- بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
وبائی امراض سے متعلق چند اہم مسائل۔
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
وبا کی حقیقت اور وبا سے متعلق شرعی نقطہ نظر :
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض امراض کے چپیٹ میں بہت سے لوگ آجاتے ہیں اور اکثرو بیشتر لوگ اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اسی کو وبائی مرض کہا جاتا ہے ، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے قاضی عیاض کے حوالے سے لکھاہے کہ مرض عام کو وبا کہا جاتا ہے ، بعض لوگوں نے طاعون کو وبا اس لئے کہہ دیا ہے کہ وہ بھی وبا کی ایک صورت ہے لیکن ہر وبا طاعون نہیں ہے۔
(الوباءعموم الأمراض و قد اطلق بعضھم علی الطاعون انہ وباء لأنہ من افرادہ .فتح الباری 133/10.باب الدعاءبرفع الحمی)
اور علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ وباء اور طاعون کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے لہذا ہر طاعون وباءہے لیکن ہر وباءطاعون نہیں ہے ۔
(والتحقیق ان بین الوباء والطاعون عموما و خصوصا فکل طاعون وباء ولیس کل وباء طاعونا . زاد المعاد 38/4)
اور علامہ نووی نے جوہری کے حوالے سے لکھا ہےکہ وباء وہ مرض عام ہے جس سے عام طور پر لوگ مر جاتے ہوں ۔
(الوباء مرض عام یفضی الی الموت غالبا ۔ المنھاج 13/187۔حدیث رقم 2014اور حدیث رقم 2218 کی شرح میں لکھتے ہیں :والصحیح الذی قالہ المحققون انہ مرض الکثیرین من الناس فی جہۃمن الارض دون سائر الجہات ویکون مخالفا للمعتاد من الامراض فی الکثرۃ وغیرھا و یکون مرضھم نوعا واحدا بخلاف سائرالاوقات فان امراضھم فیھا مختلفۃ ۔ المنھاج 14/204)
وباء کیوں پھوٹ پڑتی ہے ؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہوا کی خرابی اور آلودگی کی وجہ سے جراثیم پیداہوتے اور بڑھتے ہیں اور جس کا نتیجہ وباء کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے گویا کہ آب وہوا کی خرابی اور آلودگی وباء کا سبب ہے ۔
(قال ابن سیناء: الوباء ینشا عن فسادجوہرالھواء الذی ہو مادۃ الروح و مددہ۔ فتح الباری 10/133)
وباء اور عمومی امراض کے کچھ ظاہر ی اسباب ہو سکتے ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے ، لیکن حقیقت شناس جانتے ہیں کہ مصائب وآلام اور وباء و بلا کی حقیقی وجہ خود انسان کا اپنا کرتوت ہے ، چنانچہ خالق کائنات کا اعلان ہے :
*ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون (سورۃ الروم: 41)
لوگوں نےاپنے ہاتھوں جو کمائی کی اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا تاکہ انھوں نے جو کام کیے ہیں اللہ تعالی ان میں سےکچھ کا مزہ انھیں چکھائے ، شاید وہ باز آجائیں ۔
"آیت کریمہ سبق دے رہی ہے کہ عام مصیبتوں کے وقت- چاہے ظاہری اسباب کے ماتحت وجود میں آئی ہوں -اپنے گناہوں پر استغفار اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے "(آسان ترجمہ قرآن ،مولانا محمد تقی عثمانی )
*ومااصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیر (سورۃالشوری : 30)
اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہونچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگذرہی کرتا ہے۔
*وضرب اللہ مثلا قریۃ کانت آمنۃ مطمئنۃ یاتیھا رزقھا رغدا من کل مکان فکفرت بانعم اللہ فاذاقھا اللہ لباس الجوع والخوف بماکانوا یصنعون(سورۃ النحل: 112)
اللہ ایک ایسی بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پرامن اور مطمئن تھی اس کا رزق اس کو ہر جگہ سے بڑی فراوانی کے ساتھ پہونچ رہا تھا پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تعالی نے ان کے کرتوت کی وجہ سے ان کو یہ مزہ چکھایاکہ بھوک اور خو ف ان کا پہننا اور اوڑھنا بن گیا ۔
لیکن یہ کوئی ضروری نہیں ہےکہ ہر مصیبت کی وجہ کوئی معصیت ہو بلکہ کبھی بطور آزمائش بھی مومن کو خلاف طبیعت امور سے دوچار ہونا پڑتاہے ، رب کائنات کا ارشادہے :
ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والأنفس والثمرات وبشرالصابرین (سورۃالبقرۃ : 155)
اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور ،(کبھی ) خوف سے اور(کبھی )بھوک سے ، (کبھی ) مال وجان اور پھلوں میں کمی کرکے اور جو لوگ ایسے حالات میں صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنادو ۔
اس لیے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ زندگی کی گاڑی کس ڈگر پر چل رہی ہے ، معصیت کی پکڈنڈیوں پر یا عبادت واطاعت کی شاہراہ پر ؟اور اسی کے اعتبار سے طے کرنا ہوگا کہ پیش آمدہ مصیبت عذاب ہے یا آزمائش ؟
اس وقت پوری دنیامیں بے حیائی اور فحاشی کا دور دورہ ہے اور ننگا پن، بےلباسی اور برہنہ گفتاری فیشن اور ترقی کی علامت ہے، اور اس معاملے میں امت مسلمہ کا مجموعی حال بھی بہت اچھا نہیں ہے اور جس قوم میں بے حیائی عام ہوتی ہے اسے عمومی امراض میں مبتلا کردیا جاتاہے ، رسول اللہ ﷺ,کا ارشادہےـ:
لم تظھر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعلنوا بھا الا فشا فیھم الطاعون والاوجاع التی لم تکن فی اسلافھم الذین مضوا۔(سنن ابن ماجہ: 4019.حدیث حسن ہے )
جس قوم میں فحاشی عام ہوجاتی ہے اور وہ کھلے عام بدکاری کا ارتکاب کرتی ہے تو اس میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو پہلے کبھی نہیں تھیں ۔
اسی طرح ظلم وجور کی تمام شکلیں اپنی انتہا کو پہونچی ہوئی ہیں۔ اور وہ ہاتھ نہیں رہا جو ظالم کے پنجے کو موڑ سکے ۔ وہ نڈر اور بے باک زبان نہیں رہی جو ظالم کو ٹوک سکے بلکہ وہ دل بھی بڑاکمیاب ہے جو ظلم کو برا سمھجے ، اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
ان الناس اذاراو الظالم فلم یاخذوا علی یدیہ اوشک ان یعمھم بعقاب منہ ۔(جامع ترمذی: 2168۔ حدیث صحیح ہے )
جب لوگ ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اس کے ہاتھ کو نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالی سب کو عمومی سزا سے دوچار کردے۔
اس کے علاوہ کون سا ایسا جرم ہے جسے دھڑلے سے اس دھرتی پر انجام نہ دیاجارہا ہو ان حالات میں اگر آسمان سے پتھر برسے اور زمین آگ اگلنے لگے تو بھی بہت کم ہے۔
وباءسے حفاظت کے طریقے:
وباءسے حفاظت کا سب سے اہم اورمفید طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک سے اپنےتعلق کو استوار اور مضبوط کرے، گناہوں سے توبہ اور کثرت سے استغفار کرتا رہے اور بہتر ہے کہ دورکعت صلاۃ حاجت پڑھ کر وباءکو ختم کرنے کی دعا مانگے ، اللہ عزوجل کا ارشادہے:
یا ایھاالذین آمنوا استعینوا بالصبر والصلاۃ ان اللہ مع الصابرین(سورۃ البقرہ: 153)
اے ایمان والو!صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو ، بیشک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں ۔
اس لیے کہ نماز سب سے مضبوط پناہ گاہ ہے ، اور یہی وہ قلعہ ہے جہاں پہونچ کر مومن ہر قسم کی مصیبت اور دکھ درد سے بے خوف ہو جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرمﷺکے سامنے جب کوئی مشکل مرحلہ آتا تو فورا نماز کی طرف متوجہ ہوتے، حضرت حذیفہ نقل کرتے ہیں:
اذاحزبہ امر صلی ( سنن ابوداؤد 1319: حدیث حسن )
رسول اللہ ﷺ کوجب کوئی پریشانی درپیش ہوتی تو نماز پڑھتے ۔
اور حضرت ابودرداءکہتے ہیں :
اذاکانت لیلۃ ریح شدیدۃ کان مفزعہ الی المسجد حتی تسکن الریح .
(مجمع الزوائد 2/214 ۔سند حسن ہے ، اعلاءالسنن 8/146)
جب کبھی رات میں تیز ہو ا چلنے لگتی تو آنحضرت ﷺ گھبرا کر مسجد کا رخ کرتے اور جب تک ہوا رک نہ جاتی وہیں ٹھہرے رہتے۔
اور وبائی یا متعدی امراض کے سلسلے میں شریعت نے جوظاہری تدبیریں بتائی ہیں ان پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کرے ، مثلا حدیث مین کہا گیا ہے کہ اس طرح کے امراض کے حامل شخص کے ساتھ میل جول نہ رکھا جائے اور اس سے دور رہنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اختلاط کی وجہ سے مرض کے متعدی ہونے کا خطرہ ہے ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشادہے :
*لا توردوا الممرض علی المصح (صحیح بخاری: 5774)
جس کے اونٹ بیمار ہوں وہ ان کو پانی پلانے کے لیے اس گھاٹ پر نہ لے جائے جہاں تندرست اونٹ پانی پیتے ہیں ۔
*وفر من المجذوم کما تفر من الاسد ّ۔(صحیح بخاری : 5707)
کوڑھی سے اس طرح بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو ۔
نیز اللہ کے رسول ﷺ نے برتن کو ڈھانک کر رکھنے کا حکم دیا ہے کہ کھلے رہنے کی وجہ سے اس میں وباء کے داخل ہونے کا خطرہ ہے ، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نےفرمایا :
غطوالاناء و اوکواالسقاءفان فی السنۃ لیلۃ ینزل فیھا وباء لا یمر باناء لیس علیہ غطاء او سقاء لیس علیہ وکاء الا نزل فیہ من ذالک الوباء (صحیح مسلم: 2014)
برتنوں کو ڈھانک دو اور مشکیزہ کا منہ باندھ دو کیونکہ سال میں ایک مرتبہ وباء آتی ہے اور جس برتن پر ڈھکن اور جس مشکیزہ پر بندھن نہیں ہوتاہے اس میں وہ داخل ہو جاتی ہے ۔
حکومت کی طرف سے مقرر کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل:
وبائی امراض کے دور میں کسی بھی حکومت کی طرف سے کوئی احتیاطی تدبیر اپنائی جاتی ہے اور عوام کو اس کا پابند بنایا جاتا ہے تو ممکن حد تک شرعی دائرے میں رہتے ہوۓ اس پر عمل کرنا ضروری ہے مثلا کرونا کی وجہ سے اگر ماسک پہننے یا نقل و حرکت سے منع کیا جاتاہے تو اس پر عمل کیاجانا چاہیے ، طاعون کے سلسلے میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :
اذاسمعتم بالطاعون بارض فلا تدخلوھا واذاوقع بارض وانتم بھا فلاتخرجوامنھا (صحیح بخاری: 5728)
جب تم زمین کے کسی حصے میں طاعون پھوٹ پڑنے کے بارے میں سنو تو وہاں مت جاؤ،اور اگر کسی جگہ طاعون پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہوتو وہاں سے نہ نکلو۔
طاعون زدہ علاقے میں جانے کی ممانعت کی حکمت سلسلے میں علامہ ابن قیم کہتے ہیں :
جن علاقوں میں بیماری پھیلی ہوئی ہے وہاں جانا اپنے آپ کو ہلاکت کے لیے پیش کرناہے ، ایسی جگہ جانا ہے جہاں موت منھ کھولے کھڑی ہے ، اس علاقے میں جانا اپنے خلاف موت کی مدد کرنا اورخود کشی کے مترادف ہے اور عقل کے اعتبار سے نادرست اور شریعت کے خلاف ہے۔۔۔اور وہاں سےنکلنے کی ممانعت کی دو وجہ ہو سکتی ہے ایک یہ کہ مشکلات میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ساتھ رہ کر اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتاہے ،وہ اللہ پر بھروسہ کرتاہے اور اس کے فیصلے پر راضی رہتاہے ، دوسری وجہ یہ کہ ہر وہ شخص جو وباء سے بچنا چاہتاہے اسے اپنے بدن سے فاسد رطوبت کو نکالنے کی کوشش کرنا چاہیے ، اور اس کے لیے اسے سکون وآرام کی ضرورت ہے، اور وہاں سے نکلنا اور دور دراز مقام کا سفر کرنا بہت زیادہ حرکات کا متقاضی ہے جو مذکورہ اصول کی روشنی میں سخت نقصان دہ ہوگا ۔ (الطب النبوی باختصار /34)
اور امام غزالی لکھتے ہیں :
ہوا جسم کے ظاہر ی حصے سے لگتے ہی نقصان نہیں پہونچاتی ہے بلکہ اس وقت ضرر رساں ہوتی ہے جب کہ سانس کے ذریعہ بار بار جسم کے اندر پہونچے ۔ اگر ہوا میں عفونت ہے اور سانس کے ذریعہ دل پھیپھڑا اور آنت میں پہونچ کر اثر انداز ہو جائے پھر بھی اس کا اثر ظاہر نہیں ہوگا مگر یہ کہ اندرونی حصے میں دیر تک رہے ، لہذا کسی شہر سے نکلنا اکثر اس اثر سے خالی نہیں ہوگا جو کہ اس کے اندرونی حصے میں جڑ پکڑ چکاہے (احیاء علوم الدین 291/4)
حاصل یہ ہے کہ ایک شخص بسا اوقت وبائی جراثیم کا حامل ہوتا ہے مگر اس پر مرض کے اثرات ظاہر نہیں ہوتےاور اس کے ذریعہ وہ دوسروں تک منتقل ہو جاتے ہیں اس لیے تندرست لوگوں کو اس جگہ سے جانے کی اجازت دی جائے تو وہ مرض کو پھیلاتے پھریں گے اور ہر جگہ خوف ہراس کی فضاء بن جائے گی ۔
اور ممانعت کی ایک وجہ خود حدیث میں مذکور ہے :
الفار من الطاعون کالفار من الزحف (مسند احمد 24527: )
طاعون سے بھاگنا اور میدان جنگ سے فرار اختیار کرنا یکساں ہے.
اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں موقعوں پر وہاں رہ جانے والوں کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے اور قوت مدافعت کمزور پڑجاتی ہے حدیث کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر عمل کرنا ضروری ہے اور اکثر علماء اسی کے قائل ہیں
(عون المعبود 369:/8،فتح الباری 10:231)
مرض کا متعدی ہونا:
قدیم زمانے سے بعض امراض کے متعدی ہونے کا تصور چلا آرہاہے ، اور یہ ایک حقیقت بھی ہے ، اور اسلام کسی حقیقت کا انکار نہیں کرتا ہے، چنانچہ متعدد حدیثوں میں مرض کے متعدی ہونے کا ذکر موجود ہے ، جن میں سے بعض روایتیں گذرچکی ہیں ، نیز ایک حدیث میں ہے :
کان فی وفد بنی ثقیف رجل مجذوم فارسل الی النبی ﷺ انا قد بایعناک فارجع (صحیح مسلم: 2231)
بنو ثقیف کے وفد میں جذام میں مبتلا ایک شخص تھا ، نبی ﷺ نے اس کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم نے تم سے بیعت کرلی ہے اس لیے تم واپس جاؤ .
اور حضر ت علی سے روایت ہے کہ نبی ﷺؑ نےفرمایا :
لاتدیموا النظر الی المجذومین واذا کلمتموھم فلیکن بینکم وبینھم قید رمح۔ (مسند احمد 581:،سنن ابن ماجہ 3543:)
کوڑھ کے مرض میں مبتلا شخص کی طرف مسلسل نہ دیکھو اور اس سے ایک نیزے کے فاصلے سے گفتگو کرو۔
اور بعض حدیثوں میں جو یہ کہا گیا ہے کہ بیماری متعدی نہیں ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بیماری میں خود سے متعدی ہونے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس کا پھیلاؤ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے اللہ چاہے تو مرض متعدی ہوگا ورنہ نہیں چنانچہ یہ دیکھنے میں آتاہے کہ ایک شخص مسلسل کسی بیمار کے ساتھ رہ رہا ہے اور اس کی دیکھ ریکھ میں مشغول ہے لیکن اسے وہ بیماری لاحق نہیں ہوتی اور دوسرا تھوڑی دیرکے لیے اس کے پاس آتاہے اور مرض اپنے ساتھ لے جاتاہے۔
مشرکوں کا عقیدہ تھا کہ بیماری میں خود سے متعدی ہونے کی صلاحیت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اسی بداعتقادی کی تردید کرتے ہویے فرمایا کی بیماری متعدی نہیں ہوتی ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے :
قال النبی ﷺ لا عدوی ولا صفر ولا ھامۃ فقا ل اعرابی یا رسول اللہ فما بال الابل تکون فی الرمل کانھا الظباء فیخالطھا البعیر الاجرب فیجربھا فقال رسول اللہﷺ فمن اعدی الاول؟ (صحیح بخاری: 577صحیح مسلم: 2220)
نبی ﷺ نے فرما یا مرض متعدی نہیں ہوتا ، نہ پیٹ کا کیڑا پھیلتا ہے اور نہ الو میں نحوست ہے، ایک دیہاتی نے کہا : اللہ کے رسول ! اونٹ صحرامیں ہرن کی طرح بالکل صاف اور چست ہوتا ہے لیکن کسی خارشتی اونٹ کے ساتھ رہ جاتاہے تو وہ بھی خارش زدہ ہو جاتا ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پہلے اونٹ کو مرض کس سے لگا ہے ؟
امام نووی مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
المراد بہ نفی ما کانت الجاھلیۃ تزعمہ ان المرض والعاھۃ تعدی بطبعھا لا بفعل اللہ تعالیٰ۔(المنھاج للنووی حدیث رقم :2220)
مذکورہ حدیث کا مقصد زمانہ جاہلیت کے اس گمان کی تردید ہے کہ مرض وآفت بذات خود متعدی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے .
اور حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ جاہلی دور کے لوگوں کا عقیدہ تھاکہ مرض میں خود منتقل ہونےکی صلاحیت ہے اور یہ اس کی ایک لازمی اور طبعی خاصیت ہے اس لیےوہ ضرور متعدی ہوگا ، رسول اللہ ﷺ نے اس کی تردید فرمائی کہ مرض میں خود سے متعدی ہونے کی صلاحیت نہیں ہے (فتح الباری 10:/161)بلکہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے ، عملی طور پر اس بد عقیدگی کو ختم کرنے کے لیے ایک جذامی کے ساتھ کھانا تناول فرمایا چنانچہ حضرت جابر ؓ سے منقول ہے :
ان رسول اللہ ﷺ اخذ بید المجذوم فوضعھا معہ فی القصعۃ وقال: کل ثقۃ باللہ وتوکلا علیہ
(سنن ابودؤد 3925:،جامع ترمذی 1817:وغیرہ )
رسول اللہ ﷺ نے ایک جذامی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے پیالے میں رکھ دیا اور فرمایا اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کرکے کھاؤ ۔
کہ مرض وشفاءاسی کے دست قدرت میں ہے البتہ اسباب کے درجہ میں بعض بیماریاں متعدی ہوسکتی ہیں اس لیے فرمایا کہ جذامی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو ۔
علاج اور احتیاطی تدبیر توکل کے خلاف نہیں:
دوا اور پرہیز توکل کے خلاف نہیں بلکہ عین توکل ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس دنیاوی زندگی میں فائدہ حاصل کرنے اور نقصان سے بچنے کے لیے اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے توکل یہ ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے مگر بھروسہ اللہ کی ذات پر رہے کہ وہ چاہے گاتو سبب میں اثر ہوگا ورنہ نہیں ۔چنانچہ حضرت اسامہ بن شریک کہتے ہیں :
قالت الاعراب : یا رسول اللہ !الا نتداوٰی ؟قال نعم یا عباد اللہ تداووا فان اللہ لم یضع داءالا وضع لہ شفاء
(جامع ترمذی 2038:، سنن ابوداؤد 3855وغیرہ )
دیہاتیوں نے کہا:اللہ کے رسول!کیا ہم علاج کریں ؟ آپﷺ نے فرمایا :اللہ کے بندو!ہاں ، علاج کرو،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری پیداکی ہے اس میں سے ہر ایک کا علاج بھی پیدا فر مایا ہے ۔
اورحضرت ہلال بن یساف نقل کرتے ہیں :
دخل رسول اللہ ﷺ علی مریض یعودہ فقال ارسلوا الی طبیب فقال قائل وانت تقول ذالک یا رسول اللہ ؟قال نعم ان اللہ عزوجل لم ینزل داء الا انزل لہ دواء ّ(زادالمعاد 133/4)
رسول اللہ ﷺ کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اسے دیکھ کر فرمایا : طبیب کو بلاؤ،ایک شخص نےکہا: اللہ کے رسول !آپ ایسا کہ رہے ہیں ؟آپ نے فرمایا :ہاں ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے بیماری کے ساتھ اس کا علاج بھی پیدا فرمایا ہے ۔
اورحضرت ابوخزامہ نے دریافت کیا :
یا رسول اللہ ارایت رقی نسترقیھا ودواء نتداوی بھا وتقاۃ نتقیھا ھل ترد من قدر اللہ شیئا قال ھی من قدراللہ ( جامع ترمذی 2065:،سنن ابن ماجہ 3437:،مسند احمد15742:)
اللہ کےرسو ل ﷺ ! جھاڑ پھونک ،دوا اور احتیاط وپرہیز کے سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ کیا یہ چیزیں تقدیر کو لوٹا سکتی ہیں ؟ فرمایا یہ بھی اللہ کی تقدیر میں سے ہے ۔
علامہ ابن قیم ان احادیث کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
صحیح حدیثوں میں دوا اور علاج کا حکم ہے اور یہ توکل کےخلاف نہیں جیسے کہ بھوک ، پیاس کو مٹانے اور سردی گرمی سے بچنے کے لیے تدبیر توکل کے منافی نہیں ہے ،بلکہ حقیقت توحید یہی ہے کہ بندہ ان اسباب کو اختیار کرے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ان اسباب کو چھوڑنے کی وجہ سے نہ صرف توکل کی حقیقت مجروح ہوگی بلکہ حکمت خداوندی کی توہین بھی ہوگی ۔
اور اس سے ان لوگوں کی بات کمزور ثابت ہوتی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اسباب کو نہ اختیار کرنا توکل کی اعلیٰ قسم ہے ، کیونکہ توکل کی حقیقت دینی اور دنیوی معاملات میں اللہ پر اعتماد ہے ، اور یہ اعتماد اسباب کو اختیار کرکے ہی ہوگا ورنہ شریعت اور حکمت کو معطل کرنا لازم آئیگا ،لہذا کوئی اپنی عاجزی اورکمزوری کو توکل اور توکل کو عاجزی نہ سمجھ بیٹھے (زادالمعاد 4:/15)
وبائی امراض کے دور میں گھروں میں نماز:
مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی اہمیت محتاج بیان نہیں ، اور اسی طرح سے ترک جماعت کی سخت وعیدوں سے بھی لوگ اچھی طرح سے واقف ہیں، اسی کے ساتھ یہ بھی معلوم ہے کہ شریعت نے معذوروی اور مجبوری کی حالت میں آسانی فراہم کرتے ہوئے رخصت اور گنجائش بھی رکھی ہے ، چنانچہ نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ٹھنڈک کی رات میں جب کہ سرد ہوا چل رہی تھی نماز فجر کے لیے اذان دی اور پھر کہا :
لوگو !سنو اپنے اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو اور اس کے بعد کہا :
ان رسول اللہ ﷺ کان یامر الموذن اذاکانت لیلۃ ذات برد ومطر یقول : الا صلوا فی الرحال۔ (صحیح بخاری: 666 صحیح مسلم: 697)
رسول اللہ ﷺ ٹھنڈک اور بارش کی رات میں موذن کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ کہے :اے لوگو !اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو.
اور حضر ت جابر بیان کرتے ہیں :
خرجنا مع رسول اللہ ﷺ فی سفر فمطرنا فقال لیصل من شاء منکم فی رحلہ ّ(صحیح مسلم: 698)
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہم ایک سفر میں تھے کہ بارش ہو گئ تو آپ نے فرمایا : تم میں سے جو چاہے وہ اپنے خیمے میں نماز پڑھ لے ۔
اس لیے عام حالات میں گھروں میں جماعت کرنے یا تنہا نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی لیکن وبائی امراض کے دور میں اس کی گنجائش ہوگی بشرطیکہ اختلاط کی وجہ سے مرض کے پھیلنے کا ظن غالب ہو یا حکومت کی طر ف سے پابندی ہو ، کیونکہ متعدی امراض کو پھیلنے سے روکنے کےلیے بطوراحتیاط کسی کو مسجد میں آنے سے منع کرنا جائز ہے اور اس کی وجہ سے ترک جماعت کی اجازت ہے ۔
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں :
ان عمر بن الخطاب مر بامرأۃ مجذومۃ وھی تطوف بالبیت فقال لھا یا امۃ اللہ لا توذی الناس لو جلست فی بیتک فجلست فمر بھا رجل بعد ذالک فقال لھا ان الذی قد نھاک قد مات فاخرجی فقالت ما کنت لاطیعہ حیا و اعصیہ میتا ۔( موطا امام مالک: 1275 کتاب الحج ، جامع الحج )
حضرت عمر ؓ نے ایک جذامی عورت کودیکھا کہ وہ کعبہ کا طواف کررہی ہے تو اس سے کہا : اللہ کی بندی ! لوگوں کو ایذا مت دو ، کاش کہ تم اپنے گھر میں رہتی ، کچھ دنوں کے بعد ایک آدمی اس کے پاس آیا اور کہا کہ جس شخص نے تم کو طواف سے منع کیا تھا وہ دنیا سے جا چکا ہے اس لیے اب جاؤ اور طواف کرو، اس خاتون نے کہا کہ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ زندگی میں ایک شخص کی بات مانوں اور اس کی وفات کے بعد اس کی نافرمانی کروں ۔
اور موسوعہ فقہیہ میں ہے :
ومثل ذالک من کان بہ مرض یتاذی بہ الناس کجذام وبرص ففی کل ذالک یباح التخلف عن الجماعۃ
(الموسوعۃ 27:/190)
تکرار جماعت:
تکرار جماعت یا تعدد جمعہ عمومی حالات میں مکروہ ہے اور مخصوص حالت میں دونوں کی اجازت ہے ، چنانچہ فقہاء نے سڑک کے کنارے موجود مسجد میں تکرار جماعت کی اجازت دی ہے کیو نکہ اس میں دوسری جماعت کی کراہت وجہ نہیں پائی جاتی یعنی تکرار جماعت اس لیے مکروہ ہے کہ اس سے پہلی جماعت میں لوگوں کی تعداد کم ہوگی اور وہ سستی وکاہلی کی وجہ سے دوسری جماعت میں شریک ہوناچاہیں گے۔
(وان کان المسجد علی قارعٓۃ الطریق لیس لھم قوم معینین فلا باس بتکرار الجماعۃ فیہ لان تکرارالجماعۃ فی ھذاالفصل لا یودی الی تقلیل الجماعۃ ۔ المحیط البرحانی 351/1۔ ولان التکرار یودی الی تقلیل الجماعۃ ۔ البدائع 153/1)
اس لئے راستے کی مسجد کے علاوہ بھی تکرار جماعت کی بعض ایسی صورتوں کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے جس سے پہلی جماعت کے متاثر ہونے کا اندیشہ نہ ہو ، چنانچہ محیط برہانی میں ہے کہ پہلی جماعت ہو جانے کے بعد دو ایک لوگوں کے ساتھ جماعت کر لی جائے تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہے کیوں کی اس میں تقلیل جماعت نہیں ہے ۔
(روی عن ابی یوسف فی الفصل الاول انہ قال انما یکرہ تکرار الجماعۃ اذاکان القوم کثیرا ، اما اذا صلی واحد بواحد او باثنین بعد ما صلی فیہ اھلہ فلا باس لماروی ان رسول اللہ ﷺ صلی باصحابہ فدخل اعرابی وقام یصلی فقال علیہ السلام من یتصدق علی ھذا فیقوم ویصلی معہ فقام ابو بکر وصلی معہ وروی عن محمد انہ لم یری بالتکرار باسا اذا صلو فی زاویۃ من المسجد علی سبیل الخفیۃ وانما یکرہ علی سبیل التداعی والاجتماع. المحیط البرھانی 1:/351)
اور امام شافعی نے تکرار جماعت کی ممانعت کی وجہ باہمی انتشار و اختلاف کو قرار دیا ہے کہ اس کی وجہ سے اسلامی وحدت اور یکجہتی کو ٹھیس پہونچے گی ، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ دوسری جماعت کو اس وجہ سے مکروہ سمجھتاہوں کہ سلف سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے ، بلکہ بعض سلف نے اس پر نکیر کی ہے اور جن لوگوں نے اسے مکروہ سمجھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں انتشار برپا ہوگا ، اور کسی شخص کو امام سے معمولی اختلاف ہوگا اور وہ اس کے پیچھے نماز پڑھنا پسند نہیں کریگا تو وہ اور اس جیسے دوسرے لوگ پہلی جماعت کے وقت مسجد سے دور رہیں گے اور نماز ہوتے ہی وہ مسجد میں داخل ہوکر اپنی جماعت کریں گے اور اس طرح سے اتحاد باقی نہیں رہےگا ۔
(وانما کرھت ذالک لھم لانہ لیس مما سلف قبلنا بل قد عابہ بعضھم واحسب کراھیۃ من کرہ ذالک منھم انما کان لتفرق الکلمۃ وان یرغب رجل عن الصلاۃ خلف امام الجماعۃ فیتخلف ھم ومن اراد عن المسجد فی وقت الصلاۃ فاذاقضیت دخلوا فجمعوا فیکون بھذا اختلاف وتفرق الکلمۃ ۔ ( کتاب الام 1:/136)
لاک ڈاون اور زیادہ تعداد کی شرکت کی ممانعت کی وجہ سے دوسری جماعت میں مذکورہ دونوں علتیں نہیں پائی جارہی ہیں اس لیے تکرار جماعت اور تعدد جمعہ کی اجازت ہوگی کہ ہر مسلمان کا حق ہے کہ وہ مسجد میں آکر نماز پڑھے مگر وبائی امراض کے پھیلنے کے خدشے اور حکومتی پابندی کی وجہ سے وہ پہلی جماعت میں شریک ہو کر اپنا حق حاصل نہیں کر پارہا ہے اس لیے اسے دوسری جماعت کی اجازت ہوگی ، چنانچہ فقہاء نےلکھا ہے کہ اگر محلے کے کچھ لوگ آہستہ سے اذان دیکر نماز پڑھ لیں اور پھر محلے کے دوسر ےلوگوں کو اس کے بارے میں معلوم ہو تو وہ لوگ جماعت سے نماز پڑ ھ سکتے ہیں کیونکہ پہلی جماعت میں بلند آواز سے اذان اور پھر سنت چھوڑدی گئ ہے اس لیے دوسرےلوگوں کاحق باطل نہ ہوگا۔
حاصل یہ ہے کہ کرونا کے زمانے میں تکرار جماعت اور متعدد بار جمعہ پڑھنے کی اجازت ہوگی اور مسجد میں آکر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا گھروں میں جماعت کے ساتھ یا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے تاکہ مسجد سے تعلق برقرار رہے اورجماعت کی اہمیت اور جماعت میں شرکت کا اہتما م باقی رہے اور مسجد جانے کی عادت میں خلل واقع نہ ہو ۔
گھروں میں نماز جمعہ کی ادائیگی:
جہاں تک ہو سکے جمعہ کی نماز مسجد ہی میں پڑھنی چاہئے گرچہ متعدد بار جماعت کرنی پڑے، گھر میں جمعہ پڑھنے کے مقابلے میں جمعہ کی تکرار جماعت کو گوارا کیا جاسکتاہے ، اس لیے کہ مالکیہ وغیرہ کے نزدیک جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد شرط ہے ۔
(الفصل الثانی فی شروط صحتھاوھی العشرۃ التی لسائرالصلوات وتزید اربعۃ الامام والجماعۃ والمسجد وموضع استیطان …ولاتجوز علی سطح المسجد ولا فی المواضع المحجورۃ کالدور والحوانیت علی المشھور.
القوانین الفقہیۃ/ 175)
دوسر ے یہ کہ جمعہ کا ایک اہم مقصد اجتماعیت ہے ، مسجد میں جمعہ پڑھنے کی صورت میں گرچہ تکرار جماعت کےساتھ ہو کچھ حد تک یہ مقصد حاصل ہو جاتاہے ۔
البتہ اگر مسجد میں تکرار جماعت کے ساتھ بھی پڑھنے کی گنجائش نہ ہو تو گھر پہ ظہر پڑھنے کے بجائے جمعہ پڑھنا افضل ہے بشرطیکہ جمعہ کی جماعت کے لیے مطلوبہ تعداد اور قیام جمعہ کی دوسری شرطیں موجود ہوں کیونکہ حنفیہ کے نزدیک جمعہ کی ادائیگی کےلیے مسجد شرط نہیں ہے بلکہ دیگر جگہوں اور گھروں میں جمعہ درست ہے نیز کسی شہر میں متعدد جمعہ کی بھی اجازت ہے ۔
(وتودی فی مصر واحد بمواضع کثیرۃمطلقا ای سواءکان المصر کبیرا اولا …وسواءکان التعدد فی مسجدین اواکثر . ردالمحتار 3:/15)
بعض لوگوں نے جمعہ کے صحیح ہونے کے لئے عمومی اجازت (اذن عام )کی شرط لگائی ہے جس کا حاصل یہ ہیکہ وہ ایسی جگہ ہو کہ وہاں کسی کو نماز پڑھنے سے نہ روکاجائے ، لیکن اگر کسی انتظامی ضرورت کی وجہ سے دروازہ بند کیا جاتاہے تو وہ اذن عام کےخلاف نہیں ہے چنانچہ فقہاءنے لکھا ہے کہ اگر دشمن سے حفاظت کے مقصد سے قلعہ کے دروازےکو بند کیاجاتا ہےیا زمانہ قدیم سے اسے بند رکھنے کا رواج ہے تووہ اذن عام کےخلاف نہیں کیونکہ دروازہ دشمن کی حفاظت کے لیے بند کیا گیا ہے کسی نمازی کو روکنےکےلیے نہیں ۔
(السابع الاذن العام من الامام وھو یحصل بفتح ابواب الجامع للواردین فلا یضر غلق باب القلعۃلعدو او عادۃقدیمۃ لان الاذن العام مقرر لاھلہ وغلقہ لمنع العدو ولا للمصلی (ردالمحتار 25/3)
اور حضرت تھانوی ؒلکھتے ہیں :
اذن عام ہونا بھی منجملہ شرائط صحت جمعہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ خود نماز پڑھنے والے کو روکنا وہاں مقصود نہ ہو ، اگر روک ٹوک کسی اور ضروت سے ہو وہ اذن عام میں مخل نہیں ہے (امدادالفتاویٰ 2/785۔ط زکریا)
لہذا اگر حکومتی ہدایات کی وجہ سے کسی گھر میں پانچ سے زیادہ لوگوں کوجمع ہونےسے روکا جائے تو وہ اذن عام کے خلاف نہیں ہے ۔
جمعہ کے دن باجماعت ظہر کی ادائیگی :
جمعہ کی شرطوں کے نہ پائے جانے کی صورت میں گھرپہ ظہر کی نماز باجماعت پڑھی جاسکتی ہے ، کیونکہ فقہاء نے جمعہ کےدن ظہر کی کراہت کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس سے لوگ جمعہ کے لیے جانے مین سستی کریں گے اور اس طرح سے جماعت میں لوگوں کی تعداد کم ہوگی ، نیز یہ ایک طرح سے جمعہ کی جماعت کے ساتھ معارضہ ہے ۔
(وکرہ تحریما لمعذورومسجون ومسافر اداء ظہر بجماعۃ فی مصر قبل الجمعۃ وبعدھالتقلیل الجماعۃ وصورۃ المعارضۃ . ردالمحتار 3/32)
لیکن لاک ڈاون کی حالت میں ظہر کی نماز باجماعت پڑھنے میں نہ تو تقلیل جماعت ہے اور نہ جمعہ کی جماعت کے ساتھ معارضہ ، اس لئے جماعت کی گنجائش ہے تاکہ کسی حد تک اجتماعیت کااظہار ہوسکے اورجماعت کے ثواب سے محرومی نہ ہو ۔
گھر پہ عیدین کی نماز:
جمعہ کی طرح سے عیدین کی نماز بھی مجبوری کی حالت میں گھر پر پڑھنے کی اجازت ہوگی ، کیونکہ عیدین کے احکام وشرائط وہی ہیں جو جمعہ کے ہیں ۔
ماسک لگانا اور صفوں کے درمیان میں جگہ خالی رکھنا :
حدیث میں منہ ڈھاک کرنماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ، حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے :
نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن السدل فی الصلاۃ و ان یغطی الرجل فاہ (سنن ابوداود 643:وصححہ الحاکم ووافقہ الذھبی [المستدرک 1:/253])
رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے نماز میں کپڑا لٹکانے اور منہ ڈھاکنے سے منع فرمایا ہے ۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ خطابی لکھتے ہیں :
عربوں کی عادت تھی کہ وہ عمامہ کے ایک حصے کو منہ پر لپیٹ لیتے تھے۔، نماز میں ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے ، الا یہ کہ کسی کو نماز میں جمائی آئے تو دوسری حدیث کی بنیا د پر اس کے لیے منہ ڈھانکنے کی اجازت ہے ۔
(فان من عادۃ العرب التلثم بالعمائم علی الافواہ فنہوا عنہ عن ذالک فی الصلاۃ الا ان یعرض الثوباء فیغطی فمہ عند ذالک للحدیث الذی جاءفیہ ۔ معالم السنن 179/1)
اور فقہ حنفی کی کتابوں میں نماز کی مکروہات کی بحث میں ہے کہ ” تلثم "مکروہ ہے علامہ شامی نے اس کی وضاحت کرتے ہویے لکھا ہے :
"نماز میں منہ اور ناک کے ڈھانکنے کو” تلثم "کہاجاتاہے اور ایسا کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس میں مجوس کےساتھ مشابہت ہے کہ وہ آگ کی پرستش کی حالت میں ایسا کرتے ہیں اور علامہ طحطاوی نے مفتی ابومسعود کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے” ۔
(وھو تغطیہ الانف والفم فی الصلاۃ لانہ یشبہ فعل المجوس حال عبادتھم النیران .ونقل ط عن ابی سعود انھا تحریمیۃ۔ ردالمحتار 2/423)
اسی طرح سے صفوں کو متصل رکھنے کا حکم دیا گیا اور درمیان میں گیپ رکھنے سے منع کیا گیا ہے ، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینو بایدی اخوانکم ولا تذروا فرجات الشیطان ومن وصل صفا وصلہ اللہ ومن قطع صفا قطعہ اللہ (سنن ابوداود : 666)
صفیں سیدھی کرو اور کندھوں کےدرمیان برابری رکھو، خلل کو بند کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھ میں نرم ہوجاؤ اور شیطان کےلئے خالی جگہ مت رکھو، جو شخص صف کو ملائے اللہ تعالی اسے جوڑے رکھے اور جو صف کو توڑے اللہ اسے اپنی رحمت و عنایت سے محروم کردے ۔
اسی بنیاد پر فقہی کتابوں میں صفوں کے درمیان گیپ رکھنے کو مکروہ قراردیا گیا ہے ۔
(وقدمنا کراھۃ القیام فی صف خلف صف فیہ فرجۃ للنھی ۔الدرالمختار مع الرد 2/416 )
لیکن یہ عمومی حالت کاحکم ہے، بیماری سے احتیاط کے طور پر منہ ڈھاکنے اور صفوں کے درمیان گیپ رکھنے کی اجازت ہوگی ۔
کرونا سے متاثر افراد کا مسجد میں آنا:
ہر ایسے شخص کو مسجد میں آنے سے روکا جائے گا جس سے نمازیوں کو پریشانی ہوتی ہو یا وہ متعدی مرض کا حامل ہو اور اس کی وجہ سے دوسروں میں مرض کے منتقلی ہونے کا اندیشہ ہو حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
من اكل من هذه الشجره يعني الثوم فلا يقربن مسجدنا
(صحيح بخاري:853)
جو کوئی لہسن کھا لے وہ ہماری مسجد میں ہرگز نہ آئے۔
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من اكل من هذه الشجره فلا يقربن مسجدنا ولا يؤذينا بريح الثوم۔(صحيح مسلم: 563)
جو کوئی لہسن کھا لے وہ ہماری مسجد میں ہرگز نہ آئے اور ہمیں اس کے بدبو سے پریشان نہ کرے۔
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء لکھا ہے کہ لہسن کھانے والے کے حکم میں وہ شخص بھی شامل ہے جس کے منہ یا زخم سے بدبو آرہی ہو اور مچھلی اور گوشت بیچنے والا اور جذامی و ابرص بدرجہ اولی اس حکم میں داخل ہے۔
(واكل نحو ثوم ويمنع منه وكذا الحق بعضهم بذلك من فيه بخر او به جرح له رائحه وكذلك السماك والقصاب والمجذوم والابرص اولى بالالحاق۔رد المحتار: 453/2)
کرونا سے متاثر افراد کے لیے روزہ:
کرونا کی وجہ سے روزہ رکھنے میں دشواری ہو رہی ہو تو بیماری کے دنوں میں روزہ نہ رکھا جائے اور بعد میں قضا کر لیا جائے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ومن كان منکم مريضا او علی سفر فعدۃ من ايام اخر يريد اللہ بكم اليسر ولا يريد بكم العسر(سوره البقره:185)
اور اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہے تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لیے مشکل پیدا کرنا نہیں چاہتا ۔
علامہ قرطبی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
مریض کی دو حالتیں ہیں ایک یہ کہ وہ بالکل روزہ کی استطاعت نہ رکھے ایسے شخص کے لیے روزہ نہ رکھنا واجب ہے دوسری حالت یہ ہے کہ وہ روزہ تو رکھ سکتا ہے مگر رکھنے میں ضرر و مشقت ہوگی تو ایسے شخص کے لیے روزے نہ رکھنا مستحب ہے اور اس صورت میں صرف جاہل ہی روزہ رکھے گا ۔
(وللمريض حالتان احداهما الا يطيق الصوم بحال فعلیه الفطر واجبا والثانيه ان يقدر على الصوم بضرر ومشقۃ فهذا يستحب له الفطر ولا يصوم الا جاهل ۔ تفسير قرطبي: 127/3)
مساجد کو بند کرنا:
کسی عذر کی وجہ سے جماعت میں شریک نہ ہونے کی رخصت و اجازت ہو سکتی ہے اسی طرح سے کسی متعدی مرد کے حامل شخص کو مسجد میں آنے سے روکا جا سکتا ہے لیکن مسجد کو بالکل بند کر دینے کی ہرگز گنجائش نہیں ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ومن اظلم ممن منع مساجد الله ان يذكر فيها اسمه وسعى في خرابها اولئك ما كان لھم ان يدخلوها الا خائفين لهم في الدنيا خزي ولهم في الاخرۃ عذاب عظيم.(سورة البقرة:114)
اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ اس میں اللہ کا نام لیا جائے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ ان مسجدوں میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا۔
اسلامی تاریخ میں نہ معلوم کتنے وبائی امراض آئے اور ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے لیکن کبھی بھی لوگوں کو جمعہ اور جماعت سے نہیں روکا گیا اور نہ ہی مسجد بند کی گئی اس لیے مسجدوں کی جماعت کو موقوف کرنا سخت ناروا عمل ہے۔
جماعت موقوف ہونے کی صورت میں بھی اذان دی جائے گی کیونکہ اذان اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ کی رسالت کا اعلان، اسلام کا شعار اور نماز کے وقت کی اطلاع ہے حضرت ابو سعید خدری نے ابو صعصعہ انصاری کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
اني اراك تحب الغنم والباديه فاذا كنت في غنمك او باديتك فاذنت بالصلاه فارفع صوتك بالنداء فانه لا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا انس الا شهد له يوم القيامه قال ابو سعيد سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم
(صحيح بخاري:609)
میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں بکری اور صحرا پسند ہے اس لیے جب تم اپنی بکری کے ساتھ یا صحرا میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو خوب بلند آواز سے دو کیونکہ موذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے وہاں تک کے جنات و انسان اس کے لیے قیامت کے دن گواہی دیں گے۔حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ یہ بات میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
اس حدیث سے رافعی نے استدلال کیا ہے کہ منفرد کے لیے بھی اذان مستحب ہے اور شافعیہ کے یہاں یہی راجح ہے کیونکہ اذان وقت کا حق ہے۔۔۔اور اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تنہا شخص کے لیے بھی اذان کہنا مستحب ہے اگرچہ وہ صحرا اور ویرانے میں ہو اور اس کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے کسی کو آنے کی امید نہ ہو۔ (واستدل به الرافعی للقول الصائر الى استحباب اذان المنفرد وهو الراجع عند الشافعيه بناء على ان الاذان حق الوقت…. وفيه ان اذان الفذ مندوب اليه ولو كان في قفر ولم يرتج حضور من يصلي معه. فتح الباري)
علامہ شامی لکھتے ہیں :
لان الاصل في مشروعيه الاذان الاعلام بدخول الوقت.(رد المحتار 2/47)
اور حصکفی لکھتے ہیں:
ويسن ان يؤذن ويقيم لفائته رافعا صوته لو بجماعۃ او صحرا.(الدر المختار مع الرد 2/57)
اور حضرت عبداللہ بن عمر کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ٹھنڈی رات میں اذان دی اور پھر کہا کہ تم لوگ اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو اور کہا :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم يامر مؤذنا يؤذن ثم يقول على اثره صلوا في الرحال في الليله البارده والمطيره في السفر۔(صحيح بخاري:632)
سفر کے دوران ٹھنڈک کی رات میں یا بارش کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موذن کو اذان کا حکم دیتے اور پھر اس کے بعد کہتے ہیں کہ لوگو ! اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو ۔
جماعت کے لئے حکومت کی طرف سے متعین تعداد پر عمل:
کوشش یہی ہونی چاہیے کہ مطلوبہ فاصلے کو برقرار رکھتے ہوئے مسجد کی وسعت کے بقدر لوگ جماعت میں شریک ہوں لیکن اگر حکومت کی طرف سے کوئی تعداد متعین ہو تو عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے اس کی پابندی کرنی چاہیے۔
مسجد میں مریضوں کہ ٹہرانا:
مسجد کی تعمیر کا مقصد نماز کا قیام اور ذکر و تلاوت ہے اس میں ہسپتال یا کووڈ سینٹر بنانا مسجد کے مقصد کے خلاف ہے الا یہ کہ اس کے علاوہ کوئی جگہ دستیاب نہ ہو تو بدرجہ مجبوری اس کی گنجائش ہوگی حدیث میں ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کر دیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان هذه المساجد لا تصلح شيء من هذا البول ولا القذر انما هي لذكر الله عز وجل والصلاه وقراءۃ القرآن ۔(صحيح مسلم:285)
مسجد میں پیشاب کرنے یا گندگی پھیلانے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ مسجد تو اللہ کے ذکر ،نماز اور تلاوت قران کے لیے ہے۔
امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں گندگی کرنے شور و شغف کرنے خرید و فروخت کرنے یا کسی بھی مالی معاملے کی اجازت نہیں ہوگی۔
(فيه صيانه المساجد وتنزيهها عن الاقذار والقذی والبصاق ورفع الاصوات والخصومات والبيع والشراء وسائر العقود وما في معنى ذلك ۔المنهاج:3/191)
اور حضرت حکیم بن حزام سے روایت ہے :
نهی رسول الله صلى الله عليه وسلم ان یستقادوا في المسجد وان تنشد فيه الاشعار وان تقاموا فيه الحدود
(سنن ابو داوود وغيره: 4490)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قصاص لینے، اشعار پڑھنے اور حد قائم کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من سمع رجلا ينشد ضالۃ في المسجد فليقل لا ردها الله اليك وان المساجد لم تبن لهذا۔(صحيح مسلم: 568)
جو کوئی مسجد میں گمشدہ چیزوں کا اعلان سنے تو وہ کہے کہ اللہ تمہارے سامان کو واپس نہ لوٹائے کیونکہ مسجد یں اس کے لیے نہیں بنائی جاتی ہیں.
اور حضرت ابوہریرہ ہی سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا رايتم من يبيع او يبتاع في المسجد فقولوا لا اربح الله تجارتك۔(جامع ترمذي: 1321)
جب تم کسی کو مسجد میں کوئی چیز بیچتے یا خریدتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے.
ان احادیث کی روشنی میں فقہاء نے لکھا ہے کہ مسجد میں دست سوال دراز کرنا حرام ہے اور اسے دینا بھی مکروہ ہے اسی طرح سے گمشدہ چیزوں کا اعلان کرنا اور شعر پڑھنا مکروہ ہے یہاں تک کہ مباح گفتگو کے لیے بھی مسجد میں بیٹھنا کراہت سے خالی نہیں۔
(ويحرم فيه السوال ويكره الاعطاء مطلقا وقيل ان تخطي وانشاد ضالۃ او شعر الا ما فيه ذكر… والكلام المباح وقيده في الظهیريه بان يجلس لاجله۔الدر المختار مع الرد2:/433و436)
کرونا سے متاثر مریض کی تیمارداری:
حضرت برا بن عازب سے روایت ہے :
امرنا باتباع الجنائز وعيادۃالمريض (صحيح بخاري: 1239. مسلم:2066)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے اور مریض کی عیادت کرنے کا حکم دیا ہے ۔
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حق المسلم على المسلم خمس رد السلام وعيادۃ المريض واتباع الجنائز واجابة الدعوۃ وتشميت العاطس (صحيح بخاري: 1240)
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا۔ مریض کی عیادت کرنا ۔جنازے کے پیچھے چلنا ۔دعوت کو قبول کرنا اور چھینکنے والے کا جواب دینا۔
اور ایک روایت میں ہے :
خمس تجب للمسلم على اخيه (صحیح مسلم: 2162 )
ایک مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی کے لیے پانچ چیزیں واجب ہیں .
اور حضرت ابو موسی اشعری سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فكوا العاني واطعموا الجائع وعودوا المريض۔(صحيح بخاري:3046)
قیدی کو چھڑاؤ ،بھوکے کو کھلاؤ اور مریض کی عیادت کرو۔
مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ عینی لکھتے ہیں:
حدیث کے ظاہر کا تقاضہ ہے کہ عیادت کرنا واجب ہو اور اس کا بھی احتمال ہے کہ یہ حکم استحبابی ہو لیکن بعض لوگوں کے حق میں تاکیدی اور وجوبی ہو(عمدۃ القاری,:17/243)
ظاہر ہے کہ وجوب کا حکم ان لوگوں کے لیے ہوگا جن کی غیر موجودگی کی وجہ سے مریض کی دیکھ بھال نہ ہو سکے اور یہ عام طور پر مریض کے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں لہذا ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی دوا علاج کا نظم کریں اور اس کے ساتھ ہمدردی اور رحم دلی کا سلوک کریں ورنہ انہیں اللہ کے یہاں جواب دہ ہونا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته(صحيح بخاري:893)
تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری میں رہنے والوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ طاعون زدہ علاقے سے بھاگنے کی ممانعت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی حالت میں مریض تنہا رہ جائے گا اور کوئی اس کی دیکھ ریکھ کرنے والا نہیں بچے گا چنانچہ امام غزالی لکھتے ہیں:
اگر صحت مند لوگوں کو جانے کی اجازت دے دی جائے تو وہاں صرف وہ بیمار رہ جائیں گے جو طاعون کی وجہ سے بھاگ نہیں سکتے اس سے ان کی دل شکنی ہوگی اور کوئی ان کی تیمارداری کرنے والا نہیں رہے گا ان کو دوا اور کھانا کھلانے کے لیے بھی کوئی موجود نہیں ہوگا اور وہ بیماری کی وجہ سے خود سے اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکیں گے تو ایسا کرنا گویا کہ ان کو ہلاک کرنا ہوگا۔(احیا علوم الدین: 4/291)
حاصل یہ ہے کہ مریض شخص محبت اور مہربانی کا حقدار ہوتا ہے اور اہل خانہ کا فریضہ ہے اس کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں بلکہ احتیاطی تدابیر کو اپناتے ہوئے ان کی تیمارداری کریں.
وبائی امراض سے متاثر مریض کے متعلق حکومت یا سماج کی ذمہ داری:
مریض کی تیمارداری اور خدمت اس کے قریب ترین لوگوں کا فریضہ ہے اور اگر وہ اس فرض کو ادا نہ کر سکیں تو حکومت یا پورے سماج کی ذمہ داری ہے کہ اس کے حق کو ادا کرے اور اس کے علاج میں کوئی کوتاہی نہ کرے جیسے کی بھوکے کو کھانا کھلانا یا پیاسے کو پانے پلانا اور قیدی کو رہائی دلانا سب سے پہلے ان لوگوں پر فرض ہے جو اس کے خاندان کے ہیں اور اگر وہ موجود نہ ہوں یا اس کے خرچ کو برداشت نہ کر سکیں یہ فریضہ دوسروں پر عائد ہو جاتا ہے۔یا جیسے کی لاوارث میت کی تجہیز و تکفین اور دینی علوم کی نشر و اشاعت حکومت کی ذمہ داری ہے اور اگر وہ اس سے غفلت برتے تو پورے سماج پر اس کا نظم کرنا فرض ہوتا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من ترك مالا فلورثته ومن ترك كلا فالينا(صحيح بخاري:2398)
جو کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے اور جو کوئی زیر پرورش بچے جوڑ جائے تو ان کی ذمہ داری ہماری ہے۔
کرونا سے وفات یافتہ کو غسل دینا:
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
*لا يكلف الله نفسا الا وسعها.(سوره البقره: 286)
اللہ تعالی کسی کو بھی اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا۔
*فاتقوا الله ما استطعتم (سوره التغابن: 16)
لہذا جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
واذا امرتكم بامر فاتوا منه ما استطعتم.(صحيح بخاري وغيره: 7288)
اور جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو وسعت کے مطابق اس پر عمل کرو.
مذکورہ آیت اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اس کی وسعت سے زیادہ کا پابند نہیں بنایا گیا ہے اس لیے کرونا سے انتقال کرنے والے کو شرعی طریقے پر غسل دینا ممکن ہو تو اسے غسل دیا جائے گا اور اگر غسل ممکن نہ ہو تو دیکھا جائے کہ کیا اس کے ہاتھ اور چہرے کو کھول کر تیمم کرایا جا سکتا ہے یا نہیں اگر تیمم کرایا جا سکتا ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا اور اگر غسل و تیمم ممکن نہ ہو تو اس کے بغیر اسے دفن کرنا درست ہوگا۔
فقہی کتابوں میں میت سے غسل کے ساقط ہونے کے تین اسباب بیان کیے گئے ہیں :غسل دینے والے کا موجود نہ ہونا۔ جس کے ذریعے غسل دیا جاتا ہے اس کی غیر موجودگی اور شہادت۔
(غسل الميت يسقط باسباب احدها انعدام الغاسل والثاني الاعدام ما يغسل به والثالث الشهاده۔المحيط البرهاني: 285/2)
اور ابتدائی دو صورتوں میں تیمم کا حکم ہے .
کیا کور کفن کے حکم میں ہے؟:
کفن کا مقصد ستر پوشی ہے اور کور کے ذریعے یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے البتہ سنت کی رعایت کرتے ہوئے اوپر سے کفن لپیٹ دیا جائے تو بہتر ہے۔
جنازہ کے بغیر تدفین:
کرونا سے وفات یافتہ شخص کو جنازہ کے بغیر دفن کر دیا گیا ہو اور اس کے بعد گھر والوں کو اس کو اطلاع دی گئی ہو تو اس کے جنازے کی نماز ساقط نہیں ہوگی بلکہ اس کے قبر پر جنازے کی نماز پڑھی جائے گی بشرطیکہ دفن کیے ہوئے زیادہ دن نہ ہوئے ہوں کہ اتنی مدت میں عام طور پر مردے کا جسم خراب ہو جاتا ہو حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بقبر دفن ليلا فقال متى دفن هذا قالوا البارحۃ قال افلا اذنتموني قالوا دفناه في ظلمۃ الليل فكرهنا ان نوقظك فقام فصففنا خلفه۔
(صحيح بخاري :1321)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کی قبر کے پاس سے گزرے اور پوچھا کہ اسے کب دفن کیا گیا ہے؟ لوگوں نے کہا گذشتہ رات ۔ فرمایا :مجھے کیوں باخبر نہیں کیا ؟صحابہ کرام نے عرض کیا :ہم نے اسے رات کی تاریکی میں دفن کیا اس لیے آپ کو جگانا مناسب نہیں معلوم ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور ہم آپ کے پیچھے صف بستہ ہوگئے۔
اس حدیث کی روشنی میں فقہا لکھتے ہیں کہ اگر کسی کو نماز کے بغیر دفن کر دیا گیا ہے تو اس کے جنازے کی نماز بھی فرض کفایہ ہے ۔
(وان دفن واهيل عليه التراب بغير صلاۃ او بها بلا غسل او ممن لا ولايۃ له صلى على قبره استحسانا اي افتراضا في الاوليين وجوازا في الثالثه لانها لحق الولي۔ رد المحتار: 125/3 وقيده بعدم التفسخ لانه لا يصلي عليه بعد التفسخ لان الصلاه شرعت على بدن المیت فاذا تفسخ لم يبقي بدنه قائما ۔البحر الرائق 320/2)
غائبانہ نماز جنازہ:
اگر نماز کے بغیر دفن کر دیا گیا ہو اور تدفین کی جگہ معلوم نہ ہو تو ایسی صورت میں غائبانہ نماز جنازہ کی اجازت ہونی چاہیے نماز جنازہ میت کا حق ہے اس لیے ممکن حد تک اس کی ادائیگی کی کوشش ہونی چاہیے حضرت جابر سے روایت ہے:
قال النبي صلى الله عليه وسلم حين مات النجاشي مات اليوم رجل صالح فقوموا فصلوا على اخيكم اصحمۃ
(صحيح بخاري: 3877)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کے وقت فرمایا: آج ایک اچھے شخص کی وفات ہو گئی ہے اٹھو اور اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھو۔
علامہ خطابی لکھتے ہیں:
نجاشی مسلمان تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتا اور اپ کی نبوت کی تصدیق کرتا تھا مگر وہ اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا اور جب کسی مسلمان کی وفات ہو جائے تو مسلمانوں کے لیے اس کی نماز جنازہ پڑھنا ضروری ہے اور نجاشی کافروں کے درمیان تھا اور وہاں پر کوئی اس کے حق کو ادا کرنے والا نہیں تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروری سمجھا کہ اس کے جنازے کی نماز ادا کریں اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نبی، اس کے سرپرست اور اس پر سب سے زیادہ حق رکھنے والے تھے۔ اللہ بہتر جانتا ہے اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی اس بنیاد پر جب کسی مسلمان کی وفات ہو اور اس کے جنازہ کا حق ادا کر دیا گیا ہو تو اس پر غائبانہ جنازے کی نماز نہیں پڑھی جائے گی لیکن اگر یہ معلوم ہو جائے کہ کسی رکاوٹ یا عذر کی وجہ سے اس کا جنازہ نہیں پڑھا گیا ہے تو اس پر نماز جنازہ سنت ہے اور مسافت کی دوری کی وجہ سے اسے ترک نہیں کیا جائے گا۔(معالم السنن:310/1)
اور شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں:
صحیح یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی جگہ وفات پا جائے جہاں اس پر جنازے کی نماز نہیں پڑھی گئی ہے تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی نماز پڑھی اس لیے کہ ان کی وفات کافروں کے درمیان ہوئی تھی اور ان کے جنازے کی نماز نہیں پڑھی گئی تھی اور اگر وفات کی جگہ پر اس کی نماز پڑھ لی گئی ہے تو اس پر غائبانہ نماز نہیں پڑھی جائے گی اس لیے کہ مسلمانوں کی طرف سے اس کی نماز پڑھ لینے کی وجہ سے فریضہ ساقط ہو گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غائبانہ نماز پڑھی بھی اور نہیں بھی پڑھی اور آپ کا پڑھنا اور نہ پڑھنا دونوں سنت ہے اور پڑھنے کا مصداق کچھ اور ہے اور نہ پڑھنے کا مصداق کچھ اور ہے۔(زاد المعاد: 520/1)
ائمہ حنفیہ کے یہاں گرچہ غائبانہ نماز جنازہ غیر مشروع ہے لیکن غالبا اس سے مراد یہ ہے کہ نماز پڑھ کر اسے دفن کیا گیا ہو اور پھر کچھ لوگ دوبارہ غائبانہ نماز پڑھنا چاہتے ہوں لیکن جہاں سرے سے جنازے کی نماز ہی نہ ہوئی ہو وہ ایک الگ شکل ہے اور وہاں ضرورت داعی ہے کہ اس کی غائبانہ نماز پڑھی جائے چنانچہ علامہ عینی حنفیہ کی طرف سے نجاشی کے واقعے کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وجواب اخر انه من باب الضروره لانه مات بارض لم تقم فيها عليه فريضۃ الصلاه فتعين فرض الصلاۃ عليه لعدم من يصلى عليه ثمه۔(عمده القاري: 22/8)
کیا کرونا سے وفات یافتہ شخص شہید ہے:
حدیث میں طاعون سے مرنے والے کو شہید کے درجے میں رکھا گیا ہے کرونا بھی طاعون کی طرح سے ایک وبائی اور متعدی بیماری ہے اس لیے خیال ہوتا ہے کہ کرونا سے مرنے والے کو بھی شہادت کا درجہ حاصل ہونا چاہیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الشهداء خمسه المطعون والمبطون والغريق وصاحب الهدم والشهيد في سبيل الله۔(صحيح بخاري:2829 صحيح مسلم: 1914)
شہدا پانچ ہیں طاعون اور پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شخص .ڈوب کر یا کسی چیز کے نیچے دب کر مرنے والا اور اللہ کے راستے میں شہادت پانے والا۔
علامہ زرقانی نے باجی اور ابن تین کے حوالے سے لکھا ہے :
هذه ميتات فيها شدۃ الالم فتفضل الله تعالى على امۃ محمد ان جعلها تمحيصا لذنوبهم وزياده في اجورهم حتى يبلغهم بها مراتب الشهداء.(شرح الزرقاني على الموطاء:150/1)
اور محدث عبدالحق دہلوی لکھتے ہیں:
وانما كان بهذه المعاني من الشهداء لشدتها ولكثره المھا
(لمعات التنقيح:27/4)
اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے عمدہ سند کے ساتھ ایسے 27 لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جنہیں حدیث میں شہید کہا گیا اور حسن سند کے ساتھ لکھا ہے کہ حضرت علی کہتے ہیں :
كل موتۃ یموت بها المسلم فهو شهيد۔
اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حدیث میں جن لوگوں کو شہید کہا گیا ہے اس کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ درجات کے اعتبار سے یہ تمام لوگ برابر نہیں ہیں بلکہ ان میں باہم فرق ہے۔(شرح الزرقانی علی المؤطا:106/1)
حاصل یہ ہے کہ کرونا میں مبتلا شخص شدید تکلیف سے دوچار رہتا ہے اور بخار اس کے لیے ناگزیر ہے نیز اس کی وجہ سے پھیپڑا متاثر ہوتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور صحیح حدیث میں سل و دق کی بیماری میں مبتلا ہو کر مرنے والے کو شہید کہا گیا ہے اس لیے کرونا سے وفات پانے کو شہید کہنے کی گنجائش ہے۔
الکوہل آمیز سینیٹائزر کا استعمال:
الکوہل ایک نشہ آور مشروب ہے اور نشہ آور سیال مادے کی طہارت و نجاست کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے امام مالک، شافعی ،احمد بن حنبل، محمد بن حسن شیبانی اور بعض دوسرے فقہاء اسے ناپاک قرار دیتے ہیں ۔(دیکھیے فتح العلی:362/2, التھذیب:187/1, المغنی:514/12)
اس کے برخلاف امام مالک کے استاد ربیعہ .مشہور محدث اور فقیہ لیث بن سعد مصری، امام شافعی کے شاگرد امام مزنی اور داؤد ظاہری اسے پاک کہتے ہیں
(الجامع لاحكام القران: 288/6,الموسوعه:27/5)
امام ابو حنیفہ اور ابی یوسف کے نزدیک انگور اور کھجور کی شراب ناپاک ہے اور اس کے علاوہ دیگر چیزوں کی شراب پاک ہے.(رد المحتار: 28/10, المجوع:564/2) دونوں طرف کے دلائل اور اس کے تجزیے کے لیے دیکھیے ہماری کتاب فقہی مقالات،495/1
اور مولانا محمد تقی عثمانی کی رائے یہ ہے کہ اس وقت بازار میں دستیاب الکوہل کھجور اور انگور سے کشید نہیں کیے جاتے ہیں.(تکملہ فتح الملہم:419/9)
اس اعتبار سے سینیٹائزر پاک ہے اور اس کے استعمال میں کوئی کراہت نہیں ہے اور اگر اسے ناپاک بھی سمجھا جائے تو دوا اور علاج کی ضرورت و حاجت کی وجہ سے اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہے.
کرونا ویکسین لگوانے کا حکم:
فقہا لکھتے ہیں کہ مرض کے علاج کے اسباب تین ہیں: وہ اسباب جن سے فائدہ یقینی ہو۔ دوسرے وہ جن سے مرض کے زائل ہونے کا ظن غالب ہو تیسرے وہ جن سے ازالہ مرض موہوم ہو ۔اگر فائدہ یقینی ہو جیسے بھوک پیاس مٹانے کے لیے کھانا اور پینا تو اسے استعمال کرنا ضروری ہے اگر اس کے ترک کی وجہ سے موت کا اندیشہ ہو تو ایسا کرنا حرام ہے اور دوسری درجے کے اسباب جیسے کہ یونانی اور انگریزی دوائیں تو اسے اختیار کرنا بہتر ہے اور نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے اور تیسرے درجے کے اسباب کو اختیار کرنا توکل کے خلاف ہے۔(دیکھیے الہندیہ: 255/5)
کرونا ویکسین دوسرے درجے میں داخل ہے اس لیے اسے لگوا لینا بہتر ہے.
وبا کے دفعیہ کے لیے اذان:
نماز کے علاوہ صرف پیدائش کے موقع پر اذان دینا حدیث سے ثابت ہے ان دو کے علاوہ کسی اور موقع پر اذان دینے کا ثبوت صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے محدث منذری نے حضرت انس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا اذن في قريۃ امنها الله عز وجل من عذابه ذلك اليوم
(الترغیب:158/1)
جب کسی آبادی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالی اس دن کے عذاب سے اس ابادی کی حفاظت فرماتے ہیں.
یہ حدیث ایک تو صحیح نہیں ہے دوسرے اپنے موضوع پر صریح بھی نہیں ہے بلکہ زیادہ احتمال اس کا ہے کہ اذان سے مراد نماز والی اذان ہو کہ جس کسی بستی میں نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے اللہ تعالی وہاں عذاب نازل نہیں کرتے لہذا وبا کے دفعیہ کے لیے اذان دینا غیر مشروع اور بدعت ہے اور اس کی جگہ ان دعاؤوں کو پڑھنا چاہیے جو مصائب و آلام کے وقت صحیح احادیث سے ثابت ہیں ۔
دفع وبا کے لیے اجتماعی نماز اور دعا:
نماز روح کی غذا اور دل کی دوا ہے اور مصائب و مشکلات سے بچنے اور اس کے دفعیہ کے لیے محفوظ پناہ گاہ اور مضبوط سہارا ہے حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔
(ابو داؤد و اسنادہ حسن دیکھیے اعلاءالسنن :34/7)
اور حضرت ابو دردہ بیان کرتے ہیں کہ جب کبھی رات میں تیز ہوا چلنے لگتی تو انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر مسجد کا رخ کرتے اور جب تک کہ ہوا رک نہ جاتی وہیں رہتے ہیں.(رواه الطبراني في الكبير وسنده حسن .اعلاء السنن:146/8)
اور حضرت عبداللہ بن عباس کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے زلزلہ کے موقع پر جماعت کے ساتھ نماز ادا کی اور حضرت حذیفہ سے بھی زلزلہ کے موقع پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھنا ثابت ہے۔(المحلى لابن حزم:315/3)
اور ایک حدیث میں عمومی طور پر حکم دیا گیا ہے کہ
اذا رايتم آیۃ فاسجدوا (سنن ابو داوود:1197حسن)
جب تم اللہ کی کوئی نشانی دیکھو تو سجدہ میں گر جاؤ.
اور فقہا لکھتے ہیں کہ جب تیز آندھی چلے ،زلزلہ آجائے، بجلی گرے ،اولے پڑنے لگیں ،دن میں سخت تاریکی چھا جائے یا کوئی عمومی بیماری جیسے ہیضہ وغیرہ پھوٹ پڑھے تو اس وقت توبہ وہ استغفار کرنا اور
نماز پڑھنا سنت ہے مگر اس طرح کے مواقع کی نماز جماعت کے بغیر تنہا پڑھی جائے گی۔(مراقي الفلاح مع الطحطاوي:357)
لہذا دفع وبا کے لیے نماز اور دعا مسنون ہے لیکن اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی طور پر۔