چاشت کی نماز:

بندہ کی بندگی کا تقاضا ہے کہ ہر وقت اپنے مالک و رازق کے حضور ہاتھ باندھے کھڑا رہے، حمد و ثنا اور رکوع و سجدہ کے ذریعہ اس کی بڑا ئی اور اس کی نعمتوں کے گن گائے، لیکن دنیا میں رہتے ہوئے انسان کے ساتھ کچھ معاشی ذمہ داریاں بھی ہیں، بیوی بچوں کی خبری گیری بھی ضروری ہے،زندگی سے فرار اسلام میں درست نہیں ۔(’’لارھبانیۃ فی الاسلام ‘‘ ) آرام وراحت بھی جسم کا حق ہے، اس لئے رب کائنات نے ہر وقت نماز کو ضروری قرار نہیں دیا، لیکن ساتھ ہی ’’اس کی حکمت کا تقاضہ ہوا کہ دن کے چاروں پہر میں سے کوئی حصہ عبادت سے خالی نہ رہے اس کیلئے پہلے حصہ میں فجر، تیسرے اور چوتھے حصے میں ظہر اور عصر کی نماز فرض کی گئی ہے اور دوسرا پہر معاشی ذمہ داریوں کی رعایت میں فرض نماز سے خالی رکھاگیا، مگر اس حصے میں کچھ رکعتیں مسنون اور مستحب کردی گئیں تاکہ جو لوگ بلندیوں کے خواستگار ہیں وہ اس کے ذریعہ اپنی خواہش پوری کرسکیں۔‘‘( حجۃ اللہ البالغہ)
حدیث میں اس نماز کی بڑی فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے، مختلف اسلوب انداز،اور ارشاد و عمل سے اس کی طرف رغبت دلائی گئی ہے، ان میں سے چند احادیث یہ ہیں:
1- عن ابی ذر عن النبی ﷺ قال یصبح علی کل سلامی احدکم صدقۃ فکل تسبیحۃ صدقہ، وکل تحمیدۃ صدقۃ وکل تحلیلۃ صدقۃ ، وکل تکبیرۃ صدقۃ وامر بالمعروف صدقۃ ونھی عن المنکر صدقۃ ویجزی من ذالک رکعتان یرکعھا من الضحی۔(صحیح مسلم 150/1)
حضرت ابوذرغفاری کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : صبح ہوتے ہی تم میں سے ہر ایک کے ذمہ اس کے جسم کے ہر جوڑ کے بدلے (تمام اعضاء کے صحیح سالم باقی رہنے کی شکریہ کے طور پر) صدقہ ہے، پس ’’سبحان اللہ ‘‘ کہنا صدقہ،’’ الحمد اللہ ‘‘ کہنا صدقہ ہے، ’’لاالہ الا الہ ‘‘ کہنا بھی صدقہ ہے اور اللہ اکبر کہنا بھی صدقہ ہے، اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، اور دو رکعت چاشت کی نماز ان تمام کیطرف سے کافی ہے۔
2- عن بریدۃ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول فی الانسان ستون وثلا ثمائۃ مفصل فعلیہ ان یتصدق عن کل مفصل منھا صدقۃ قالو ا فمن الذی یطیق ذالک یارسول اللہ قال النخامۃ فی المسجد ید فنھا صدقۃ والشئی ینحیہ عن الطریق فان لم یقدر فرکعتا الضحی تجزی عنک ۔(رواہ احمد و ابودائود ،واسنادہ صحیح (نیل الاوطار 63/3)
حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا کہ انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں، اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر جوڑ کیطرف سے صدقہ ادا کرے، صحابہؓ نے عرض کیا: یا نبی اللہ ! ہم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ آنحضرت نے فرمایا مسجد میں پڑے ہوئے تھوک کوصاف کردینا کسی (تکلیف دہ ) چیز کو راستہ سے ہٹا دینا صدقہ ہے اور اگر یہ نہ پاسکو تو چاشت کی دورکعت تمہارے لئے کافی ہوجائیگی ۔
3- عن ابی ھریرۃ قال اوصانی خلیلی بصیام ثلثۃ ایام من کل شھر و رکعتی الضحی وان اوترقبل ان ارقد۔ (صحیح بخاری و مسلم ۔جمع الفوائد 114/1)
حضرت ابوہریرہ کابیان ہے کہ میرے محبوب نے مجھے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ، ہر مہینہ تین روزہ ، چاشت کی دو رکعت اور سونے سے پہلے وتر کی ادائیگی۔
4- عن ابی ہریرہ قال قال رسول اللہ ﷺ من حافظ علی شفعۃ الضحٰی غفرت لہ ذنوبہ وان کانت مثل زبدالبحر ۔(رواہ احمد ، ترمذی، ابن ماجہ (مشکوۃ 112/1) حدیث ضعیف ہے، مرقات 182/2)
حضرت ابوہریرہ ہی سے یہ روایت بھی منقول ہے کہ جوکوئی پابندی سے چاشت کی نماز پڑھے تو اس کے سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے اگرچہ وہ (کثرت میں ) سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔
5- عن انس قال قال رسول اللہ ﷺ من صلی الضحی ثنتی عشرۃ رکعۃ بنی اللہ لہ قصرا فی الجنۃ۔( رواہ احمد، والترمذی، وقال حدیث غریب ۔مشکوۃ 112/1۔ قال ابن حجر: ولیس فی اسنادہ من اطلق علیہ الضعف ۔فتح الباری 19/2)
حضرت انس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی بارہ رکعت چاشت کی نماز پڑھ لے اس کیلئے جنت میں ایک محل بنادیا جائے گا۔
6- عن عائشہ قالت کان رسول الہ ﷺ یصلی الضحی اربعا ویزید ماشاء اللہ۔ (صحیح مسلم 249/1)
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ چار رکعت چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے اور کبھی اس سے زیادہ بھی پڑھ لیتے ۔
خود حضرت عائشہؓ کے نزدیک اس نماز کی اہمیت اس قدر تھی کہ فرماتی ہیں کہ اگر میرے والدین بھی زندہ ہو کر آجائیں تو بھی اس نماز کو نہیں چھوڑوں گی ۔( لونشرلی ابوای ماترکتھا.رواہ مالک فی الموطا 53/3)
یعنی اس نماز کی لذت اس قدر ہے کہ والدین کی زیارت اور ملاقات کی خوشی میں بھی یہ رکعتیں چھوٹ نہیں سکتیں گو وہ دوبارہ زندہ ہوکر ہی کیوں نہ آجائیں۔
چاشت کی نماز مسنون اور مستحب ہے۔ (الدرالمختار 504/1) امام نووی شافعی نے لکھا ہے کہ نماز چاشت سنت موکدہ ہے، (حاصلھا ان الضحی سنت مؤکدۃ .نووی علی مسلم 248/1)
اس نماز کا پڑھنا آنحضور ﷺ سے ثابت ہے،اور فضیلت میں بکثرت احادیث منقول ہیں۔ جن میں سے چند ذکر کی گئیں، تاہم کبھی آپ نے اس نماز کو ترک بھی کردیتے تھے تاکہ اس سے آپکے شغف اورآپکی پیروی میں صحابہ کرام ؓ کے ذوق وشوق کو دیکھ کر یہ نماز فرض نہ کردی جائے۔
واضح رہے کہ نماز چاشت سے متعلق حضرت عائشہ سے تین مختلف احادیث منقول ہیں،بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور نماز چاشت پڑھا کرتے لیکن بعض دوسری احادیث میں ہے : کہ وہ کہتی ہیں :مارأیت رسول اللہ ﷺ سبح سبحۃ الضحی وانی لأ سبحھا (صحیح بخاری و مسلم. جمع الفوائد 114/1) علامہ بیہقی اس حدیث کی توجہہ میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں مداومت سے انکارکیا گیا( ماریت سبح ای داوم علیھا وانی لاسبحھاای ادوام علیھا .فتح الباری 236/7) اس کی تائید حضرت عائشہ ؓ ہی کی ایک حدیث سے ہوتی ہے جس میں وہ فرماتی ہیں:مارایت رسول اللہ ﷺ یسبح سبحۃ الضحی قط وانی لاسبحھا وان کان رسول اللہ ﷺ لیدع العمل وھویحب ان یعمل خشیۃ ان یعمل بہ الناس فیفرض علیھم۔ (مسلم 429/1) ایک تیسری حدیث ہے کہ نماز چاشت آپ صرف سفر سے آکر پڑھاکرتے تھے۔ عن شفیق قال سالت عن عائشۃ ھل کان النبی ﷺ یصلی الضحی قال لا الاان یجئی من مغیبہ (مسلم 248/1) محب طبری کہتے ہیں کہ اس حدیث سے حضرت عائشہ کا مقصود یہ ہے کہ سفر سے واپسی پرآپ ﷺ نماز چاشت گھر میں نہیں بلکہ مسجد میں پڑھاکرتے اوراس کے علاوہ گھر ہی میں ادا کرتے، (فتح الباری72/3) یاوہ اپنے دیکھنے کی نفی کررہی ہیں( معناہ مارأیتہ کما قالت فی الروایۃ الثانیۃ مارایت یصلی سبحۃ الضحی .نووی علی مسلم 241/1)
بعض صحابہ کرام سے اس سلسلہ میں جو انکار مروی ہے وہ اس پس منظر میں ہے کہ بعض لوگ اسے ضروری خیال کرنے لگے تھے، اور کچھ لوگوں نے تو حد کردی کہ مسجد میں جماعت سے پڑھنے لگے، اس پابندی اور حد سے تجاوز کو بعض صحابہ کرام ؓ نے پسند نہیں کیااور کہا یہ بدعت ہے۔ (فتح الباری 62/3)

وقت:

اس نماز کا وقت سورج نکلنے اور وقت مکروہ گذرجانے کے بعد سے زوال تک ہے۔ لیکن دن کا ایک چوتھائی حصہ گذرجانے کے بعد پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔ (کبیری 337) چنانچہ حدیث میں ہے :
صلوۃ الاوابین حین ترمض الفصال ۔(رواہ مسلم,ریاض الصالحین 457)
نماز چاشت اس وقت ہے جب کہ اونٹ کے بچے کے پاؤں گرم ہونے لگیں۔
اس حدیث میں چاشت کی نماز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اس وقت ہے جب کہ دھوپ میں اتنی شدت آجائے کہ اس کی وجہ سے پاؤں جلنے لگے اور یہ وقت دن کا چوتھائی حصہ گذرجانے کے بعد ہی ہوتا ہے. (وھی عندمضی ربع النھار۔ مرقات المصابیح 180/2)
مذکورہ حدیث میں ’’ چاشت کی نماز کیلئے ‘‘’’نماز اوابین ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، ’’اواب‘‘ کے معنی ہیں بارگاہ حق کی طرف بار بار رجوع ہونے والے، اس دربار میں کثرت سے حاضری دینے والے، چونکہ یہ نماز اور مغرب کے بعد کی چند رکعتیں متلاشیان حق کی مخصوص پہچان اور علامت ہیں، اس لئے ان دونوں نمازوں کو’’نماز اوابین ‘‘ کہاجاتا ہے۔
(دیکھئے نیل الاوطار 54/3، معارف السنن 113,114/4)

تعداد رکعت:

نماز چاشت سے متعلق حدیث میں کم سے کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت کا تذکرہ ملتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
من صلی الضحی رکعتین لم یکتب من الغافلین ومن صلی اربعا کتب من العابدین ومن صلی ستاکفی ذالک الیوم ومن صلی ثمانیا کتبہ اللہ من القانتین ومن صلی عشرۃ رکعۃ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ ۔(رواہ البیہقی وضعفہ ۔شرح مھذب 39/4 ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اس مضمون کی حدیث متعدد سندوں سے مروی ہے اور باعتبار مجموعی قوی اور لائق استدلال ہے۔ فتح الباری 69/3 ،اعلاء السنن 29/7)
اگر کوئی چاشت کی دورکعت پڑھ لے تو غافلوں میں اس کا شمار نہیں ہوگا، چار رکعت پڑھنے کی وجہ سے وہ نیکوکاروں میں لکھ لیا جائیگا، چھ رکعت پڑھنے کی صورت میں اس دن کیلئے اس کا یہ عمل کافی ہو جائیگا، اور اگر آٹھ رکعت پڑھ لیا تو ’’قانتین‘‘ میں سمجھا جائیگا، اورا گر بارہ رکعت پڑھ لیا تو اللہ تعالیٰ جنت میں اسکے لئے گھر بنادیں گے۔
افضل اوربہتر چاروں اماموں کے یہاں آٹھ رکعت ہے۔( ردالمحتار 505/1، شرح مھذب 35/4،153/1، الفقہ علی المذاھب 322/1) کیوں کہ یہ تعداد آنحضور ﷺ کے ارشاد و عمل دونوں سے ثابت ہے۔ جبکہ بارہ رکعت کاثبوت صرف آپ کے ارشاد سے ہے۔(الدرالمختار 505 ، حضرت ام ھانی سے روایت ہے کہ صلی ثمانی رکعات وذالک ضحی متفق علیہ ، ریاض الصالحین 457)
محدثین کی ایک تعداد چار رکعت کو پسند کرتی ہے کیوں کہ اکثر حدیثوں میں چاررکعت کا ذکر ہے، علامہ بنوری کہتے ہیں کہ شاید علامہ کشمیری کا بھی یہی رجحان ہے۔ (معارف السنن 270/4) ۔

مستحب سورۃ اور اذکار و دعائیں:

عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نماز چاشت میں’’و الشمس والضحیٰ ، اور’’والضحیٰ‘‘ پڑھاکریں۔ (روی الحاکم فی المستدرک وھو حسن او صحیح علی قاعدتہ (اعلا السنن 30/7)
حضرت جبیر بن مطعم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکو میں نے نماز چاشت کی تکبیر کے بعد یہ الفاظ کہتے ہوئے سنا:
’’اللہ اکبرکبیرا‘‘ تین مرتبہ ’’الحمد للہ کثیرا‘‘ تین مرتبہ ’’سبحان اللہ بکرۃ واصیلاً‘‘ تین مرتبہ ،اللھم انی اعوذبک من الشیطان الرجیم من ھمزہ ونفحہ ونفثہ۔(کنز العمال 312/3)
حضرت عائشہ ؓ سے منقول ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز چاشت کے بعد سو مرتبہ یہ دعا پڑھی :
اللھم اغفرلی وارحمنی وتب علی انک انت التواب الرحیم الغفور ۔(زاد المعاد۔114/1 )
اے اللہ ! میری مغفرت فرما ، مجھ پر رحمتوں کا نزول اور توجہ فرما، بیشک آپ توبہ قبول کرنے والے، مہربان اور بخشنے والے ہیں۔

نماز چاشت کی پابندی:

اللہ کے رسول ﷺ نماز چاشت کو کبھی اس غرض سے چھوڑ دیا کرتے تھے کہ آپ کی دلچسپی اور شغف کی وجہ سے کہیں یہ نماز فرض نہ کردی جائے کہ امت اس کی وجہ سے دشواری میں پڑجائے (دیکھئے صحیح مسلم 249/1) ظاہر ہے کہ یہ مصلحت آنحضورؐ کے ساتھ اور آپ کی دنیاوی زندگی تک خاص ہے، اس لئے اب دوسرے لوگوں کے لئے اس پر پابندی ہی پسندیدہ ہے، خود حدیث میں ہے کہ:
لایحافظ علی صلوۃ الضحی الا اواب وھذہ صلوۃ الاوابین (مستدرک حاکم ، وصحہ علی شرط مسلم (314/1) واقرہ علیہ الذھبی اعلاء السنن 29/7۔و روی انصار بن خزیمہ فی صحیحہ۔ عمدۃ القاری 220/7)
چاشت کی نماز کی پابندی وہی لوگ کرتے ہیں جو بار گاہ حق کیطرف بکثرت رجوع کرنے والے ہیں اور یہ ایسے ہی لوگوں کی نماز ہے۔

قضا:

وقت ختم ہوجانے کے بعد نماز چاشت کی قضا نہیں ہے،امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا یہی مذہب ہے، امام شافعی اور احمد کے نزدیک نماز چاشت کی قضا مسنون ہے۔ (الفقہ علی المذاھب 3323/1)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے