اساتذہ:
1-فقیہ العصر ،شیخ الاسلام حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم ۔
اس کارواں کے ایک اہم شہسوار عزیز گرامی قدر مولانا ولی اللہ مجید قاسمی سلمہ اللہ تعالی ہیں انہوں نے دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم اسلامی درسگاہ سے فراغت حاصل کی ہے ،پھر فقہ میں تخصص کیا ہے ،اس کے بعد بعض مخطوطات پر تحقیق و تعلیق کا کام بھی انجام دیا ہے۔ اور اب کافی عرصے سے جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ میں حدیث اور فقہ کی منتہی کتابوں کا درس دے رہے ہیں بخاری شریف بھی ان کے زیر درس رہی ہے ،وہ طالب علمی کے زمانے میں بھی ایک ہونہار اور فہیم و سلیم طالب علم تھے اور ان کی صلاحیت و صالحیت روشن مستقبل کا پتہ دیتی تھی ۔اور اب یہ خواب ایک حقیقت ہے وہ ایک پہلو سے میرے محسن بھی ہیں اس لیے کہ مجھے ایک عرصہ سے خود لکھنے کے بجائے املا کرانے کی عادت ہے چنانچہ کئی سالوں تک خوشخط اور رموز تحریر سے واقف ہونے کی وجہ سے نیز مزاج و مذاق میں مناسبت و ہم آہنگی کی وجہ سے میں ان ہی کو اپنی تحریریں املا کرایا کرتا تھا۔فجزاہ اللہ خیر الجزاء ۔
ماشاءاللہ انہیں لکھنے پڑھنے کا اچھا ذوق ہے اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار وں میں ان کے مقالات قدر و وقت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور میرا تجربہ ہے کہ وہ کسی مسئلے پر غور کرنے میں شارح کی نصوص فقہاء کی تصریحات اور اپنے عہد کے مقتضیات تینوں پہلوں کو سامنے رکھتے ہیں۔ شاید یہ ذوق و مزاج کی ہم آہنگی کی بات ہوگی کہ اس حقیر کی اور ان کی رائے کے درمیان خاصی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ یہ بات ان کے لیے باعث مدح ہے یا باعث ذم مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کمال مناسبت کی وجہ سے کہیں کہیں ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے مجھے اپنی تحریر ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اللہ تعالی ان کی عمر میں خوب خوب برکت عطا فرمائے اور ان کا جذبہ علم و تحقیق ہمیشہ تازہ رہے۔ (28نومبر 2013ء)
2-استاذ محترم مولانا محمد کوثر صاحب اعظمی سابق استاذ ریاض العلوم گورینی جونپور ۔
ادھر دوتین دن سے فلسطین عموما اور غزہ پر خصوصا آپکی تحریر کا انتظار تھا اوروکل وہ انتظار خوشی میں تبدیل ہوا گو یہ مضمون 2002ء کالیکن فلسطین کی دینی اھمیت اور 1967کی جنگ تک کی بڑی مختصر، صحیح اور جامع تاریخ ہے جسے قوم مسلم کو جاننا از حد ضروری ہے۔ ماشاءاللہ آپکے علمی مقالات اور مضامین طلاب علم اور علماء کیلۓ مشعل راہ ہیں۔ زندہ مضامین کا انتخاب، حسن ترتیب، دلائل کی قوت، سہل اسلوب، زبان کی سلاست اور موضوع کا کماحقہ احاطہ اور ڈھیر سارے اوصاف آپکی تحریر کو جلا بخشتے ہیں۔ میرے جیسے کم علم لوگوں کی تعریف سے آپکو قطعا ذرا بہی عجب نہیں ہوگا لیکن اگر یہ غلطی ہے تو حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے بہی آپکی تحریر کو اپنی تحریر کے مشابہ اور مماثل قرار دیکر کی ہے ۔
معاصرین:
خصوصی پروگرام
انٹرویو پاسبان علم و ادب
5/ اکتوبر/ 2018
*جو ہوائیں ترے دامن سے لپٹ کر آئیں*
*ان ہواوں کی بہت ھم نے پذیرائی کی*
پاسبان علم و ادب کے دلچسپ انوکھے ہفتہ واری خصوصی پروگرام:
*پاسبان کی عدالت*
میں آج بحیثیت مہمان خصوصی ایک ایسی عظیم ہستی کی تشریف آوری ہوئی جو تقریبا تین دہائیوں سے اپنی زبان وقلم سے علمی خدمات انجام دے رہی ہے آج کے انٹرویو میں اس قیمتی و انمول جوہر کے پاکیزہ عرق کو کس طرح کشید کیا گیا لیجئے پیش خدمت ہے ۔
"پروگرام پاسبان کی عدالت میں”
1-از:مولانا وڈاکٹر ارشد قاسمی اعظمی صاحب:*
معزز اراکینِ پاسبان
پاسبان کے عالمی شہرت یافتہ پروگرام ” پاسبان کی عدالت ” میں آپ تمام لوگوں کا پرجوش خیر مقدم ہے ۔ اس ھمہ جہت ، کثیر المقاصد پروگرام میں آج جو علمی و ادبی شخصیت جلوہ افروز ہے اسکا نامِ گرامی مولانا ولی اللہ مجید قاسمی ہے ۔ مولانا دیارِ مشرق کی ایک عظیم دینی درسگاہ جامعۃ الفلاح اعظم گڈھ میں شیخ الحدیث ہیں تین دہایئوں سے حدیث اور فقہ انکا میدان رہا ہے علمی حلقوں میں انکے تبحرِ علمی ، فقہی بصیرت ، اعلی ادبی ذوق کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے ۔ فقہی سیمیناروں میں انکے مقالے فیصلہ کن اھمیت کے حامل ہوتے ہیں انکی تصنیف کردہ کتابیں مراجع کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس سنجیدہ مزاج ، باوقار ، بردبار ،جہاں دیدہ شخصیت کے علمی ، تحقیقی مضامین ملک کے صفِ اول کے جرائد میں شائع ہو کر خراجِ تحسین حاصل کرچکے ہیں ہمیں خوشی ہے کہ آج انھوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود ہمارے لئے وقت نکالا ہم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ممنون و مشکور ہیں اور امید کرتے ہیں کہ دوسرے انٹرویوز کی طرح یہ انٹرویو بھی تاریخی حیثیت کا حامل ہوگا ۔ انکی شخصیت کی دبیز تہوں سے جو علمی جواہر پارے نکلیں گے وہ ہمارے قارئین کے لئے باعثِ استفادہ ہونگے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2-*مفتی محمد یاسر صاحب*
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی میانہ قد،خاموش مزاج،متواضع اور خلیق ہیں،نہ زیادہ گوشہ نشیں نہ ہی زیادہ جلوت نشیں،مسکراتا چہرہ اور چمکتی آنکھیں ان کی ذہانت و فطانت کی شہادت دیتی ہیں ،موصوف علم دوست اور علم نواز ہیں ،ہم خوردوں کی حوصلہ افزائی کا انداز بڑا سجیلا اور البیلا ہے،بولیں تو اپنی شیریں مقالی سے فریفتہ کرلیں ،لکھیں تو داد تحقیق دینے پر مجبور کردیں،جو ملے کھل اٹھے،نظر پڑے تو ان کے کمال علم کا معترف ہوجائے،مولانا کے بارےمیں میرا ایسا ہی کچھ خیال رہا ہے،آج کا یہ انٹرویو بڑا ہی کامیاب رہا،یقینا علم ایک ایسا سکہ ہے جو سب پر چلتاہے اور خوب چلتاہے،آج کا یہ انٹرویو میرے لئے بڑا مفید رہا کہ اس میں ایک طالب علم کی زندگی سے لیکر ایک محقق فقیہ اور مدرس کی پاکیزہ زندگی کے تجربات کا حسین گلدستہ الفاظ کے سانچوں میں ڈھل کر میری زندگی میں اپنی غفلت اور بے بضاعتی کا احساس پیدا کررہا تھا تو دوسری طرف صاحب انٹرویو کی ہمالیائی شخصیت کے مزید اعتراف پر مجبور کررہا تھا،مناسب سوالات اور مناسب جوابات نے اس انٹرویو کو بڑا خوش گوار اور یادگار بنادیا،میں اپنی طرف سے مولانا کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی قیمتی وقت کو فارغ کرکے یہ حسین ماحول پیدا کیا نیز اس کامیاب انٹرویو کے لئے خطیب دوراں مولانا محبوب عالم صاحب اور ادیب بے مثال مولانا ڈاکٹر الحاج محمد ارشد صاحب قاسمی اور ترجمان صاحب کے لئے ہدیہ تبریک و امتنان پیش کرتا ہوں کہ آپ حضرات کے صدقے ہم لوگ مولانا سے مستفید ہوئے،اللہ تعالی دین حنیف کی خدمت کے لئے ہم سب کو قبول فرمائیں
محمد یاسر قاسمی
3-*مولانا صادق صاحب قاسمی*
ماشاء اللہ مولانا ولی اللہ مجید صاحب کا انٹرویو بہت ہی شستہ شگفتہ گوشہاے زندگی کے بیش بہا پھولوں سے مزین خوشنما گلدستہ زیور علم وادب سے مرصع ان کی علمی استعداد ووصلاحیت کے تئیں معلومات افزا تصنیف وتالیف خاص طور پر فقہی بصیرت میں ان کا سکہ تدریسی خدمات پر مشتمل طویل عرصہ علم و علماء سے تعلیمی و روحانی رشتہ عرب و عجم کی دینی کتابوں سے ہمہ وقت وابستہ افکار و خیالات کے اظہار میں مخلصانہ جذبہ اور دوران انٹرویو سنجیدگی و متانت عالمانہ شان وشوکت اور باوقار طریقے سے صاف شفاف انداز میں ان کے جوابات نے ان کی شخصیت کو مزید پر کشش بنادیا ہے نظریاتی اعتبار سے مختلف ادارہ میں تدریس کے فرائض انجام دینا اور پھر اپنی فکر پر باقی رہنا واقعتا یہ مولانا کی وسعت ظرفی کے ساتھ تصلب فی الدین اور عقائد واحکام میں پختگی کی بین دلیل ہے اور پھر اس ادارے سے متعلق تمام تر سوالات کے جوابات پوری دیانتداری کے ساتھ بغیر کسی خوف و خوشامد کے منصہ شہود پر لانا خشیت الہی سے معمور ہوکر صدق بیانی کی واضح مثال کی غمازی کرتا ہے گرچہ مولانا سے بالمشافہہ ملاقات کا شرف نہیں ہوسکا لیکن انٹرویو کے ذریعے مولانا نے اپنی خانگی تعلیمی تربیتی تصنیفی علم دوستی اور علماء سے تعلق وغیرہ کے حوالے سے جن رازہاے سربستہ کو آشکارا کیاہے وہ قابل رشک اور لائق تقلید وتحسین ہیں اللہ رب العزت مولانا ولی اللہ صاحب کی تما م مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نواز کر دونوں جہان میں سرخروئی نصیب فرمائے اور مزید دینی خدمات کی توفیق بھی عطا فرماے
طالب دعا
صادق قاسمی خیرابادی
3-*مولانا ضیاءالحق صاحب خیرآبادی (حاجی بابو)*
*اظہار حال واقعی*
*مولاناولی ﷲ مجید صاحب* ایک سنجیدہ ، متین اور صاحب علم وقلم شخصیت کے مالک ہیں۔ استاذی حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی علیہ الرحمہ سے شرف تلمذ اور خصوصی تعلق کی وجہ سے ایک عرصہ سے گہرے دوستانہ مراسم ہیں ۔ جب موصوف جامعة الفلاح میں مدرس ہوگئے تو فاصلے سمٹ گئے ، وہ پوری پابندی سے اتوار کو شیخوپور آتے اور اکثر مولانا کے درس قرآن میں شرکت کے لئے اعظم گڈھ بھی جاتے۔ میں نے شمع علم کے پیچھے پگھلنے والے ان جیسے افراد کم دیکھے،میں دیکھتا تھا کہ جب وہ آتے تھے تو کوئی نہ کوئی علمی مسئلہ لے کر آتے تھے اور مولانا سے تبادلہ خیال کرتے تھے ، جامعة الفلاح کے ماحول میں رہنے کی وجہ سے بعض مسائل میں ان کے اندر ضرورت سے زیادہ و سعت محسوس ہوتی تو مولانا ان کو دلائل کے ذریعہ قائل کرتے ، میں ان مواقع کا منتظر رہتا ، اور کافی دلچسپی کے ساتھ ان دونوں حضرات کی باتیں سنتا تھا۔
ورنہ عام حالات میں مولانا ولی ﷲ صاحب کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان ہیں ،اس انٹرویو میں انھوں نے اپنے وطن ودیار، گھر خاندان ، اور تعلیمی احوال کا بہت اچھے انداز میں اختصار کے ساتھ ذکر کیا۔خصوصاً جامعة الفلاح کی بعض ایسی خصوصیات کا ذکر کیا جو قابل تحسین اور لائق تقلید واتباع ہیں ،
جیسے”یہاں کی دوسری خوبی یہ ہے کہ کسی کو یہ اندیشہ نہیں رہتا کہ بیک جنبش قلم اسے باہر کا راستہ دکھا دیا جائیگا اور اگر کوئی نظم کی پابندی نہیں کرتا ہے تو اسے متعدد بار نوٹس دی جاتی ہے اور اس پر بھی باز نہ آنے پر انکریمنٹ روک لیا جاتا ہے اور آخری حد یہ ہے کہ کسی دوسرے شعبے میں منتقل کر دیا جائے ،میری یاد داشت کے مطابق کسی بھی مستقل استاذ کو ابھی تک نکالا نہیں گیا ہے”
ان کی یہ بات بہت پسند آئی:
”یہاں قانون کی حکمرانی ہے اس لئے ناظم کے آگے پیچھے رہنے ،مہتمم کے سامنے بچھے رہنے اور صدر مدرس کی چاپلوسی کی ضرورت نہیں پڑتی ،……….اور ذمہ دارن کے ساتھ وقتا فوقتا میٹنگ ہوتی رہتی ہے جس میں ان پر نقد کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے۔”
انھوں نے اس سلسلے میں اس قدر کھل کر جواب دئے جس کی توقع ان کے مزاج و مذاق کی وجہ سے مجھے قطعاً نہ تھی ۔ کاش ارباب مدارس اس پر غور کریں اور اسے اپنے نظام کا حصہ بنالیں۔
فقہ وحدیث مولانا کا خصوصی میدان ہے ، ان کے جوابات سے ان کی علمی گہرائی و گیرائی اور فقہی بصیرت کا اندازہ ہورہا ہے ، خصوصاً ابتداء میں ڈاکٹر ارشد صاحب اور اخیر میں مفتی یاسر صاحب کے سوالات کے جوابات سے۔ البتہ تواتر عملی والی بات تشنہ رہ گئی اس کی مزید وضاحت کرنی چاہئے ورنہ لوگ سو دو سوسال کے تواتر کو بھی پیش کرکے راہ سے بھٹکانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جامعة الفلاح کے تعلق سے ان کی یہ باتیں وہاں کے ارباب انتظام کے لئے لمحۂ فکریہ ہیں:
” طلبہ پر عصری علوم کا غلبہ ہوتا ہے وہ یونیورسٹی میں جانے کے مقصد سے یہاں آتے ہیں اور اپنے مقصد کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں……..یہاں کے نصاب سے غیر مطمئن ہوں اور بقدر ضرورت ہی عصری علوم کو داخل کرنے کا خواہش مند ہوں اسی کے ساتھ طلبہ کی ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے”
اتحاد واتفاق کے سلسلے میں مولانا کی یہ بات بہت ہی سہل اور قابل عمل ہے :
”ضرورت ہے کہ اصولی مسائل میں اتفاق ہو اور فروعات میں آزادی دی جائے اور اس ضابطہ پر عمل کیا جائے کہ اپنا مسلک چھوڑو نہیں اور دوسرے کو چھیڑو نہیں”
لیکن اب قوم کے اندر جو شدت اور عدم برداشت کی کیفیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے اس میں یہ بھی ناممکن نہیں تو دشوار تر ضرور ہے۔
مولانا ولی ﷲ صاحب نے کافی کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ، اور اختصار و احتیاط کے ساتھ اپنی اکثر باتیں کہہ دیں۔ جس کی روشنی میں عمل کرنے والے بہت سہولت سے اپنے لئے شاہراہ عمل کو متعین کرسکتے ہیں۔
اس کامیاب انٹرویو کا نظم وضبط بھی مثالی رہا ، جس پر تمام منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں ،ﷲ تعالیٰ اسے خوب سے خوب تر بنانے کی توفیق عطا فرمائیں ۔
نقاش نقشِ ثانی بہتر کشد ز اول
*ضیاء الحق خیر آبادی حاجی بابو*
4-مولانا ابن الحسن قاسمی صاحب*
۔
*علم کی معتبر شخصیت*
(مولانا ولی اللہ مجید قاسمی)
مولانا مفتی ولی اللہ مجید قاسمی سے واقفیت زمانہ طالب علمی میں ماہنامہ *ضیاء الاسلام* کے توسط سے علم کے راستہ سے ہوئی، ان کی شخصیت سے واقفیت بعد میں ہوئی، *سنت ونفل نمازیں* ، *فرض نمازوں کے بعد دعا کی اہمیت* وغیرہ مضامین بہت ذوق وشوق سے پڑھا جاتا تھا، ان کی عام فہم تحریر بہت اچھی ہوتی ہے ۔
مولانا بہت سنجیدہ اور اپنے کام سے کام رکھنے والے،علمی آدمی ہیں، ان سے ملاقات کے بعد مشکل سے یقین ہوپاتا ہے کہ کتابوں میں نظر آنے والے ولی اللہ مجید یہی ہیں ۔
ان کا انٹرویو کئی لحاظ سے ممتاز ہے ۔
ان کے انٹرویو سے بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں،
موصوف کا فقہ سے گہرا لگاو،اور اس پر مبصرانہ نگاہ،قابل قدر ہے ۔
فی زمانہ فقہ کی کس زاویہ سے خدمت کی جائے مولانا کی رہنمائی لائق توجہ ہے ۔
مدارس کے نظام کے تعلق سے *جامعة الفلاح* کو جو وقعت مولانا نے دی ہے، وہ بھی لائق تقلید ہے۔
مولانا کے بہت سے جواب تشنہ رہ گئے بالخصوص فقہ حنفی کے تعلق سے ۔
میری خواہش ہے کہ مولانا کا انٹرویو ایک بار اور ہو جس میں صرف فقہ کے متعلق سوالات کیے جائیں ۔
ابن الحسن قاسمی
۔
5-*مولانا ذاکر ندوی صاحب*
تم اس خموش طبیعت پہ طنز مت کرنا
وہ سوچتا ہے بہت اور بولتا کم ہے
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی صاحب کی شخصیت کی سچی تصویر کشی مندرجہ بالا نواز دیوبندی کے اس شعر سے ہوتی ہے۔ ابھی تک ناچیز مولانا موصوف کی کم گوئی، علم دوستی، علم پروری، بحث وتحقیق سے مثالی دلچسپی، اور فن تدریس میں انکی قابل تقلید مہارت کا قائل تھا، مگر جس بے باکی، جرات اور اعتماد کے ساتھ انہوں جامعۃ الفلاح کے انتظامی امتیازات اور اکثر مدارس کے کمزور انتظامی پہلووں پر دل کھول کر اپنا موقف رکھا قابل ستائش ہے، ورنہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہماری اکثریت منتظمین مدارس کے تعلق سے خاموشی کو ترجیح دیتی ہے۔ مشہور زمانہ کتاب ”الفقہ السنہ” کا ترجمہ مولانا کو علمی دنیا میں ہمیشہ زندہ جاوید رکھے گا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ناچیز مولانا موصوف کی شخصیت اور انکے کام کی جہتوں اور انکی علمی جولانگاہ سے خاطر خواہ واقفیت نہیں رکھتا تھا، مگر کل کے انٹرویو کے ذریعہ موصوف کی علمی وعملی زندگی کے ایسے پہلووں سے واقفیت کا موقع ملا جو ہم طالبعلموں کے لئے مشعل راہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ رب کریم سے دعا ہے کہ مولانا کا علمی سفر اسی آب وتاب کے ساتھ رواں دواں رہے۔
پرواز کامیابی کی بس اتنی شرط ہے
چاہت حصار نفس کے اندر سمیٹ لو
انتظامی لحاظ سے انٹرویو سابقہ تمام انٹرویوز سے ممتاز تھا جس کے لئے پورا انٹرویو پینل مبارکباد کا مستحق ہے۔
6-*ایڈمن اعلی:مولانا شفیق اعظمی قاسمی صاحب*
،،ان ہواوں کی بہت ھم نے پذیرائی کی،،
اس ہفتہ ،،پاسبان کی عدالت،، میں بڑی اھم شخصیت کی حاضری ہوئی تھی اسی لئے بڑی معیاری اور قیمتی باتیں بھی سامنے آئیں، مفتی ولی اللہ مجید قاسمی صاحب دار العلوم دیو بند میں Room Mate تھے ، رات دن کا ساتھ ، ایک دوسرے کو سمجھنے ، پرکھنے اور برتنے کا سنہرا موقع ملا ،میں طبعا کم گو تھا تو وہ خاموش طبع تھے دونوں کا زیادہ تر وقت اپنے اپنے علمی مشاغل میں گذرتا تھا، اس ھم مزاجی سے یہ فائدہ ہوا کہ نہ بلاوجہ کہ بحث و تکرار، نہ لایعنی گفتگو، نہ دوسرے کمروں کے ساکنین کی طرح توتو میں میں ، آج بھی ان میں وہی متانت ، یکسو ہوکر کام کرنے کا مزاج ھے اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت زود نویس اور معیاری مقالات، عمدہ زبان ، جچی تلے انداز میں حشو و زواید سے مبرا عبارت لکھنے میں کمال رکھتے ہیں ، ان کے جوابات ان کی صلاحیت و استعداد کے غماز اور سنجیدہ اسلوب کی مثال ہیں ۔
ان کے اندر جو مختلف کمالات کے امکانات اس وقت محسوس کئے جا رہے تھے آج حقیقت کی شکل میں ہم دیکھ رہے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ ،،ایک تندرست دماغ کے لئے ایک تندرست جسم کی ضرورت ہوتی ہے ،،
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی صاحب کی شخصیت دونوں لحاظ سے نہ صرف خوبصورت ہے ،بلکہ باعث کشش اور قابل رشک بھی ھے ۔
ظاھر دیکھنا ہوتو ان کے پیکر وجود کو جامعة الفلاح جیسے معیاری ادارے کی بھاگ دوڑ میں مصروف کامیابی کی منزلوں کو پاوں تلے روندتے ہوے دیکھ لیجئے ۔
اور اگر ان کی باطن کی خوبصورتی دیکھنا ہو تو آج کے انٹرویو میں اس باکمال شخصیت کے علمی کمالات دیکھئے ۔
پاسبان کی عدالت میں جس اعتماد اور سنجیدگی و متانت کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کیا اس پہلے پاسبانی عدالت نے شاید یہ منظر نہیں دیکھا ۔
جو ہوائیں ترے دامن سے لپٹ کر آئیں
ان ہواوں کی بہت ھم نے پذیرائی کی
شفیق قاسمی ، اعظمی
از ابوظبی
7-*مولانا منصور قاسمی صاحب*
سوشل میڈیا کا پروگرام ” پاسبان کی عدالت میں ” جو دور حاضر میں افادیت اور مقبولیت کی نئ تاریخ رقم کررہا ہے ۔
حضرت مولانا ولی اللہ مجید شیخ الحدیث مدرسۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڈھ کا انٹرویو اس "سلسلۃ الذھب ” میں ایک حسین اضافہ تھا
دو اہم ‘ علمی ‘ ادبی شخصیات ( حضرت مولانا محبوب عالم ‘ جناب ڈاکٹر ارشد قاسمی صاحبان) بحیثیت سائل مہمان موصوف کے رو برو ہوئے جس سے تشنگان علوم و معارف کے سامنے آب حیات کے چشمے بہ پڑے
یقین جانئے جس طرح دو پہلوانوں کی ٹکر سے فن کشتی کے مخفی نئے داؤ پیچ کھلتے ہیں اسی طرح جب اہل علم کا حسین ٹکراؤ ہوتا ہے روحانی مریضوں کے لئے نت نئے نسخہ شافی ملتے ہیں
گزشتہ رات ہونے والے پروگرام کوایک انٹرویو کے بجائے اسے علمی فقہی ، اخلاقی سیمنار کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے
مہمان خصوصی حضرت مولانا ولی اللہ مجید صاحب دامت برکاتہم کا سکوت و تکلم، علم وعمل روشن زمانہ کے تاریک ذہنوں کیلئے درس ہے، سبق ہے مینارہ نور ہے
اللہ ہم سبکو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے
منصور احمد
8-*مولانا فرقان سیف صاحب*
پاسبان کے مشہور و معروف پروگرام میں مہمان جناب مولانا ولی اللہ مجید حفظہ اللہ تھے،
جن کے صرف نام سے آگاہی تھی (وہ بھی انٹرویو کے اعلان کےبعد ہوئی) علم و فضل سے ناواقف تھا،
میں عموماً انٹرویو کو مرتب ہونے کے بعد پڑھتا ہوں،
لیکن ہمارے فاضل مہمان نے اس بار اس ترتیب کو زیر و زبر کردیا،
ایک جواب پڑھا تو پھر فاضل مہمان کی بلاغت و حسن جواب نے موبائل کی اسکرین سے نظر کو ہٹنے نہ دیا،
جواب کیا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ملک کے طول و عرض میں بکھرے کروڑوں انسانوں کی ترجمانی ہو رہی ہے،
مختصر مگر جامع،
الفاظ کا انتخاب، جملوں کی ساخت، تصنع اور بناوٹ سے پاک، فصاحت و بلاغت سے پر، تعریف کا سلیقہ، تنقید کا البیلا اسلوب، خوف و دہشت سے پاک جوابات، اپنے ہی ادارے کی سقم و صحت پر عادلانہ منصفانہ کمینٹ، یہ وہ اوصاف حمیدہ تھے جو ہر جواب کے ساتھ اپنا حسن و جمال بزم پاسبان میں انڈیل رہےتھے،
جہاں مجھ جیسے کم علم کو قدیم صالح اور جدید نافع کا شاندار امتزاج نظر آیا،
رب کعبہ سے دعاء گو ہوں کہ حضرت کو دارین کا شہزادہ بنائے،
اور ذمہ داران پاسبان کو اجر عظیم عطاء فرمائے!
9*مولانا ابو ذرصدیقی صاحب*
*علم کے افق کا روشن ستارہ*
دارالعلوم کے بحر بیکراں سے سیراب مولانا اعجاز احمد قاسمی نوراللہ مرقدہ سے فیض یافتہ پاسبان علم و ادب کی مشہور شخصیت علم میں یکتا فقہ و فتاوی سے وابستہ کم گو مگر جو بھی بولیں دلیل سے ثابت کریں حنکی بات خود ایک دلیل کئی مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابوں کے مصنف سنجیدہ مزاج اختلافی مسائل سے کوسوں دور بڑوں کی قدر کرنے والے اپنے چھوٹوں پہ شفقت و مہربانی کا دریا بہانے والے انداز تنبیہ انوکھا اور نرالا جس کو *ولی اللہ مجید قاسمی* کے نام سے جانا جاتا ہے کل رات پاسبان کی عدالت میں حضرت موجود تھے اور ہمارے انٹرویور ان سے سوالات کررہے تھے اور حضرت بڑی سنحیدگی کیساتھ ان سوالات کے جوابات دے رہے تھے کئی اہم موضوع پر سوال کیا گیا اور مولانا نے اپنی فہم عظیم سے سب کا تشفی بخش جواب بھی دیا مدرسے کی تعلیم کے متعلق بھی سوال پوچھا گیا حضرت نے اس کا بھی جواب دیا سیاست کے متعلق ترجمان پاسبان نے پوچھا تو اس کا بھی مختصر مگر مطول جواب ملا اس سے پہلے بھی پاسبان کے پلیٹ فارم سے کئی عظیم ہستی کا انٹر ویو ہوا مولانا ضیاءالحق عرف حاجی بابو کا مفتی شرف الدین عظیم اعظمی صاحب کا ترجمان پاسبان مولانا خالد صاحب کا ڈاکٹر ارشد صاحب کا محبوب پاسبان مولانا محبوب صاحب کا اسی طرح پاسبان کے ترانہ کے خالق مولانا فضیل احمد ناصری وغیرہم کا انٹرویو ہوا مگر ان تمام انٹرویو میں یہ انٹرویو بہت عمدہ رہا ہے اور سنجیدہ بھی جس کیلئے میں تمام انٹر ویو پینل کو مبارکباد پیش کرتا ہوں
اور اخیر میں بس یہی دعا ہیکہ اللہ پاسبان علم و ادب کی پاسبانی کرتا رہے اور اس میں موجود گہر و لعل و زمرد کی تمام آفات و بلیات سے حفاظت کرتا رہے آمین
محمد ابوذر صدیقی
یکے از ممبران پاسبان علم و ادب
10-*مولانا محمد اکرم قاسمی صاحب*
اسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
کل ایک مشہور زمانہ شخصیت کا انٹرویو لائق ستائش ہے ، شہرت و بلندی انکا مقدر ہے ، — ع
کسی کو بے سبب شہرت نہیں ملتی ہے دنیا میں ::
انھیں کا نام ہے دنیا میں جن کا کام اچھا ہے ::
نام نامی مولا نا ولئ اللہ مجید قاسمی صاحب ہے پورے ہندوستان کی شان اور اعظم گڑھ کی جان ہیں ، انٹرویو میں موصوف کی حق گوئی قابل رشک ہے ،،
ع 🌿 حق بات سردار کہا ہے اس نے :::
ایک سوال کیا گیا تھا کہ آپ کس طرح جامعہ الفلاح میں اڈجسٹ ہوئے تو حضرت نے جواب دیا کہ پہلے کچھ پریشانی ہو ئی تھی لیکن کچھ دن بعد دھیرے دھیرے طبیعت بہل گئی ،، 🌹🍂
ہجوم درد سے پایا ہے حوصلہ میں نے ::
ہجوم غم سے ملی ہے حیات نو مجھکو ::
مولانا کے جواب سے یہ خوش کن خبر بھی ملی کہ ، جامعہ کی اساتذہ کے معاملے بالکل نرالی شان ہے وہاں کے
اساتذہ پر کوئی بیجا دباؤ نہیں ہے ، جامعہ میں ہر مکتب فکر کے اساتذہ باہم شیر و شکر کی طرح رہتے ہیں 🍁🌱
حیات لے کے چلو جلوہ ء کائنات لے کے چلو ::
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو ::
عام طور پر مدارس کے اساتذہ نظماء سے نالاں رہتے ہیں
کوئی کار واں سے لوٹا کوئی بد گماں حرم سے
کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی ؛؛
میں حضرت موصوف کو اور شرکا ئے انٹرویو کو ایسی کامیاب و معلومات افزا بزم سجانے پر مبارک پیش کرتا ہوں
اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اسی طرح بزم سجتی رہے گی اور گل کھلتے رہیں
خیر خواہ
محمد اکرم خان قاسمی خطیب مسجد عمر بن خطاب شاہ گنج
11-*مولانا عبدالمالک ندوی صاحب*
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ۔۔۔۔
پاسبان علم و ادب کا دلکش انٹریو پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔۔یقینا جہاں واٹس اپ پر ہزاروں خرافاتی گروپس بنے ہوئے ہیں ان میں پاسبان علم و ادب کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔۔معروف قلمکاروں و صاحب اسلوب ادباء کی نگارشات و تخلیقات دن رات گروپ کے حسن میں اضافہ کا سبب بنتی رہتی ہیں ۔اللہ تعالی کا جتنا شکر ادا کیا جائے اتنا کم ہے کہ اس علمی ، اصلاحی اور ادبی گروپ میں مجھ جیسے کم فہم و بے بضاعت کو شامل ہونے کا موقع ملا۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ یہ ایڈمنز حضرات کی حوصلہ افزائی و خوردنوازی کی بات ہے ۔۔۔یوں تو پاسبان ایک متحرک و فعال گروپ ہے جس میں صبح و شام ہر وقت پیغامات و مراسلات کا تانتا بندھا رہتا ہے لیکن بعض وقت اسکی نافعیت میں دوگنا اضافہ ہوجاتا ہے ۔۔۔اہل علم و فضل کے انٹریو پر مشتمل جو محافل منعقد کی جاتی ہیں وہ ہمارے جیسے طالب علموں کے لئے بڑی مفید و کارگرثابت ہوتی ہیں ۔۔ابھی کل ہی ملک کے معروف عالم دین اور مدرسہ الفلاح کے شیخ الحدیث مولانا ولی اللہ مجید قاسمی کا انٹریو نظر نواز ہوا پڑھ کر طبیعت خوش ہوگئی ۔۔۔۔۔اگرچہ ولی اللہ صاحب میرے لئے نئے تھے ان کی علمی خدمات کا صحیح طور پر ادراک نہیں تھا لیکن انٹریو میں ان کی برجستگی و بے باکی ، حق گوئی و صدق بیانی نے کافی متاثر کیا ۔۔یہ معلوم ہو کر بھی بڑی خوشی ہوئی کہ مولانا عنفوان شباب ہی سے قلم و قرطاس سے وابستہ ہوگئے تھے اور ہدایت المنطق کے نام سے ایک کتاب بھی تالیف کر دی تھی ۔۔ ان کی خامہ فرسائی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔۔متعدد اہم موضوعات پر علمی مقالات و مضامین تحریر فرما چکے ہیں نیز 6 کتابیں مطبوعہ اور 2 زیر طباعت اور کئی غیر مطبوعہ ہیں اللہ پاک تمام غیر مطبوعہ کو زیور طبع سے آراستہ فرماکر قبولیت سے نوازے ۔۔اس کے علاوہ مدارس کی زبوں حالی اور انتظامی بے راہ روی پر آپ کی جچی تلی رائے سن کر طبیعت باغ باغ ہوگئی ۔۔آپ کا یہ جملہ بھی کافی پسند آیا فکر فراہی انکار حدیث کی سیڑھی ہے ۔اصول میں اتفاق اور فروع میں آزادی اتحاد کا ذریعہ ہے یہ جملہ بھی دل کو چھو گیا۔۔یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ مولانا عبدالماجد دریابادی رح کے اسلوب نگارش کے دلدادہ ہیں ۔۔صرف سیاست کے تعلق سے آپ کی رائے عجیب لگی ورنہ تمام باتوں سے مکمل اتفاق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجموعی اعتبار سے آپ کے افکار و نظریات اور حالات و آراء سے کامل مناسبت محسوس ہوئی اگرچہ آپ سے بالمشافہ ملاقات کا کبھی شرف تو حاصل نہیں ہوا البتہ شمع امید ضرور قلب میں فروزاں ہے ۔۔۔۔۔اس موقع پر مولانا محبوب قاسمی صاحب و ڈاکٹر ارشد قاسمی صاحب و ترجمان پاسبان مولانا خالد صاحب کا صمیم قلب سے شکرگزار ہوں کہ ان حضرات نے یہ اہم محفل منعقد کرکے ہمیں ایک بڑی شخصیت سے روشناس کرایا ۔۔۔۔۔اگرچہ تینوں حضرات سے صرف غائبانہ تعلق ہے لیکن ان کی بزرگانہ شفقت و توجہ کا دل پر بڑا اثر ہے ۔۔۔۔اللہ پاک پاسبان کی تمام شرور و فتن سے حفاظت فرمائے اور اس گروپ میں شمولیت کو ہماری علمی، ادبی اور روحانی ترقی کا ذریعہ بنائے ۔۔آمین
عبدالمالک بلندشہری
متعلم دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو ۔۔۔۔۔۔۔۔
12*حافظ عبیداللہ طاہر صاحب*
کل رات پاسبان کی عدالت میں مولانا ولی اللہ مجید قاسمی صاحب بحیثیت مہمان خصوصی مدعو تھے مولانا کی شخصیت علمی حلقوں میں بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے خطۂ اعظم گڈھ نہیں پورے ملک میں ان کی علمی خدمات کی کرنیں پھیلی ہوئی ہیں
اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ان کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے باوجود اس کے متعدد اسباب کی بنیاد پر شخصیت سے واقفیت عام طور سے نہیں ہوپاتی، علمی عدالت کی شکل میں مختلف شخصیات کی رونمائی ،،پاسبان علم و ادب،،کا منفرد کارنامہ ہے،چنانچہ گذشتہ انٹرویو کی طرح سوال وجواب پر مشتمل یہ انٹرویو بھی بہت ہی شستہ، شگفتہ اور زیور علم و ادب کے ساتھ ساتھ ان کی علمی استعدادوصلاحیت کے لحاظ سے بہت معلوماتی اور فائدہ مند رہا
مولانا موصوف نے تمام سوالات کے جوابات بڑی وسیع الظرفی اور دیانت داری سے دیا، مولانا سے میری ملاقات مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور میں ہوئی مولانا کی عظمت جو میرے دل میں تھی اس انٹرویو کے بعد مزید بڑھ گئی
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی کے ساتھ ساتھ میں تمام منتظمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ان حضرات کےبہترین نظم و ضبط کی وجہ سے انٹرویو بہت کامیاب اور مثالی رہا
اللہ تعالی حسن قبول بخشے آمین
عبیداللہ طاہر خیرآبادی
13*مولانا عبد الباسط صاحب*
گذشتہ شب ہونے والا جناب حضرت مولانا ولی اللہ مجید صاحب قاسمی/حفظہ اللہ استاذ حدیث جامعة الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ کا انٹرویو اپنی نوعیت کاایک منفردانہ شان رکھتا ھے بندہ جب جامعہ اسلامیہ دارالقرآن سون بزرگ اعظم گڑھ میں تھا تو وہاں کے طلبہ کی زبانی جامعة الفلاح کے احوال و کوائف اور قاسمی اساتذہ کےبارےمیں بالخصوص باخبر کیا جاتا چند اساتذہ سے ملاقات بھی ہوئی اور ان کی سرگرمیاں تدریسی اور تصنیفی و تالیفی اعتبار سے جاننے کا موقع الحمدللہ ملا جن میں حضرت مولانا ولی اللہ مجید صاحب قاسمی سرفہرست ہیں ماشاءاللہ بہترین ذھن کے حامل ہیں اور اس دینی اور تدریسی لائن سے مطمئن اور اپنی اولاد کو اسی لائن سے جوڑنا پسند کرتے ہیں بجا طور پر یہ عارف باللہ حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی قدس سرہ کا فیضان کہا جاسکتا ھے جو جامعة الفلاح جیسے ادارے میں تدریسی زندگی سے منسلک رہنے کے باوجود اعتدال اور اکابر و اسلاف کے طرز پر باقی ہیں اللہ پاک تادم آخر اس پرقائم رکھیں آمین بندہ معذرت خواہ ھےکہ عدیم الفرصتی کی وجہ سے تاثر پیش کرنےمیں تاخیر ہوئی فقط عبدالباسط قاسمی الہ آبادی
14-*مولانا فیضان اعظمی صاحب*
گذشتہ شب پاسبان کی عدالت میں مولانا ولی اللہ مجید قاسمي صاحب کا کامیاب اور نفع بخش انٹرویو نظر نواز ہوا اسی کے ساتھ ایک اور مشہور علمی اور ادبی شخصیت سے روبرو ہو نے کا موقع فراہم ہوا یہ انٹرویو اس لحاظ سے منفرد کہا جا سکتا ہے کہ مولانا نے ہر سوال کا جواب انتہائی صاف گوئی اور بے باکی اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے دیا انٹرویو سے پہلے لگ رہا تها بعض سوالات کے جواب شاید اپنے پیشروؤں کی طرح ٹال جائیں گے لیکن سارے خدشات کو جھٹلاتے ہویے بڑے ہی خوبصورت انداز میں جواب مرحمت فرما یا اور جامعہ الفلاح جہاں اکثر لوگ خصوصاً انتظامیہ الگ مکتب فکر کے ہاتھوں میں ہے جہاں اسکی امتیازی خصوصیت پر کهل کر اظہا ر خیا ل فر مایا وہیں کمیو ں کو بهی بے با کی کے ساتھ بیا ن فرمایا یہاں تک کہ تین طلاق کے مسلے میں اپنے ناظم مدرسہ پر بهی پوری دیا نت کے ساتھ کھل کر تبصرہ فرمایا کہ مولا نا طاہر مدنی صاحب تین کے ایک ہونے کا فتوا دیتے ہیں اسطرح اظهار رائے کی آزادی مدارس میں بهت بڑی بات ہے اسکے علاوہ ارباب مدارس کے لئے مفید مشورے اور اتحاد ملت کا فارمولہ قابل قدر ہے اور بہت ساری معلومات اس انٹرویو ذریعہ فراہم ہوئیں الله پاک ہم سب کے لئے اس انٹرویو کو نفع بخش بنائے آمین یارب العالمین
فیضان احمد اعظمی
15-*مولانا امتیاز اعظمی صاحب*
سوشل میڈیا وہاٹساپ کا ہفتۂ واری پروگرام ”پاسبان کی عدالت ،، جو ایک مقبول اور پسندیدہ پروگرام ہے میں اس ہفتہ *مولانا ولی ﷲ مجید قاسمی صاحب* استاذ حدیث و فقہ جامعہ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے۔
مولانا ایک سنجیدہ، کم گو، متین اور صاحب علم و قلم شخصیت کے مالک ہیں جس کی وجہ سے ان کی شخصیت ہمارے لئے باعث کشش اور قابل رشک ہے ۔
اس انٹرویو میں انھوں نے جہاں درسی، تصنیفی اور علمی گفتگو فرمایی وہیں پر اپنے وطن اصلی کا علمی اور روحانی مقام بھی بیان فرمایا بلکہ گھر، خاندان ، قبیلہ اور تعلیمی نصاب و درسی احوال کا بہت اچھے انداز میں اختصار کے ساتھ ذکر بھی کیا جو ہم سب کے لئے قابل تحسین اور لائق تقلید واتباع ہے،
انھوں نے اس سلسلے میں اپنی ضمیر کی آواز کو لفظوں کا ایسا خوبصورت جامہ پہنایا جس سے آپ کی شخصیت مزید نکہر کر سامنے آئی۔
فقہ و حدیث مولانا کا خصوصی میدان ہے جس میں آپ کی متعدد کتابیں منظر عام پر آکر اہل علم کو سیراب کر رہی ہیں اور کچھ زیر طباعت ہیں ، آج کے اس پروگرام کے سوالات اور ان کے جوابات سے ان کی علمی گہرائی و گیرائی اور فقہی بصیرت کا اندازہ ہورہا ہے ، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی مذاہب اربعہ پر بڑی گہری نظر ہے۔
آپ نے مدارس کے نظام پر کافی کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں آپ اس نظام سے خوش ہیں وہیں پر کچھ حد تک غیر مطمئن بھی ہیں، بہرحال مولانا نے بہت ہی اختصار و احتیاط کے ساتھ اپنی اکثر باتیں کہہ دیں۔
اس کامیاب انٹرویو محبوب پاسبان مولانا محبوب عالم صاحب عمت فیوضہم اور الحاج مولانا ڈاکٹر ارشد صاحب کا مرہون منت ہے۔ اور ترجمان پاسبان لائق ستائش و مبارک باد کے مستحق ہیں جن کا نظم وضبط بھی مثالی رہا جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ، بہرحال اس خوبصورت شام کے انعقاد پر تمام منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں ،ﷲ تعالیٰ اسے خوب سے خوب تر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
امتیاز احمد اعظمی
16-*مولانا شفیع اللہ قاسمی صاحب*
دل سے دل کی بات ۔۔
از شفیع اللہ اعظمی قاسمی
ولی اللہ مجید قاسمی یہ اک ایسا نام ہے جو افق علم و أدب پر ستارہ بن کر چمک رہا ہے ۔میری ان سے شناسائی شیخوپور کے زمانہ طالب علمی میں ہوئی ، بارہا دیکھا پتلے دبلے سر پر ٹوپی اور آنکھ پر چشمہ سجائے گیٹ سے داخل ہوتے اور مولانا اعجاز احمد اعظمی رح کے کمرے کا رخ کرتے کبھی کبھی مہمان یا کسی اہم کام میں مشغولی کی وجہ سے مولانا کی اجازت کا انتظار کرتے ۔کبھی ہاتھوں میں کوئی چھوٹی موٹی تھیلی ہوتی جس میں کتاب یا کا غذ ہونے کا گمان ہوتا یا کبھی ہاتھوں میں کچھ لکھے ہوئے کاغذ بغیر کسی لفافہ دکھائی دیتا ۔کبھی جب ہم لوگ بھی مولانا کے پاس ہوتے تو مولانا قاسمی صاحب چپکے داخل ہوکر ایک کنارہ پکڑ لیتے اور کچھ کچھ دیر میں مولانا سے کسی مسئلہ کے متعلق محو گفتگو ہوتے ۔پھر جب والد صاحب کی بیماری کی وجہ سے ممبئی جانا ہوا وہاں کے انقلاب اخبار میں مولانا قاسمی صاحب کے کئی مضامین پڑھے ۔نام و شخصیت سے واقفیت تھی ہی مولانا اعظمی رح سے رابطہ نے اور بھی معتقد بنا دیا تھا جب مولانا قاسمی صاحب کی کوئی تحریر دیکھتا فورا پڑھتا ۔خیر جب نماز کے بعد دعا کی تحقیق پر مشتمل ضیاء الاسلام نمبر نمبر چھپا تب اور بھی اچھا لگا پھر ان کی کچھ اور کتابیں دیکھنے اور پڑھنے کا موقع فراہم ہوا ۔اس کتاب اور نمبر نے بہت سے لوگوں کا مزاج اور فکر بدلنے میں بہت اہم کردار اداکیا ۔ اسی طرح مجھے اور میرے کچھ ساتھیوں کو جامعتہ الفلاح کی زیارت کا موقع ملا اس وقت مولانا قدوری کا درس دے کے نکلے تھے ۔پھر انداز و طریقہ تدریس پر گفتگو ہوئی اور اسے قریب سے جاننے کا موقع ملا خاص طور سے فقہ و تفسیر کے متعلق ۔مولانا کا ادب چھوٹوں کے ساتھ شفقت بھرا برتاؤ ، تواضع ، لیکن علمی تگ و دو مسلسل کئے جانے کا اندازہ ہوا ۔آج اس انٹرویو کے ذریعہ بھی مولانا سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔علاقائی و خاندانی تاریخ سے واقفیت ہوئی ،ان کی اور وہ کتابیں جن کا علم نہیں تھا ۔معلوم ہوئیں ۔مولانا کی خدمات جلیلہ منظر عام آئیں ۔اکابر سے لگاؤ ۔جمہور کے ساتھ چلنے کی کوشش بھی دیکھنے کو ملی ، سچ یہ ہے کہ مولانا دور بیں اور دورس ہیں ، دل و دماغ علم سے مزین ہیں ۔عمل پیہم محبت فاتح عالم جو کہ جہاد زندگانی میں مردوں کی شمشیریں ہیں اس کو اپنے اوپر سجا کر رکھا ہے تاکہ یقین محکم کے ساتھ معرکہ سر کیا جاسکے ۔۔اللہ تعالٰی حضرت کو طویل عمر نصیب فرمائے ان کے علم نافع کو عام و تام فرمائے ۔اور ہم سب کو مستفید ہونے کی توفیق سے مالامال فرمائے ۔ ۔۔۔
17-*مفتی محمد ارشد قاسمی شیروانی صاحب*
بعض حضرات کو باری تعالیٰ کی طرف سے اتنے کمالات اور اتنی خوبیاں عطا کی جاتی ہیں کہ لوگوں کو ان پر حسد کی حد تک رشک ہونے لگتا ہے ہمارے مولانا ولی اللہ مجید قاسمی صاحب انہیں قابل رشک شخصیات میں شامل ہیں اللہ نے انہیں حسن صورت اور حسن سیرت سے نوازا ہے وه تيكهے نقوش اور پاكيزه اخلاق كے حامل ہيں وه علم وعمل كے سنگم اور فكر و فعل كے مركز ہيں وہ مطالعہ کے رسیا اور علم وتحقیق کے خوگر ہیں۔ ان کے اندر علمی میدان میں ترقى اور پيش قدمى کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے مزید برآں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی توجہ نے انہیں کندن بنادیا ہے یہ ان کی علمی لگن کی دليل ہے کہ وہ تدریس کے زمانے میں بھی حضرت مولانا اعجاز صاحب اعظمی علیہ الرحمہ سے تبادلۂ خیال اور استفادہ کرتے رہے ان کے کئی وقیع مقالات اور قیمتی کتابیں طبع ہوکر علمی حلقے میں داد تحسین حاصل کرچکی ہیں اس ہفتے کے انٹرویو میں ممبران کو ان کے علمی جوابات سے مستفید ہونے کا گرانقدر موقعہ حاصل ہوا مولانا محبوب عالم صاحب اور ڈاكٹر ارشدصاحب كے ہمہ جہت سوالات اور مولانا ولى صاحب كے نپے تلے اور صائب جوابات نے عش عش كرنے پر مجبور كر ديا ترجمان صاحب كى ترجمانى بهى خوب رہى يقيناً انٹرویو كے عناصر اربعہ مباركباد كے مستحق ہيں بلاشبہ يہ اب تك كا كامياب ترين انٹرويو تها مولانا نے ہر سوال كا جواب بہت كُهل كر اور كہيں كہيں كهِل كر ديا ہے جامعۃ الفلاح كے بارے ميں بهى جواب دينے ميں انہوں نے كسى تكلف سے كام نہيں ليا اور اس كے قابل تقليد اور قابل اصلاح دونوں گوشوں پر روشنى ڈالى مفتى ياسر صاحب نے بجا لكها ہے كہ علم كا سكہ ہرايك پرچلتا ہے يہاں بهى خوب چلا اب دیكهئے نا كہ مولانا نے ماضى كى انٹرويوز كےبارے ميں كچھ نہيں لكها ليكن سارےممبران ان كے پُر مغز علمى انٹرويو پر اپنا خر اج تحسين پيش كررہے ہيں بلاشبہ مولانا كى تابنده زندگى قابل تقليد اور ان كی علمى كاوش مثالى ہے دعا ہيكہ بارى تعالى ہم سب كو علم نافع اور عمل صالح كى توفيق عطا فرمائے ۔
18-مفتی شرف الدین عظیم قاسمی اعظمی صاحب امام وخطیب مسجد انوار گوونڈی*
« آسمان علم کا ایک درخشاں ستارہ»
متوسط و متوازن سراپا، متناسب ہلکا جسم، بدن پر نفیس شیروانی،روشن چہرہ جس پر سنجیدگی و متانت سو جان سے نثار،اس پر گھنی داڑھی،
کشادہ پیشانی جس پر جھلکتا ہوا فراست کا نور،
آنکھوں میں ذہانت و ذکاوت کی چمک،اس پر ہلکے فریم کا چشمہ ،زندگی فکر دیوبند کی ترجمان، اور اسی ترجمانی کے لئے ہزار جان سے وقف، علم وتحقیق،تصنیف وتالیف کے ذریعے فکر و فن کی نئی دنیا دریافت کرنے کی ایک دھن اور تڑپ، گفتگو میں بلا کی جاذبیت، زبان ہوشمند اور فکر ارجمند کا ایک خوبصورت پیکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عناصر اور صفات زریں جب تجسیم کے عمل سے گزرتی ہے تو علمی افق پر تابندہ ستارے کے مانند،،مولانا ولی اللہ قاسمی مجید،،کی شکل میں جلوہ آرا ہوتی ہے۔
مولانا ولی اللہ صاحب کی شخصیت کا ذہن و قلب پر خوشگوار نقش ایام طالب علمی میں ہی قائم ہوچکا تھا اور وقت و زمانے کی گردشوں کے باوجود کبھی اس اثر میں بحمد اللہ فرق نہیں آیا۔
بلکہ یہ چیز بعد میں عقیدت اور نیاز مندانہ تعلق کی صورت اختیار کرگئی،
مولانا قاسمی ایک زبردست عالم دین،ایک بہترین تجزیہ نگار،قابل قدر مقالہ نگار، دیدہ ور فقیہ،
بصیرت مند مصنف اور بافیض مدرس ہیں’،
رب دوجہاں نے مزاج و مذاق کی پاکیزگی اور طبیعت کی سلامتی کے ساتھ راہ ارتقاء سے آشنا کرانے والے صحت مند ماحول سے بھی نوازا تھا،
آپ نے ان نعمتوں کو عطیہ الہی سمجھ کر حتی الامکان قدر کی اور تیز رفتاری سے علم و فن کی منزلیں طے کرلیں۔
خصوصاً استاذ العلماء حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب کے میکدہ عرفان ومحبت سے شوق علم،کی سوغات،تہذیب زندگی کا مزاج،تصلب فی الدین،اکابرین دیوبند کی حقانیت اور فکر صحت کی صحت کی معرفت،
مشہور قلم کار و نقاد مولانا افضال الحق جوہر قاسمی کے دربار سے خودداری،بے نیازی،کردار و عمل کے ارتقاء کی معرفت،راہ علم میں منزلوں کو عبور کرنے کی ضمانت عطا کرنے والی ہمت واستقامت،
اور عصر حاضر کی مشہور ومعروف شخصیت حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی در علم و ادب سے فقہی بصیرت، فکر کی وسعت،اور علم وتحقیق کی مہارت حاصل کرکے اپنے وجود کی اس طرح تزئین و آرائش کی۔
کہ آپ کی ذات آسمان فضل و کمال کا درخشاں آفتاب بن گئ۔ تملق و تعریف وتوصیف کے سوداگروں کے اس عہد میں یوں تو
اپنے اپنے حلقوں میں ہر شخص ابن تیمیہ اور ابن حجر عسقلانی شمار ہوتاہے یا کرایا جاتا ہے۔
مگر مخالف مکتب فکر کے مرکز کے درمیان رہ کر اپنی شخصیت کی بلندی کا لوھا منوا لینا،اور ہر کس و ناکس پر اپنی عظمتوں کا نقش چھوڑ جانا،
اور اپنی صلاحیت و لیاقت اور کارناموں کے باعثِ امتیازی شناخت قائم کرنا۔
یہ انہیں شخصیات کا مقدر ہے جن کی پشت پر فکر فن اور فضل وکمال کا ایک جہاں آباد ہو۔
بلا شبہ مولانا ولی اللہ قاسمی اسی مقام پر ہے’جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔
شوشل میڈیا میں اپنے انفرادی کارناموں کے باعث
،،پاسبان علم و ادب،،کو جو مقام حاصل ہے محتاج تعارف نہیں۔
اس پلیٹ فارم سے شخصیات کی دریافت کا انٹرویو کی شکل میں ایک عرصہ قبل جو سلسلہ زریں شروع ہوا تھا اس کی ایک سنہری کڑی کل کی استفہامیہ مجلس بھی ہے۔
جس میں بحیثیت مہمان خصوصی مولانا موصوف کی ذات گرامی تھی۔کہنے کو تو یہ ایک مختصر سوال وجواب پر مشتمل ذہنوں میں معمولی قدر وقیمت کا تصور لانے والا ایک انٹرویو تھا
مگر اس شخصیت کی داخلی زندگی کے انکشاف کے بعد یہ اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں کہ اپنے مندرجات اور جوابات کی نافعیت کے لحاظ اس قدر قیمتی ہے’کہ زندگی کی راہوں میں اسے رہنما بناکر ارتقاء کا سفر جاری رکھا جاسکتا ہے۔
اس استفہامیہ میں آپ کی محنتیں،مشقتیں دلچسپی اور تڑپ کی تصویریں بھی نظر آئیں اور اکابرین کے سائے زندگی کی تزئین کا باب بھی،
مدارس اسلامیہ کے عروج وزوال کے اسباب بھی معلوم ہوئے اور موجودہ حالات کے تناظر میں میں مسلکی اتحاد کی اہمیت بھی۔
خاص طور سے مدارس میں ڈکٹیٹر شپ اور اس کے نتیجے میں اساتذہ کی ناقدری،انتظامی معاملے کا نقص۔ایک صالح اور صحت مند شوری کی ضرورت و اہمیت،جس کے فقدان کے وجہ سے عموماً مدارس میں بحران پایا جاتا ہے اور جب چاہے نظما حضرات شوری کو اطلاع کئے بغیر جسے چاہیں نکال دیں،
ان غیر انسانی اور غیر ذمہ دارانہ نظام پر کھل کر آپ نے اظہار خیال کیا ہے۔
مختصر یہ کہ ماضی کی مجلسوں کی طرح یہ عدالت بھی ہر لحاظ سے کامیاب اور نفع بخش رہی جس پر ہم انتہائی مسرتوں کے عالم میں مہمان خصوصی مولانا ولی اللہ صاحب کے ساتھ ساتھ مولانا ڈاکٹر ارشد صاحب قاسمی اور مولانا محبوب عالم صاحب قاسمی نیز ترجمان پاسبان مولانا خالد صاحب قاسمی کے شکر گزار ہیں کہ ان کے دلچسپ اور علمی و تحقیقی سوالوں نے شخصیت کے بڑے اہم اہم گوشوں کو روشنی عطا کی ہے کہا جاسکتا کہ آج کی شخصیت کی رونمائی انھیں سوالات کی ندرت کا کرشمہ ہے۔۔۔۔۔۔
مولانا شرف الدین عظیم قاسمی
حضرت مولانا ولی اللہ صاحب قاسمی اس عہد کے ان علماء میں ہیں جو قدم قدم پر علمی تاریخ رقم کرتے چلے جاتے ہیں، اور کارناموں کے نقوش وقت کے سینے پر ثبت کرکے ہمیشہ کے لیے زندہ ہوجاتے ہیں،مولانا ولی اللہ صاحب کی ذات بھی ٹھیک اسی طرح تاریخ ساز،اور عہد ساز ہے’جس کا اوپر ابھی ذکر ہوا، وہ ایک بہترین استاذ اور درسی کتابوں کی تشریحات پر دسترس رکھنے والے مثالی مدرس ہیں، خوبصورت قلم کار اور نظریات و محسوسات کو سلیقے سے ادا کرنے کی صلاحیت سے معمور ایک مضمون نگار ہیں، وہ عمدہ مصنف بھی ہیں اور مثالی محقق بھی، قدیم مسائل کے ساتھ ساتھ جدید مسائل پر گہری نظر رکھنے والے بصیرت مند فقیہ بھی ہیں،اور زبان وبیان کی نزاکتوں سے آشنا عربی و اردو کے مترجم بھی، ان تمام کمالات کے ساتھ ساتھ وہ نہایت متواضع،اور انتہائی سادہ ہیں ، مگر سادگی نے ان کی نستعلیقیت اور نفاست پر کوئی اثر نہیں ڈالا ہے، متانت،سنجیدگی ، وقار اور ہر چیز میں اعتدال ان کی ذات کی شناخت ہے، وہ کرو فر اور نمود و نمائش اور اس زمانے میں مخصوص طبقے کی جو بیماریاں ہیں ان سے ان کی زندگی مکمل پاک و صاف ہے، یقینا اس عہد میں ایسی شخصیت کا وجود ملت کے لئے گراں مایہ سرمایہ ہے ،یہ اور بات ہے کہ مادیت اور مفاد کی سخت دھوپ میں لوگوں کی نگاہوں سے علم وفضل کا یہ ستارہ اوجھل ہے۔۔
19-ابو معاویہ انصاری۔ استاذ مدرسہ عبداللہ فہد کویت.
آج جمعرات کے مذاکرہ میں دعاء کی اہمیت و فضیلت کے متعلق گفتگو ہوئی، دورانیہ میں ایک واقعہ آگیا شیخ احمد القطان کویتی کا، جو کہ عربی عبارت کا ترجمہ تھا، مترجم کا نام ذہن میں آتے ہی ایک شخصیت کا ہیولی نگاہوں میں آیا، اور بیس سال قبل کے کئی مناظر نگاہوں کے سامنے بیک پل گزر گئے، بات اس وقت کی ہے جب میں عربی چہارم میں تھا، مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور میں استاذ مکرم عارف باللہ حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی صاحب نور اللہ مرقدہ سے قرب کی ابتداء تھی، ابتدا اس لئے کی اس سے پہلے تک فارسی تا سوم مولانا کے پاس کوئی سبق نہیں تھا اور حضرت کے رعب کا اثر تھا کہ میں انکی مجلس سے استفادہ نہیں کرتا تھا، آہ رے میری کوتاہی و کم مائیگی، خیر رب کریم کا شکر ہے کہ عربی چہارم کی جماعت سے مولانا مرحوم سے قربت کے مواقع میسر آئے اور اس وقت کے بعد سے مولانا کی اپنے طلبہ سے بلا تفریق، محبت و توجہ کی حقیقت کا سامنا ہوا اور خوب ہوا، جس کی حلاوت آج بھی جسم و روح کو محسوس ہوتی ہے، اس وقت سے دارالعلوم دیوبند کے سفر سے قبل تک تقریباً دو سال، ایک عظیم استاد طالب علم کو دیکھنے کا کئی بار موقع ملا تب میں ان کو نہ تو جانتا تھا اور نہ ہی ان کے نام سے واقف تھا، ہاں بس طلبہ میں اتنی ہی بات عام تھی کہ جماعت اسلامی حضرات کا ایک مدرسہ ہے بلریا گنج میں جامعة الفلاح نام سے کافی بڑا مدرسہ ہے جہاں انگلش کی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے، یہ صاحب وہیں سے آتے ہیں، ہم دیکھتے تھے کہ ایک سادہ طبیعت شخص آتے اور مولانا مرحوم کے سامنے کتاب کھول کر بیٹھ جاتے، جہاں ان طالب علم اور استاد کے علاوہ کوئی نہ ہوتا، لیکن ہم طلبہ چھپ کر دیکھتے تھے چونکہ وہ عصر کے بعد کا وقت ہوتا تھا، جلد وہ مجلس خاص ختم ہوجاتی، پھر ہر ایک اپنی راہ لیتا، فراغت کے بعد تدریس کے زمانہ میں مولانا کے پاس شیخوپور حاضری ہوتی تھی، اس وقت ان طالب علم کے متعلق علم ہوا کہ آپ کا نام گرامی ولی اللہ مجید قاسمی ہے اور آپ صرف جامعہ الفلاح سے متعلق نہیں بلکہ وہاں استاد ہیں، نیز قاسمی ہیں، اس کے بعد سے مولانا ولی اللہ صاحب کو غائبانہ جاننے کا موقع ملا اور انکی تحریروں سے دلچسپی ہوئی، دھیرے دھیرے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ آپ استادِ حدیث ہیں، علم کے بڑے منصب پر ہیں، چونکہ اپنے بڑوں یعنی اساتذہ کرام کی زبانی آپ کے متعلق سننے کا موقع ملا اور اندازہ ہوا کہ بڑوں کی نگاہوں میں وہ بڑے بھی ہیں اور محترم بھی، دل کو بڑی خوشی ہورہی ہے کہ آج انکی شخصیت کو کسی صورت اپنے سے قریب محسوس کررہا ہوں، چونکہ آپ بھی اس گروپ میں شامل ہیں، اور مولانا منیب صاحب دام ظلہ و استاذی مفتی فیض احمد صاحب کی نوازش و فیوض کی بدولت آپ حضرت والا مدرسہ عبداللہ فہد العمہوج کے طلبہ کو بھی علم حدیث سے مستفید فرما رہے ہیں، شکریہ ادا کرتا ہوں استاد محترم کا اور مدرسہ کے ذمہ داران کا کہ ان حضرات کی توجہ سے کچھ دینی ماحول سے لگاؤ ہوا ہے، اللہ تعالیٰ دین کی خدمت کے مواقع میسر فرمائے اور اہل اللہ کی قربت و محبت اور توجہات سے نوازے، آمین
خیر بات لمبی ہوگئ معاف کیجئے گا جذبات کی رو میں بہ گیا،
پردہ اٹھاتے ہی بات ختم کرتا ہوں، کہ جو واقعہ شیخ احمد القطان کا گزرا، وہ عربی تحریر کا ترجمہ تھا اور اس کے مترجم چونکہ وہی استاد طالب علم حضرت مولانا ولی اللہ مجید قاسمی صاحب ہی ہیں، اسی لئے جب اس واقعہ کو بیان کر رہا تھا تو مذکورہ باتیں ذہن میں کوندی تھیں اور حضرت کا وہ ہیولی نظروں کے سامنے گردش کرنے لگا تھا، اللہ تعالیٰ جناب والا کو لمبی عمر عطا فرمائے اور انکی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے، آمین
ابو معاویہ انصاری۔ استاذ مدرسہ عبداللہ فہد کویت
20- مولانا محمد سالم سریانوی استاذ احیاء العلوم مبارکپور۔
غنیمت کے کچھ لمحات!!
مولانا ولی اللہ مجید صاحب قاسمی، ہمارے جامعہ میں۔
آج صبح کے تعلیمی وقت میں معلوم ہوا کہ دیار مشرق کے ایک عظیم عالم، فقہ وفتاویٰ کے شہسوار، زبان وقلم کے راہی اور جامعۃ الفلاح کی مسند حدیث کو زینت بخشنے والے عظیم فرد حضرت مولانا مفتی ولی اللہ مجید صاحب قاسمی دامت برکاتہم ہمارے جامعہ (جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور) تشریف لارہے ہیں، تو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی، معلوم ہوا کہ دوپہر تک تشریف لائیں گے، چناں چہ 12/ بجے کے بعد مولانا ایک قافلہ کے ہمراہ تشریف لائے، نماز ظہر سے پہلے کھانے وغیرہ سے فارغ ہوگئے، نماز ظہر کے بعد حضرت ناظم اعلی مفتی محمد یاسر صاحب قاسمی زید مجدہم کی طرف سے ایک طالب علم نے اعلان کیا کہ تمام لوگ تشریف رکھیں۔
چنانچہ سنت سے فراغت کے بعد بیٹھے، حضرت ناظم اعلی صاحب نے مولانا کا مختصر تعارف فرمایا اور حسب نظام طلبہ سے کچھ گذارشات کی درخواست کی۔
حضرت مولانا کرسی پر براجمان ہوئے اور مختصر وقت میں طلبہ واساتذہ کے سامنے بڑی ہی قیمتی اور اہم باتیں ارشاد فرمائیں، جو واقعۃ ہمارے لیے حرزِ جاں بنانے کے لائق ہیں، آپ نے اپنے خطاب میں کل 6/ باتیں ارشاد فرمائیں اور طلبہ کو آمادہ کیا کہ وہ ان کو سامنے رکھیں اور ان کے مطابق عمل کریں۔
وہ چھ باتیں درج ذیل ہیں:
(1) اخلاص، حصول علم میں نیت کی تصحیح ضروری ہے۔
(2) اعتماد، اپنے اوپر اعتماد اور یقین ہو، کہ میں کچھ بھی کرسکتا ہوں۔
(3) اجتہاد، اعتماد ہوگا تو طالب علم محنت کرے گا۔
(5) اجنتاب، معاصی اور تمام غلط چیزوں سے بچنا ضروری ہے۔
(6) التجاء، محنت کے بعد اللہ کی طرف لو لگانا اور اس سے مانگنا۔
(6) اختصاص، کہ کسی ایک فن میں اختصاص حاصل کیا جائے، یہ دور اختصاص کا ہے۔
مولانا بیان کے بعد دفتر اہتمام میں تشریف لائے، اور کچھ دیر تک مجلس جمی رہی، بندہ بھی کچھ دیر تک شریک محفل رہا، اور کچھ کام کی باتیں سننے کو ملیں، اسی محفل میں حضرت ناظم اعلی صاحب نے مولانا کو "فتاوی احیاء العلوم” کا مسودہ بھی پیش کیا، جس پر فی الحال کام چل رہا ہے، مولانا نے بڑے شوق و اشیاق سے ملاحظہ فرمایا، اسی میں ان کی نگاہ لفظ "کَرئِت” اور "گیہوَن” پر پڑگئی، جو کہ ہمارے علاقے میں دو سانپوں کے نام ہیں، اس پر یہ گفتگو ہونے لگی کہ ان کا نام اردو میں کیا ہے؟ اور یہ کون سے سانپ ہوتے ہیں؟ کچھ دیر اسی پر بات ہوئی، فتاوی احیاء العلوم کے ذکر میں ناظم صاحب نے جب بندہ کا تذکرہ کیا تو انھوں نے فوراً از خود میرے نام کے بعد "سَرْیَانوی” کا اضافہ اسی تلفظ کے ساتھ فرمایا، اس پر عرض کیا گیا کہ یہ "سَرَیَّانوی” ہے، تو فرمانے لگے کہ اب تک تو ہم یہی سمجھے تھے، یہ حقیقت ہے کہ اردو میں علاقوں اور نسبتوں کو سمجھنے کے لیے عربی کی طرح اس پر بھی اعراب ناگزیر ہے، ورنہ قاری کچھ کا کچھ پڑھ سکتا ہے، جیسا کہ ہمارے نام کی نسبت میں ہوا اور بہتوں کو ہوتا رہتا ہے۔
پھر مولانا نے درسگاہوں کا جائزہ لیا اور تشریف لے گئے۔
یہ ہم خردوں کے لیے بڑی نعمت تھی کہ بلا طلب مولانا سے ملاقات ہوگئی، یہ پہلی ملاقات تھی، اس سے پہلے کبھی مولانا سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔
(27/ صفر1441ھ مطابق 27/ اکتوبر 2019ء یکشنبہ)
21-مولانا محمد معاذ صاحب مینہ نگر اعظم گڑھ ۔
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی کون ہیں؟ اور ان کی شخصیت
محقق عالمِ دین و فقیہ، عربی و اردو کے مایۂ ناز ادیب،کثیر المطالعہ محدّث، مسلکِ اہلِ سنت کے پاسبان، علماءِ دیوبند کے ترجمان، ہزاروں علماء کے استاذ و مربی،دار العلوم دیوبند کے فاضل حضرت مولانا مفتی ولی اللہ مجید قاسمی دامت فیوضہم آپ فتح پور تال نرجا میں پیدا ہوئے
أعظم گڑھ کے مشرقی طرف تقریبا چالیس کلومیٹر کی مسافت پر مسلمانوں کی ایک بڑی بستی بَنام "فتح پور تال نرجا” آباد ہے. راجستھان میں جس وقت اسلامی فوجیں اپنے قدم جما رہی تھیں اس زمانہ میں کنور سنگھ کچھ لوگوں کے ساتھ وہاں سے فرار ہوکر اعظم گڑھ کے اس علاقے میں آکر آباد ہو گئے جو اب مئو میں آتا ہے مگر کسے معلوم تھا کہ جس دین سے فرار ہوکر انہوں نے وطن چھوڑا ہے وہی ان کے دل و دماغ کو اسیر بنالے گا چنانچہ 834ھ میں جونپور کے فرماں روا ابراہیم شاہ شرقی کے ہاتھ پر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور "ملک دیندار” نام رکھا گیا انہی کے پڑ پوتے "فتح خان” کی مناسبت سے فتح پور کہا جاتا ہے
تال نرجا ایک قدرتی تالاب ہے جس کے شمالی ساحل پر فتح پور آباد ہے
فتح پور جس نے ملت اسلامیہ کی اصلاح و فلاح کے لئے عظیم المثال و عدیم النظیر شخصیت کو جنم دیا جن کو دنیا مصلح الأمّت "شاہ وصی اللہ خاں” رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے "فتح خان” مصلح الأمّت رح کے سلسلۂ نسب میں بارہویں پشت پر ہیں
یہ اللہ والوں کی سرزمین ہے، علماء،ادباء،صلحاء کا مسکن و مدفن ہے یہاں پر ایک سے ایک اللہ والے،جِبال العلم، صاحبِ فکر و نظر، اور نابِغَۂ روزگار شخصیات نے جنم لیا
جو ذرّہ یہاں سے اٹھتا ہے نیّرِ أعظم ہوتا ہے
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی مدّ ظلّہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن میں رہ کر لی بعدہٗ ریاض العلوم گورینی کا رخ کیا اور دار العلوم دیوبند سے سندِ فضیلت ملی پھر فقہ میں تخصّص کیا
آپ کے متعلق فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ تعالی رقم طراز ہیں:
"وہ طالب علمی کے زمانہ میں ایک ہونہار و فہیم و سلیم طالب علم تھے انکی صلاحیت و صالحیت روشن مستقبل کا پتہ دیتی تھی اور اب یہ خواب ایک حقیقت ہے وہ ایک پہلو سے میرے محسن بھی ہیں اس لئے کہ مجھے ایک عرصے سے خود لکھنے کے بجائے املاء کرانے کی عادت ہے چنانچہ کئی سالوں تک خوش خط اور رُموزِ تحریر سے واقف ہونے کی وجہ سے نیز مزاج و مذاق میں مناسبت و ہم آہنگی کی وجہ سے میں ان ہی کو اپنی تحریریں املاء کرایا کرتا تھا”
آپ دار العلوم سبیل الاسلام حیدر آباد میں رہے اور اختصاص فی الفقہ کی متعدد کتابیں آپ کے متعلق رہیں بعد ازاں آپ جامعۃ الفلاح میں تدریسی مسند کو زینت بخشنے لگے اور صحیح بخاری، و دیگر کتبِ احادیث، ہدایہ، بدایۃ المجتہد وغیرہ درجہ علیا کی کتابیں آپ کے متعلق رہیں یہاں تقریباً پندرہ سال تدریسی خدمات انجام دیں پھر اللہ کو منظور ہوا کہ فیض کے اس سرچشمہ سے وطن اور قرب و جوار کے لوگ مستفید ہوں آپ اپنے آبائی وطن فتح پور کے جامعہ انوار العلوم آگئے اور حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے ایماء پر آپ کی نگرانی میں شعبۂ افتاء کا قیام عمل میں آیا جس میں اب تک ملک کے بڑے تعلیمی ادارے کے کئی فضلاء کرام نے داخلہ لے کر افتاء کا کورس مکمل کیا ۔
شعبۂ افتاء چند سالہ قلیل مدت میں اپنی متنوّع خصوصیات کی بناء پر علمی حلقوں میں کافی معروف و مشہور ہوا اور دیارِ مشرق میں اہلِ علم کی توجہ کا مرکز اور اولین ترجیح بن گیا۔
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سیکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں:
” اکیڈمی کی خوش قسمتی ہے کہ اس قافلۂ فکر و نظر میں ہمیشہ نیا خون داخل ہوتا رہا ہے اس تسلسل نے اول دن سے آج تک اسکی آب و تاب کو دھیما پڑنے سے محفوظ رکھا ہے اس کارواں کے ایک اہم شہسوار غزیز گرامی قدر مولانا ولی اللہ مجید قاسمی سلّمہ تعالی ہیں اسلامک فقہ اکیڈمی کے سیمناروں میں ان کے مقالات قدر و وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں”
ربّ العالمین نے آپ کو ذوقِ سلیم عطا فرمایا ہے، طبیعت میں سنجیدگی و یکسوئی ودیعت کی ہے، علمی ذوق کی بناء پر مطالعہ کتب آپ کا محبوب مشغلہ رہا ہے اسی میں منہمک رہتے ہیں مطالعہ ہی آپ کو غذا بخشتا ہے اور یہی مشغلہ آپ کو ہر طرح کا سکون عطا کرتا ہے تدریسی اوقات سے فراغت کے بعد آپ مطالعہ کے لئے فارغ ہوتے ہیں اور گھنٹوں آپ کتابوں کے ہجوم میں بیٹھے محو رہتے ہیں اور اسی سے محظوظ ہوتے ہیں
آپ عہدِ حاضر کے ایک بہترین صاحبِ قلم ہیں عربی زبان میں فقہ اسلامی کی مشہور کتاب فِقہُ السُّنہ(السید سابق) کا اردو ترجمہ کی سعادت بھی آپ کے حصہ میں آئی، آپ نے درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں،اب تک آپ کے خامۂ حق سے کئی کتابیں معرضِ وجود میں آکر خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔
آپ اپنے گونا گوں صفات و کمالات، خدمات و خصوصیات کے اعتبار سے منفرد و ممتاز شخصیت کے مالک ہیں۔
ورق تمام ہوا اور مدح۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
ربِّ کائنات آپ کی ہمہ جہات خدماتِ جلیلہ کو قبول فرمائے ۔ آمین یا ربَّ العالمین
:معاذ احمد اعظمی (فاضل دیوبند)
تبصرے:
1-تحریر ماشاءاللہ بڑی جاذب، مختصر، جامع ، بیجا القاب وآداب سے خالی اور سیکڑوں خاموش دلوں کی ترجمان ہے۔ لیکن حق یہ ہیکہ حق ادا نہ ہوا ۔۔
(استاذ محترم مولانا محمد کوثر صاحب اعظمی)
2-ما شاء اللہ ، زبردست ، اللہ تعالی مولانا کی عمر میں برکت عطا کرے اور انہیں مزید ترقیات سے نوازے ۔
(ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب لندن)
تلامذہ:
*میرے مربیّ میرے محسن*
1-*محمد اشہد فلاحی*
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی صاحب کے جامعہ میں تدریس سے استعفی دینے کی خبر جہاں تمام طلبہ برادری کے لیے باعث رنج و حیرت ہے وہیں میرے لیے بھی یہ خبر کسی صاعقے سے کم نہیں، مولانا منتہی درجات کے میرے ان اساتذہ میں سے ایک ہیں جن سے میں نے اتنا کچھ سیکھا ہے جو تاحیات دین و شریعت کے معاملے میں میری رہنمائی کرتے رہیں گےـ آپ نے اپنے طلبہ کو فقہ، اصولِ فقہ حدیث اور اصولِ حدیث کا وہ رس پلایا ہے جسے آپ نے برسوں کی محنت، مطالعہ اور ماہرین فن سے رجوع اور استفادہ کے بعد کشید کیا ہےـ
آپ کا انداز تدریس ایسا دلچسپ اور من موہک ہے کہ طلبہ کبھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے، ہر مسئلہ کو اتنا سہل اور آسان بنا کر پیش کرتے ہیں کہ طلبہ کو انہیں سمجھنے میں کوئی دشواری باقی نہیں رہتی ہے، آپ کا طریقہ تدریس یہ ہے کہ حاضری کے بعد کسی طالبعلم کو عبارت پڑھنے کا حکم کرتے ہیں اس دوران طالب علم کوئی غلطی کرتا ہے تو مشفقانہ اصلاح کرتے ہوئے آگے بڑھاتے ہیں ـ آخر میں خود عبارت پڑھتے ہیں اور فقہ یا حدیث کے متن کا ایسا رواں، سلیس اور فصیح و بلیغ ترجمہ کرتے ہیں کہ طلبہ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے سامنے عربی متن نہیں بلکہ اردو ادب کا شہ پارا کھلا ہوا ہے، کسی حدیث یا فقہ کے کسی خاص مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مختصر اور جامع انداز میں اس کے اطراف و جوانب اور متعلقہ مباحث کا بھی احاطہ کر لیتے ہیں اور جب متعلقہ موضوع پر بحث ختم کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے اس موضوع کی تفہیم کا حق ادا کردیا ہے، اس سے آسان اور اچھے انداز میں تو اسے سمجھایا ہی نہیں جا سکتا تھاـ مسئلے کی نوعیت کو آپ جس ٹھہراو اور قطعیت کے ساتھ واضح کرتے ہیں اس سے کسی ابہام کے لیے کوئی جگہ ہی باقی نہیں رہتی ہے ـ
دورانِ تدریس اگر کبھی یہ محسوس کرتے کہ طلبہ اکتاہٹ کا شکار ہو رہے ہیں یا آج جمعرات ہونے کی وجہ سے درس میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں تو کتاب بند کردیتے اور طلبہ کو فقہ سے متعلق دنیا جہان کے کسی بھی مسئلے کے بارے میں پوچھنے کی کھلی چھوٹ دیتے کہ "پوچھو کیا پوچھتے ہو؟” پھر طلبہ اپنے ذہن کے پٹارے سے جو انوکھے انوکھے سولات نکال کر لاتے اور مولانا ان کا جیسا جیسا دلچسپ اور تشفی بخش جواب دینا شروع کرتے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ٤٠ منٹ کی گھنٹی کب ختم ہوگئی ـ جامعہ کا اپنے طلبہ میں قرآن و سنت کی گہری بصیرت اور مسلک و مشرب سے بالاتر ہو کر اعلائے کلمہ اللہ کا جذبہ پیدا کرنے کے مقصد کو عملاً ہم نے مولانا کی تدریس اور طریقہ تدریس سے ہی سیکھا ہےـ
جس طرح طلبہ کے دلوں میں مولانا کے لیے عزت و احترام کا خصوصی گوشہ ہے ویسے ہی مولانا بھی اپنے طلبہ کو بے حد عزیز رکھتے ہیں، دورانِ تعلیم جن میں سے ایک میں بھی تھا ـ مولانا کی علمی بلندی اور فقہ و حدیث میں آپ کی گہری بصیرت کا میں بڑا مداح اور آپ کے علمی خزانے سے دامن کو بھر لینے کا بے حد حریص تھاـ جس کے لیے میں آپ سے استفادے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھاـ کبھی راہ چلتے ہوئے آپ کو پکڑ لیتا… کبھی قیام گاہ پر آپ کو خالی دیکھ کر دائیں بائیں کرتا ہوا پہنچ جاتا تو کبھی دار الافتاء میں کسی سوال یا عبارت فہمی کے بہانے گھس جاتاـ اندر سے یہ ڈر بھی لگا رہتا کہ کہیں مولانا مصروف ہوں اور میری دخل اندازی سے ڈسٹرب نہ ہوجائیں، لیکن یہ واقعہ ہے کہ جب بھی میں کوئی مسئلہ لے کر مولانا کے پاس پہنچا مولانا نے مسکراتے ہوئے شرح صدر کے ساتھ استقبال کیا اور مطلوبہ امور میں رہنمائی فرمائی ـ ان سب کے درمیان میں نے کبھی بھی آپ کی پیشانی پر بل اور چہرے پر جھنجھلاہٹ کے آثار نہیں دیکھےـ
مولانا طلبہ کی نفسیات کا بھرپور لحاظ رکھتے ہیں اور ان کی عزت نفس کو کسی صورت مجروح نہیں ہونے دیتےـ کلاس میں بھی کسی طالبعلم کو مخاطب کرتے تو اس انداز سے کہ ” جی عمار صاحب کیا فرما رہے ہیں ..جی قادر صاحب کیا پوچھ رہے ہیں..”
جامعہ میں مولانا پر تدریس ، اور دارالافتاء کے علاوہ نگرانی کی ذمہ داری بھی رہی ہے طلبہ کی نگرانی جیسے نازک فریضہ کو بھی آپ نے جس حسن و خوبی اور حکمت کے ساتھ مینیج کیا ہے وہ آپ کی تربیتی صلاحیتوں کا واضح ثبوت ہےـ آپ تمام طلبہ کو سختی و درشتی کی ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے قائل نہیں تھے بلکہ اپنے زیرِ نگرانی ایک ایک طالب علم کی نفسیات سے آپ خوب واقف تھے اور وقت آنے پر طالب علم کی نفسیات کی رعایت کے ساتھ اس سے معاملہ کرتے تھے ـ
طلبہ کے متعدد متنازع معاملات ایسے تھے جن کو آپ نے کسی تلخی و ترشی کے بغیر اپنے حسنِ تدبیر سے نہایت نرمی اور خوبصورتی سے چٹکیوں میں سلجھا دیا ہےـ
الغرض مولانا نے جامعہ کی طرف سے تفویض کردہ ہر ذمہ داری کو جس سلیقے اور خوبصورتی سے نبھاہا ہے وہ مجھ جیسے ادنی طالب علم کی تعریف کی محتاج نہیں ـ
مولانا کے جامعہ سے مستعفی ہونے کا حادثہ کوئی معمولی حادثہ نہیں ہے جسے آسانی سے ہضم کیا جا سکے ـ مادرِ علمی جامعہ الفلاح کے سابق طالب علم کی حیثیت سے ذمہ دارانِ جامعہ کی خدمت میں میری یہ نہایت مودبانہ گزارش ہے کہ مولانا کو ان کی شرائط کی پوری رعایت کے ساتھ جامعہ میں واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے بصورتِ دیگر جامعہ اپنے ایک نایاب گوہر سے محروم تو ہوگا ہی طلبہ برادری بھی حدیث و فقہ کے ایک ایسے ماہرِ فن استاذ سے محروم ہو جائے گی جس کا بدل مل پانا بہت مشکل ہےـ
27/06/2021
2-*مولانا ولی اللہ مجید قاسمی صاحب کی جامعہ سے رخصتی ایک عظیم خسارہ ہوگا*
جامعۃ الفلاح میں ایسے اساتذہ کی شدید قلت رہی ہے جو کلاس سے ہٹ کر بھی طلبہ کو بہت کچھ سکھاتے ہوں۔
مولانا کا شمار بھارت کے چند فقہاء میں ہوتا ہے جن کی جدید مسائل پر آراء کو اہمیت دی جاتی ہے۔ آپ فقہ اکیڈمی آف انڈیا کے مستقل رکن ہونے کے ساتھ ساتھ شریعہ کونسل دہلی کے بھی رکن ہیں۔
جامعۃ الفلاح میں حدیث کے تئیں ہمیشہ لاپرواہی نظر آئی ہے۔ منتخب ابواب وہ بھی صرف ترجمہ کر کے سلٹا دیا جاتا ہے۔ ہمیں اس کمی کا احساس ہوا۔پہلے بھی سینئر ساتھیوں سے سنا تھاکہ وہ حدیث کی کمزوری کو دور کرنے کے لئے مولانا سے حدیث کا درس لیتے اور مولانا پورے سال بخاری یا مسلم پڑھاتے۔ کچھ ساتھیوں نے مولانا سے درخواست کی اور صحیح مسلم کا درس شروع ہوا۔ تین ماہ درس چلا اورمولانا سے حرف بحرف پڑھنے کا موقع ملا۔ کئی سینئر ساتھیوں کو دیکھا جو مولانا سے وقت لیکر کسی نہ کسی کتاب کو پڑھ رہے ہوتے۔لاک ڈاؤن سے پہلے تک مولانا کے پاس حدیث پڑھنے والے کئی طلبہ رہے۔ مزید طلبہ کا طلبہ کا فکر غامدی، سبحانی، راشدی سے مدلل اور مستحکم برینڈ واش کرتے ۔
مولانا کا جانا طلبہ اور جامعہ کے لیے ناقابل تلافی خسارہ ہے۔ جامعہ کا یہ المیہ ہے کہ یہاں کشادہ ظرفی کی بات ہوتی ہے لیکن گٹ بازی والی عصبیت خوب کام کرتی ہے۔ کسی فرد کو سیدھے سیدھے نکالنا مشکل ہو تو اس کو اتنا تنگ کردیا جائے کہ وہ اپنی شرافت کا دامن بچا کر نکلنے پر خود مجبور ہوجائے۔
دوسرے یہ کہ ادھر یہ سوچ بہت تیزی سے پروان چڑھی ہے کہ جامعہ میں فلاحیوں کو اوپر لایا جائے، یہ اچھی بات ہے لیکن فلاحیوں میں بھی وہ ہی لائے جاتے ہیں جن کی مضبوط لابی ہوتی ہے، کسی قسم کے انٹرویو کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور انکے لیے خصوصی تنخواہ مقرر کی جاتی ہے اور ان کے نخرے برداشت کیے جاتے ہیں اور وہ کسی ضابطہ کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔ بھلے ہی طلبہ انکی تدریس سے مطمئن نہ ہوں لیکن انہیں انکے اوپر مسلط رکھا جاتا ہے۔
لیکن مولانا ولی اللہ صاحب جیسے لوگوں کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوتا ہے انکی تحریر سے سمجھا جاسکتا ہے۔
مولانا کی واپسی کی ہر طرح سے کوشش ہونی چاہیے اور ہر حال میں انکو لایا جائے۔ انکا کوئی بدل نہیں ہوسکتا۔ انکی موجودگی جامعہ کے وقار میں اضافہ کا ہی سبب بنے گی اور طلبہ کی علمی ضرورت بھی پوری ہوگی۔
میں اپنے فلاحی برادران سے گذارش کررہا ہوں کہ وہ مولانا کی واپسی کے لئے کوشش کریں۔
انعام الرحمان (مہاراشٹر)
٢٧/ ٦/ ٢٠٢١
3-محمد صفوان اعظمی ۔
استاذ افتاء وناظم تعلیمات ،سابق شیخ الحدیث، قلم کا شہسوار ،فکر و نظر کا شہنشاہ ،حدیث اور فقہ و فتاویٰ کا بادشاہ، انوار العلوم کی روح رواں ،جسے ہم ادب سے حضرت مفتی مولانا ولی اللہ مجید صاحب قاسمی کہتے ہیں
آپ کے محققانہ طرز عمل کا میں کیا بلکہ علمائے دیار مشرق و مغرب قائل ہیں
ممکن نہیں ہے تم سے زمانہ ہو بے نیاز،
تم ہو جہاں میں گوہر نایاب کی طرح،
حضرت مفتی صاحب مسند درس کے شہنشاہ جس دل نشین انداز میں گفتگو کرتے ہیں جس محققانہ انداز میں بحث کرتے ہیں جس مدلل طرز میں تقریر کرتے ہیں،اس کی مثال کم ملتی ہے
آپ کو پیچیدہ مباحث کو آسان انداز میں سمجھانے میں نیز درسی کتب میں ید طولی حاصل ہے آپ کو اتنی پیاری اور شگفتہ زبان عطا کی گئی ہے جو بال کی کھال بڑی خوبی سے نکالتی چلی جاتی ہے اور ذہن و دماغ پر ذرا بھی ثقل محسوس نہیں ہوتا ،
حدیث وفقہ آپ کا طرۂ امتیاز ہے جس پر آپ کو کافی دسترس حاصل ہے اور الحمد للہ تمام موضوعات پر کمال رکھتے ہیں،لکھتے بھی خوب،اور بولتے بھی خوب ہیں۔ صبر و تحمل کا یہ عالم ہے کہ پورے سال دوران درس آپ کی پیشانی پر خفگی کے آثار بھی نہیں آئے ،آپ میں شفقت کا رنگ غالب ہے مزاج میں بے تکلفی اور شائستہ ظرافت ہے۔ ہٹو بچوں کا مزاج نہیں اس لیے طلبہ آپ سے قریب رہ کر علمی گہرائی و گیرائی پیدا کرتے ہیں اور ترقی کی راہ پر گامزن نظر آتے ہیں تصنیف وتالیف آپ کا دلچسپ مشغلہ ہے ۔
آپ کا زیادہ وقت کتب بینی اور در س و تدریس میں گزرتا ہے ۔
تجھے میں آج تک مصروف درس وعظ پاتا ہوں،
تیری ہستی مکمل آگہی محسوس ہوتی ہے ،
آپ کے یہاں علماء اور خدام دین کی بڑی وقعت اور قدر و منزلت ہے ان کے ساتھ خصوصی اکرام اور عزت کا معاملہ فرماتے ہیں ان کی ضروریات و مزاج کی بھی رعایت فرماتے ہیں کہ مشائخ وقت یا کبار علماء آپ سے ملاقات کے لیے آتے جاتے یا بذات خود آپ ان کی خدمت میں پہنچتے ہیں تو نہایت عاجزانہ انداز میں ان سے ملاقات کرتے زیادہ تر خاموشی سے ان کی باتیں غور سے سنتے ہیں اور خود بضرورت ہی بولا کرتے ہیں،
خلاصہ یہ کہ مفتی صاحب کا ہر طرز عمل اور طریقہ کار ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔
اپنے اجداد کی تاریخ پر ناز ہے ہمیں،
ان کی سینچی ہوئی تہذیب کا پاس ہے ہمیں،
محمد صفوان اعظمی ۔
4-نسیم ظفر بلیاوی
2023 میرے لیے کئی اعتبار سے بہتر رہا ہے، خاص طور پر اُس سال "مادر علمی جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی” کے اندر "شعبۂ افتاء” میں میرا داخلہ ہوا اور اس میں بہت کچھ پڑھنے اور سیکھنے کو ملا، متعدد علمی و تحقیقی اورفقہی کتابیں پڑھنے کو ملیں، کئی کتابوں کی تلخیصات مکمل ہوئیں، درجنوں محاضرات ہوئے اور تقریباً دسیوں فقہی عنوانات پر مقالہ جات تحریر کیے اور الحمدللہ سب سے بڑا یہ کام ہوا کہ 2023 کے آخری ایام میں میرے اندر "ضرورتِ حدیث اور فتنہ انکار حدیث” کے عنوان پر باضابطہ ایک کتاب تصنیف کرنے کا داعیہ پیدا ہوا، جو شب و روز کی محنت و لگن، جدو جہد اور سعی و کوشش کے سبب 2024 کے ابتدائی دنوں میں پایہ تکمیل کو پہنچا "اللھم لک الحمد و لک الشکر کلہ” بلا مبالغہ میرے لیے اتنا طویل مقالہ لکھنا بالکل بھی سہل اور آسان نہیں تھا، لیکن ہمارے مشفق و کرم فرما، ذی استعداد و صلاحیت مند اور وسیع النظر شخصیت کے مالک استاذ محترم حضرت مولانا "مفتی ولی اللہ مجید قاسمی” Waliullah Majeed Qasmi صاحب دامت فیوضہم کی ہمیشہ نگرانی و رہبری اور خاص رہنمائی رہی کہ جس کی وجہ یہ کام کم وقت میں بہ آسانی تکمیل پذیر ہوا، آنے والے دنوں میں کتاب کے اندرحسب استطاعت حک و اضافے کی گنجائش ہے ان شاءاللہ، اللہ تعالیٰ سے دعا گوں ہوں کہ باری تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کو صحت و تندرستی سے نواز کر ان کو لمبی عمر عطا فرمائے اور ان کو اجر جزیل سے نوازے، نیز احقر کی اس کاوش کو لوگوں کے لیے مفید اور نافع بنائے اور ہمیشہ دفاع دین اور اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام انجام دینے والا بنائے آمین ثم آمین ۔
نسیم ظفر بلیاوی
5 شعبان المعظم 1445ھ
بمطابق 15 /2024/2