بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(14)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

14-ٹیلی ویژن پر  خواتین کے پروگرام :

عورت کی آواز میں ایک طرح کی نغمگی پائی جاتی ہے جو بہت سے بیمار دلوں کے لئے فتنے کی وجہ بن جاتی ہے ۔اس لئے غیر محرم مردوں کے سامنے نرم لہجے میں گفتگو سے منع کیا گیا ہے فرمان ربانی ہے:
یٰنِسَآءَ  النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ  اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ  الَّذِیۡ  فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ  قُلۡنَ  قَوۡلًا  مَّعۡرُوۡفًا .
اے نبی کی بیویو ! اگر تم تقوی اختیار کرو تو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔  لہذا تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا کرو، کبھی کوئی ایسا شخص بیجا لالچ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ہوتا ہے، اور بات وہ کہو جو بھلائی والی ہو۔  (سورہ الاحزاب :32)
تفسیر:
یعنی ازواج مطہرات کا مقام عام عورتوں سے بلند ہے، اس لیے اگر وہ تقوی اختیار کریں گی تو انہیں ثواب بھی دوگنا ملے گا، اور کوئی گناہ کریں گی تو اس کا عذاب بھی دوگنا ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو پیغمبر کے ساتھ جتنا قرب ہو، اسے اپنے عمل میں اتنا ہی محتاط ہونا چاہیے۔
اس آیت نے خواتین کو غیر محرم مردوں سے بات کرنے کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ اس میں جان بوجھ کر نزاکت اور کشش پیدا نہیں کرنی چاہیے، البتہ اپنی بات کسی بد اخلاقی کے بغیر پھیکے انداز میں کہہ دینی چاہیے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب عام گفتگو میں بھی خواتین کو یہ ہدایت کی گئی ہے تو غیر مردوں کے سامنے ترنم کے ساتھ اشعار پڑھنا یا گنگنانا کتنا برا ہوگا۔
(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور اسی بنیاد پر عورتوں کے لئے اذان مشروع نہیں ہے چنانچہ حضرت اسماء بنت ابو بکر سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ليس على النساء اذان ولا اقامة.
عورتوں کے ذمّے اذان و اقامت نہیں ہے۔(السنن الكبرى لليبهقي169/2)
یہ حدیث گرچہ ضعیف ہے مگر مذکورہ آیت اور امام سے نماز میں غلطی ہونے پر تالی بجا کر باخبر کرنے سے متعلق حدیث اور صحابہ کرام کے اقوال سے اس کی تائید ہوتی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت انس کا فتوا حدیث میں ذکر کردہ الفاظ کے ساتھ منقول ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔( دیکھئے السنن الكبرى للبيهقي 172/2. مصنف ابن ابي شيبه. التلخيص الحبير521/1.)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كنا نصلي بغير اقامة.
ہم اقامت کے بغیر نماز پڑھا کرتی تھیں ۔( السنن الكبرى للبيهقي 170/2)
اور اگر نماز میں امام سے کوئی غلطی ہو جائے تو مردوں سے کہا گیا ہے کہ وہ سبحان اللہ کہہ کر باخبر  کریں اور عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ تالی بجا کر  متنبہ کریں چنانچہ حدیث میں ہے:
اذا نابكم امر فليسبح الرجال وليصفق النساء.
جب نماز میں کوئی معاملہ پیش آجاۓ تو مردوں کو سبحان اللہ کہنا اور عورتوں کو تالی بجانا چاہئے۔
(صحيح بخاري: 7190. صحيح مسلم:421)
اور حج کے موقع پر مردوں کے لیے بلند آواز سے لبیک لبیک کہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن عورتوں کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ اپنی اواز بلند نہ کریں علامہ ابن منذر نے نقل کیا ہے کہ اس پر فقہاء کا اجماع ہے اور امام مالک کہتے  ہیں:
أَنَّهُ سَمِعَ أَهْلَ الْعِلْمِ يَقُولُونَ : لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ لِتُسْمِعِ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا.
انھوں نے اہل علم سے سنا ہے کہ عورتوں کے ذمّے لبیک لبیک کہنے میں آواز بلند کرنا نہیں ہے بلکہ وہ اس طرح سے کہیں گی کہ خود سن لیں ۔
الموطا939
دوسری وجہ یہ ہے کہ عورت کا مردوں کے ساتھ اختلاط ممنوع ہے یہاں تک کہ امہات المؤمنین سے کچھ لین دین کرنا ہو تو کہا گیا ہے کہ پردے کے پیچھے سے سوال کرو :
وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ  حِجَابٍ ؕ ذٰلِکُمۡ  اَطۡہَرُ  لِقُلُوۡبِکُمۡ  وَ قُلُوۡبِہِنَّ ؕ
اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ طریقہ تمہارے دلوں کو بھی اور ان کے دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے کا ذریعہ ہوگا۔(سورہ الاحزاب:53)
اور اگر گھر سے باہر جانا ہو تو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس طرح سے نہ چلیں کہ ان کی زینت ظاہر ہوجائے ۔
وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ  مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ  ۔
مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ ماریں کہ انہوں نے جو زینت چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہوجائے۔  اور اے مومنو ! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔
یعنی اگر پاؤں میں پازیب پہنی ہوئی ہے تو اس طرح نہ چلے کہ پازیب کی آواز سنائی دے، یا زیوروں کے ایک دوسرے سے ٹکرا کر بجنے کی آواز غیر محرم مرد سنیں۔
اور ظاہر ہے کہ ٹیلی ویژن وغیرہ پر تقریر یا وعظ ونصیحت کرنے یا خبر سنانے میں مذکورہ احکام کی پابندی ممکن نہیں ہے لھذا خواتین کے لئے اس طرح کا پروگرام چلانا جائز نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ازواج مطہرات اور صحابیات میں سے کسی کے بارے میں ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے مکمل پردے کے ساتھ مسجد میں آکر لوگوں کو مخاطب کیا ہو حالانکہ ان کے گھر مسجد سے بالکل متصل تھے اور ازواج مطہرات تمام مومنوں کے لیے ماں کے درجے میں ہیں اور شرعی معلومات میں بہت سے مردوں سے فائق تھیں اس کے باوجود انہوں نے کبھی عوامی جگہوں پہ علمی مجلس نہیں سجائی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے