نفل شروع کردینے سے واجب ہوجاتا ہے:

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

نفل وسنت ایک اختیاری چیز ہے، پڑھنے یا نہ پڑھنے دونوں کا اختیار ہے لیکن شروع کردینے کے بعد واجب اور لازم ہوتا ہے۔ اس کی تکمیل ضروری ہوجاتی ہے۔ درمیان میں کسی وجہ سے قطع کردے تو پھرقضا واجب ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ نفلی عبادت کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے لیکن نذر ماننے کی وجہ سے واجب ہوجاتا ہے،گویا کہ کسی چیز کو زبان سے کہہ کر واجب کرلینا قولی نذر ہے اور کسی کام کو شروع کرکے لازم کرلینا فعلی اور عملی نذر ہے۔(رد المحتار 526/1)

نفل نماز شروع کردینے کی وجہ سے واجب ہوجانے پرکوئی روایت موجود نہیں ہے۔ البتہ نفلی روزہ سے متعلق حدیث ہے، نماز کو روزہ پر قیاس کرلیا جاتا ہے چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور صفیہ ؓنے نفلی روزہ رکھ لیا کسی کے یہاں سے کھانا آگیا جو بڑا اچھا تھا ہم دونوں نے روزہ توڑ کر اسے کھالیا، رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اس روزہ کی قضا کرو۔( رواہ ابن ابی شیبہ و سندہ صحیح ۔دیکھئے : الجواہر النقی 315/1 ‘اعلا والسنن 140/9) بعض لوگوں نے حدیث پر اسنادی حیثیت سے کلام کیا، امام نووی شافعی کا خیال ہے کہ یہ حدیث مرسل درست ہے۔( دیکھئے : المجموع 389/6)

حضرت انس بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے عرفہ کے دن روزہ رکھ لیا پیاس کی سختی کی وجہ سے روزہ توڑنا پڑا، میں نے متعدد صحابہ کرام سے اس کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے حکم دیا کہ روزہ قضا کرو۔(رواہ ابن ابی شیبہ و سندہ صحیح ۔اعلاء السنن 141/9)

حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ ابن عباس کا مذہب بھی یہی ہے کہ نفل توڑدینے کی وجہ سے قضا لازم ہے ۔ امام ابو حنیفہ ،ابویوسف، محمد اور امام اوزاعی کی یہی رائے ہے امام مالک اور امام احمد بن حنبل کا ایک قول بھی اس کے مطابق ہے۔(دیکھئے: احکام القرآن للجصاص 234/1، العرف الشذی 156/1، معارف السنن 407/5)

امام شافعی ،امام احمدبن حنبل ،امام مالک اور امام اسحاق راہویہ کے یہاں قضا لازم نہیں ہے۔ صحابہ میں سے حضرت علی، عمر بن الخطاب، ابن مسعود اور جابر بن عبداللہ کی بھی یہی رائے ہے۔(شرح مہذب 394/6 امام نووی نے ابن عمرؓ اور ابن عباس ؓ کا مذہب بھی یہی نقل کیا ہے ۔ لیکن ان سے متعلق کوئی روایت پیش نہیں ہے۔ اس کے برخلاف جصاص رازی نے ان دونوں حضرات سے صراحتاً قضا کا حکم نقل کیاہے۔( احکام القرآن 234/1) نیز حضرت عبداللہ بن مسعود اور جابر بن عبداللہ کے حوالہ سے جو روایت نقل کی ہے اس میں کوئی صراحت نہیں کہ یہ لوگ قضا کو واجب سمجھتے تھے یا نہیں ؟

ان حضرات کے پاس بھی اپنے نقطہ نظر کے ثبوت میں دلائل موجود ہیں اور قوی دلائل ہیں، بخوف طوالت نقل سے گریز کیا جارہا ہے۔

نفل شروع کرنے سے اسی وقت واجب ہوگا جبکہ شروع کرنا صحیح بھی ہو، لہذا کسی نے بے وضو یا نجس کپڑوں میں نفل شروع کردیا تو اس کی قضا نہیں۔ ایسے ہی کسی جنبی اورعورت کی اقتداء میں شروع کرنے پر بھی قضا نہیں ہے۔ یہی حکم اس وقت بھی ہے جبکہ یہ خیال ہو کہ اس نے فرض کو ادا نہیں کیا ہے اور فرض کی نیت سے نماز شروع کردی، دوران نماز یقین ہوگیا کہ وہ فرض پڑھ چکا ہے تو اس نماز کے توڑنے پر بھی جو کہ اب نفل ہوچکی ہے قضا نہیں ہے۔

نفل کی نیت سے نماز شروع کرکے توڑ دینے کی وجہ سے دو رکعت کی قضا واجب ہے گرچہ چار رکعت کی نیت کی ہو۔ یہی حکم تمام سنتوں کا ہے۔کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ ظہر اور جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد کی چار رکعت سنت اس حکم میں شامل نہیں لہذا ان میں چار رکعت کی قضا ضروری ہے ۔ یہ حکم اس وقت ہے جبکہ ابتداء ہی میں یا تشہد پڑھنے سے پہلے ہی توڑ دے لیکن اگر تشہد پڑھنے کے بعد قطع کرے تواس پر کچھ واجب نہیں کیونکہ تشہد سے نماز پوری ہوجاتی ہے۔ اور اگر تشہد کےبعد تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو اور اس کو درمیان میں توڑدے تو صرف دو رکعت کی قضا ہے۔ پہلے کی دو رکعت مکمل ہوچکی ہے لیکن ابن عابدین شامی کا خیال ہے کہ پہلی دو رکعت کی قضا بھی مناسب ہے کیونکہ اس صورت میں سلام _جو کہ واجب ہے _ چھوٹ گیا ہے.(البدائع 291/1)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے