(11)

رویت ہلال

 

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔

 

اسلامی شریعت کی عمارت آسانی ، سادگی اور بے تکلفی پر قائم ہے ۔ اس میں کسی ایسی بات کاپابند نہیں بنایاگیا ہے جسے سمجھنا اوراس پر عمل پیرا ہونا دشوار ہو ،اورجسے صرف خاص لوگ معلوم کر پائیں اور سمجھ سکیں ، اس لیے عبادات وغیرہ کے وقت کو جاننے کے لیے ایسی چیزوں کو معیار بنایاگیا ہے جس تک ہر خاص و عام کی رسائی ہوسکتی ہے ، جیسے کہ نماز کے لیے سورج کانکلنا ، ڈھلنا اور ڈوبنا وغیرہ اور روزہ ،حج، قربانی اور عید کے لیے چاند کا نظر آجانا ۔

مشاہداتی چیزوں کو معیاربنانے میں آسانی اور سہولت کے ساتھ وحدت و اجتماعیت کا لحاظ بھی ہے جس کا عبادات میں بطور خاص خیال رکھاگیا ہے کہ اس میں اختلاف کی گنجائش کم سے کم ہوگی اور اسی کے پیش نظر حکم دیا گیا ہے کہ چاند دیکھنے کا اہتمام کیاجائے اور مسلم حکمرانوں کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل کی گئی ہے کہ وہ رویت ہلال کی گواہی کے بعد اس کا اعلان کر یں ۔

رمضان کے مہینے سے ایک اہم عبادت متعلق ہے ، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے خصوصی طور پر اس کے اہتمام کا حکم دیاہے تاکہ اختلاف وانتشار سے بچا جاسکے ، آپﷺ نے فرمایا :

‘‘ احصوا ھلال شعبان لرمضان’’ (ترمذی:687.المستدرک:425/1)

‘‘رمضان کے لیے شعبان کے دنوں کو خوب اچھی طرح سے شمار کر و ’’۔

خود آنحضرت ﷺکی کوشش رہا کرتی تھی کہ شعبان کی تاریخوں کو محفوظ رکھاجائے تاکہ رمضان کے آغاز میں کوئی پریشانی نہ ہو، حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ :

‘‘کان رسول اللہﷺ یتحفظ من شعبان ما لا یتحفظ من غیرہ ثم یصوم لرویۃ رمضان، فان غم علیہ عد ثلاثین یوما ثم صام’’ (ابوداؤد:2325۔مسند احمد:25161۔حدیث صحیح ہے ۔نیل الاوطار854/1)

‘‘رسول اللہ ﷺ شعبان کی تاریخ کو یاد رکھنے کے لیے جتنی کوشش کیا کرتے اتنی دوسرے مہینوں کے لیے

نہیں کرتے تھے ، پھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھتے اور اگر بادل کی وجہ سے چاند نظر نہ آتا تو تیس دن شمار کرکے پھر روزہ رکھتے ’’۔

اور اگر چاند دیکھنے میں غلطی ہوجائے جس کی وجہ سے وقت پر رمضان شروع نہ کیا جا سکے یا عید دوسرے دن منالی جائے تو اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے ، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

‘‘ الصوم یوم تصومون والفطریوم تفطرون والاضحی یوم تضحون’’ ( ترمذی: 697)

‘‘روزہ اس دن ہے جب سب روزہ رکھتے ہیں ،عید اس دن ہے جس دن سب عید مناتے ہیں اور عید قرباں اس دن ہے جس دن سب لوگ قربانی کرتے ہیں ’’۔

علامہ خطابی کہتے ہیں کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں غلطی پر کوئی گرفت نہیں کی جائے گی اس لیے اگر لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کریں اور نظر نہ آنے کی وجہ سے تیس مکمل کرکے عید کریں اور پھر بعد میں پتہ چلے کہ مہینہ انتیس کا تھا تو ان کا روزہ اور عید سب درست ہے اور ان پر کوئی گناہ نہیں ہے اور یہی حکم حج کا بھی ہے ، اس لیے اگر ثابت ہوجائے کہ وقوف عرفہ کی تاریخ میں غلطی ہوئی ہے تو دوبارہ حج کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔(تحفۃ الاحوذی312/3.البدائع304/2)

رویت ہلال کے اصول وضوابط:

رمضان کے چاند کی گواہی ایک فریضے کی ادائیگی کے وقت کی خبر ہے اور یہ ایک خالص دینی معاملہ ہے جس کی پابندی خبر دینے اور سننے والے پر ضروری ہے ، ا س لیے اس میں ایک شخص کی گواہی کا بھی اعتبار کر لیا‌‌ گیا ہے ۔ (المغنی 418/4) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں:

‘‘ تراءی الناس الھلال فاخبرت رسول اللہﷺ انی رأیتہ فصامہ وامر الناس بالصیام’’ (ابوداؤد:2342۔دارمی: 1733 ۔حاکم585/1)

‘‘لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی ، رسول اللہ ﷺ سے میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا ہے تو آپؐ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ’’۔

اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے :

‘‘ جاء اعرابی الی النبیﷺ فقال ابصرت الھلال اللیلۃ، قال اتشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ، قال نعم، قال یابلال اذن فی الناس فلیصوموا غداً ’’(نسائی:2113۔ابوداؤد: 2340۔ترمذی:691)

‘‘نبی ﷺکے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا آج رات میں نے چاند دیکھاہے ، آنحضرتؐ نے پوچھا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺنے فرمایا : بلال ! لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ کل روزہ رکھیں ’’۔

مذکورہ احادیث سے استدلال کرتے ہوئے حنفیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کے ثبوت کے لیے ایک دیندار شخص کی گواہی کافی ہے ، اس کے برخلاف امام مالکؒ کہتے ہیں کہ رمضان کے آغاز کے لیے بھی دو عادل لوگوں کی گواہی ضروری ہے ، امام شافعیؒ سے بھی ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے ،(الموسوعہ الفقہیہ 140/23)

ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :

‘‘ صوموا لرویتہ وافطروا لرویتہ وانسکو لھا فان غم علیکم فاکملوا ثلاثین فان شھد شاھدان فصوموا وافطروا ’’(نسائی:2116)

‘‘چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو اور قربانی بھی چاند دیکھ کر کرو اور اگر بادل کی وجہ سے چاند دکھائی نہ دے تو تیس مکمل کرو اور اگر دو گواہ چاند دیکھنے کی گواہی دے دیں تو روزہ رکھو اور عید مناؤ ’’۔

جمہور کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کے لیے صریح نہیں ہے کہ اگر محض ایک شخص گواہی دے تو اسے قبول نہ کرو ، اس کے برعکس حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور ابن عباسؓ کی روایت اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ رمضان کے آغاز کے لیے ایک شخص کی گواہی کافی ہے ۔(نیل الاوطار 851/1)

چاروں اماموں کے نزدیک عید کے چاند کے لیے دولوگوں کی گواہی ضروری ہے ،(الموسوعہ الفقہیہ 142/23)اس لیے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور ابن عباسؓ سے منقول ہے :

‘‘ ان رسول اللہﷺ اجازشھادۃ رجل علی رویۃ ھلال رمضان وکان رسول اللہﷺ لایجیزشھادۃ الافطار الاشھادۃ رجلین ’’ (السنن الکبری 212/4)

‘‘رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے چاند کے لیے ایک شخص کی گواہی کو جائز قرار دیا اور عید کے چاند کے لیے آنحضرت ﷺ صرف دو لوگوں کی گواہی قبول کرتے تھے’’۔

او ر بعض صحابہ کرامؓ سے منقول ایک روایت میں ہے :

‘‘ اختلف الناس فی آخریوم من رمضان فقدم اعرابیان فشھدا عند النبیﷺ باللہ لاھل الھلال امس عشیۃ فامررسول اللہﷺ الناس ان یفطروا’’(سنن ابوداؤد: 2339)

‘‘ رمضان کے آخری دن کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہوگیا ، دیہات سے دولوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ کل شام میں چاند نظر آگیاہے ، یہ سن کر نبی ﷺ نے صحابہ کرام کوحکم دیا کہ روزہ توڑدیں ’’۔

رمضان اور عید کے گواہوں کی تعداد وغیرہ میں فرق کوبیان کرتے ہوئے علامہ شامی لکھتے ہیں :

‘‘مطلع صاف نہ ہونے کی حالت میں عید کے چاندکے لیے گواہی کی شرطیں مطلوب ہیں ، اس لیے کہ اس سے بندوں کا نفع یعنی روزہ نہ رکھنے کاحکم متعلق ہے، لہٰذا یہ بندوں کے دوسرے حقوق کی طرح ہے ، تو جس طرح سے دیگر حقوق کے ثبوت کے لیے بعض شرطوں کا پایاجانا ضروری ہے اسی طرح سے اس میں بھی ان شرطوں کا لحاظ ضروری ہے ، جیسے گواہوں کا متعدد ہونا ، دیندار اور آزاد ہونا اور کسی کوزنا کی تہمت لگانے کی وجہ سے حد جاری نہ ہونا ،گرچہ اس جرم سے توبہ کرچکا ہو اور گواہی کے لفظ کا ہونا ’’۔(رسائل ابن عابدین 234/1)

اور علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں :

‘‘ولانھا شھادۃ علی ھلال لایدخل بھا فی العبادۃ فلم تقبل فیہ الا شھادۃ اثنین کسائرالشھود’’ (المغنی 419/4)

‘‘اور اس لیے کہ یہ ایسے چاند کو دیکھنے کی گواہی ہے جس کے ذریعے کسی عبادت کو شروع نہیں کیا جاتا ہے ، لہٰذا اس میں دوسرے معاملات کی گواہی کی طرح سے دو لوگوں کی گواہی قبول کی جائے گی ’’۔

امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک مطلع صاف ہو یانہ ہو ، بہر صورت رمضان کے لیے ایک شخص اور عید کے لیے دو لوگوں کی گواہی قبول کر لی جائے گی۔ اس کے برخلاف حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک مذکورہ تفصیل مطلع صاف نہ ہونے کی صورت میں ہے اوراگرمطلع صاف ہو تو رمضان اور عید دونوں کے لیے جم غفیر یعنی ایک بڑے مجمع کی گواہی شرط ہے ،(بدایۃ المجتہد293/1۔ الموسوعہ الفقہیہ25/22)اس لیے کہ یہ ممکن نہیں کہ آسما ن بالکل صاف ہو ، چاند دیکھنے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہو ، ہر شخص ٹکٹکی باندھ کر ایک مخصوص سمت میں دیکھ رہا ہو اور پوری کوشش کر رہا ہو کہ چاند نظر آجائے مگر اس کے باوجود پورے مجمع اور پورے شہر میں صرف دو ایک لوگوں کو چاند دکھائی دے اور بقیہ لوگ دیدار سے محروم رہیں ، حالانکہ ان کی نگاہ بھی کمزور نہیں ہے ، اس لیے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ چاند دیکھنے والوں کو وہم اور غلط فہمی ہوئی ہے ۔

مطلع صاف ہونے کی حالت میں جم غفیر کی شرط اس وقت ہے جب کہ لوگ شہر کے اندر اور عام جگہوں سے چاند دیکھ رہے ہوں ، اس لیے اگر کوئی شہر کے باہر یا بلند جگہ سے چاند دیکھنے کی گواہی دے رہا ہے تو مطلع صاف ہونے کے باوجود رمضان کے لیے ایک شخص کی اور عید کے لیے دو لوگوں کی گواہی قبول کرلی جائے گی ۔(رد المحتار 353/3)

جم غفیر کی گواہی کی حالت میں گواہوں کا عادل ہونا شرط نہیں ہے بلکہ غیر دیندار مسلمانوں کی گواہی بھی قبول کر لی جائے گی ۔(رد المحتار 356/3)

جم غفیر کی تعداد :

مطلع صاف ہونے کی حالت میں رمضان اور عید دونوں کے چاند کے ثبوت کے لیے ایک ایسی تعداد کی طرف سے رویت ہلا ل کی خبر ضروری ہے جس سے ظن غالب حاصل ہوجائے ،(ردالمحتار 356/3) اس تعدادکی تفصیل کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ، امام ابو یوسف سے منقول ہے کہ کم سے کم پچاس لوگ ہونے چاہئیں، بعض لوگوں نے کہا کہ محلہ کے اکثر لوگ چاند دیکھنے کی گواہی دیں ، کچھ لوگوں نے کہا کہ ہر مسجد سے ایک دو لوگ آکر خبر دیں لیکن صحیح یہ ہے کہ اس معاملے میں کوئی تعداد متعین نہیں ہے بلکہ قاضی کی صواب دید پر مبنی ہے ، اس کا دل جس تعداد پر مطمئن ہوجائے وہ کافی ہے ۔

‘‘والصحیح من ھذاکلہ انہ مفوض‌الی رای الامام ان وقع فی قلبہ صحۃ ما شھدوا بہ‌وکثرت الشھودامربالصوم’ (رد المحتار 356/3)

‘‘ان سب میں صحیح یہ ہے کہ اس کا فیصلہ امام کے حوالے ہے ، اگر اس کا دل گواہی کے صحیح ہونے پر مطمئن ہو اور گواہ کثرت سے ہوں تو وہ روزہ کا حکم دے دے گا ’’۔

مالکیہ کہتے ہیں کہ جم غفیر سے مراد اتنی بڑی تعداد ہے کہ اس قدر لوگوں کاعام طورپرجھوٹ پر اتفاق کرلینا ممکن نہ ہو اور بعض مالکی علماء نے کہا ہے کہ کم سے کم تین لوگ چاند دیکھنے کی خبر دیں تو اسے جم غفیر کہاجاسکتاہے ۔(الموسوعہ الفقہیہ 24/22)

واضح رہے کہ امام ابوحنیفہ سے ایک قول امام شافعی کے مطابق بھی منقول ہے کہ مطلع صاف ہویانہ ہو ، بہر صورت رمضان کے لیے ایک شخص کی خبر اور عید کے لیے دولوگوں کی گواہی کافی ہے ۔(1)

علامہ ابن نجیم مصری اور علامہ شامی کاخیال ہے کہ اس زمانے میں اسی قول پر عمل کرنا چاہیے ، اس لیے کہ اب لوگوں میں چاند دیکھنے کا ذوق و شوق باقی نہیں رہا ۔(رسائل ابن عابدین 234/1)

شہادت اور مجلس قضاء:

مذکورہ تفصیل سے واضح ہوچکا ہے کہ رمضان کے آغاز کے لیے خبر کافی ہے جس کے لیے مجلس قضاء ، قاضی کا فیصلہ اورگواہی کے لفظ کی ضرورت نہیں ہے اور عیدکے لیے شہادت مطلوب ہے ، جس کے لیے مجلس قضاء ، قاضی کا فیصلہ اور گواہی کا لفظ ضروری ہے ۔ (رد المحتار254/3۔الہندیہ198/1 )

اور اگرکسی جگہ قاضی نہ ہو تو ایک قابل اعتماد شخص کی خبر پر پر روزہ رکھنا ہوگا اور دو عادل لوگوں کی خبر پر عید کی جائے گی(رد المحتار 254/3) اور اجتماعیت کا لحاظ کرتے ہوئے کسی عالم دین یا رویت ہلال کمیٹی کے سامنے گواہی دی جائے گی ، اس لیے کہ :

‘‘ العالم الثقۃ فی بلدۃ لاحاکم فیھا قائم مقامہ’’ (عمدۃ الرعایۃ 309/1)

‘‘جس شہر میں قاضی اور حاکم نہ ہو وہاں قابل اعتماد عالم اس کے قائم مقام ہوتا ہے ’’۔

اور اجتماعی نظم سے لاتعلق ہو کر انفرادی طورپر چاند کا اعلان کرنا درست نہیں ہے ، کیوں کہ روزہ اور عید وغیرہ کے لیے اجتماعیت مطلوب ہے ، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :

‘‘ الصوم تصومون والفطریوم تفطرون والاضحی یوم تضحون’’(ترمذی:697)

‘‘روزہ اس دن ہے جس میں سب لوگ روزہ رکھ رہے ہوں اور عید اس دن ہے جس میں سب لوگ عید منارہے ہوں اور قربانی اس دن ہے جس میں سب لوگ قربانی کر رہے ہوں’’۔

امام ترمذی کہتے ہیں کہ حدیث کامطلب یہ ہے کہ روزہ اور عید جماعت اور اکثر لوگوں کے ساتھ ہے ۔

( ان الصوم و الفطر مع الجماعة و عظم الناس جامع‌ترمذی 74/2)

اور اللہ کے رسول اورخلفائے راشدین اور بعد کے مسلم حکمرانوں کے زمانے میں یہی دستور رہا ہے کہ حاکم وقاضی ہی چاند کا اعلان کیا کرتا تھا ،اس لیے اس نظام کی پابندی ضروری ہے ۔

گواہ کی ذمہ داری :

چاند دیکھنے والے مردو عورت پرفرض ہے کہ ہے وہ جلد سے جلد قاضی یا ہلال کمیٹی کے پاس آکر چاند دیکھنے کی گواہی دے اور چاند دیکھنے کے باوجود گواہی نہ دینا سخت وعید اور عذاب کاباعث ہے ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

‘‘وَلَاتَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ ط وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِم‘’ قَلْبُہٗ ، وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْم‘’ (سورہ البقرہ:283)

‘‘اور تم لوگ گواہی نہ چھپایا کرو اور جو گواہی چھپائے تو اس کا دل گنہ گار ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے باخبر ہے ’’۔

اور اسی بنیاد پر فقہاء نے لکھاہے کہ دیندار شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسی رات میں چاند دیکھنے کی گواہی دے ،گرچہ و ہ باندی یا پردہ نشین عورت ہو تاکہ لوگ صبح میں روزہ رکھ سکیں اور یہ گواہی فرض عین ہے ،(رد المحتار 352/3)یہاں تک کہ اگر کسی جگہ قاضی یا ہلال کمیٹی نہ ہو تو مسجد میں جاکر عام لوگوں کے سامنے گواہی دے ۔(الہندیہ 197/1)

گواہی میں تاخیر :

اور اس فریضے کی ادائیگی میں کسی عذر کے بغیر تاخیر باعث فسق ہے ، جس کی وجہ سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی (2)لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ اسے معلوم ہو کہ کسی عذر کے بغیر گواہی میں تاخیرکرنا حرام ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا گواہ نہ ہو ،(3)اور گر کوئی معقول عذر ہے تو پھر تاخیر میں کوئی حرج نہیں ہے ،جیسے کہ گواہ کی رہائش شہر سے دو ر ہوجس کی وجہ سے قاضی تک پہنچنے میں تاخیر ہوگئی ، چنانچہ حدیث میں ہے کہ :

‘‘ اختلف الناس فی آخریوم من رمضان فقدم اعرابیان فشھدا عند النبیﷺ باللہ لاھل الھلال امس عشیۃ فامررسول اللہﷺ الناس ان یفطروا’’(أبو داؤد:2339)

‘‘ رمضان کے آخری دن کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہوگیا ، دیہات سے دولوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اللہ کی قسم کھاکر گواہی دی کہ کل شام میں چاند نظر آگیاہے ، یہ سن کر نبی ﷺ نے صحابہ کرام کوحکم دیا کہ روزہ توڑدیں ’’۔

کس قدر تاخیر باعث فسق ہوگی ؟ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ، علامہ حموی نے بعض فضلاء کے حوالے سے لکھاہے کہ قاضی تک پہنچنے کے لیے جو وقت درکار ہے اس کے بقدر تاخیر فسق کا سبب نہیں ہے اور کسی عذر کے بغیر اس سے زیادہ تاخیر فسق ہے ۔(غمز عيون البصائر324/2)

گواہ کا عادل ہونا :

ایک عادل اور دیندار شخص ہی سے اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی دینی خبر اور کسی معاملے کی گواہی میں سچ بولے گا اور جھوٹ سے پرہیز کرے گا اور فاسق اورغیر دیندار کے بارے میں گمان ہے کہ وہ سچ کا ساتھ نہیں دے گا ،کیوں کہ جب وہ دوسرے دینی امور میں لاپرواہ ہے تو پھر جھوٹ بولنے میں اسے کس کا خوف ہوگا ؟ اس لیے شریعت نے دینی امور کی خبر اور کسی معاملے میں گواہی کے لیے گواہ کے عادل ہونے کو ضروری قرار دیا ہے ، فرمان باری ہے :

‘‘ وَاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ ’’ (سورۃ الطلاق:2)

‘‘اور اپنے میں سے دو عادل لوگوں کو گواہ بنالو اور اللہ کے واسطے ٹھیک ٹھیک گواہی دو ’’۔

اس لیے رمضان کے چاند کی خبر اورعید کے چاند کی گواہی کے لیے گواہ کا عادل ہونا شرط ہے اور عادل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ تقویٰ کی روش پر گامزن اور باوقار ہو ، یاکم سے کم کبیرہ گناہوں سے بچتا ہوا ور صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرتا ہو اوروقار کے خلاف کوئی کام نہ کرتا ہو ۔(4)

لہٰذا کوئی فاسق چاند کی خبریا گواہی دے تو اس کا اعتبار نہیں کیاجائے گا لیکن اگر کسی فاسق کے بارے میں قاضی کا گمان غالب ہو کہ وہ سچ بول رہا ہے تو اس کی گواہی قبول کرلینے کی گنجائش ہے ، اس لیے کہ قرآن میں کہاگیا ہے کہ جب کوئی فاسق کسی بات کی خبر دے تو اس کی چھان بین کرلیاکرو ‘‘ اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِق بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا’’اس لیے چھان بین کے بعد گمان غالب ہوکہ وہ سچ بول رہا ہے توا س کی بات مانی جاسکتی ہے اور اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ گواہی کے معاملے میں قاضی کے اطمینان قلب اور ظن غالب کا بطور خاص اعتبار کیاگیاہے ، چنانچہ امام ابویوسف کہتے ہیں:

‘‘ان الفاسق اذاکان وجیھا فی الناس ذا مروۃ تقبل شھادتہ لانہ لایستاجر لوجاھتہ ویمتنع عن الکذب لمروتہ’’ (الہدایہ: 117/3)

‘‘فاسق جب باوجاہت اور باوقار ہو تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی اس لیے کہ وجاہت کی وجہ سے اسے خریدا نہیں جاسکتا اور وقار کی وجہ سے وہ جھوٹ بولنے سے پرہیز کرے گا ’’۔

بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایسے شخص کی گواہی اس وقت معتبر ہوگی جب کہ قاضی کو اس کی سچائی کا گمان غالب ہو ۔(والظاھر ان ھذا مما یغلب علی ظن القاضی صدقہ ۔رد المحتار 26/8)

اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں:

‘‘ہمارے زمانے میں حکم یہ ہے کہ اگر فاسق باوجاہت ہو اور گما ن غالب ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دے گا یاقرائن کے ذریعے اس کی سچائی معلوم ہوجائے گی تو اس کی گواہی مان لی جائے گی’’۔(تفسیر مظہری 327/1)

اسی طرح کی بات مفتی شفیع صاحبؒ نے قرافی کے حوالے سے لکھی ہے اور اسی کو راجح قراردیاہے ۔(احسن الفتاوی 474/4)

حاصل یہ ہے کہ اگر فاسق شخص سنجیدہ اور باوقار ہو ، معاشرہ میں سچا سمجھا جاتا ہو اور جھوٹ بولنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہو تو اس کی گواہی قبول کرلی جائے گی ، بشرطیکہ قاضی کو اس کی سچائی کاگمان غالب ہوجائے ۔

مستور کی گواہی :

مستور سے مراد وہ شخص ہے جس کے عادل یافاسق ہونے کے بارے میں معلو م نہ ہو اور حسن بن زیادکی روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک رمضان کے چاند کے معاملے میں ایسے شخص کی خبرمان لی جائے گی ، متعدد حنفی فقہاء نے اسی قول کو زیادہ صحیح اور راجح قرار دیا ہے ۔(رد المحتار 352/3)

قاضی کا دائرۂ کار:

ایک قاضی کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے ،اسے دوسرے قاضی کی ولایت میں دخل انداز ی کا حق نہیں ہے ، اس لیے کہ مقرر ہ دائرۂ اختیار کے باہر اس کی حیثیت ایک عام آدمی جیسی ہوتی ہے ،(5)لہٰذا ہندوستان یااس جیسے ملکوں میں اگر کسی جگہ کے قاضی یارویت ہلال کمیٹی نے شرعی اصولوں کی روشنی میں رویت ہلال کااعلان کیاہے تو وہ اس کے حلقہ قضا تک محدود رہے گا اور دوسرے علاقے کے لوگوں کے لیے اس پرعمل کرنا درست نہ ہوگا ۔

کسی قاضی یا ہلال کمیٹی کا فیصلہ دوسری جگہ کے لوگوں کے لیے اسی وقت معتبر ہوگا جب کہ اس کا اعلان مرکزی حکومت یا مرکزی ہلال کمیٹی کی طرف سے کیاجائے ،(6)یا نقل شہادت کے ذرائع میں سے کسی ذریعے سے ایک قاضی کا فیصلہ دوسرے قاضی تک پہنچے ، جس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی ۔

قاضی کے اعلان کی حیثیت:

ہندوستان کے جن علاقوں میں نظام قضا موجود ہے وہاں کے قاضی کے اعلان پر اس کے حلقۂ قضا کے مسلمانوں کے لیے عمل کرنا ضروری ہے اور جہاں پرنظام قضا موجود نہیں ہے وہاں کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کس عالم دین کی طرف رجوع کریں اور اس کے فیصلے پرعمل کریں ۔

اورقاضی یا عالم دین کی طرف سے ریڈیو یا ٹیلی ویژن وغیرہ کے ذریعے سے کیاگیا اعلان ،شاہی اعلان کے حکم میں ہوگا اور معتبر ماناجائے گا خواہ اعلان کرنے والا عادل ہو یا فاسق ۔(7)

خبراور شہادت منتقل کرنے کے ذرائع :

مرکزی حکومت یا چاند کمیٹی کے سامنے چاند کے دکھائی دینے کی خبریا گواہی دی جائے اور پھر اس کااعلان کیاجائے تو پورے ملک کے لوگوں پر اس کا عمل کرنا ضروری ہے لیکن کسی قاضی یا ذیلی ہلال کمیٹی کی طرف سے اعلان کیاجائے تووہ اس کے حلقے تک محدود ہوگا اور دوسر ے لوگ اس پر عمل کرنے کے پابند اسی وقت ہوں گے جب کہ درج ذیل طریقوں میں سے کسی ایک ذریعے سے خبر یا شہادت کو ان تک منتقل کیاجائے ۔

1۔ شہادت علی الشہادۃ:

شہادۃ علی الشہادۃ کا مطلب یہ ہے کہ کسی مجبوری کی وجہ سے گواہ کے لیے قاضی کے پاس حاضر ہونا ممکن نہ ہو تو وہ دو قابل اعتماد لوگوں کو قاضی یا ہلال کمیٹی کے پاس بھیجے اور وہ دونوں وہاں جاکر گواہی دیں کہ ہمارے سامنے فلاں شخص نے چاند دیکھنے کی گواہی دی ہے اور ہمیں اس پر گواہ بنایا ہے ۔

بہتر ہے کہ ہر ایک گواہ کی طرف سے دو دوگواہ یعنی کل چار لوگ ہوں ،تاہم اگر دونوں کی طرف سے صرف دو گواہ ہوں تو بھی درست ہے اور رمضان کے لیے ایک شخص کی طرف سے صرف ایک گواہ بھی کافی ہے ۔(البدائع 222/2)

2۔ شہادت علی قضاء القاضی:

شہادۃ علی قضاء القاضی کا مفہوم یہ ہے کہ کسی قاضی یا ہلال کمیٹی کے پاس چاند دیکھنے کی گواہی دی جارہی ہو اور دو عادل شخص شروع سے آخر تک مجلس قضا میں موجود ہوں اور پھر دوسری جگہ کے قاضی کے پاس جاکر وہ دونوں گواہی دیں کہ ہمارے سامنے فلاں،فلاں شخص نے چاند دیکھنے کی گواہی دی اور اس کے بعد قاضی صاحب نے رویت ہلال کا فیصلہ کیا ۔

3۔ کتاب القاضی الی القاضی:

کتاب القاضی الی القاضی سے مراد یہ ہے کہ گواہی کی بنیاد پر رویت ہلال کے فیصلہ کے بعد ایک قاضی دوسرے کے پاس اس کے متعلق خط لکھے اور پھر دو عادل لوگوں کو اسے سنانے کے بعد لفافے میں بندکرکے اس پر مہر لگادے اورپھر وہ دونوں اسے لے کر دوسرے قاضی کے پاس جائیں اور گواہی دیں کہ یہ فلاں قاضی کاخط ہے جسے اس نے ہمارے سامنے لکھا اور ہمیں سنایا ہے اور اسے ہمارے حوالے کیا ہے تاکہ آپ تک پہنچا دیں اور اگر وہ یہ گواہی نہیں دیتے ہیں بلکہ محض خط کی حیثیت سے اسے پہنچانے پر اکتفا کرتے ہیں تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا ۔

مذکورہ بالا دو صورتوں میں ایک جگہ کے گواہ کو دوسری جگہ جانا ہوگا جس کے لیے دو چار گھنٹے کی مسافت کو طے کر پانا بہت مشکل نہیں ہے لیکن بہت دور کی مسافت طے کرنا گرچہ ہوائی جہاز وغیرہ کے ذریعے طے کرنا ممکن ہے مگر دشوارکا باعث ہے ، اس لیے مولانا محمد یوسف بنوری ، مولانا ظفر احمد عثمانی ، مفتی محمد شفیع اور مفتی رشید احمد صاحب نے متفقہ طور پر اس کا یہ حل نکالا ہے :

‘‘حکومت ہر بڑے شہر میں ذیلی کمیٹیاں قائم کر ے ، ان میں سے ہر ایک میں کچھ ایسے مستند علماء کو ضرور لیاجائے جوشرعی ضابطہ شہادت کا تجر بہ رکھتے ہیں اور ہرذیلی کمیٹی کا کام صرف شہادت مہیا کرنا نہ ہو بلکہ اس کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیاجائے ، یہ ذیلی کمیٹی اگر باقاعدہ شہادتیں لے کر کوئی فیصلہ کردیتی ہے تو فیصلہ شہادت کی بنیاد پر ہوچکا ، اب صرف اعلان کا کام باقی ہے ، اس کے لیے شہادت ضروری نہیں ہے بلکہ ذیلی کمیٹی کا کوئی ذمہ دار آدمی مرکزی کمیٹی کو ٹیلی فون پر محتاط طور پر جس میں کسی مداخلت کا خطرہ نہ رہے ، ذیلی کمیٹی کے اس فیصلے کی اطلاع دے دے اور مرکزی کمیٹی اس صورت میں اس کو اپنا فیصلہ کہہ کر نہیں بلکہ ذیلی کمیٹی کا فیصلہ بتاکر اس طرح نشر کر ے کہ مرکز ی کمیٹی کے سامنے اگرچہ کوئی شہادت نہیں آئی ہے بلکہ فلاں ذیلی کمیٹی نے جس میں فلاں فلاں علماء شریک ہیں ،شہادت کی بنیاد پریہ فیصلہ کیاہے کہ ہم اس فیصلہ پر اعتماد کرکے اعلان کر رہے ہیں ، اس صورت میں مرکزی کمیٹی کا یہ اعلان ٹیلی فون سے آئی ہوئی اطلاع پر درست ہوسکتا ہے ’’۔(جواہر الفقہ 403/1)

ہندوستان میں مرکزی ہلال کمیٹی اس طریقے کو اپناسکتی ہے ۔

4۔ خبرمستفیض:

خبر مستفیض کامفہوم یہ ہے کہ جس جگہ چاند دیکھا گیا اور رویت ہلال کا فیصلہ کیاگیا وہاں سے بہت سے لوگ آکر اس کے بارے میں خبر دیں جس سے دوسری جگہ کے لوگوں کو وہاں چاند کے طلوع ہونے کا ظن غالب ہوجائے اور محض سنی سنائی باتوں اور اس طرح کے افواہ کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا کہ فلاں جگہ چاند نظر آگیا ہے ،چنانچہ علامہ شامی نے رحمتی کے حوالے سے لکھا ہے کہ :

‘‘استفاضہ کامفہوم یہ ہے کہ اس شہر سے متعدد جماعتیں آآکر خبر دیں کہ ان کے یہاں کے لوگوں نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے اور اگر خبر دینے والے کے بارے میں معلوم ہوئے بغیر چاند دیکھے جانے کی خبر پھیل جائے تو اس کااعتبار نہیں ہوگا ،جیسے کبھی کوئی خبر متعدد علاقوں اور شہروں میں پھیل جاتی ہے مگرپھیلانے والے کا پتہ نہیں چلتا ہے ’’۔(رد المحتار 359/3)

اور شمس الائمہ حلوانی کہتے ہیں کہ :

‘‘ الصحیح من مذہب اصحابنا ان الخبر اذا استفاض وتحقق فیما اھل البلدۃ الاخری یلزمھم حکم ھذہ البلدۃ’’ (رد المحتار 359/3)

‘‘ہمارے اصحاب کا صحیح مسلک یہ ہے کہ جب کسی دوسرے شہر میں کسی جگہ کے چاند دیکھے جانے کی خبر پھیل جائے اور اس کی حقانیت ثابت ہوجائے تو اس شہر کے لوگوں کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہے ’’۔

علامہ شامی نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ خبر مستفیض میں نہ تو قاضی کے فیصلے کی گواہی دی جاتی ہے اور نہ کسی گواہ کی گواہی پر شہادت دی جاتی ہے ، تاہم یہ خبر متواتر کے درجے میں ہے اور اس کے ذریعے ثابت ہوچکا ہے کہ فلاں شہر کے لوگوں نے فلاں دن روزہ رکھاہے ، اس لیے اس پر عمل کرنا لازم ہے، کیوں کہ عام طورپر شہر میں شرعی حاکم موجود ہوتا ہے ، اس لیے یقینی طور پر وہاں کے لوگوں نے حاکم شرعی کے فیصلے کے بعد روزہ رکھاہوگا ،تو خبر مستفیض ایک طرح سے اسی فیصلے کو نقل کرناہے اور یہ اس بات کی شہادت سے زیادہ قوی ہے کہ فلاں شہر کے لوگوں نے چاند دیکھا اور روزہ رکھا ،کیوں کہ اس کے ذریعے یقین کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے ۔(رد المحتار 359/3)

کسی خبرکے مستفیض ہونے کے لیے خبر دینے والوں کی کوئی تعداد متعین نہیں ہے ، البتہ بعض مالکی علماء کا خیال ہے کہ چاند دیکھنے والے کم سے کم تین ہوں تو اسے خبر مستفیض کہاجائے گا ،(الموسوعہ الفقہیہ 24/22)اسی طرح سے اصول حدیث میں خبر مستفیض اسے کہاجاتا ہے جس کے راوی دو سے زیا دہ ہوں ، جس کے ذریعے اطمینان کا درجہ حاصل ہوتاہے جو غلبہ ظن سے قدرے زیادہ اور یقین سے کچھ کم ہوتا ہے اور چاند کے معاملے میں خبر مستفیض سے بھی طمانیت مطلوب ہے ، (احسن الفتاوی 472/3) غرضیکہ اگر کسی جگہ سے چاند دیکھے جانے کی اطلاع آئے اور وہ اس درجہ پختہ ہو کہ اس کی سچائی پر اطمینان ہوجائے تو اس کا اعتبارکیا جائے گا ۔

حاصل یہ ہے کہ خبر و شہادت منتقل کرنے کے مذکورہ ذرائع میں سے کسی ذریعے سے دوسرے علاقے کے لوگوں کو طلوع ہلال کی اطلاع مل جائے تو اس کے مطابق عید کرنا اور روزہ رکھنا ضروری ہے اور ان کے علاوہ کسی طریقے سے آئی ہوئی اطلاع کا نہ کوئی اعتبار ہے اور نہ ہی اس پر عمل کرنا درست ہے ۔(8)

ٹیلیفون، ای میل وغیرہ کے ذریعے اطلاع:

خط اور ٹیلیفون دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ جس طرح سے خط میں جعل سازی کااندیشہ ہوتا ہے اسی طرح سے فون میں بھی آواز کی نقل اتارکر دھوکہ دہی کا خطرہ رہتا ہے ، لیکن تحریر کے بارے میں اس احتمال کے باوجود بہت سے معاملات میں اس کا اعتبار کیاگیا ہے ، خود قرآن حکیم میں کہاگیاہے کہ جب تم ادھار کاکوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیاکرو ، ‘‘اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ’’ (سورۃ البقرہ:282) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر پرایک گونہ اعتماد کیاگیاہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے متعدد مواقع پرخطوط بھیجے ہیں اور دوسروں کی طرف سے آئی ہوئی تحریر کو قبول بھی فرمایا ہے ، اس لیے اگر خطوط کے بارے میں جعل سازی کا اندیشہ نہ ہواور اس بات کا اطمینان اور ظن غالب ہوجائے کہ وہ بھیجنے اور لکھنے والے کی تحریر ہے تو اس کا اعتبار کیاجائے گا ، متعدد فقہی نظیریں اس سلسلے میں موجود ہیں اور یہی حکم ٹیلیفون کا بھی ہے اور اس کے بارے میں بعض فقہی نظیریں ایسی ملتی ہیں جو اس پر مکمل طورپر صادق آتی ہیں جیسے کہ علامہ ابن ہمام نے لکھاہے کہ :

‘‘ ولوسمع من وراء حجاب کثیف لایشف من وراۂ لایجوزلہ ان یشھد لان النغمۃ تشبہ النغمۃ الااذا احاط بعلم ذلک لان المسوغ ھوالعلم غیر ان رویتہ تکلما بالعقد طریق العلم بہ فاذا فرض تحقق طریق آخرجاز’’(فتح القدیر 463/6)

رمضان کے چاند کی خبرکومنتقل کرنے کے لیے ایک عادل اور دیندارشخص کافی ہے ، اس لیے اگرکوئی دیندار شخص فون کے ذریعہ اطلاع دے کہ میں نے خود چاند دیکھاہے یا مجھ سے فلاں معتبر شخص نے چاند دیکھنا بیان کیاہے یا شرعی ہلال کمیٹی نے رویت ہلال کا فیصلہ کیا ہے یا فلاں قاضی صاحب کی طرف سے رویت کا اعلان کیاجارہا ہے تو اس کا اعتبار کیاجائے گیا ،بشرطیکہ مضبوط قرائن کے ذریعہ متکلم کی تعیین ہوجائے اور اس کی آواز پہچان لی جائے ، چنانچہ مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں :

‘‘رمضان المبارک کے چاند میں چونکہ شہادت یا استفاضہ کی خبر دونوں شرط نہیں ہیں ، ایک ثقہ مسلمان کی خبر بھی کافی ہے ، ا س لیے خط اور آلات جدیدہ (ٹیلیفون ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن ) کی خبروں پر اس شرط کے ساتھ عمل کرنا درست ہے کہ خبر دینے والے کا خط یا آواز پہچانی جائے اور وہ بچشم خود چاند دیکھنا بیان کرے اور جس کے سامنے یہ خبر بیان کی جارہی ہو وہ اس کو پہچانتا ہو اور اس کی شہادت کو قابل عمل سمجھتا ہو’’۔(آلات جدیدہ/ 121)

عید کے چاند کی خبر کو منتقل کرنے کے لیے شہادت یا خبر مستفیض کی ضرور ت ہے اور ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعے گواہی نہیں دی جاسکتی ہے ، اس لیے محض دولوگوں کی طرف سے فون کا آنا کافی نہیں ہے بلکہ ایک کثیر تعداد کی طرف سے فون کا آنا لازم ہے جس کے ذریعے سے اس کی حیثیت خبر مستفیض کی ہوجائے ، یا مرکزی ہلال کمیٹی یا کسی قاضی کی طرف سے متعین کردہ شخص کا فون آئے جو اپنے یہاں چاند کی شہادت لے کرقاضی یا مرکزی کمیٹی کو اس کو اطلا ع دے ،کیوں کہ یہ شہادت نہیں بلکہ شہادت سے ثابت شدہ امر کی اطلاع ہے ، جیساکہ مفتی شفیع صاحب وغیرہ کی رائے ہے جس کی تفصیل کتاب القاضی الی القاضی کے عنوان کے تحت گزر چکی ہے ۔

ریڈیواور ٹیلی ویژن:

ریڈیواور ٹیلی ویژن کی طرف سے دی گئی اطلاع کی حیثیت خبر اور اعلان کی ہے ، اس لیے اگر یہ مسلم حکومت کے زیرانتظام ہوں اور حکومت کی طرف منسوب کرکے رمضان یا عید وغیرہ کا اعلان کیاجائے تو اس ملک میں رہنے والوں کے لیے اس پر اعتماد کرنا اوراس کے موافق عمل کرنا ضروری ہے ، کیونکہ ایسی صورت میں غلبہ ظن بلکہ ایک درجہ میں یقین حاصل ہوجاتا ہے اور گمان غالب پر عمل کرنا ضروری ہے چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں :

‘‘والظاہرانہ یلزم اھل القری الصوم بسماع المدافع ورویۃ القنادیل من مصر لانہ علامۃ ظاہرۃ تفیدالظن وغلبۃ الظن حجۃ موجبۃ للعمل واحتمال کون ذلک لغیررمضان بعید اذ لایفعل مثل ذلک عادۃ فی لیلۃ الشک الا لثبوت رمضان’’ (رد المحتار 354/3)

‘‘ظاہر یہ ہے کہ شہر سے توپ کی آواز سن کر یا روشنی دیکھ کر دیہات کے لوگوں کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہے ، اس لیے یہ کہ چاند کے نظر آجانے کی ایک واضح علامت ہے جس سے ظن غالب کا فائدہ ملتا ہے اور ظن غالب ایک ایسی دلیل ہے جس کے تقاضے پرعمل کرنا ضروری ہے اور اس بات کا احتمال بہت بعید ہے کہ توپ کی آواز یا قندیلوں کی روشنی ثبوت رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مقصد سے کی گئی ہو کیوں کہ تیس شعبان کی رات (لیلۃ الشک)کوعام طورپر رمضان ہی کے لیے توپ کے گولے داغے جاتے ہیں اور قندیلیں روشن کی جاتی ہیں ’’۔

توپ کے گولوں کے داغنے یا قندیلوں کی روشنی میں معمولی درجے میں دوسرا احتمال ہے لیکن ریڈیویا ٹیلی ویژن کے اعلان میں اس طرح کا کوئی احتمال نہیں ہے ، اس لیے اس سے یقین کا درجہ حاصل ہوجاتاہے ، جس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

ریڈیویا ٹیلی ویژن اگرپرائیوٹ اداروں کے زیر انتظام ہو تواس پر اعتماد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قاضی ،رویت ہلال کمیٹی یا ان کے نمائندوں کی طرف سے اعلان کیاجائے اور اس طرح کے اعلان پر ان کے حلقے کے لوگوں کو عمل کرنا ضروری ہوگا اور دوسری جگہ کے لوگوں کے لیے اس کی حیثیت خبر کی ہوگی اور یہ گزر چکا ہے کہ رمضان کے چاند کی خبر کو منتقل کرنے کے لیے ایک دیندار شخص کی اطلاع کافی ہے ، اس لیے کسی ایک جگہ سے ریڈیو کا اعلان معتبر ہوگا اور عید کے چاند کے لیے شہادت یا خبر مستفیض کی ضرورت ہے اور ظاہرہے کہ ریڈیو پر شہادت نہیں دی جاسکتی ہے ، اس لیے اس موقع پر دوسری تدبیر ہی کار گر ہے کہ متعدد جگہ کی خبروں کو مختلف ریڈیواسٹیشن سے اعلان کیاجائے کہ اس کی حیثیت خبر مستفیض کی ہوجائے اوروہاں کے علماء اور مفتیان اسے تسلیم کرلیں ،چنانچہ مفتی شفیع صاحب لکھتے ہیں :

‘‘مختلف ریڈیواسٹیشن کی خبریں جب حد تواتر کو پہنچ جائیں تو استفاضہ میں داخل ہیں ’’۔(فتاویٰ دار العلوم دیوبند 487/2۔ط کراچی)

ریڈیو یاٹیلی ویژن کی طرف سے نشر کردہ ایسی کسی خبر کا اعتبار نہیں ہوگا جس میں کہا گیا ہو کہ فلاں جگہ چاند دیکھاگیا یا فلاں شخص نے دیکھا یا بہت سے لوگوں نے دیکھا یا متعدد جگہوں سے چاند کی اطلاع آرہی ہے ۔

حکومت یاقاضی کی طرف سے ریڈیو وغیرہ پر اعلان ،اعلان سلطانی کے حکم میں ہوگا اور زیر اقتدار علاقوں کے لیے معتبر ہوگا ، خواہ اعلان کرنے والا عادل ہو یا فاسق ،(خبرمنادی السلطان مقبول عدلا کان او فاسقا الھندیۃ:309/5)البتہ دوسرے ملکوں یا علاقوں کے لیے اسی وقت معتبر ہوگا جب کہ اعلان کرنے والا دیندار ہو کیونکہ چاند کے ثبوت کے لیے خبردہندہ کا دیندار ہوناضروری ہے ۔(9)

ریڈیو وغیرہ سے رویت ہلال کی خبر نشرکرنے کے لیے اعلان کرنے والے کا مسلمان ہونا ضروری ہے ،کیوں کہ یہ ایک دینی معاملے کی خبر ہے جس میں غیر مسلم کی بات کا اعتبار نہیں کیاجاتاہے ۔

 

دوربین اوررصد گاہ کے ذریعے چاند دیکھنا:

 

دور بین اور دوسرے آلات کے ذریعہ چاند کا دیکھنا بھی درحقیقت ظاہری آنکھ سے دیکھنا ہے، کیونکہ ان کے ذریعے کسی چیز کو محض بڑا، قریب اور یکسو کردیاجاتا ہے، لہٰذا ان کی حیثیت چاند دیکھنے میں صرف ایک معاون کی طرح ہے اور ایسے ہی ہے جیسے کہ پاور کے چشمے کے ذریعے چاند دیکھنا، اس لیے چاند دیکھنے میں اس طرح کے آلات کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، قدیم زمانے میں لوگ اس مقصد کے لئے بلند جگہوں، پہاڑوں اور مناروں وغیرہ پر چڑھ جایا کرتے تھے اور فقہا نے بلند جگہوں سے نظر آنے والے چاند کااعتبار کیا ہے، بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ اگر مطلع صاف ہو تو رمضان اور عید دونوں میں ایک بڑی تعداد کی خبر مطلوب ہے لیکن اگر اس حالت میں بھی اگر رمضان کے چاند میں ایک شخص اور عید کے چاند میں دوشخص بلند جگہ سے چاند دیکھنے کی گواہی دیں تو اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ (دیکھئے: رد المحتار:357/3)

 

فلکیاتی حساب پر اعتماد :

حنفیہ ، مالکیہ ، جمہور شافعیہ اور جمہور حنابلہ کے نزدیک فلکیاتی حساب کے ذریعے رمضان وعید وغیرہ کے چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کیاجاسکتا ہے ۔

اس کے برخلاف مطرف بن عبداللہ تابعی(10)،ابن قتیبہ، ابن سریج ، قفال اور محمد بن مقاتل رازی وغیرہ کے نزدیک مطلع ابرآلود ہونے کی حالت میں رمضان کے چاند کے ثبوت کے لیے فلکیاتی حساب پر اعتما د کیاجاسکتاہے ، ابن دقیق العید بھی اسی کے قائل ہیں ۔

علامہ تقی الدین سبکی کہتے ہیں کہ شہادت قبول نہ کرنے کے لیے فلکی حساب معتبر ہے لیکن مہینے کی ابتداکے ثبوت کے لیے کافی نہیں ہے یعنی فلکی حساب کے اعتبار سے ۲۹تاریخ کو چاند نظر آنا ممکن نہ ہوتو اس دن چاند دیکھنے کا دعویٰ کرنے والے دو ایک لوگوں کا اعتبار نہیں کیاجا ئے گا اور سمجھاجائے گا کہ انہیں وہم ہوا ہے لیکن کسی گواہی کے بغیر محض حساب کے ذریعے چاند کے طلوع ہونے کوثابت نہیں کیاجاسکتا ہے ، وزارۃ الاوقاف کویت کااسی پر عمل ہے اور اس سلسلے میں وہاں منعقد سیمینار میں یہی تجویز پاس کی گئی ہے ۔(مجموع الفتاوی الشرعیہ 67/3)

علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ مذکورہ اختلاف صر ف رمضان کے آغاز سے اور مطلع صاف نہ ہونے کی حالت میں ہے اور مطلع صاف ہونے کی صورت میں اور دوسرے مہینوں کے آغاز یا اختتام کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔(فاما اتباع ذلک فی الصحو اوتعلیق الحکم العام بہ فما قالہ مسلم .مجموع الفتاوی: 133/25)

قائلین کے دلائل:

فلکیاتی حساب کو معتبر ماننے والوں کے دلائل یہ ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

‘‘فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ’’(سورۃ البقرہ:185)

‘‘تم میں سے جو رمضان کا مہینہ پائے وہ اس ماہ کا روزہ رکھے ’’۔

اس آیت میں ‘‘شہود شہر’’ سے مراد نئے مہینے کے آغاز کا علم ہے ، خواہ اس کی معلومات کاکوئی بھی ذریعہ ہو ، جیسے کہ بصری رویت ، تیس کے عدد کی تکمیل یا فلکی حساب ، ان میں سے کسی بھی طریقے سے رمضان کے مہینے کی ابتداء کا علم ہوجائے تو روزہ رکھنا ضروری ہے ۔

اس پر یہ اعتراض کیاگیاہے کہ صحیح قول کے مطابق ‘‘شہود شہر ’’ سے مراد رمضان کے مہینے میں گھر پہ رہنا اور سفرمیں نہ جانا ہے، اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں ہے اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ اس سے مراد مہینے کی ابتدا کاعلم ہے تو شریعت نے اسے بصری رویت یا تیس کی عدد کی تکمیل پرموقوف قرار دیا ہے اور محض چاند کے وجود کو کافی قرار نہیں دیاہے ، حالانکہ فلکی حساب کے ذریعے محض چاند کے وجود اور امکان رویت کو معلوم کیاجاسکتا ہے ۔

2۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

‘‘لاتصومواحتی ترواالھلال ولاتفطرواحتی تروہ فان غم علیکم فاقدروالہ’’(صحیح بخاری:1906۔مسلم1080)

‘‘چانددیکھے بغیرروزہ نہ رکھواور نہ اسے دیکھے بغیرعید کرواور اگر بدلی چھاجائے تو اس کے لیے اندازہ لگاؤ’’۔

اس حدیث میں اندازہ لگانے سے مراد چاند کے منازل کے بارے میں پتہ لگانا اور اس کی رفتار سے متعلق حساب کرنا ہے ، ابن سریج کہتے ہیں کہ حدیث میں مذکور ‘‘فاقدروالہ ’’ کے مخاطب وہ لوگ ہیں جوعلم حساب سے واقف ہیں اور اس سلسلے سے متعلق دوسری حدیث میں تیس مکمل کرنے کاحکم عام لوگوں کے لیے ہے ۔(عارضۃ الاحوذی 207/3.المجوع 179/6.فتح الباری 157/4)

اس دلیل کاجواب یہ ہے کہ مذکورہ حدیث مجمل ہے اور دوسری حدیث میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے ، جس میں کہاگیاہے کہ :

‘‘ فاقدروا لہ ثلاثین’’ (صحیح مسلم 1080.)

‘‘ تیس کی تعداد مکمل کر و ’’۔

اور ضابطہ ہے کہ کسی حدیث میں کوئی لفظ مبہم اور مجمل ہو اور دوسری حدیث میں تفصیل بیان کی گئی ہو تو اسی کا اعتبار کیا جائے گا ، جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ خود حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے منقول ایک حدیث میں اس لفظ کی وضاحت تیس کی تعداد مکمل کرنے سے کی گئی ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں :

‘‘ قال رسول اللہﷺ ان اللہ تبارک وتعالیٰ جعل الاھلۃ مواقیت فاذا رأیتمتوہ فصوموا واذا رأیتموہ فافطروا فان غم علیکم فاقدروالہ اتموہ ثلاثین’’ (السنن الکبریٰ للبیہقی 205/4)

‘‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے چاند کو وقت جاننے کاذریعہ بنایا ہے لہٰذا جب تم اسے دیکھ لو تو روزہ رکھو اور جب اسے دیکھ لو تو عید کرو اوراگر بدلی چھاجائے تو اندازہ لگاؤ یعنی تیس کی تعداد مکمل کرو ’’۔

اور خود رسول اللہ ﷺکا عمل بھی اسی پر تھا ، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :

‘‘ کان رسول اللہ یتحفظ من ھلال شعبان مالایتحفظ من غیرہ ثم یصوم لرویتہ رمضان فان غم علیہ عدد ثلاثین یوما’’ (رواہ احمد و ابوداؤد والدارقطنی وقال اسنادہ صحیح ۔نیل الاوطار 854/1)

‘‘رسول اللہ ﷺشعبان کے چاند کو شمار کرنے کے لیے جتنی کوشش فرماتے تھے اتنی کسی اور مہینے کے لیے نہیں کرتے تھے ، پھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھتے اور اگر بدلی چھاجاتی تو تیس کی تعداد پوری کرتے ’’۔

حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان میں لفظ ‘‘قدر ’’ کے معنی کسی چیزکومکمل کرنے اورانتہاتک پہنچانے کے آتے ہیں جیسے کہ قرآن حکیم میں ہے :

‘‘ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا ’’(سورۃ الطلاق:3)

علامہ ابن رشد نے آیت میں مذکور لفظ ‘‘قدر ’’ کی تفسیر ‘‘تماما’’ سے کی ہے ۔(المقدمات لابن رشد 187/1)لہٰذا اس حدیث کا مفہوم بھی یہی ہے کہ اگر بدلی چھاجائے تو تیس کی تعداد مکمل کرو ۔

3۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

‘‘ انا امۃ امیۃ لانکتب ولانحسب الشھرھکذا وھکذاوھکذا یعنی مرۃ تسعۃ وعشرین ومرۃ ثلاثین’’ (بخاری:1814.مسلم:1081)

‘‘ہم ان پڑھ لوگ ہیں ، حساب وکتاب نہیں جانتے ، مہینہ اتنے اتنے دن کا ہوتا ہے یعنی کبھی انتیس دن اور کبھی تیس دن ’’۔

اس روایت میں رویت بصری پر اعتما د کرنے کی وجہ ناخواندہ ہونا بیان کیاگیاہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امت میں لکھنے پڑھنے کا رواج ہوجائے تو پھرچاند کے ثبوت کے لیے حساب و کتاب پر اعتماد کرنا درست ہوگا ، کیوں کہ اعتماد نہ کرنے کی علت ناخواندگی تھی اور جب و ہ علت ختم ہوگئی تو اس پر اعتماد کرنا صحیح ہوگا ، اس لیے کہ حکم کا مدارعلت پر ہوا کرتا ہے ،لہٰذا علت کے بدلنے سے حکم بھی بدل جائے گا ۔ (اوائل الشھور العربیہ لاحمد شاکر /13)

اس کا یہ جواب دیاگیاہے کہ نبی ﷺ کی طرف سے امت مسلمہ کو اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ وہ چاند کے ثبوت کے معاملے میں حساب وکتاب کی محتاج نہیں ، اس لیے اس بکھیڑوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے ، کیوں کہ اس کے پاس ایک آسان طریقہ موجود ہے کہ چاند دیکھنے کی کوشش کرے اور نظر نہ آنے کی صورت میں تیس کی تعداد مکمل کرلے جیساکہ حدیث میں اس کی صراحت ہے ،(فقہ النوازل لابی زید211/2) دوسرے الفاظ میں مہینے کے آغاز کو بصری رویت پر موقوف رکھاگیاہے اور اس چھان بین کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ نیا چاند افق پر موجود ہے اور اس کے نظر آنے کاامکان ہے یا نہیں ۔

غرضیکہ حدیث میں دین اسلام کے مزاج ومذاق کا بیان ہے کہ اس میں حد درجہ سادگی اور آسانی ہے کہ اس میں عبادات وغیرہ کی ادائیگی کے لئے کسی ایسی چیز کا پابند نہیں بنایا گیا ہے جس کا حصول دشوار ہو اور ان کے اوقات کے لئے کسی ایسی چیز کو معیار نہیں قرار دیا ہے جسے کچھ خاص لوگ ہی جان سکیں اورعام لوگوں کو اس کے بارے میں معلوم کرنا دشوار ہو ۔

مذکورہ حدیث سے یہ سمجھنا غلط ہے ناخواندگی کے عام ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حساب و کتاب کی باریکیوں میں الجھنے کو مناسب قرار نہیں دیا اس لئے اگر یہ مجبوری ختم ہوجائے اور امت میں خواندگی عام ہو جائے تو پھر فلکیاتی حساب اور اس کے مطابق عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

کیونکہ حدیث میں کسی مجبوری کا اظہار نہیں ہے بلکہ دین اسلام کے عمومی ذوق کا بیان ہے کہ اس میں عبادات وغیرہ کے اوقات کا مدار ایسی چیزوں پر رکھا گیا جسے جاننا عوام وخواص عالم و جاہل ،شہری اور دیہاتی اور امیر وغریب سب کے لئے آسان ہے ۔چنانچہ سمت قبلہ کے بارے میں عین کعبہ کے استقبال کو ضروری قرار نہیں دیا گیا بلکہ جہت کعبہ کے استقبال کو کافی سمجھا گیا اور مدینہ کے لوگوں سے کہاگیا :

ما بين المشرق و المغرب قبلة.

مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔

کیونکہ بعینہ کعبہ کا استقبال بہت دشوار تھا ۔بلکہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی بہت مشکل ہے کہ معمولی انحراف سے بھی عین کعبہ سے بہت دور ہوجائے گا ۔

اسی طرح سے نماز کے وقت کے معاملے میں سورج کی گردش کو اور روزہ اور عید کے لئے نئے چاند کے طلوع کو معیار بنایا گیا ہے جسے جاننا یکساں طور پر ہر ایک کے لئے بہت آسان ہے ۔

اور یہ سمجھنا بھی غلط ہے کہ خواندگی کے عام ہونے کی وجہ سے امت کے لئے فلکیاتی حساب کو جاننے میں کوئی دشواری نہیں ہے کیونکہ یہ فن آج بھی چند خاص لوگوں تک محدود اور عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے ۔اور اس کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کو جاننا ان کے لئے بہت دشوار ہے ۔

اگر ان کو معیار قرار دیا جائے تو ہماری عبادتیں چند لوگوں کا دست نگر بن جائیں گی اور یہ دین کی ابدیت ، عمومیت و شمولیت ، عالمگیریت اور یسر و سہولت کے خلاف ہے حالانکہ اسی بنیاد پر شرعی احکام کی بنیاد شمسی حساب پر نہیں رکھا گیا کہ دنیا کے چند افراد اس کے حساب کو جانتے ہیں اور ساری دنیا ان کی تقلید کرتی ہے اس کے برخلاف قمری تاریخ کو شہری اور جنگلی ہر شخص جان سکتا ہے ۔

 

علاوہ ازیں علم فلکیات سے آج بھی امت کی ایک بڑی تعداد ناواقف ہے ، جیسے کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں اکثر لوگ اس کے بارے میں نہیں جانتے تھے تاہم کچھ لوگ اس فن کے ماہر ضرورتھے اور مدینے میں موجود یہودی اپنے رسوم و رواج اور تیوہاروں

کے لیے چاند کی تاریخ جاننے کی خاطر فلکی حساب پر عمل کیا کرتے تھے ، اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے فلکی حساب پر چاند کے ثبوت کا مدار نہیں رکھا اور ممکن ہے کہ انہیں کی تردید کے لے فرمایا ہو کہ ہمیں حساب و کتاب کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے ، اس لیے آج بھی محض چند لوگوں کی مہارت کی وجہ سے اسے ثبو ت کے لیے معیار قرار دینا درست نہیں ہے ۔

4۔ نماز کے اوقات کے لیے فلکیاتی حساب پر عمل کیاجارہا ہے اورموذن کبھی یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا ہے کہ سورج غروب ہوا ہے یا نہیں ، بلکہ دائمی میقات کو دیکھ کر اذان دے دیتا ہے ، حالانکہ دوامی میقات کا مدار حساب پر ہے اس لیے نماز کی طرح روزہ کے لیے بھی حساب کو معیار بنایاجاسکتا ہے ۔(العلم المنشور للسبکی /21)

اس کے جواب میں کہا گیاہے کہ صریح حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس کرنا غلط ہے ، حدیث میں واضح طور پر کہاگیا ہے کہ مہینے کی ابتدا و انتہا ء میں صرف دو چیزوں کا اعتبار کیاجائے گا یا تو چاند دیکھ لیے جانے کا ،دوسرے تیس کی تعداد مکمل کرنے کا ۔

دوسرے یہ کہ نماز کے اوقات اورمہینے کے آغاز میں فرق ہے اور اس فرق کے ہوتے ہوئے قیاس کرنا درست نہیں ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے کہ نماز کے لیے وقت سبب ہے جس کے لیے شریعت نے کچھ علامتیں مقرر کی ہیں ،جیسے کہ سورج کا ڈھل جانا اور غروب ہوجانا وغیرہ ، لہٰذا نماز کا وقت ہوجانے کے بعد نماز فرض ہوجائے گی خواہ اس کے وقت کا علم کسی بھی طریقے سے ہو یعنی علامتوں کے ذریعے یا حساب کے طریقے پر، اس کے برخلاف روزے کی فرضیت کا سبب چاند کادیکھ لیاجانا یا تیس کی تعداد کو مکمل کرنا ہے نہ کہ چاند کا افق پر موجود ہونا ، یہی وجہ ہے کہ اگر چاند افق پر موجود ہو مگر بدلی کی وجہ سے دکھائی نہ دے تو روزہ فرض نہیں ہوگا ۔(الفروق للقرافی ۔الفرق الثانی والماءۃ)

5۔ تمام لوگوں کا اس اتفاق ہے کہ کسی قیدی کوحساب یا بعض علامتوں کے ذریعے رمضان کے آغاز کا علم ہوجائے تو اس پر روزہ فرض ہے ، اس اجماعی مسئلے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ فرض ہونے کے لیے چاند کا آنکھ کے ذریعے نظر آجانا شرط نہیں ہے بلکہ کسی بھی ذریعے سے رمضان کے آغاز کا علم ہوجانا کافی ہے ۔

اس کے جواب میں بھی کہا گیاہے کہ صریح حدیث کی موجودگی میں قیاس کرنا غلط ہے ، نیزقیدی معذور ہے ، اس کی استطاعت میں نہیں ہے کہ وہ چاند دیکھ کر روزہ شروع کر ے ، اس لیے ضروری ہے کہ اپنی وسعت کے بقدر دوسرے ذرائع سے رمضان کی آمد کے بارے میں معلوم کرے ، لہٰذا غیرمعذور کو اس پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے ۔

 

6۔ فقہاء کرام بہت سے مسائل میں اس کے ماہرین کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ حقیقت معلو م کرکے اس پر حکم لگایاجائے ، جیسے کہ علم طب سے متعلق چیزوں کو جاننے کے لیے ڈاکٹروں سے رجوع کیاجاتا ہے اور اس میدان میں ان کی مہارت کو دیکھتے ہوئے ان کی بات تسلیم کرلی جاتی ہے ، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ چاند کے ثبوت کے معاملے میں ماہرین فلکیات سے رجوع کیاجائے اور ان کی تحقیق پر عمل کیاجائے ۔

جواب یہ ہے کہ ماہرین کی طرف اس وقت رجوع کیاجاتا ہے جب کہ مسئلے کی نوعیت معلوم نہ ہو اور چاند کے ثبوت کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے لیے ماہرین کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت پڑے بلکہ اس کی شکل نہایت آسان ہے کہ چاند دیکھنے کی کوشش کی جائے ، نظر آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ تو تیس کی تعداد پوری کرلی جائے۔

7۔ نئے چاند کے معاملے میں فلکیاتی حساب قطعیت اور یقین کا درجہ اختیارکر چکا ہے ، جس میں غلطی کا امکان شاذونادر ہے اور پہلے زمانے میں علم فلکیات ظنیات پر مبنی تھا ، جس کی بنیاد ذاتی مشاہد ہ اور سنی سنائی باتوں پر تھی ، وہ ریاضی کے قواعد اور ایسے قطعی دلائل پر قائم نہ تھا جویقین کا فائدہ دے ، اس لیے آنحضرت ﷺ نے مہینے کے آغاز کی بنیاد ایک ایسی چیزکو قرار دیا جس تک ہرایک کی رسائی تھی اور جس سے یقین حاصل ہوجاتا تھا ، موجودہ دور میں علم فلکیات مضبوط اور ٹھوس علمی بنیادوں پر قائم ہے جس سے دو اوردو چار کی طرح سے یقین کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے اور اس کے ماہرین کے درمیان نئے چاند کی پیدائش اور افق پر اس کے موجود ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایاجاتا ہے ، یہاں تک کہ سیکنڈ کے اعتبار سے اس کاوقت برسوں پہلے متعین کر دیاجاتا ہے جس میں کوئی غلطی نہیں ہوتی ۔

مانعین کے دلائل :

جو لوگ چاند کے ثبوت کے معاملے میں فلکیاتی حساب کو معتبر نہیں مانتے ہیں ان کے دلائل یہ ہیں :

1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

‘‘فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ’’(سورۃ البقرہ:185)

ا س آیت میں کہاگیاہے کہ تم میں سے جو رمضان کے مہینے میں حاضر رہے تووہ روزہ رکھے اور حاضر رہنے کاایک مفہوم یہ ہے کہ وہ گھر پہ رہے اور سفر میں نہ نکلا ہو اور یہی مفہوم راجح ہے اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ تم میں سے جس کسی کو رمضان کا مشاہدہ ہوجائے تووہ روزہ رکھے اور مشاہدہ کے ذرائع دو ہیں ، ۲۹؍شعبان کوچاندکا نظر آجانا یا شعبان کے تیس دن کا مکمل ہوجانا ، اس لیے کہ اصول یہ ہے کہ کسی یقینی حالت کو اس وقت تک ترک کرنا درست نہیں ہے جب تک کہ یقینی ذریعے سے اس حالت کی تبدیلی کا علم نہ ہوجائے ، لہٰذا اس وقت تک شعبان کے مہینے کو باقی سمجھاجائے گا جب تک کہ چاند دکھائی نہ دے یا مہینے کے تیس دن مکمل ہوجائیں ۔(احکام القرآن لابن العربی 118/1.البدائع220)

اس کے جواب میں کہاجاتا ہے کہ موجودہ دور میں فلکیاتی حساب قطعیت اور یقین کا درجہ اختیارکر چکاہے اس لیے اس کے ذریعے شعبان کے مہینے کے ختم ہونے کا فیصلہ کیاجاسکتاہے ۔(فقہ الصیام للقرضاوی /29)

لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطعیت کا دعویٰ نئے چاند کی پیدائش کی حد تک کچھ درست ہے لیکن چاند کے نظر آنے سے متعلق صحیح نہیں ہے کیونکہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی رویت کا محض امکان ظاہر کیاجاتا ہے ، نہ کہ دکھائی دینے کا کوئی قطعی فیصلہ اور مہینے کے آغاز کے لیے چاند کا وجود کافی نہیں ہے بلکہ دکھائی دینا ضروری ہے ، چنانچہ جناب ضیاء الدین صاحب نے گرنیچ کی سائنس ریسرچ کونسل کے حوالے سے لکھا ہے کہ :

‘‘ہرماہ نئے چاند کے پہلی مرتبہ نظر آنے والی تاریخوں کے متعلق پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ایسے قابل اعتماد اور مکمل طورپر مستند مشاہدات موجود نہیں ہوتے ہیں جنہیں ان شرائط کو متعین کرنے میں استعمال کیاجاسکے جو چاند کے اول بار نظرآنے کے لیے کافی ہوں ’’۔(رویت ھلال موجودہ دور میں/17)

2۔ قرآن حکیم میں ہے :

‘‘یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ ط قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ’’سورہ البقرہ:189

‘‘لوگ آپؐ سے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ، آپؐ کہہ دیں کہ یہ لوگوں کے لیے اوقات جاننے کا ذریعہ ہے ’’۔

امام ابوبکر الرازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

‘‘فعلق الحکم برویۃ الاھلۃ’’ (احکام القرآن 201/1)

‘‘اللہ تعالیٰ نے ہلال دیکھنے پر حکم کا مدار رکھاہے ’’۔

اور عربی زبان میں ہلال چاند کی اس ابتدائی شکل کو کہتے ہیں جو آنکھوں سے نظر آجائے اور قرآن حکیم نے اسی کو تاریخ کی تعیین کا ذریعہ قرار دیا ہے اورفلکی چاند دکھائی نہیں دیتا ہے اس لیے اس کا اعتبارنہیں کیاجاسکتا ہے ۔

3۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

‘‘صوموا لرویتہ وافطروا لرویتہ فان غبی علیکم فاکملوا العدۃ ثلاثین’’ (بخاری:1810.مسلم:1080)

‘‘چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو اور اگر بدلی چھاجائے تو تیس کی تعداد پوری کرو۔

اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے منقول حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

‘‘لاتصوموا حتی ترواالھلال ولاتفطروا حتی تروہ فان غم علیکم فاقدروا لہ’’ (بخاری :1906.مسلم:1080)

‘‘روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چانددیکھ لو اور عید نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو اور اگر بدلی چھاجائے تو اس کا اندازہ لگاؤ ’’۔

اس حدیث میں روزہ رکھنے اور عید منانے کا مدار چاند کی رویت کو قرار دیاگیا ہے اور بادل ہونے کی حالت میں تیس کی تعداد پوری کرنے کاحکم دیا گیا ہے اور ‘‘رویت ’’ کے معنی کسی چیز کو سر کی آنکھ سے دیکھ لینے کے ہیں اور اس کے علاوہ دوسرا مفہوم اس کا حقیقی نہیں بلکہ مجازی مفہوم ہے اور اصل یہ ہے کہ کسی لفظ کا حقیقی معنی مراد لیا جائے اور مجازی معنی اس وقت مراد ہوتا ہے جب کہ حقیقت پر عمل کرنا دشوار ہو اور یہاں ایسی کوئی دشواری نہیں ہے ۔

اور ظاہر ہے کہ فلکی حساب رویت کے قائم مقام نہیں ہے اور اس روایت سے یہ بالکل عیاں ہے کہ بادل ہونے کی صورت میں افق پر چاند کا وجود ممکن ہے مگر اس کااعتبار نہیں ہے ، اس لیے کہاگیاہے کہ دکھائی نہ دینے کی حالت میں (گرچہ چاند افق پر موجود ہو ) تیس کی

تعداد مکمل کرلو اور یہ نہیں کہا گیاہے کہ ایسی صورت میں اہل حساب سے معلوم کرلو ۔

صحابہ کرام ،تابعین عظام اور مجتہدین امت نے حدیث سے یہی سمجھاہے اور اسی کے مطابق ان کا عمل رہا ہے ، اگر اس کا مفہوم وسیع ہوتا تو وہ اس کو ہم سے زیادہ جانتے تھے اور ضرورت کے وقت حساب داں سے رجوع کرتے ، جو ان کے زمانے میں بھی موجود تھے ۔

4۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

‘‘ انا امۃ امیۃ لانکتب ولانحسب الشھرھکذا وھکذاوھکذا یعنی مرۃ تسعۃ وعشرین ومرۃ ثلاثین’’ (۱)

‘‘ہم ان پڑھ لوگ ہیں ، حساب وکتاب نہیں جانتے ، مہینہ اتنے اتنے دن کا ہوتا ہے یعنی کبھی ۲۹؍ دن اور کبھی ۳۰؍دن کا’’۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نئے مہینے کے آغاز کے لیے حساب وکتاب پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ ایسا کرنے میں امت کے لیے دشواری اور پریشانی ہے کہ حساب و کتاب سے ہرشخص کا آگاہ ہونا مشکل ہے ، اس لیے آسانی کے پیش نظر شریعت نے اس کا مدار بصری روایت پر رکھا ہے ، حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں :

‘‘مذکورہ حدیث میں حساب سے مراد چاند کی رفتار کاحساب ہے اور اس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے تھے ، اس لیے روزہ وغیرہ کا مدار رویت پر رکھاگیاہے تاکہ چاند کی رفتارکے حساب کی پیچیدگیوں میں الجھ کر لوگ پریشانی کا شکار نہ ہوجائیں اور روزہ کے بارے میں یہ حکم برقرار رہے گا ، گر چہ بعد کے زمانے میں اسے جاننے والے لوگ پیدا ہوجائیں بلکہ حدیث کا ظاہر بتلا رہا ہے کہ حساب کا بالکل اعتبار نہیں کیاجائے گا جس کی وضاحت گذشتہ حدیث سے ہورہی ہے، جس میں کہا گیاہے کہ اگر بدلی چھاجائے تو تیس کی تعداد پوری کر و اور یہ نہیں فرمایا ہے کہ حساب دانوں سے معلوم کرلو ’’۔(فتح الباری 163/4)

اور صورت حال یہ ہے موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی اس کے ماہرین گنے چنے ہیں اور ان لوگوں کے علم پر عبادات کو موقوف رکھنے میں جو مشکلات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور امت مسلمہ بھی چاند کی تاریخوں کی بنیاد سے اسی طرح سے ناآشناہوجائے گی جیسے کہ تمام لوگ سورج کی تاریخوں کے معیار سے ناواقف ہیں ۔

5۔ حضرت ابوہریرہؓ نقل کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

‘‘من اتی کاہنا اوعرافا فصدتہ بما یقول فقد کفربما انزل علی محمد’’(مسند احمد:9536.ابوداؤد :3904.الحاکم وقال صحیح علی شرط الشیخین و وافقہ الذھبی )

‘‘جوکسی کاہن اور جیوتشی کے پاس جائے اور اس کی کہی بات کو سچ مانے تو وہ محمد ﷺ پر نازل کردہ دین کا منکر ہے ’’

اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نجومیوں اور کاہنوں کی بات پر اعتماد کرنا درست نہیں ہے ،کیونکہ ان کی خبر کاطریقہ غیر شرعی اور ظن وتخمین پر مبنی ہے ، اس لیے جو لوگ ماہرین فلکیات کی بات پر اعتماد کرتے ہیں وہ اس حدیث کی مخالفت کرتے ہیں ۔

اس دلیل پر یہ اعتراض کیا گیاہے کہ پہلے زمانے کے ماہرین فلکیات عام طور پرنجومی اور کاہن ہواکرتے تھے اوروہ غیبی چیزوں کے جاننے کے دعویدار تھے ، اس لیے ان کے پاس جانے اور ان کی بات سچ ماننے سے منع کیاگیاہے ، لیکن موجودہ علم فلکیات کا علم نجوم یا شعبدہ بازی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس سے متعلق لوگ علم غیب کے دعویدار ہیں بلکہ وہ ٹھوس علمی بنیادوں پر قائم اور محسوس و مشاہد تجربات پر مبنی ہے اور اٹکل پچو یا گمان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے ۔

6۔ قمری مہینے کے معاملے میں حساب پر اعتبار نہ کرنے پر امت کا اجماع ہے ، چنانچہ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رقم طراز ہیں کہ :

‘‘مسلمانوں کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے کہ عربی مہینوں کے ثبوت کے لیے حساب پرعمل نہیں کیاجائے گا اور متقدمین کے یہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں رہا ہے اور نہ ہی اس کے برخلاف کوئی حدیث موجود ہے ، اس معاملے میں جو اختلاف منقول ہے وہ تیسری صدی کے بعد پیداہوئے بعض نام نہاد فقیہوں کی طرف سے ہے ’’۔(مجموعۃ الفتاوی 132/25)

7۔ شریعت آسانی چاہتی ہے ، اس لیے چاند کے ثبوت کے لیے آنکھ کے ذریعے دیکھنے یا تیس کی تعداد مکمل کرنے کا حکم دیاگیا ہے کیونکہ چاند دیکھ کر مہینہ شروع اور ختم کرنا بہت آسان ہے جس کے ذریعے ہرشخص نئے مہینے کے آغاز کو معلوم کرسکتاہے ، خواہ وہ پڑھالکھا ہوا ہو یا اَن پڑھ ، شہری ہو یا دیہاتی ، انسانی آبادی میں رہنے والا ہو یا پہاڑ اور جنگل میں بسیرا کرنے والا۔

لہٰذا جوعبادت تمام لوگوں پرفرض ہے اس کے آغاز کے بارے میں ایسی چیز کو معیار قرار دینا جس سے مخصوص لوگ واقف ہوں ، کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ، کیونکہ اس فن کے ماہرین آج بھی گنے چنے لوگ ہیں جن پر اعتماد کرنے کامطلب ہوگا کہ ایک عمومی عبادت کو شرو ع کرنے کا مدار محض چند لوگوں کے علم و تحقیق پر ہو جس سے عام لوگ واقف نہیں ہیں ،امام نووی کے الفاظ میں :

‘‘ لان الناس لوکلفواذلک لشق علیھم لانہ لایعرفہ الاافرادوالشرع انما یکلف الناس بما یعرفہ جماھیرھم’’ (المنہاج 247/1)

‘‘اس لیے کہ اگر لوگوں کو علم فلکیات کامکلف بنایا جائے تووہ مشقت میں مبتلا ہوجائیں گے ، کیونکہ اسے جاننے والے چند لوگ ہیں اور شریعت ان چیزوں کا مکلف بناتی ہے جسے زیادہ تر لوگ جانتے ہیں ’’۔

8۔ علم فلکیات ایک اجتہادی علم ہے جس میں غلطی کے امکان بلکہ وقوع سے انکار نہیں کیاجاسکتاہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے ماہرین کے درمیان اختلاف ہوتا رہتا ہے ،متعدد کلنڈروں کی مختلف تاریخوں کے ذریعے اس کا مشاہد ہ کیاجاسکتا ہے ، ا س لیے اس معاملے میں قطعیت اور یقین کا دعویٰ درست نہیں ہے ۔

اس کے جواب میں یہ کہاجاتا ہے کہ تاریخوں میں اختلاف کی بنیادی وجہ دو ہے ، ایک یہ کہ بہت سے کلینڈر، ماہرین یامعتمد فلکیاتی مراکز کی طرف سے شائع نہیں ہوتے بلکہ غیر ماہرین کی طرف سے ذاتی تجربے اور قدیم زائچے کی بنیادپر اور تجارتی مقصد سے شائع کیے جاتے ہیں اس لیے ان میں اورماہرین کی رایوں میں اختلاف دیکھنے کو ملتاہے ۔

دوسرے یہ کہ نئے چاند کی پیدائش اور امکان رویت میں اختلاف نہیں ہوتا بلکہ نئے مہینے کو سورج کے غروب ہونے کے بعد سے شرو ع کرنے کے لیے کس جگہ کے وقت کو معیار بنایاجائے اس میں اختلاف پایاجاتا ہے ، جیسے کہ ڈاکٹر صالح تویجری کویتی گرینیچ کے وقت کو معیار بناتے ہیں ، اس لیے اس کے اعتبار سے بارہ بجے سے پہلے نئے چاند کی پیدائش ہوجائے تو آنے والی رات مہینے کی پہلی رات ہوگی اور اگر بارہ بجے کے بعد چاند کی پیدائش ہو تو آنے والی رات گذشتہ مہینے کی آخری رات ہوگی ، اس کے برخلاف ام القریٰ کلینڈر کمیٹی نے مکہ المکـرمہ میں سورج غروب ہونے کو معیار بنا یا ہے ، اس لیے اگر چاند کی پیدائش سے پہلے ہی مکہ میں سورج غروب ہوجائے تو آنے والی رات کو مہینے کی آخری رات قرار دیاجائے گا اور اگر چاند کی پیدائش کے بعد مکہ میں سورج غروب ہو تو وہ رات نئے مہینے کی پہلی رات ہوگی ۔

حاصل یہ ہے کہ نئے ماہ کے آغاز کے معاملے میں علم فلکیات کے اعتبار پر سرے سے کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے ، اگر اس کی کوئی شرعی بنیاد ہوتی تو صحابہ کرامؓ اس سے بخوبی واقف ہوتے اور چاند نظر نہ آنے کی صورت میں اس کے ماہرین کی طرف رجوع کرتے جو ان کے قرب و جوار میں موجود تھے ، نیز خلافت راشدہ کے زمانے میں ہی مصر و شام فتح ہوچکے تھے ، جہاں چاند اور ستاروں کی رفتار اور منازل معلوم کرنے کے لیے رصد گاہیں موجود تھیں ۔

بلکہ اس کے برعکس واضح دلائل موجود ہیں جس سے صاف طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ نئے مہینے کا آغاز صرف دوچیزوں پر موقوف ہے ، آنکھ کے ذریعے چاند نظر آجانے پر یا تیس کی تعداد مکمل ہوجانے پر ۔

البتہ اس معاملے میں علامہ سبکی کی یہ باعث لائق توجہ ہے کہ اگر دو ایک لوگ چاند دیکھنے کی گواہی دیں اور فلکیاتی حساب کے اعتبار سے ابھی نئے چاند کا وجود ہی نہ ہوا ہو تو ان کی گواہی رد کر دی جائے گی اور سمجھاجائے گا کہ چاند دیکھنے والوں کو وہم ہوا ہے کیونکہ نئے چاند کے وجود کے معاملے میں فلکیاتی حساب سے یقین کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور دو ایک لوگوں کی گواہی ظن کا درجہ رکھتی ہے اور اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قمری مہینے کے لیے فلکی حساب کو بنیاد بنایاجارہا ہے کیونکہ فیصلہ تو رویت ہی کی وجہ سے کیاجائے گا ،البتہ یہ دیکھنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ قرائن رویت کے خلاف تو نہیں ہیں ، اس لیے یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جب کسی ایسی چیز کی گواہی دی جائے جوعقل کے اعتبار سے ناممکن ہو تو اسے قبول نہیں کیاجائے گا ، چنانچہ رابطہ عالم اسلامی کانفرنس مکہ المکرمہ منعقدہ 13؍فروری 2012ء کی قرار داد میں کہاگیا ہے کہ :

‘‘رویت ہلال کی شہادت مقبول ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ صحیح حقائق اور معتبر فلکی اداروں کے اعلانات کی رو سے رویت ناممکن نہ ہو ،مثلاً یہ کہ اس وقت تک قران ہی نہ ہوا ہو یا سورج کے غروب ہونے سے پہلے ہی چاند غروب ہوگیا ’’۔

اور اگر دو ایک کے بجائے بہت سے لوگوں نے چاند دیکھا ہوتو پھر یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ فلکی حساب کے اعتبار سے رویت ممکن ہے یا نہیں کیوں کہ خلاف واقعہ چیز کا عمومی مشاہدہ ناممکن ہے ۔

جہاں مطلع ابر آلود رہتا ہو :

بر طانیہ یا اس جیسے ملکوں کے لیے جہاں عام طور پر مطلع ابر آلود رہتا ہے اور ۲۹کا چاند بہت کم دکھائی دیتاہے ،وہاں سے قریب تر ملکوں کی رویت پر اعتما د کرکے روزہ رکھنا یا عید منانا چاہیے اور اس صورت میں بھی ماہرین فلکیات پر اعتماد کر نا درست نہیں ہے ۔(حاشیہ الموسوعہ الفقہیہ 31/22.احسن الفتاوی 425/4)

 

اختلا ف مطلع :

لغت کے اعتبارسے نکلنے اور ظاہر ہونے کی جگہ کو مطلع کہا جاتا ہے اورفقہی کتابوں میں اس سے مراد مغرب کی طرف سے چاند نکلنے کی جگہ ہے اور اختلاف مطلع کا مطلب ہے کہ پوری دنیا میں چاند نکلنے کی جگہ کو مختلف سمجھاجائے گا یعنی ایک علاقے میں چاند نظر آجائے تو دوسرے علاقے کے لوگوں کے لیے وہ قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ دونوں کا مطلع ایک نہیں ہے اور اتحاد مطلع کامطلب ہوگا کہ پوری دنیاکا مطلع ایک سمجھاجائے گا اور کسی بھی جگہ چاند نظر آجائے تو پوری دنیا کے لوگوں کو اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے بشرطیکہ صحیح ذریعے سے ان تک چاند نکلنے کی اطلاع پہنچ جائے ۔

حقیقت کے اعتبار سے مطلع کا اختلاف ایک اجماعی اور اتفاقی معاملہ ہے کیونکہ یہ معلوم و مشاہد ہے کہ چاند کے طلوع ہونے کا اعتبار سورج کے غروب ہونے پر ہے اور سورج کے غروب ہونے کا وقت ہر جگہ یکساں نہیں ہے ، کہیں دوچار گھنٹے کا تو کہیں پورے بارہ گھنٹے کا فرق ہوتا ہے ، اس لیے ایک جگہ چاند کے نظر آنے پر دوسری جگہ نظر آنا ضروری نہیں ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر چاند مشرق میں نظر آگیا ہے تومغرب میں یقینی طور پر دکھائی دے گا ، کیونکہ مشرق کی بہ نسبت مغرب میں سورج بعد میں غروب ہوتاہے ، لہٰذا مشرق میں چاند نظر آگیا ہے تو مغرب میں سورج غروب ہوتے وقت اس کی روشنی اور سائز میں اضافہ ہوجائے گا جس کی وجہ سے نظر آنے کا امکان بڑھ جائے گا، اس کے برخلاف اگر مغرب میں نظر آیا ہے تو مشرق میں دکھائی دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ مغرب میں نظر آنے کی وجہ چاند کی روشنی میں وہ اضافہ ہے جو مشرق میں سورج کے غروب ہونے کے وقت موجود نہیں تھا ۔

اور یہ حقیقت ائمہ اربعہ کے دور میں بھی ثابت اورمشاہد تھی کیونکہ ان کے زمانے میں اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر اسپین تک پھیل چکا تھا ، جہاں کے طلوع و غروب کا وقت حجاز سے کافی مختلف تھا ، اس لیے واقعہ کے اعتبار سے مطلع کے الگ الگ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

اختلاف صرف اس میں ہے کہ شریعت نے اس کا اعتبار کیا ہے یا نہیں ؟ اما م شافعی کے علاوہ بقیہ تینوں اماموں کے نزدیک اس کا اعتبارنہیں کیاجائے گا ، اس لیے کسی ایک علاقے میں چاند نظر آجائے تو دوسری جگہ کے لوگوں کے لیے روزہ رکھنا اور عید منانا ضروری ہے بشرطیکہ معتبر ذرائع سے اس کی اطلاع پہنچ جائے ، دوسرے الفاظ میں مشرق میں چاند نظر آجائے تو مغرب کے لوگوں پر اس کے مطابق عمل کرنا لازم ہے ، اس کے برخلاف امام شافعی کے نزدیک جس علاقے کے لوگوں نے چاند دیکھاہے وہی اس کے پابند ہوں گے ، دوسرے

علاقے کے لوگ اس کے مکلف نہیں ہیں ، ان کی دلیل یہ حدیث ہے :

‘‘ عن کریب ان ام الفضل بنت الحارث بعثتہ الی معاویۃ بالشام قال فقدمت الشام فقضیت حاجتھاواستھل علی رمضان وانا بالشام فرأیت الھلال لیلۃ الجمعۃ ثم قدمت المدینۃ فی آخرالشھرفسالنی عبداللہ بن عباس ثم ذکرالھلال فقال متی رأیتم الھلال فقلت رأیناہ لیلۃ الجمعۃ فقال انت رأیت فقلت نعم ورآہ الناس وصاموا و صام معاویۃ فقال لکنارأیناہ لیلۃ السبت فلا نزال نصوم حتی نکمل ثلاثین اونراہ فقلت اولاتکتفی برویۃ معاویۃ وصیامہ فقال لا ھکذا امرنا رسول اللہﷺ’’ (مسلم:1087)

‘‘ کریب کہتے ہیں کہ ام فضل نے مجھے حضرت معاویہؓ کے پاس ملک شام بھیجا، میں وہاں پہنچا ،ان کی ضرورت پوری کی اوراسی دوران رمضان کا مہینہ آپہنچا ، میں نے خود جمعہ کی رات میں چاند دیکھا پھر مہینہ کے آخر میں مدینہ واپس آیا ، حضرت ابن عباسؓ نے مجھ سے وہاں کے احوال پوچھے اور پھر کہا کہ تم نے چاند کب دیکھا ہے ؟ میں نے کہا ہم نے اسے جمعہ کی رات میں دیکھاہے ، کہا کیا تم نے بھی دیکھاہے ، میں نے کہا ہاں اور دوسرے لوگوں نے بھی اور سب نے روزہ رکھا اور حضرت معاویہؓ نے بھی روزہ رکھا ، انہوں نے کہا کہ ہم نے سنچر کی رات میں دیکھاہے اور اسی اعتبارسے روزہ رکھتے رہیں گے ، یہاں تک کہ تیس کی تعداد پوری ہوجائے یا چاند نظر آجائے ، میں نے کہا کیا آپ کے لیے حضرت معاویہ کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کافی نہیں ہے ؟ فرمایا نہیں، اسی طرح سے ہمیں اللہ کے رسولﷺ نے حکم دیا ہے ’’۔

حنفیہ وغیرہ کی دلیل یہ حدیث ہے :

‘‘ صوموا لرویتہ وافطروا لرویتہ’’ (بخاری:1909.مسلم:1081)

‘‘ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عیدکر و ’’۔

یہ حدیث پوری امت کے لیے عام ہے کہ ان میں سے جس شخص نے جس جگہ چاند دیکھ لیا تواس کی رویت ہرشخص اور ہرجگہ کے لیے ہوگی اور اسے خاص کرنا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے ، کیونکہ اس کا مطلب ہوگا کہ جودیکھے وہ روزہ رکھے ،حالانکہ بہ اتفاق یہ غلط ہے کہ جو اپنی آنکھوں سے دیکھے وہ روزہ رکھے اور جو نہ دیکھے وہ نہ رکھے ، اس لیے مذکورہ حدیث کا یہ مفہوم بالکل بے غبار ہے کہ چاند کی رویت ثابت ہوجانے پر تمام لوگوں پر روزہ اور عید فرض ہے خواہ مشرق میں چاند دیکھاگیا ہو یا مغرب میں ۔(کفایت المفتی 212/4)

رہا حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا طرز عمل اور فتوا تو اس کے متعلق علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ ان کا یہ فرمانا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں یہی حکم دیا ہے تو یہ ایک شرعی دلیل ہے لیکن اللہ کے رسولﷺ کے حکم سے اجتہاد کے ذریعے انہوں نے جوکچھ سمجھا ہے وہ حجت نہیں ہے اوراللہ کے رسول ﷺکے حکم سے ان کی مراد یہ حدیث ہے :

‘‘لاتصومواحتی ترواالھلال ولاتفطرواحتی تروہ فان غم علیکم فاکملوا العدۃ ثلاثین’’

‘‘روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو اور عید نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو اور اگر بدلی چھاجائے تو تیس کی تعداد پوری کرو ’’۔

علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ مذکورہ حدیث کسی متعین جگہ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ا س کامخاطب ہر مسلمان ہے ، اس لیے اس حدیث سے یہ استدلال زیادہ ظاہرہے کہ کسی جگہ چاند دیکھ لیا جائے تو دوسری جگہ کے لوگوں کے لیے اس کی پابندی ضروری ہے ، کیونکہ جب کسی ایک شہر کے لوگوں نے چاند دیکھ لیا تو سمجھا جائے گا کہ تمام مسلمانوں نے دیکھ لیا تواس کے شہر کے لوگوں پرجو لازم ہے وہی دوسرے شہر لوگوں پر بھی لازم ہے ۔(نیل الاوطار 856/1)

علاوہ ازیں اگرکسی علاقے کی رویت وہیں تک محدود رہتی ہے تو شریعت میں اس کی حد مقرر کی جاتی کہ کتنی مسافت تک رویت معتبر ہوگی اورکس قدر فاصلے کے بعد معتبر نہیں ہوگی ؟ حالانکہ شریعت میں کسی فاصلے اور مسافت کی حد بندی نہیں کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور اگرروایت کو عام باقی رکھاجائے تو لازم آتا ہے کہ تین کوس کے فاصلے کی رویت بھی معتبر نہ ہو ۔(کفایت المفتی 212/4)

دوسرے یہ کہ اس دور کے اعتبار سے توحضرت عبداللہ بن عباسؓ کی رائے صحیح تھی کیونکہ ملک شام میں چاند نظر آنے کی اطلاع مدینہ میں کافی تاخیر سے پہنچتی اور ایسی حالت میں شام کے لوگوں کی رویت کو مدینہ میں لازم کرنے کا مطلب ہوگا ان کو مشکلات میں مبتلا کرنا اور انہیں چاند کی تلاش میں دوڑ بھاگ کرنے کے لیے مجبور کرنا اوراسی پس منظر میں کہاگیا ہے کہ ‘‘لکل اھل بلد رویتھم’’یعنی ہرقوم اپنے یہاں کی رویت کی مکلف ہے ، اس کے یہاں چاند نظر آجائے تو اس پرعمل کرلیاجائے اور چاند تلاش کرنے کے لیے گردو پیش میں دوڑنا غیر ضروری ہے ، اس لیے رمضان یا عید وغیرہ کے لیے قرب و جوار کی رویت ہی کو معیار بنانا چاہیے لیکن اب فاصلے سمٹ چکے ہیں اور ایسے ذرائع پیداہوچکے ہیں کہ کسی محنت ومشقت کے بغیر ایک جگہ کی خبر کو کم سے کم وقت میں دوسری جگہ منتقل کیاجاسکتا ہے اس لیے اب اس طریقے پر اصرار درست نہیں ہے ۔

مولانامحمدتقی عثمانی صاحب مسلک جمہور کو راجح قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

‘‘مطلع کے اختلاف کا مسافت کی دوری یانزدیکی سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اس لیے یہ ممکن ہے کہ قریب کے دو شہروں کا مطلع الگ الگ ہو اور دورکے دو شہروں کامطلع ایک ہو ، اس لیے کہ چاند طلوع ہوتے وقت زمین کے ارد گر دکمان کی شکل میں ایک لکیر کھنچ جاتی ہے اور جوممالک اس لکیرکے اندر ہوں گے ان کے لیے چاند کا نظر آناممکن ہوگا اورجو اس سے باہرہوں گے ان کے لیے چاند کا دکھائی دینا ممکن نہیں ہوگا اورایسا ہوتا ہے کہ ایک ملک اس کمان کے اندر ہے اور دوسرا باہر ،حالانکہ دونوں کے درمیان بہت کم مسافت ہے اور اس کے برخلاف دوملکوں کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ہوتا ہے مگر چاند کے نکلتے وقت دونوں اس کمان کے اندر ہوتے ہیں ۔

اور یہ کمان ہر ماہ بدلتارہتا ہے ،اس لیے کسی ماہ میں دو جگہوں کامطلع ایک ہوتا ہے مگر دوسرے مہینے میں بدل جاتا ہے ، اس لیے دو جگہوں کے بارے میں یہ کہنا ممکن نہیں کہ ان کامطلع ہمیشہ ایک رہے گا یا الگ ۔

لہٰذا مطلع کے اختلاف کا اعتبارکرنے میں ہرماہ دقیق حساب کی ضرورت ہے اور اس پر احکام کا مدار رکھنے میں جو دشواری ہے وہ بالکل واضح ہے ،اس لیے گذشتہ تفصیل کے پیش نظر جمہور کا مسلک راجح ہے جن کے یہاں اختلاف مطلع کااعتبار نہیں ہے ۔(بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرہ255/2)

اور مفتی رشید احمد لکھتے ہیں:

اختلاف مطالع کا اعتبارنہیں ہے ، بعض حضرات کاخیال ہے کہ ایسے بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہونا چاہیے ، جن کی رویت میں ایک دن سے زیادہ کا فرق ہو ، اس لیے کہ اس صورت میں مہینے کے ایام انیتس یا تیس سے زیادہ ہوجائیں گے اوریہ نصوص صریح کے خلاف ہے ۔

یہ خیال صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ فنی تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں ایک دن سے زیادہ کا فرق ہو ہی نہیں سکتا ، اگر ایسا کہیں ہوتا ہے تو اس کا سبب اختلاف مطالع نہیں بلکہ عوارض فضائیہ یا خیالات بشریہ پر مبنی ہے ……۔

اگر یہ مسئلہ مقتضائے شرع کے خلاف اختلاف مطالع قمر کے علم میں مہارت رکھنے والے چند افراد کے سپرد بھی کردیاجائے تو اس میں ایک مزید قباحت لازم آئے گی کہ ایک ہی مملکت کے اندر دو متقارب مقامات کے درمیان خط اختلاف مطلع واقع ہونے کی صورت میں ایک شہر میں مرکزی حکومت رویت کی بنیاد پر عید کا فیصلہ کرے اور دوسرے ملحق شہر میں اختلاف مطالع کی بناء پر روزہ کا حکم دے ، ایسے فیصلے کی نظیر تاریخ اسلام میں نہیں ملتی ہے ’’۔(احسن الفتاوی 503/4)

واضح رہے کہ مولانا گنگوہی ، حضرت تھانوی ، مفتی کفایت اللہ ، مولانا ظفر احمد عثمانی ، مفتی عزیز الرحمن دیوبندی ،مفتی نظام الدین صاحب اور دوسرے اکابر دیوبند کے نزدیک اختلاف مطلع کا اعتبار نہیں ہے ، اس کے برخلاف بعض متاخرین احناف اور علامہ انور شاہ کشمیری ، علامہ محمد یوسف بنوری ، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مفتی شفیع صاحب دیوبندی کے نزدیک دور دراز کے شہروں میں اختلاف مطلع کا اعتبار کیاجائے گا ۔

(۱ دیکھیے مجموعۃ الفتاویٰ لعبدالحی فرنگی محلی:135/2، فتح الملہم:113/3، جواہر الفقہ:482/3، معارف السنن :339/5)

اختلاف مطالع کے حدود :

اختلاف مطالع کو معتبر ماننے والوں کے درمیان اس کی حد بندی کے سلسلے میں بڑا اختلاف پایاجاتا ہے ، بعض لوگوں نے کہا کہ دوالگ الگ ملکوں کامطلع مختلف ہوگا ، علامہ بغوی ،رافعی اور نووی کے نزدیک مسافت سفر پر مطلع تبدیل ہوجائے گا اور بعض فقہاء کا خیال ہے کہ ایک ماہ کی مسافت کے بعد مطلع بدل جائے گا ،(فتح الباری 155/4.رسائل ابن عابدین 250/1)اورایک ماہ کی مسافت تقریباً چار سو اسی میل ہوتی ہے ،(احسن الفتاوی 492/4) اور مولانا شبیر احمد عثمانی کہتے ہیں کہ جن شہروں میں اتنا فاصلہ ہوکہ ایک جگہ کی رویت دوسری جگہ معتبر ماننے کی صورت میں مہینہ اٹھائیس یااکتیس دن کا ہوجائے گا وہاں اختلاف مطلع کا اعتبار کیاجائے گا اور جہاں ایسا نہ ہو وہاں اختلاف مطلع کو نظر انداز کر دیاجائے گا ،(فتح الملہم 113/3) مولانا مفتی محمد شفیع صاحب بھی اسی کے قائل ہیں (جواہر الفقہ 482/3)اور مجلس تحقیقات شرعیہ لکھنؤ کے زیر اہتمام منعقدسیمینار کی تجویز بھی یہی ہے ۔(جدید فقہی مسائل 33/2)

ظاہر ہے کہ ان تمام اقوال کی بنیاد مسافت پر ہے اور اس بات پر مدار ہے کہ اختلاف مطلع ناقابل تغیرہے ،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مطلع کے اختلاف میں سرے سے مسافت کا کوئی دخل نہیں ہے نیز خط اختلاف مطالع تغیر پذیر ہے جس کا محل وقوع ہر ماہ بدلتا رہتا ہے اور جس کا علم پیچیدہ اور دشوار حساب پرمبنی ہے ، اس لیے ہر مہینے اس کی تعیین کے لیے ماہرین فن کی ضرورت ہوگی ، اس طرح سے ایک دینی معاملہ اورعمومی فریضہ چند لوگوں کی تحقیق پر منحصر ہوگا اور بقیہ تمام لوگوں کو ان کی تقلید کرنی ہوگی اوراس کے ذریعے وہ تمام خرابی پیدا ہوگی جو چاند کی رویت کے معاملے میں فلکی حساب پر اعتمادکرنے میں پیداہوتی ہے ، بلکہ چاند کی رویت کے لیے فلکی حساب سے اس سے ہزاردرجہ آسان ہے لیکن اس کے باوجود عام فہم نہ ہونے کی وجہ سے شریعت نے اس کامکلف نہیں بنایا ہے توپھر اختلاف مطالع جیسے پیچیدہ اور مشکل ترین حساب کا پابند بنانا کیسے صحیح ہوگا ۔

اس لیے زیادہ صحیح یہ ہے کہ اگر کسی علاقے میں چاند نظر آجائے اوردوسری جگہ رات کا کوئی بھی حصہ رویت والے علاقے کی رات کے کسی بھی حصے کے ساتھ پایاجائے تو وہاں اختلاف مطلع کا اعتبار نہیں ہوگا خواہ وہ علاقے کتنی ہی دور کیوں نہ ہوں اور جہاں کی رات کا کوئی بھی حصہ رویت والے علاقے کے رات کے کسی حصے کے ساتھ نہ پایاجائے وہا ں اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا ۔

 

 

(1) ‘‘وروی الحسن عن ابی حنیفۃ انہ یقبل فیہ شھادۃ رجلین اورجل وامرأتین سواء کان بالسماء علۃ اولم یکن کما روی عن ابی حنیفۃ فی ھلال رمضان انہ تقبل فیہ شھادۃ الواحد العدل سواء کان فی السماء علۃ اولم یکن’’(البدائع 222/2)

(2)شاہد الحسبۃ اذا اخر شھادتہ بلاعذر لا يقل لفسقه (الاشباه324/2)و متى اخر شاهد الحسبة شهادته بلا عذر فسق فترد (الدر المختار مع الرد175/8)

(3) یشترط لفسقہ بالتاخیربعد العلم بالحرمۃ من غیرعذر ظاھر تعینہ لاداء الشھادۃ (تقریرات الرافعی مع الرد:206/8)

(4 ) العدالۃ ملکۃ تحمل علی ملازمۃ التقویٰ والمروءۃ والشرط ادناھا وھو ترک الکبائر والاصرار علی الصغائر وما یخل بالمروء ۃ(رد المحتار:352/3) التقویٰ ترک ما یذم شرعا والمروءۃ ترک ما یذم عرفا (تقریرات رافعی:146/3)

(5) لایقبل اخبارہ قاضیا آخرفی غیرعملہ لانہ بالنسبۃ الی العمل الآخرکواحد من الرعایا(فتح القدیر:389/6) والقاضی لو اخبرقاضی البلد الآخر بانہ ثبت عندہ ببینۃ قبلھا حق فلان الکائن فی بلد القاضی الآخر لم یجز العمل بہ لان اخبار القاضی لایثبت حجۃ فی غیرمحل ولایتہ (فتح القدیر:389/6)

(6) لا یلزمھم بالشھادۃ الا اھل البلد الذی تثبت فیہ الشھادۃ الا ان یثبت عند الامام الاعظم فیلزم الناس کلھم لان البلد فی حقہ کالبلد الواحد اذ حکمہ نافذ فی الجمیع (فتح الباری :123/4) ۔

(7) قلت والظاہر انہ یلزم اھل القری الصوم بسماع المدافع…(رد المحتار:354/3)،خیارمنادی السلطان مقبول عدلا کان او فاسقا.( الھندیۃ:309/5)

(8)فیلزم اھل المشرق برویۃ اھل المغرب اذا ثبت عندھم رویۃ اولئک بطریق موجب (الدرالمختار)،(بطریق موجب)کان یتحمل اثنان الشہادۃ او یشھدا علی حکم القاضی او یستفیض الخبربخلاف اذا اخبر ان اھل بلدۃ کذا رأوہ لانہ حکایۃ (رد المحتار:359/3)۔

(9)ریڈیو و ٹیلیفون ‘‘بشرط معرفۃ صاحب الصوت وعدالتہ’’درجہ اخبارمیں معتبر ہوں گے ، درجہ شہادت میں نہیں ، (احسن

الفتاویٰ:480/3)ریڈیومیں یہ شرط اثبات رویت کے لیے ہے ، فیصلہ نشر کرنے کے لیے نہیں بلکہ اتنا کافی ہے کہ ریڈیو قابل اعتماد نظم کے ماتحت ہو (حاشیہ احسن الفتاویٰ:480/3)

(10)علامہ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ مطرف بن عبداللہ کی طرف اس کی نسبت صحیح نہیں ہے ، (فتح الباری 122/4)

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے