نماز اوابین:

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

ان المتقین فی جنات و عیون ،آخذین مااتا ہم ربھم انھم کانو قبل ذالک محسنین کا نو اقلیلا من اللیل مایھجعون وبالأ سحار ہم یستغفرون۔( الذاریات 17،16،15)
بلاشبہ پرہیزگار بندے باغوں اور چشموں میں ہونگے، جو ان کے پروردگار نے انہیں عطا فرمایا ہے اس سے لطف اٹھارہے ہونگے ، یقینا یہ لوگ اس دن کے آنے سے پہلے اچھے کام کیا کرتے تھے، رات کو بہت کم سوتے اور اخیر رات میں استغفار کیا کرتے ہیں۔
اس آیت میں اللہ کے انعامات و نوازشات کا تذکرہ بڑے اچھوتے انداز میں کیا گیا ہے، اور جو لوگ اس کے مستحق ہونگے ان کی کچھ مخصوص صفت کا بھی ذکر ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ’’وہ رات کو بہت کم سوتے ہیں‘‘ مشہور ناقد حدیث حافظ عراقی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ اس آیت کے مصداق وہ لوگ ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نفل پڑھا کرتے تھے۔ (نیل الاوطار 54/3)
یہ وہی نفل ہے جسے عام طور پر نماز اوابین کہا‌ جاتا ہے۔
بہت سی احادیث میں اس نماز کی فضیلت بیان کی گئی ہے، ایک روایت میں ہے :
من صلی بعدالمغرب ست رکعات لم یتکلم فیما بینھن عدلن لہ بعبادۃ ثنتی عشرۃ سنۃ (17)
جو کوئی مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھے اور اس دوران گفتگو نہ کرے تو وہ بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوگی ۔
حضرت عمار بن یاسر سے یہ حدیث منقول ہے :
من صلی بعد المغرب ست رکعات غفرت لہ ذنوبہ ولوکانت مثل زبد البحر (حدیث غریب .ترغیب 402/1)
جو کوئی ان چھ رکعتوں کو پڑھے تو اس کے گناہ معاف کردئے جائیں گے گو وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔
حضرت عائشہ نبی ﷺ سے روایت کرتی ہیں :
من صلی بعد المغرب عشرین رکعۃ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ (فیہ راو کذبہ احمد ۔حوالہ سابق)
جو کوئی مغرب کے بعد بیس رکعت پڑھے اللہ اس کیلئے جنت میں گھر بنادیں گے ۔
نماز اوابین کی فضیلت سے متعلق احادیث گرچہ ضعف سے خالی نہیں مگر ان حدیثوں کے مجموعہ سے اتنی بات تو ضرور ثابت ہوجاتی ہے کہ مغرب اور عشا کے درمیان نمازکی کثرت بہتر اور پسندیدہ ہے۔(معارف السنن 114/4، نیل الاوطار 56،55/3) اور خود اللہ کے رسول ﷺ سے اس درمیان نفل پڑھنا ثابت ہے، چنانچہ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا اور آپؐ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی اور دیکھاکہ مغرب سے عشا تک آنحضور نماز پڑھتے رہے۔(رواہ النسائی باسناد جید ۔ترغیب 405/1)
نماز اوابین کم سے کم چھ رکعت اور زیادہ سے زیادہ بیس رکعت ہے، لیکن یہ چھ رکعت دورکعت سنت موکدہ کے علاوہ ہے یا اس کو لیکر؟ ایسے ہی ظہر اور عشاء کے بعد جو چار رکعت سنت ہے وہ سنت موکدہ کو بھی شامل ہے یااس کے علاوہ علحدہ سے چار رکعت ہے؟ اس سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، ابن ہمام کا خیال ہے کہ سنت موکدہ بھی اس میں شامل ہے، ابن نجیم مصری، ابراہیم حلبی اور صاحب نہر الفائق کا رجحان بھی یہی ہے۔ (دیکھئے فتح القدیر 387/1، ردالمحتار 498/1)
اور اس کے برخلاف علامہ شرنبلالی کی رائے کے مطابق سنت موکدہ اس تعداد میں شامل نہیں ہے۔ (دیکھئے مراقی الفلاح 259)
ان چھ رکعتوں کو تین سلام سے پڑھنا افضل ہے۔(مراقی الفلاح 259، الدرالمختار498/1)

سنت عشاء:

عشاء سے پھلے:

اذان اور نماز کے درمیان فاصلہ جماعت میں شامل ہونے والوں کے انتظار میں ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ مصلحت بھی ہے کہ فرض نماز سے پہلے جو اللہ کے دربار عالی کی مخصوص حاضری ہے،کچھ رکعتیں پڑھ لی جائیں جس سے اس دربار سے یک گونہ مناسبت ،اور خیالات میں یکسوئی پیدا ہوجائے ، دل کو آداب سے آشنا اور مانوس کرلیا جائے اور ہمہ تن متوجہ ہوکر اس کے بارگاہ میں حاضر ہوں، یہی وجہ ہے فرض وسنت کے درمیان دنیاوی گفتگو سے منع کیا گیا ہے۔ اسی مقصد کے تحت اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
بین کل اذانین صلوۃ بین کل اذانین صلوۃ ثم قال فی الثالثۃ لمن شاء۔
ہر اذان واقامت کے درمیان نماز ہے۔ یہ الفاظ آپ نے تین مرتبہ فرمایا، تیسری مرتبہ یہ کہا کہ جو چاہے۔(صحیح بخاری 87/1)
اس عمومی حدیث کے پیش نظر تمام فقہاء متفق ہیں کہ عشاء سے پہلے چار رکعت مستحب ہے۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ 326،29/1)
اس حدیث کے سوا کوئی اورحدیث عشاء سے پہلے کی سنت سے متعلق منقول نہیں ہے۔ (18) یہ سنت چھوٹ جائے تو عشا کے بعد اس کی قضا نہیں۔ (الدرالمختار326،29/1)

عشاء کے بعد:

عشا ء کے بعد دو رکعت سنت موکدہ اور دو یا چار رکعت سنت غیر موکدہ ہے۔ بہت سی احادیث میں اس کی فضیلت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ : جو کوئی عشاء کے بعد چار رکعت پڑھے تو اسے شب قدر میں چار رکعت پڑھنے کے بقدر ثواب ملے گا۔(اعلاء السنن 15/7)
اس مفہوم کی متعدد روایتیں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مختلف صحابہ کرامؓ سے منقول ہیں، جن میں سے کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں، تاہم مجموعہ سے اس کی فضیلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، نیز اس کی اہمیت اور فضیلت کیلئے یہی کیا کم ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ان رکعتوں کو پڑھا کرتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں :
ما صلی النبی ﷺ العشاء قط فد خل علی الا صلی اربع رکعات او ست رکعات (رواہ ابوداؤد و رجال اسنادہ ثقات ، نیل الاوطار 18/3)
عشاء کے بعد سنت موکدہ اورغیر موکدہ دونوں کو ملا کر ایک سلام سے پڑھ لینے سے بھی سنت ادا ہوجائیگی۔ ( معارف السنن 120/4)

وتر کے بعد :

اللہ کے رسول ﷺ سے وتر کے بعد دورکعت بیٹھ کر پڑھنا ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ آنحضور وتر کے بعد دورکعت پڑھا کر تے تھے۔( کان یصلی بعد الوتر رکعتین .جامع ترمذی 108/1)
صحیح مسلم میں ہے کہ آپ ﷺ وتر کے بعد بیٹھ کر دورکعت پڑھتے (19)
علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ یہ رکعتیں تکمیل وتر کیلئے ہیں، کیوں کہ وتر ایک مستقل نماز ہے۔ خصوصا جب اسے واجب کہا جائے۔ ان کی حیثیت سنت مغرب کی سی ہے ، کیوں کہ مغرب کی نماز دن کا وتر ہے اور اس کے بعد دورکعت سنت اس کی تکمیل کیلئے ہے، اسی طرح رات کے وتر کیلئے بھی دورکعت سنت ہے۔ (زاد المعاد89/1) اس توجیہ کے مطابق یہ سنت کوئی مستقل نماز نہیں بلکہ وتر کے تابع ہے اس لئے اس کا پڑھنا اس حدیث کے خلاف نہ ہوگا جس میں کہا گیا ہے کہ رات میں آخری نماز وتر پڑھو۔ (اجعلو آخر صلاتکم باللیل وترا ۔متفق علیہ بلوغ المرام 88)
چونکہ آنحضرت ﷺ نے ان رکعتوں کو بیٹھ کر پڑھا ہے، اس لئے بیٹھ کر پڑھنا ہی مستحب ہے ۔(معارف السنن 259/4)
بعض حضرات دیگر نوافل کی طرح اس میں بھی قیام کو افضل قرار دیتے ہیں، کیوں کہ آپ ﷺ کا معاملہ جدا ہے، آپ کے عمل کو اس سلسلہ میں اسوہ نہیں بنایا جاسکتا ہے، صحیح مسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر نے رسول اللہ ﷺ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا :
حدثت یا رسول اللہ انک قلت صلــــوۃ الرجل قاعدا علی النصف وأنت تصلی قاعداً قال : أجل ولکنی لست کأحدمنکم. (صحیح مسلم 253/1 باب جوازالنافلۃ قائماً و قاعداً)
آپ کے حوالے سے مجھے یہ بات پہونچی ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو کھڑے ہوکر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتاہے اور آپ خود بھی بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں؟ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں مسئلہ تو وہی ہے لیکن میں اس معاملہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میرے ساتھ اللہ کا معاملہ جدا ہے۔
اس نماز کی پہلی رکعت میں ’’اذازلزلت الارض ‘‘اوردوسری رکعت میں قل ھواللہ پڑھنا مسنون ہے۔(20) نیز ان رکعتوں کو مختصر اور ہلکی پڑھنا بھی سنت ہے (21)

حواشی_____________________________
(1)حضرت عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ صلیت مع النبی ؐرکعتین قبل الظھر (متفق علیہ، ریاض الصالحین ص:449) امام شافعی اور احمد کے نزدیک ظہر سے پہلے دو رکعت موکدہ اور دو غیر موکدہ ہے (الفقہ علی المذاھب 326/1)
(2)جمعہ سے پہلے کی سنت کا بھی یہی حکم ہے۔ درمختار 682/1، مراقی الفلاح ؍296
(3)خیر یوم طلعت فیہ الشمس یوم الجمعۃ ۔رواۃ مسلم والترمذی وصححہ (نیل الاوطار 260/1)
(4) کان یصلی قبلھا اربعاً، قال العراقی: اسنادہ جید .(اعلاء السنن 10/7) عن ابی عباس قال کان النبی یرکع قبل الجمعۃ اربعاً، فالحدیث بسند الطبرانی حسن، عن علی قال کان رسول ﷲ یصلی قبل الجمعۃ اربعاً وحدیث مثلہ حسن. (اعلاء السنن 10/7)
(5)فی الدرایۃ رجالہ ثقات ، وفی آثار السنن اسنادہ صحیح. (اعلاء السنن 7/7)
(6)اذا صلی احد کم الجمعۃ فلیصل بعدھا اربعا (مسلم 288/1)
(7) اعلاء السنن 13/7 حضرت عبداللہ بن مسعود سے چار رکعت پڑھنا ہی منقول ہے۔ (معارف السنن 412/4)
(8)یہ دورکعت کم از کم ہے، بہتر شوافع کے یہاں بھی چار رکعت ہی ہے۔ (شرح مھذب 9/4 نیز دیکھئے ترمذی مع معارف السنن 411/4)
(9) امام ابویوسف سے یہی منقول ہے.( کبیری 372، بدائع 258/1)
(10)حافظو اعلی الصلوات والصلوۃ الوسطی (سورۃ البقرۃ : 238)
(11)رواہ احمد، ترمذی، ابوداؤد ۔نیل الاوطار 17/3) قال الترمذی حسن وصححہ ابن خزیمہ ،سبل السلام 383/2) وصححہ ایضاً ابن حبان۔ (اعلاء السنن 1/7)
(12) فیہ عبدالکریم وھو ضعیف، (مجمع الزوائد 222/2)
(13) ابوداؤد میں ہے : کان النبی یصلی قبل العصر رکعتین۔ 180/1، قال النووی اسنادہ صحیح ۔نووی علی مسلم 251/1. اور ترمذی میں ہے : کان النبی ؐ یصلی قبل العصر اربع رکعات. وقال: حسن. 98/1.
(14)صحیح بخاری اور مسلم وغیرہ میں اس طرح کی رواتیں مذکور ہیں (دیکھئے جمع الفوائد 112/1)
(15)دیکھئے شرح مھذب9/4، فتح الباری 108/2، سنن ترمذی 45/1 ان حضرات سے ایک قول صرف جواز کابھی منقول ہے. اعلاء السنن 59/3.
(16) جمع الفوائد 112/1 ،حدیث شدید ضعیف ہے، نیل الاوطار 55/3
(١٧)ترمذی، ابن ماجہ ، ابن خزیمہ .ترغیب 404/1. علامہ ظفر احمد عثمانی کی تحقیق کے مطابق حدیث صحیح ہے .اعلاء السنن 15/7.
(١٨)اما الاربع قبلھا فلم یذکر فی خصوصھاحدیث ، کبیری 369،معاف السنن 115/4، اشعۃ اللمعات 462/2۔
(19)كان یصلی ثمان رکعات ثم یوتر ثم یصلی رکعتین وھو جالس ۔(صحیح مسلم 257/1)
(20)عن امامۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یصیلھا بعد الوتر وھو جالس یقرء فیھا اذازلزلت وقل ایھا الکافرون ، رواہ الطحاوی و اسنادہ حسن ۔(اعلاء السنن 106/6۔نیز دیکھئے :بیہقی 33/3)
(21)کان ﷺ یصلی بعد الوتر رکعتین خفیفتین وھو جالس۔ (ابن ماجہ: 83)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے