پیکر استقامت
حضرت مولانا قاری ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات (2016 ء ) پر ایک تاثراتی تحریر
ولی اللہ مجید قاسمی
ضلع مئو کی مٹی بہت ہی زرخیز اور علم نواز ہے، اس سرزمین سے بے شمار لعل و گہر پیدا ہوئے، اور نہ معلوم ابھی کتنے پنہاں ہیں، اس ضلع کا ایک گاؤں فتح پور تال نرجا اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے بہت نمایاں اور شہرت یافتہ ہے، اسے مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ نور اللہ مرقدہ کا وطن ہونے کا شرف حاصل ہے، جن کی اصلاحی سرگرمیوں سے سارا زمانہ واقف ہے، اوران سے پہلے اسی گاؤں کے ایک سپوت حضرت مولانا محمد عثمان صاحب تھے، جن کا جنگ آزادی میں بڑا کردار رہا ہے، وہ تحریک ریشمی رومال کے ایک اہم اور فعال رکن تھے۔
اور اس سلسلہ ہدایت اور نور کی ایک کڑی حضرت مولانا عبد القیوم صاحب بھی تھے، جو دارالعلوم کے فرزند اور حضرت تھانوی سے مجاز بیعت تھے، جن کے دم سے پورے علاقے میں علم کی شمع روشن ہوئی اور بدعت و جہالت کی تاریکی چھٹ گئی اور جن کی مسیحائی سے دل کے مریضوں کو شفایابی حاصل ہوئی، وہ انوار العلوم کے نام سے ایک مدرسہ قائم کرکے علم کی روشنی پھیلاتے رہے، اور قرب و جوار میں علم دین کی تڑپ اور حفظ قرآن کا رجحان پیدا کرگئے، یہ انھیں کا فیض تھا کہ تقریباً فتح پور کے ہرگھر میں حافظ قرآن پائے جاتے تھے، اورخود ان کے چاروں بیٹے بھی اس سعادت سے بہرہ ور ہوئے، جن میں سے تین نے ممبئی کے مختلف مسجدوں کو اپنی اصلاحی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، جن میں سے ایک حضرت مولانا قاری ولی اللہ صاحب (برد اللہ مضجعہ) تھے، انھوں نے ابتدائی اور حفظ قرآن سے شرح وقایہ تک کی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی، اوراس کے بعد دار العلوم مئو سے مشکوٰۃ تک تعلیم حاصل کی اور رسمی تعلیم سے فراغت اور سند فضیلت مظاہرعلوم سہارنپور سے ملی، وہ بڑے ہی ذہین و فطین اور محنتی طالب علم تھے اور اپنی محنت، یکسوئی اورحسن خدمت کی وجہ سے ہمیشہ اساتذہ کے منظور نظر رہے، اور ہر درجے میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہوتے رہے، چنانچہ تاریخ مظاہر علوم میں لکھا ہوا ہے :
’’ 36؍ فارغین میں اول نمبرات سے کامیاب ہونے والے مولوی ولی للہ ابن جناب عبد القیوم صاحب اعظمی تھے‘‘ (تاریخ مظاہر:166/2)
حصول تعلیم کے بعد کچھ دنوں تک اعظم گڈھ شہر میں تدریس سے وابستہ رہے، اورپھر بزرگوں کے مشورے پر ممبئی پہنچے اور نور مسجد میں بیٹھ کر علم کی روشنی بکھیرتے رہے اور خاموشی و یکسوئی کے ساتھ خلق خدا کو فیض پہنچاتے رہے، اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے، وہ جلد بازی اور شہرت طلبی سے خود بھی گریزاں تھے، اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کیا کرتے تھے، وہ ذوق علم اور شوق عمل میں اپنے درسی ساتھیوں میں ممتاز تھے، اور اپنے ہم عصروں میں بھی بہت فائق اور نمایاں تھے، 1952ء میں مظاہر علوم سے فارغ ہوئے اورپھر دو ایک سال ممبئی کی بعض مسجدوں میں امامت کا فریضہ انجام دینے کے بعد 1955ء میں نور مسجد ڈونگری منتقل ہوگئے، یہاں تقریباً ساٹھ سال تک علم و روحانیت کے موتی لٹاتے رہے، وہ محض ایک مسجد کے امام نہیں تھے، بلکہ قوم کی امامت اور رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے، وہ اپنے مختصر بیانات اور حکیمانہ اسلوب کے ذریعہ لوگوں کی ذہن سازی اور افراد تیار کرنے جیسا مشکل اور دشوار تر مگر پائیدار کام کیا کرتے تھے، ان کی زندگی کا ہر ورق علم اور دین کی خدمت سے عبارت تھا، آپ کا وجود ایک ایسا سایہ دار درخت تھا، جس کی چھاؤں میں ہر ایک کو سکون و طمانینت اور خود شناسی کی دولت ملتی تھی، وہ ایک ایسا چشمہ صافی تھا جس سے تشنہ گان محبت و معرفت سیراب ہوا کرتے تھے ۔
بیعت و خلافت :
حضرت قاری صاحب کے بیعت و اصلاح کا تعلق حضرت مصلح الامت سے تھا اور ان کی وفات کے بعد ان کے اورحضرت شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا صاحبؒ کے خلیفہ مرشد امت حضرت مولانا شاہ عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق ہوگئے اور اجازت و خلافت سے نوازے گئے، اور خود والد گرامی سے بھی ان کو اجازت حاصل تھی، حضرت مرشد امت سے وہ کب رجوع ہوئے، اس سلسلے میں ان کے جانشین اور مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے مہتمم حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب مظاہریؔ کی تحریر سے کچھ رہنمائی ملتی ہے وہ رقم طراز ہیں کہ:
مولانا وصی اللہ صاحبؒ کی وفات کے بعد قاری صاحب کا تعلق بانی مدرسہ عربیہ ریاض العلوم چوکیہ گورینی ضلع جونپور حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب جونپوری نور اللہ مرقدہ سے قائم ہوگیا، یہ تعلق قائم کرنے کی صحیح تاریخ تو بندہ کو معلوم نہیں ہے،لیکن رجسٹر مجلس شوریٰ کے ریکارڈ کے مطابق قاری صاحب نے 1979ء میں بحیثیت ممبر شوریٰ شرکت کی، اس کے بعد مجلس شوریٰ میں مسلسل شرکت کرتے رہے، 35؍ سال میں شوریٰ سے ان کی غیر حاضری بہت ہی کم ہے، وفات سے چند سال قبل جب گردے کے مریض ہوگئے تھے، اور ڈائیلیسز ہونے لگی، لوگوں کے منع کرنے کے باوجود مسلسل شرکت کرتے رہتے تھے، شدید گرمی اور سخت سردی کے باوجود شوریٰ میں شرکت کرنے کے لیے ممبئی سے آتے، احباب روکنے کی کوشش کرتے تو فرماتے : ’’میرے شیخ نے ریاض العلوم کو کتنی مشقت سے قائم کیا ہے، سائیکل، بیل گاڑی سے اور کیچڑ پانی میں پیدل چل کر کتنی مشقت اٹھائی ہے، تم لوگ اندازہ نہیں کرسکتے، اورلوگوں کی کتنی کڑوی کسیلی سنی ہے تم لوگ کیا جانو، میں تو ٹرین اور جہاز سے جاتا ہوں، مجھ کو تو پرہیزی کھانا بھی مل جاتا ہے، میرے حضرت فقر وفاقہ تک کی تکلیف برداشت کرتے تھے‘‘ غرضیکہ ہر طرح کی مشقت اٹھاکر ریاض العلوم آیا کرتے تھے، لوگ کہا کرتے تھے کہ قاری صاحب، صاحب ہمت ہی نہیں ، ہمت و استقلال کے پہاڑ ہیں، شیخ نے ان کے اندر اپنی محبت ہی نہیں بلکہ ہمت و استقلال کی نسبت بھی منتقل کردی ہے۔(ریاض الجنۃ:13؍اگست2016)
اس اقتباس سے شیخ و مرید کے تعلقات، اخلاص و محبت، اور جذبہ فداکاری کا بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے، اور یہ حقیقت ہے کہ اخلاص و للہیت ، خودسپردگی اور فداکاری اور مجاہدانہ زندگی کی جو تعلیم اور رہنمائی خانقاہوں سے ملتی ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتی، اوریہی وجہ ہے کہ تاریخ جہاد وعزیمت میں خانقاہوں کے گوشہ نشین سب سے نمایاں نظر آتے ہیں۔
تصنیف و تالیف :
وہ علم و دانش، ذہانت و متانت اور فراست و بصیرت کے ایک پیکر مثالی تھے، ان کا مطالعہ بڑا وسیع اور کتابوں سے خصوصی شغف تھا اور تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی ان کا ذوق بڑا نکھرا ہوا اور انوکھا تھا، بہت ہی سادہ مگر دلچسپ زبان و بیان کے مالک تھے، مگر مختلف مصروفیات کی وجہ سے وہ اس کام کے لیے زیادہ وقت فارغ نہ کرسکے، مگر اس کے باوجود انھوں نے دو اہم موضوع پر بہت ہی عمدہ کتابیں لکھیں ہیں۔
ان کو حج و عمرہ سے خصوصی تعلق اور شغف تھا، انھوں نے تیس سے زیادہ حج کئے اور عمرہ کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے، اس لیے وہ ان کے مسائل سے بخوبی واقف اور حاجیوں کو پیش آنے والے مشکلات سے اچھی طرح باخبر تھے، اس لیے ان کی کتاب ’’ حج کا ساتھی‘‘ اس موضوع پر ایک بہترین کتاب ہے، جو یقینی طور پر حاجیوں کے لیے ایک بہترین گائڈ اور رہنما ہے اور انداز تحریر اس قدر آسان ہے کہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
ان کی دوسری کتاب کا نام’’ محبوب خدا کی محبوب دعائیں‘‘ ہے، جس میں مسنون دعاؤں کو جمع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
اور کتابوں سے ربط و شوق ہی نے انھیں ایک اشاعتی ادارے کے قیام کی طرف رہنمائی کی، حضرت مصلح الامت اورمولانا ظہور الحسن صاحب سے مشورے کے بعد محمد علی روڈ ممبئی میں مکتبہ اشرفیہ کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، جہاں سے حکیم الامت حضرت تھانوی اور مصلح الامت اور دوسرے اکابر کی کتابیں شائع ہوئیں، یہ حضرت قاری صاحب ہی کا فیض و احسان ہے کہ ان کے ذریعہ سے نئی نسل حکیم الامت کے مواعظ و ملفوظات اور مصلح الامت کی کتابوں اور مجالس سے مستفید ہورہی ہے۔
یکسوئی و مستقل مزاجی :
ان میں طبعاً یکسوئی اور استقامت کا جوہر تھا، مظاہر علوم کی تعلیم نے اسے نکھار دیا، ان کے ایک رفیق درس مولانا محمد عبدالرحمن صاحب حید ر آبادی گواہی دیتے ہیں کہ
’’ میرے ایک دوست قاری ولی اللہ صاحب فتح پوری نے دورئہ حدیث کے آخری دن اپنی ایک بات کا اظہار کرکے اپنے سب دوستوں کو حیرت و رشک میں ڈال دیا، کہنے لگے آج میں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں کہ ذخیرہ احادیث کی کوئی ایک ایسی حدیث نہیں ہے ، جس کو میں نے نہ پڑھا ہو یا نہ سنا ہو۔
جس کامطلب یہ ہوا کہ متذکرہ بالا کتابوں کی تمام احادیث پڑھی یا سنی گئی، کوئی حدیث پڑھنے یا سننے سے رہ نہ گئی، اللہ اکبر، درسگاہ حدیث کا یہ معمول ہے کہ طالب علم احادیث کی تلاوت کرتا ہے اور استاد اس کی تفہیم و تشریح کرتے ہیں، ابتدائے سال میں تو ہر طالب علم کی یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ بھی تلاوت کرے، چنانچہ سب نہیں تو اکثر طلبہ کو حدیث تلاوت کرنے کا موقع مل جاتا ہے، لیکن پہلی سہ ماہی کے بعد صرف دوچار طلبہ ہی یہ منصب حاصل کرلیتے ہیں اورپھر ختم سال تک تلاوت حدیث کی سعادت انھیں کے نصیب ہوجاتی ہے، ان طلبہ میں جہاں قاری ولی اللہ صاحب شامل ہیں راقم الحروف بھی شامل تھا۔
بہر حال قاری ولی اللہ صاحب نے اپنی جس حقیقت کا اظہار کیا ہے وہ ایسے ہی واقعہ ہے، سال بھر کے ایام کچھ مختصر وقت کے نہیں ہوتے، اس طویل عرصے میں حرج، مرض سب ہی کو پیش آتے ہیں، قاری صاحب کو بارہا دیکھا گیا کہ جب وہ بیمار ہوتے یا کسی عذر میں مبتلا ہوتے لحاف، چادر لپیٹ کر درسگاہ کے ایک کونے میں بیٹھ جاتے اور احادیث کی تلاوت کی سماعت کرتے، اس طرح عذر و بیماری میں بھی کوئی حدیث سننے سے متروک نہ ہوسکی۔( کاروان حیات:88/1)
وہ اس جوہر استقامت کی وجہ سے بڑے سے بڑے حادثات، مخالفت اور مصائب میں ثابت قدم رہے، اور ہنستے کھیلتے ہوئے موج حوادث سے گزرگئے، مخالفت کے طوفان اور زور و زر کی بارش ان کے پائے استقامت میں معمولی لرزش پیدا نہ کرسکی، وہ بڑے سے بڑے سانحے میں بھی حرف شکایت زبان پر لانا گوارا نہیں کرتے، وہ ایک عرصے سے بیمار تھے، لیکن چہرے پر ہنسی اور مسکراہٹ کھلی رہتی تھی، وہ ہر حال میں مطمئن اور مسرور تھے کہ
نہ ہجر اچھا ہے نہ وصال اچھا ہے ٭ یار جس حال میں رکھے وہی حال اچھا ہے
اور اسی کو ’’ الاستقامۃ فوق الکرامۃ‘‘ (استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے) کہا جاتا ہے، وہ طویل عرصے سے ڈائیلسس پر چل رہے تھے ، حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا __جو خود بھی کچھ دنوں سے ڈائیلسس کرارہے تھے __کہ ڈائیلسس کے بعد چہرے کا رنگ جل جاتا ہے، میں نے صرف قاری صاحب کو دیکھا ہے کہ اس کے باوجود ان کا چہرہ دمکتا رہتا ہے، اور وہ ہشاش بشاش نظر آتے ہیں، انھیں دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا کہ وہ ڈائیلسس پر چل رہے ہیں۔
غرضیکہ بیماری ہو یا صحت ہر حال میں وہ صابر و شاکر رہے، اور پیام اجل قبول کرنے تک انھوں نے کبھی ادائے فرض پر تن آسانی کو ترجیح نہیں دی۔
گوشہ نشینی اورخود فراموشی :
ان کی پوری زندگی ممبئی جیسے شہر میں گذری ،جہاں کے پرشور اور ہنگامہ خیز مادی زندگی میں بڑے بڑے صاحب علم و فن گم ہوجاتے ہیں اورمال و زر کی شعائیں آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہیں، اور شہرت وثروت کی چمک دمک کے پیچھے لوگ مقصد زندگی کو بھول جاتے ہیں، لیکن شہرت و دولت کے اس سمندر سے قاری صاحب اپنا دامن بچائے رہے، انھوں نے کبھی مقصد زندگی کو فراموش نہیں کیا، اور مالی آلودگی اور بے ضابطگی سے ہمیشہ دور رہے، اور توکل و استغناء کی تلواروں سے حرص و ہوس اور مادہ پرستی کا مقابلہ کرتے رہے۔
انھوں نے شرک و بدعت کی اس نگری میں سنت و شریعت کے اجالے پھیلائے، دلوں میں چھائی ہوئی ظلمت کو روشنی سے بدل دیا، اور آج وہاں اہل حق کا جو بول بالا ہے اس میں ایک بڑا کردار حضرت قاری صاحب کا بھی ہے، ورنہ تو وہ جگہ ایسی تھی کہ وہاں سے حق پسندوں کا گذرنا مشکل تھا، جس نے پچاس سال پہلے کی ممبئی کو دیکھا ہوگا، وہ ہماری بات کی سچائی کی گواہی دے گا۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان جس قدر اخلاص و للہیت کے ساتھ ذکر و تلاوت اور دینی علوم کی نشرو اشاعت میں خود کو گم کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسی قدر اسے شہرت، عزت اور دولت سے نوازتے ہیں، حضرت قاری صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا، انھوں نے جس قدر خود کو چھپایا ، اللہ تعالیٰ نے انھیں پوری دنیا میں چمکایا، وہ معمولی تنخواہ کے ساتھ ایک مسجد کے امام تھے، لیکن دولت و ثروت ان کا قدم چومتی رہی، وہ نام و نشان مٹا بیٹھے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں شہرت و عزت کی بلندیوں تک پہنچادیا، سچ کہا گیا ہے کہ’’ من تواضع للہ رفعہ اللہ‘‘جو اللہ کے لیے پستی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا کرتے ہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود ان کی خود فراموشی اور اپنے کو پوشیدہ رکھنے کا حال یہ تھا کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو ہمارے پاس ان کے حالات زندگی کو جاننے کے لیے کوئی ذریعہ نہیں، حالانکہ وہ ایک بڑے اشاعتی ادارے کے مالک تھے، جس سے سینکڑوں کتابیں چھپ چکی ہیں، لیکن انھوں نے اپنے بارے میں نہ کبھی ایک حرف لکھا اور نہ بیان کیا، وہ صرف کام کرنا جانتے تھے، اور چاہتے تھے کہ صرف اسے وہی جانے جس کے لیے انھوں نے کام کیا ہے۔
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام ہے اپنے ہی کام سے۔ * تیرے ذکر سے تیری فکر سے تیری یاد سے تیرے نام سے۔
اس لیے وہ نہ تو خود اپنے کاموں کا تذکرہ کرتے اور نہ ہی اسے پسند کرتے کہ دوسرا اسے بیان کرتا پھرے، انھوں نے اپنی ہستی کو اللہ کی رضا اور خوش نودی میں اس درجہ مٹادیا تھا اور فنا کردیا تھا کہ انھیں اپنی شخصیت اور اپنے کام کی اہمیت کا سرے سے احساس ہی نہ تھا کہ وہ اللہ کے ان محبوب بندوں میں سے تھے، جن کے بارے میں حدیث میں کہا گیا ہے کہ
’’ان اللہ یحب العبد التقی الغنی الخفی‘‘
اللہ تعالیٰ پرہیزگار، بے نیاز اور پوشیدہ بندے کو پسند کرتے ہیں۔
سادگی اور پاکیزگی:
ان کی سیرت و شخصیت تواضع، تحمل اور بے نفسی سے عبارت تھی، ان کی زندگی بہت ہی سادہ مگر پاکیزہ تھی، وہ ہر ایک کے ساتھ گھل مل جاتے تھے،لباس و پوشاک میں بھی کوئی تکلف نہیں تھا، اور نہ کسی طرح کے چونچلے ، ظاہری رکھ رکھاؤ، ٹیپ ٹاپ، اور شان و شوکت کا اظہار کہ
” نہ کرو فر نہ کوئی تام جھام رکھتے ہیں ٭ ہم اہل دل ہیں میاں! دل سے کام رکھتے ہیں”۔
یہی وجہ ہے کہ وہ جلسے جلوسوں اور اسٹیج سے بہت دور رہا کرتے تھے، اور اکابر کے طریقے پر خاموشی کے ساتھ دعوت و تبلیغ اور اصلاح کا کام کیا کرتے تھے۔
دل آویز قرأت:
اللہ تعالیٰ نے حسن سیرت اور صورت کے ساتھ انہیں’’ حسن صوت‘‘ سے بھی نوازا تھا، وہ ایک انوکھے، البیلے، دلکش اور دل آویز طرز پر قرآن پڑھا کرتے تھے، جب وہ تلاوت کرتے تو پوری مجلس ہمہ تن گوش رہتی، اور ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ محفل دراز سے دراز تر ہوجائے، ان کی قرأت کو سن کر ایسا محسوس ہوتا کہ قرآن ان کی رگ و ریشے میں پیوست ہے، اورایک نئے رنگ و آہنگ اور سوز کے ساتھ ان کی زبان سے ادا ہو رہا ہے، اور سامعین کے دلوں کو گرما رہا ہے اور جسے سن کر پوری کائنات وجد کر رہی ہے، غرضیکہ وہ اس معاملے میں اس دعاء نبوی کے مصداق تھے :
’’ ان ترزقنی القرآن العظیم وتخلطہ بلحمی ودمی وسمعی وبصری وتستعمل بہ جسدی بحولک وقوتک‘‘
تو مجھے قرآن عظیم کی روزی دے اوراسے میرے گوشت، میرے خون، میری شنوائی اور میری بینائی میں پیوست کردے اوراپنی قدرت اور قوت سے میرے جسم کو اس پر عامل بنادے۔
اورایک دوسری دعا میں ہے کہ
’’ ان تجعل القرآن ربیع قلبی وجلاء حزنی ونور صدری‘‘
تو قرآن شریف کو میرے دل کی بہار اورمیرے غم کو دور کرنے کا ذریعہ اور میرے سینے کی روشنی بنادے۔چنانچہ قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے لیے درسگاہوں کے قیام سے انھیں خصوصی شغف تھا، اور وہ قرآن پاک کی تجوید کے ساتھ ادائیگی پر خصوصی توجہ دیتے تھے اور بہت سے لوگوں نے جن میں بڑے بڑے ڈاکٹر اور انجینئر اور جدید تعلیم کے ماہرین شامل ہیں، ان سے سبقا سبقا قرآن مجید پڑھا، اور آخر دم تک انھوں نے قرآن سے اس ربط و تعلق کو باقی رکھا۔
بے مثال خطابت :
وہ ایک بے مثال ، منفرد اور بہترین خطیب تھے، بہت ہی آسان، سادہ اور سلجھے ہوئے انداز میں تقریر کیا کرتے تھے ، لیکن اس سادگی میں بلا کا حسن اور نہایت دلکشی و رعنائی تھی، بہت ہی دلچسپ، پر لطف ، پرکیف اور مؤثر تقریر ہوا کرتی تھی کہ
"دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے*
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے”.
تقریر میں کوئی بے سند اور گری پڑی بات نہ ہوتی تھی، قرآنی آیت کی تشریح کرتے یا دلنشیں پیرایہ میں احادیث کی وضاحت، مگرا نداز ایسا ہوتا کہ ایک سماں بندھ جاتا، اور سننے والوں کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو چھلک پڑتے، ان کی تقریر کی حلاوت اور لہجے کی لطافت اور الفاظ کی معنویت آج تک دل میں رچی بسی ہے، فتح پور تال نرجا کی ’’ باہری مسجد‘‘ میں تقریر کے شروع میں انھوں نے یہ دعا پڑھی:
’’ اللہم اجعل اوسع رزقک علی عند کبر سنی وانقطاع عمری واجعل خیر عمری آخرہ وخیر عملی خواتمہ‘‘
اے اللہ !مجھے بڑھاپے اورعمر ختم ہونے کے وقت سب سے زیادہ وسعت اور فراخی کے ساتھ روزی دیجئے اور میری زندگی کے آخری مرحلے کو سب سے بہتر اور میرے آخری عمل کو سب سے عمدہ بنا دیجئے۔
اور تقریباً ایک گھنٹے تک اس دعا کی تشریح کرتے رہے اور واقعہ ہے کہ پہلی مرتبہ مجھے اس دعا کی معنویت کا احساس ہوا، اور اس کے بعد سے میری طرح نہ معلوم کتنے لوگوں نے اس دعا کو اپنے معمولات میں شامل کرلیا۔
اسی طرح ایک مرتبہ فتح پور ہی میں حضرت مصلح الامت کی مسجد میں ایک نکاح کے موقع پر تقریباً آدھے گھنٹے تک درج ذیل حدیث پر بیان فرمایا:
’’کسی عورت سے چار چیزوں کے سبب نکاح کیا جاتا ہے، خوبصورتی،مالداری، حسب و نسب اور دینداری، تم دیندار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کرو اور بصورت دیگر تمہارے ہاتھ میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں آئے گا‘‘
تقریر اتنی مؤثر اور برمحل تھی کہ لوگوں کی آنکھوں سے سیل اشک رواں تھا اوروہاں سے عمل کا جذبہ لے کر اٹھے، کاش کہ ان کی تقریر ٹیپ کرلی جاتیں، تاکہ ان سے استفادہ کا موقع ملتا رہتا، لیکن اپنی شخصیت کی طرح سے اپنی تقریروں کی بھی انھوں نے کوئی اہمیت محسوس نہیں کی ، جس کی وجہ سے ہم ایک ’’ خیرکثیر‘‘ سے محروم ہوگئے۔
جمعہ کے دن عربی خطبہ سے پہلے انتہائی سادہ اور مختصر خطاب فرماتے تھے اوربعض عنوانات پر تسلسل کے ساتھ بیان کرتے ، جو خاص و عام ہر ایک کے لیے یکساں مؤثر اور مفید ہوتا، اپنی تقریروں اور مجلسوں میں وہ اختلافی اور نزاعی گفتگو سے احتراز کیا کرتے تھے، خالص اصلاحی بیان ہوتا، جس کی وجہ سے ان سے اختلاف رکھنے والے بھی مستفید ہوتے۔
مجلسی شخصیت:
حضرت قاری صاحب ایک باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، وہ جس محفل میں ہوتے اسے زعفران زار بنادیتے، اور ہنسی مذاق میں پتے کی بات کہہ جاتے اور دین سیکھنے اور سکھانے کے گر بتا دیتے، وہ جس جگہ بھی ہوتے میر مجلس ہوتے اوراپنی مدلل اور دل آویز گفتگو سے پوری مجلس پر چھا جاتے، ان کی گفتگو کا انداز جارحانہ نہیں، بلکہ عارفانہ اورمحبت سے لبریز ہوا کرتا تھا، وہ موقع پر حق بات کہنے سے چوکتے نہیں تھے، لیکن اسلوب خیر خواہی اور دردمندی کا ہوتا۔
وہ سراپا مہر و محبت، کرم و شفقت اور ہمہ تن رحم و الفت تھے، ان کے میٹھے بول، اور دلکش انداز گفتگو آج بھی یاد داشت کے خانے میں محفوظ ہیں اور کانوں میں رس گھول رہے ہیں، ان کی روح پرور مجلس اوردل نواز نگاہوں سے ایمان کو تازگی ملتی ،دل کو محبت الٰہی کی گرمی نصیب ہوتی، اوردل چاہتا کہ یہ محفل کبھی برخواست نہ ہو کہ
بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی ٭ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔
نہ معلوم کتنے بھٹکے اور سر پھرے لوگ ان کی مجلس میں حاضر ہوئے، اور معرفت الٰہی سے سرشار ہوکر واپس ہوگئے، ان کی زندگی سے شرک و بدعت کا خاتمہ ہوا اور سنت و شریعت کا نور جگمگانے لگا۔
یہ مجلس عصر کے بعد ہوتی جس میں علماء اورعوام کے ساتھ عصری علوم کے ماہرین شریک ہوتے، ان مجلسوں میں قرآن کی تفسیر اور تجوید کے ساتھ پڑھنے کا دور بھی چلتا،اورلوگ اس سے مستفید ہوتے اور ایک زمانے سے فجر کے بعد صرف ایک مسئلہ بیان کرنے کا معمول تھا، جسے جاننے کے لیے دور دراز کے علاقوں سے لوگ آیا کرتے تھے، وہ گروہی عصبیتوں سے دور رہا کرتے تھے، لیکن حق بات کہنے سے گریز بھی نہیں کرتے تھے، البتہ انداز ناصحانہ اور ہمدردانہ ہوتا، اس لیے آپ ہر طبقہ میں مقبول اور ہر دل عزیز تھے۔
محبوبیت و مقبولیت :
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں، تو جبریل امین کو بلا کر کہتے ہیں کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو، جبریل امین اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ فلاں بندے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں تو تم بھی اس سے محبت کرو، پھر آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اوراس کے بعد اس کی مقبولیت روئے زمین پر اتار دی جاتی ہے ۔( صحیح مسلم)
اللہ کی نگاہ میں مقبول و محبوب ہونے کی دلیل وہی ترتیب ہے جو حدیث میں بیان کی گئی کہ خواص سے عوام کی طرف محبت منتقل ہو ، ورنہ تو شعبدے باز اور بدعتیوں کے یہاں بھی عوامی جم گھٹا لگا رہتا ہے، لیکن یہ بھیڑ اللہ کے یہاں مقبول ہونے کی علامت نہیں ہے۔
حضرت قاری صاحب کی مقبولیت اور محبوبیت کی یہی واقعی اور حقیقی ترتیب دیکھی گئی، وہ اکابر کی نگاہوں کا تارہ تھے، اور اساتذہ میں نہایت محبوب اور بزرگوں کے یہاں قابل اعتماد اور معاصر علما میں ہر دل عزیز، ان کے ارد گرد عوامی بھیڑ جمع نہیں رہتی، البتہ اہل اعلم کا تانتا بندھا رہتا اور خانقاہوں اور مدارس میں ان کا ذکر خیر ہوتا رہتا کہ وہ خود محبوب تھے، اورمحبت و عرفان کی اشاعت ان کا مشغلہ ، ان کے اخلاق کریمانہ اور علمی شان کی وجہ سے ہر شخص ان پر فریفتہ اور شیفتہ کہ ؎ـ
یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے ٭ جو ہے راہ عمل پر گامزن محبوب خلقت ہے۔
احیاء سنت :
علماء دیوبند کا ایک مخصوص وصف اور امتیاز احیاء سنت وشریعت ہے، حضرت قاری صاحب میں بھی یہ وصف بہت نمایاں تھا، خصوصا وہ وراثت میں عورتوں کے حصے کے متعلق بہت فکر مند رہا کرتے اوراس سنت و شریعت کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے ، یہ وہ مسئلہ ہے جس سے عوام تو چھوڑئے علماء بھی غافل ہیں، اور ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، جنھوں نے وراثت میں سے اپنی بہنوں اور دوسری عورتوں کو ان کا شرعی حق دیا ہو، حضرت قاری صاحب نے سب سے پہلے عمل کرکے دکھایا اور اپنی دونوں بہنوں کو ان کا حق دیا اورپھر تقریر و تحریر اور نجی مجلسوں اور انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے اور لوگوں کو بیدار کرتے رہے۔
مساجد و مدارس کا قیام اور ان کی سرپرستی :
مساجد و مدارس کے بارے میں بجا طور پر کہا گیا ہے کہ یہ امت کے پاور ہاؤس ہیں، جہاں سے روشنی اورطاقت تقسیم ہوتی ہے اور دین کی حفاظت و حمایت کے لیے ایک مضبوط قلعہ، جہاں سے سنت و شریعت کی حفاظت بھی ہوتی ہے اور اشاعت بھی، اس لیے ہمارے اکابر نے مساجد و مدارس کے قیام پر خصوصی توجہ دی۔
یہ گذر چکا ہے کہ حضرت مولانا عبد القیوم صاحب نے انوار العلوم کے نام سے فتح پور میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا ، جسے حضرت مصلح الامت کی وفات کے بعد بعض لوگوں نے ’’ وصیۃ العلوم‘‘ کا نام دے دیا، کچھ عرصے کے بعد فتح پور کے بعض مخلصین اور حساس لوگوں نے محسوس کیا، گاؤں میں مکتب کے علاوہ ایک بڑے مدرسے کی ضرورت ہے، جس میں حضرت قاری صاحب کے بھائی حافظ عبد المنان ، میرے والد عبد المجید اور حافظ عبد الحمید، انوار الحق، بدر الدین، قمر الدین صاحبان کا نام نمایاں ہے، ان لوگوں نے بے سروسامانی کی حالت میں جناب قمر الدین صاحب کے مکان کے ایک حصے میں چھپر ڈال کر اس مدرسے کی ابتدا کی اور جسے حضرت قاری صاحب نے ایک بڑے مدرسہ کی شکل میں تبدیل کرکے دینی علوم کا ایک اہم مرکز بنادیا۔
اس کے علاوہ آپ کوکن کے علاقے کے بہت سارے مدارس کے سر پرست اور معاون تھے، اور جامعہ عربیہ ہتھورا اور مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے تاحیات رکن شوریٰ رہے اور آپ کی مسجد پورے ہندوستان کے سفراء اور مدارس کے ذمہ داروں کے لیے ایک بہترین قیام گاہ تھی، جہاں پر عزت نفس کو مجروح کئے بغیر وہ اپنی سہولت کے مطابق قیام کیا کرتے تھے، اورحضرت قاری صاحب استطاعت کے بقدر ان کا تعاون کیا کرتے تھے۔
جیسا کہ لکھا جاچکا ہے کہ ان کی سیرت و شخصیت کا اصل جوہر استقامت ہے، جو یقین کی خمیر سے تیار ہوتی ہے اور جسے عمل پیہم کے ذریعہ نکھارا اور سنوارا جاتا ہے، اور جسے محبت و معرفت کے ذریعہ دو آتشہ بنایا جاتا ہے، کہنے والے نے سچ کہا ہے کہ ؎
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم ٭ جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں۔
ان کی آنکھوں میں یقین کا نور اور چہرے پر محبت کا سرور جگمگاتا رہتا، وہ سراپا رحمت و الفت تھے، وہ ایک ابر کرم تھے، جو سب پر برستا رہتا، علماء اور مدارس ان سے فیض یاب ہوتے رہتے، وہ یتیموں اور بے کسوں کا سہارا تھے، نہ معلوم کتنے لوگوں کو ان کے جانے کے بعد پہلی مرتبہ اپنی یتیمی اوربے کسی کا احساس ہوا ، لیکن کسے اندازہ تھا کہ سب کے آنسوؤں کو پوچھنے والا یوں لوگوں کو اشکبار چھوڑ جائے گا اور دنیا ایک شجرسایہ دار سے محروم ہوجائے گی۔