ٹیلیفون اور ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح:
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
نکاح کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ دو گواہوں کی موجودگی میں عاقدین میں سے ایک کی طرف سے ایجاب ہو اور دوسرے کی طرف سے اسی مجلس میں اسے قبول کرلیا جاۓ ۔
ٹیلیفون یا ویڈیو کالنگ میں مجلس کے ایک ہونے کی شرط نہیں پائی جارہی ہے کہ عاقدین دو مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں۔ حالانکہ کہ ایجاب وقبول کے لئے عاقدین اور گواہوں کی مجلس کا ایک ہونا ضروری ہے۔اس لئے ان ذرائع سے نکاح درست نہیں ہے ۔البتہ دو صورتوں میں اس طرح سے نکاح درست ہے :
1-مرد و عورت میں سے ہر ایک یا دونوں کسی ایک یا دو کو اپنے نکاح کا وکیل بنادیں اور وہ گواہوں کی موجودگی میں اپنے موکل کی طرف سے ایجاب یا قبول کرے ۔مثلا اگر مرد موقع پر موجود نہیں ہے تو وہ فون کے ذریعے کسی کو وکیل بنادے اور وہ مجلس نکاح میں گواہوں کی موجودگی میں عورت کے سرپرست کے ایجاب کو اپنے موکل کی طرف سے قبول کرلے۔
اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ عاقدین میں سے کوئی ایک فون کے ذریعے دوسرے کو اپنا وکیل بنادے اور وہ گواہوں کی موجودگی میں اپنے موکل کی طرف سے مثلاً پہلے ایجاب کرے اور پھر اپنی طرف سے اسے قبول کرلے ۔(1)
2-عاقدین میں سے کوئی ایک دوسرے کو فون یا ویڈیو کالنگ کے ذریعے ایجاب کرے اور اسے یقین ہو کہ اسی شخص کی آواز ہے جسے وہ جانتا اور پہچانتا ہے اور وہ اس کی آواز کو دو گواہوں کو سنائے اور گواہ بھی فون کرنے والے سے اچھی طرح سے واقف ہوں اور کہے کہ یہ فلاں شخص کی آواز ہے اور وہ مجھے نکاح کا پیغام دے رہا ہے جسے میں قبول کر رہا ہوں ۔(2)
ان دونوں صورتوں گواہوں کے سامنے ایک ہی مجلس میں ایجاب و قبول پایا جارہا ہے اس لئے نکاح صحیح ہے۔البتہ احتیاط کے خلاف ہے اس لئے مجبوری کے درجے ہی میں فون وغیرہ سے نکاح کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ۔
(1)امرأة وكلت رجلا بأن يزوجها من نفسه فقال الوكيل أشهدوا أني تزوجت فلانة من نفسي.ان لم يعرف الشهود فلانة لا يجوز مالم يذكر اسمها و اسم ابيها و جدها.وان عرف الشهود فلانة وعرفوا انه اراد به تلك المراة يجوز. (خلاصة الفتاوى:15/2)
(2) ولو ارسل إليها رسولا او كتب إليها بذالك كتابا فقبلت بحضرة الشاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى.(الهندية2/2)