سلام کتنی رکعت پر؟

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

نوافل دن میں چار رکعت سے اور رات میں آٹھ رکعت سے زیادہ ایک سلام سے پڑھنا مکروہ ہے اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ دن و رات میں سے کسی میں بھی چار رکعت ایک سلام یا دو سلام سے جائز و درست ہے۔ لیکن افضل کیا ہے؟اس میں قدرے اختلاف ہے، امام ابو حنیفہؓ کے نزدیک دن اور رات دونوں میں نفل چاررکعت ایک سلام سے پڑھنا افضل ہے۔امام ابو یوسف و محمد کے یہاں دن میں چار رکعت کرکے اور رات میں دو ‘دو رکعت کرکے پڑھنا بہتر ہے۔ امام شافعی اور احمد کے نزدیک دونوں میں دو رکعت پر سلام پھیرنا افضل ہے-امام ابو حنیفہؓ سے ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے ۔ (معارف السنن 117/4 121/4)
امام ابوحنیفہؓ کے نقطہ نظر کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں :
آپ ﷺ نماز تہجد چار رکعت پڑھا کرتے تھے ، تم ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں مت پوچھو (کان یصلی اربعا فلا تسال عن حسنھن و طولھن .صحیح مسلم 257/1 باب صلوۃ اللیل۔)
لیکن علامہ کشمیری کا خیال ہے۔اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں؛ کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ہی کی حدیث میں صراحت ہے کہ آپ دو دو رکعت پر:سلام پھیر دیا کرتے تھے۔ (یسلم بین کل رکعتین)بعض راویوں نے یہ صراحت نہیں کہ آپ چار رکعت کیسے پڑھا کرتے تھے؟ جبکہ دیگر راویوں نے وضاحت کردی ہے۔اور جب دوسری حدیث میں تفصیل اور وضاحت موجود ہے تو پھر غیر واضح حدیث سے استدلال کیسے درست ہے ؟(معارف السنن 119/4)
البتہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ارشاد سے امام صاحب کے مسلک کی تائید ہوتی ہے، وہ فرماتے ہیں:
من صلی اربعا بعدالعشاء لایفصل بینھن بتسیلم عدلن بمثلھن من لیلۃ القدر ۔
جوکوئی عشاء کے بعد چاررکعت پڑھے اور درمیان میں سلام سے فصل نہ کرے تو وہ لیلۃ القدر میں چاررکعت پڑھنے کے برابر ہونگی۔(مصنف ابن ابی شیبہ 343/2)
یہ گرچہ ابن مسعود کا قول ہے مگر اصولی اعتبار سے حدیث کے حکم میں ہے؛ کیونکہ کسی عمل کی فضیلت بغیر آپ ﷺ کے ارشاد کے ممکن نہیں،گویا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر ہی یہ بات کہی ہے۔ مگر احتیاط کے پیش نظر اس کی نسبت آپ ﷺ کی طرف نہیں کی۔ یہ محض نکتہ سنجی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، صحابہ کرام کے حالات سے واقفیت رکھنے والے اسے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ حدیث کے بیان کرنے میں کس قدر محتاط تھے؟۔
مگر یہ حدیث بھی امام ابوحنیفہ کے مسلک پر صریح نہیں؛ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس سے عشاء کے بعد کی سنت مراد ہو، عمومی نوافل اور نماز تہجد مراد نہیں۔(معارف السنن 120/4)
امام شافعیؓ کا استدلال ان احادیث سے ہے جن میں کہا گیا ہے :
صلوۃ اللیل و النهار مثنی مثنی۔
رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔
(رواہ الخمسہ نيل الأوطار 78/3)
حدیث کے راوی حضرت ابن عمر سے دریافت کیا کہ اس کا کیا معنی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہر دو رکعت پرسلام پھیر دینا (ان تسلم فی کل رکعتین .صحیح مسلم 257/1)
امام شافعی کی یہ دلیل رات کے سلسلہ میں صحیح ہے۔ روایت کا یہ ٹکڑا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے (صلوۃ اللیل مثنی مثنی) صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں بھی ہے، مگر’’دن ‘‘ کا اضافہ صرف ایک سند سے منقول ہے اور اس کے راوی میں فنی کلام کیاگیا ہے ،نیز خود راوی حدیث حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا عمل بھی اس کے برعکس تھا کہ وہ دن میں چار رکعت پڑھا کرتے تھے۔( معارف السنن 125/4-128/5. نیل الاوطار 31/3 )
امام ابویوسف و محمد کے مسلک کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں کہاگیا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے،نیز آپ ﷺ کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا۔(صحیح مسلم) اور دن میں زوال سے پہلے چار رکعت ایک سلام سے آنحضور ﷺ سے ثابت ہے ۔(یصلی حین یزیغ الشمس رکعتین و قبل نصف النھار اربع رکعات یجعل التسلیم فی آخرھن رواہ النسائی۔ نیل الاوطار 80/3) نیز سنت رسول ؐ کے دلدادہ اور عاشق حضرت عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن مسعود کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا کہ وہ دن میں چار رکعت ایک سلام سے پڑھتے تھے۔(شرح معانی الاثار 198/1 و سندہ صحیح۔ العرف الشذی 101/1 و معارف السنن 124/4)
بعض علماء نے امام ابویوسف و محمد کے قول پر فتویٰ دیا ہے۔(رد المحتار 500/1)

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے