نکاح مسیار:
"مسیار "عربی لفظ "سیر”سے بنا ہوا ہے جس کے معنی چلنے اور ملاقات کے مقصد سے کسی کے پاس جانے کے ہیں۔نکاح کےاس قسم میں عام طور پر بیوی میکے میں رہتی ہے اور شوہر وقتاً فوقتاً اس کے یہاں چلا جاتا ہے اس لئے اس کو نکاح مسیار کہا جاتا ہے ۔
اور موجودہ دور کے اصطلاح کے اعتبار سے نکاح مسیار اسے کہا جاتا ہے جس میں مرد وعورت اپنے بعض حقوق سے دست بردار ہوجاتے ہیں ، مثلاً بیوی نوکری پیشہ ہے یا اسے اپنے والدین یا سابق شوہر کے بچوں کی دیکھ ریکھ کے لئے میکے رہنے کی ضرورت ہے اور معاشی اعتبار سے وہ خوش حال ہے اس لئے وہ نفقہ اور رہائش سے دست بردار ہوجائے ۔
اگر اس نکاح میں دوسرے ارکان و شرائط کی رعایت کی گئی ہو تو عام طور پر علماء اس کے جواز کے قائل ہیں۔ان کے دلائل یہ ہیں:
1-اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَإِنِ ٱمْرَأَةٌ خَافَتْ مِنۢ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًۭا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًۭا ۚ وَٱلصُّلْحُ خَيْرٌ[سورۃ النساء: 128]
اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بیزاری کا اندیشہ ہو تو ان میاں بیوی کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ آپس کے اتفاق سے کسی قسم کی صلح کر لیں اور صلح کر لینا بہتر ہے۔
اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں حضرت عائشہ کہتی ہیں:
ھی المرأۃ تکون عند الرجل لا یستکثر منھا فیرید طلاقھا ویتزوج غیرھا تقول لہ امسکنی ولاتطلقنی ثم تزوج غیری فانت فی حل من النفقۃ علی والقسمۃ لی[صحیح بخاری:5206] وفی روایۃ فلا باس اذا تراضیا[صحیح بخاری:2694] وفی روایۃ و تکون لھا صحبۃ وولد فتکرہ ان یفارقھا فتقول لہ انت فی حل من شانی[صحیح مسلم: 3021]
کوئی شخص کسی وجہ سے اپنی بیوی سے بہت زیادہ ربط ، ضبط نہیں رکھتا ہے اور اسے طلاق دیکر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے ،اور عورت اس سے کہے کہ تم مجھے اپنے ساتھ رہنے دو اور طلاق مت دو البتہ دوسری شادی کر سکتے ہو اور میرا نفقہ اور میری باری معاف ہے اور ایک روایت میں ہے کہ باہمی رضامندی سے نفقہ اور باری وغیرہ معاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور امام مسلم نے نقل کیا ہے کہ کسی عورت نے اس کے ساتھ لمبی عمر گذاری ہو اور اس سے اس کے بچے ہوں لہذا اسے شوہر سے علاحدہ ہونا گوارا نہیں ہے اس لیے وہ کہتی ہے کہ میں تمہیں اپنے حقوق سے بری قرار دیتی ہوں۔
2۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں:
وکان یقسم لکل امرأۃ منھن یومھا ولیلتھا غیر ان سودۃ بنت زمعۃ وھبت یومھا و لیلتھا لعائشۃ زوج النبیﷺ تبتغی بذالک رضا رسول اللہ ﷺ[صحیح بخاری: 2593]
رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک دن اور رات مقرر کر رکھا تھا البتہ حضرت سودہ نے أپ ﷺ کو خوش کرنے کے لیے اپنی باری حضرت عائشہ کے حوالے کر دی تھی۔
3۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
احق ما اوفیتم من الشروط ان توفو بہ ما استحللتم بہ الفروج[صحیح بخاری: 5151، صحیح مسلم: 1418]
وہ شرطیں سب سے زیادہ اس بات کا حق رکھتی ہیں کہ انہیں پورا کیاجائے جن کے ذریعہ تم نے عصمتوں کو حلال کیا ہے۔
4۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
المسلمون علی شروطھم[سنن ابوداؤد 3594]
مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہوں گے۔
5۔ عقود شرعیہ جیسے نکاح وغیرہ میں اصل اباحت ہے لہذا جس عقد میں مطلوبہ شرعی احکام و شرائط پائے جائیں وہ صحیح اور جائز ہوگا جب تک کہ اسے حرام کے لیے ذریعہ اور پل نہ بنا لیا جائے ،جیسے کہ نکاح موقت وغیرہ اور نکاح مسیار کسی حرام کے ارتکاب کا ذریعہ نہیں ہے اور نہ ہی حرام کاری مقصود ہے۔
6۔ اس عقد میں نکاح کی تمام شرطیں موجود ہیں لہذا اس کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اور میاں بیوی میں سے کوئی باہمی رضامندی سے کسی شرط پر اتفاق کر لے اور اپنی مصلحت کے پیش نظر کوئی معاہدہ کر لے تو اس کی وجہ سے عقد نکاح پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا، اور شرعی دائرے میں رہے ہوئے شرط و معاہدہ کی پابندی کرنی چاہیے۔
واضح رہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک جب چاہے اپنے ساقط کردہ حق کا مطالبہ کرسکتا ہے ۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے