نماز معراج:

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

   ستائیس رجب کو شب معراج مان کر بعض جگہوں پہ نوافل وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے،اس کی فضیلت سے متعلق کچھ حدیثیں بھی ذکر کی جاتی ہیں مگر ان کے بارے میں محدثین کا اتفاقی فیصلہ ہے کہ وہ موضوع ، جھوٹی اور رسول اللہ کی طرف غلط منسوب ہیں، مولانا عبدالحیؒ کے الفاظ میں اس رات کی فضیلت سے متعلق کوئی صحیح حدیث نہیں غنیۃ الطالبین یا اس جیسی تصوف کی کتابوں میں جو حدیثیں نقل کی گئی ہیں وہ سب موضوع اور باطل ہیں۔(الآثار المرفوعہ/58)

   واقعہ ہے کہ عبادات و طاعات میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے جانثار صحابہ ہمارے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہیں جو عبادات اور خیر کے کاموں کی طرف تیزی سے بڑھا کرتے تھے۔جس طرح ہم دنیا کمانے کی فکر کرتے ہیں اور اس کے لئے طرح طرح کی کوششیں کرتے ہیں اس سے زیادہ وہ آخرت کے لئے حریص تھے اور نیکی کے کاموں کی طرف دوڑا کرتے تھے مگر اس کے باوجود اس رات میں ان سے کسی بھی قسم کا اہتمام منقول نہیں علامہ ابن قیم لکھتے ہیں :

  ’’ متقدمین سے میں کسی کے بارے میں یہ منقول نہیں کہ اس نے معراج کی رات کو باقی راتوں سے خصوصاً لیلۃ القدر سے افضل قرار دیا ہو اور نہ صحابہ کرام اور تابعین عظام معراج کی رات میں خصوصی طور سے کوئی عبادت کیا کرتے تھے بلکہ وہ تو(اس انداز سے) اس کا تذکرہ ہی نہیں کرتے۔ اور یہ بات بھی معلوم نہیں کہ وہ رات متعین طور سے کونسی تھی(معراج کس تاریخ اور کس مہینہ میں ہوئی اس سلسلہ میں کوئی یقینی رائے منقول نہیں۔ ربیع الاول ‘ ربیع الثانی‘ شوال‘ ذوالحجہ ‘رمضان اور 27 رجب کی روایتیں منقول ہیں‘ بعض لوگوں نے آخری روایت کو ترجیح دی ہے۔) اگرچہ معراج کی رات آنحضرت ﷺ کے فضائل مبارک میں ایک عظیم الشان حیثیت رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود شرعا اس رات یا اس جگہ (بیت مقدس ، جہاں سے معراج ہوئی) کوئی عبادت ضروری قرار نہیں دی گئی بلکہ غار حرا جس میں ابتداء وحی نازل ہوئی اور بعثت سے پہلے جہاں آپ تشریف لے جایا کرتے تھے، بعثت کے بعد مکہ میں رہتے ہوئے بھی آپؐ نے یا کسی صحابی نے اس غار میں عبادت مخصوصہ کا فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی نزول وحی کے دن آپ ﷺ یا صحابہ کرام ؓنے کسی عبادت کی تخصیص کی ہو اور نہ جس جگہ وحی کی ابتداء ہوئی کوئی عبادت مخصوص کی گئی۔(زادالمعاد 44/1 اردو)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے