نماز کے بعد دعا کی اہمیت ۔
ترجمہ و تلخیص.
"ثلاث رسائل في استحباب الدعاء و رفع اليدين بعد الصلاة المكتبة”
ترتیب ۔
محدث شہیر شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی:1417ھ)
مقدّمہ و تکملہ۔
حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی ؒ۔
تلخیص و ترجمانی ۔
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی ۔
ناشر: مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد ضلع مئو۔یوپی۔

نماز کے بعد دعا
[ پہلے یہ مضمون مدرسہ انوار العلوم ،جہانا گنج ، اعظم گڈھ کے ترجمان ’’ماہنامہ انوار العلوم‘‘ کی خصوصی اشاعت ’’نماز کے بعد دعاء کی اہمیت‘‘ (جون ، جولائی 1999) میں شائع ہوا، اور اب جدید کتابت کے بعد احقر کی تصحیح وترتیب کے ساتھ دوبارہ کتابی شکل میں مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد ضلع مئو سے شائع ہو رہا ہے۔ ضیاء الحق خیرآبادی]

تمہید

مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی

آج کل یہ چرچے عام ہیں کہ نت نئی سائنسی ایجادات نے جہاں انسانی زندگی میں بہت سی گرہیں ڈال دی ہیں، وہیں اسلامی شریعت کے سامنے بھی بہت سے چیلنج کھڑے کردئے ہیں۔ علماء وفقہاء کی ایک جماعت ان نئے مسائل کے حل کرنے میں کتاب وسنت اور فقہ وفتاویٰ کے اوراق الٹ رہی ہے۔ یہ حضرات مسائل و دلائل کی چھان بین کررہے ہیں، شریعت اسلامیہ کی روح کے مطابق نئے سوالوں کے جواب کی جستجو میں ہیں اور ان کی کوششیں بحمد اللہ بڑی حد تک کامیاب ہیں، جو بھی نیا چیلنج سامنے آتا ہے حق تعالیٰ کی تائید اوراس کے فضل سے اس کا قرارِ واقعی جواب علمائے اسلام ڈھونڈھ نکالتے ہیں۔
لیکن علم ہی کا نام لگاکر ایک ٹولہ ایسا بھی ہے، جو اپنا تشخص برقرار رکھنے کیلئے قدیم مختلف فیہ مسائل کو نئی آب وتاب دے کر عوامی حلقوں میں جذباتی رنگ میں لاکر کھڑا کرتا ہے۔ مسائل و دلائل کے باب میں عہد رسالت ہی سے فہم اور استدلال کا اختلاف رہا ہے، اور یہ اختلاف فطری اختلاف ہے، اسے مٹایا نہیں جاسکتا، لیکن اس کے رہتے ہوئے لوگ شیر و شکر رہ سکتے ہیں، اور مدتوں رہ چکے ہیں، لیکن اب کچھ لوگ انہیں اختلافی مسائل کو موضوع بناکر مسلمانوں میں انتشار کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں کچھ مسائل تو بہت عرصہ سے بحث و اشتہار کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں، بعض مسائل علمی طور پر کبھی زیر بحث آجاتے تھے، مگر ان کی عام تشہیر نہ تھی، لیکن جب سے عرب ممالک کی راہ کچھ تعلیم کیلئے اور کچھ ذرائع معاش کے لئے کھلی ہے، وہاں سے کچھ ایسے مسئلے شدت سے درآمد کئے جانے لگے ہیں، جن میں تشدد کا احساس پہلے بالکل نہ تھا۔
انہیں مسائل میں ایک مسئلہ فرض نمازوں کے بعد دعا کا ہے، ہمارے علم میں زمانہ قدیم سے ہر مسلمان کے ذہن میں یہ بات راسخ تھی کہ فرض نمازوں کے بعد خصوصیت سے دعا قبول ہوتی ہے، اسی کے پیش نظر نمازیوں میں عام دستور تھا کہ نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کیا کرتے تھے، کبھی کبھی بعض علماء اس کے شدت اہتمام کو دیکھ کر اس پر نکیر کرتے تھے، بعض اکابر اپنی طبیعت کی شدت و حدت کے زیر اثر اس کے بدعت ہونے کا بھی حکم لگادیتے تھے، مگر امت نے اس حکم کوایک انفرادی رائے سمجھ کر قبول نہیں کیا لیکن اب کچھ لوگوں نے اس کو موضوع بناکر اس کے خلاف ایک محاذ قائم کرلیا ہے، اور بعض عرب ممالک میں اس کو اس طر ح ترک کردیا ہے جیسے واقعی یہ عمل بدعت ہی رہا ہو ،لیکن اس کی وجہ سے امت ایک بڑے خیر سے محروم ہوتی جارہی ہے اور اس کا التزاماً ترک کرنا خود بدعت بنتا جارہا ہے۔
بہت سے سنجیدہ عرب علماء اس طریقہ کو پسند نہیں کرتے، چنانچہ ابھی ماضی قریب کے ایک زبردست عالم اور صاحب تحقیق محدث و فقیہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ علیہ الرحمہ نے فرض نمازوں کے بعد دعا کے موضوع پر تین رسالوں کو اپنی تحقیق وتعلیق کے ساتھ یکجا شائع کیا، جن میں اس مسئلے کی خوب وضاحت کردی گئی ہے۔
اس حقیر نے اپنے ایک عزیز مولانا ولی اللہ قاسمی فتحپوری سلمہ سے ان تینوں رسالوں کا ترجمہ اور اس کی تلخیص کرائی۔ ترجمہ میں تینوں رسالوں کو الگ الگ ممتاز نہیں کیا گیا ہے بلکہ تینوں کے مجموعے سے ایک مکمل رسالہ مرتب کیا گیا ہے، اس خاکسار نے اس پر ایک مبسوط مقدمہ اور ایک مفصل خاتمہ لکھا۔
ماہنامہ انوارالعلوم کے دو شماروں کو یکجا کرکے اسی موضوع پر ایک خصوصی نمبر بنادیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حقیر کاوش کو قبول فرمائیں۔

مقدمہ

مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی

سعودی عرب اور دوسرے چھوٹے چھوٹے ممالک عربیہ کی بے حد و حساب دولت نے جہاں دنیا بھر کے مسلمانوں کو کچھ مادی اور دنیوی فوائد پہونچائے ہیں، اور بعض بعض حلقوں میں کچھ دینی فوائد بھی اس سے حاصل ہوئے ہیں…… وہیں جیسا کہ دولت کی بہتات کا خاصہ ہے ……خود اہل عرب کو بھی ،اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں کو بھی اس نے دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے نقصان بھی پہونچایا ہے، اس وقت ہمیں دنیوی نقصانات کا جائزہ لینا مقصود نہیں ہے، دینی اعتبار سے جو نقصان پہونچا ہے، اس کا قدرے ذکر کرنا ہے۔
ان ممالک میں جہاں دولت کے چشمے ابلے ، وہیں ائمہ اربعہ کی تقلید سے لوگوں نے اپنی گردن چھڑانے کی کوشش کی۔تقلید کیا ہے؟قرآن وسنت اور احکام شرعیہ کے سمجھنے میں اپنی فہم کے بجائے، ان حضرات کی فہم پر اعتماد کرنا، جن کی حذاقت و مہارت، بلکہ امامت امت کے نزدیک مسلم ہے، ظاہر ہے کہ یہ بات عقلاً و نقلاً ہر طرح صحیح بلکہ واجب العمل ہے، اس سے دین کا انتظام بھی قائم رہتا ہے، اور دینی امور کا احترام بھی باقی رہتا ہے، اور قرآن و سنت کو بازیچۂ اطفال بنانے کی جرأت کوئی نہیں کرتا، لیکن انگریزی حکومت کا جب طوفان اٹھا، تو اس نے ایک طرف تمام قدیم دینی اقدار و روایات کو زیر و زبر کیا، اور دوسری طرف اس نے اتنی ذہنی اباحیت پیدا کردی کہ اس سے متاثر کوئی شخص اپنی سمجھ کے علاوہ دوسرے کی سمجھ پر اور اپنے علم و واقفیت کے سوا دوسرے کے علم و واقفیت پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ انگریزیت زدہ افراد حقائق دین اور مسلمات شرع میں بھی طرح طرح کے شکوک پیدا کرنے لگے، کیونکہ انگریزوں کی بارگاہ سے علم کے نام پر جو چیز ان تک پہونچی تھی اس کا کوئی تعلق دینی حقائق سے نہ تھا۔پھر جب دینی حقائق ان کے سامنے آئے ،اور وہ ان کے دائرہ فہم سے باہر رہے ،تو اولاً وہ شک وشبہ میں گرفتار ہوئے ، پھر تو فیق الٰہی نے اگران کی مدد نہیں کی تو وہ انکار و انحراف کی راہ پر چل پڑ ے ، اس طرح مسلمانوں کا ایک خاصا طبقہ مسلمان کہلا تے ہوئے بھی دینی راہ سے منحرف ہوگیا، پھر یہی اباحیت کی وبا دینداروں بلکہ صحیح الفاظ میں’’دین پسندوں‘‘کے حلقے میں بھی گھس آئی۔اور متعدد لوگوں نے،اورمختلف جماعتوں نے سراً یا جہاراً اعلان کیا کہ ہم قرآن وسنت کو،سمجھنے کے ان اصولوں کے مطابق نہیں سمجھیں گے،جنھیں ائمہ اربعہ نے اور دوسرے اصحاب بصیرت علماء نے مقرر کیا ہے، بلکہ جو کچھ ہمارے ذہن میں آئے گا،ہمارے نزدیک وہی معتبر ہوگا۔
ایک جماعت کے بانی نے اپنی جماعت کا اصول یہی مقرر کیا کہ ’’کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو‘‘ ذہنی غلامی، تقلید ہی کی ایک پھوہڑ تعبیر ہے۔اسی اباحیت کے نتیجے میں ’’غیر مقلدیت‘‘ نے جنم لیا،غیر مقلدیت نے صرف اپنے ذہن و فہم ہی پر اعتماد نہیں کیا، بلکہ اس نے ہر اس بات کی نفی کی جو اس کے دائرۂ فہم اور احاطۂ علم سے باہر ہے،اس نے اپنی فہم کو انسانی فہم سے اوپر اٹھا کر وحی الٰہی کا درجہ دے دیا۔اس نے اپنی بات کے علاوہ ہر بات کو گمراہی قرار دیا۔وہ مسائل جو دور صحابہ سے مختلف فیہ رہے ہیں، اور لوگ بے تکلف اپنی یا اپنے ائمہ کی تحقیق پر عمل کر کے بھی سب کے نزدیک اعلیٰ درجہ کے مومن و مسلم باقی رہتے تھے،اس غیر مقلدیت کے ذہن نے اس کے کسی ایک پہلو کو اختیار کر کے باقی سب کو غلط قرار دے ڈالا۔
پھر جب غیر مقلدیت کا گٹھ جوڑ دولت کے ساتھ ہوگیا، تو اس کی جارحیت اور بڑھ گئی۔اب اسے جنون ہے کہ ہر شخص اپنا مسلک چھوڑ کر غیر مقلدیت اختیار کرلے۔
عرب کی دولت اور غیر مقلدین کا اس وقت زبردست گٹھ جوڑ ہے، ہندوستان کے بہت سے لوگ زیادہ تر معاشی مقصد کے تحت وہاں جاتے ہیں،تو پہلے وہاں کی دولت سے مرعوب ہوتے ہیں۔ پھر اس کی اثر سے ان کی ذہنیت تبدیل ہوتی ہے،اس کے ساتھ ساتھ غیر مقلدیت کی جارحیت ان کے ذہن و فکر پر مسلسل حملے بھی کرتی رہتی ہے، پھر جب وہ یہاں واپس لوٹتے ہیں،تو اپنے ساتھ ایسی چیزیں لگا لاتے ہیں جو یہاں کے دینی حلقوں میں اجنبی محسوس ہوتی ہیں۔اور انہیں اصرار ہوتا ہے کہ یہی اجنبی چیزیں صحیح ہیں،سنت کے مطابق ہیں،اور جو کچھ یہاں دین سمجھ کر کیا جارہا ہے وہ بدعت ہے،غلط ہے،خلاف سنت ہے۔
آمین بالجہر، رفع یدین اور قرأۃ خلف الامام کے مسائل تو قدیم زمانے سے مختلف فیہ رہے ہیں،ان کے متعلق اختلاف کے مستقل مذاہب ہیں۔ان مسائل میں حنیفہ اور شافعیہ کا اختلاف سب جانتے ہیں۔لیکن جو چیزیں عملاً پہلے سے باتفاق رائے ہوتی چلی آئی ہیں۔اب انہیں بھی حدیث کا نام لے لے کر غلط کہا جانے لگا۔حالانکہ ان میں بعض چیزیں محض جاہلانہ ہیں۔
چنانچہ آپ بہت سی مسجدوں میں دیکھیں گے کہ کچھ لوگ سروں پر انگریزی بال رکھے ہوئے، ننگے سر نماز پڑھ رہے ہیں یہ بیشتر وہ لوگ ہوتے ہیں، جو سعودی یا دوسرے عرب ممالک سے واپس آتے ہیں،وہاں جاہلوں کو یا عالم نما جاہلوں کو ننگے سر نماز پڑ ھتے دیکھتے ہیں تو چونکہ یہ ان کے نفس اور مزاج کے مطابق ہے،اس لئے اس بری ہیئت میں یہ بھی نماز پڑھ کر نماز اور عبادت کی تقدیس کو پامال کر تے ہیں۔اسلامی تہذیب و روایات سے انحراف کر کے انگریزی تہذیب کی ذہنی اور عملی غلامی اختیار کئے ہوئے ہیں۔اور اس پر انھیں فخر و ناز ہے،حالانکہ عرب علماء بھی اس کو ’’منکر‘‘ اور غلط قرار دیتے ہیں۔
دوسری چیز جو ان اصحاب دولت غیر مقلدین سے درآمد کی گئی ہے۔اور وہ ا یک گونہ علمی رنگ رکھتی ہے، وہ ہے فرض نمازوں کے بعد دعا کا ترک کرنا۔
یہ مسئلہ اب سے کچھ پہلے تک تقریبًا اجماعی تھا کہ فرض نماز کے بعد دعا مانگنا مستحب ہے،اور دعا کے آداب میں ہاتھ کا اٹھانا ہے۔اس پر مغرب و مشرق اور شمال و جنوب کے تمام مسلمانوں کا عمل تھا۔ تقریباً میں نے اس لئے کہا کہ خال خال علماء اس کے منکر بھی تھے ،چنانچہ علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم علیہما الرحمہ اسے نہیں تسلیم کر تے ،لیکن یہ نظریہ ایک شاذ نظریہ رہا،عام طور پر ہر زمانہ میں عمل اس کے خلاف ہی رہا۔
اس مسئلہ میں ان دونوں بزرگوں کی رائے شاذ ہے ،لیکن غیر مقلدین کو ان کی شاذ رایوں سے خاص دلچسپی ہے۔انہیں اچھالتے رہتے ہیں۔اس سلسلے میں علامہ ابن القیم کی ایک عبارت قابل ملاحظہ ہے ،جسے حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح بخاری میں ان کی کتاب الہدی النبوی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
واما الدعاء بعد السلام من الصلوٰۃ مستقبل القبلۃ سواء الامام والمنفرد والماموم فلم یکن من ھدی النبی ﷺ اصلاً و لا روی عنہ باسناد صحیح ولا حسن وخص بعضہم ذالک بصلاتی الفجر والعصر ولم یفعلہ النبی ﷺ ولا الخلفاء بعدہ ولا ارشد الیہ امتہ وانما ہو استحسان رآہ من راہ عوضاً من السنۃ بعدہما۔ قال: وعامۃ الادعیۃ المتعلقۃ بالصلوٰۃ انما فعلہا فیھا وامر بہا فیہا، قال: وہذہ اللائق بحال المصلی فانہ مقبل علی ربہ مناجیہ، فاذا سلم منہا انقطعت المناجاۃ وانتہی موقفہ وقربہ فکیف یترک سوالہ فی حال مناجاتہ والقرب منہ وہو مقبل علیہ، ثم یسأل اذا انصرف عنہ، ثم قال: لکن الاذکار الواردۃ بعدالمکتوبۃ یستحب لمن اتی بہا ان یصلی علی النبی ﷺ بعد ان یفرغ بہا ویدعو بما شاء، ویکون دعاءہ عقب ہذہ العبادۃ الثانیۃ لا لکونہ دبرالمکتوبۃ۔
(فتح الباری کتاب الدعوات 160/11)
حاصل اس عبارت کا یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رو بیٹھے بیٹھے دعا کرنا خواہ امام ہو، منفرد ہو یا مقتدی ہو، یہ سرے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں ہے، اور نہ آپ سے کسی صحیح ، یا حسن سند کے ساتھ مروی ہے، بعض لوگوں نے اس دعا کو نماز فجر اور نماز عصر کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کیا ہے، نہ آپ کے بعد خلفاء راشدین نے کیا ہے اور نہ ہی آپ نے اپنی امت کو اس کی ہدایت فرمائی ہے، یہ بعض حضرات کا استحسان ہے انہوں نے اسے سنتوں کے عوض میں تجویز کیا ہے، یعنی عصر اور فجر کے بعد چونکہ کوئی سنت نماز نہیں ہے، اس لئے اس کے عوض میں لوگوں نے دعا کو تجویز کردیا۔
فرماتے ہیں کہ نماز سے متعلق جتنی دعائیں منقول ہیں انہیں آپ نے نماز کے اندر کیا ہے اور اسی میں ان کا حکم دیا ہے، علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ یہی بات نمازی کے حق میں مناسب بھی ہے کیونکہ وہ اپنے رب کی طرف بالکلیہ متوجہ ہے، اس سے مناجات کر رہا ہے، پھر جب سلام پھیرتا ہے تو اس کی مناجات منقطع ہوجاتی ہے، اور قرب کا وہ مقام جو نماز کے اندر اسے حاصل تھا، ختم ہوجاتا ہے، تو کیا یہ عقل میں آنے والی بات ہے کہ جب وہ قرب و مناجات کے حال میں تھا، اور بالکلیہ رب تعالیٰ کی طرف متوجہ تھا تب تو سوال و دعا نہ کرے اور جب اس سے فارغ ہوگیا، تب دعا کرنا شروع کرے۔
البتہ خاص خاص اذکار جو فرض نماز کے بعد وارد ہیں، انہیں جو پڑھنا چاہے اس کے لئے مستحب ہے کہ ان اذکار سے فارغ ہونے کے بعد نبی ﷺ پر درود بھیجے اور جو چاہے دعا کرے۔ اس کی یہ دعا اس دوسری عبادت یعنی اذکار مسنونہ کے ورد کے بعد ہوگی، فرض نماز کے بعد ہونے کی وجہ سے نہیں۔
علامہ ابن قیم کا آہنگ ملاحظہ فرمائیے! انہوں نے نماز کے بعد دعا کی مطلقاً نفی فرمادی، خواہ امام ہو، خواہ منفرد ، فرض ہو یا نفل، پھر یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ اور سنت سرے سے ہے ہی نہیں، اس کیلئے نہ صحیح، نہ حسن، نہ فعلی ،نہ قولی، کوئی روایت ہے ہی نہیں، نہ خلفاء نے یہ عمل کیا، نہ آپ نے امت کو اس کی ہدایت کی، اللہ اکبر! کتنا بڑا دعویٰ فرمادیا لیکن صاحب فتح الباری کی سنئے، وہ اس پر نقد کرتے ہیں:
قلت: وما ادعاہ من النفی مطلقاً ، مردود، فقد ثبت عن معاذ بن جبل ان النبی ﷺ قال لہ: یا معاذ انی وﷲ احبک فلا تدع دبرکل صلـوٰۃ ان تقول:اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ، اخرجہ ابو داؤد والنسائی وصححہ ابن حبان والحاکم وحدیث أبی بکرۃ فی قول اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ، کان النبی ﷺ یدعو بہن دبر کل صلوٰۃ اخرجہ احمد والترمذی والنسائی وصححہ الحاکم وحدیث سعد الآتی فی باب التعوذ من البخل قریباً فان فی بعض طرقہ المطلوب وحدیث زید بن ارقم : سمعت رسول ﷲ ﷺ یدعو فی دبر کل صلوٰۃ: اللہم ربنا ورب کل شئی الحدیث اخرجہ ابو داؤد والنسائی وحدیث صھیب رفعہ کان یقول اذا انصرف من الصلوٰۃ: اللہم اصلح لی دینی الحدیث اخرجہ النسائی وصححہ ابن حبان وغیرہ
فان قیل: دبر کل صلـوٰۃ قرب اخرہا وھو التشہد: قلنا قد وردالامر بالذکر دبر کل صلوٰۃ والمراد بہ بعدالسلام اجماعاً فکذا ہذا حتی یثبت ما یخالفہ۔
فرماتے ہیں کہ حافظ ابن قیم نے نمازوں کے بعد دعا کرنے کی جو مطلقاً نفی فرمادی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ
1- حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے معاذ! واللہ مجھے تم سے محبت ہے پس کسی نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ چھوڑنا: اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔
یہ روایت ابو داؤد اور نسائی میں موجود ہے، اور اسے ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔
2- حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد یہ دعا کرتے تھے:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔
یہ روایت امام احمد، امام ترمذی، امام نسائی نے نقل کی ہے اور امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
3- حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے بھی اس سلسلے میں ایک روایت منقول ہے، جو قریب ہی باب التعوذ من البخل میں آرہی ہے، اس کے بعض طرق میں مطلوب موجود ہے۔
4- حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا کرتے سنا:
اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَئْیٍ….
اسے امام ابو داؤد اور امام نسائی نے نقل کیا ہے۔
6- حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو یہ دعا کرتے:
اللہم اصلح لی دینی الخ.
اسے امام نسائی نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور ابن حبان وغیرہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور اگر کوئی کہے کہ حدیث میں آئے ہوئے لفظ دبر کے معنی نماز کے اخیر کے قریب والا جز ہے، یعنی تشہد کے بعد کا حصہ، مطلب یہ ہے کہ یہ دعائیں نماز کے آخری جز میں پڑھی جائیں گی ، نہ کہ نماز کے بعد۔
تو ہم کہیں گے کہ احادیث میں بعض اذکار کے متعلق حکم ہوا ہے کہ انہیں دبر کل صلوٰۃ پڑھا جائے، اور وہاں بالاجماع نماز کے بعد مراد ہے، اسی طرح ان دعاؤں کے بارے میں بھی یہی کیا جائے گا کہ نماز کے بعد کی جائیں گی، جب تک اس کے خلاف ثابت نہ ہوجائے۔
چنانچہ متعدد روایات میں نمازوں کے بعد سبحان ﷲ، الحمدللہ، ﷲ اکبر کہنے کی ترغیب ہے، آیۃ الکرسی پڑھنے کا حکم ہے، ظاہر ہے کہ یہ تسبیحات اور آیۃ الکرسی کا پڑھنا نماز کے اندر نہیں ہے، بلکہ نماز کے بعد ہی مراد ہے، بس معلوم ہوا کہ ان جگہوں میں ’’دبر‘‘ کے معنیٰ بعد کے ہیں۔
حدیث نمبر (3) میں جس روایت کا حوالہ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے دیا ہے وہ بخاری میں مصعب ابن سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہما سے اس طرح مروی ہے کہ:
’’ کان سعد یامر بخمس ویذکرہن عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان یامربہن اللہم انی اعوذبک من الخ‘‘
اس روایت میں نماز کے بعد کا ذکر نہیں ہے لیکن انہوں نے فرمایا کہ اس کے بعض طرق میں ہمارا مطلوب یعنی نماز کے بعد دعا کا ذکر موجود ہے، اس سے مراد وہ طریق ہے، جو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور وہ عمرو بن میمون کا طریق ہے۔
امام ترمذی نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے:
’’ عن مصعب بن سعد و عمرو بن میمون قالا کان سعد یعلم بنیہ ہولاء الکلمات کمایعلم المکتب الغلمان ویقول عن رسو ل ﷲ ﷺ کان یتعوذ بہن دبر الصلاۃ: اللہم انی اعوذبک من الجبن الخ ۔ ‘‘ (197/2)
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد یہ دعاء مانگا کرتے تھے، اور اس کو حضرت سعد اپنے بچوں کو اس طرح سکھاتے اور یاد کراتے تھے، جس طرح معلم اپنے شاگردوں کو یاد کراتا ہے۔
ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے بعد دعا کرنے کی نفی صحیح نہیں ہے، لیکن حیرت ہے کہ علامہ ابن قیم جیسے وسیع النظر عالم اور محدث سے یہ حدیثیں کیونکر مخفی رہ گئیں۔
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہ حدیثیں ان کی نگاہ میں تھیں، مگر انہوں نے اس کی تاویل یہ کی ہے کہ دبرالصلوٰۃ کا معنیٰ سلام پھیرنے کے بعد نہیں ہے بلکہ انہوں نے سلام پھیرنے سے قبل نماز کا آخر مراد لیا ہے، اور اس کی انہوں نے ایک عقلی توجیہ کی ہے کہ نماز کی حالت میں آدمی جتنا خدا سے قریب ہوتا ہے دوسرا کوئی وقت ایسا نہیں، اس لئے اسے نماز کے اندر دعا مانگنی چاہئے نہ کہ نماز کے بعد،جبکہ قرب کا وہ وقت ختم ہوچکا ہے لیکن ان کی یہ تاویل نری تاویل ہے، صحیح احادیث اس کا رد کرتی ہیں اور اجماع امت کے بھی یہ خلاف ہے، آخر بہت سے اذکار جو حدیث میں نماز کے متعلق وارد ہیں، صاحب فتح الباری نے نقل کیا ہے کہ وہ نماز کے بعد ہی ہیں۔ اس طرح کی کوئی کمزور تاویل کوئی مقلد کرتا ہے تو یہ حضرات بہت ناراض ہوتے ہیں، لیکن خود اسے کتنے ادعا کے ساتھ پیش کررہے ہیں؟
یہ اشکال حافظ ابن حجر علیہ الرحمۃ کو بھی پیش آیا ہے کہ اتنی صاف صریح احادیث کے ہوتے ہوئے انہوں نے دعا بعدالصلوٰۃ کی نفی کیونکر کی پھر انہوں نے اس کا جواب دینے کی سعی بلیغ فرمائی ہے۔ انہوں نے ان کے قول کی ایک الگ توجیہ فرمائی ہے، وہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’بہت سے حنابلہ جن سے ہماری ملاقات ہوئی ،انہوں نے علامہ ابن القیم کی عبارت کا مطلب یہی سمجھا ہے کہ انہوں نے نمازوں کے بعد دعا کرنے کی مطلقاً نفی کی ہے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ لیکن ان کے کلام سے یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے، انہوں نے جو نفی کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رخ ہونے کی حالت میں دعا کرنا ثابت نہیں ہے، لیکن اگر وہ اپنا رخ بدل لے یا سلام پھیرنے کے بعد اذکار مسنونہ پڑھ لے اور اس کے بعد دعا کرے تو ممنوع نہیں ہے۔‘‘
یہ توجیہ اور معذرت حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے علامہ ا بن قیم کے حق میں کی ہے،اذکار مسنونہ والی بات تو خود علامہ موصوف کے کلام میں بھی موجود ہے، چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے کہ:
’’ لکن الاذکار الواردہ بعد المکتوبہ لمن یستحب اتی بہا ان یصلی علی النبی ﷺ بعد ان یفرغ منہا ویدعو بما شاء ویکون دعاءہ عقب ہذہ العبادۃ الثانیۃ وہی الذکرلالکونہ دبر المکتوبۃ‘‘ ( حوالہ مذکور)
مطلب یہ ہے کہ فرض نمازوں کے بعد جو اذکار مسنون ہیں (مثلاً سبحان ﷲ، الحمدللہ، ﷲ اکبر وغیرہ) اگر کوئی شخص انہیں پڑھتا ہے تو اس کیلئے مستحب یہ ہے کہ ان کے بعد درود شریف پڑھے اور پھر جو چاہے دعا کرے، اور یہ دعا فریضہ کے بعد نہیں ہے بلکہ ایک دوسری عبادت یعنی ذکر کے بعد ہے۔
حافظ ابن قیم کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ فرض نمازوں کے بعد فوراً اور متصلاً دعا کرنا ثابت نہیں ہے، گویا فرض نماز کے بعد دعا کا فعل سرے سے ہے ہی نہیں،ہاں اگر اذکار مسنونہ کے بعد دعا کرے تو حرج نہیں ہے کیونکہ نماز میں اور دعا میں فصل ہوگیا۔
علامہ ابن قیم کے اس کلام کی روشنی میں حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ کی تاویل، توجیہ القول بمالا یرضی بہ القائل (قول کی ایسی توجیہ جسے قائل منظور نہیں کرتا) کی قبیل سے ہوجاتی ہے ،کیونکہ علامہ ابن قیم تو اپنے موقف پر قائم ہیں کہ فرض کے بعد دعا مانگنا ثابت نہیں ہے، اور حافظ صاحب کے فرمانے کا حاصل یہ ہے کہ اذکار مسنونہ کے بعد اگر دعا مانگی گئی، تو وہ بھی تو فرض کے بعد ہی ہوئی اور علامہ ابن قیم اس کو جائز قرار دیتے ہیں، لیکن علامہ موصوف تو فرماتے ہیں کہ وہ فرض کے بعد کہاں ہوئی ،وہ تو ذکر کرنے کے بعد ہوئی، اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے دیار میں فرض نمازوں کے بعد جو دعا ہوتی ہے وہ علامہ ابن قیم کے نزدیک بدعت نہیں ہے، کیونکہ یہ دعا عموماً کسی نہ کسی ذکر کے بعد ہوتی ہے۔
اور دوسری بات کہ مصلی اپنا رخ تبدیل کرلے تب دعا کرسکتا ہے۔ یہ توجیہ امام کے حق میں تو چل سکتی ہے، لیکن منفرد اور مقتدی کے حق میں نہیں چل سکتی ہے، کیونکہ دائیں یا بائیں امام ہی رخ بدلتا ہے مقتدی اور منفرد کے حق میں یہ بات ثابت نہیں ہے، اور اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ منفرد یا مقتدی اپنی جگہ سے اٹھ کر چلا جائے اور پھر دعا کرے تو یہ دعا فریضہ کے بعد کہاں ہوئی؟
غرض اس توجیہ کے بعد بھی یہ مسئلہ لا ینحل رہ جاتا ہے کہ فرض نمازوں کے بعد دعا کی اتنی ترغیب کے باوجود علامہ ابن قیم کیونکر اس کی نفی کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان کا یہ موقف نہ صرف یہ کہ بہت کمزور ہے، بلکہ سنت کے خلاف بھی ہے۔
’’عفااﷲ عنہ وتجاوز عن زلاتنا‘‘
بعض حضرات نے علامہ ابن قیم کی اس بات میں کمزوری دیکھی تو انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھاکر اجتماعی دعا کرنا حضور ﷺ سے ثابت نہیں ہے، پس وہ بدعت ہے؟
لیکن یہ اصول کہ اگر کوئی عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باہتمام منقول نہیں ہے ،خواہ اس کی کتنی ہی ترغیب حدیث میں موجود ہو، اس کا عمل میں لانا بدعت ہے، یہ ایک غلط اصول ہے اس اصول کو اختیار کیا جائے تو نہ جانے کتنی سنتیں مردہ ہوجائیں گی، آپ کے ارشادات سے اگر کسی چیز کی ترغیب معلوم ہوگئی تو اسے اختیار کرنا کم از کم مستحب ضرور ہے، اب رہا انفرادی اور اجتماعی دعا کا مسئلہ، تو جب نمازوں کے بعد دعا کا ثبوت ہوگیا تو انفراداً اور اجتماعاً سے کوئی فرق نہیں پڑتا، دعا کے یہ دونوں افراد جائز اور مستحب ہونگے ، جب تک کوئی محذور شرعی لازم نہ آئے، اجتماعی اور انفرادی کی گفتگو لانا، اصول دین سے بے خبری کی دلیل ہے۔
ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نمازوں کے بعد دعاؤں کا ایسا اہتمام و التزام کہ وہ نماز ہی کی طرح فرض معلوم ہونے لگیں بلاشبہ یہ بات غلط ہے، لیکن ایک ہے التزام، اور ایک ہے دوام، کسی غیر لازم عمل کو عملاً یا اعتقاداً لازم کرلیا جائے یہ تو مکروہ اور غلط ہے، لیکن خیرالعمل مادیم علیہ کے تحت اچھا عمل وہی ہے جو دواماً کیا جائے، نماز کے بعد دعا کے التزام کے شبہ کو دور کرنے کیلئے اتنا کافی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات پختہ کردی جائے کہ یہ نماز کا لازمی حصہ نہیں ہے، اور کچھ لوگ کبھی اسے ترک کردیں تو اس پر دوسرے لوگ نکیر نہ کریں، لیکن ترک کا ایسا التزام کرلینا کہ کبھی دعا مانگی ہی نہ جائے اور مانگنے والوں پر نکیر کی جائے، ایک بڑے خیر سے خود کو اور دوسروں کو محروم کرنا ہے اور التزام مالایلزم سے بڑھ کر منکر ہے۔
علامہ انور شاہ کشمیر ی علیہ الرحمہ کا ارشاد ہے کہ:
’’لا ریب ان الادعیۃ دبرالصلوٰۃ قدتواترت تواتراً لا ینکر اما رفع الایدی فثبت بعد النافلۃ مرۃ او مرتین فالحق بہا الفقہاء بعد المکتوبۃ ایضاً وذہب ابن تیمیۃ وابن قیم الی کونہ بدعۃ بقی ان المواظبۃ علی امر لم یثبت عن النبی ﷺ إلامرۃ او مرتین کیف ہی؟ فتلک ہی الشاکلۃ فی جمیع المستحبات فانہا تثبت طوراً فطوراً ثم الامۃ تواظب علیہا نعم نحکم بکونھا بدعۃ اذا افضی الامر الی المنکر علی من ترکھا۔‘
(فیض الباری 417/4)
حاصل یہ ہے کہ نمازوں کے بعد دعا کرنا ایسے تواتر سے ثابت ہے، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ،باقی ہاتھوں کا دعا میں اٹھانا تو نفل کے بعد ایک یا دو مرتبہ ثابت ہے، فقہا نے اسی قیاس پر فرض نمازوں کے بعد بھی ہاتھ اٹھانے کو ملحق کیا ہے، اور علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم اسے بدعت قرار دیتے ہیں۔
رہا یہ مسئلہ کہ جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک یا دو بار ثابت ہے اس پر دوام کرنا کیسا ہے؟ تو معلوم ہونا چاہئے کہ تمام مستحبات کے اثبات کا یہی طریقہ ہے کہ ان کا ثبوت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی کبھی ہوتا ہے ،پھر امت اس پر مواظبت کرتی ہے، ہاں اگر ان مستحبات میں معاملہ کی نوعیت یہ ہوجائے کہ اس کے تارک پر نکیر ہونے لگے، تو البتہ اسے بدعت کہا جائے گا۔
شاہ صاحب کے اس کلام سے معلوم ہوا کہ التزام مالا یلزم جو مکروہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اگر کوئی ترک کرے تو اس کا رد و انکار کیا جائے، اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ ایسی مواظبت اور دوام ہے جو کہ شرعاً مطلوب ہے۔
اوریہ ایک امر واقعہ ہے کہ مستحبات کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب اور ایک دو مرتبہ عمل کرلینا کافی ہے اوریہ بھی واقعہ ہے، کہ فرض نمازوں کے بعد دعاؤں کی قبولیت کا ذکر بکثرت احادیث میں آیا ہے، اور یہی منشاء بنا اس بات کیلئے کہ امت نے نمازوں کے بعد دعا کا اہتمام کیا۔
فرض نمازوں کے بعد دعا کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیبات اس کثرت سے ہیں ،کہ اگر آپ نے ان ترغیبات کے ساتھ بذات خود عملی اہتمام فرمایا ہوتا، تو یقینا وہ درجۂ وجوب کو پہونچ جاتیں، لیکن آپ نے قولی ترغیب پر اکتفا فرمایا تاکہ امت کیلئے آسانی رہے۔
بات یہ ہے کہ بعض امور جو فرض تو نہیں ہوتے لیکن افضیلت اور کثرت ثواب کے لحاظ سے اس شان کے ہیں کہ انہیں فرض قرار دیا جاتا، مگر اس سے امت کے مشقت میں پڑ جانے کا اندیشہ تھا، ایسے امور کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ نے ترغیب سے تو کام لیا مگر عام طور سے ان کا عملی اہتمام و التزام نہیں فرمایا۔ آپ کے سامنے ان اعمال کی خاصیات اور خصوصیات اور ان کی خیر و برکت واضح تھی، آپ خوب ادراک رکھتے تھے کہ محبوبیت اور مقبولیت کے لحاظ سے کون سا عمل اس کی صلاحیت رکھتا ہے کہ امت پر فرض ہوجائے ،لیکن رغبت و شوق کے باوجود محض اس بنا پر اس عمل کو ترک فرمادیا کہ آئندہ امت مشقت میں نہ پڑ جائے۔
مثال کے طور پر تراویح کی نماز کو دیکھئے کہ آپ نے اس کو ثواب کے اعتبار سے فرض کے مساوی ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ جہاں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’ من صام رمضان ایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘‘ یعنی جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ بہ نیت ثواب رکھے اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ وہیں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: ’’ من قام رمضان ایماناً واحتساباً غفرلہ ما تقدم من ذنبہ‘‘ (مسلم شریف) جس نے رمضان کا قیام کیا(تراویح پڑھی) اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ تراویح میں بھی فرض ہونے کی پوری استعداد موجود تھی، اور اگر آپ اس کا اہتمام کرتے تو عجب نہیں کہ فرض ہوجاتی، چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ آپ انے مسجد میں ٹاٹ یا چٹائی کا ایک حجرہ (بحالت اعتکاف) بنالیا تھا، اس میں چند رات آپ نے نماز پڑھی، لوگوں کو معلوم ہوا تو لوگ بکثرت جمع ہونے لگے، پھر ایک رات آپ کی آواز نہیں محسوس ہوئی، لوگوں نے سمجھا کہ آپ سوگئے ہیں، اس لئے بعض لوگ کھانسنے کھنکارنے لگے تاکہ آپ تشریف لائیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ ما زال بکم الذی رأیت من صنیعکم حتی خشیت ان یکتب علیکم ولو کتب علیکم ماقمتم بہ فصلوا أیھا الناس فی بیوتکم، فان افضل صلوٰۃ المرء فی بیتہ الا الصلوٰۃ المکتوبۃ۔‘‘
(بخاری شریف: کتاب الاعتصام، باب مایکرہ من کثرۃ السوال)
میں دیکھتا ہوں کہ (تمہیں اس خاص نماز کا) شوق برابر باقی ہے۔ مجھے ڈر ہوا کہ تم پر وہ فرض ہوجائے گی، اور وہ فرض کردی جاتی تو تم اسے نباہ نہ سکتے ،اس لئے اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھو، کیونکہ نماز گھر ہی میں بہتر ہوتی ہے سوائے فرائض کے۔
اب خیال فرمائیے! اس نماز میں فرض کردئیے جانے کی صلاحیت تھی، اور صحابہ کرام کو جو شوق تھا اس کی بنیاد پر کچھ دور نہ تھا کہ اس کی فرضیت کا ظہور ہوجاتا، لیکن آپ نے اسے ترک کردیا اور لوگوں کوحکم دیا کہ گھروں میں پڑھو، اس بات کو امت نے سمجھا۔ آپ کی وفات کے بعد جب فرضیت کا اندیشہ ختم ہوگیا ،تو حضرات صحابہ نے اور ان کے بعد امت نے اس کا جو اہتمام کیا اور گھروں میں نہیں مسجدوں میں کیا وہ سب پر ظاہر ہے ،یہ ہے منشاء نبوت کو سمجھ کر کسی خاص عمل کے اہتمام کی بنیاد، ورنہ حدیث کے ظاہر الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تراویح کی نماز گھروں میں ہی ہوناچاہئے ،لیکن امت نے مسجد میں جو اہتمام و التزام کیا وہ خلاف سنت نہیں ہے بلکہ عین سنت ہے۔
بخاری اور مسلم میں حضرت ابو ہریرہ ص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا:
’’لولا ان أشق علی امتی لأ مرتہم بتاخیر العشاء والسواک عند کل صلوٰۃ‘‘ (بخاری ومسلم)
اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا میں انہیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھیں، اور ہر نماز کے وقت مسواک کیا کریں۔
دیکھئے یہاں بھی وہی بات ہے کہ امت کی مشقت کے اندیشے سے آپ نے ترغیب سے کام لیا مگر حکم صادر نہیں فرمایا، حالانکہ فرض تاخیر عشاء اور مسواک میں فضائل بہت تھے۔
کیا عجب کہ فرض نمازوں کے بعد دعا کا بھی یہی مقام ہو ،چنانچہ حدیثوں میں اس کی ترغیبات کی کثرت دیکھ کر ایسا خیال ہونا بعید نہیں ہے ،پھر حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ حق تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب عمل فرائض کی ادائیگی ہے اور فرائض میں سب سے بلند مرتبہ نماز کا ہے، ظاہر ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد بندہ کس قدر محبوب و مقبول بن جاتا ہوگا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فرض کی مشروعیت اصالۃً جماعت کے ساتھ ہوئی ہے، اور جماعت کا ثواب پچیس یا ستائیں گنا زیادہ ہے، پھر خیال کیجئے کہ محبوبیت کس نقطہ عروج پر پہونچ جاتی ہے، اس صورت حال میں دعا کی قبولیت کا کیسا اعلیٰ محل نمازی کو حاصل ہوتا ہے محتاج بیان نہیں ہے۔ ترمذی شریف میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سی دعا حق تعالیٰ کے یہاں زیادہ سنی جاتی ہے یعنی دعا کی قبولیت کی توقع سب سے زیادہ کب ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا:
’’ جوف اللیل الآخر و دبر الصلوات المکتوبات‘‘ رات کے آخری حصے کی دعا اور فرض نمازوں کے بعد کی دعا۔
اس بنا پر اگر فرض نماز سے فارغ ہوکر دعا مانگنی فرض ہوجاتی تاکہ ایسا قیمتی وقت کبھی ضائع نہ ہوتو عین مناسب تھا ،مگر آپ کی شفقت کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ایک اور چیز فرض ہوکر امت کی ذمہ داری بڑھ جائے۔اس لئے اجتماعی طور پر آپ نے اس کا اہتمام نہ فرمایا ہو اور آپ کے بعد جب یہ احتمال ختم ہو گیا تو خود بخود اس کا دستور بن گیا۔
بظاہر یہ ایک شاعر انہ خیال معلو م ہوتا ہے لیکن جو لوگ نظر انصاف سے غور کریں گے وہ انشاء اللہ اس کو حقیقت سمجھیں گے، دین میں متعدد باتیں ایسی ملتی ہیں جو بذات خود جائز بلکہ بہتر ہیں، لیکن کچھ دوسری اہم مصلحتوں کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ان کا اہتمام نہیں فرمایا، بعض چیزوں کو آپ نے ظاہر فرمایا اور بعض چیزوں کو نہیں ظاہر فرمایا، لیکن صحابہ کرام اور ائمہ نے آپ کے منشاء کو سمجھا اور انہوں نے اس کا اہتمام کیا۔
غرض یہ کہ نمازوں کے بعد دعا مانگنا کوئی قابل انکار چیز نہیں ہے بلکہ اس کا انکار قابل نکیر ہے، عجب جمود ہے کہ ان ظاہر پرستوں کو کوئی ایک چیز مل جاتی ہے تو اسی کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں پھر انہیں کوئی کتنا ہی سمجھائے اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں، اسے حق وباطل اور سنت وبدعت کا مسئلہ بنادیتے ہیں، حالانکہ اہل حق کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے سامنے کوئی بات آتی ہے تو اچھی طرح غور کرتے ہیں کہ اس بات کا اثر کہاں کہاں اور کیا پڑتا ہے؟ اسے دیکھتے ہیں پھر کوئی فیصلہ کرتے ہیں، وہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرتے جس سے گزشتہ علماء و مجتہدین کی تجہیل و تحمیق ہوتی ہو، اپنی عقل وفہم پر اتنا اعتماد کرنا کہ دوسرے سب لوگوں کی فہم، بدفہمی معلوم ہو، دلیل کج روی ہے، یہاں تو کوئی فیصلہ کرتے وقت یہ بات مستحضر رہنی چاہئے کہ اگر اس فیصلے کے خلاف دلیل مل جائے گی تو بلا تکلف اسے قبول کرلوں گا۔
اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے! شیخ عبدالفتاح ابوغدہ علیہ الرحمہ نے علامہ ابن قیم علیہ الرحمہ کی کتاب الروح سے نقل کیا ہے، کہ حضرت امام احمد بن حنبل اور محمد بن قدامہ جوہری ایک جنازہ میں شریک تھے، جب لوگ میت کو دفن کرچکے تو ایک نابینا آدمی قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن شریف کی تلاوت کرنے لگا، امام احمد نے اس سے فرمایا کہ اے شخص قبر کے پاس قرآن پڑھنا بدعت ہے، پھر جب دونوں حضرات قبرستان سے باہر نکلے تو حضرت محمد بن قدامہ نے حضرت امام صاحب سے دریافت کیا کہ مبشر حلبی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا کہ وہ ثقہ ہیں یعنی معتبر اور قابل اعتماد ہیں، عرض کیا کہ آپ نے ان سے روایت لکھی ہے؟ فرمایا ہاں، انہوں نے کہا کہ مجھے مبشر نے عبدالرحمن بن العلاء بن لجلاج کے حوالے سے بتایا کہ ان کے والد علاء نے وصیت کی تھی جب انہیں دفن کردیا جائے تو قبر کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی اورآخری آیات پڑھی جائیں، اور انہوں نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اس کی وصیت کی تھی اور میں نے خود یہ وصیت ان سے سنی تھی، اس پر امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ جائو اس آدمی سے کہو کہ پڑھے۔
یہ تھی ایک امام برحق کی حق پسندی! اب حال یہ ہے کہ چند حدیثیں کہیں پڑھ لیتے ہیں، ان کا مطلب سمجھیں یا نہ سمجھیں جھنڈا اٹھالیتے ہیں کہ فلاں بدعت ہے فلاں عمل خلاف سنت ہے، اور نہیں جانتے کہ اگلے علماء اور اکابر کی تضلیل و تحمیق ایک بڑا گناہ ہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ ایک صاحب کے سر میں سودا سمایا کہ ایصال ثواب غلط ہے، انہوں نے اپنے زعم باطل میں تمام ائمہ محدثین اور اکابر امت کے دامنوں پر ہاتھ ڈال دیا اور اپنے معمولی مطالعۂ کتب اور اپنی نارسا فہم کو وحی الٰہی قرار دے ہر ایک کا گریبان نوچنا چاہا۔
ایک اور صاحب اٹھے انہیں شادی شدہ زنا کار کی سزا رجم -سنگسار کرنے کے خلاف لکھنے کا جوش اٹھا اور ’’حقیقت رجم‘‘ نامی کتاب لکھ کر اپنی عقل وفہم کی پوری رسوائی کرڈالی ،مگر ضد یہ ہے کہ میں نے جو کچھ سمجھا وہی صحیح ہے ،ساری امت غلطی پر ہے۔
یہ طریقہ اہل حق کا نہیں ہے، کاش وہ لوگ جو ننگے سر نماز پڑھنے کو قابل فخر سمجھتے ہیں، نمازوں کے بعد دعا مانگنے کو گناہ سمجھتے ہیں، شب برأت کو خرافات قرار دیتے ہیں، آٹھ رکعت تراویح پر ضد کرتے ہیں، ایک مجلس کی تین طلاقوں کو خلاف عقل ونقل ایک ہی قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں، تقلید کو شرک سمجھ کر اباحیت اور آوارگی ٔ ذہن میں مبتلا ہیں، سوچتے اور غور کرتے کہ ان کا مزاج شریعت اسلامیہ کے مطلوبہ مزاج واخلاق سے کتنا دور ہوتا جارہا ہے، ضد اور کجی ان کی فطرت ثانیہ بنتی جارہی ہے۔
وہی جماعت جس کے سربراہ اعلیٰ نے اپنے لوگوں کو ’’ذہنی غلامی‘‘ سے نجات دلانے کا بیڑہ اٹھایا تھا، ابھی حال میں اسی جماعت کے ایک فرد سے ملاقات ہوئی، یہ شخص اسی جماعت کے ایک بڑے ادارہ میں مدرس ہے، اور غالباً اسی ادارہ سے فارغ بھی ہے، وہ شخص میرے پاس اپنی کسی ضرورت سے آیا تھا، میں نے اسے چائے پیش کی، اس نے بائیں ہاتھ سے پینا شروع کیا ،میں نے ادب سے کہا کہ دائیں ہاتھ سے چائیں پئیں، وہ دانت کھول کر مسکراتا رہا اور ٹھیک ہے ٹھیک ہے کہتا رہا ،میں نے کئی مرتبہ فہمائش کی مگروہ اپنے رنگ پر قائم رہا ،میں نے کہا کہ اگر کوئی عذر اور مجبوری ہے تو الگ بات ہے، ورنہ دائیں ہاتھ کو ہی استعمال کرنا چاہئے، اس پر اس نے کہا ہاں مجبوری ہے ،میں خاموش ہوگیا لیکن میرے دل میں خیال آیا کہ اسے کوئی مجبوری نہیں ہے محض اپنی بات کی پچ میں یہ جھوٹ بولا ہے، میں نے تھوڑے وقفہ بعد کہا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے دیکھا تو آپ نے فرمایا دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اس نے کہا مجھے اس کی طاقت نہیں ہے، آپ نے فرمایا تمہیں اس کی استطاعت نہ ہو، پس اس کا دایاں ہاتھ سوکھ گیا اور پھر کبھی منہ تک نہ پہونچ سکا۔(یہ حدیث مسلم شریف میں موجود ہے)
حدیث کا جب یہ قصہ سنایا تب اسے کچھ تنبہ ہوا ،کہنے لگا میرا دایاں خوب کام نہیں کرتا، میں نے کہا کہ ’’بہنتھی‘‘ ہو اس نے کہا ہاں ،میں نے کہا یہ کوئی غدر نہیں ہے مگر پھر بھی وہ اپنی ضد پر اڑا رہا، تب کئی لوگوں نے للکارا، اور میں نے بھی کہا کہ اب چائے رکھ دو ، مت پیو، اتنی تکا فضیحتی کے بعد اس نے پیالی دائیں ہاتھ میں لی۔
میں نے کہا کہ یہ قصور اس امیر جماعت کا ہے، جس نے اپنی جماعت کو مزاج نبوت اور مزاج صحابہ کے خلاف بالکل دوسرے مزاج پر ڈھالا ہے، اس کے باوجود حق پر وہی ہیں اور دوسرے سب لوگ نظام باطل کے خادم ہیں۔
کیا یہ سنت نہیں ہے کہ اپنا مزاج اپنی طبیعت اور اپنا رنگ ڈھنگ اور
اپنا طور طریق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج و طبیعت کے رنگ میں ڈھالا جائے، صرف چند مختلف فیہ مسائل ہی میں انہیں اتباع سنت کا جوش اٹھتا ہے۔
یہ مختلف فیہ مسائل بار بار چھیڑے جاتے ہیں بالخصوص نماز کے بعد دعاء کے مسئلے میں تو وہ لوگ بھی تذبذب کے شکار ہونے لگے ہیں، جن کے اکابر ہمیشہ اس پر کار بند رہے، دارالعلوم دیوبند کے بعض اساتذہ کے بارے میں وہاں کے طلبہ سے سننے میں آتا رہتا ہے کہ وہ شاید علامہ ابن قیم کی تقلید میں اسے غلط اور بدعت یا کم از کم بے اصل سمجھتے ہیں، اس سلسلے میں بعض طالب علموں نے میرے پاس سوال بھیجے، میں نے اپنی استعداد کے مطابق انہیں جواب لکھا۔ عرصہ سے دل میں یہ خیال جما رہا کہ اس موضوع پر کسی محقق عالم کی کوئی تحریر ملے تو اس سے استفادہ کیا جائے، متفرق تحریریں تو اس سلسلے کی کئی ایک مطالعہ میں آئیں، غیر مقلدوں کے مشہور عالم مولانا ثناء اللہ امرتسری علیہ الرحمہ کے فتاویٰ ثنائیہ میں ان کا ایک مستقل فتویٰ بلکہ رسالہ اس کے استحباب پر ہے۔
ابھی چند ماہ پہلے میرے ایک عزیز حافظ مولوی ضیاء الحق خیر آبادی سلّمہ دیوبند سے چند رسالے عالم اسلام کے مشہور عالم و محدث شیخ عبدالفتاح ابوغدہ علیہ الرحمہ کی تحقیقات و تعلیقات سے مزین لائے، ان میں ایک رسالہ پر نظر پڑی تو طبیعت نہال ہوگئی یہ تین رسالوں کا مجموعہ ہے، اس مجموعہ کا نام ہے:
ثلاث رسائل فی استحباب الدعاء و رفع الیدین بعد الصلوٰۃ المکتوبۃ۔
یہ تین رسالے تین ایسے بڑے فقہاء کے ہیں ،جو بڑے محدث بھی تھے۔
پہلا رسالہ ہے’’ التحفۃ المرغوبۃ فی افضیلۃ الدعا بعد المکتوبۃ‘‘ یہ رسالہ مشہور سندھی عالم مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی علیہ الرحمہ (متوفی 1174ھ) کا ہے، شیخ ابوغدہ نے اس رسالہ کی تلخیص کی ہے۔
دوسرا رسالہ ’’ المنح المطلوبۃ فی استحباب رفع الیدین فی الدعاء بعد الصلوٰۃ المکتوبۃ‘‘یہ رسالہ ماضی قریب کے ایک بڑے مغربی عالم ومحدث شیخ احمد بن الصدیق الغماری المغربی المتوفی 1380ھ رحمہ اللہ کا تالیف کردہ ہے، اس موضوع پر نہایت محققانہ رسالہ ہے۔
تیسرا رسالہ ’’سنیۃ رفع الدین فی الدعاء بعد الصلوٰۃ المکتوبۃ‘‘ اس کے مرتب یمن کے ایک بڑی مشہور محدث اور عالم کبیر سید محمد بن مقبول اہدل الیمنی المتوفی 1258ھ ہیں، اس پر مقدمہ اورتعلیقات شیخ احمد بن الصدیق الغماری کے چھوٹی بھائی شیخ ابوالفضل عبداللہ بن الصدیق الغماری المتوفی 1413ھ کے ہیں، پھر اس پر شیخ ابو غدہ نے مزید تحقیقات کا اضافہ کیا ہے۔
یہ تینوں رسالے محقق علماء کے مرتب کردہ ہیں، پھر ان پر شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کے عالمانہ تعلیقات نے ان کی قدروقیمت بڑھادی ہے۔
میں نے جب ان تینوں رسائل اور شیخ کی تعلیقات کا مطالعہ کیا،توبے اختیار جی میں آیا کہ قدرے حذف و اختصار کے ساتھ تینوں رسالوں کو اردو میں منتقل کردیا جاتا تو اردو خواں افراد کیلئے بھی اور علماء حضرات کیلئے بھی بصیرت کا ایک سامان ہوجاتا۔
اس کام کیلئے میں نے اپنے ایک عزیز مولانا مفتی ولی اللہ صاحب فتحپوری سلّمہ … جو آج کل میرے قریب ہی جامعۃ الفلاح بلریا گنج میں استاد حدیث ہیں … سے کہا۔ انہوں نے اسے بہت خوشی سے قبول کیا، اللہ کی مدد اور تائید سے انہوں نے تینوں رسالوں کی عمدہ تلخیص تیار کردی، ارادہ ہو اکہ ماہنامہ انوارالعلوم کا ایک شمارہ اسی کے لئے مختص کردیا جائے، اور اس پر یہ خاکسار ایک مبسوط مقدمہ اور ایک خاتمہ لکھ دے۔
اللہ کے فضل وکرم سے یہ مقد مہ اور خاتمہ بھی لکھ دیا گیا، اللہ تعالیٰ ان تینوں تحریروں کو قبول فرمائیں اور تمام مسلمانوں کیلئے نافع بنائیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
نماز کے بعد دعاء

مولانا مفتی ولی ﷲ مجید قاسمی

دعا کی حقیقت اور فضیلت:
اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے، تمام طاقت وقدرت کا مالک ہے، انسان بلکہ کائنات کی تمام ضرورتوں اور حاجتوں کی کلید اسی کے ہاتھوں میں ہے، دوسری طرف انسان سراپا نیازمند، عاجز اور لاچار ہے، قدم قدم پر اللہ کی قدرت و رحمت کا محتاج ہے، اس کا کوئی لمحہ احتیا ج سے خالی نہیں ہے، وہ ہر وقت دستگیری اور مدد کا طالب ہے۔
اللہ کی یہ بے پناہ قدرت ہر گھڑی انسان کی دیکھ ریکھ، دستگیری اور مدد کرتی ہے، اس لئے کہ اللہ رب ہے اور انسان ایک بچہ کی طرح اس کی تربیت کا محتاج، اور محتاج کو حاجت روا کے سامنے ہاتھ پھیلانا ہے، ضرورت مند کو داتا سے سوال ناگزیر ہے، لاچار کو غنی مطلق سے فریاد کرنا ہے، بندہ کو آقا اور مالک سے مانگنا ہے، اسی کو دعاء کہتے ہیں۔
اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن حکیم کی پہلی سورت میں ابتداءً اللہ کی شان ربوبیت اور بے پناہ قدرت وطاقت کا تذکرہ کیا گیا ہے، اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اسی کے سامنے دست استعانت دراز کیا جائے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ وہ ہر چیز کے لئے صرف مولائے حقیقی کی طرف نگاہ اٹھائے، اسی کے سامنے اپنی عاجزی، لاچاری، محتاجی اور مسکینی کا اظہار کرے ،معمولی سے معمولی چیز بھی ا سی سے مانگے۔ چنانچہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ اپنی تمام ضرورتیں اللہ سے کہو، یہا ں تک کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو بھی اسی سے مانگو۔(سنن ترمذی201/2)
اور غور کی نگاہ سے دیکھا جائے تو عبادت اور استعانت میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ عبادت بندگی سے عبارت ہے، کسی کے در کا غلام بن جانا ہی عبدیت ہے، خود حوالگی اور خود سپردگی ، فداکاری اور قربانی ہی روح عبادت ہے، دعا کے ذریعہ بھی بندہ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیتا ہے، اس کے سامنے عجز و بے چارگی کا مجسم اقرار بن جاتا ہے، اس کی ربوبیت اور اپنی لاچاری اور مجبوری کا اعتراف کرتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ الٰہی! میں بندہ اور غلام ہوں اور کسی چیز کا مالک نہیں، سراپا محتاج ہوں، تیرے در کا بھکاری ہوں، اور تیرے دست قدرت میں سب کچھ ہے، تو ہر چیز کا مالک اور داتا ہے، اسی لئے حدیث میں دعا کو عین عبادت کہا گیا ہے’’الدعاء ھو العبادۃ‘‘ (ترمذی 157/2.و قال حسن صحیح۔ابوداؤد 208/1.)
اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے بطور دلیل قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ، اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ‘‘(سورہ غافر:60)
اور تمہارے پروردگار نے کہا :تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کرونگا ، اور جو لوگ غرور کی وجہ سے میری عبادت سے روگردانی کرتے ہیں تو وہ جلد ہی ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالی نے دعا کا حکم دیا ہے اور دعاء سے سرتابی کو عبادت سے روگردانی قرار دیا ہے، اور وجہ یہ ہے کہ جب بندہ دعاء کے ذریعہ اپنی عاجزی، شکستگی اور نیازمندی کا اظہار کرتا ہے، اور اللہ عزوجل کی بے نیازی اور قدرت ورحمت کے گیت گاتا ہے، بے چینی اور تڑپ ، بے اطمینانی اور بے قراری، گریہ و زاری کے ساتھ اللہ کے حضور دست سوال پھیلاتا ہے تووہ بندگی اور غلامی کا ایک پیکر بن جاتا ہے، اور بندہ کی یہ ادا ربِ حقیقی کو بہت پسند ہے، اوروہ اس سے خوش ہوتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہے، لیس شئی اکرم علی اللّٰہ من الدعاء۔(سنن ترمذی173/2۔ سنن ابن ماجہ 171)
اور دعا سے روگردانی در اصل اللہ کی بندگی سے انکار اور اپنی بے نیازی کا اظہار ہے، اور ایسا کرنے والا یقینا اس کے غضب کا مستحق اور جہنم کا حقدار ہے ،جیسا کہ اللہ کے آخری نبی کا اعلان ہے(ان پر درود وسلامتی نازل ہو)
من لم یسال اﷲ یغضب علیہ ۔
جو اللہ سے نہیں مانگتا ہے تو اللہ اس پر غصہ ہوتا ہے۔(سنن ترمذی 173/2۔ من لم یدع ﷲ سبحانہ غضب علیہ .ابن ماجہ/271)
دعا مومن کا ہتھیار ہے، جس کی برکت سے وہ کامیاب ہوتا ہے، اس کے ذریعہ ظاہر و باطن دونوں روشن ہوجاتے ہیں، اس کی نگاہوں سے تاریکی کا پردہ ہٹ جاتا ہے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’الدعاء سلاح المومن وعماد الدین ونور السمٰوات والارض۔‘‘
دعا مومن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کی روشنی ہے۔ ( مستدرک حاکم (الحصن/18)
اس ہتھیار میں وہ صلاحیت ہے کہ اس کے ذریعہ قضاء و قدر میں تبدیلی ہوسکتی ہے، طے شدہ مصیبت ٹل سکتی ہے، یا اس قدر آسان ہوجاتی ہے کہ اس کی شدت اور سختی کا کچھ پتہ نہیں چلتا ہے، گویا دعا قضاء وقدر کے لئے ایک ڈھال بن جاتی ہے، چنانچہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
’’لایرد القضاء الا الدعاء‘‘
صرف دعا کے ذریعہ مقدر بدل سکتا ہے۔
(سنن ترمذی 36/2ابواب القدر،قال حسن ۔ سنن ابن ماجہ /10.باب القدر )
اور ایک دوسری روایت میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
لا یغنی حذر میں قدر و الدعاء ینفع مما نزل ومما لم ینزل و ان البلاء لینزل یتلقاہ الدعاء فیعتلجان الی یوم القیامۃ۔
محتاط ہونا تقدیر کے مقابلہ میں کچھ مفید نہیں ہوتا، البتہ دعا نافع ہے اس مصیبت میں بھی جو نازل ہوچکی ہے اور اس مصیبت میں جو ابھی نازل نہیں ہوئی ہے، اور مصیبت اترتی تو دعا اس سے جاکر ٹکرا جاتی ہے، پھر دونوں قیامت تک الجھے رہتے ہیں۔( مستدرک حاکم، مسندبزار، معجم طبرانی اوسط (الحصن/15)
مومن کی شان یہ ہے کہ وہ رنج و راحت، خوشی و غمی، تنگی و فراخی ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتا ہے، یہ مشرک کی علامت اور عادت ہے، کہ وہ مصیبت کے وقت تو لمبی چوڑی دعا کرتا ہے، اور خوشی میں اسے بھول جاتا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
’’وَاِذَا اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰبِجَانِبِہٖ وَاِذَا مَسَّہٗ الشَّرُّ فَذُوْ دَعَائٍ عَرِیْضٍ۔ ‘‘(سورہ حم السجدۃ:51)
جب ہم انسان پر فضل و انعام کرتے ہیں تو وہ ہم سے رخ موڑے ہوئے ہوتا ہے، اور جب تکلیف پہونچتی ہے تو لمبی چوڑی دعا کرتا ہے۔
اور اللہ کے نیک بندوں کی یہ پہچان بتلائی گئی ہے کہ وہ ہمہ وقت اس کی یاد میں مشغول رہتے ہیں، اور ہر حال میں اس کے فضل وکرم کے امیدوار بن کر اس کے حضور دست سوال دراز کرتے ہیں، نیز خوشحالی اور فراخی میں اسے یاد رکھنے سے انسان آفت و بلا سے محفوظ رہتا ہے، اور کوئی مصیبت آپڑے تو وہ بھی دعا کے ذریعہ جلد ختم ہوجاتی ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں، کہ جسے یہ پسند ہو کہ سختی اور مصیبت کے وقت اللہ اس کی دعا قبول کرے، تو اسے خوشحالی کے وقت خوب دعا کرنی چاہئے۔ (سنن ترمذی وقال حسن غریب (الاذکار،ص: 485)
شرائطِ قبولیت:
یاد رکھئے کہ دعا کی توفیق ہوجانا ہی اس کی قبولیت کی علامت ہے، نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’من فتح لہ فی الدعاء منکم فتحت لہ ابواب الاجابۃ ۔‘‘
جس کے لئے دعا کا دروازہ کھل جاتا ہے، اس کے لئے قبولیت کا دروازہ بھی کھول دیا جاتا ہے۔(مصنف أبی شیبۃ ۔الحصن /140)
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کیلئے رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں،(ترمذی 193/2)بشرطیکہ زبان کے ساتھ دل بھی دعا کی طرف متوجہ ہو، کیونکہ اللہ کسی غافل دل والے کی دعا قبول نہیں فرماتے، جیساکہ حدیث میں ہے(دیکھئے: ترمذی 186/2) ناجائز اور حرام چیزوں سے پرہیز کرے،(صحیح مسلم 326/1)دعا کرکے جلدبازی اور مایوسی کاشکار نہ ہو، یہ نہ کہنے لگے کہ میں نے دعاء کی پر وہ قبول نہ ہوئی، اس کی قبولیت پر یقین ہو، اللہ کی حمد اور درود شریف پڑھنے کے بعد دعا کرے اور آخر میں درود پڑھ کر دعا ختم کرے، (دیکھئے: ابوداؤد 208/1.ترمذی186/2)
ان تمام چیزوں کی وضاحت حدیث میں موجود ہے، اگر کوئی شخص دعا کے آداب و کیفیات کی رعایت کرتا ہے تو اس کی دعاء ضرور قبول ہوگی۔ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا وعدہ ہے۔اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ،، تم مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
قبولیت دعاء کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ انسان جس چیز کی دعا کرے وہی اس کو مل جائے، کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ انسان اپنے ناقص علم کی بنیاد پر ایسی چیز مانگ بیٹھے جو اس کیلئے نقصان دہ ہو، ایسی صورت میں مطلوبہ چیز دینے کامطلب ہے اسے وبال میں مبتلا کرنا، اس لئے حکیم مطلق اپنی حکمت کے مطابق کبھی بعینہ مطلوبہ چیز اسے عطا کرتا ہے اور کبھی قدرے تاخیر سے دیتا ہے، اورکبھی اس کی وجہ سے آنے والی مصیبت ٹل جاتی ہے، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کو آخرت میں ایک ذخیرہ بنادیا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جو بھی مسلمان کسی چیز کیلئے اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تووہ ضرور عطاء ہوتی ہے، یا تو مانگی مراد مل جاتی ہے، یا آخرت میں اس کیلئے ذخیرہ کردیا جاتا ہے۔(مسند احمد 18/3)
اور جب مومن آخرت میں اس ذخیرہ کو دیکھے گا تو بے اختیار کہہ اٹھے گا اے کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی۔ (کنزالعمال 87/2)
فرض نماز کے بعد دعا کی اہمیت:
قبولیت دعاء کے سلسلہ میں موقع و محل کی رعایت خاص اہمیت رکھتی ہے، اس لئے احادیث میں آداب دعاء کے ساتھ مختلف اوقات و مقامات کا بھی بیان ہے کہ ان موقعوں پر اللہ کی خاص طورپر اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، صحابہ کرام ان مواقع کی جستجو اور تلاش میں رہا کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے متعلق دریافت کرتے، چنانچہ حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں :
1- قیل یا رسول اﷲ أیُّ الدعاء أسمع؟ قال جوف اللیل الاخیر ودبر الصلوات المکتوبات۔(سنن ترمذی188/2،کتاب الدعوات)
پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ ارشاد فرمایا جو رات کے آخری پہر اور فرض نمازوں کے بعد کی جائے۔
وجہ یہ ہے کہ نماز بندگی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے، اس لئے جب وہ اللہ کے سامنے قیام، رکوع اور سجدہ کے ذریعہ بندگی و غلامی کا اقرار اور اعتراف کرلیتا ہے، تو ذات باری کی خصوصی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے اورجو دعاء کرتا ہے قبول ہوتی ہے، اسی لئے موقع شناس اور شئون اللہ کی عارف ہستی نے بڑی تاکید کے ساتھ نماز کے بعد دعاء کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
2- یا معاذ وﷲ انی لاحبک فلا تدع دبر کل صلاۃ أن تقول: اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔(ابوداؤد203/1،باب الاستغفار،وصححہ ابن حبان364/5 کتاب الصلوٰۃ، فصل فی القنوت، مستدرک حاکم 273/1،وقال صحیح علیٰ شرط الشیخین، وقال النووی: إسنادہ صحیح ،إعلاء السنن 161/3)
معاذ ! اللہ کی قسم ! میں تم سے محبت کرتا ہوں (اور اس محبت کی وجہ سے تم سے کہہ رہاہوں) کہ کسی نماز کے بعد یہ دعا نہ چھوڑنا ،کہ اے اللہ! ذکر و شکر اور بہترین عبادت کیلئے میری مدد فرما۔
اور خود آپ ﷺ کا طرز عمل مشہور صحابی سعد بن ابی وقاص یہ نقل کرتے ہیں :
3- ان رسو ل اﷲ ﷺ کان یتعوذ دبرالصلاۃ اللہم انی اعوذبک من الجبن واعوذبک من ان ارد الی ارذل العمر واعوذبک من فتنۃ الدنیا و اعوذبک من عذاب القبر۔
(صحیح بخاری 396/1، فی اوائل کتاب الجہاد)
اللہ کے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد ان الفاظ کے ذریعہ اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے، اے اللہ! میں بزدلی، ناکارہ عمر کی طرف لوٹ جانے ، دنیاوی فتنے اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
4- حضرت ابوبکرؓ ہ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ہر نماز کے بعد یہ دعا کرتے (یدعوبہن دبر کل صلاۃ)
اللہم انی اعوذبک من الکفر والفقر وعذاب القبر۔
اے اللہ ! میں کفر، فقر اور عذاب قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔(مسند احمد39/5۔سنن نسائی 198/1، کتاب السہو،باب التعوذ فی دبر الصلوٰۃ۔مستدرک حاکم 253/1، اور حاکم نے کہاکہ یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی نے النکت الظراف 59/9میں کہا کہ حدیث حسن ہے)
5- عن زید بن ارقم قال سمعت رسول اﷲ ﷺ یدعو فی دبر کل صلاۃ: اللہم ربنا ورب کل شئی انا شھید انک انت الرب وحدہ لا شریک لک، اللّٰہم ربنا ورب کل شئی انا شہید ان محمدا عبدک ورسولک، اللّٰہم ربنا ورب کل شئی انا شہید ان العباد کلہم اخوۃ، اللّٰہــم ربنا ورب کل شئی اجعلنی مخلصا لک واہلی فی کل ساعۃ فی الدنیا والآخرۃ ذاالجلال والاکرام، اسمع واستجب، اﷲاکبر الاکبر، ﷲ نورالسمٰوات والارض، ﷲ اکبر الاکبر، حسبی ﷲ ونعم الوکیل، ﷲ اکبر الاکبر۔ (سنن ابوداؤد 211/1، باب مایقول الرجل إذا سلم۔ عمل الیوم واللیلۃ للنسائی/183)
زید بن ارقم کہتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ سے ہر نماز کے بعد یہ دعا کرتے سنا ہے کہ اے اللہ! ہمارے پروردگار اور ہر چیز کے پالنہار، میں گواہی دیتا ہوں کہ بلاشبہ تو رب ہے، اکیلا ہے تیرا کوئی ساجھی نہیں، اے اللہ! ہمارے اور تمام چیزوں کے رب، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد تیرے بندہ اور رسول ہیں، اے اللہ ! ہمارے پالنے والے اور تمام چیزوں کے پالنے والے، میں گواہی دیتا ہوں ہوں کہ تمام بندے بھائی بھائی ہیں۔ اے اللہ! ہمارے اور تمام چیزوں کے پالنہار، مجھے اور میرے متعلقین کو ہر وقت دنیا وآخرت میں اخلاص کے ساتھ رکھ، اے عظمت و بزرگی والے! ہماری دعاء سنئے اور قبول کیجئے، اللہ ہر بڑے سے بڑا ہے۔ اللہ آسمان اور زمین کی روشنی ہے، اللہ ہر بڑے سے بڑا ہے، اللہ کافی ہے، اور کارساز ہے، اللہ ہر بڑے سے بڑا ہے۔
6- عن ابی امامۃ قال ما دنوت من رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم فی دبر کل صلاۃ مکتوبۃ ولا تطوع إلا سمعتہ یقول: اللہم اغفرلی ذنوبی وخطایای کلھا اللہم انعشنی واجبرنی واھدنی لصالح الاعمال والاخلاق انہ لایہدی لصالحھا ولا یصرف سیئھا الا انت۔ (عمل الیوم واللیلۃ،لابن السنی /104، امام طبرانی نے بھی معجم کبیر میں اس کی روایت کی ہے ، اور محدث ہیثمی نے کہا کہ اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں ، سواء زبیر بن خریق کے ، لیکن وہ بھی قابل اعتماد ہیں،(مجمع الزوائد112/1)
حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ فرض یا نفل نماز میں جب بھی مجھے آنحضرت ﷺ کے قریب رہنے کا موقع ملا میں نے نماز کے بعد آپ ﷺ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا، بار الہٰا! میری تمام خطائوں اور گناہوں کو بخش دے، اے اللہ! میرا مرتبہ بلند اورمیری غلطیوں کی تلافی کردے، مجھے اچھے اعمال اور اخلاق کی طرف راستہ دکھلا، کیونکہ تو ہی نیکی کی طرف رہنمائی کرسکتا ہے اور صرف تو ہی بری باتوں سے پھیر سکتا ہے۔
مذکورہ دعائیں اور اس کے علاوہ اور بہت سی دعا نماز کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جن میں سے بعض کا تذکرہ آئندہ ہوگا۔ مذکورہ روایتوں میں ’’نماز کے بعد‘‘ کی تعبیر ’’دبرالصلاۃ‘‘ کے لفظ سے کی گئی ہے، ’’دبر‘‘ پچھلا اور آخر کے معنیٰ میں آتا ہے لیکن ’’بعد‘‘ کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے، بہت سی احادیث میں ’’بعد‘‘ کے معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابو امامہ کی ذکر کردہ حدیث حضرت ابو ایوب سے بھی منقول ہے، لیکن اس میں ’’دبر کل صلاۃ‘‘ کی جگہ یہ الفاظ آئے ہیں۔
ما صلیت خلف نبیکم الا سمعتہ حین ینصرف اللہم اغفرلی خطایای وذنوبی کلہا (امام طبرانی نے معجم صغیر اور اوسط میں یہ روایت نقل کی ہے ، اور ہیثمی نے کہا کہ اس کی سند جید ہے۔(مجمع الزوائد 111/1)
میں نے تمہارے نبی ﷺ کے پیچھے جب بھی نماز پڑھی ہے تو نماز سے پھرنے کے وقت یہ کہتے سنا ہے : اے اللہ! میری تمام خطاؤں اور گناہوں کو بخش دے۔
7- حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فراغت اور سلام کے بعد یہ کہا کرتے:
لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، وھو علی کل شئی قدیر، اللہم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذالجد منک الجد۔
اللہ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، اسی کی سلطنت ہے اور سب تعریف اسی کیلئے ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے اللہ! جو چیز تو عطا کرنے والا ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا، اور جس چیز کو تو روک لے کوئی اسے دے نہیں سکتا ہے، اور دولت مند کو اس کی دولت نفع نہیں دے سکتی ہے۔
یہ روایت امام بخاری نے ’’کتاب الدعوات‘‘(صحیح بخاری937/2) میں ان الفاظ کے ساتھ "کان یقول فی دبر صلاتہ اذا سلم” نقل کی ہے، اور یہی دعا امام بخاری نے ’’کتاب الاعتصام‘‘ (صحیح بخاری1083/2) میں اسی طرح نقل کی ہے ’’کان یقول ہذہ الکلمات دبر کل صلاۃ‘‘ یہ کلمات آنحضرت ﷺ ہر نماز کے بعد کہا کرتے تھے۔ اور ’’کتاب الصلاۃ‘‘ ’’باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘ میں ’’دبر کل صلاۃ مکتوبۃ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا( ہر فرض نماز کے بعد) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’دبر‘‘ اور بعد دونوں کا معنیٰ ایک ہے، اسی لئے کہیں ’’اذا فرغ من الصلاۃ و سلم‘‘ صحیح مسلم 218/1.باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ (نماز سے فراغت اور سلام کے بعد) آیا ہے اور کہیں ’’دبر صلاۃ‘‘ کہہ دیا گیا۔
8- حضرت عبداللہ بن زبیر کے متعلق منقول ہے کہ وہ سلام کے بعد (دبر کل صلاۃ حین یسلم) یہ دعاء پڑھتے:
لا الہ الا ﷲ وحدہ لا شریک لہ ، لہ الملک و لہ الحمد وہو علٰی کل شئی قدیر، لاحول ولا قوۃ الا باللہ ، لا نعبد إلا إیاہ، لہ النعمۃ ولہ الفضل، ولہ الثناء الحسن، لا الہ الا ﷲ مخلصین لہ الدین ولو کرہ الکافرون۔
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، کوئی اس کا ساجھی نہیں ،اسی کی سلطنت ہے، اور سب تعریف اسی کیلئے ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، طاقت و قوت اللہ ہی کی مدد سے ہے، ہم صرف اسی کی بندگی کرتے ہیں، نعمت وفضل اسی کے لئے ہے اور اسی کے لئے اچھی تعریف ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہم خالص اسی کے دین کو مانتے ہیں، اگر چہ کافر اسے ناپسند کریں۔
حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہ دعاء پڑھتے تھے (یھلل بہن دبر کل صلاۃ)(صحیح مسلم218/1 کتاب المساجد،باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ۔سنن ابوداؤد211/1،باب مایقول الرجل إذا سلم ، ایک دوسری سند کے الفاظ یہ ہیں : سمعت عبد اﷲ بن الزبیر یقول کان النبی ﷺ اذا انصرف من الصلوٰۃ یقول)
9- عن کعب بن عجرۃ عن رسول اﷲﷺ قال معقبات لا یخیب قائلہن او فاعلہن دبر کل صلاۃ مکتوبۃ ثلاثاً وثلاثین تسبیحۃ وثلاثاً وثلاثین تحمیدۃ واربعاً وثلٰثین تکبیرۃ۔(صحیح مسلم219/1کتاب المساجد)
کعب بن عجرۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :نماز کے بعد چند کلمات ایسے ہیں کہ ان کا کہنے والا یا کرنے والا نامراد نہیں ہوتا ہے، ہر فرض نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ، اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر۔
10- عن ابی ہریرۃ عن رسو ل ﷲ ﷺ قال من سبح اللہ دبر کل صلاۃ ثلاثاً وثلاثین وحمدﷲ ثلاثاً وثلاثین وکبرﷲ ثلاثاً وثلاثین فتلک تسعۃً وتسعون وقال تمام المائۃ: لا الہ الا ﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شئی قدیر، غفرت خطایاہ ولوکان مثل زبد البحر۔(حوالہ مذکور)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول انے فرمایا کہ جو کوئی ہر نماز کے بعد تینتیس بار سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ، اور تینتیس مرتبہ اللہ اکبر،یہ ننانوے ہوئیں، اور سو پورا کرے لا الہ الا ﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد وہو علی کل شئی قدیر کہہ کر ،اس کی تمام خطائیں بخش دی جائیں گی ، گرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔
تمام محدثین اور فقہاء کا اتفاق ہے کہ مذکورہ تسبیح نماز کے بعد پڑھی جائے گی اور یہ کہ احادیث میں وارد لفظ ’’دبر‘‘بعد کے معنی میں ہے، ایسے ہی بہت سی احادیث میں نماز کے بعد قل اعوذبرب الفلق،قل اعوذبرب الناس ،اور آیۃ الکرسی پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
چنانچہ امام ترمذی ،ابوداؤد اور نسائی نے عقبہ بن عامر سے روایت کی ہے :
امر نی رسول ﷲ ﷺ ان اقرأ بالمعوذتین دبر کل صـلاۃ۔(الاذکار/111۔ صحیح ابن خزیمہ 272/1۔اور صحیح ابن حبان344/5 میں یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے: إقرؤا المعوذات فی دبر کل صلاۃ۔ )
اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ ہر نماز کے بعد سورۂ ناس اور فلق پڑھوں۔
اور حضرت ابو امامہ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول ا نے فرمایا:من قرأ آیۃ الکرسی دبر کل صلاۃ مکتوبۃ لم یمنعہ من دخول الجنۃ الا ان یموت (عمل الیوم واللیلۃ/182 للنسائی، کتاب الصلوٰۃ لابن حبان وصححہ کمافی الترغیب للمنذری453/2،اور علامہ منذری نے کہا کہ اسے امام نسائی اور طبرانی نے متعدد سندوں سے نقل کیا ہے، جن میں ایک سند صحیح ہے اور ان کے شیخ ابوالحسن نے کہا کہ وہ امام بخاری کی شرط کے مطابق ہے (حوالہ مذکور)
ان احادیث میں بھی ’’بعد‘‘ کے مفہوم کو ادا کرنے کیلئے’’دبر‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ یہاں’’دبر‘‘ بعد ہی کے معنی میں ہے اور سورہ فلق،ناس اور آیۃ الکرسی نماز کے بعد ہی پڑھی جائے گی۔ خود علامہ ابن تیمیہ ــــــ جو دعا کے سلسلہ میں مذکور احادیث میں وارد’’لفظ دبر‘‘ کو آخر کے معنی میں لیتے ہیں،اور صرف درود کے بعد سلام سے پہلے دعا کے قائل ہیں، اور نماز کے بعد دعا کا انکار کرتے ہیں ــــــ بھی اذکار و تسبیحات اور آیۃ الکرسی سے متعلق احادیث میں’’دبر‘‘سے ’’بعد‘‘ ہی کا مفہوم مراد لیتے ہیں۔(علامہ ابن قیم نے زاد المعاد 161/1میں ان کے متعلق لکھا ہے کہ وہ مذکورہ حدیث پر عمل کرتے ہوئے ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھتے تھے)
ایک ہی لفظ سے کہیں ’’آخر‘‘ اور دو سری جگہ’’بعد‘‘ کا معنی مراد لینے کے لئے کیا دلیل اور کیا قرینہ ہے،فرق کی بنیاد کیا ہے؟مجھے اس سلسلہ میں ان کی طرف سے کو ئی وضاحت نہ مل سکی۔بلکہ اس کی وجہ سے بہت صحیح احادیث کا انکار لازم آتا ہے۔اس لئے درست یہی ہے کہ تشہد اور درود کے بعد نماز کے آخر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا منقول ہے اور نماز کے بعد بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرنا ثابت ہے،اور نماز کے آخر میں جو دعائیں ثابت ہیں ان کے لئے عام طور پر احادیث کی کتابوں میں اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں۔
(الف) حضرت ابو ہریرۃ ؓفرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تم آخری تشہد سے فارغ ہوجاؤ تو چار چیزوں سے اللہ کے پناہ چاہو۔
اذ ا فرغ أحد کم من التشہد الا خیر فلیعوذ باللہ من اربع الخ
(ب) حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نماز میں یہ دعاء پڑھتے تھے ۔
ان النبی ﷺ کان ید عو فی الصّلا ۃ۔
(ج)حضرت علی نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر میں تشہد اور سلام کے درمیان یہ پڑھا کرتے ۔
یکون من آخر مایقول بین التشہد والتسلیم۔
(د) حضرت ابو بکر صدیق ص فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ا سے کہا مجھے ایسی دعاء سکھا دیجئے، جسے میں نمازوں میں پڑھا کروں۔علمنی دعاء ادعو بہ فی صلاتی۔
(ہ)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شحص سے پوچھا تم نماز میں کیسے دعا کرتے ہو۔ کیف تقول فی الصّلاۃ۔( مذکورہ روایتیں صحیح بخاری و مسلم یاان میں سے کسی ایک سے لی گئی ہیں ، صرف آخری روایت سنن ابوداؤد کی ہے ، دیکھئے: الاذکار/105-107)
اور نماز کے بعد کی دعاؤں کے لئے اذا سلم (جب سلام پھیر لیتے)اذا انصرف، جب نماز سے پھر جاتے ،’’دبر الصّلاۃ‘‘( نماز کے بعد) جیسے الفاظ منقول ہیں۔
غور کیجئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کس قدر وضاحت کے ساتھ نقل کر رہے ہیں، کہ یہ دعائیں نماز کے اندر پڑھی جائیں گی، اورجو دعائیں نماز کے بعد پڑھی جاتی ہیں اس کے لئے دوسرے الفاظ استعمال کررہے ہیں۔ کیونکہ انھیں علم تھا کہ ایسا نہ کیا جائے تو پھر دونوں میں فرق کر نا مشکل ہوجائے گا۔ اور ان کے بعد آنے والے کتاب و سنّت کے ماہر شناور، شارح وتر جمان، محافظ و پاسبان ،سنت پر مرمٹنے والے ،بدعت کے خلاف شمشیر برہنہ محدثین و فقہاء نے ان احادیث سے یہ ثابت کیا کہ نماز کے اندر بھی دعا ہے،اور نماز کے بعد بھی۔ چنانچہ امام بخاری عنوان قائم کرتے ہیں۔’’باب الدعاء بعد الصّلوٰۃ(936/1) شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں امام بخاری یہ عنوان قائم کر کے ان لوگوں کا رد کرنا چاہتے ہیں جو نماز کے بعد دعا کے قائل نہیں۔(فتح الباری111/1)
اورامام ابو داؤد یہ عنوان قائم کرکے ’’مایقول الرجل اذا سلم‘‘(سلام کے بعد انسان کیا پڑھے)اور حضرت مغیرۃ، عبد اللہ بن زبیر ،زیدبن ارقم ،اور حضرت علی کی حدیث نقل کرتے ہیں،(سنن ابوداؤد211/1)اول الذکر تین روایتیں حدیث نمبر 5,7,8 کے تحت گزر چکی ہیں ،اور حضرت علی سے منقول حدیث نمبر 12 پر آرہی ہے۔
ایسے ہی امام نسائی نے عنوان قائم کیا ہے’’نوع آخر من الذ کروالدعاء بعد التسلیم‘‘(سلام کے بعد ذکر و دعاء)اوراس ذیل میں حضرت عائشہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ان کے پاس ایک یہودیہ نے آکر عذاب قبر کا تذ کرہ کیا ، اور انھوں نے آنحضرت ﷺ سے اس کے متعلق دریافت فرمایا تو آپ ﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی اور اس کے بعد سے آپ ﷺ کا یہ معمول بن گیا کہ ہر نماز کے بعد جہنم کی تپش اور عذاب قبر سے اللہ کی پناہ چاہتے تھے۔فما صلّٰی بعد یومئذ صلاۃ إلا قال فی دبر الصّلاۃ ربّ جبریل و میکا ئیل و اسرافیل اعذنی من حر النار و عذاب القبر۔(سنن نسائی197/1)
اس کے علاوہ دیگر محدثین اور چار مشہور ائمہ فقہ اور ان کے پیروکاروں کے یہاں بھی نماز کے بعد دعاء کا تصور ملتا ہے، گویا کہ اس پر ایک طرح سے اتفاق ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اس سے متعلق مذ کورہ احادیث کے علاوہ اور بہت سی صحیح ،واضح او ر صریح حدیثیں موجود ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں ۔
11- عن البراء قال کنا اذا صلینا خلف رسول اللّٰہ ﷺ أحببنا ان نکون عن یمینہ یقبل علینا بوجھہ قال فسمعتہ یقول:رب قنی عذابک یوم تبعث عبادک أو تجمع عبادک (صحیح مسلم247/1، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب استحباب یمین الامام)
براء بن عازب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جب ہم نماز پڑھتے تو ہماری خواہش ہوتی کہ آپ کے داہنی طرف رہیں تاکہ آپ سلام پھیر کر ہماری طرف متوجہ ہوں،تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا:میرے رب جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا اس دن عذاب سے مجھے بچا۔
12- عن علی قال کان رسول ﷲ ﷺ اذا سلم من الصلاۃ قال : اللھم اغفرلی ماقدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت وما اسرفت وما انت اعلم بہ منی ،انت المقدم وانت الموخر لا الہ الاانت۔
اے اللہ میرے اگلے پچھلے ،ظاہر اور پوشیدہ گناہ اور حد سے تجاوز کو معاف کردے،اور ان خطاؤں کو بخش دے جس کو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔آگے بڑھانے اور پیچھے کرنے والا تو ہی ہے،تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔( سنن ابوداؤد 212/1، صحیح ابن حبان372/5، کتاب الصلوٰۃ،فصل من القنوت ، سنن ترمذی ،وقال حسن صحیح، کذا فی النیل،205/2، اعلاء السنن 159/3)
13- عن صھیب رفعہ أن النبی ﷺ کان یقول اذا انصرف من الصلاۃ: اللّٰھــم اصلح دینی الذی جعلتہ عصمۃ امری واصلح دنیای التی جعلت فیھا معاشی،اللّٰھم انی اعوذبرضاک من سخطک وأعوذبعفوک من نقمتک وأعوذ بک منک،لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذاالجد منک الجدّ۔( سنن نسائی 197/1، کتاب السہو، نوع آخر من الدعاء عند الانصراف من الصلوٰۃ، ابن حبان نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے،صحیح ابن حبان 373/5)
حضرت صہیب سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوجاتے تو یہ دعاء پڑھتے: اے اللہ! میرے دین کو درست فرما جو میرے حق میں بچاؤ ہے، اور دنیا کو درست فرما جس میں تو نے میری معاش مقرر کی ہے، اے اللہ میں تیری رضا کی تیرے غضب سے اور تیرے معافی کی تیری پکڑ سے اور تیری تجھ سے پناہ چاہتاہوں ،جو چیز تو دینے پر تیار ہوئے اسے کوئی روک نہیں سکتا ،اور جو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا ۔اور مالدار کو اس کا مال نفع نہیں دے سکتا۔
14- عن ثو بان قال کان رسول ﷲ ﷺ اذا انصرف من الصلاۃ استغفر ثلا ثاًو قال اللّٰھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذاالجلال والا کرام۔(صحیح مسلم 218/1 )
حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد تین دفعہ استغفار کرتے اور کہتے :اے اللہ!تو سلامتی والا ہے اور تیری ہی طرف سے سلامتی ہے، تو بابرکت ہے اے بزرگی اور کرم والے!
اس حدیث میں صراحت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد استغفار کرتے، اور استغفار بھی دعا ہے کہ اس میں اللہ سے مغفرت طلب کی جاتی ہے۔
15-عن ابن عباس عن النبی ﷺ :ان ﷲ تعالی قال یا محمد اذا صلیت فقل: أللّٰھم انی اسالک فعل الخیرات وترک المنکرات وحب المساکین وأن تغفرلی وترحمنی واذا أردت بعبادک فتنۃ فاقبضنی إلیک غیر مفتون ، اللّٰھم انی اسالک حبک وحب من یحبک وحب عمل یقربنی الی حبک۔( یہ حدیث امام ترمذی نے روایت کی ہے اور اس کو حسن قرار دیا ہے، حضرت معاذ بن جبل کے واسطے سے بھی یہ حدیث مروی ہے، جس میں ’’إذا صلیت فقل‘‘ نہیں ہے، اس کو انھوں نے ’’ حسن صحیح ‘‘ کہا ہے ، عبد الرحمن بن عائش مذکورہ روایت کو بعض اصحاب نبی سے نقل کرتے ہیں ، جس کی تخریج امام احمدؒ نے کی ہے، اور محدث ہیثمی نے کہا کہ اس کے راوی ثقہ ہیں (مجمع الزوائد 176/7 کتاب التعبیر، باب فیما راہ النبی ﷺ )
حضرت ابن عباس سے یہ حدیث قدسی منقول ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے محمد ﷺ سے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھ چکو تو کہو:اے اللہ! میں تجھ سے اچھائیوں کو کرنے اور برائیوں کو چھوڑنے اور مسکینوں سے محبت کی توفیق کا طلبگار ہوں،میری مغفرت اور مجھ پر رحم فرما،اور جب تو اپنے بندوں کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہے تو مجھے اس آزمائش سے پہلے ہی اٹھا لے ،اے اللہ میں تیری محبت ،تجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت اور ایسے عمل کی محبت کا سائل ہوں جو تیری محبت سے قریب کردے۔
16- عن انس قال کان النبی ﷺ اذا انصر ف من الصلاۃ ، وفی لفظ الطبرانی اذا سلم من الصلاۃ یقول: اللھم اجعل خیر عمر ی آخرہ وخیر عملی خاتمہ وخیرأیامی یوم القاک۔( عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی /108 رقم الحدیث: 121، اس میں متعدد راوی ضعیف ہیں ، امام طبرانی نے معجم اوسط میں اسے نقل کیا ہے، اور اس میں بھی ابومالک نخعی ضعیف راوی ہے(مجمع الزوائد،ج:110/10)
حضر ت انسؓ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے پھرتے تھے ،ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب آپ نماز سے سلام پھیر دیتے تھے تو یہ دعا کرتے۔اے اللہ !میری آخری عمر اور میرے آخری عمل کو سب سے بہتر بنا، اور میرے لئے سب سے بہتر وہ دن ہو جس میں تیرے دیدار سے شرف یابی موقع ملے۔
17- عن ابی ایوب قال ما صلیت خلف نبیکم الا سمعتہ حین ینصرف: اللّٰھم اغفرلی۔(یہ دعا مکمل طور پر حدیث (6) میں گزر چکی ہے، امام طبرانی نے معجم صغیر اور اوسط میں اسے نقل کیا ہے، اور محدث ہیثمی نے کہا کہ اس کی سند عمدہ ہے، اسنادہ جید( مجمع الزوائد110/10)
حضرت ابو ایوب کہتے ہیں کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جب بھی نماز پڑھی ہے تو نماز سے پھرتے وقت یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا اللہم اغفر لی ۔۔۔۔
18 عن مسلم بن حارث عن رسول اللّٰہ ﷺ انہ اسر الیہ فقال اذا انصرفت من صلاۃ المغرب فقل: اللّٰھم اجرنی من النار سبع مرات فانک اذا قلت ذالک ثم مت من لیلتک کتب لک جِوَارٌ منہا واذا صلیت الصبح فقل کذالک فانک ان مت من یو مک کتب لک جوار منھا۔( سنن ابوداؤد ، کتاب الادب، باب مایقول إذا أصبح، سنن نسائی ، صحیح ابن حبان(ابن علان 68/3،الاذکار/114) قال الشیخ فی العزیزی 144/1حدیث صحیح، اعلاء السنن160/3)
حضرت مسلم بن حارث کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے راز دارانہ انداز میں فرمایا کہ جب تم مغرب کی نماز سے فارغ ہو جاؤ تو سات مرتبہ’’أللھم اجرنی من النار‘‘(اے اللہ مجھے آگ سے پناہ دے)کہو۔ کیونکہ یہ پڑھنے کے بعد اسی رات میں تمہاری وفات ہوجائے تو جہنم کی آگ سے نجات پاؤ گے، اور جب صبح کی نماز پڑھ لو تو یہی دعا پڑھو کیونکہ یہ پڑھنے کے بعد اسی دن تمہاری موت ہو جائے تو جہنم سے بری ہو گے۔
19- عن ام سلمۃ قالت کان رسول اللّٰہ ﷺ اذا صلی الصبح قال: اللھم انی اسالک علمًا نافعاً وعملاً متقبلاً ورزقاًطیباً۔(مسند احمد ،ابن ماجہ ( الاذکار/114)
حضرت ام سلمہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھتے ۔اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع، مقبول عمل اور پاکیزہ رزق کا طلب گار ہوں۔
20- عن المطلب بن ابی وداعۃ قال رسول ﷲ ﷺ الصلاۃ مثنٰی مثنٰی وان تشھد فی کل رکعتین، وان تباءس وتمسکن وتقنع بیدیک وتقول اللھم اغفرلی فمن لم یفعل ذالک فہوخداج۔
حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے منقول ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا نماز دو دو رکعت ہے ہر دو رکعت میں تشہد پڑ ھے ،اور خشوع وخضوع و انکساری کے ساتھ دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہے: اے اللہ! میری مغفرت فرما ،جو ایسا نہ کرے تووہ ناقص ہے۔
امام ابو داؤد اور ابن ماجہ نے اس کی روایت کی ہے،(سنن ابوداؤد183/1، باب فی صلاۃ النہار، سنن ابن ماجہ 491/1، کتاب اقامۃ الصلاۃ ، باب ماجاء صلوٰۃ اللیل مثنیٰ مثنیٰ )
امام ترمذی نے بھی اسے فضل بن عباس کے واسطے سے نقل کیا ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں۔
’’الصــلاۃ مثنٰی مثنٰی تشھدٌ فی کل رکعتین وتخشعٌ وتضرعٌ و تمسکنٌ وتقنع یدیک یقول ترفعھما الی ربک مستقبلاً ببطونھما وجھک وتقول: یارب یارب ومن لم یفعل فھو کذٰ وکذا۔‘‘
نماز دو دو رکعت ہے، ہر دو رکعت پر تشہد پڑھے، اور خشوع و تضرع اور اظہار فقر و مسکینی کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوکر اپنے دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائے کہ ہتھیلی چہرے کی طرف ہو اور کہے اے رب ! اے رب! اور جو کوئی یہ نہ کرے تو وہ ایسا ویسا ہے۔(جامع ترمذی87/1)
اس روایت کے تمام ناقلین ثقہ اور قابل اعتماد ہیں ۔صرف ایک راوی ’’عبدﷲ بن نافع بن العمیاء‘‘پر کچھ کلام ہے، بعض حضرات نے انھیں مجہول قرار دیا ہے کہ ان کے متعلق کچھ معلوم نہیں،لیکن اس کے بر خلاف امام ابن حبان نے انھیں ثقہ شمار کیا ہے،اور امام نسائی نے کبھی ان کے متعلق’’لیس بہ باس‘‘(ان میں کوئی کمی نہیں) اورکبھی’’ثقہ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے،(تہذیب التہذیب 50/6,میزان الاعتدال 513/2)نیز اس حدیث کو عبداللہ بن نافع سے نقل کرنے والے دو افراد ہیں، اور جس راوی سے حدیث لینے والے دو افرد ہوں تو محدثین کے نزدیک اس کی مجہولیت ختم ہوجاتی ہے،(اعلاء السنن 166/3) اس لئے یہ حدیث درجۂ حسن سے فروتر نہیں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امام ابوداؤد نے اس حدیث پر کوئی تبصرہ نہیں کیاہے، جوان کے نزدیک صحیح یا حسن ہونے کی دلیل ہے۔اور علامہ بغوی نے مصابیح السنۃ کے ’’فصل حسان‘‘ میں اسے جگہ دی ہے،( مصابیح 351/1رقم 569)اور علامہ منذری نے اس کی ابتدا’’عن ‘‘کے ذریعہ کی ہے،(الترغیب 348/1)جو ان کے نزدیک مقبول ہونے کی علامت ہے، جیسا کہ انھوں نے کتاب کے مقدمہ میں صراحت کردی ہے،اور امام طحاوی کے طرز عمل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک حدیث صحیح ہے۔( مشکل الآثار24/2-26)
اس حدیث میں نفل نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کردعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے، اور ظاہر ہے کہ ہاتھ اٹھانا نماز کے بعد ہی ہوگا ،کیونکہ نماز میں تشہد کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا کوئی قائل نہیں ہے۔اس لئے محدثین نے حدیث کی یہ تشریح کی ہے۔
ای ترفع ید یک بعد الصلاۃ للد عاء وھو معطوف علی محذوف ای اذا فرغت فسلّم و ارفع ید یک بعدھا سائلاً حاجتک ۔
نمازکے بعد دعاء کیلئے ہاتھ اٹھاؤ،یہ ایک حذف شدہ جملے پر عطف ہے، پوری عبارت یہ ہے کہ جب تم نماز سے فارغ ہوجاؤ تو سلام پھیر و اور اس کے بعد حاجتوں کیلئے دعا مانگو۔(اعلاء السنن165/3)
اور جس نفل نماز میں دعا نہ ہو اسے ناقص کہا گیاہے ۔اور جب نفل نماز میں دعا کی یہ اہمیت ہے تو فرائض میں بدر جہ اولی ہوگی،کیونکہ حدیث میں مذکور خشوع وخضوع جس طرح سے نوافل میں مطلوب ہے اس سے زیادہ فرائض میں مطلوب ہے۔اور جب خشوع وخضوع ہر نماز میں مطلوب ہے تو دعا بھی ہر نماز کے بعد مرغوب ہوگی۔
21ـ حضرت عبداللہ بن مسعود، ابن عباس ،مجاہد ،قتادہ اورضحاک سے آیت قرآنی ’’فاذا فرغت فانصب والی ربک فارغب( جب آپ فارغ ہوجایاکریں تو(عبادت) مخصوص محنت کیا کیجئے اور (جو کچھ مانگنا ہو) اس میں اپنے رب ہی کی طرف توجہ رکھئے )کی تفسیر میں منقول ہے کہ اذا فرغت من الصلاۃ فانصب الی ربک بالدعاء۔ (الدر المنثور 364/6-365)
مذکورہ احادیث کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے، کہ ذکر کردہ دعائیں اور اذکار فرض نماز کے بعد فوراً ہواکرتی تھیں، کیونکہ روایت میں عام طور پر یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔اذا سلم (جب سلام پھیر دیتے)اذا انصرف (جب نماز سے پھرتے)دبر الصلاۃ (نماز کے بعد) وغیرہ۔نیز بعض صحابہ صراحت کرتے ہیں کہ فرض و سنت جس نماز میں بھی مجھے آنحضرت ﷺ سے قریب رہنے کا اتفاق ہوا،یا جب بھی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی تو میں نے یہ دعاء سنی۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ دعائیں فرض کے بعد فورًا ہوا کرتی تھیں۔
رہی حضرت عائشہ کی یہ روایت کہ نبی ﷺ سلام کی بعد صرف اللّٰھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یاذاالجلال والاکرام،کہنے کے بقدر بیٹھا کرتے تھے ۔کان النبی ﷺ اذا سلم لم یقعد الا مقدار مایقول اللھم انت السلام الخ۔اس سلسلہ میں یہ عرض ہے کہ اس حدیث کا مدار تین راویوں پر ہے، اور ان میں سے ہر ایک پر کلام کیا گیا ہے ،پہلے راوی سلیمان بن حیان کے متعلق مشہور ناقد ابن معین نے کہا کہ وہ سچے تو ہیں لیکن حجت نہیں۔صدوق لکنہ لیس بحجہ۔ابوھاشم الرفاعی نے کہا کہ اصلاًسچے ہیں۔لیکن سو ء حفظ کی وجہ سے غلطی اور خطا کرجاتے ہیں ۔فی الاصل صدوق لکنہ انما اتی من سوء حفظہ فیغلط ویخطئی،ابو بکر البزارنے کہا کہ اہل علم کا اتفاق ہے کہ ان کے اندر قوت یادداشت کی کمی تھی۔اور انھوں نے اعمش وغیرہ سے ایسی حدیثیں نقل کی ہیں جن کا کوئی متابع نہیں ہے، اتفق اھل العلم بالنقل علی ان اباخالد لم یکن حافظا وانہ قد روی عن الا عمش وغیرہ احادیث لم یتابع علیہا۔( تہذیب التہذیب 181/4-182)
دوسرے راوی محمد بن حازم ،ابو معاویہ الضریر کے متعلق امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ وہ اعمش کے سوادیگر لوگوں سے جو حدیث نقل کرتے ہیں ۔اس میں اضطراب ہے،(حدیث کی سند یا متن میں ایسا اختلاف کہ موافقت کی کوئی صورت نہ ہو تو وہ اضطراب کہلاتا ہے اور ایسی حدیث کو حدیث مضطرب کہا جاتا ہے ) اسے اچھی طرح سے یاد نہیں رکھتے۔ فی غیر حدیثہ عن الاعمش مضطرب لا یحفظہا جیدًا ،ابن معین کا بیان ہے کہ وہ عبداللہ بن عمر کے حوالے سے منکر حدیث نقل کرتا ہے یروی عن عبداللّٰہ بن عمر مناکیر، امام ابوداؤد نے کہا کہ وہ عقیدہ کی اعتبار سے مرجئی تھا ،(مرجئہ ایک گمراہ فرقہ ہے ،اس فرقے کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اور اس کے علاوہ بھی متعدد باطل نظریات کا حامل ہے ،اور اس طرح کے عقیدے کو ارجاء کہا جاتا ہے ) ابوزرعہ نے کہا کہ وہ ارجاء پر یقین رکھتا تھا اوراس کی طرف لوگوں کو دعوت بھی دیتا تھا ۔ابن خراش کہتے ہیں کہ وہ اعمش سے روایت کر نے میں لائق اعتماد ہے لیکن دیگر لوگوں سے روایت میں اضطراب ہے ۔اور محمد بن حازم نے یہ حدیث اعمش کے بجائے عاصم احول سے روایت کی ہے، لہذا حدیث مضطرب ہوگی۔
تیسرے راوی عاصم بن سلیمان احول بصری کے متعلق علی بن مدینی ،یحییٰ بن سعید قطان سے نقل کرتے ہیں کہ عاصم احول حافظ حدیث نہیں تھا، لم یکن حافظاً اور ابن ادریس نے کہا میں اس سے حدیث سننا پسند نہیں کرتا ہوں۔ لا اروی شیئا ۔ اور ان کے کردار کو ناپسند کرتے ہوئے وہیب نے ان سے روایت کرنا ترک کردیا۔(تہذیب التہذیب 137/9-139)
اور حدیث کو صحیح مان لیا جائے تو بےتکلف یہ توجیہ کی جاسکتی ہے، کہ سلام کے بعد قبلہ رخ اتنی مقدار بیٹھا کرتے تھے ، اور پھر مقتدیوں کی طرف رخ کرلیتے، خود دوسری حدیث سے اس توجیہ کی تائید ہوتی ہے۔جیسا کہ سمرۃ بن جندب بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد ہماری طرف رخ کرلیتے ۔کان النبی ﷺ اذا صلی صلاۃ اقبل علینا بوجھہ۔(تہذیب التہذیب 43/9)
اور علامہ ابن قیم رقم طرازہیں:
’’کان ﷺ اذا فرغ من صلاتہ استغفر ثلاثاوقال: اللّٰھم انت اسلام ومنک السلام تبارکت یا ذاالجلال والا کرام ،ولم یمکث مستقبل القبلۃ الا ما یقول ذالک بل یسرع الانفتال الی المامومین وکان ینفتل عن یمینہ وعن یسارہ۔‘‘( )
جب آنحضرت ﷺ نماز سے فارغ ہوجاتے تو تین مرتبہ اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور کہتے اے اللہ! تو سلام ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ہے۔اے عظمت وکرم والے! تو بڑا بابرکت ہے. اور قبلہ رخ یہی پڑھنے کے بقدر ٹھہرتے اور اس کے بعد جلدی سے مقتدیوں کی طرف رخ کرلیتے، اورکبھی دائیں جانب چہرہ کرتے اور کبھی بائیں جانب، (اکثر دائیں جانب مڑتے تھے، جیسا کہ دیگر احادیث میں ہے)
اور مقتدیوں کی طرف رخ کرکے مذکورہ دعاؤں میں سے پڑھا کرتے تھے، چنانچہ امام مسلم نے براء بن عازبؓ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ:
کنا اذا صلینا خلف رسول ﷲ ﷺ أحببنا ان نکون عن یمینہ یقبل علینا بوجہہ قال فسمعتہ یقول رب قنی عذابک یوم تبعث عبادک ۔
جب ہم رسو ل اللہ ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھتے تو ہماری خواہش ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب رہیں تاکہ ہماری طرف آپ کا رخ ہو، حضرت براء کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ دعا پڑھتے سنا: اے اللہ قیامت کے عذاب سے ہمیں بچا۔
حدیث کی اس توجیہ کے بعد سلام کے بعد دعاء سے متعلق احادیث اور حضرت عائشہ کی مذکورہ حدیث میں کوئی تعارض نہیں رہ جاتا اور دونوں حدیثوں پر عمل ہوتا ہے ، جبکہ نماز کے بعد دعاء کے انکار کی وجہ سے بہت سی صحیح حدیثوں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔
ان صحیح اور واضح احادیث سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نماز کے بعد دعا کے لئے کس قدر اہتمام کیا کرتے تھے اور کس طرح سے آنحضرت ﷺ نے پیار ے انداز میں صحابہ کرام اور ان کے واسطے سے پوری امت کو نماز کے بعد دعا کی ترغیب دی ہے، اور اس میں ایک عظیم حکمت ہے کہ نبی ﷺ جانتے تھے کہ آپ کی امت میں عرب و عجم سب شامل ہوں گے، آپ کے پیروکاروں سے دنیا کا کوئی گوشہ اورکوئی خطہ خالی نہ ہوگا۔ کائنات کے چپہ چپہ پر توحید کے علمبردار موجود ہوں گے اور ان سب کی زبانیں ایک نہیں بلکہ انیک ہونگی، وہ عربی زبان میں اپنی حاجتوں اور ضرورتوں کو بیان نہیں کرسکتے، حالانکہ نماز میں عربی زبان کی رعایت کرنی ہوگی، اور سب کو عربی زبان سیکھنے کا پابند بنانا انہیں دشواری اور تنگی میں مبتلا کرنا ہوگا، یہ آسان دین ان کے لئے دشواری کا باعث ہوگا، اس لئے نبی رحمت ﷺ نے نماز کے بعد بھی دعا کی ترغیب دی کہ اس وقت بھی اللہ کی خصوصی رحمت اپنے بندوں کی طرف متوجہ رہتی ہے اور کسی فرق کے بغیر عرب وعجم سب اس وقت دست سوال دراز کرکے گوہر مراد حاصل کرسکتے ہیں۔
دعا میں ہاتھ اٹھانا:
دعا کا طریقہ یہ ہے کہ انسان خشیت و ندامت کا پیکر بن جائے ،جسم کا ہر حصہ بیچارگی، عاجزی اور بے قراری کی تصویر بن جائے۔دل کی کسک اور تڑ پ کے ساتھ آنکھوں سے اشک ندامت رواں ہوں،ایک بیکس اور بھکاری کی طرح ہاتھ پھیلائے ہوئے ہو۔ ارشاد ربانی ہے:
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیَۃً۔(اعراف:۵۵)
’’اپنے رب کو تضرع کے ساتھ اور چپکے چپکے پکارو‘‘
دل و زبان کے ساتھ جب ظاہری صورت بھی ایک سوالی اور فقیر کی بن جائے، تو رب کریم اسے خالی ہاتھ واپس نہیں کر تے اور اس کے دامن کو گو ہر مراد سے بھر دیتے ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے :
’’عن سلمان قال رسول ﷲ ا ان ﷲ حی کریم یستحیٖ اذا رفع الرجل الیہ یدیہ ان یردھما صفراً خائبین۔‘‘( جامع ترمذی : کتاب الدعوات ، قبیل ابواب شتیٰ من ابواب الدعوات وحسنہ،سنن ابوداؤد 109/1 باب الدعاء ،سنن ابن ماجہ 127/2، کتاب الدعاء ، باب رفع الیدین فی الدعاء ، صحیح ابن حبان .)
حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا پروردگار باحیا اور انتہائی سخی ہے، اس لئے جب کوئی اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو نامراد اور خالی واپس کرتے ہوئے اسے حیا آتی ہے۔
اس حدیث کوامام ترمذی نے ’’حسن ‘‘قراردیا ہے، اور امام حاکم نے کہا کہ اس حدیث کے راوی امام بخاری ومسلم کی شرط پر پورے اتر تے ہیں ،علامہ ذہبی نے بھی اس کی تائید کی ہے ، (المستدرک 535/1)حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا کہ اس کی سند عمدہ ہے،( فتح الباری 143/11)
اور امام طبرانی نے حضرت سلمان ہی کے واسطے سے اس حدیث کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
مارفع قوم اکفھم الی ﷲ تعالی یسالونہ شیٔا إلا کان حقا علی ﷲ أن یضع فی أیدیھم الذی سالوا۔
جو قوم بھی کچھ مانگنے کے لئے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلاتی ہے تو اللہ ضرور انھیں نوازتا ہے، اور خالی ہاتھ واپس نہیں کرتاہے۔
محدث ہیثمی اس روایت کے متعلق کہتے ہیں کہ رجالہ رجال الصحیح (مجمع الزوائد 497/1)امام حاکم نے الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ حضرت انس بن مالک سے بھی اس کو نقل کیا ہے، اور کہا ہے کہ اس سند صحیح ہے،لیکن علامہ ذہبی نے ایک راوی عامر کی وجہ سے امام حاکم کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔(المستدرک 498/1)تاہم امام حاکم کی رائے کو بالکل نظر انداز کر دینا بھی مشکل ہے۔کیونکہ عامر پر بعض لوگوں نے کلام کیا ہے تو دوسری طرف بہت سے ناقدین نے ان کی توثیق بھی کی ہے ۔چنانچہ مشہور ناقد حدیث یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ وہ ثقہ اور قابل اعتماد ہے ۔اور ابو داؤد کا بیان ہے کہ لیس بہ باس رجل صالح (ان سے روایت لینے میں کوئی حر ج نہیں، نیک آدمی ہیں)۔(تہذیب التہذیب 76/5, میزان الاعتدال 361/2)اورابن حبان نے ثقہ شمار کیا ہے، اس لئے حدیث درجہ حسن سے فروتر نہیں ہے نیز حضرت انس ہی کے واسطے سے دوسری سند سے بھی یہ روایت منقول ہے،(کنز العمال 87/2) گرچہ اس کا ایک راوی ’’ابان‘‘ بھی ضعیف ہے۔لیکن متعد سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے حدیث میں قوت آجاتی ہے۔
اسی طرح کی روایت امام دارقطنی نے حضرت علی بن ابی طالب سے،(مجمع الزوائد169/10۔قال الھیثمی فیہ الجارود بن یزید وھو متروک ) اور محدث طبرانی نے حضرت ابن عمر سے، اور محدث ابو یعلیٰ اور طبرانی نے حضر ت جابر سے نقل کیا ہے، جس کے متعلق علامہ ہیثمی کا بیان ہے کہ اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں،صرف ایک راوی یوسف بن عمد کو ضعیف قرار دیا گیا ہے، لیکن ضعف کے باوجود وہ قابل اعتماد ہیں،وقد وثق علی ضعفہ وبقیۃ رجالھما رجال الصحیح۔(مجمع الزوائد 149/10) اور امام سیوطی کہتے ہیں کہ اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں سوائے یوسف کے، لیکن وہ بھی ثقہ ہیں، رجالہ رجال الصحیح الا یوسف وہو ثقۃ۔(فض الوعاء ،ص:69)
۲۳ عن خلاد بن سائب الا نصاری ان رسول ﷲ ﷺ کان اذا دعا جعل باطن کفیہ الی وجھہ۔
حضرت خلاد بن سائب انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب دعا کرتے تو ہتھیلی کو اپنے چہرے کی طرف رکھتے تھے۔
امام احمد بن حنبل نے اس کی روایت کی ہے، اور علامہ ہیثمی(مجمع الزوائد 169/10) وامام سیوطی (فض الوعاء/93)کے بیان کے مطابق اس کی سند حسن ہے، امام طبرانی نے حضرت عبداللہ بن عباس سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ (المعجم الکبیر 344/11.رقم :12234)لیکن حافظ عراقی نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیاہے ،(تخریج احیاء علوم الدین 398/1)اس طرح کی متعدد حدیثوں سے اس میں قوت آجاتی ہے ،چنانچہ امام ابو داؤد نے سائب کے والد یز ید کے حوالے سے اس حدیث کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
23- عن سائب بن یز ید عن ابیہ ان النبی ﷺ کان اذا دعا فرفع یدیہ ،مسح وجھہ بیدیہ۔(حدیث کی سند یہ ہے : حدثنا قتیبۃ بن سعید ،حدثنا ابن لہیعہ عن حفص بن ہاشم بن عتبۃ بن ابی وقاص عن السائب،ابوداؤد209/1۔)
حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے پس دونوں ہاتھ اٹھاتے پھر انھیں اپنے چہرے پر مل لیتے تھے۔
ان دونوں حدیثوں (23-24) میں ایک راوی ’’ابن لہیعہ‘‘پر کلام کیا گیا ہے، مخالف او ر موافق دونوں طرح کے اقوال مروی ہیں ۔اس سلسلہ میں امام ابن عدی کی رائے بہت معتدل اور متوازن ہے۔و ہ فرماتے ہیں۔
احادیثہ حسان مع ما قد ضعفوہ وھو حسن الحدیث یکتب حدیثہ وقد حدث عنہ مالک وشعبۃ واللیث۔
(سیر اعلام النبلاء 22/8،الکامل لابن عدی147/4)
محدثین نے انہیں ضعیف قرار دیاہے، لیکن اس کے باوجود ان کی حدیثیں حسن ہیں۔ان کی حدیثیں لکھی جائیں گی۔امام مالک،شعبہ اور لیث نے ان سے حدیث نقل کی ہے۔
اور عبدالغنی بن سعید ازدی کہتے ہیں کہ اگر ابن لہیعہ سے عبداللہ بن مبارک ،ابن وہب اور المقری روایت کریں تو وہ حدیث صحیح ہوگی، علامہ ساجی وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے، (تہذیب التہذیب 378/5)اور علامہ ذہبی نے امام ابو داؤد سے نقل کیا ہے کہ میں نے قتیبہ کو کہتے ہوئے سنا :
کنا لا نکتب حدیث ابن لھیعۃ الا من کتب اخیہ او کتب ابن وھب الا ماکان من حدیث الاعرج ۔ (سیر اعلام النبلاء 16/8)
ہم ابن لہیعہ کی حدیثوں کو ان کے بھائی یا ابن وہب کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں ،مگر یہ کہ وہ ’’اعرج‘‘کی حدیث ہو۔
اور امام احمدنے قتیبہ سے کہا کہ ’’ابن لہیعہ‘‘ سے تم جو احادیث نقل کرتے ہو وہ صحیح ہیں، ’’احادیثک عن ابن لھیعہ صحاح‘‘۔انھوں نے جواب دیا ،کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان احایث کو ہم ابن وہب کی کتاب سے نقل کرتے ہیں اور پھر ابن لہیعہ سے جاکر سنتے ہیں۔کنا نکتب من کتب ابن وھب ثم نسمعہ من ابن لھیعۃ۔ (سیر اعلام النبلاء17/8)اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن لہیعہ ایک سچے اورصحیح راوی ہیں۔لیکن ان کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ حدیث میں جو کتاب انھوں نے مرتب کی تھیں وہ جل گئی۔ اورپھر یاد داشت میں کمی واقع ہوگئی ،جس کی وجہ سے زبانی روایت میں خلط ملط ہوجاتا۔ (صدوق من السابعۃ خلط بعد احتراق کتبہ ۔التقریب 244/1) لیکن بعض شاگردوں کے پاس اس کتاب کی نقل موجود تھی، اس لئے جولوگ ان کتابوں سے روایت نقل کرنے کے بعد پھر براہ راست ان سے جاکر سنتے تو وہ صحیح شکل میں حدیث کو محفوظ کرتے ، اسی لئے حافظ احمد بن صالح کاخیال ہے کہ ابن لہیعہ کی کتاب صحیح ہے اور جن راویوں نے صحیح نسخوں سے حدیث نقل کی ہے ان کی روایت بھی صحیح ہے۔ ان ابن لھیہ صحیح الکتاب و من کتب من الرواۃ حدیثہ من نسخۃ صحیحۃ فحدیثہ صحیح۔ (سیر اعلام النبلاء 18/8)
دوسری روایت کو ابن لہیعہ سے نقل کرنے والے قتیبہ بن سعید ہیں ۔ اس لئے اس کی صحت سے انکار مشکل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امام ابوداؤد نے اس حدیث پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، اور اہل علم جانتے ہیں کہ امام ابوداؤد کا کسی حدیث پر کسی کلام سے گریز اس کی صحت یا کم از کم حسن ہونے کی دلیل ہے ۔کیونکہ انھوں نے خود ہی صراحت کردی ہے کہ میں نے یہ کتاب پانچ لاکھ حدیثوں میں سے منتخب کر کے مرتب کی ہے، اس کی تمام روایتیں صحیح یا صحیح سے قریب ہیں،اور علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ سنن ابوداؤد میں آدھی احادیث وہ ہیں جو صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہیں،اور بعض احادیث وہ ہیں جسے امام بخاری و مسلم نے نقل تو نہیں کیا ہے مگران کے معیار کے مطابق ہیں، اور کچھ حدیثیں ایسی ہیں جن کے کسی راوی میں یادداشت کی کمی پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ درجہ حسن میں آجاتی ہے ،ان تین جگہوں پر امام ابوداؤد عام طور پر تبصرہ سے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
بعض حضرات نے دوسری روایت میں ابن لہیعہ کے استاذ حفص بن ہاشم پر کلام کیا ہے کہ وہ مجہول ہیں، ان کا کچھ اتا پتا نہیں ہے۔ لیکن علامہ ابن حجر عسقلانی کی تحقیق کے مطابق اس روایت میں ان کے استاذ حفص بن ہاشم نہیں بلکہ حبان بن واسع ہیں۔(تہذیب التہذیب 420/2-421)جیسا کہ پہلی روایت میں ہے۔ اور حبان بن واسع کو محدث ابن حبان نے ثقہ اور قابل اعتماد قرار دیا ہے۔(التہذیب 171/2) اس لئے اس روایت کی اسنادی حیثیت بے غبار ہے، اور مذکورہ روایت درجہ حسن سے فروتر نہیں ہے ،نیز اس طرح کی متعدد روایتیں موجود ہیں ، جن سے ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے اور اس سے کسی مستحب معاملہ کو ثابت کیا جاسکتا ہے ،جیسا کہ محدثین نے اس کی صراحت کردی ہے۔
اللہ کے رسول انے اپنی امت کو دعاء کا طریقہ اور ادب یہ بتلایا ہے :
25 عن مالک بن یسار ان رسول ﷲ ﷺ قال اذا سالتم ﷲ فسلوہ ببطون اکفکم ولا تسالو ہ بظھور \ھا۔( امام ابوداؤد نے اس کی روایت کی ہے ، اور سند یہ ہے: حدثنا سلیمان بن عبد الحمید البھرانی قال قرأتہ فی اصل اسمٰعیل یعنی ابن عیاش حدثنی ضمضم عن شریح حدثنا ابوظبیۃ أن أبابحریۃ السکونی حدثہ عن مالک۔ سنن ابوداؤد 209/1)
مالک بن یسار سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جب تم اللہ سے مانگو، تو ہاتھ کے اندرونی حصہ کی طرف سے مانگو اور ظاہری حصہ کی طرف سے نہ مانگو ۔
اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند جید اور عمدہ ہے، اسی لئے انھوں نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا ہے، اس طرح کی ایک حدیث امام طبرانی نے حضرت ابو بکرہ سے نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
26 سلو ﷲ ببطون اکفکم ولا تسالوہ بظھورھا۔
اللہ کے سامنے ہتھیلی پھیلاکر مانگو،ہاتھ کی پشت کی طرف سے مت مانگو۔
علامہ ہیثمی کا بیان ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں سوائے عمار بن خالد واسطی کے، لیکن وہ بھی ثقہ اور قابل اعتماد ہیں، رجالہ رجال الصحیح غیر عماربن خالد الو اسطی وھو ثقۃ۔(مجمع الزوائد 169/10)
اس جیسی ایک روایت امام ابوداؤد نے حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
27- عن عبدﷲ بن عباس ان رسول ﷲ ﷺ قال لاتستروا الجدر من نظر فی کتاب اخیہ بغیر اذنہ فانما ینظرفی النار۔سلوا ﷲ ببطون اکفکم ولا تسالوہ بظھورھا فاذا فرغتم فامسحو بھا وجو ھکم۔
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیواروں پر پر دہ نہ ڈالو،اورجو کوئی اپنے بھائی کے خط کو بے اجازت دیکھتا ہے، تو یقینا وہ آگ میں دیکھتا۔ اللہ سے اپنی ہتھیلی کے ذریعہ مانگو ،ہاتھ کی پشت کی طرف سے نہیں اور جب دعا سے فارغ ہوجاؤ تو ہاتھ چہرے پر پھیر لو۔
امام ابوداؤد نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث متعدد سندوں سے محمد بن کعب سے منقول ہے ،جوسب کی سب کمزور ہیں ،یہ سند ان میں سب سے بہتر ہے لیکن اس میں بھی ضعف ہے، روی الحدیث من غیر وجہ عن محمد بن کعب کلھا واھیۃ وھذاالطریق امثلہاوھو ضعیف ایضاً۔
اس سندکے ضعیف ہونے کی وجہ راوی کی جہالت ہے،درمیان کے ایک راوی کا نام مذکور نہیں ہے، سلسلہ اسناد ملاحظہ ہو: حدثنا عبداللّٰہ بن مسلمۃ حدثنا عبدالملک بن محمد بن ایمن عن عبداللہ بن یعقوب بن اسحاق عمن حدثہ عن محمد بن کعب القرظی حدثنی عبدﷲ بن عباس۔(سنن ابوداؤد209/1)
لیکن امام ابن ماجہ(172/2) اورحاکم( المستدرک 536/1) نے اس مجہول راوی کے نام کی صراحت کردی ہے، اس لئے جہالت راوی کی بات ختم ہوجاتی ہے، البتہ اس راوی پر کلام کیا گیا ہے، اس لئے اسنادی حیثیت سے روایت کمزور ضرور ہے، لیکن اس طرح کی متعدد روایتوں کی وجہ سے اس میں قوت آجاتی ہے، اسی لئے امام سیوطی اور شیخ الاسلام ابو الفضل ابن حجر نے اپنے امالی میں روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ (فض الوعاء /74)
محدث عبدالرزاق اور امام ابو داؤد نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:
المسالۃ أن ترفع یدیک حذو منکبیک أونحوھا والاستغفار ان تشیر باصبع واحدۃ، والابتہال ان تمد یدیک جمیعاً۔
اللہ سے مانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم دونوں ہاتھ کو مونڈھے تک اٹھاؤ، اور طلب مغفرت کا طریقہ یہ ہے کہ تم ایک انگلی سے اشارہ کرو، اور ابتہال یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلاؤ۔
امام ابوداؤد نے ا یک دوسری سند سے اس روایت کو رسول ﷲ ﷺ کے ارشاد کی حیثیت سے ذکر کیا ہے،( ابوداؤد 209/1.مصنف عبد الرزاق 250/2) اور علامہ منذری نے ’’مختصر السنن‘‘ میں لکھا ہے کہ حدیث حسن ہے۔(144/2)
یہ تمام روایتیں بالکل عام ہیں اور ہر موقع پر دعا میں ہاتھ اٹھانے کے استحباب پر دلالت کرتی ہیں، اوریہ کہ اس طرح دعا کرنے سے قبولیت کی زیادہ امید ہے، لہٰذا انہیں کسی خاص حالت کے ساتھ مخصوص کرنا درست نہیں ہے، اوران میں سے بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا مستحب اور بہتر ہے، اسی سے متعلق یہ روایت بھی ملاحظہ ہو:
29-’’عن عمربن الخطاب قال کان رسول ﷲ ﷺ اذا رفع یدیہ فی الدعا لم یحطہما حتیٰ یسمح بہما وجہہ‘‘
حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتے تو اسے چہرے پر پھیرے بغیر نیچے نہیں کرتے تھے۔
امام ترمذی نے اس کی روایت کی ہے، اور ہندوستانی نسخہ میں حدیث پر "غریب‘‘ ہونے کا حکم ہے، لیکن ابراہیم عطوۃ کی تحقیق کے ساتھ مصر سے شائع شدہ ترمذی میں ’’صحیح غریب‘‘ ہے،(ترمذی 464/5) نیز علامہ ابن عربی کی شرح ’’عارضۃ الاحوذی‘‘ کے ساتھ مطبوعہ ترمذی میں بھی صحیح غریب کے الفاظ ہیں۔ (عارضۃ الاحوذی276/12) ایسے ہی علامہ قرطبی(الجامع لأحکام القرآن 225/7) اور صاحب ’’المعیار المغرب‘‘ (حاشیۃ الرھونی علی شرح الزرقانی لمختصر خلیل412/1) نے بھی امام ترمذی کے حوالے سے ’’صحیح غریب‘‘ نقل کیا ہے، اسی طرح سے شیخ عبدالحق کے پاس موجود سنن ترمذی میں بھی ’’صحیح‘‘ کا اضافہ ہے۔( الاذکار /558، کتاب جامع الدعوات)
اگر یہی تسلیم کرلیا جائے کہ امام ترمذی نے صرف ’’غریب‘‘ کہا ہے، صحیح کا حکم نہیں لگایا ہے تو بھی حدیث کو ضعیف نہیں کہا جاسکتا ہے، کیونکہ انہوں نے یہ کہنے کے بعد کہ اس حدیث کو ہم صرف حماد بن عیسیٰ کی سند سے جانتے ہیں، وہ تنہا اسے روایت کرتے ہیں، ان کے ساتھ کوئی اور راوی نہیں ہے، ان پر کوئی کلام نہیں کیا ہے، بلکہ یہ کہہ کر ان کی تائید کی ہے کہ وقد حدث عنہ الناس بہت سے لوگوں نے ان سے روایت لی ہے، (ترمذی 174/2)نیز مشہور ناقد حدیث یحییٰ بن معین نے ’’شیخ صالح‘‘ کہہ کر ان کی توثیق کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ امام حاکم اور علامہ ذہبی نے اس حدیث کے نقل کے بعد کوئی کلام نہیں کیا ہے۔( المستدرک میں مذکور حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
کان إذا مد یدیہ فی الدعاء لم یردھما حتیٰ یمسح بھما وجھہ(536/1)
اور جن لوگوں نے حماد بن عیسیٰ پر کلام کیا ہے تو وہ عدالت وصداقت کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ یاد داشت کی کمزوری کے اعتبار سے ہے، لیکن اس طرح کی دیگر روایتوں کی وجہ سے اس کمی کی تلافی ہوجاتی ہے، اسی بنیاد پر علامہ ابن حجر عسقلانی نے حدیث کو حسن قرار دیا ہے،( بلوغ المرام/ 498) اور اہل حدیث عالم دین امیر صنعانی نے ان کی تائید کی ہے اور اسی روایت سے دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کے استحباب کو ثابت کیا ہے۔( سبل السلام 430/4)
30- عن ابن شھاب الزھری قال کان رسول ﷲ ﷺ یرفع یدیہ عند صدرہ فی الدعاء ثم یمسح بھما وجہہ۔(مصنف عبد الرزاق 247/2)
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعاء میں سینے تک ہاتھ اٹھاتے تھے اور پھر دونوں ہاتھوں کو چہرے پر مل لیتے تھے۔
اس روایت کی سند صحیح ہے لیکن حدیث مرسل ہے، یعنی تابعی نے صحابی کے واسطے کے بغیر براہ راست، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے، اور مرسل روایت امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک واحمد کے مشہور قول کے مطابق قابل استدلال ہے، بلکہ علامہ ابن جریر طبری تو اس پر اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اجمع التابعون اسرہم علی قبول المرسل ولم یات عنہم انکارہ ولا عن احد من الائمۃ بعدہم الی رأس المائتین۔(جامع التحصیل فی احکام المراسیل للحافظ العلائی /27)
مرسل کے قبول کرنے پر تمام تابعین کا اتفاق ہے ان میں سے کسی سے انکار منقول نہیں ، اور تابعین کے بعد کسی امام سے بھی دوسری صدی ہجری تک انکار ثابت نہیں۔
اور روایت نمبر 29 کو حضرت عمر سے نقل کرنے والے حضرت عبداللہ بن عمر ہیں۔ ان کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا، جیسا کہ امام بخاری نے نقل کیا ہے۔
31- عن ابی نعیم قال رأیت ابن عمر وابن الزبیر یدعوان یدیران بالراحتین علی الوجہ( الادب المفرد68/2،رقم: 609، اس روایت کے راوی صحیح ہیں ، امام بخاری نے صحیح بخاری میں ان راویوں کے واسطے سے حدیث نقل کی ہے ، (دیکھئے : مقدمہ فتح الباری 442-435)
ابو نعیم کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر کو دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دیکھا.
اور ابن سعد نے طبقات کبریٰ میں نقل کیا ہے کہ محمد بن قاسم کہتے ہیں:
’’رأیت ابن عمر عندالقاص رافعاً یدیہ یدعو حتیٰ تحاذیا منکبیہ۔‘‘( اس کے راوی قابل اعتماد ہیں ، صرف ایک راوی خالد بن مخلد پر معمولی کلام ہے ، الطبقات الکبریٰ 162/4)
میں نے ابن عمر کو واعظ ( یہ جلیل القدر تابعی عبید بن عمیر مکی ہیں ۔علامہ ذھبی ان کے متعلق لکھتے ہیں:یہ مکہ میں تابعین کے امام اور قابل اعتماد لوگوں میں تھے ،وعظ و تذکیر کیا کرتے تھے ،حضرت عبد اللہ بن عمر بھی ان کے وعظ میں شریک ہوتے ،حماد بن سلمہ نے حضرت ثابت سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کے عہد مبارک میں سب سے پہلے انھوں نے ہی وعظ کہنا شروع کیا۔(سیر اعلام النبلاء157/4)کے پاس دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاکر دعاء کرتے ہوئے دیکھا۔
امام عبدالرزاق نے بھی اس واقعہ کو مصنف میں نقل کیا ہے،(253/2) لیکن اس میں ’’القاص‘‘ کی جگہ ’’العاص‘‘ ہے، جو غلط ہے، اور انہوں نے اس سے متعلق روایات کو نقل کرنے کے بعد یحییٰ بن سعید انصاری کا… جنہوں نے صحابی رسول حضرت انس بن مالک اور سائب بن یزید اور فقہاء سبعہ وکبار تابعین سے حدیث سنی ہے… قول ذکر کیا ہے کہ مجھ سے تابعین نے بیان کیا کہ صحابہ کرام برکت کیلئے دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے۔ ذکر وا أن من مضی کانو یدعون ثم یردون أیدیہم علی وجوھھم لیردوا الدعا والبرکۃ۔ اس کے بعد امام عبدالرزاق نے لکھا ہے کہ میں نے حضرت معمر کو دعا کے وقت سینے تک ہاتھ اٹھاتے ہوئے اوراس کے بعد چہرے پر پھیرتے ہوئے دیکھا ہے، اور میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں۔(حوالہ مذکور)
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دعا میں ہاتھ اٹھانا اور اس کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا سلف کا معمول رہا ہے ،کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ سے ایسا کرنا ثابت ہے، اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام کا اسی کے مطابق عمل تھا، اورایک تسلسل کے ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہا ،اور وہ لوگ بھی اس پر عمل پیرا تھے جو جماعت اہل حدیث کے سربراہ اور سرخیل سمجھے جاتے تھے، چنانچہ نواب صدیق حسن قنوجی لکھتے ہیں:
’’حاصل یہ ہے کہ ہر دعا میں خواہ کسی وقت کی جارہی ہو، پنج وقتہ نماز کے بعد ہو یا اس کے علاوہ کسی اور موقع پر، ہاتھ اٹھانا بہترین آداب میں سے ہے، عمومی احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں،( نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانے سے متعلق خصوصی احادیث بھی ہیں، جن کا تذکرہ آئندہ ہوگا علامہ قنوجی کی نگاہ شاید وہاں نہ پہونچ سکی )اس لئے نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانے سے متعلق مخصوص حدیث کا نہ ہونا اس کیلئے مضر نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیز سب کو معلوم تھی اس لئے لوگوں نے اس کے تذکرہ کو ضروری خیال نہ کیا، علامہ حافظ ابن قیم کا نماز کے بعد دعاء میں ہاتھ اٹھانے کا انکار کرنا وہم پر مبنی ہے، ہم نے اس مسئلہ کو اپنی کتابوں میں تحقیقی انداز میں واضح کرکے پیش کردیا ہے۔
علامہ قنوجی اس مسئلہ سے متعلق بعض احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’خلاصہ یہ ہے کہ ہر دعا میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے، مگر یہ کہ بہ صراحت ایسی قید لگی ہو، جو عدم رفع کا تقاضا کرتی ہو، جیسے رکوع اور سجدہ کی دعائیں۔‘‘( نزل الابرار/36)
ایسے ہی علامہ عبدالرحمن مبارکپوری،(تحفۃ الاحوذی 245/1) مولانا سید نذیر حسین،(فتاویٰ نذیریہ 265/2) مولانا ثناء اللہ امرتسری،( فتاویٰ ثنائیہ 328/2) وغیرہ علماء اہل حدیث بھی نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنے کے قائل ہیں۔
دعا میں ہاتھ اٹھانے سے متعلق کچھ عمومی احادیث کا تذکرہ ہوا ، جس میں کسی موقع یا حالت کی تخصیص نہیں ہے بلکہ ہر دعاء میں ہاتھ اٹھانے کے استحباب پر دلالت کرتی ہیں، اور اب کسی خاص موقع پر دعا میں ہاتھ اٹھانے سے متعلق احادیث ذکر کی جائیں گی، جس سے اندازہ ہوگا کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ اس کا کس قدر اہتمام کیا کرتے تھے۔
32- عن عائشۃ انہا رأت رسول ﷲ ﷺ یدعوا رافعا یدیہ یقول: اللہم انما انا بشر فلا تعاقبنی ایما رجل من المومنین آذیتہ او شتمتہ فلا تعاقبنی فیہ۔( الادب المفرد70/2رقم :613، حافظ ابن حجر عسقلانی کے بقول اس کی سند صحیح ہے ،دیکھئے: فتح الباری 142/11)
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ہاتھ اٹھاکر دعا کررہے ہیں، اے اللہ! میں بشر ہوں، مجھے عقاب سے بچائیے جس مومن کو میں نے تکلیف دی ہو یا اسے تکلیف دہ بات کہی ہو تو مجھ پر اس سلسلہ میں عقاب نہ کیجئے۔
امام عبدالرزاق نے اس روایت کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’ کان رسول ﷲ ﷺ یرفع یدیہ حتیٰ انی لاسأم لہ ممایرفعہما اللہم انما انا بشر فلا تعذبنی بشتم رجل شتمتہ او اذیتہ۔‘‘(مصنف عبد الرزاق 251/2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اتنی دیر تک اٹھائے رکھتے کہ میں اکتا جاتی، آپ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! میں بشر ہوں، لہٰذا کسی انسان کو تکلیف دہ بات کہنے کی وجہ سے یا ایذا رسانی کی وجہ سے مجھے عذاب نہ دیجئے۔
33- غزوۂ اوطاس میں حضرت ابو عامر عبید شہید ہوئے، جام شہادت نوش کرتے ہوئے انہوں نے اپنے بھتیجے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے کہا کہ دربارِ رسالت میں میرا سلام پہونچا دینا اور دعاء مغفرت کی درخواست کرنا، حضرت ابو موسیٰ اشعری نے آنحضرت ﷺ کو اطلاع دی تو آپ نے وضو کرکے بارگاہ خداوندی میں مغفرت کیلئے ہاتھ پھیلا دیئے ، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن ابی موسیٰ اشعری قال دعا النبی ﷺ بماء فتوضا ثم رفع یدیہ فقال اللہم اغفر لعبید ابی عامر ورأیت بیاض ابطیہ۔‘‘
( صحیح بخاری 944/2،کتاب الدعوات، باب الدعاء عند الوضوء )
حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے پانی منگایا، وضو کیا اور دونوں ہاتھ اٹھاکر فرمایا: اے اللہ! ابو عامر عبید کی مغفرت فرما، آپ نے دست مبارک کو اس حد تک بلند فرمایا کہ مجھے بغل کی سفیدی نظر آنے لگی۔
34- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے خطبہ میں مشغول تھے، اس دوران ایک شخص آیا اور عرض کیا:
’’ھلکت الماشیۃ، ھلک العیال، ھلک الناس فرفع رسول ﷲ ﷺ یدیہ یدعو ورفع الناس ایدیہم معہ یدعون( صحیح بخاری ؍ کتاب الاستقاء ،باب رفع الناس ایدیہم مع الامام فی الاستسقاء)
36- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کی سرکردگی میں ایک لشکر روانہ فرمایا، انہوں نے متعینہ قبیلہ میں جاکر ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، جس پر قبیلہ والوں نے لبیک کہا مگر حضرت خالد ان کی مراد نہ سمجھ سکے، اور غلط فہمی کی وجہ سے کچھ لوگوں کو قتل کردیا، اللہ کے رسول اللہ ﷺ کو جب اطلاع ہوئی تو آپ نے دونوں ہاتھ اٹھاکر بارگاہ خداوندی میں عرض کیا، اے اللہ! خالد نے جوکچھ کیا ہے میں تیرے حضور اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں فرفع النبی ﷺ یدیہ فقال اللّٰہم انی ابرأ إلیک مما صنع خالد۔( صحیح بخاری ،کتاب المغازی، باب بعث النبی خالد بن الولید إلی بنی جذیمۃ۔کتاب الدعوات، باب رفع الایدی فی الدعاء)
36- قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:
رب انہن اضللن کثیراً من الناس فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور رحیم۔(سورہ ابراہیم )
اے رب! انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا، تو ان میں سے جس نے میری اتباع کی اس کا تعلق مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو آپ غفور اور رحیم ہیں۔
اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے حضور درخواست کریں گے :
إن تعذبہم فانہم عبادک وان تغفر لہم فانک انت العزیز الحکیم۔(المائدۃ:۱۱۸)
اگر آپ انہیں سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں، (اور آقا کو حق ہے کہ بندے کو سزا دے) اور اگر معاف کردیں تو بیشک آپ زبردست حکمت والے ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں آیتوں کی تلاوت کرتے ہوئے اپنی امت کا خیال آیا، اور جناب باری میں آنسؤوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دئے فرفع یدیہ وقال اللہم امتی امتی وبکیٰ۔( صحیح مسلم 113/1 کتاب الایمان، باب دعاء النبی لامتہ وبکائہ شفقۃً علیہم )
امام نووی نے حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس روایت سے مستفاد ہوتا ہے کہ دعا میں ہاتھ اٹھانا مستحب ہے۔(شرح نووی)
37- حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ ایک رات اللہ کے رسول ﷺ جنت البقیع تشریف لے گئے اور دیر تک وہاں قیام فرما رہے، اور تین مرتبہ ہاتھ اٹھاکر دعا کی:
’’حتیٰ جاء البقیع فقام فاطال القیام ثم رفع یدیہ ثلاث مرات۔‘‘
علامہ نووی نے اس کی شرح میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے طویل دعا اور مکرر دعا مانگنے اور دعا میں ہاتھ اٹھانے کا استحباب معلوم ہوتا ہے ۔ فیہ استحباب اطالۃ الدعا وتکریرہ ورفع الیدین فیہ۔( صحیح مسلم 313/1. کتاب الجنائز)
38- فتح مکہ کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا :
’’ فلما فرغ من طوافہ اتی الصفا فعلا علیہ حتیٰ نظر الی البیت ورفع یدیہ فجعل یحمد اللہ و یدعو ماشاء ان یدعو۔‘‘
( صحیح مسلم 103/2، کتاب الجہاد،باب فتح مکۃ)
جب آپ ﷺ طواف سے فارغ ہوگئے تو صفا پر چڑھے ،یہاں تک کہ آپ کو بیت اللہ نظر آنے لگا تو دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد اور دعاء میں مصروف ہوگئے۔
39- عن ابی ھریرۃ قال قال رسول ﷲ ﷺ یا ایہا الناس ان ﷲ طیب لا یقبل الا طیبا وان ﷲ امر المومنین بما امر بہ المرسلین فقال: یا ایہا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا إنی بما تعملون علیم، وقال: یا ایہا الذین آمنوا کلوا من طیبات ما رزقنٰکم، ثم ذکر الرجل یطیل السفر اشعث اغبر یمد یدیہ الی السماء یا ر ب یا رب ومطعمہ حرام ومشربہ حرام وملبسہ حرام وغذی بالحرام فانی یستجاب لذالک۔( صحیح مسلم 326/1، کتاب الزکوٰۃ،باب أن الصدقۃ یقع علیٰ کل نوع من المعروف)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا لوگو! اللہ پاک ہے اور پاک چیز ہی کو قبول کرتا ہے، اور اللہ عزوجل نے مرسلین کو جن باتوں کاحکم دیا تھا مومنین کو بھی ان کا پابند بنایا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: پیغمبرو! پاکیزہ غذا استعمال کرو اور نیک عمل کرو میں تمہارے اعمال کے متعلق خوب جانتا ہوں، اور مومنین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: مومنو! ہم نے تمہیں جو پاکیزہ رزق دیاہے اس کو کھاؤ، پھر آپ ﷺ نے ایسے شخص کا تذکرہ کیا جو طویل سفر (بیت اللہ وغیرہ کی زیارت کیلئے) کرتا ہے، پریشان حال، پراگندہ بال، اور اس حالت میں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعا کرتا ہے، اے میرے رب! اے میرے رب! حالانکہ اس کا کھانا پینا، لباس، سب حرام ہے، اور حرام غذا سے اس کی پرورش ہوتی ہے، تو ایسے شخص کی دعاء کیسے قبول ہوگی؟
اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ قبولیت دعا کیلئے حلال غذا اور لباس و پوشاک ضروری ہے، وہیں یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ ہاتھ اٹھانا آداب دعا میں سے ہے۔
40- حضرت عبدالرحمن بن سمرۃ سورج گہن کے سلسلہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
فانتھیت الیہ وھو رافع یدیہ یدعو یکبر ویحمد ویھلل حتیٰ جلی عن الشمس۔( ایک دوسری روایت میں ہے : فأتیتہ وھو قائم فی الصلاۃ رافع یدیہ فجعل یسبح ویحمد ویہلل ویکبر ویدعو ، صحیح مسلم 299/1، کتاب الکسوف)
جس وقت میں وہاں پہونچا آنحضرت ﷺ دونوں ہاتھ اٹھائے، دعا، تکبیر، حمد اور لا الہ الا ﷲ کہنے میں مشغول تھے، یہاں تک کہ گرہن ختم ہوگیا۔
41- عن ابی ھریرۃ قال قدم الطفیل بن عمرو الدوسی علی رسول ﷲ ﷺ فقال یا رسول ﷲ ان دوسا قد عصت وأبت فادع ﷲ علیہا فاستقبل رسول ﷲ ﷺ القبلۃ ورفع یدیہ فظن الناس انہ یدعو علیہم فقال اللہم اہددوسا وإیت بہم۔(الادب المفرد باب رفع الیدین فی الدعاء ، صحیح بخاری ، کتاب الجہاد، باب الدعاء للمشرکین بالہدیٰ میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے ، لیکن اس میں ورفع یدیہ نہیں ہے )
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ دوس کے طفیل بن عمرو ،اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا :یا رسول اللہ! قبیلہ دوس کے لوگ اسلام سے انکار اور سرکشی کررہے ہیں ،لہٰذا ان کیلئے بد دعا کردیجئے،یہ سن کر اللہ کے رسول ﷺ نے قبلہ رخ ہوکر دونوں ہاتھ دعا کیلئے اٹھادیا، لوگوں نے سمجھا کہ آپ ﷺ بددعا کریں گے، لیکن نبی کریم ﷺ نے بجائے بد دعا کے یہ دعا کی: اے اللہ قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور انہیں تابع بناکر یہاں لے آ۔
42- حضرت جابر بن عبداللہ سے حضرت طفیل دوسی کے ساتھ ہجرت کرنے والے ایک صاحب کا واقعہ منقول ہے، کہ انہوں نے دوران سفر مرض کی شدت سے پریشان ہوکر ہاتھ کی رگوں کو کاٹ دیا، جس کی وجہ سے موت واقع ہوگئی، حضرت طفیل نے انہیں خواب میں دیکھا اور دریافت کرنے پر انہوں نے بتلایا کہ ہجرت کی وجہ سے میری بخشش ہوگئی ہے۔ لیکن میرے ہاتھ کے نقص کو دور نہیں کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ جس کو تم نے خود خراب کیا ہے ہم اسے درست نہیں کریں گے، حضرت طفیل نے یہ واقعہ اللہ کے رسول ﷺ سے بیان فرمایا تو آنحضرت ﷺ نے بارگار خداوندی میں ہاتھ پھیلا کر ان کے معافی کی درخواست کی۔ اللہم ولیدیہ فاغفر ورفع یدیہ۔(الادب المفرد /70،صحیح مسلم 74/4، کتاب الایمان، باب الدلیل علیٰ أن قاتل نفسہ لایکفر میں تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ مذکور ہے ، لیکن اس میں ورفع یدیہ نہیں ہے )
43- عن عائشۃ قالت رأیت رسول ﷲ ﷺ رافعا یدیہ حتیٰ بدأ ضبعاہ یدعو برد عثمانؓ۔( جزء رفع الیدین/64 رقم: 88)
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس قدر بلندی تک ہاتھ اٹھائے دیکھا کہ بغل کا حصہ ظاہر ہوگیا تھا، اس وقت آپ حضرت عثمانؓ کی واپسی کیلئے دعا کررہے تھے۔
44- حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ولید کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے شوہر کے مارنے کی شکایت کی ، رسول اللہ ﷺ نے انہیں بھیجا کہ جاؤ اپنے شوہر سے کہہ دو کہ اللہ کے رسول تمہیں اس سے منع کررہے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی وہ باز نہ آیا تو آپ ﷺ نے اللہ عزوجل کے حضور ہاتھ اٹھاکر عرض کیا :اللہ! تو ولید سے سمجھ لے، فرفع رسو ل ﷲ ﷺ یدہ فقال اللہم علیک بالولید۔( جزء رفع الیدین/66 رقم: 92)
45- عن اسامۃ قال کنت ردیف النبی ﷺ بعرفات فرفع یدیہ یدعو فمالت ناقتہ فسقط خطامہا فتناولہ الخطام باحدی یدیہ وھو رافع الید الاخریٰ۔( سنن نسائی 44/2،کتاب مناسک الحج، باب رفع الیدین فی الدعاء بعرفۃ)
حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ میں میدان عرفات میں سواری پر اللہ کے رسول ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا ،آپ نے دعا کیلئے دونوں ہاتھ اٹھا دئیے، اسی دوران اونٹنی ایک طرف کو جھک گئی، جس کی وجہ سے نکیل گر گئی، تو آپ ﷺ نے ایک ہاتھ سے لگام کو اٹھایا، جب کہ دوسرا ہاتھ دعا کیلئے اٹھا ہوا تھا۔
امام نسائی نے اس کی روایت کی ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔( اسنادہ جید،فتح الباری 142/11)
46- حضرت قیس بن سعدؓ سے منقول ایک حدیث کا آخری ٹکڑا یہ ہے:
ثم رفع رسول ﷲ ﷺ یدیہ وہو یقول اللہم اجعل صلوٰتک ورحمتک علی آل سعد بن عبادۃ‘‘(سنن ابوداؤد 407/2، کتاب الادب، باب کم مـرۃ یسلم الرجل فی الاستیذان، اورحافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری142/11 میں اس کی سند کو جید قرار دیا ہے)
اللہ کے رسول ﷺ نے ہاتھ اٹھاکر یہ دعا کی اے اللہ! تیری مہربانی ورحمت سعد بن عبادہ کے آل و اولاد پر ہو۔
47- نبی ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا، جس میں حضرت علیؓ بھی شامل تھے، ان کے جانے کے بعد آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھاکر دعا فرمائی کہ اللہ! مجھے اس وقت تک موت نہ دیجئے، جب تک میں علی کو دیکھ نہ لوں، رفع یدیہ وقال اللہم لا تمتنی حتیٰ ترینی علیاً۔( امام ترمذی نے اپنے سنن میں روایت کی اور کہا کہ سند حسن ہے215/2 کتاب المناقب، فی آخر مناقب علی من حدیث عطیۃ)
48- عن خالد بن الولید انہ شکا الیٰ رسول ﷲ ﷺ ضیق مسکنہ فقال ارفع یدیک الیٰ السماء وسل السعۃ۔( المعجم الکبیر للطبرانی117/4، وقال الہیثمی اسنادہ حسن ،مجمع الزوائد 169/10)
حضرت خالد بن ولیدؓ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے گھر کی تنگی کی شکایت کی ،تو آپ ﷺ نے فرمایا اپنے ہاتھ کو آسمان کی طرف اٹھاکر فراخی و کشادگی کی دعا کرو۔
49- عن طاؤس قال دعا النبی ﷺ علٰی قوم فرفع یدیہ جداً فی السماء فجالت الناقۃ فامسکہا باحدی یدیہ واخری قائمۃ فی السماء۔( مصنف عبد الرزاق247/1)
حضرت طائوس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک قوم پر بددعا کی تو دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف خوب بلند کیا، اس دوران اونٹنی گھوم گئی تو آنحضرت ﷺ نے ایک ہاتھ سے اسے روکے رکھا اور دوسرا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا ہوا تھا۔
50- عن عروۃ ان رسول ﷲ امر بقوم فی الاعراب کانوا قد اسلموا وکانت الاحزاب قد خربت بلادہم فرفع رسول ﷲ ﷺ یدعو لہم باسطا یدیہ قبل وجہہ۔( مصنف عبد الرزاق251/1)
حضرت عروہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا دیہات کے کچھ لوگوں کے پاس گزر ہوا، جو اسلام قبول کرچکے تھے، جنہیں اسلام دشمن جتھوں نے برباد کردیا تھا، یہ دیکھ کر ہاتھوں کو چہرے کی طرف اور پھیلا کرکے ان کے متعلق دعا کے لئے اٹھا دیا ۔
یہ دونوں روایتیں اسنادی حیثیت سے صحیح ہیں، البتہ مرسل ہیں، یعنی تابعی نے صحابی کے واسطے کے بغیر براہ راست اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کو نقل کیا ہے۔ اس طرح کی روایتوں میں زیادہ تر امکان اس کا ہوتا ہے کہ تابعی نے کسی صحابی سے حدیث سنی ہوگی مگر کسی وجہ سے ان کا نام نہیں لیا، یا کسی دوسرے قابل اعتماد تابعی سے حدیث لی ہوگی اور انہوں نے صحابی سے، اس لئے اکثر محدثین مرسل روایت کو حجت مانتے ہیں، جیسا کہ گزر چکا ہے۔
ان روایتوں سے دعا میں ہاتھ اٹھانے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے اوریہ کہ نبی کریم ﷺ اس کا کس قدر اہتمام فرمایا کرتے تھے کہ منبر پر خطبہ دے رہے ہیں، اس دوران دعا کی درخواست آئی ہے اور رب کائنات کی حضور دونوں ہاتھ دعا کیلئے پھیلا دیتے ہیں، اونٹنی پر سوار ہیں اور ایک ہاتھ میں نکیل ہے تو دوسرا ہاتھ دعا میں مشغول ہے، اتنی دیر تک ہاتھ اٹھائے رہتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ ترس کھانے لگتی ہیں، اور اس کے علاوہ دیگر روایتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام طور پر نبی کریم ہاتھ اٹھاکر دعا کرتے تھے، رہی حضرت انس سے منقول یہ حدیث کہ:
’’کان رسول ﷲ ﷺ لا یرفع یدیہ فی شئی من دعائہ الا فی الاستسقاء فانہ یرفع حتیٰ یری بیاض ابطیہ۔‘‘
( دیکھئے : صحیح بخاری 140/1، کتاب الاستسقاء ، باب رفع الامام یدہ فی الاستسقاء، صحیح مسلم293/1، کتاب الاستسقاء ، باب رفع الیدین فی الاستسقاء)
رسول اللہ ﷺ استسقاء کے علاوہ اپنی کسی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے، اور استسقاء میں اس حد تک ہاتھ بلند کرتے کہ بغل کی سفیدی نظر آنے لگتی۔
تو اس حدیث کو ظاہری معنیٰ پر باقی رکھنا مشکل ہے، کیونکہ اسی درجہ کی صحیح روایتوں سے استسقاء کے علاوہ متعدد جگہوں پر ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت ہے، بلکہ کوئی توجیہ ضروری ہے تاکہ تعارض ختم ہو، چنانچہ فقہاء اور محدثین نے اس کی متعدد توجیہات کی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت انسؓ کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھانے میں مبالغہ صرف استسقاء میں کیا کرتے تھے، اور اس حد تک کرتے کہ آپ کے بغل کی سفیدی نظر آنے لگتی، جیسا کہ حدیث کے آخری ٹکڑے سے معلوم ہو رہا ہے او ریہ بھی ان کے علم کے مطابق ہے،(فتح الباری 517/2، ارشاد الساری 251/2) ورنہ تو استسقاء کے علاوہ اور مواقع پر بھی اس قدر ہاتھ اٹھانا ثابت ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے۔
نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانے سے ہر شخص واقف اور آگاہ تھا، صحابہ کرام پنج وقتہ نمازوں میں اللہ کے رسول ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھتے تھے، اور تابعین عظام کے سامنے رسول اللہ ﷺ کے جانثاروں کا طرز عمل تھا، یہ ایک عام اور مشہور بات تھی اس لئے بیان کرنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی، تاہم جب بعض لوگوں نے غلط فہمی کی وجہ سے نماز کے اندر دعا میں ہاتھ اٹھانا شروع کیا تو اس پر تنبیہ کرتے ہوئے صحابی رسول حضرت عبداللہ بن زبیر نے فرمایا:
51- ان رسول ﷲ ﷺ لم یکن یرفع یدیہ حتیٰ یفرغ من صلاتہ۔
رسول اللہ ﷺ نماز سے فراغت کے بعد ہی دعا کیلئے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے نقل کیا ہے،(المعجم الکبیر 139/13.) اور علامہ ہیثمی کے بیان کے مطابق اس کے راوی قابل اعتماد ہیں، رجالہ ثقات(مجمع الزوائد 169/10)
امام مالک کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر کے صاحب زادے عامر کو نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے دیکھا ،امام مالک سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ اس میں کچھ حرج سمجھتے ہیں ؟انھوں نے کہا : نہیں ،البتہ بہت زیادہ بلند نہ کرے ۔ظاہر ہے کہ حضرت عامر کا یہ عمل ان کے والد سے منقول مذکورہ روایت کی بنیاد پر ہے ۔(حاشیۃ الرھونی 409/1)
یا کسی خاص واقعہ کے ذیل میں اس کا تذکرہ آگیا ہے، جیسے حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ:
52- ان رسول ﷲ ﷺ رفع یدیہ بعد ماسلم وہو مستقبل القبلۃ فقال اللہم خلص الولید بن الولید وعیاش بن ربیعۃ وسلمۃ بن ہشام وضعفۃ المسلمین الذین لا یہتدون حیلۃ ولا یہتدون سبیلا من ایدی الکفار۔ ( تفسیر ابن کثیر 832/1، سورۃ النساء ،آیت :100)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رخ ہوکر دعا کیلئے ہاتھ اٹھایا اور بارگار خداوندی میں عرض کیا، اے اللہ! ولید بن ولید، عیاش بن ربیعہ، سلمہ بن ہشام، اور کمزور مسلمانوں کو کافروں کے ہاتھ سے نجات دے، جو ہجرت کرنے کیلئے کسی تدبیر اور زاد راہ کی قدرت نہیں رکھتے ہیں۔
یہ روایت اسنادی حیثیت سے بے غبار ہے، اس کے راوی چمکتے سورج کی طرح ہیں، صرف ایک راوی علی بن زید پر حافظہ کے اعتبار سے معمولی کلام ہے، امام بخاری نے ’’الادب المفرد‘‘ میں اور امام مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے ان کی حدیث کو نقل کیا ہے۔ ابن عدی نے ان کے تفصیلی تعارف کے بعد لکھا ہے کہ ان کی حدیثیں اچھی ہیں، میں نے بصرہ وغیرہ کے محدثین میں سے کسی کو ان کی حدیث چھوڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔ لعلی بن زید احادیث صالحۃ ولم أرا أحدا من البصرین وغیرہم امتنع من الروایۃ عنہ۔ (الکامل لابن عدی 40/5، رقم : 1845)اور یعقوب بن شبیہ کابیان ہے کہ ثقۃ صالح الحدیث (قابل اعتماد اوراچھی حدیث والے ہیں) اور محدث عجلی کہتے ہیں کہ یکتب حدیثہ۔( عمل الیوم واللیۃ/38)
محدث ابن السنی نے حضرت انس بن مالک کے حوالے سے ایک ترغیبی حدیث بھی نقل کی ہے لیکن روایت ضعیف ہے۔
53- ما من عبد یبسط کفیہ فی دبر کل صلوٰۃ ثم یقول: اللہم الٰہی والٰہ ابراہیم واسحاق ویعقوب والٰہ جبرئیل ومیکائیل واسرافیل علیہم السلام اسألک ان تجیب دعوتی فانی مضطر وتعصمنی فی دینی فانی مبتلی وتنالنی برحمتک فانی مذنب وتنفی عنی الفقر فانی متمسکن الا کان حقا علی ﷲ عزو جل ان لا یرد یدیہ خائبتین۔(تہذیب التہذیب323/7)
جو بندہ نمازکے بعد ہاتھ پھیلا کر یہ دعا کرے، میرے معبود! ابراہیم، اسحاق، یعقوب علیہم السلام کے معبود! جبرئیل و میکائیل و اسرائیل علیہم السلام کے معبود! میری درخواست ہے کہ تو میری دعا کو قبول کرلے کیونکہ میں پریشان ہوں، میرے دین کی حفاظت فرما کیونکہ میں آزمائش میں ہوں۔ مجھے اپنی رحمت سے نواز کہ میں گنہگار ہوں، مجھ سے فقر کو دور فرما کہ میں نادار ہوں۔ تو اللہ ضرور اس کی مراد پوری کردیں گے اور اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹائیں گے۔
یہ روایت سند کے اعتبار سے بہت کمزور ہے، متعدد راویوں پر کلام کیا گیا ہے ۔ خصوصاً ایک راوی عبدالعزیز بن عبدالرحمن پر سخت جرح کی گئی ہے۔(دیکھئے : المیزان653/1) تاہم بطور تائید اس طرح کی روایتیں ذکر کی جاسکتی ہیں۔
اور ایسے ہی ایک روایت میں نفل نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کی رغبت دلائی گئی ہے اور جس نماز میں یہ نہ ہو اسے ناقص کہا گیا ہے۔
54- عن فضل بن عباس قال رسول ﷲ ﷺ الصــلاۃ مثنٰی مثنٰی تشھدٌ فی کل رکعتین وتخشعٌ وتضرعٌ و تمسکنٌ وتقنع یدیک یقول ترفعھما الی ربک مستقبلاً ببطونھما وجھک وتقول: یارب یارب ومن لم یفعل فھو کذٰ وکذا۔
یہ روایت حدیث نمبر 20 کے ذیل میں آچکی ہے، وہاں ترجمہ اور اسنادی حیثیت پر گفتگو ہوچکی ہے۔ یہ نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانے سے متعلق صریح اور واضح روایت ہے، کیونکہ محدثین نے تصریح کردی ہے کہ نماز کے اندر تشہد کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ہے بلکہ گزر چکا ہے کہ صحابہ اس وقت دعا میں ہاتھ اٹھانے سے منع کیا کرتے تھے لہٰذا یہ روایت نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے پر دلالت کرتی ہے چنانچہ امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں:
’’ورفع الیدین فی التشہد قبل التسلیم لیس من سنۃ الصلاۃ وہذا دال علی انہ انما امرہ برفع الیدین والدعاء والمسالۃ بعد التسلیم۔
تشہد میں سلام سے پہلے دونوں ہاتھ اٹھانا نماز کی سنت میں سے نہیں ہے، اس لئے یہ حدیث رہنمائی کررہی کہ آنحضرت انے سلام کے بعد دعا اور ہاتھ اٹھانے کا حکم دیا۔( صحیح ابن خزیمہ221/2)
اس طرح کی وضاحت علامہ ابن عربی اورعلامہ سندھی سے بھی منقول ہے۔ (اعلاء السنن165/3)
٭٭٭٭٭٭٭
حرفِ آخر
نماز ایک اہم فریضہ اور عبادت وبندگی کا اعلیٰ مظہر ہے، اس لئے نماز کے بعد اللہ کی خصوصی رحمت بندوں کی طرف متوجہ رہتی ہے، اور اس وقت جو دعا کی جاتی ہے وہ قبول ہوتی ہے، اس لئے حدیث میں نماز کے بعد دعا کی ترغیب دی گئی ہے اور جس نماز کے بعد دعا نہ ہو اسے ناقص کہا گیا ہے، اور عملی طور پر اللہ کے رسول ﷺ سے نماز کے اندر تشہد اور درود کے بعد بھی دعا ثابت ہے اور سلام کے بعد بھی۔ اس کی حکمت بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ تمام مسلمان عربی زبان سے واقف نہیں ہوتے ہیں، حالانکہ نماز کے اندر عربی زبان کی رعایت کرنی ہوگی اور تمام لوگوں کو اپنی مراد مانگنے کیلئے عربی زبان سیکھنے پر مجبور کرنا دشواری اور تنگی کا باعث ہوگا ،اور آسان دین ان کیلئے مشکلات کا سبب بن جائے گا، اس لئے قبولیت دعا کا ایسا وقت بھی متعین کیا گیا ہے، جس سے کسی فرق اور دشواری کے بغیر ہر شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
دعا میں ہاتھ اٹھانا بھی حدیث سے ثابت ہے اور اللہ کے رسول ﷺ نے ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ اس طرح سے ظاہری صورت بھی بھکاری اور فقیر کی سی بن جاتی ہے اور اللہ کو یہ ادا بہت پسند ہے۔ اس طرح دعا کرنے سے قبولیت کی راہ کھل جاتی ہے، جن احادیث میں ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے کی ترغیب آئی ہے وہ بالکل عام ہیں، اور ان کے عموم میں نماز کے بعد دعا بھی شامل ہے، لہٰذا یہاں بھی ہاتھ پھیلا کر دعا کرنا سنت اور مستحب ہے، کیونکہ اصولی طور پر یہ مسلم ہے کہ کوئی آیت یا حدیث عام ہو تو اس کے تمام افراد اس حکم میں شامل ہوں گے الا یہ کہ خصوصیت کی کوئی دلیل ہو، ہر مسئلہ کیلئے خصوصی دلیل کا مطالبہ ایک خطرناک رجحان ہے، کہ اس کی وجہ سے عمومی آیات واحادیث کا کوئی مقصد ہی نہیں رہ جائے گا ،اور اسلامی شریعت کا ناقص اور نا مکمل ہونا لازم آئے گا ،کیونکہ بہت سے احکام کے متعلق کوئی خصوصی آیت یا حدیث موجود نہیں ہے۔
علاوہ ازیں خصوصی طور سے بھی نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانا صحیح حدیث سے ثابت ہے، اگر اس سے متعلق احادیث کو ضعیف بھی مانا جائے تو بھی اس سے استحباب اور فضیلت کو ثابت کیا جاسکتا ہے، چنانچہ امام نووی لکھتے ہیں:
’’قال العلماء من المحدثین والفقہاء وغیرہ یجوز ویستحب العمل فی الفضائل والترغیب والترہیب بالحدیث الضعیف مالم یکن موضوعا۔‘‘( الاذکار/11)
فقہاء اور محدثین کا خیال ہے کہ فضائل میں اور خوف اور رغبت دلانے کیلئے ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز بلکہ مستحب ہے بشرطیکہ، موضوع اور من گھڑت نہ ہو۔
امام احمد بن حنبل اور عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ سے بھی بہ صراحت ضعیف حدیث پر عمل کا جواز منقول ہے، بلکہ اس پر ایک طرح سے اجماع اور اتفاق ہے جیسا کہ امام نووی نے ’’الاربعین‘‘ میں نقل کیا ہے، (اس موضوع سے متعلق تفصیلی اور تحقیقی بحث کے لئے دیکھئے مولانا عبد الحی فرنگی محلی کی کتاب الاجوبہ الفاضلہ /36-59 اور ظفر الامانی 178-207)بعض حضرات نے علامہ ابن العربی مالکی کا اختلاف نقل کیا ہے کہ وہ ضعیف حدیث پر بالکل عمل کے قائل نہیں ہیں۔(القول البدیع للسخاوی/363) لیکن علامہ ابن عربی کی تحریروں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی طرف یہ نسبت درست نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے ’’مراقی الزلف‘‘ میں لکھا ہے کہ شوہر کیلئے بیوی کی شرمگاہ دیکھنا میرے نزدیک مکروہ ہے، کیونکہ اگرچہ کراہیت کے متعلق حدیث ثابت نہیں ہے لیکن ضعیف حدیث علماء کے نزدیک رائے اور قیاس سے بہتر ہے۔ (تنزیہ الشریعۃ لابن العراقی209/2) نیز حدیث :یشمت العاطس ثلاثاً (چھینکنے والے کا جواب تین مرتبہ دیا جائے) پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر چہ اس حدیث میں ایک راوی مجہول ہے پھر بھی اس کے مطابق عمل کرنا مستحب ہے، کیونکہ یہ خیر اور بھلائی کی دعا ہے۔
ان عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ابن العربی جمہور علماء کی طرح بہت زیادہ ضعیف حدیث کو جو قریب بہ موضوع ہو ناقابل عمل سمجھتے ہیں۔ مطلقاً ضعیف حدیث پر عمل کاانکار نہیں کرتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ کسی حدیث کے ردوقبول میں علماء امت کے باہمی تعامل کو بھی اہم حیثیت حاصل ہے، کہ ضعیف حدیث پر امت کا عمل ہو تو وہ اپنے ضعف اور کمزوری کے باوجود قابل استدلال ہوجاتی ہے، مثلاً حدیث میں ہے کہ ’’طلاق الامۃ تطلیقتان وعدتھا حیضتان‘‘ (باندی کیلئے طلا ق کا عدد دو ہے اورعدت بھی دو حیض ہے) امام ترمذی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ: والعمل علی ہذا عند اہل العلم من اصحاب النبی ﷺ و غیرہم (علماء وصلحاء اور دیگر اہل علم کا عمل اسی کے مطابق ہے)سنن ترمذی 141/1 باب ماجاء أن طلاق الامۃ تطلیقتان،
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابو العاص کے ایمان لانے کے بعد از سر نو حضرت زینب سے ان کا نکاح کیا گیا، امام ترمذی اس حدیث پر کلام کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ہذا حدیث فی اسنادہ مقال والعمل علیٰ ہذا الحدیث عند اہل العلم… وہو قول مالک بن انس والاوزاعی والشافعی واحمد واسحاق۔‘‘( سنن ترمذی،ابواب النکاح ،باب ماجاء فی الزوجین المشرکین217/1)
اس حدیث کی سند پر کلام ہے لیکن اہل علم کا عمل اسی کے مطابق ہے۔ امام مالک، اوزاعی، شافعی، احمد اور اسحاق کا یہی نقطہ نظر ہے۔
حالانکہ اس کے برخلاف ایک صریح اور صحیح حدیث ہے کہ حضرت ابو العاص کے اسلام لانے کے بعد حضرت زینب کے ساتھ ان کے نکاح کی تجدید نہیں کی گئی۔
رد النبی ﷺ ابنتہ زینب علیٰ ابی العاص بن الربیع بعد ست سنین بالنکاح الاول لم یحدث نکاحاً۔( حوالہ مذکور) لیکن چونکہ اس کے مطابق کسی فقیہ کا عمل نہیں ہے، اس لئے امام ترمذی کہتے ہیں کہ شاید اس روایت میں راوی کو وہم ہوا ہے۔
اسی طرح ’’لاوصیۃ الوارث‘‘( حوالہ مذکور46/2) (وارث کیلئے وصیت نہیں ہے) اور ’’القاتل لا یرث‘‘ ( حوالہ مذکور40/2) (قاتل وارث نہیں ہوگا) بھی اسنادی حیثیت سے ضعیف ہے لیکن امت کا عمل اس کے مطابق ہونے کی وجہ سے اسے قابل استدلال سمجھا گیا ہے۔
اور بسا اوقات صحیح حدیث اس لئے قبول نہیں کی جاتی کہ امت کا عمل اس کے مطابق نہیں ہے، چنانچہ امام ترمذی نے لکھا ہے کہ ان کی کتاب کی دو روایتیں صحت سند کے باوجود بالاتفاق متروک ہیں، ان پر کسی فقیہ کا عمل نہیں ہے۔(کتاب العلل مع سنن ترمذی 233/2) اسی طرح سے حدیث میں صحیح سند کے ساتھ یہ صراحت مذکور ہے کہ ’’مستحاضہ عورت‘‘ ہر نماز کیلئے الگ الگ غسل کرے گی،( سنن ابوداؤد 40/1، باب ماروی أن المستحاضۃ تغسل لکل صلاۃ) مگر اس کے مطابق بھی کسی کا عمل نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلاۃ والتسلیم) کا اجتماعی طور پر کسی چیز کو قبول یا رد کرنا دین کے مجموعی مزاج سے موافقت اور عدم موافقت کو ظاہر کرتا ہے، یقینا یہ عملی تواتر اور تاریخی تسلسل اس لائق ہے کہ اس کی وجہ سے وہ روایت بھی قبول کی جائے جن کے راویوں میں کچھ کمزوری ہو ،کیونکہ امت کا یہ باہمی تعامل اسے قوی سے قوی تر بنادے گا۔ یہ خود ایک قوی سلسلہ اسناد ہے کہ اس کے سامنے وہ سلسلہ اسناد ہیچ ہے، جس میں محض ایک ایک راوی ہوں۔
نماز کے بعد دعا اور اس میں ہاتھ اٹھانا بھی ایسے ہی مسائل میں سے ہے، جس کی بنیاد صحیح احادیث پر ہے اور امت کے علماء و صلحاء کی تائید حاصل ہے ، جب کہ اس سے ممانعت کے سلسلہ میں صحیح حدیث تو دور کی بات ہے، ضعیف اور من گھڑت روایت کا بھی وجود نہیں ہے۔
خاتمہ:
مولانا اعجازاحمد صاحب اعظمی
ایک اِشکال:
فرض نمازوں کی بعد ہاتھ اٹھا کر دعا ما نگنے کا ثبوت اور دلائل قارئین کرام کے ملاحظہ سے گزر چکے ،اس سے ایک منصف مزاج کو شر ح صدر ہو جاتا ہے کہ نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ،بدعت تو کیا ہوتا،بہتر اور مستحب ہے۔ بعض لوگوں کو یہاں بخاری و مسلم کی ایک روایت سے شبہ ہو سکتا ہے کہ دعاؤں میں عمومًا ،اور نماز کے بعد خصوصًا ،رسول اللہ ﷺ سے ہاتھ اٹھا نا ثابت نہیں ہے،وہ روایت یہ ہے۔
عن انس بن مالک رضی اﷲ عنہ قال:کان رسول ﷲ ﷺ لا یرفع ید یہ فی شئی من دعاءہ الا فی الاستسقاء فانہ کان یر فع ید یہ حی یری بیاض ابطیہ۔
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھا یا کرتے تھے ،سوائے استسقاء کے، کہ اس میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا بلند کر تے تھے ،آپؐ کے بغل کی سفیدی ظاہری ہوجاتی تھی۔
اس روایت سی معلو م ہوتا ہے کہ استسقاء کے علاوہ کسی اور موقع پر دعا میں ہاتھ اٹھانے کا ثبوت نہیں ہے۔
جواب:
لیکن دعویٰ اور یہ استد لا ل حدیث کے ناقص مطالعہ کے باعث ہے۔ اگر ایک حدیث یہ ہے تو بکثرت حدیثیں قولی بھی اور فعلی بھی، کہ رسول اللہ ﷺ نے دعاؤں میں ہاتھ اٹھانے کی تر غیب دی ہے، اور خود بھی ہاتھ اٹھائے ہیں۔
اس مسئلہ پر مشہور حافظ حدیث امام زکی الدین عبدالعظیم نے ،ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، نیز حافظ جلا ل الدین سیوطی نے بھی اس موضوع پرایک رسالہ لکھا ہے،جس کا نام ’’ فض الوعاء فی احادیث رفع الیدین فی الدعاء‘‘ ہے، امام منذری کے رسالہ سے امام نووی نے کتاب الاذکار میں اور شرح المہذب میں حدیثیں نقل کی ہیں۔بلکہ حافظ جلا ل الدین سیو طی نے تو تدریب الراوی شرح تقریب النواوی‘‘میں اس بات کی تصریح کی ہے، دعا میں ہاتھ اٹھانے کی حدیثیں،رسول اللہ ﷺ سے بطریق تو اتر معنوی منقول ہیں، چنانچہ مبحث المتواتر میں فرماتے ہیں کہ:
متواتر کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کا معنی متواتر ہو، جیسے وہ احادیث جن میں دعاؤں کے اندر ہاتھ اٹھا نے کاذکر ہے ،اس مسئلہ میں تقریبًا سو حدیثیں وار دہیں،جن میں دعا کے اندر ہاتھ اٹھا نے کا تذکرہ ہے،جنھیں میں نے ایک رسالہ میں جمع کیا ہے، لیکن ان کاتعلق مختلف مقامات اور مسائل سے ہے، تو گو ہر مسئلہ متواتر نہیں ہے،لیکن مجموعی اعتبار سے قدر مشتر ک یعنی دعا کے وقت ہا تھ اٹھانا قطعی طور سے متواتر ہے ۔(ص:18)
ظاہر ہے کہ یہ متواتر قدر مشترک،حضرت انس ؓ سے منقول خبر واحد پر مقدم ہے۔اس لئے جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک متواتر ہی کو ترجیح حاصل ہو گی ۔حضرت انس ؓ کی روایت سے صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو استسقاء کے علاوہ کسی اور موقع پر ہاتھ اٹھاتے نہیں دیکھا،یا انھیں اس کا علم نہیں ہوسکا۔ لیکن اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے،کہ کسی اور نے بھی نہیں دیکھا، اور دوسروں کو بھی معلوم نہیں ہے۔
امام نووی علیہ الرحمہ مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
حضرت انس ؓ کی حدیث سے بظاہر وہم ہوتا ہے کہ ر سول اللہ ﷺ نے استسقاء کے علاوہ کبھی دعا میں ہاتھ نھیں اٹھایا ہے،لیکن بات یہ نہیں ہے ،بلکہ آپؐ سے ہاتھ اٹھا نے کا ثبوت استسقاء کے علاوہ اتنے مقامات میں ہے کہ ان کاشمار مشکل ہے،اس موضوع پر میں نے بخاری و مسلم سے تقریبًا تیس حدیثیں جمع کی ہیں، جن میں بعض تو دونوں کتابوں میں ہیں اور بعض ان دونوں میں سے کسی ایک کتاب میں، ان احادیث کو میں نے شرح المہذب کے ابواب صفۃ الصلوۃ کے اخیر میں ذکر کیا ہے۔
امام نو وی فرماتے ہیں کہ:
’’اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے استسقاء کے علاوہ کسی اور موقع پر اتنا زیادہ ہاتھ نہیں اٹھایا ہے کہ آپ کے بغل کی سفیدی ظاہر ہو جائے۔ یا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے،کہ راوی نے کسی اور مو قع پر ہاتھ اٹھا تے دیکھا نہیں ہے، جب کہ دوسرے حضرات صحابہ کرام نے دیکھا ہے، اور ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو بکثرت مواقع پر ہاتھ اٹھانے کا اثبات کرتے ہیں،ان کی روایتوں کو اس ایک شخص کی روایت پر ترجیح حاصل ہوگی ۔جو ان مواقع پر موجود نہ تھا۔
حاصل یہ ہے کہ متواتر روایات سے، اور باتفاق علماء دعاؤں میں ہاتھ اٹھانا ثابت اور مستحب ہے۔اس میں اسی کی کوئی تخصیص نہیں ہے کہ فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھانا ممنوع ہو،اور دوسرے اوقات میں اٹھانا مشروع ہو،اس مسئلے میں عمومی احادیث تو بہت ہیں۔بعض احادیث میں خصوصیت کے ساتھ فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھانے کا ذکر ملتا ہے۔
چنانچہ ابن سنی نے عمل الیوم واللیلۃ میں اور حضرت ابوالشیخ نے حضرت انس ؓسے نقل کیا کہ :مامن عبد یبسط کفیہ فی دبر کل صلوۃ ثم یقول اللھم الٰھی والٰہ ابراھیم الخ( دیکھئے:ص، 82) یعنی بندہ کسی بھی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کرتا ہے اللھم الٰھی والہ ابراھیم الخ تو اللہ تعالیٰ پر حق ہوجاتا ہے،کہ اس کے ہاتھوں کو ناکام و نامراد نہ کریں ۔
یہ حدیث گو سند کے لحاظ سے ضعیف ہے،لیکن دوسری روایات سے چونکہ اس مضمون کی تائید وتوثیق ہوتی ہے۔اس لئے اس کے استحباب میں کوئی شبہ نہیں ہے،ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز سے فارغ ہونے کے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہا ہے۔ جب اس سے فارغ ہوگیا،تو حضرت عبد اللہ بن زبیر نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہی ہاتھ اٹھایا کرتے تھے یہ روایت طبرانی کی ہے، علامہ ہیثمی نے فرمایا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔
علامہ ابن کثیر تحریر فرماتے ہیںکہ:
ان رسول ﷲ ﷺ رفع یدہ بعد ماسلم وھو مستقبل القبلۃ فقال اللہم خلص الولیدبن الولید وعیاش بن ربیعہ وسلمہ بن ھشام وضعفۃ المسلمین الذین لا یستطیعون حیلۃً ولا یھتدون سبیلاً من ایدی الکفار۔(تفسیر ابن کثیر سورۃ نساء، آیت:100)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رو ہونے ہی کی حالت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور یہ دعاکی۔
اس روایت کی سند میں صرف ایک راوی علی بن زید پر کچھ کلام کیا گیا ہے ،لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ بخاری کے علاوہ باقی اور صحاح کے راوی ہیں ،اس لئے یہ روایت معتبر ہے تفصیل کے لئے اصل عربی رسالہ،ص: 135کا مطالعہ کیجئے ۔
ان روایات کی روشنی میں اب کسی اہل حدیث کو یہ شبہ نہیں رہ سکتا کہ نمازوں کے بعد عموماً بھی اور خصوصًا بھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت ہے۔
سوال:
اب ایک سوال رہ جاتا ہے کہ نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کا کیا ثبوت ہے،کہ تمام مقتدی امام کے ساتھ دعا کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی شروع کرتے ہیں۔اور اس کے ساتھ ہی ختم کرتے ہیں۔گو کہ ان میں سے ہر ایک شخص اپنی اپنی دعا علیحدہ کرتا ہو۔
جواب:
نمازوں کے بعد دعا کا انکار کرنے والے جب سب طرف سے مجبور ہوتے ہیں،تو آخری حربہ کے طور پر یہی سوال استعمال کرتے ہیں۔آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وہ کہاں سے چلے تھے ۔ شروع یہاں سے ہوئے تھے کہ کسی نماز کے بعد کو ئی دعا رسول اللہ ﷺ سے منقول نہیں ہے،نہ آپ نے کیا،نہ خلفاء نے یہ عمل کیا، نہ آپ نے امت کواس کی ہدایت کی( علامہ ابن قیم کا کلا م گزر چکا ہے) جب اس کی تردید کی گئی ،تو ہاتھوں کے اٹھانے پر کلام کیاگیا، جب اس کا بھی ثبوت مل گیا۔تو اب اجتماعی دعا کانام لیا۔
لیکن یہ بات محقق ہے کہ اگر کسی مسئلہ پر کوئی عام دلیل پیش کردی جائے جس سے اس موضوع پر استدلال ہوسکتا ہو،تو کسی خاص دلیل کا مطالبہ غلط ہے، عمومات سے استدلال سب نے کیا ہے۔ہر مسئلے میں خاص دلیل کامطالبہ جہل کی بات ہے۔آج کل یہ رجحان بہت تیزی سے پھیلا ہے کہ ہر قول اور ہر عمل کے لئے کسی خاص حدیث سے دلیل چاہئے ،جو براہ راست اس قول اور عمل پر دلالت کرے۔حال یہ ہے کہ کسی نے تجوید و ترتیل کے ساتھ قر آن پاک کو پڑھا تو اس پر حدیث کا مطالبہ ہے،خاص حدیث نہیں ملی تو بدعت ہے۔تلاوت قرآن کے بعد کسی نے صدق اللّٰہ مولانا العظیم کہہ کر اپنے ایمان کو تازہ کیا،تو اس پر حدیث کا مطالبہ ہے، اور خاص حدیث نہیں ملی تو بدعت ہے۔کسی نے بزرگ سے منقول کوئی دعا پڑھ دی ،مثلاً حزب البحر اور دلا ئل الخیرات وغیرہ۔تو اس پر خاص حدیث کا مطالبہ ہے ورنہ بدعت ہے۔ کسی کسی موقع پر خاص خاص دعاؤں کا پڑھنا اہل اللہ حضرا ت کے تجربے سے مفید ثابت ہوا ہے۔ اس کے لئے حدیث کا مطالبہ ہے۔ امام غزالی نے وضو کے اعضاء کے دھوتے وقت مختلف دعائیں ذکر کی ہیں۔ان پر حدیث کا مطالبہ ہے ،نہیں تو بے اصل ہے،بدعت ہے۔غرض جہالت کا عجب تماشا ہے۔ ان لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ عام احادیث جن سے اس جنس کے بہت سے مسائل پر استدلال ہوسکتا ہے،کسی عمل کی مشروعیت کے لئے کافی نہیں ہیں جب تک خاص اسی مسئلے پر کوئی حدیث نہ مل جائے ، انھیں تشفی نہیں ہوتی ، حالانکہ احکام شرع کے سلسلہ میں یہ بہت خطرناک رجحان ہے،کبھی کبھی اس کا انجام کفر بھی ہوسکتا ہے،مگر انھیں خبر نہیں ۔کیونکہ اگر ہر مسئلہ میں یہ شرط لگادی جائے کہ وہ اسی وقت جائز ہوگا جب کوئی خاص حدیث یا کوئی خاص آیت بعینہٖ اسی مسئلے پر دلالت کرے ،اور اگر ایسی خاص دلیل نہ ملی تو وہ عمل جائز نہ ہوگا بدعت ہوگا۔اگر یہ شرط مان لی جائے تو کتاب و سنت کے عمومات بیکار ہوجائیں گے ۔ اور ان اسے استدلال باطل ٹھہرے گا۔اس نظریہ کے نتیجے میں دلائل شریعت کا ایک بڑا حصہ بر باد ہوجائے گا،اور احکام کا دائرہ نہایت تنگ ہوجائے گا۔اور یہ بھی لازم آئے گا کہ نعوذباللہ شریعت مطہرہ ہر زمانے کے احکام ومسائل کے لئے کافی نہیں ہے۔آخر ہر ہر جزئیہ کے لئے خاص دلیل کیا ہر زمانے کے لئے مل سکتی ہے؟
پھر تو ان پر بھی سوالات کی بو چھار ہوگی کہ
1- کس حدیث سے ثابت ہے کہ ہر مسئلے میں خاص دلیل چاہئے ؟
2-کس حدیث سے ثابت ہے کہ ضعیف روایت پر عمل کرنا جائز نہیں ہے؟
3-کس حدیث سے ثابت ہے فلاں راوی کی روایت صحیح ،حسن ،ضعیف یا موضوع ہوگی۔
4-کس حدیث سے ثابت ہے کہ نماز کے بعد اجتماعی طور سے دعاکرنا بدعت ہے؟
6-کس حدیث سے ثابت ہے نمازوں کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانا بدعت ہے؟
اور اس طرح کے بے شمار سوالات پیدا ہوں گے۔ کیا علم حدیث کے مدعیوں اور جہالت کے نمائندوں کے پاس ہر مسئلہ میں عام دلائل کے علاوہ کوئی خاص دلیل موجود ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ خاص دلیل کے مطالبہ کا نظریہ خود خلاف سنت ہے،دلیل ملاحظہ ہو:
امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی کتا ب میں متعدد جگہوں پر ایک روایت نقل کی ہے : الخیل لثلاثۃ،لر جل اجر، و لرجل ستر، وعلی رجل وزر۔
گھوڑے تین آدمیوں کیلئے ہیں۔ایک شخص کیلئے اجر ہے،ایک شخص کے لئے پر دہ پوشی کا سامان ہے۔ اور ایک شخص پر گناہ ہے۔
پھر آپ ﷺ نے ہر ایک کی تفصیل بیان فرمائی۔اس پر رسول اللہ اسے دریافت کیاگیا کہ گدھوں کے بارے میں کیا ارشاد ہے،آپ نے فرمایا:
ماأنزل علیّ فیھا الا ھٰذہ الآ یۃ الجامعۃ الفاذۃ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شراً یرہ۔
گدھوں کے سلسلے میں میرے اوپر سوائے اس جامع اور منفرد آیت کے اور کچھ نازل نہیں ہوا ہے، اور آپ نے پڑھا، فمن یعمل مثقال ذرۃ۔۔۔
جس نے ذرہ بھر بھلائی کی ،اسے وہ دیکھے گا،اور جس نے ذرہ بھر برائی کی اسے وہ دیکھے گا ۔
اس پر حافظ ابن حجر تحریر فرماتے ہیںکہ :
وفیہ تحقیق لاثبات العمل بظواھر العموم وانھا ملزمۃ حتی یدل دلیل التخصیص ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ظواہر عموم پر عمل کیاجائے گا،اور ان سے بھی لزوم ثابت ہوتا ہے تا آنکہ اس کے خلاف کوئی دلیل مل جائے۔(فتح الباری 81/6)
دیکھئے اس حدیث میں گدھے کے مسئلے میں ایک عام دلیل سے استدلال فرمایا کہ اگر اس کے پالنے میں ارادہ خیر کا ہے تو وہ ملے گا،اور اگر شر‌ کا ارادہ ہے،تو وہ ملے گا۔
یہ حدیث عمومات سے استدلال کی بہت واضح دلیل ہے،ایک اور حدیث ملاحظہ ہو،جس میں مشہور صحابی رسول، جلیل القدر فقیہ و مجتہد حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک عام آیت سے ایک خاص مسئلے میں استدلال کیاہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ نے ایک بار ارشاد فرمایا کہ: لعن ﷲ الواشمات والموتشمات والمنتھضات والمتفلجات للحسن المغیرات خلق ﷲ ۔
اللہ نے لعنت کی ہے،گودنا گودنے والی ،اور گدوانے والی پراور اس عورت پر، جو چہرے کے روئیں کو اکھاڑتی ہے،اور دانتوں میں جھری پیدا کرتی ہے۔تا کہ حسین ظاہر ہو جو اللہ کی خلقت میں تبد یلی پیدا کرتی ہے۔
یہ خبر بنی اسد کی ایک خاتون ام یعقوب کو پہونچی ،تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، انھوں نے عرض کیا کہ آپ فلاں فلاں عورتوں پر لعنت بھیجتے ہیں، فرمایا کہ بھلا جس پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہو،اس پر میں کیوں نہ لعنت بھیجوں ۔جب کہ یہ بات کتاب اللہ میں موجود ہے ،انھوں نے عرض کیا کہ میں نے تو پورا قرآن پڑھا ہے ،اس میں یہ بات کہیں نہیں ہے ،فرمایا اگر تو کتاب اللہ پڑھے ہوتی ،تو یہ تمہیں ضرور ملتی ۔کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی ہے:
ما آتاکم الر سول فخذوہ و ما نھاکم عنہ فانتھوا۔
جو کچھ رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے رد کریں اس سے باز آجاؤ۔
اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھا ہے۔فرمایا کہ بس یہی بات ہے،اللہ کے رسول ﷺ نے مذکورہ چیزوں سے منع فرمایا ہے۔( بخاری شریف:کتاب التفسیر،تفسیر سورہ حشر)
اس روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک عمومی آیت سے ایک خصوصی مسئلہ پر استدلال کیا ہے، اور استدلال بھی کیسا؟ فرمایا کہ فلاں فلاں پر کتاب ﷲ میں لعنت موجود ہے،کتاب اللہ میں اس لعنت کا موجود ہونا اسی صورت میں صحیح ہوگا۔ جب کہ حرام کے اس فرد کو "مانھاکم عنہ” کے عموم میں داخل مانا جائے۔
دیکھئے رسول اللہ ﷺ نے ایک عام آیت سے ایک خاص مسئلے میں استدلال کیا۔پھر آپ ہی کی پیروی میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی ایک عام آیت سے ایک خاص مسئلے میں استدلال کیا اور اس کو کافی سمجھا ۔ اور یہ استدلال اس خاتون کی سمجھ میں نہیں آیا تھا ،تو اس سے فرمایا اگر تو قرآن پڑھتی تو تجھے یہ بات قرآن میں ملتی ۔گویا اس نے جب اس عموم سے استدلال نہیں کیا،اور اس کی طرف اس کا ذہن نہیں گیا،تو اس کے قرآن پڑھنے کی نفی فرمادی ۔
پھر ان کے بعد ائمہ کے یہاں یہ اصول ہی بن گیا کہ جس طرح خاص سے استدلال درست ہے، عام سے بھی درست ہے ،اور جب کوئی عام دلیل مل جائے ، تو مسئلے کے اثبات کے لئے کسی خاص دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی،نہ اس کا مطالبہ درست ہے۔
اب یہ نئی ہوا چلی ہے کہ ہر مسئلے کے لئے خاص دلیل کا مطالبہ ہے،اور خاص دلیل نہ ملے ،توبے دلیل اس کے بدعت اور غیر مشروع ہونے کا فتویٰ لگادیا جاتا ہے، عرض کرچکا ہوں یہ رجحان احکام شرع میں نہایت خطرناک ہے۔
جب عام دلائل بلکہ خاص احادیث سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا مشروع بلکہ مستحب ہے،تویہ سوال لغو ہے کہ اجتماعی طور پر امام اور مقتدی کا دعا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔دعا کے سلسلے میں جو دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ان کا تعلق صرف انفرادی دعا کے ساتھ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔بلکہ مطلق دعا سے ان کا تعلق ہے،اور مطلق دعا انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی، لہذا ان سے جب انفرادی دعا کا ثبوت مل گیا۔تو اجتماعی دعا کا بھی ثبوت مل گیا۔اب اجتماعی دعا کے لئے خصوصیت کے ساتھ دلیل کی طلب اسی گمراہی کا شاخشانہ ہے،جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔
اور اگر یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اجتماعی دعاء نہیں کی ہے۔ تب بھی اس کے دلائل جواز کے ہوتے ہوئے ،اسے یا بدعت کہنا غلط ہے، کیونکہ ترک کرنا بھی عدم جواز کی دلیل نہیں ہے۔اللہ تعالی فرماتے ہیں:
ماآتا کم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا۔
جو کچھ رسول تم کو دیں ،اسے لے لو، اور جس سے منع کردیں اس سے باز آجاؤ،
یہ نہیں فرمایا کہ:
وماترکہ فانتھوا عنہ ۔جو کچھ رسول چھوڑدیں ۔اس سے تم باز آجاؤ۔
مثال ملاحظہ ہو،عہد نبوت میں نماز جمعہ مدینہ منورہ میں صرف ایک جگہ تھی۔دور و قریب کے گاؤں میں آپ نے جمعہ کی اجازت نہیں دی تھی،حالانکہ بعض گاؤں دور کی مسافت پر تھے۔ اور اب دیکھئے کہ ایک شہر میں متعدد جمعہ ہوتے ہیں اور کوئی نہیں کہتا کہ جمعہ کا تعدد حرام ہے یا بدعت ہے، کیونکہ جمعہ کا تعدد متروک تو تھا ، اس سے نہی نہیں وارد ہوئی ہے۔
تو اگر اجتماعی طور پر نماز کے بعد آپ نے دعا نہ بھی کی ہو،تب بھی ممنوع ہو نے کی کوئی دلیل نہیں ہے،بلکہ مطلق اور عام دلائل سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔کیونکہ ان دلائل عامہ کے مقابلہ میں،اس اجتماعی دعا کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
علماء اصول نے فرمایاہے کہ سنت ،نبی کریم ﷺ کے ارشادات،آپ کے افعال اور آپ کی تقریرات ہیں۔تقریر کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے یا آپ کے علم میں کوئی کام ہوا ہو،اور آپ نے اس کو منع نہ فرمایا ہو۔ یہ بھی سنت ہے۔اس میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ آپ کے تروک بھی سنت ہیں، کیونکہ ترک کوئی حکم شرعی نہیں ہے۔اور تشریع میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاہے کہ:
اذاأمر تکم بامر فائتوا منہ مااستطعتم واذا نھیتکم من شئی فاجتنبوہ۔
یعنی جب میں کسی بات کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے بقدر اسے کرو اور جب کسی بات سے منع کروں تواس سے اجتناب کرو۔
اس میں یہ نہیں فرمایا ہے کہ:
اذا تر کت شیئا فاجتنبوہ۔
جب میں کسی چیز کو چھوڑ دوں ،تو اس سے اجتناب کرو۔
اس سے بھی معلوم ہوا کہ ترک شئی،دلیل منع نہیں اس سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ چیز واجب نہیں تھی،جبھی تو اسے ترک کیا گیا۔
بخاری شریف میں کتاب التہجد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ چاشت کی نماز پڑھتے ہیں،فرمایا نہیں ،پوچھا حضرت عمر؟فرمایا نہیں، پوچھا حضرت ابوبکر؟ فرمایا نہیں، پھر دریافت کیا ،نبی ﷺ ؟ فرمایا، میرا خیال ہے کہ آپ بھی نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے چاشت کی نماز نہیں پڑھی ہے،لیکن اس کی ترغیب دی ہے،تو آپ کے ترک کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ نماز جائز ہے،اگر واجب ہوتی تو آپ تر ک نہ کرتے ۔یہی حال دعا میں ہاتھ اٹھا نے کو کبھی ترک کرنے کا ہے، کہ اس سے معلوم ہواکہ دعا میں ہاتھ نہ اٹھانا بھی جائز ہے،یہ نہیں کہ وہ ممنوع ہو۔
تا ہم اجتماعی طور پر دعا کرنے کا ثبوت حدیث میں موجود ہے ،گو کہ وہ نماز کے ساتھ خاص نہیں ہے لیکن ہے وہ اجتماعی ہی دعا۔
مستدرک حاکم کی روایت ہے،اور امام حاکم نے فرمایا ہے کہ یہ روایت امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے،ایک مشہور مستجاب الدعوات صحابی حضرت حبیب بن مسلمہ مہری فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوا رشاد فرماتے ہوئے سنا،آپ فرمارہے تھے کہ:
لا یجتمع قوم مسلمون ید عو بعضھم ویومن بعضھم الا استجاب اللّٰہ دعا ء ھم ۔
جب کچھ مسلمان جمع ہو کر دعا کرتے ہیں۔ایک دعا کرتا ہے اور دوسرے لوگ آمین کہتے ہیں۔تو اللہ تعالی ان کی دعا قبول کرتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی دعا کی خاص فضیلت واہمیت ہے۔
تنبیہ:
اس حدیث کے متعلق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے کہ حاکم کے مطبوعہ نسخہ میں تصحیح علی شرط مسلم کا ذکر نہیں ہے،یہ کسی مخطوطہ نسخہ سے منقول ہے،چنانچہ یہی تصحیح مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی نے سباحۃ الفکرص: 65 میں امام حاکم سے نقل کی ہے،اور علامہ شوکانی نے تحفۃ الذاکرین ص: ۳۹ میں امام حاکم کا قول نقل کیا ہے،کہ’’صحیح الاسناد‘‘ پس مطبوعہ نسخہ میں تصحیح نہ ملے تو کسی کو شبہ نہیں کرنا چاہئے ۔
نیز شیخ ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ روایت طبرانی کی معجم کبیر میں بھی ہے،اور علامہ نورالدین ہیثمی نے مجمع الز وائد170/10 میں فرمایا ہے کہ:
رجالہ الصحیح غیر ابن لھیعہ وھو حسن الحدیث۔
مولانا عبد الرحمن مبارکپوریؒ کی رائے:
اخیر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرات جو ہر نئی چیز کی طرف تیزی سے پیش قدمی کرتے ہیں،اور قدیم طے شدہ مسائل کے درہم و برہم کرنے میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں،اور جن کو نماز کے بعد دعا کرنے سے کچھ زیادہ وحشت معلوم ہوتی ہے۔یعنی اہل حدیث حضرات ،ان کے ایک مسلمہ عالم و محدث حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارکپوری کا ارشاد نقل کردیاجائے تاکہ وہ لوگ سمجھ لیں کہ ہر چمک والی چیز سونا نہیں ہوتی۔
ترمذی شریف کی کتاب الصلوٰۃ ،باب مایقول اذا سلم کے تحت وہ تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں کہ:
فائدہ :
علماء اہل حدیث نے اس زمانے میں اختلاف کیا ہے(اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے یہ اختلاف موجود نہ تھا۔)کہ امام جب فرض نماز سے فارغ ہوتو کیا اس کے لئے جائز ہے کہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرے، اور مقتدی ہاتھ اٹھاکر آمین کہے؟
بعض لوگ اس کے جواز کے قائل ہیں اور بعض عدم جواز کے ،ان کا خیال یہ ہے کہ یہ عمل بدعت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ سے سند صحیح کے ساتھ ثابت نہیں ہے بلکہ وہ ایک ’’امر محدث‘‘ہے،اور ہر محدث بدعت ہے۔
اور جو لوگ جواز کے قائل ہیں،انھوں نے پانچ حدیثوں سے استدلال کیاہے۔
1ـ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے جو ابھی خاتمہ میں ابن کثیر کے حوالے سے گزری ہے۔
2- جضرت عبداللہ بن زبیر کی حدیث سے ۔دیکھئے حدیث نمبر 51
3-حضرت انس اکی حدیث سے۔ دیکھئے حدیث نمبر53
4-حضرت اسود عامر ی کی حدیث سے ۔
5-حضرت فضل بن عباس کی حدیث سے ۔ دیکھئے حدیث نمبر20
حضرت اسود عامر ی کی روایت مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے متعدد علماء نے ذکر کی ہے، وہ حدیث یہ ہے:
عن الا سود العا مری ابیہ قال: صلیت مع رسول ﷲ ﷺ الفجر فلما سلم انصرف ورفع یدیہ ودعا۔
حضرت اسود عامری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز پڑ ھی،جب آپ نے سلام پھیرا تو دوسری طرف متوجہ ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی ۔
2-ان حضرات نے ان عام احادیث سے بھی استدلال کیا ہے،جو دعا کے اندر ہاتھ اٹھانے کے مسئلہ میں وارد ہیں۔ فرمایا کہ فرض نمازوں کے بعد دعا کرنا مستحب ہے،اور اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نمازوں کے بعد دعا کرنا ثابت ہے ۔اور بلاشبہ ہاتھ اٹھانا آداب دعا میں ہے۔
3-بہت سی دعاؤں میں رسول اللہ ﷺ سے ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔
4-اور یہ کہیں نہیں ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرض نمازوں کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانے سے منع فرمایا ہو، بلکہ ضعیف احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
فرمایا کہ یہ چاروں امور ثابت ہیں ،اور منع کرنا کہیں ثابت نہیں ہے،اس کے بعد فرض نمازوں کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانا بدعت سیئہ تو ہو نہیں سکتا۔بلکہ یہ جائز ہے۔ جو اسے عمل میں لاتا ہے۔ اس پر کوئی تنگی نہیں۔
اس کے بعد مولانا مبارک پوری نے ان چاروں امور کے اثبات پر تفصیلی کلام کیا ہے، اور متعدد حدیثیں ذکر کی ہیں۔وہ حدیثیں ہمارے اس رسالہ میں گزر چکی ہیں۔پھر فرمایا:
5-قائلین جواز نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے،جس میں ایک دیہاتی صحابی کی آمد کاذکر ہے کہ انھوں نے جمعہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! ھلکت الماشیۃ وھلک العیال، ھلک الناس ۔
جانور ہلاک ہوگئے، بچے برباد ہوگئے، لوگ تباہ ہوگئے۔
اس پر رسول اللہ ﷺ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے آپ کے ساتھ صحابہ نے بھی اپنے ہاتھ اٹھائے ،وہ دعا میں مشغول ہوگئے۔یہ روایت بخاری میں ہے۔
یہ ہاتھ اٹھانا اسی طرح ہے، اگرچہ یہ بارش کی دعا میں ہے، لیکن یہ کچھ اسی دعا کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ اسی لئے امام بخاری علیہ الر حمۃ نے کتاب الدعوات میں مطلق دعاء کے وقت ہاتھ اٹھانے کے سلسلے میں اسی حدیث کو دلیل میں پیش کیا ہے۔
میں کہتا ہوں۔ ( یعنی مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری )قول راجح میرے نزدیک یہی ہے کہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا جائز ہے،اگر کوئی کرتا ہے تو انشاء اللہ کچھ حرج نہیں ہے۔ واللّٰہ تعالی أعلم ۔
اللہ تعالی اس خدمت کو قبول فرمائیں ۔اور تمام مسلمانوں کے حق میں اسے نافع بنائیں والحمد ﷲ علی تو فیقہ و صلی ﷲ تعالی وسلم علی سیدنا محمد والہ وصحبہ اجمعین ۔الحمداللّٰہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔

اعجاز احمد اعظمی
25؍ ربیع ا لآخر 1420ھ
٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے