہ، مزدلفہ میں رات گزارنا یا جمرات کی رمی کرنا بھی صرف ان ہی دنوں میں عبادت ہے 

ذوالحجہ کے مہینے میں اور خصوصاً ابتدائی دس دنوں میں خوب اللہ کا ذکر اور اس کی کبریائی اور بڑائی کا اظہار و اعلان کرنا چاہیے، امام بخاری نقل کرتے ہیں کہ:

كان ابن عمر وأبوهريرة يخرجان إلى الى السوق فى أيام العشر يكبران ويكبر الناس بتكبيرهما. (صحيح بخاري تعليقا)

حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ذوالحجۃ کے دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جاتے اور تکبیر کہتے اور ان کی تکبیر کو سن کر دوسرے لوگ بھی تکبیر کہنے لگتے

اور حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے تکبیر کے یہ الفاظ منقول ہیں:

اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد (مصنف ابن ابی شیبة: ٥٦٥٣)

اور ذوالحجہ کا چاند دیکھ کر مسنون ہے کہ وہ شخص اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے جسے قربانی کرنے کا ارادہ ہے

حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ كان له ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ، فإذا أُهِلَّ هِلال ذِي الحِجَّة، فلا يَأْخُذَنَّ من شَعْرِه ولا من أظْفَارِه شيئا حتى يُضَحِّي (صحيح مسلم: ١٩٧٧)

اگر کوئی شخص قربانی کرنا چاہتا ہے تو ذوالحجۃ کا چاند دیکھنے کے بعد اپنے بال اور ناخن کو بالکل نہ کاٹے یہاں تک کہ قربانی کر لے.

فقہاء نے لکھا ہے کہ قربانی نہ کرنے والے کے لئے بھی ایسا کرنا مستحب ہے اور بعض روایتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا

أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ ” ، فَقَالَ الرَّجُلُ : أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا ؟ قَالَ : ” لَا ، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ ، وَتُقَلِّمُ أَظْفَارَكَ ، وَتَقُصُّ شَارِبَكَ ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ ، فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (مسنداحمد: ٦٥٧٥، سند حسن، اسناده قوي تخريج سنن ابي داؤد: ٢٧٨٩، شعيب ارناؤوط اسناده صحيح تخريج صحيح ابن حبان: ٥٩١٤، شعيب ارناؤوط)

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں قربانی کے  دن کو عیدبنا دوں ۔اللہ تعالی نے اس دن کو اس امت کے لئے عید بنائے۔ اس شخص نے عرض کیا اگر میرے پاس قربانی کا جانور نہ ہو سوائے اس کے کہ میرے بیٹے نے دودھ کے لیے ایک جانور عاریت پر دے دیا ہے کیا میں اسی کو ذبح کروں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں البتہ اس دن اپنے بال، ناخن اور مونچھ کو کاٹ لو اور زیر ناف کے بال کو مونڈ دو تو اس سے اللہ کی نگاہ میں تمہاری قربانی پوری ہو جائے گی

 احرام کی حالت میں بال اور ناخن کاٹنا منع ہے اور ان کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے کے لیے دوسروں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ دس دنوں کے دوران بال اور ناخن نہ کاٹیں تاکہ حج و عمرہ کرنے والوں پر فضل و کرم کی جو بارش ہو رہی ہے وہ ان کی مشابہت اختیار کر کے اس کے ساتھ شریک ہوجائیں۔ 

 

جہنم سے آزادی کا دن

حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ سے ایک یہودی نے کہا کہ قرآن حکیم میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس کو عید کا دن بنا لیتے، حضرت عمر نے پوچھا: کون سی آیت؟ یہودی نے کہا: یہ آیت:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ (سورةالمائدة: ٣)

آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر ہمیشہ کے لئے پسند کر لیا

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے وہ دن بھی معلوم ہے اور وہ جگہ بھی یاد ہے جہاں یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی آپ جمعہ کے دن عرفہ میں قیام فرما تھے (صحيح بخاري: ٤٥) اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ دونوں تو بحمداللہ پہلے ہی سے ہمارے لئے عید کے دن ہیں (فتح الباري)

  رمضان کے روزے کی تکمیل کے سب بندہ اللہ کی رحمت و مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کا مستحق ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی ہے

فمن زحزح عن النار وادخل الجنه فقد فاز (سورة آل عمران: ١٨٥)

پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا وہ صحیح معنوں میں کامیاب ہوگیا .

اور اس کامیابی پر خوشی، شکرگزاری اور ہدایت یابی کے اظہار کے لئے عید کو مشروع کیا گیا "لتكبر الله على ما هداكم (سورة البقرة: ١٨٥)

اور حج جیسی اہم عبادت کی تکمیل پر عید قرباں کو شروع کیا گیا جس کی فضیلت عید فطر سے بھی زیادہ ہے اور حج کی ادائیگی اصلاً عرفہ کے دن ہو جاتی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:

"الحج عرفة” حج وقوف عرفہ کا نام ہے(ابو داوود: ١٩٤٩، ترمذى:٨٨٩)

اور عرفہ کا دن جہنم سے آزادی کا دن ہے اس دن مسلمانوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ دیا جاتا ہے خواہ وہ حج کے لئے گیا ہو یا نہ گیا ہو اور اسی مناسبت سے دوسرے دن کو عید قرار دیا گیا ہے جس میں تمام مسلمان شریک ہوتے ہیں اور اس کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور بطور تشکّر جانوروں کو ذبح کرتے ہیں اور اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتے ہیں 

كذلك سخر هالكم لتكبر الله على ما هداكم (دیکھئے لطائف المعارف:٥١٨)

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما مِن يومٍ أكثر مِن أنْ يُعْتِقَ اللهُ فيه عبدًا مِن النارِ، مِن يومِ عرفة، وإنَّه ليدنو، ثم يُباهي بهم الملائكةَ، فيقول: ما أراد هؤلاء؟ (صحيح مسلم: ١٣٤٨)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی عرفہ کے علاوہ کسی اور دن اس قدر کثرت سے بندوں کو جہنم سے آزاد نہیں کرتے وہ ان کے قریب آ جاتے ہیں اور خوشی میں فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ میرے بندے کیا چاہتے ہیں

اور عرفہ کے دن کی اسی اہمیت کے پیش نظر حاجیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے حضرت ابو قتادہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

صِيامُ يومِ عَرَفَةَ أحْتَسِبُ على اللهِ أنْ يُكَفِّرَ السنَةَ التي قَبلَها، والسنَةَ التي بَعدَها (صحيح مسلم:١١٦٢)

اللہ کی ذات سے امید ہے کہ عرفہ کے روزے کی وجہ سے اگلے اور پچھلے دو سالوں کا گناہ معاف کر دیں گے

عرفہ کے دن کی دعا

عمرو بن شعیب کی سند سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!

خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 

سب سے بہتر دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور میں نے اور مجھ سے پہلے دوسرے نبیوں نے سب سے اچھی جو دعا کی ہے وہ ہے "لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير (ترمذي: ٣٥٨٥ حسن لشواهده)

اور محدث ط طبرانی نے اس حدیث کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں

افضل ما قلت والنبيون قبلي عشية عرفة لا اله الا الله… الى آخره

عرفہ کی شام میں سب سے بہتر دعا جو میں نے کی ہے اور مجھ سے پہلے کے نبیوں نے کی ہے وہ لا اله الا الله۔۔۔ (آخر تک) ہے (اس کی سند جید ہے)

اور امام احمد بن حنبل نے قابل اعتماد راویوں کی سند سے یہ الفاظ نقل کئے ہیں

كان اكثر دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة لا اله الا الله وحده لا شريك له… إلى آخره

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کے دن زیادہ تر ان الفاظ میں دعا کرتے تھے لا اله الا الله وحده لا شريك له۔۔۔ (آخر تک)

(دونوں روایتوں اور ان پر کلام کے لئے دیکھیے "تحفةالاحوذی”)

 

عظیم تر دن:

حضرت عبداللہ بن قرط کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اعظم الايام عند الله يوم النحر (مسنداحمد: ١٩٠٧٥ ،ابو داؤد: ١٨٦٥)

اللہ تعالی کی نگاہ میں سب سے عظیم دن قربانی کا دن ہے

دسویں ذوالحجہ یعنی قربانی کے دن نہانا، عمدہ کپڑا پہننا اور خوشبو لگانا مستحب ہے،اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ عید فطر کے دن کچھ کھا کر عید گاہ جاتے اور عید قرباں کے دن کچھ کھائے پئے بغیر عیدگاہ جاتے اور واپس آنے کے بعد قربانی کا گوشت تناول فرماتے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

ولا يغدوا يوم الفطر حتى يأكل ولا يأكل يوم الاضحى حتى يرجع فياكل من اضحيته (مسنداحمد: ٢٢٩٨٤ ،ترمذى: ٥٤٢) 

عید فطر اور عید قرباں کی نماز عید گاہ میں پڑھنا مسنون ہے بلاضرورت مسجدوں میں عید کی نماز پڑھنا خلاف سنت ہے

حضرت ابو سعید خذری سے منقول ہے:

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر والاضحى الى المصلى (صحيح بخاري:٩٥٦)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطر اور عید قربان میں عید گاہ جایا کرتے تھے

عیدگاہ پیدل چلنا اور پیدل واپس آنا بھی سنت ہے حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں:

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم العيد ماشيا ويرجع ماشيا (ابن ماجه: ١٢٩٥)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن پیدل جاتے اور پیدل واپس آتے

عیدگاہ جاتے اور واپس آتے ہوئے بلند آواز سے تکبیر کہنا چاہیے اور اس معاملے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے افسوس یہ ہے کہ یہ سنت آہستہ آہستہ متروک ہوتی جا رہی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کی ایک راستے سے عیدگاہ جاتے اور پھر دوسرے راستے سے واپس آتے تاکہ قیامت کے دن اللہ کے حضور دونوں راستے اس کے حق میں گواہی دیں اور متعدد جگہوں پر اللہ کی کبریائی کا اعلان ہو 

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:

كان النبي صلى الله عليه وسلم اذا كان يوم العيد خالف الطريق (صحيح بخاري: ٩٨٦)

اور عید کی نماز کے سلسلے میں علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید فطر کی نماز تاخیر سے اور عید قرباں کی نماز جلدی پڑھا کرتے تھے (زادالمعاد جلد١/ص ٤٢٥)

لہذا عید قرباں کی نماز  جلدی پڑھنی چاہیے تاکہ لوگ جلد سے جلد قربانی کر سکیں

مبارکباد دینا

محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ باہلی اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خدمت میں رہا ہوں وہ لوگ عید کی وہ لوگ عید کی نماز سے واپس آتے ہوئے ایک دوسرے سے کہتے تھے

تقبل الله منا ومنكم

اللہ تعالی ہمارے اور آپ کے نیک اعمال کو قبول کرے

قربانی:

جانور کی قربانی کا طریقہ حضرت آدم علیہ السلام کے عہد مبارک سے چلا آرہا ہے چنانچہ قرآن مجید میں ہے

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (سورةالمائدة: ٢٧)

اور اے پیغمبر ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگی اور دوسرے کے قبول نہیں ہوئی اس (دوسرے) نے پہلے سے کہا میں تجھے قتل کروں گا پہلے نے کہا کہ اللہ تو ان لوگوں کی قربانی قبول کرتا ہے جو تقوی والے ہوں

 حضرت عبداللہ بن عباس سے عمدہ سند کے ساتھ منقول ہے جس بیٹے کی قربانی قبول ہوئی تھی اس نے ایک مینڈھے کی قربانی دی تھی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ کے طور پر جنت سے یہی مینڈھا لایا گیا تھا کہ (تفسیر ابن کثیر)

اور یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب میں جانور کی قربانی کا تصور موجود ہے ،خود کلام پاک میں کہا گیا ہے:

وَلِكُلِّ أُمَّةٍۢ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَٰمِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَٰحِدٌ فَلَهُۥٓ أَسْلِمُواْ ۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُخْبِتِينَ (سورةالحج: ٣٤)

اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی اس لئے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں ،تو تمہارا معبود صرف ایک ہے لہذا صرف اس کی فرمانبرداری کرو اور خوش خبری سنا دو ان لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوتے ہیں 

اور اس کے آگے فرمایا گیا:

لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنْكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ (سورة الحج: ٣٧)

اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اس نے یہ جانور اس لیے تمہارے تابع بنا دیئے ہیں تاکہ تم اس پر اللہ کی کبریائی اور بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں انہیں خوش خبری سنا دو

یعنی قربانی اللہ کے حکموں کے سامنے سرتسلیم خم کر دینے اور خود سپردگی و فدا کاری کی علامت ہے اور اس بات کا خاموش عہد ہے کہ جس طرح سے ہم نے تیرے حکم پر جانور کی قربانی پیش کی ہے اسی طرح سے تیری رضا کی خاطر ہم اپنی گردن کٹانے اور اپنے مال کو لٹانے کے لیے بالکل تیار ہیں اور جس طرح سے ہم نے جانور کے گلے پر چھری چلا دی ہے اسی طرح سے نفس و شیطان کے مکر و فریب کی گردن پر بھی چھری چلا دیں گے

اور اس حقیقت کا اظہار و اعلان ہے کہ ہمارا سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے اس لئے سب کچھ اس کے لئے قربان ہے 

قل ان صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين (سورةالانعام: ١٦٢)

کہہ دو کہ بے شک میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے

لہذا ہم نماز کے لیے وقت اور راحت اور تجارت، اور زکوۃ کے لئے مال و دولت اور روزے کے لئے بھوک اور پیاس اور حج کے لئے وقت، مال و دولت اور آرام راحت اور جہاد کے لئے جان و مال کی قربانی کے لیے بخوشی آباد ہیں

جیسا کہ گزر چکا ہے کہ ہر قوم و ملت میں بحثیت عبادت قربانی کا تصور موجود ہے مگر ان میں اس کی حیثیت محض رسم کی رہ گئی بلکہ اس کی حقیقت تبدیل کر دی گئی اور اللہ عزوجل کے نام کے بجائے دیوی اور دیوتاؤں کے لئے قربانی کی جانے لگی جانور کے خون کو بتوں کے چہروں پر ملا جانے لگا یہاں تک کہ بیت اللہ کی دیواریں بھی ان کے خون سے آلودہ کی جانے لگیں تو قرآن حکیم میں سختی سے اس کی تردید کی گئی اور حکم دیا گیا کہ جس طرح سے اللہ عزوجل کے علاوہ کسی کے لئے سجدہ نہیں کیا جاسکتا اسی طرح سے غیر اللہ کے نام قربانی بھی نہیں کی جاسکتی

"فصل لربك وانحر” لہذا تم اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو

اور قربانی کی اسی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ہمیشہ قربانی کرتے رہے اور ارشاد و عمل کے ذریعہ دوسروں کو اس کی ترغیب دیتے رہے حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن كان له سَعَة، ولمْ يُضَحِّ، فلا يَقْرَبَنّ مُصَلّانا (احمد: ٨٢٧٣، ابن ماجه: ٣١٢٣، حدیث حسن ہے)

جو شخص کو وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ما عملَ ابن آدم يومَ النَّحرِ أحبُّ إلى اللهِ من إهراقِ الدَّمِ (ترمذى: ١٤٩٣، وقال حسن غريب)

اللہ کی نگاہ میں قربانی کے دن خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں 

 

کھانے پینے اور ذکر کے ایام

اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں:

وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ (سورةالبقرة: ٢٠٣)

اور گنتی کے چند دنوں میں اللہ کو یاد کرتے رہو

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ گنتی کے چند دنوں سے مراد ایام تشریق ہیں حضرت عبداللہ بن عباس اسی کے قائل ہیں اور ان کے شاگرد ہیں عکرمہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایام تشریق میں پنج وقتہ نمازوں کے بعد الله اكبر، الله اكبر کہا جائے (تفسير ابن كثير)

 

اور حضرت نبیشہ هذلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ايام التشريق ايام واكل وشرب وذكر الله (صحيح مسلم: ١١٤١)

تشریق کے ایام کھانے پینے اور اللہ کو یاد کرنے کے دن ہیں

اور علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

جمہور سلف، فقہاءصحابہ اور ائمۂ مجتہدین کہتے ہیں کیا عرفہ کے دن کی فجر سے تشریق کے آخر دن تک ہر نماز کے بعد تکبیر تشریق کہی جائے نیز عید کی نماز کے لیے جاتے وقت ہر شخص بلند آواز سے تکبیر کہے (مجموع فتاوی: جلد ٢٤/ص٢٢٠ 

(8)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

*ہفتے کی عید 

جمعہ کی فضیلت 

جمعہ ہفتے کی عید کا دن ہے اور عید کے دنوں میں اللہ کی عظمت و کبریائی کے اعتراف واعلان اور حمد و ذکر کرنے کی بڑی اہمیت و فضیلت  ہے۔

 چناں چہ قرآن پاک میں ہے:

 

 *یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۹﴾ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ  ﴿١٠﴾*

ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپک کے جاؤ او اور خرید و فروخت چھوڑ دو دو یہ تمہارے لئے بہتر ہے ہے، اگر تم سمجھو۔ پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی نصیب ہو۔

اور حضرت حذیفہ اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

*أضل الله عن الجمعة من كان قبلنا فكان لليهود يوم السبت وكان للنصارى يوم الأحد فجاء الله بنا فهدانا الله ليوم الجمعة فجعل الجمعة والسبت والأحد وكذلك هم تبع لنا يوم القيامة نحن الآخرون من أهل الدنيا والأولون يوم القيامة المقضي لهم قبل الخلائق*

*(صحيح مسلم:٨٥٦ صحيح بخاري:٨٩٦)*

ہم سے پہلے کے لوگ جمعہ کی حیثیت و اہمیت کو نہیں جان سکے اور اللہ تعالی نے انہیں اس سے ناواقف رکھا اس لئے یہودیوں نے سنیچر کے دن کو اور نصرانیوں نے اتوار کے دن کو اپنے لیے پسند کیا،پھر ہم آئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی، اور دنوں کی ترتیب اس طرح سے بنائی جمعہ سنیچر اور اتوار، اسی طرح سے قیامت کے دن وہ ہمارے تابع ہوں گے ہم دنیا میں سب سے آخر میں آئے لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے لہذا ہمارے حق میں سب سے پہلے فیصلہ ہوگا۔

اور امام مالک نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*”يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ ، إِنَّ هَذَا يَوْمٌ جَعَلَهُ اللَّهُ عِيدًا لِلْمُسْلِمِينَ ، فَاغْتَسِلُوا ، وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طِيبٌ فَلَا يَضُرُّهُ أَنْ يَمَسَّ مِنْهُ ، وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ "*(المؤطا:143باب السواک)

مسلمانو! اس دن کو اللہ تعالی نے عید قرار دیا ہے لہذا اس دن غسل کیا کرو اور اگر کسی کے پاس عطر ہے تو اسے لگانے میں کوئی حرج نہیں اور مسواک کو لازم پکڑ لو.

اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

*عُرِضتِ الجمعةُ على رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ جاءَهُ جبريلُ عليه السلام في كفِّهِ كالمرآةِ البيضاءِ في وسطِها كالنُّكتةِ السَّوداءِ فقالَ : ما هذا يا جبريلُ ؟ قالَ : هذِهِ الجمعةُ يعرضُها عليكَ ربُّكَ لتَكونَ لَكَ عيدًا ولقومِكَ من بعدِكَ ، ولَكُم فيها خيرًا تَكونُ أنتَ الأوَّلَ وتكونُ اليَهودُ والنَّصارى من بعدِكَ ، وفيها ساعةٌ لا يدعو أحدٌ ربَّهُ فيها بخيرٍ هوَ لَهُ قسمٌ إلَّا أعطاهُ ، أو يتعوَّذُ من شرٍّ إلَّا دُفِعَ عنهُ ما هوَ أعظمُ منهُ ، ونحنُ نَدعوهُ في الآخرةِ يومَ المزيدِ* 

*(الترغيب ج١/ص٣١٦ حسن صحيح)*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمعہ کے دن کو لایا گیا،اسے جبرئیل امین علیہ السلام اپنے ہاتھ میں لے کے آئے وہ ایک سفید آئینے کی طرح تھا جس کے درمیان ایک سیاہ نقطہ تھا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جبریل یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یہ جمعہ ہے، جسے آپ کے رب نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ کے لئے اور آپ کے بعد آپ کی قوم کے لئے عید کا دن بن جائے اور آپ کے لئے اس میں خیر ہے، آپ اس معاملے میں سب س پہلے ہیں اور یہود و نصاریٰ اپ کے بعد ہیں (جمعہ پہلے ہے اور سنیچر اتوار اس کے بعد ہے) اس میں ایک ایسا وقت بھی ہے جو بھی اس میں کسی بھلائی کی دعا کرے گا تو قسمت میں ہوگی تو مل کر رہے گی اور اگر کسی شر سے پناہ چاہے گا تو اس سے بڑے شر کو دور کر دیا جائے گا اور ہم آخرت میں اسے اضافہ کا دن کہتے ہیں

 

*سب سے بہتر دن*

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا:

*خَيْرُ يومٍ طَلَعَتْ عليه الشمس يومُ الجُمعة: فيه خُلِقَ آدَم، وفيه أُدْخِلَ الجَنة، وفيه أُخْرِجَ منها* *(صحيح مسلم:٨٥٤)*

دنیا کے دنوں میں سب سے بہتر دن جمعہ ہے، اسی دن حضرت آدم بنائے گئے، اور اسی دن جنت میں داخل کئے گئے، اور اسی دن دنیا میں بھیجے گئے

حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*إن يوم الجمعة سيد الأيام، وأعظمها عند الله، وهو أعظم عند الله من يوم الأضحى ويوم الفطر، فيه خمس خلال، خلق الله فيه آدم، وأهبط الله فيه آدم إلى الأرض، وفيه توفى الله آدم، وفيه ساعة لا يسأل الله فيها العبد شيئا إلا أعطاه، ما لم يسأل حراما، وفيه تقوم الساعة، ما من ملك مقرب، ولا سماء، ولا أرض، ولا رياح، ولا جبال، ولا بحر، إلا وهن يشفقن من يوم الجمعة* 

*ابن ماجه:١٠٨٤ قال العراقي اسناده حسن)*

اللہ کی نگاہ میں جمعہ کا دن سب دنوں کا سردار اور سب سے زیادہ باعظمت ہے اللہ کے نزدیک وہ عید فطر اور عید قرباں کے دن سے بھی زیادہ عظمت والا ہے، اس میں پانچ خصوصیتیں ہیں اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اسی دن بنایا اور اسی دن زمین پر انہیں اتارا اور اسی دن وفات پائیں گے اور اس میں ایک ایسا وقت ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ سے بندہ جو کچھ مانگتا ہے وہ اسے عطا کر دیا جاتا ہے جب تک کہ وہ حرام کا سوال نہ کرے اور اسی دن قیامت آئے گی، مقرب فرشتے، آسمان، زمین، ہوا، پہاڑ اور سمندر سب جمعہ کے دن سے خوفزدہ رہتے ہیں

 

*قبولیت کی گھڑی*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کا تذکرہ کیا اور فرمایا:

*فيه ساعةٌ، لا يُوافِقُها عبدٌ مسلمٌ، وهو قائمٌ يُصلِّي يَسأَلُ اللهَ تعالى شيئًا، إلا أعطاه إياه  وأشار بيدِه يُقَلِّلُها* *بخارى: ٩٣٥ مسلم ٨٥٢)*

اس میں ایسا وقت ہے کہ اگر کوئی مسلمان نماز کی حالت میں اسے پالے اور اللہ تعالیٰ سے اس میں دعا کرے تو اسے ضرور نوازا جائے گا اور آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ وہ وقت بہت تھوڑا سا ہے

قبولیت کی اس گھڑی کے سلسلے میں روایتوں میں اختلاف ہے ،حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*هي ما بين أن يجلس الإمام إلى أن تقضى الصلاة* 

*(صحيح مسلم ٨٥٣)*

وہ وقت امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر نماز ختم ہونے تک ہے۔

 اس روایت کو بعض لوگوں نے اضطراب  اور انقطاع کی بنیاد پر ضعیف قرار دیا  ہے ( دیکھئے فتح الباری ج٢/ص٤٢١وغیرہ)

اور حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت جابر سے منقول حدیث کے مطابق وہ وقت عصر کے بعد ہے (دیکھئے مسند احمد ،ابو داؤد ١٠٨٤،نسائى ١٣٨٩، حاكم ج١/ص٢٧٩وغيره) اور حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ صحابہ کرام میں سے کچھ لوگ ایک جگہ جمع ہوئے اور جمعہ کے دن کے خاص وقت کے بارے میں گفتگو ہونے لگی پھر وہ اس حالت میں وہاں سے روانہ ہوئے کہ سب متفق تھے کہ وہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے (رواہ سعید بن منصور و صححه الحافظ فتح البارى ج٢/ص٤٢١)

اور حضرت عبداللہ بن سلام کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ سے دریافت کیا کہ وہ کس وقت ہے؟ آپ نے فرمایا:

*هي آخر ساعات النهار قلت انها ليست ساعةصلاة قال بلى ان العبد المؤمن إذا صلى ثم جلس لا يحبسه الا الصلاة فهو فى الصلاة*

*(ابن ماجه ١١٣٩، حسن صحيح نیز دیکھئے مؤطا ٢٩١،سنن نسائى ١٤٣٠)*

وہ دن کی آخری گھڑیاں ہیں، میں نے عرض کیا: وہ تو نماز کے اوقات نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں ؟مومن بندہ جب نماز پڑھ کر پھر وہیں صرف نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔

عصر کے بعد کا وقت ایک بابرکت وقت ہے ،یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے نازل ہونے کا وقت ہے اور بعض حدیثوں میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمعہ کے دن عصر کے بعد ہوئی (دیکھئے صحیح مسلم ٢٧٨٩)

 

اور امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ زیادہ تر احادیث سے عصر کے بعد کی تائید ہوتی ہے (دیکھئے الترغیب والترہیب ج١/ص٣٢١)

اور صحابہ کرام کے درمیان بھی اس پر تقریباً اتفاق ہے اس لئے یہی صحیح ہے (دیکھئے فتح الباری وغیرہ)

 

*جمعہ کی رات اور دن میں درود و سلام پڑھنا*

حضرت اویس ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*إن من افضل ايامكم يوم الجمعة ،فيه خلق آدم و فيه قبض و فيه النفخةوفيه الصَّعقةُ ، فأكثِروا عليَّ من الصَّلاةِ فيه ، فإنَّ صلاتَكم معروضةٌ عليَّ . قالوا وكيف تُعرضُ صلاتُنا عليك وقد أَرِمتَ فقال إنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ حرَّم على الأرضِ أن تأكلَ أجسامنا (ابو داوود، نسائى، ابن ماجه، ابن حبان، الترغيب ج١/ص٣١٧ صحيح)*

دنوں میں سب سے بہتر جمعہ ہے اسی دن حضرت آدم بنائے گئے، اور اسی میں ان کی وفات ہوئی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور لوگوں پر بے ہوشی طاری ہو گی اس لیے اس دن کثرت سے مجھ پر درود پڑھا کرو اس لیے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے صحابہ کرام نے عرض کیا: آپ پر درود کیسے پیش کیا جائے گا حالاں کہ آپ کا جسم مبارک مٹی میں مل چکا ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل نے زمین کے لئے ہمارے جسموں کے کھانے کو حرام کردیا ہے۔

اور حضرت ابو درداء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة؛ فإنه مشهود، تشهده الملائكة، وإن أحدا لن يصلي علي، إلا عرضت علي صلاته، حتى يفرغ منها قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: وبعد الموت، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء، فنبي الله حي يرزق* 

*(ابن ماجه ١٦٣٧،)*

علامہ سندھی نے لکھا ہے کہ حدیث کی سند دو جگہوں سے منقطع ہے (حاشیہ السندی علی ابن ماجہ،)اور علامہ منذری کہتے ہیں کہ ابن ماجہ کی سند جید ہے اور البانی نے حسن لغیرہ قرار دیا ہے الترغیب ج٢/ص٦٨٤)

جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو کوئی بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ میرے سامنے ضرور لایا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ درود سے فارغ ہوجائے حضرت ابو درداء نے دریافت کیا ،وفات کے بعد بھی؟ فرمایا: وفات کے بعد بھی، کیونکہ اللہ تعالی نے زمین پر انبیاء کے جسموں کے کھانے کو حرام کردیا ہے، تو اللہ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے۔

اور حضرت ابو امامہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*أَكْثِرُوا عليَّ مِنَ الصَّلاةِ في يومِ الجمعةِ ؛ فإنَّ صَلاةَ أُمَّتي تُعْرَضُ عليَّ في كلِّ يومِ جُمُعَةٍ ، فمَنْ كان أكثرَهُمْ عليَّ صَلاةً ؛ كان أَقْرَبَهُمْ مِنِّي مَنْزِلَةً* *(الترغيب ج٢/ص٦٩٤ حسن لغیرہ)*

جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ میری امت کا درود جمعہ کے دن میرے سامنے لایا جاتا ہے لہذا جو کوئی مجھ پر زیادہ درود بھیجے گا اس کا درجہ مجھ سے زیادہ قریب ہوگا۔

اور حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*اكثروا الصلاة في يوم الجمعة فمن صلى علي صلاة صلى الله عليه عشراً (رواه البيهقي في السنن الكبرى ٥٧٩٠ وقال النووى اسناده حسن خلاصة الاحكام ج٢/ص٨١٤)*

جمعہ کے دن اور رات میں مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل کرتے ہیں۔

اور علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھنے کو پسند کیا کرتے تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے زید بن وہب سے کہا ہے کہ جمعہ کے دن ایک ہزار مرتبہ درود پڑھنے کو ترک مت کرنا (جلاء الافہام/ص٨٨)

نیز لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کے سردار ہیں اور جمعہ تمام دنوں کا سردار ہے لہذا اس دن آپ پر درود بھیجنا آپ کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں ہے اور دوسری حکمت یہ ہے کہ امت مسلمہ کو دنیا و آخرت کی جو بھی نیکی اور بھلائی ملی ہے وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ملی ہے اور اللہ تعالی نے اس امت کو دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں اور اچھائیوں سے نوازا ہے اور انھیں سب سے اہم کرامت و شرافت جمعہ کے دن حاصل ہوگی کیونکہ اسی دن وہ جنت کے اپنے محلوں میں پہنچیں گے اور جنت میں داخل ہونے کے بعد یہ دن اللہ تعالی کی طرف سے نعمتوں اور نوازشوں میں اضافے کا دن ہوگا اور دنیا میں یہ ان کے لیے عید کا دن ہے اس دن تعالی ان کی ضرورتیں اور خواہشیں پوری کرتے ہیں اور ان کی دعا و درخواست رد نہیں کی جاتی ان تمام چیزوں کی معرفت اور حصول آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ہوا ہے لہذا آپ کی تعریف و توصیف، شکر گزاری اور حق کی ادائیگی کے لیے اس دن اور رات میں زیادہ سے زیادہ آپ پر درود بھیجنا چاہیے۔

 

*سورةالكهف پڑھنا*

حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعه اضاءله من النور ما بين الجمعتين.  رواه النسائى والبيهقى والحاكم*

*وعن ابي سعيد موقوفا من قرأ سوره الكهف ليلة الجمعة اضاء له من النور ما بينه و بين البيت العتيق رواه الدارمى (الترغيب ج١/ص٣٣٢)*

جو شخص جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھ لے تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس کے لئے روشنی رہے گی (نسائی ،بیہقی، حاکم) اور حضرت ابو سعید خدری کا قول ہے کہ جو کوئی جمعہ کی رات میں سورہ کہف پڑھ لے تو اس کے اور کعبہ کے درمیان کا حصہ روشن ہو جائے گا (دارمی)

اور حضرت عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة سطع له نور من تحت قدمه إلى عنان السماء يضئ له يوم القيامة وغفر له ما بين الجمعتين*- *رواہ ابو بكر ابن مردويه بسند لا باس به (الترغيب ج١/ص٣٣٣)*

جو کوئی جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھ لے تو اس کے قدم سے لے کر آسمان تک روشنی کی لکیر کھینچ دی جاتی ہے جو قیامت کے دن اس کے لیے روشن ہوگی اور اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس کی مغفرت کردی جاتی ہے

 

*رشتہ توڑنے کی نحوست*

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ

*إن أعمال بني آدم تعرض كل خميس ليلة الجمعة، فلا يقبل عمل قاطع رحم* *(مسنداحمد ١٠٢٧٢حسن*

ہر جمعہ کی رات میں انسانوں کے اعمال اللہ تعالی کو پیش کیے جاتے ہیں لیکن وہ رشتہ توڑنے والے کے عمل کو قبول نہیں کرتے ہیں۔

 

*جمعہ کے دن تجارت و حرفت*

اللہ تعالی نے جمعہ کی اذان کے وقت خرید و فروخت سے منع کیا ہے اور اذان سن کر مسجد جانے کا حکم دیا ہے البتہ نماز کے بعد تجارت وغیرہ کی اجازت دی ہے صحابی رسول حضرت عراک بن مالک کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے اور یہ دعا کرتے

*اللهم إني أجبت دعوتك وصليت فريضتك وانتشرت فی الارض كما أمرتني فارزقني من فضلك وأنت خير الرازقين۔  (تفسير قرطبى ج١٨/ص١٠٨)*

اے اللہ میں نے آپ کی پکار کا جواب دیا اور آپ کے فریضے کو ادا کیا اور آپ کے حکم کے مطابق باہر جا رہا ہوں لہٰذا آپ مجھے اپنے فضل سے روزی عطا کر دیجئے آپ سب سے بہتر رزق عطا کرنے والے ہیں

 

*جمعہ کے دن روزہ*

جمعہ کا دن ہفتے کی عید ہے اس لیے صرف جمعہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے البتہ جمعہ کے ساتھ جمعرات یا سنیچر کا روزہ بھی رکھا جائے تو کوئی کراہت نہیں یہی حکم اس وقت بھی ہے جب کوئی کسی متعین تاریخ میں روزہ رکھتا ہو اور وہ تاریخ جمعہ کے دن آجائے یا عرفہ اور عاشورا کا روزہ جمعہ کے دن پڑ جائے تو ان تمام صورتوں میں تنہا جمعہ کا روزہ مکروہ نہیں ہے۔

ام المؤمنین حضرت جویریہ بنت حارث بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس جمعہ کے دن آئے اور وہ روزہ سے تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:

*أصمت أمس؟ قالت: لا، قال: «تريدين أن تصومي غدا؟ قالت: لا، قال: فأفطري۔  صحیح بخاری١٩٨٦)*

کیا تم نے کل روزہ رکھا تھا؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: کل روزہ رکھنے کا ارادہ ہے؟ عرض کیا: نہیں۔ 

فرمایا: تب روزہ توڑ دو!

اور حضرت عامر اشعری کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا:

*إن يوم الجمعة عيدكم فلا تصوموه إلا أن تصوموا قبله أو بعده۔ (بزار ١٠٦٩ هيثمى فى المجمع ج٣/ص١٩٩حسن)*

جمعہ تمہاری عید کا دن ہے لہٰذا اس میں روزہ مت رکھو الا یہ کہ اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھو

اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*لا يصوم احدكم يوم الجمعة الا يوما قبله او بعده*. *(صحيح بخاري ١٩٨٥. صحيح مسلم ١١٤٤)*

صرف جمعہ کا روزہ مت رکھو مگر یہ کہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی رکھو 

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*لا تخصُّوا ليلةَ الجمعةِ بقيامٍ من بينِ الليالي ، ولا تختَصوا يومَ الجمعةِ بصيامٍ من بينِ الأيامِ إلا أن يكونَ في صومٍ يصومُه أحدُكم۔ (صحيح مسلم ١١٤٤)*

راتوں میں سے خاص کر جمعہ کی رات میں تہجد مت پڑھو اور دنوں میں سے صرف جمعہ کے دن روزہ مت رکھو مگر یہ کی جمعہ اس تاریخ کو آ جائے جس میں کوئی روزہ رکھا کرتا ہے۔

 اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جو کوئی نفلی روزہ رکھنا چاہے تو وہ جمعرات کے دن رکھے اور جمعہ کے دن نہ رکھے کیوں کہ وہ کھانے پینے اور ذکر کرنے کا دن ہے  (مصنف ابن ابی شیبہ ج١/ص٤٤ حسن)

 

*جمعہ کی سنتیں اور آداب*

جمعہ کے دن غسل کرنا، اچھے سے اچھا کپڑا پہننا، خوشبو لگانا اور مسواک کرنا مسنون ہے،حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*لاَ يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الجُمُعة وَيَتَطهّرُ مَا اسْتَطاعَ منْ طُهر وَيدَّهنُ منْ دُهْنِهِ أوْ يَمسُّ طِيب بَيْته ثُمَّ يَخْرُجُ فَلاَ يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنينْ ثُمَّ يُصَلّي ما كُتِبَ له ُ ثُمَّ يُنْصِتُ إذَا تَكَلَّمَ الإمامُ إِلاَّ غُفِرَ لهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيَن الجمُعَةِ الأُخْرَى. (بخاري ونسائي الترغيب ج١/ص٣١٥)*

جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور جہاں تک ہو سکے صفائی اور ستھرائی حاصل کرے، بالوں میں تیل لگائے اور گھر پر موجود خوشبو استعمال کرے اور پھر مسجد جائے اور مل کر بیٹھے ہوئے ہیں دو لوگوں کے درمیان میں نہ بیٹھے پھر جتنی رکعتیں مقدر میں ہیں انہیں پڑھے اور جب امام خطبہ دے تو خاموش رہے تو اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

جمعہ کے دن صبح سویرے مسجد میں جانے اور وہاں جا کر ذکر و تلاوت اور نماز میں مشغول رہنے کی بڑی فضیلت ہے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح خوب اہتمام سے غسل کرے پھر جمعہ کے لیے جائے تو اس کے لئے اونٹ قربان کرنے کا ثواب ہے اور جو دوسری گھڑی میں جائے اس کے لئے گائے قربان کرنے کا ثواب ہے اور جو کوئی تیسری گھڑی میں جائے تو اس کے لئے سینگ والے مینڈھے کو قربان کرنے کا ثواب ہے اور جو کوئی چوتھی گھڑی میں جائے تو گویا اس نے مرغی کو قربان کیا اور جو کوئی پانچویں گھڑی میں جائے تو گویا اس نے انڈے کو قربان کیا اور جب امام خطبہ کے لئے آ جاتا ہے تو فرشتے ذکر سننے کے لیے آجاتے ہیں۔ (صحیح بخاری ٨٨١، صحیح مسلم ٨٥٠)

(9)

 

*رحمت و مغفرت کے ایام*

سوموار اور جمعرات کی اہمیت 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*تفتح أبواب الجنة يوم الاثنين ويوم الخميس فيغفر لكل عبد لا يشرك بالله شيئا إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناء فيقال أنظروا هذين حتى يصطلحا أنظروا هذين حتى يصطلحا أنظروا هذين حتى يصطلحا (صحیح مسلم ٢٥٦٥)

سوموار اور پنج شنبہ کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا ہے ہے سوائے اس شخص کے جس کی اپنے بھائی سے دشمنی ہو تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے ہے ان دونوں کو چھوڑ دو دو یہاں تک کہ دونوں صلح کرلیں ،ان دونوں کو چھوڑ دو دو یہاں تک کہ وہ صلح کر لیں ، ان دونوں کو چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ صلح کر لیں

اور انہیں سے منقول ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

 

*تُعرض الأعمال في كل يوم خميس واثنين فيغفر الله عز وجل في ذلك اليوم لكل امرئ لا يشرك بالله شيئاً، إلا امرأ كانت بينه وبين أخيه شحناء، فيقال أركوا هذين حتى يصطلحا، أركوا هذين حتى يصطلحا (صحيح مسلم ٢٥٦٥)*

پنج شنبہ اور دو شنبہ کو اللہ کے حضور اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور اللہ تعالی ہر اس شخص کی مغفرت کر دیتے ہیں جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا ہے سوائے اس شخص کے جس کی اپنی بھائی سے دشمنی ہو تو کہا جاتا ہے ان کے معاملے کو ٹال دو یہاں تک کہ یہ صلح کرلیں ان کے معاملے کو ٹال دو یہاں تک کہ یہ صلح کرلیں۔

اللہ تعالی ہر شخص کے عمل سے واقف ہیں یہاں تک کہ دلوں کے بھید کو بھی جانتے ہیں لیکن انہوں نے ہر چیز کا ایک نظام بنا رکھا ہے اور اسی سسٹم کے اعتبار سے دوشنبہ اور پنج شنبہ کو اس کی بارگاہ میں اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور جو شخص ہفتے بھر شرک سے بری رہا اس کی مغفرت کا اعلان کر دیا جاتا ہے یعنی ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا اگر اس سے معصیت صادر ہوئی ہے تو اس کی سزا بھگت کر جنت میں ضرور داخل ہوگا لیکن اگر کوئی شخص بغض و عداوت میں مبتلا ہے تو اس کے لئے مغفرت کا اعلان نہیں کیا جاتا کیونکہ دوسرے گناہوں کی بہ نسبت یہ اندیشہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ اسے کفر و شرک تک پہنچا دے گا مگر دشمنی اور نفرت کے بارے میں خطرہ ہوتا ہے کہیں اس کی آگ میں تپ کر کفر و شرک میں مبتلا نہ ہو جائے اس لیے صلح کرنے تک ان کے جنتی ہونے کا فیصلہ روک لیا جاتا ہے۔

اور حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ دو شنبہ اور پنج شنبہ کو عام طور پر روزہ رکھا کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*ذانك يومان تعرض فيها الاعمال على رب العالمين فاحب ان يعرض عملي وانا صائم (نسائي ٢٤٥٨صحيح)*

ان دو دنوں میں پروردگار عالم کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال روزہ کی حالت میں پیش کیے جائیں۔

اور حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو شنبہ کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

*فيه ولدت وفيه انزل علي (صحيح مسلم ١١٦٢)*

اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی

 

*سنیچر کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت*

 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

*لاتصوموا يوم السبت إلا فيما افترض الله عليكم، وان لم يجد أحدكم إلا لحاء عنبة أو عود شجرة فليمضغه (ابو داوود٢٤٢١، ترمزي٧٤٤، ابن ماجه١٧٢٦- صحيح)*

سنیچر کے دن فرض روزے کے علاوہ کوئی اور روزہ مت رکھو اگر اس دن کھانے کے لئے صرف انگور کا چھلکا یا درخت کی لکڑی ملے تو اسے ہی چبا لو 

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف سنیچر کا روزہ ممنوع ہے،اس لئے سنیچر اور اتوار دو دن روزہ رکھنے میں کوئی کراہت نہیں ہے بلکہ ان دو دنوں کا روزہ حدیث سے ثابت ہے چنانچہ حضرت ام سلمہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے سنیچر اور اتوار کا روزہ رکھا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ

 

*انهما عيدا المشركين فانا احب ان اخالفهم (مسند احمد٢٦٧٥٠- حسن)*

یہ دو دن مشرکوں کے عید کے دن ہیں اس لیے میں ان کے خلاف کرنا چاہتا ہوں-

(10)

*مختلف دنوں سے متعلق روایت*

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*خلق الله التربة يوم السبت، وخلق فيها الجبال يوم الأحد، وخلق الشجر يوم الاثنين، وخلق المكروه يوم الثلاثاء، وخلق النور يوم الأربعاء، وبث فيها الدواب يوم الخميس، وخلق آدم بعد العصر من يوم الجمعة، في آخر ساعة من ساعات الجمعة فيما بين العصر إلى الليل (صحيح مسلم ٢٧٨٩)*

اللہ تعالی نے زمین کو سنیچر کے دن پیدا کیا، اتوار کے دن اس میں پہاڑ اگائے، سوموار کے دن درخت لگائے، ناپسندیدہ چیزوں کو منگل کے دن پیدا کیا،روشنی بدھ کے دن بنایا، جمعرات کے دن جانوروں کو پیدا کیا اور آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد بنایا جمعہ کے اوقات میں سے بالکل آخری وقت میں عصر سے لے کر مغرب کے درمیان میں۔

امام نووی نے لکھا ہے کہ بعض روایتوں میں مکروہ کی جگہ "التقن” ہے یعنی اللہ تعالی نے منگل کے دن تقن کو بنایا اور تقن سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے انسان کی زندگی برقرار رہے اور حاصل یہ ہے کہ اس دن دونوں چیزیں پیدا کی گئیں (المنہاج ج٩/ص٧٣)

(11)

* سنت و نفل روزہ  *

 

رمضان کے‌ تقاضے کو ذہنوں میں تازہ اور اس کے پیغام کو یاد رکھنے کی خاطر متعدد مواقع پر روزہ رکھنے کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے تاکہ رمضان کا مہینہ ہماری پوری زندگی کے لئے ایک بہترین نمونہ بن جائے اور ہماری بقیہ زندگی اللہ کی بندگی اور پرہیزگاری اور تقوا کے ساتھ بسر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 

اِنَّ الۡمُسۡلِمِيۡنَ وَالۡمُسۡلِمٰتِ وَالۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡقٰنِتِيۡنَ وَالۡقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيۡنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيۡنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالۡخٰشِعِيۡنَ وَالۡخٰشِعٰتِ وَالۡمُتَصَدِّقِيۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِيۡنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ  وَالۡحٰـفِظِيۡنَ فُرُوۡجَهُمۡ وَالۡحٰـفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيۡنَ اللّٰهَ كَثِيۡرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا ۞ 

بیشک فرمانبردار مرد ہوں یا فرمانبردار عورتیں مومن مرد ہوں یا مومن عورتیں، عبادت گزار مرد ہوں یا عبادت گزار عورتیں، سچے مرد ہوں یا سچی عورتیں، صابر مرد ہوں یا صابر عورتیں، دل سے جھکنے والے مرد ہوں یا دل سے جھکنے والی عورتیں صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا صدقہ کرنے والی عورتیں، روزہ دار مرد ہوں یا روزہ دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد ہوں یا حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد ہوں یا ذکر کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور شاندار اجر تیار کر رکھا ہے۔(سورہ الاحزاب: 35)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

* روزہ کے سواانسان کے ہر نیک عمل کا دس گنا سے لیکر سات سو گنا تک ثواب دیا جاتا ہے ۔ اور روزہ کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ وہ میرے لئے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا ، وہ میری وجہ سے کھانا چھوڑ دیتا ہے، وہ میری وجہ سے پانی چھوڑ دیتا ہے ، وہ میری وجہ سے اپنی لذت چھوڑ دیتا ہے، وہ میری وجہ سے اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے ، اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشگوار اور پاکیزہ ہے ، روزہ دار کے لئے دو خوشی ہے ، ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری خوشی پرودگار سے ملاقات کے وقت۔ (ابن خزیمہ)

* جنت کے ایک دروازے کا نام ریان ہے ، جس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ کوئی اور اس سے داخل نہیں ہوسکتا ہے اور جب روزہ دار داخل ہوجائیں گے تو اسے بند کردیا جائے گا (بخاری و مسلم)

*قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں سفارش کریں گے ۔روزہ کہے گا : پروردگار! میں نے اسے کھانے اور شہوت سے روکے رکھا لہذا اس کے معاملے میں میری سفارش قبول کر لیجئے ۔ اور قرآن کہے گا : پروردگار! میں نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا لہذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول کر لیجئے ۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی سفارش قبول کر لیں گے ۔(احمد ، طبرانی، حاکم)

* حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! مجھے ایسا کوئی عمل بتا دیجئے جو مجھے فائدہ پہنچائے اور ایک روایت میں ہے کہ جو مجھے جنت میں داخل کردے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ کو لازم کرلو کیونکہ اس جیسا کوئی نہیں ہے (نسائی، ابن حبان)

* جو بندہ اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو ستر سال کی مسافت کے بقدر جہنم سے دور کر دیتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان زمین وآسمان کے فاصلے کی طرح ایک خندق حائل کردیتے ہیں (بخاری ، مسلم، ترمذی)

اس حدیث کی شرح میں بعض علماء نے لکھا ہے کہ ہر روزہ اللہ کے راستے میں ہوتا ہے بشرطیکہ اس کا مقصد خالص اللہ کی رضامندی ہو( الترغیب والترہیب للمنذری 421/1) 

مذکورہ آیت اور  تمام احادیث مطلق اور عام ہیں اور ان کے عموم میں فرض و نفل ہر طرح کا روزہ شامل ہے ۔اس لئے مذکورہ اجر وثواب اور فضائل کا تعلق نفل روزہ سے بھی ہے لہذا نفلی روزوں کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ فرائض کے ساتھ نفل کی پابندی کی وجہ سے اللہ کی مدد شامل حال ہوجاتی ہے ،اور ہر موقع پر توفیق ربانی اس کی دستگیری کرتی ہے اور اس کے ہر عمل میں پروردگار کی اعانت اس کے ساتھ ‌ہوتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بندہ جن چیزوں کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا ہے ان میں سب سے زیادہ پسندیدہ چیز فرائض ہیں اور وہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور پھر میں اس کے لئے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کے لئے آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتاہے تو اس کی مراد پوری کر دی جاتی ہے ، اور اگر کسی چیز سے پناہ چاہتا ہے تو اسے پناہ دے دیتا ہوں۔ (بخاری)

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مکمل حمایت اور نگہبانی کا اعلان ہے ، ایسا شخص روئے زمین پر چلتا پھرتا ایک جنتی ہوتا ہے اور اس کے ہر کام میں اللہ کی رضا اور مدد شامل ہوتی ہے ۔

نفلی روزوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے فرض روزے میں ہونے والے کمی اور کوتاہی کی تلافی ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے: قیامت میں سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال ہوگا ، اگر وہ ٹھیک رہی بندہ کامیاب اور بامراد ہوگیا اور اگر خراب نکلی تو ناکام اور برباد ہوگیا ۔ البتہ اگر فرض نماز میں کچھ کمی رہ گئی ہوتو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : دیکھو ! میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہے ، اگر نفل ہے تو اس کے ذریعے فرض میں کمی کی تلافی کردی جائے گی اور پھر اسی طرح سے دوسرے اعمال (روزہ، زکاۃ وغیرہ) کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا یعنی اگر ان میں کچھ کمی ہوگی تو نفل کی ذریعے اسے پورا کر دیا جائے گا ۔ (ترمذی)

نیز نفلی عبادت حفاظتی دیوار کی طرح ہوتی ہے جس  سے فرائض کی حفاظت کی جاتی ہے کہ جو شخص نوافل کا اہتمام کریگا یقینی طورپر وہ فرائض کا اس سے زیادہ خیال رکھے گا اور جو ایسا نہیں کریگا اس کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ ایک دن فرائض سے بھی غافل ہوجائے گا ۔ فقہ کی مشہور کتاب تاتار خانیہ میں ہے : 

جو آداب میں سستی کرتا ہے وہ سنت سے محروم ہوجاتا ہے اور جو سنت میں کوتاہی کرتا ہے وہ فرائض سے محروم ہو جاتا ہے اور فرائض میں کسلمندی کرنے والا آخرت کی نعمتوں سے ہاتھ دھو لیتا ہے ۔( فتاوی تاتار خانیۃ 644/1)

اور خاص کر نفلی روزے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے روزہ رکھنے کا تجربہ حاصل ہوتا رہتا ہے اس لئے رمضان کا‌ روزہ رکھنے سے کوئی ڈر اور خوف پیدا نہیں ہوتا ہے  

 

* شوال کے چھ روزے * 

اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے کی توفیق عطا فرمائی اس کے شکریہ کے طور پر ، نیز نیکی سے محبت ، اس کی طرف سبقت اور تسلسل قائم رکھنے کے لئے عید کے بعد چھ روزے رکھنے چاہئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ پورے سال کے روزے کی طرح ہے ۔ ( مسلم)

اس حدیث کے مطابق شوال کے روزوں کا ثواب رمضان کے روزوں کی طرح ہے اس طرح سے کل چھتیس روزے ہوگئے اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے لہذا چھتیس روزے تین سو ساٹھ روزے کے برابر ہونگے ، اور اس طرح سے گویا کہ پورے سال کا روزہ ہوگیا ۔

* ذو الحجہ اور عرفہ کا روزہ * 

حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

دوسرے دنوں کی بنسبت ذوالحجۃ کے دس دنوں میں نیک عمل کرنا اللہ عزوجل کو زیادہ پسند ہے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : ان دنوں میں نیک عمل کرنا جہاد سے بھی بڑھ کر ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ، البتہ اس مجاہد کا جہاد اس سے بہتر ہے جو اپنی جان اور اپنا مال لے کے اللہ کی راہ میں نکلا ہو اور پھر دونوں میں سے کسی کو واپس نہیں لے آیا (بخاری)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرفہ کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اس سے گذشتہ اور آیندہ دونوں سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں (مسلم)

* محرم اور عاشورہ کا روزہ *

محرم کا مہینہ قمری سال کا پہلا مہینہ ہے ، اس اعتبار سے گویا کہ کتاب زندگی کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے جس کا ہر ورق سفید اور تابناک ہے اس لئے اسے گناہ اور معصیت سے آلودہ اور تاریک نہیں کرنا چاہئے بلکہ عبادت اطاعت کی دیگر شکلوں کے ساتھ بندگی کا پیکر بن کر اس کی تابناکی اور روشنی میں اور اضافہ کرنا چاہئے، یعنی اللہ کی خوشنودی کے لئے زندگی کی ناگزیر ضرورت  کھانا پانی سے دست بردار ہو جائے ، لہذا اس ماہ میں روزے کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے بعد افضل روزہ اللہ کے مہینہ محرم کا روزہ ہے اور  فرض نماز کے بعد سب سے بہتر نماز رات کی نماز ہے ۔(مسلم)

اور خاص کر عاشورہ کے روزے کی حدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عاشورہ کے روزے سے گذشتہ سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (مسلم)

اور نبی کریم ﷺ اس دن کے روزے کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے، حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ : میں نے نہیں دیکھا کہ نبی کریم ﷺ روزہ رکھنے کے لئے عاشورہ اور رمضان کے علاوہ کسی اور دن کو دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوں۔ (بخاری و مسلم)

پچھلی امتوں میں بھی اس دن کو فضیلت کو فضیلت واہمیت کا دن سمجھا جاتا تھا، یہانتک کہ مکہ کی کافر بھی اس دن روزہ رکھا کرتے تھے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں رہے اس دن روزہ رکھتے تھے اور مدینہ منورہ آنے کے بعد بھی آپ نے اسے باقی رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا البتہ جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوگیا تو پھر اس کی پابندی باقی نہیں رہی ۔ اور آپ نے یہاں کے یہودیوں کو بھی جب اس دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی تھی اور موسی علیہ السلام نے شکریہ میں روزہ رکھا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حضرت موسیٰ کے ساتھ ہم تم سے زیادہ موافقت کے حقدار ہیں ، البتہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت سے بچنے کے لئے آپ نے فرمایا کہ اگر آئندہ سال باحیات رہا تو نو محرم کو بھی روزہ رکھوں گا ۔

* شعبان کا روزہ * 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے اور تقریباً پورا مہینہ روزہ کی حالت گذرتا ۔ (بخاری و مسلم). بعض صحابہ کرام نے اس ماہ میں کثرت سے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت کی تو آپ نےفرمایا : 

رجب اور رمضان کے درمیان یہ ایک ایسا مہینہ ہے جسے لوگ غفلت میں گزار دیتے ہیں، حالانکہ اس ماہ میں بندوں کے اعمال پروردگار کے حضور پیش کئے جاتے ہیں ، اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میرے عمل کی پیشی  ہو تو میں روزہ سے ہوں۔ (نسائی)

غرضیکہ کہ شعبان کا پورا مہینہ اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے اس لائق ہے کہ اس میں کثرت سے روزہ رکھا جائے البتہ بندہ کی کمزوری اور رمضان کی تیاری کے پیش نظر پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع گیا ہے "اذا انتصف شعبان فلا تصوموا ” (صحیح الجامع الصغیر)

گویا لوگوں کے روزہ کے لئے پندرہ شعبان آخری موقع ہے اور اس آخری دن میں فضیلت پیدا کردی گئی اور کہا گیا کہ پندرہ شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ سب کی مغفرت کر دیتے ہیں۔(صحیح ابن حبان481/12)

اور حضرت علی سے منقول ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ فرمایا : پندرہ شعبان کی رات میں نماز پڑھو اور دن میں روزہ رکھو ، کیونکہ اس رات کا سورج غروب ہونے کے بعد اللہ تعالٰی دنیاوی آسمان پر نزول فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کوئی مغفرت مانگنے والا ہے جسے میں معاف کردوں ، کوئی روزی طلب کرنے والا ہے جسے میں نواز دوں ، مصیبت سے نجات مانگنے والا کوئی ہے جسے میں عافیت دے دوں اور اس طرح کا اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے ۔ (ابن ماجہ)

اس حدیث کے ایک راوی پر حدیث گھڑنے کا الزام لگایا گیا ہے اس بنیاد پر بعض لوگ اس کی اس حدیث کو بھی موضوع قرار دیتے ہیں ، لیکن محدث اعظمی کے بقول کسی ماہر حدیث عالم نے اس کی اس حدیث کو موضوع نہیں کہا ہے ، لہذا اس سے اس دن روزہ رکھنے کی ایک گونہ فضیلت معلوم ہوتی ہے بلکہ بہتر ہے کہ تیرہ ، چودہ اور پندرہ تینوں دن روزہ رکھے کیونکہ ہر مہینے کے ان تین دنوں میں اور پندرہ شعبان تک روزہ رکھنے کی فضیلت صحیح حدیثوں سے ثابت ہے ۔

* سوموار اور جمعرات کا روزہ *

ساری مخلوق کے تمام اعمال ہر وقت اللہ کے سامنے ہوتے ہیں اور ہر شخص کے قول و فعل سے وہ بخوبی واقف ہیں یہاں تک کہ وہ دلوں کے بھید سے بھی آگاہ ہیں ، لیکن سب کچھ جاننے اور ہر چیز پر قدرت کے باوجود کائنات کو ایک نظام اور سسٹم کے ساتھ مربوط کر رکھا ہے جس میں سے ایک نظم یہ ہے کہ سال بھر کے اعمال شعبان میں اور ہفتے کے اعمال سوموار اور جمعرات کو ان کی بارگاہ میں پیش کئے جائیں اور بڑا خوش قسمت ہے وہ بندہ جس کے متعلق فرشتے کہیں : پروردگار! یہ اس بندے کے اعمال ہیں جس نے آپ کی خوشنودی کی خاطر آج کھانا پانی چھوڑے رکھا ہے ، نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں : 

سوموار اور جمعرات کو اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش کیا جائے۔ (ترمذی)

اور ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے، آپ سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا: ان دو دنوں میں اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی مغفرت کر دیتے ہیں سوائے ان دو لوگوں کے جنھوں نے ایک دوسرے سے تعلق کو توڑ رکھا ، ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انھیں چھوڑ دو یہاں تک کہ باہم صلح کرلیں ۔( ابن ماجہ)

اور صحیح مسلم میں ہے کہ سوموار اور جمعرات کو اعمال کی پیشی ہوتی ہے اور اللہ تعالی اس دن ہر اس شخص کی مغفرت کر دیتے ہیں جو شرک میں مبتلا نہیں ہوتا ہے ، البتہ اگر دو لوگوں میں باہم دشمنی ہوتو ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں کے سلسلے میں کوئی فیصلہ مت کرو یہاں تک کہ وہ صلح کرلیں ۔

عمومی مغفرت اور بخشش کی راتوں اور دنوں میں دشمنی اور کینہ رکھنے والے کی مغفرت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور گناہ کے بارے میں یہ اندیشہ نہیں ہے کہ وہ اس کو کفر میں مبتلا کر دیگا اس لئے مومن ہونے کی بنیاد پر اس کی مغفرت اور دخول جنت کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ اگر وہ کسی گناہ میں مبتلا ہو جائے گا تو توبہ کی ذریعے معافی تلافی کرلیگا اور اگر توبہ نہ کر سکا تو پھر اس گناہ کی سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخل کردیا جائے گا لیکن کینہ اور دشمنی کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ انسان کو کفر اور شرک تک نہ پہنچا دے اور وہ ضد اور دشمنی میں اسلام سے خارج ہو جائے اس لئے اس کی مغفرت اور جنتی ہونے کا فیصلہ روک لیا جاتا ہے یہاں تک صلح کرلی ۔

حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوموار کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اسی دن میری پیدائش ہوئی ، اسی دن مجھ پر قرآن نازل ہوا اور مجھے رسول بنایا گیا (مسلم)

*  مہینے کا تین روزہ  *

انسانی جسم اور زمین میں بڑا گہرا ربط ہے چنانچہ جس طرح سے زمین کا اسی فیصد حصہ پانی اور بیس فیصد حصہ خشکی پر مشتمل ہے اسی طرح سے انسانی جسم اسی فیصد سیال اور بیس فیصد خشک اجزاء سے مرکب ہے ، نیز زمین کیلشیم، میگنیشیم، پوٹاشیئم، سوڈیم ، سلفیٹ، کبریت ، فلورائڈ، کلورائیڈ، آئرن، اور نٹریٹ جیسے عناصر سے مل کر بنی ہے اورٹھیک یہی  عناصر انسان میں موجود ہیں ۔

اگر آپ پانی کا باٹل لیں اور اس کے مشمولات کو پڑھیں توآپ کو مذکورہ تمام اجزاء ملیں گے کیونکہ پانی زمین سے نکلتا ہے ، اور اسی طرح سے مختلف پھلوں اور غلہ جات کا جائزہ لیں تو آپ کو اس میں مذکورہ تمام چیزیں موجود ہوں گی کیونکہ یہ زمین سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور چونکہ انسان کی تخلیق میں زمینی عناصر شامل ہیں نیز وہ زمین کی پیداوار اور زمین کا پانی کھاتا پیتا ہے اس لئے اس کے جسم میں مذکورہ تمام اجزاء پائے جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 

مِنۡهَا خَلَقۡنٰكُمۡ وَفِيۡهَا نُعِيۡدُكُمۡ وَمِنۡهَا نُخۡرِجُكُمۡ تَارَةً اُخرى.

اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا، اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے، اور اسی سے ایک مرتبہ پھر تمہیں نکال لائیں گے۔(سورہ طہ :55)

اور چاند کی کشش کا اثر زمین پر پڑتاہے جس کی وجہ سے سمندر میں مد و جزر ہوتا ہے اور اس کی قوت کشش چاند کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ میں بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے مد و جزر میں اضافہ ہوجاتا ہے ، ان راتوں میں کسی بھی ساحلی علاقے میں جاکر اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔اور چونکہ انسان زمینی عناصر سے مرکب ہے اس لئے چاند کی کشش کا اثر اس کے جسم پر بھی پڑتاہے  ۔اور چاند کی قوت کشش میں اضافہ کی وجہ سے انسانی جسم میں بھی ہیجان اور اضطراب برپا ہوجاتا ہے، چنانچہ  ان راتوں میں قتل وغارت گری، ٹریفک حادثات ، لڑائی جگھڑے اور طلاق وغیرہ کے واقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے ، امریکہ کا نفسیاتی ڈاکٹر لیبر کہتا ہے کہ چاند کی تکمیل اور شدت پسندانہ کاروائیوں میں مضبوط تعلق ہے ، ہسپتال اور پولیس اسٹیشن کے ریکارڈ کے سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں میں جرائم کی کثرت ہوتی ہے ، اور لڑائی جگھڑے اور طلاق کے معاملات بھی ان دنوں میں زیادہ ہوتے ہیں اور یہ ٹینشن اور ہیجان و اضطراب کا نتیجہ ہے ، اس کا ماننا ہے کہ چاند کی کشش سمندر کی طرح سے انسانوں میں بھی ہیجان کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔

اس ہیجان اور اضطراب سے بچنے کا آسان راستہ روزہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے جسم میں پانی کی مقدار کم ہوجائے گی اور چاند کی کشش کا اثر کم سے کم ہوگا ۔ غرضیکہ روزہ انسان کی حفاظت کا ذریعہ بھی ہے اور بے حساب اجر و ثواب اور سعادت کا سبب بھی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہ ہوں   یا سفر میں بہر صورت ان دنوں میں روز رکھتے ۔ (نسائی) اور صحابہ کرام کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے ۔ (ابوداؤد، ترمذی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان روزوں کے تعلق سے فرمایا : 

* صبر کے مہینے (رمضان) کا روزہ اور مہینے کا تین روزہ دل کے کھوٹ اور وسوسہ کو ختم کردیتاہے ۔( الترغیب والترہیب للمنذری 242/1) 

* رمضان کا روزہ اور ہر مہینے کا تین روزہ پوری زندگی کا روزہ ہے ۔( مسلم، ابوداؤد، نسائی)

* جب تم مہینے کا تین روزہ رکھنا چاہوں تو تیرہ ،چودہ اور پندرہ کا روزہ رکھو ۔( احمد، ترمذی وغیرہ)

* ہر مہینے کا تین روزہ پورے سال کا روزہ ہے ، اور وہ ہے تیرہ ، چودہ اور پندرہ کا روزہ (نسائی، بیہقی)

* نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایام بیض یعنی تیرہ ، چودہ اور پندرہ کے روزے کا حکم دیتے اور فرماتے کہ یہ پورے مہینہ کا روزہ ہے ۔ (ابوداؤد،نسائی)

* حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ*

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: تم ہمیشہ دن میں روزہ اور پوری رات نماز میں قرآن پڑھتے ہو ؟ عرض کیا : ہاں ۔ فرمایا: اس سے تو تمہاری آنکھ دھنس جائے گی اور نگاہ کمزور ہو جائے گی اور ایک دن تمہارا دل اکتا جائے گا ۔ جو ہمیشہ روزہ رکھے تو اس نے روزہ رکھا ہی نہیں۔ ہر مہینے کا تین روزہ پورے مہینے کا روزہ ہے ۔عرض‌ کیا میں اس زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ۔ فرمایا: تو حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھو ، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے ۔ (بخاری و مسلم)

 

(12)

*ہجرت کی معنویت *

ولی اللہ مجید قاسمی۔

جب رسول رحمت ﷺ پر مکہ میں رہنے کی تمام راہیں بند کردی گئیں ، ظلم و ستم کی ترکش کا ہر تیر آزما لینے کے بعد جسم و جان کے رشتے کو کاٹ دینے کی تدبیریں کی جانے لگیں تو اس وقت آپ نے پیارے وطن سے ہجرت فرمائی ۔

بظاہر ایک بیکس و بے نوا کا بے سروسامانی کے عالم میں اپنے گھر بار کو چھوڑ کر دوسری جگہ پناہ لینا تھا لیکن حقیقت شناس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ یہی کامیابی ، فتح مندی اور عروج کا اصل سرچشمہ ہے اور اسی حقیقت کے پیش نظر  صحابہ کرام نے واقعہ ہجرت کو اسلامی تاریخ کی بنیاد قرار دیا ۔

حالانکہ ان کے سامنے داعی اسلام کی پیدائش کا مبارک دن بھی تھا ، نزول وحی کی ابتداء اور بدر کا پر شوکت واقعہ بھی ، اور مکہ میں پرعظمت واپسی بھی ،لیکن ان سب کو چھوڑ کر ہجرت پر اسلامی سن کی بنیاد رکھی گئی ، کیونکہ انھوں نے اس حقیقت کو پالیا تھا کہ اسلام کی سرفرازی "ہجرت مدینہ” میں مضمر ہے اور بدر و حنین اور فتح مکہ اسی پاکیزہ درخت کے برگ و بار ہیں اور ان میں باہم وہی ربط ہےجو بنیاد اور عمارت میں ہے ۔

اسلامی سال کی ابتداء ہجرت سے کرنے میں یہ راز اور حکمت بھی ہے کہ ” روح ہجرت  ” سے مسلمانوں کی زندگی وابستہ ہے چنانچہ علامہ اقبال نے کہا ہے :

ہجرت آئین حیات مسلم است —ایں از اسباب ثبات مسلم است۔

معنی او از تنک آبی رم است —ترک شبنم بہر تسخیر یم است۔

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے