نماز استخارہ:

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

نماز اللہ سے رابطہ اور تعلق کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مومن و مسلم ہونے کا تقاضا ہے کہ جب بھی کوئی معاملہ درپیش ہو اپنے رب سے رہنمائی کا خواستگار ہو، اس کی مرضی اور خوشنودی کا طالب اور اس کے در کا بھکاری بن جائے اور جب ادھر سے کوئی بات دل میں ڈالی جائے تو اطاعت کے جذبہ سے سرشار ہوکراس جانب لپک پڑے۔
فال وغیرہ نکالنا جاہلیت کی پیداوار ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس بے تکے اور بے اصل کام سے منع فرمایا اور اس کے بدلے نماز استخارہ کی تعلیم دی، نماز استخارہ کی تعلیم اور ترغیب میں آنحضرت ﷺ خصوصی اہتمام کیا کرتے۔ حضرت عبداللہ بن جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں تمام چیزوں میں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے۔ جس طرح کی قرآن کی آیتیں سکھاتے تھے۔( یعلمنا الاستخارۃ فی الامور کلھا کما یعلمنا السورۃ . البخاری واصحاب السنن ۔ جمع الفوائد 115/1)
حدیث کے اس ٹکڑے کی تشریح کرتے ہوئے علامہ شوکانی نے لکھا ہے کہ: کسی چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی حقیر سمجھ کر استخارہ ترک نہیں کرنا چاہئیے۔ اس لئے کہ بہت سے چھوٹے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے کرنے یا نہ کرنے میں بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم ہر چیز اپنے پروردگار سے مانگو، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ بھی۔(نیل الاوطار 72/3)

استخارہ کا طریقہ:

حدیث میں ہے کہ جب بھی کسی کام کا ارادہ ہوتو دورکعت فرض کے سوا پڑھ کر ان الفاظ کے ساتھ دعا کرے:
اللھم انی استخیرک بعلمک و استقدرک بقدرتک و اسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر و لا اقدر و تعلم ولااعلم وانت علام الغیوب ‘۔اللھم ان کنت تعلم ان ھذا الامرخیر لی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ أمری اوقال فی عاجل امری وآجلہ فاقدرہ لی ویسرہ لی ثم بارک لی فیہ‘ وان کنت تعلم ان ھذا لامر شرلی فی دینی و معاشی و عاقبۃ امری اوقال فی عاجل امری وآجلہ فاصرفہ عنی و اصرفنی عنہ واقدر لی الخیر حیث کان ثم رضنی بہ ۔
اے اللہ ! میں تیرے علم کے وسیلے سے تجھ سے بھلائی کا خواہش مند ہوں اور تیری قدرت کے وسیلے سے قدرت کا طلب گار ہوں ،تیرے فضل عظیم کا بھکاری ہوں کیونکہ تو قادر ہے اور میں عاجز، تو سراپا علم ہے اور میں نرا جاہل، تو پوشیدہ باتوں سے بھی باخبر ہے۔میرے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین، دنیا اور انجام کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لئے مقدر کردے اور اسے آسان کردے،پھر اس میں برکت عطا فرما، اور اگر تجھے معلوم ہے کہ یہ معاملہ میرے دین ‘دنیا اور انجام کے لحاظ سے برا ہے تو اسے مجھ سے دور کردے اور مجھے اس کو کرنے سے روک دے اور میرے لئے اچھائی اور بھلائی مقدر کردے جہاں بھی ہو، پھر مجھے اس کام کے لئے مطمئن کردے۔(البخاری و اصحاب السنن ۔ جمع الفوائد115/1)
یہ دعا پڑھتے ہوئے جب ’’الھم ان کنت تعلم ان ھذا الامر‘‘ پر پہونچے تو’’ ھذا الامر‘‘ کہنے کے بجائے مطلوبہ کام کا تذکرہ کرے۔
یہ دعا نماز کے اندر تشھد اور درود کے بعد بھی پڑھنا درست ہے اور نماز سے فراغت کے بعدبھی۔

تعداد رکعت اور مستحب سورۃ:

نماز استخارہ کم سے کم دو رکعت ہے اور زیادہ کی کوئی تحدید نہیں۔ مذکورہ حدیث میں تو صرف دورکعت کا تذکرہ ہے لیکن ایک دوسری حدیث _جو حضرت ابوایوب انصاری سے منقول ہے _کے الفاظ یہ ہیں:
ثم صل ماکتب اللہ لک۔
پھر جتنی اللہ توفیق دے اتنی رکعتیں پڑھو۔
( نیل الاوطار 73/3)
امام نووی کہتے ہیں‘ پہلی رکعت میں’’ قل ایھا الکافرون‘‘ اوردوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھنا بہتر ہے، حافظ ابن حجر کا خیال ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورہ پڑھنے کے بعد مزید وربک یخلق ما یشاء و یختار سے’’یعلنون ‘‘ تک اوردوسری رکعت میں سورہ پڑھنے کے بعد وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ و رسول امراً( پوری آیت) پڑھے (فتح الباری186/1) واضح رہے کہ یہ ذوقی چیز ہے،حدیث میں سورتوں کی کوئی تعیین مذکور نہیں۔(فتح الباری 186/1 معارف السنن 281/4)

استخارہ کن کاموں کے لئے:

ہر کام کے لئے خواہ چھوٹا ہویا بڑا استخارہ مسنون ہے، بار بار نماز اور اتنی طویل دعا پڑھنے میں دشواری ہو تو "اللھم خرلی واخترلی” پڑھ کر کام شروع کردینا چاہئیے۔ (ترمذی 191/2. و سندہ ضعیف۔فتح الباری 184/11) یا یہ دعا پڑھئے: اللھم خرلی واخترلی ولا تکلنی الی اختیاری۔ ( مرقات 187/2)
صرف مباح اور جائز معاملات نیز ایسے واجبات کے لئے استخارہ مشروع ہے جن کے لئے کوئی وقت متعین نہ ہو اور استخارہ کے ذریعہ تعیین مقصود ہو۔ واجب ، مستحب یا حرام و مکروہ کام کے لئے استخارہ نہیں ہے۔ (فتح الباری184/1)
استخارہ اسی وقت کرنا چاہئیے جبکہ کسی کام کا خیال دل میں آئے،کسی ایک جانب دل کا میلان ہوجانے کے بعد استخارہ مفید نہیں۔ (مرقات 182/2)

استخارہ کے بعد:

بندہ جب اپنی عاجزی اور بیکسی کا اعتراف اور ناعلمی و جہالت کے احساس کے ساتھ رب کائنات اور علیم و خبیر کے در پر دستک دے تو ممکن نہیں کہ اس دربار سے ناشاد و نامراد واپس ہو، خالی ہاتھ اور تہی دامن لوٹے، وہاں سے دامن مراد بھر کر آئے گا،جو کچھ بھی ہوگا بہتر ہوگا۔ لیکن یہ رہنمائی کس طرح حاصل ہوتی ہے؟ حدیث میں کوئی اس کا تذکرہ نہیں، تاہم اللہ کے نیک بندوں کا تجربہ ہے کہ یہ رہنمائی خواب کے ذریعہ سے ہوتی ہے، جس سے دل کسی ایک پہلو پر مطمئن ہوجائے گا۔ علامہ ابن عابدین شامی نے بعض مشائخ سے نقل کیا ہے کہ مذکورہ دعا کے بعد پاکی وطہارت کے ساتھ سوجائے، خواب میں سفید یا ہرا رنگ دکھائے دے تو سمجھے کہ یہ کام میرے لئے بہتر ہے اور اگر کالا یا سرخ رنگ ہوتو اس کام سے بچنا ہی بہتر ہے۔ (ردالمحتار 508/1) لیکن ایسا ہونا کوئی ضروری نہیں ہے‘ لہٰذا اگر خواب وغیرہ نہ آئے تو دل کے رجحان پرعمل کرے، اور اگر کسی جانب رجحان نہ ہوتو جس پر چاہے عمل کرے، انشاء اللہ وہی اس کے لئے بہتر ہوگا۔

تکرار استخارہ:

ایک بار استخارہ میں دل کسی جانب مائل نہ ہوتو بار بار کرنا چاہئیے یہاں تک کہ دل کسی ایک طرف متوجہ ہوجائے حضرت عمرؓ سے جمع حدیث کے سلسلہ میں ایک ماہ تک استخارہ کرنا منقول ہے۔( جامع بیان العلم 64/1 لابن عبدالبر ۔ لیکن یہ روایت سندی اعتبار سے ضعیف ہے) بعض لوگوں کی رائے ہے کہ سات مرتبہ استخارہ کرنا چاہئیے اور اس کے بعد دل کے رجحان کے مطابق عمل کیا جائے۔ ان کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔
اذا ھمت بامر فاستخرربک سبع موات ثم ینظرالی الذی یسبق الی قبلک فان الخیر فیہ
جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اپنے رب سے سات مرتبہ استخارہ کرو پھر جس سمت تمہارا دل متوجہ ہو اسے اختیار کرو، کیونکہ اچھائی اسی میں ہے۔(رواہ ابن السنی عن انس مرفوعاً قال العراقی بعضم معروفون بالضعف الشدید ۔ نیل الاوطار 73/3۔قال ابن حجر : سندہ واہ جداً فتح الباری 187/11)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے