وسیلہ کی حقیقت اور ثبوت
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
ابن فارس کہتے ہیں کہ "وسیلہ” رغبت و طلب کا نام ہےاور "وسل” اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی کسی چیز کی طرف راغب ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہونے والے کو واسل کہتے ہیں[التوسل انواعہ و احکامہ/۱۱] اور ابن کثیر لکھتے ہیں کہ "وسل” کے معنی راغب کے ہیں اور "وسیلہ” قربت اور ذریعہ کو نیز اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ کسی چیز تک رسائی اور نزدیکی حاصل کی جا سکے[حوالہ سابق] اور المفردات میں ہے کہ رغبت و خواہش کے ساتھ کسی چیز تک رسائی کو "وسیلہ” کہا جاتا ہے اور اگر یہی لفظ سین کے بجائے صاد سے (وصیلہ) ہو تو اس کے معنی مطلقاً رسائی حاصل کرنے کے ہیں خواہ رغبت و خواہش ہو یا نہ ہو[امفردات/۶۸۷]
اور کبھی "وسیلہ” کا لفظ مقام ومرتبہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، درج ذیل حدیث میں یہی مفہوم مراد ہے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
من قال حین یسمع النداء: الھم رب ھذہ الدعوۃالتامۃ والصلاۃ القائمۃ آت محمداً الوسیلۃ و الفضیلۃ وابعثہ مقاماً محموداً الذی وعدتہ حلت لہ شفاعتی یوم القیامۃ[صحیح بخاری:۴۷۱۹]
جو کوئی اذان سن کر یہ کہے: اے اللہ!اس مکمل دعوت اور قائم نماز کے رب! محمدﷺ کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرمائیےاور انہیں مقام محمود پر فائزکیجیے جس کا آپ نے وعدہ کیا ہے۔تو اس دعاء کی وجہ سے قیامت کے دن وہ میری شفاعت کا حقدار ہو جائے گا۔
ایک دوسری حدیث میں خود اس کی وضاحت موجود ہے،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا:
اذا سمعتم الموذن فقولوا مثل ما یقول ثم صلوا علی فانہ من صلی علی صلاۃ صلی اللہ علیہ بھا عشراً ثم سلوا للہ لی الوسیلۃ فانھامنزلۃ فی الجنۃ لاتنبغی الا لعبدمن عباد اللہ وارجو ان اکون انا ھو فمن سأل لی الوسیلۃحلت لہ الشفاعۃ[صحیح مسلم:۳۸۴]
جب تم اذان کی آواز سنو تو اسے دہراؤ پھر مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل کرتے ہیں، پھر میرے لیے "وسیلہ” کی دعاء کرواور "وسیلہ” جنت میں ایک مقام و مرتبہ کا نام ہے جو صرف کسی ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں، تو جو کوئی میرے لیے "وسیلہ” کی دعاء کرے گاوہ میری شفاعت کا حق دار ہوگا۔
غرضیکہ حدیث میں مذکور وسیلہ سے مراد جنت میں اللہ کی قربت و نزدیکی کا وہ اعلیٰ مقام ہے جو رسول اللہﷺ کے ساتھ خاص ہے[الوسیلۃ :ھی فی الاصل: مایتوصل بہ الی الشیئ و یتقرب بہ۔۔۔والمراد بہ فی الحدیث القرب من اللہ تعالیٰ انھا بہ لابن اثیر۹/۴۴۱۲ ،وھی اقرب امکنہ الجنۃ الی العرش ابن کثیر ۲/۵۰] اور قرآن میں مذکور "وسیلہ” سے مراد یہ ہے کہ بندہ محبت و رغبت کے ساتھ وہ کام کرے جو اسے پروردگار سے قریب کر دے ، اللہ تبارک تعالیٰ کافرمان ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ [سورہ المائدہ:۳۵]
مذکورہ آیت کی تفسیر میں ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ "وسیلہ تلاش کرو” کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو راضی کرنے والے عمل کے ذریعے اس کی قربت طلب کرو اور ابن کثیر نے حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے کہ اس آیت میں "وسیلہ” کا مطلب قربت و نزدیکی ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ مجاہد ، ابووائل، حسن بصری، عبداللہ بن کثیروغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں اور قتادہ کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت اور اسے راضی کرنے والے عمل کے ذریعہ اس کی قربت حاصل کرو، اور اس کے بعد ابن کثیر نے لکھا ہے کہ مذکورہ اماموں نے جو کچھ کہا ہے اس کے بارے میں مفسرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔۔۔اور وسیلہ وہ ہے جس کے ذریعے مقصود کو حاصل کیا جا سکے۔[تفسیر ابن کثیر۲/۵۰]
اور ایک دوسری آیت میں ہے کہ :
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَهٗؕ-اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا [سورہ الاسراء:۵۷]
جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے پروردگار تک پہونچنے کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں سے کون اللہ سے زیادہ قریب ہو جائے اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ، یقیناً تمہارے رب کا عذاب ہے ہی ایسی چیز جس سے ڈرا جائے۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت عرب کے ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو بعض جناتوں کی پرستش کیا کرتے تھے اور وہ جنات مسلمان ہو گئے لیکن ان کے پجاری ان کی پوجا کرتے رہے[صحیح مسلم:۳۰۳۰ نیر دیکھیے صحیح بخاری:۴۷۱۴]
اور حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ یعنی جناتوں کے پجاری ان کی پوجا کرتے رہے حالانکہ وہ جنات اسلام قبول کر چکے تھے اور اپنے پروردگار کی راہوں کے طلب گار تھے اور پجاریوں کا طرز عمل انہیں گوارا نہیں تھا، آیت کی تفسیر میں یہی بات قابل اعتماد ہے[فتح الباری۱۰/۱۲]
حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ دل کی آمادگی اور چاہت کے ساتھ اس کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کی کریں اور اس کی بارگاہ میں ہر طرح کی قربانی پیش کریں اور ہر طریقے سے اسےراضی کرنے کی جد و جہد کریں اور اس کا بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے نیکی کے کاموں ، قربانی کی چیزوں اور قربت کی راہوں کی خود نشاندہی کر دی ہے اور اسے ہماری عقل و ذوق اور خواہش پر نہیں چھوڑا ورنہ بڑا اختلاف اور انتشار رونما ہوتا ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَمَن كَانَ يَرْجُوا۟ لِقَآءَ رَبِّهِۦ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَـٰلِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِۦٓ أَحَدًۢا [سورہ الکہف:۱۱۰]
لہذا جسے اپنے مالک سے جا ملنے کی امید ہو، اسے چاہیے کہ نیک عمل کرےاور اپنے مالک کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھرائے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو آخرت پر یقین رکھتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیک عمل کرے اور کسی عمل کے نیک ہونے کے لیے شرط ہے کہ وہ کتاب و سنت کے موافق ہو اور وہ اپنے عمل میں مخلص ہو چنانچہ امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ کسی عمل کے قبول ہونے کے دو ارکان ہیں ایک یہ کہ وہ خالص اللہ کے لیے ہو دوسرے یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے مطابق ہو[تفسیر ابن کثیر۳/۱۰۶]
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما :کتاب اللہ و سنۃ رسولہ[رواہ مالک مرسلا، والحاکم من حدیث ابن عباس و اسنادہ حسن و لہ شاہد من حدیث جابر سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ۱۷۶۱]
میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رکھی ہیں اور جب تک تم انہیں تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے
ایک اللہ کی کتاب اور دوسری چیز اس کے رسول کی سنت
وسیلہ کی قسمیں:
وسیلہ کی دو قسمیں ہیں وسیلہ کونیہ اور وسیلہ شرعیہ
۱)وسیلہ کونیہ سے مراد ہر وہ طبعی اور فطری سبب ہے جو مقصود تک پہونچا دے جیسے کہ پانی پیاس بجھانے اور کھانا بھوک مٹانے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے۔
۲) وسیلہ شرعیہ سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے شریعت نے کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہو جیسے کہ اذان کے بعد مسنون دعا پڑھنا نبی ﷺ کی شفاعت کا اور صلہ رحمی رزق میں فراخی اور وسعت کا وسیلہ اور ذریعہ ہے جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
وسیلہ کونیہ کے معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عقل و تجربہ کی بنیاد پر اس کا درست ہونا ثابت ہو نیز شریعت نے اس سے منع نہ کیا ہو اسی طرح کی چیزوں کے بارے میں فقہاء کہتے ہیں کہ تمام چیزیں اصلا مباح ہیں(الاصل فی الشیاء الاباحۃ) ۔ اور وسیلہ شرعیہ کے معتبر ہونے کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ شریعت سے اس کی ممانعت منقول نہیں بلکہ ثبوت ضروری ہے۔
دعا میں وسیلہ کی شکلیں:
دعا میں وسیلہ کے تعلق سے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وسیلہ کے بغیر بھی دعا قبول ہوتی ہے، اس لیے یہ خیال نہایت غلط ہے کہ وسیلہ کے بغیر جو دعا کی جاتی وہ سنی نہیں جاتی ہے یا یہ کہ نبیوں او ر بزرگوں کے وسیلے سے جو دعا کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے لیے اسے قبول کرنا ضروری ہے۔
اسی طرح سے یہ گمان بھی غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ تک ہماری براہ راست رسائی نہیں ہو سکتی ہے جیسے کہ سیڑھی کے بغیر چھت پر نہیں چڑھا جا سکتا ہے، اس لیے ہمیں جو دعا مانگنی ہے وہ نیک بندوں سے مانگیں اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ہماری سفارش کریں گے اور ہماری مراد پوری کروا دیں گے۔ اس طرح کا عقیدہ شرک تک پہونچانے والا ہے، لہذا اس سے احتراز لازم ہے۔
نیرز وفات یافتہ بزرگوں سے یہ گزارش کرنا بھی ناجائز ہے کہ وہ اللہ کے دربار میں ہماری حاجت و ضرورت پوری کرنے کے لیے دعا فرمائیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ٦ [سورہ غافر:۶۰]
نیز فرمان باری ہے:
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌؕ-اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ-فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ [سورۃ البقرۃ:۱۸۶]
اور اے پیغمبر جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو (آپ ان سے کہ دیجئے کہ ) میں اتنا قریب ہو کہ جب کوئی مجھ کو پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتاہوں، لہذا وہ میری بات دل سے قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں۔
کتاب و سنت میں دعا میں وسیلہ کی مفید اور جائز شکلوں کی وضاحت کر دی گئی ہے اس لیے انہیں تک محدود رہنا چاہیے ۔
۱) اللہ کے نام و صفات کا وسیلہ
اللہ کے اسماء و صفات کےوسیلے سے دعا کرنا مطلوب ہے کیونکہ اس سے دعا کی قبولیت کی امید بڑھ جاتی ہے، چنانچہ قرآن حکیم میں ہے:
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪ [سورۃ الاعراف:۱۸۰]
اور اسماء حسنیٰ (اچھے اچھے نام) اللہ ہی کے ہیں لہذا اس کو انہیں ناموں سے پکارو۔
اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کو ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے:
وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ [سورۃ النمل:۱۹]
اور اپنی رحمت سے مجھے نیک بندوں میں شامل کر لیجیے۔
اور حضرت انس بن مالک وغیرہ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
الظوا بیاذوالجلال والاکرام[جامع ترمذی:۳۵۲۴، مسند احمد:۱۷۵۹۶، سلسلۃ الصحیحۃ: ۱۵۳۶]
یاذو الجلال والاکرام کے ذریعہ دعا کرتے رہو۔
اور حضرت انس ہی سے روایت ہے کہ
کان النبی ﷺ اذا کربہ امر قال یا حی یا قیوم برحمتک استغیث[جامع ترمذی:۳۵۲۴،حدیث حسن ہے]
نبی ﷺ جب کسی معاملے میں پریشان ہوتے تو کہتے : اے حی و قیوم!تیری رحمت کے واسطے فریاد کر رہا ہوں۔
اللہ کی ذات و صفات کے وسیلے سے دعا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ کوئی کہے: اے اللہ! محمدﷺ سے تیری محبت کے واسطے تجھ سے دعا مانگ رہا ہوں۔۔۔ کیونکہ محبت بھی اللہ کی ایک صفت ہے۔
۲) اپنے نیک عمل کا وسیلہ:
جیسے کہ کوئی شخص دعا کرتے ہوئے کہے: آپ پر میرے ایمان کے وسیلے سے، یا آپ سے محبت کے وسیلے سے، یا محمد ﷺ سے میری محبت کے وسیلے سے میری مغفرت فرما دیجئے، اس طرح دعا کرنا بھی پسندیدہ اور مطلوب ہے، چنانچہ درج ذیل آیات میں عمل کے وسیلے سے دعا کا ذکر ہے:
۱-۔ اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِۚ [سورہ آل عمران: ۱۶]
یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں: اے پروردگار: ہم آپ پر ایمان لے آئے پس ہمارے گناہوں کو معاف کر دیجئے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لیجئے۔
۲-۔ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ [سورہ آل عمران:۵۳]
اے ہمارے رب ! آپ نے جو کچھ نازل کیا ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم نے رسول کی اتباع کی ہے لہذا ہمیں ان لوگوں میں لکھ لیجئے جو حق کی گواہی دینے والے ہیں۔
۳ ۔ رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا ﳓ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِۚ [سورہ آل عمران:۱۹۴،۱۹۳]
اے ہمارے رب! ہم نے ایک اعلان کرنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آو ٔچنانچہ ہم ایمان لے آئے، لہذا اے ہمارے رب! ہماری خاطر ہمارے گناہ معاف کر دیجئے ، ہماری برائیوں پر پردہ ڈال دیجئے اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر کے اپنے پس بلائیے۔
۴۔ اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ[سورہ المومنون:۱۰۹]
میرے بندوں میں سے ایک جماعت یہ دعا کرتی تھی کہ: اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لے آئے ہیں ، پس ہمیں بخش دیجئے اور ہم پر رحم فرمائیے اور آپ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے ہیں۔
اور حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو ان الفاظ میں دعا کرتے ہوئے پایا:
اللھم انی اسألک بانی اشھد انک انت اللہ الذی لا الہ الا انت الاحد، الصمد، الذی لم یلد و لم یولد ولم یکن لہ کفواً احد
تو نبی ﷺ نے فرمایا: اس نے اللہ تعالیٰ سے اسم اعظم کے ذریعے دعا مانگی ہے جس کے واسطے سے دعا کرنے سے مراد پوری کر دی جاتی ہے اور اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے[سنن ابو داؤد: ۱۴۹۳، جامع ترمذی:۳۴۷۵، مسند احمد:۲۲۹۵۲]
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ بنی اسرائیل کے تین لوگ بارش سے بچنے کے لیے ایک غار میں پناہ لئے ہوئے تھے اور اوپر سے ایک چٹان کے گرنے کے سبب غار کا راستہ بند ہو گیا، انہوں نے اپنے بعض نیک کاموں کے وسیلے سے دعا کی اور ان کی دعا قبول کر لی گئی اور چٹان وہاں سے ہٹ گیا اور غار کا راستہ کھل گیا[دیکھئے صحیح بخاری:۲۲۷۲، صحیح مسلم :۲۷۴۳]
۳) دین دار شخص سے دعا کی درخواست کرنا:
کسی نیک اور دین دار شخص سے اپنی حاجت کے لیے دعا کی درخواست کرنا بھی حدیث سے ثابت ہے، جیسے کہ کوئی کسی ایسے شخص کے پاس جائے جسے وہ متقی اور پرہیزگار سمجھتا ہے اور اس سے کہے کہ میں فلاں مصیبت میں گرفتار یا سخت آزمائش کا شکار ہوں آپ میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے اس سے نجات دے دے، چنانچہ ایک طویل حدیث کا حاصل یہ ہے کہ لوگ قحط سالی سے دو چار ہو گئے تھے ، اور جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا کہ جانور مر گئے اور فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے ، آپ اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا کیجئے، آنحضور ﷺ نے دعا کے لیے دونوں ہاتھ اٹھایا اور کہا : اے اللہ! بارش نازل کر، اے اللہ! بارش نازل کر، اے اللہ ! بارش نازل کر، اور ابھی آپ کے دست مبارک دعا کے لیے اٹھے ہی تھے کہ زور دار بارش ہونے لگی اور ایک ہفتے تک بارش ہوتی رہی اور دوسرے جمعہ کو خطبہ کے دوران دیہات سے ایک صاحب آئے اور عرض کیا کہ بارش کی وجہ سے گھر گرنے گے، راستے بند ہو گئے، مویشی ہلاک ہو گئے آپ دعا کیجئے کہ بارش بند ہو جائے چنانچہ آنحضرت نے دعا فرمائی اور فوراً بارش بند ہو گئی[دیکھئے صحیح بخاری: ۱۰۱۷ وغیرہ]
اور حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ
ان عمر بن الخطاب کان اذا قحطوا استسقی بالعباس بن عبد المطلب فقال: الھم انا کنا نتوسل الیک نبینا فتسقینا و انا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا، قال فیسقون[صحیح بخاری: ۱۰۱۰ وغیرہ]
قحط سالی کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ کے ذریعے بارش کی دعا مانگا کرتے، انہوں نے کہا: اے اللہ ہم آپ کے نبی ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگتے تو آپ بارش نازل کرتے اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے وسیلے سے دعامانگ رہے ہیں لہذا بارش نازل کر دیجئے چنانچہ بارش ہو جاتی۔
” نبیﷺ کے وسیلے سے دعامانگتے تھے” کا مطلب یہ ہے کہ ان سے دعا کرنے کے لیے درخواست کرتے تھے اور ان کے انتقال کے بعد ان سے دعا کی درخواست ہمارے لئے ممکن نہیں اس لیے ان کے چچا سے دعا کی درخواست کر رہے ہیں چنانچہ حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں :
” اور یہاں جس نوع کا توسل تھا کہ حضرت عباس نے دعا کی اور اس دعا کو وسیلہ بنایا، یہ حضورﷺ کے ساتھ اس لئے نہ ہو سکتا تھا کہ حضور سے دعا کرنا علم و اختیار سے خارج تھا، پس اس سے مطلق توسل بالمیت کا عدم جواز لازم نہیں آتا”[امداد الفتاویٰ۵/۸۹]
اور بعض حدیثوں سے اس توجیہ کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے مستخرج اسماعیل کے حوالے سے مذکورہ حدیث کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
کانوا اذا قحطوا علی عھد النبیﷺ استسقوا بہ فیسقی لھم فیسقون۔۔۔[فتح الباری۲/۳۹۹]
اس روایت میں صراحت ہے کہ صحابہ کرام کے مطالبہ پر رسول اللہﷺ بارش کے لئے دعا کیا کرتے تھے۔
۴) غیر موجود یا وفات یافتہ شخص کے وسیلے سے دعا کرنا:
غیر موجود یافتہ شخص کے وسیلے سے دعا کرنا جائز ہے، مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ: اے اللہ! آپ کے فلاں نیک اور دیندار بندے سے مجھے عقیدت و محبت ہے اور اس عقیدت کے وسیلے سے میری دعا قبول کر لیجئے، یا کہ کہ اللہ کی نگاہ میں کسی شخص کی جو جاہ اور حیثیت ہوتی ہے اس کے بقدر اس پر رحمت متوجہ ہوتی ہے اور اس کے وسیلے سے دعا کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے اللہ جتنا قرب اس کو حاصل ہے اور جتنی رحمت اس پر متوجہ ہے اس کی برکت سے مجھے فلاں چیز عطا فرما دیجئے، اور یہ گزر چکا ہے کہ اپنے نیک عمل کے وسیلے سے دعا کرنا درست ہے اور اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ اس عمل کی جو قدر آپ کے نزدیک ہے اس کی برکت سے اے اللہ! ہم پر رحم فرما، غرضیکہ کسی شخص کے وسیلے سے دعا کرنے کا حاصل یہ ہے کہ اے اللہ! فلاں بندہ آپ کی رحمت کا مرکز ہے اور آپ سے محبت رکھنا رحمت کا سبب ہے اور ہم اس سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں لہذا ہماری دعا قبول فرما، کیونکہ کسی کی ذات سے وسیلہ اس کی ذاتی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ اس میں وہ اوصاف اور خصوصیات پیش نظر ہوتے ہیں جو اللہ کی رحمت کا سبب بھی اور ان کی وجہ سے ہمیں ان سے عقیدت و محبت ہے اور اس کے واسطے سے دعا کی جارہی ہے[دیکھیے التوسل والتسلسل،مناجات مقبول/۲۸۴] اس طرح سے وسیلہ کی یہ قسم بھی دوسری قسم میں شامل ہے لیکن اس کے جواز کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس شخص کو کائنات میں متصرف اور نفع و ضرر کا مالک اور فائدہ و نقصان میں موثر نہ سمجھا جائے اور وسیلہ کی اس قسم کو بھی بعض روایتوں میں بیان کیا گیا ہے، چنانچہ حضرت عثمان بن حنیف سے روایت ہے کہ
ان رجلا ضربوالبصر اتی النبی ﷺ فقال ادع اللہ ان یعافینی ،قال ان شئت دعوت لک وان شئت اخرت ذالک (وفی روایۃ وان شئت صبرت فھو خیر لک فقال ادعہ فامرہ ان یتوضأ فیحسن وضوءہ فیصلی رکعتین و یدعوا بھذاالدعاء اللھم انی اسألک واتوجہ الیک نبیک محمد نبی الرحمۃ یا محمد انی توجہت بک الی رب جی حاجتی ھذہ فتقضی لی، اللھم فشفعہ فی وشفعتی فیہ قال ففعل الرجل فیری)[جامع ترمذی:۳۵۷۸،سنن ابن ماجہ:۱۳۸۵، مسند احمد: ۱۷۲۴۰، معجم طبرانی کبیر۳/۲/۲ ، مستدرک حاکم ۱/۳۱۳]
نبی ﷺ کی خدمت میں ایک نابینا صحابی حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ تعالیٰ سے میری بینائی کے لیے دعا کر دیجئے ، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعاکر دوں اور اگر چاہو تو صبر کرو اور یہ تمہارے لیئے بہتر ہے، انہوں نے عرض کیا: دعا کر دیجیے ،آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ خوب اچھی طرح سے وضو کر کے دو رکعت پڑھو اور ان الفاظ میں دعا کرو:اے اللہ! میں آپ سے درخواست کرتاہوں اور نبی رحمت محمدﷺ کے وسیلے سے آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد! میں نے آپ کے وسیلے سے اپنے پروردگار کی طرف اپنی حاجت کے لیے توجہ کی تاکہ و حاجت پوری ہو جائے ، اے اللہ! محمدﷺ کی سفارش میرے بارے میں قبول فرمالے اور ان کی سفارش کو قبول کرنے کے سلسلے میں میری درخواست منظور فرما، چنانچہ اس نے یہ دعا کی اور اس کی بینائی واپس آگئی۔
اس حدیث کے شروع میں کہا گیا ہے کہ نابینا صحابی نے آنحضرت سے بینائی کے لیے دعا کی درخواست کی اور آخر میں کہا گیا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے اس کے لیے دعا نہیں فرمائی بلکہ اسے دعا دکھلائی کہ ان الفاظ کے ساتھ دعا کرو اور انھوں نے ان الفاظ کے ساتھ دعا کی اور ان کی مراد پوری ہو گئی ،اس طرح سے حدیث ک اول اور آخر میں ایک طرح کا تضاد ہے، دوسرے یہ کہ کسی بھی روایت میں اس کا تذکرہ نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی بلکہ ہر ایک روایت میں مذکورہ دعا کی تعلیم کا ذکر ہے اس لیے ضروری ہے کہ حدیث کے ابتدائی الفاظ میں تاویل کی جائے اور کہا جائے کہ انھوں نے دعا سکھانے کی درخواست کی تھی جسے نبی ﷺ نے منظور فرما لیا ،اور بعض روایتوں سے بھی ا س تاویل کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ محدث حاکم نے مذکورہ واقعہ کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
ان الاعمی قال لہ: علمنی دعاءً ادعو بہ[المستدرک للحاکم:۱۹۲۹]
اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بعض روایتوں کے آخر میں یہ اضافہ ہے
و ان کان لک حاجۃ فافعل مثل ذالک[ذکرھا الشیخ ابن تیمیہ و نسبھا الی ابن ابی خیثمہ قادۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ/۹۴]
دوبارہ کبھی تمہیں کوئی ضرورت پیش ہو تو اسی طرح سے کرنا۔
بعض لوگوں نے اسے شاذ کہ کر رد کرنے کی کوشش کی ہے، مگر واقعہ یہ ہے کہ حماد ابن سلمہ ایک قابل اعتماد راوی ہیں ،اور امام مسلم نے ان کے واسطے سے روایت نقل کی ہے اور انہوں نے کسی راوی کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ ایک زائد بات نقل کی ہے اور وکوئی حدیث شاذ اس وقت ہوتی ہے جب ثقہ شخص اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت کرے اور یہاں مخالفت نہیں بلکہ اضافہ ہے اور ثقہ راوی کا اضافہ معتبر ہے۔
اور محدثین نے بھی مذکورہ روایت کے الفاظ سے یہی سمجھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو دعا کی تعلیم فرمائی نیز وہ دعا نہ اس وقت کے لیے خاص تھی اور نہ اس نابینا کے ساتھ بلکہ ہر شخص کسی بھی وقت اپنی ضرورت کے لیے مذکورہ الفاظ کے ساتھ دعا کر سکتا ہے، چنانچہ انہوں نے اس دعاکو ان کتابوں میں نقل کیا ہےجس میں اور اد و وظائف اور مسنون دعائیں ذکر کی جاتی ہے جیسے امام نسائی اور ابن سنی کی کتاب ” عمل الیوم واللیلۃ” اور امام نووی کی کتاب”الاذکار” اور امام منذری کی کتاب” الترغیب ” میں مذکور دعا موجود ہے۔
اور امام ابن ماجہ نے اس دعا پر عنوان قائم کیا ہے”باب ماجاء فی صلاۃ الحاجۃ” (نماز حاجت کا بیان) اور محدث حاکم نے عنوان لگایا ہے”باب دعاءرد البصر”(بینائی کی واپسی کی دعا) اور امام حیثمی نے عنوان قائم کیا ہے” باب صلاۃ الحاجۃ”(نماز حاجت کا بیان) اور ابن سنی کا عنوان ہے”باب مایقول عن ذھب بصرہ” (جس کی بینائی چلی گئی ہو وہ کیا دعا کرے) اور ابن خزیمہ کا عنوان ہے” باب صلاۃ الترغیب وا لترھیب”(رغبت ورھبت کی نماز کا بیان) اور امام منذری کا عنوان ہے”باب الترغیب فی صلاۃ الحاجۃ و دعائھا” (نماز حاجت کی ترغیب اور اس کی دعا کا بیان) اور امام نووی نے "باب اذکار صلاۃ الحاجۃ” (نماز حاجت کی دعائیں) کے عنوان کے ذیل میں اس دعا کو ذکر کیا ہے۔
اور مذکورہ دعا میں یہ جملہ بھی ہے: اللھم شفعہ فی(اے اللہ ! نبی کریم ﷺ کی میرے معاملے میں سفارشی بنا دے)اور حقیقت یہ ہے کہ وسیلہ بھی ایک طرح سے سفارش ہے، بس فرق یہ ہے کہ شفاعت میں سفارش کرنے والا بذات خود ضرورت مند کی ضرورت اور اس سے اپنے تعلق کا ذکر کرتا ہےاور اس کی تکمیل کے لیے گفتگو کرتا ہے،اور وسیلہ میں خود ضرورت مند اپنی ضرورت کو صاحب وسیلہ کے ساتھ اپنے تعلق اور لگاؤ کو بیان کرتا ہے۔
حضرت عثمان بن حنیف سے منقول ہے کہ ایک شخص اپنی کسی ضرورت کے لیے متعدد بار حضرت عثمان غنی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن انہوں نے مشغولیت کی بنا پر ان کی طرف توجہ نہیں کی، پھر وہ حضرت عثمان بن حنیف کے پاس آئے اور صورت حال بتلائی انہوں نے کہا کہ تم وضو کر کے مسجد میں جاؤ اور دو رکعت نماز پڑھو اور پھر یہ دعا کرو
اللھم انی اسألک و اتوجہ الیک نبینا محمد نبی الرحمۃ یا محمد انی اتوجہ بک الی ربک عزوجل فیقضی لی حاجتی
اےاللہ! میں آپ سے درخواست کرتا ہوں اور نبی رحمت محمد ﷺ کے وسیلے سے آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہو ں ،اے محمد! میں نے آپ کے وسیلے سے اپنے پروردگار کی طرف توجہ کی تاکہ وہ میری ضرورت پوری کر دے، اور اس کے بعد میر ے پاس آؤ میں تمہارے ساتھ ان کے یہاں چلوں گا۔ وہ نماز اور دعا کے بعد سیدھے حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور جاتے ہی دربان نے انہیں حضرت عثمان کے پاس پہونچا دیا، انہوں نے ان کو اپنے ساتھ قالین پر بٹھایا اور پوچھا کیا کسی ضرورت سے آنا ہوا ہے، انہوں نے اپنی ضرورت بتلائی جو فوراً پوری کر دی گئی اور پھر معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری درخواست مجھے یاد نہیں رہی تھی اور ابھی یاد آئی ہے اور جب بھی کوئی ضرورت پیش آئے ہمارے پاس حاضر ہوجائے ، وہ وہاں سے حضرت عثمان بن حنیف کے پاس پہونچے اور کہا: اللہ آپ کو بہتر بدلہ عنایت کرے کہ پہلے تو وہ میری ضرورت پر غور کرے کے لیے تیار نہیں تھے اور نہ ہی میری طرف متوجہ ہوئے تھے لیکن آپ کی سفارش کی وجہ سے میرا کام پورا ہو گیا، انہوں نے کہا میں نے کوئی سفارش نہیں کی ہے، البتہ میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں، رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھا کہ ایک نابینا آیا اور کہا کہ ان کی بینائی ختم ہو گئی ہے ، نبی ﷺ نے کہا صبر کرو، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ہے اور میرے لئے یہ مسئلہ بڑا پریشان کن ہے، نبی ﷺ نے فرمایا کہ :جاؤ وضو کرو پھر نماز پڑھ کر مذکورہ دعا مانگو، اللہ کی قسم! ہم لوگ ابھی وہیں گفتگو میں مشغول تھے کہ وہ صاحب ہمارے پاس آئے بالکل بھلا چنگا اور لگتا ہی نہیں تھا کہ ان کی بینائی چلی گئی تھی۔
اس روایت کو امام طبرانی نے معجم صغیر و کبیر میں نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ حدیث صحیح ہے[معجم صغیر،۱/۱۸۴] بعض لوگوں نے حدیث کے ایک راوی ابن وھب کی وجہ سے اس پر کلام کیا ہے لیکن یہ روایت ابن وھب کے ساتھ اسماعیل اور احمد سے بھی منقول ہے اس لیے لائق استدلال ہے۔
غرضیکہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نابینا شخص کو آنحضرت ﷺ نے قبولیت دعا کے لیے جو طریقہ بتلایا تھا وہ اس عہد کے لئے خاص نہیں تھا بلکہ ہر زمانے میں اس طریقے کو اپنایا جا سکتا ہے اور وسیلہ کی اس شکل کے جواز اور ثبوت میں کوئی شبہ نہیں ہے، البتہ اگر اندیشہ ہو کہ لوگ غیر اللہ کے لیے قدرت و تصرف اور اختیار کے عقیدے میں مبتلا ہو جائیں گے یا اس فاسد گمان کا شکار ہو جائیں گے کہ جن کے وسیلے سے دعا کی جاتی ہے وہ اللہ کے ارادے و فیصلے پر اثر انداز ہوتے ہیں یا یہ کہ اس طرح سے اگر دعا نہ کی جائے تو وہ قبول ہی نہیں ہوگی تو اس سے احتراز کرنا چاہئے۔