سلسله(2)

وصیت اور وراثت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

2-وارث کے لئے وصیت.

بہت سے غیر مسلم ممالک میں اسلام کا نظام میرات نافذ نہیں ہے، ایسے میں شرعی طور پر جس کا جو حق ہے وہ اسے نہیں مل پاتا ہے بلکہ ایک فریق کا حصہ کم ہو جاتا ہے اور دوسرے کا بڑھ جاتا ہے یا سرے سے محروم ہوجاتا ہے۔البتہ ان ممالک میں وارث کے لیے وصیت کے درست ہونے کا قانون موجود ہے اور وراثت کے مقابلے میں وصیت کا زیادہ لحاظ رکھا جاتا ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص اپنے وارثوں کے لیے ان کے شرعی حصے کے بقدر وصیت کر جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اگر
وصیت کا مقصد میراث کے حکم کا نفاذ اور اس کی تائید و تاکید ہے تو وہ یقینا درست بلکہ قابل ستائش ہے،اس لئے جن ملکوں میں اسلام کا قانون میراث نافذ نہیں ہے یا شریعت کے مطابق وراثت تقسیم کرنے میں ملکی قانون رکاوٹ ہے تو وارثوں کے حق کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے مورث کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ  وفات سے پہلے وصیت نامہ تیار کردے جس میں شرعی طریقے کے مطابق وارثوں کو حصہ  دینے کی وصیت کی گئی ہو۔
اس طرح کی وصیت لازم اور واجب ہے ،کیونکہ وارثوں کے حقوق کے تحفظ ہی کے لئے آیت وراثت کے نزول سے پہلے وصیت کو ضروری قرار دیا گیا تھا، اس لئے جس معاشرہ میں بھی وارثوں کو ان کے حق سے محروم رکھاجارہا ہو وہاں وصیت کے ذریعہ اس کے نفاذ کو یقینی  بناناضروری ہوگا،کیونکہ یہ ضابطہ اور اصول ہے کہ ’’واجب کا ذریعہ بھی واجب ہوتاہے‘‘۔
’’ ما کان وسیلۃ الی الواجب فھو واجب’’ (الموسوعۃ الفقھیۃ: 205/9)
علاوہ ازیں مورث کے قبضہ میں موجود مال و جائداد ایک طرح سے امانت ہے، خصوصاً زندگی کے آخری مرحلے میں اس سے وارثوں کاحق متعلق ہوجاتا ہے، اور اسی لئے تہائی سے زیادہ کی وصیت کے لئے وارثوں کی رضامندی درکار ہوتی ہے اور امانت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
’’ان اللہ یأمرکم أن تؤدوا الأمانات الی أھلھا‘‘
’’اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ امانتیں، ان کے اہل کے حوالے کردو‘‘۔(سورۃ النساء:58)
نیزایک حدیث میں ہے :
” مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ”
جو کوئی اپنے وارث کو وراثت میں سے حصہ دینے میں فرار اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت کی وراثت سے اسے محروم کردیں گے۔(ابن ماجه 2703.ضعيف)
اور جس جگہ کے بارے میں معلوم ہے کہ اگر وارثوں کے لیے وصیت نہ کی جائے تو بعض لوگوں کو ان کے حصے سے محروم کر دیا جائے گا یا ان کا حصہ کم کردیا جائے گا تو یہ بھی وارثوں کو میراث سے محروم کرنے کی ایک شکل ہے اور اس حدیث کا مصداق ہے لہذا ایسے ملکوں میں وصیت کرنا واجب ہوگا اور اگر وصیت نہ کرنے کی وجہ سے وارثوں کو نقصان پہنچنے تو گنہگار ہوگا۔
اوراس طرح کی وصیت وارث کے لئے وصیت کی ممانعت سے متعلق حدیثوں کے خلاف نہیں ہوگی بلکہ اس کے مقصد کی تکمیل ہوگی کیونکہ ان روایتوں کا مصداق صرف وہ وصیت ہے جس کے ذریعہ دوسرے وارثوں کی حق تلفی ہورہی ہو۔ایسی وصیت اس کے دائرے میں ہرگز نہیں آئے گی جس کا مقصد تمام وارثوں کو ان کا حق دلاناہوبلکہ جن جگہوں پراسلام کا قانون میراث جاری نہ ہو وہاں اس کے نفاذ کے لئے وصیت ایک بہترین، کم خرچ اور آسان راستہ ہے۔
اورچونکہ اس وصیت کے ذریعہ کسی وارث کی حق تلفی نہیں ہوتی ہے اس لئے ان کی طرف سے اجازت اور رضامندی کی ضرورت نہیں ہے،لیکن یہ اس صورت میں ہے جبکہ اجمالی طورپر شریعت کے مطابق حصہ تقسیم کرنے کی وصیت کی گئی ہے مثلاً وصیت میں مذکور ہوکہ بیٹے کو دو تہائی دے دیاجائے اور بیٹی کو ایک تہائی، لیکن اگرتفصیلی تقسیم ہے کہ بیٹے کے حوالے کھیت کردیاجائے جس کی مالیت دوتہائی کے بقدر ہے اور بیٹی کے حصے میں مکان دے دیاجائے جس کی مالیت ایک تہائی کے بقدر ہے تو اس صورت میں وارثوں کی خوشنودی ضروری ہوگی، چنانچہ علامہ زحیلی لکھتے ہیں:
’’کچھ لوگ وصیت کے ذریعہ، وارثوں کے درمیان ان کے حصے کے بقدر ترکہ کو تقسیم کردیتے ہیں تاکہ بٹوارے کے وقت  ان کے درمیان اختلاف اور نزاع پیدا نہ ہو، اورکرایہ پر لگائے یا باری مقرر کئے بغیر ہر شخص اپنے حصے سے فائدہ اٹھائے، کیا اس طرح کی وصیت لازم ہوگی؟جمہورفقہاء کے نزدیک یہ وصیت وارثوں کے لئے لازم نہیں ہوگی، بلکہ انھیں حق ہے کہ اسے قبول کریں یاردکردیں‘‘۔(الفقہ الاسلامی وأدلتہ: 77535/10ط۔ دارالفکر المعاصر، بیروت)
اس کے برخلاف بعض شافعی اور حنبلی علماء کی رائے ہے کہ مورث کی طرف سے یہ تقسیم صحیح ہے اور وارثوں پر اس کی پابندی لازم ہے، بشرطیکہ تقسیم عدل و انصاف پر مبنی ہے۔
جن ملکوں میں اسلام کا نظام میراث نافذ نہیں ہے وہاں وصیت کے علاوہ ’’ہبہ‘‘کا طریقہ بھی اپنایا جاسکتاہے کہ زندگی ہی میں مال و جائداد کو وارثوں کے درمیان تقسیم کرکے اسے ان کے قبضہ میں دے دیاجائے۔
چونکہ یہ ہبہ ہے اس لئے لڑکا اور لڑکی کے درمیان برابری کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا اور میراث کے ضابطہ کے مطابق لڑکے کو دوہرا اور لڑکی کو اکہرا نہیں دیاجائے گا۔ جمہور اسی کے قائل ہیں۔ اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ:
’’سوّوا بین أولادکم فی العطیۃ‘‘ ’
’تحفہ دینے میں اپنی اولاد کے درمیان برابری کالحاظ رکھو‘‘۔(السنن الکبریٰ للبیہقی: 177/6۔ صحیح بخاری وغیرہ میں ایک قصے کے پس منظر میں روایت کے الفاظ یہ ہیں: فاتقوا اللہ واعدلوا بین أولادکم۔ دیکھئے بخاری کتاب الھبۃ:206/3وصحیح مسلم)
اورامام احمدبن حنبل اور امام محمد کے نزدیک اس میں میراث کے ضابطہ کا خیال رکھاجائے گا،کیونکہ یہ ایک طرح سے میراث کی تقسیم ہے ، اس لئے اس پر میراث کا حکم جاری ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم سے زیادہ عادلانہ اور منصفانہ تقسیم اور کیاہوسکتی ہے ؟ چنانچہ علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
’’ لنا ان اللہ تعالیٰ قسم بینھم فجعل للذکر مثل  حظ الأنثی وأولی ما اقتدی بقسمۃ اللہ‘‘۔
’’ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لڑکے اور لڑکی کے درمیان وراثت کی تقسیم کرتے ہوئے لڑکے کو لڑکی کے حصے کا دوہرا عنایت کیا ہے ، لہٰذا ہبہ کرتے ہوئے بھی اللہ کی تقسیم کی پیرو ی زیادہ بہترہے‘‘۔(المغنی: 259/8ط۔ دارعالم الکتب الریاض)
مولانا محمدتقی عثمانی نے زندگی میں وراثت کی تقسیم کے مسئلے میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے جیساکہ وہ لکھتے ہیں:
’’زندگی میں ہبہ کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کے درمیان مساوات قائم رکھنے کے سلسلہ میں جمہور کی رائے زیادہ قوی اور دلیل کے اعتبار سے راجح ہے ، لیکن خیال ہوتا ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جبکہ عطیہ اور تحفہ دینا مقصود ہو لیکن اگر مقصد اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان مال و جائداد کو تقسیم کرنا ہے تاکہ اس کی وفات کے بعد اس سلسلے میں اختلاف اور نزاع پیدا نہ ہو تو اگرچہ فقہی اصطلاح میں یہ ہبہ ہے، لیکن حقیقت اور مقصد کے اعتبار سے موت سے پہلے ہی وراثت کی تقسیم ہے، لہٰذا اس کے پیش نظراس میں وراثت کا طریقہ اپنانا چاہئے، اس لئے اس صورت میں اگرکوئی امام احمد اور امام محمدبن حسن کی رائے پر عمل کرتے ہوئے وراثت کے ضابطے کے مطابق لڑکے کو دوہرا اور لڑکی کو اکہرا دیتا ہے تو بظاہر اس کی گنجائش ہے، مجھے اس سلسلہ میں صراحتاً کسی فقیہ کا قول نہیں ملا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کے اصول و ضابطے سے خارج نہیں ہے‘‘۔(تکملہ فتح الملھم: 48/2)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے