بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(14)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242
2-چوسر:
بے فائدہ کھیلوں میں سے ایک چوسر ہے،
جو بخت واتفاق (Luck and chance ) پر مبنی لوڈو کی طرح ایک کھیل ہے جس میں اصل مدار نگ اور دانے پر ہوتا ہے، اس پر جتنے نمبر آتے ہیں اس کے مطابق کھلاڑی کی گٹی آگے بڑھتی ہے ۔اگر بائی چانس کسی کے سازگار نمبر آتے رہے تو وہ جیت جاتا ہے اور اگر ناموافق نمبر آئے تو ہار جاتا ہے ۔
چوسر کا رواج عہد نبوی میں تھا اور رسول اللہ ﷺ نے سخت الفاظ میں اس کی مذمت بیان فرمائی ہے چنانچہ حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِيرِ فَكَأَنَّمَا صَبَغَ يَدَهُ فِي لَحْمِ خِنْزِيرٍ وَدَمِهِ”.
جس شخص نے چوسر کھیلا گویا کہ اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے گوشت اور خون میں رنگ لیا۔(صحیح مسلم: 2260.سنن ابوداؤد:4939 )
یعنی جس طرح سے ہاتھ کو نجاست سے آلودہ کرنا حرام ہے اسی طرح سے چوسر کھیلنا حرام ہے یا یہ خنزیر کے گوشت اور خون سے ہاتھ آلودہ کرنا گویا کہ اس کی قباحت و گندگی سے دل و دماغ خالی ہے لہذا اسے کھانے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں ہوگی اور اسے ہاتھ میں لینا اسے کھانے کا ذریعہ بن جائے گا اسی طرح سے چوسر حرام کے ارتکاب کے ذریعہ ہے ۔
اور حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ ".(موطا مالك:2752.سنن ابوداؤد:4938)
جس نے چوسر کھیلا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۔(الموطا:2752.سنن ابوداؤد: 4938۔)
حضرت عبداللہ بن عمر اپنے گھر میں کسی کو چوسر کھیلتے ہوئے دیکھتے تو اس کی پٹائی کرتے اور چوسر کو توڑ دیتے ۔(الادب المفرد: 1273)
اور حضرت عائشہ صدیقہ کو اطلاع ملی کہ ان کے گھر میں بطور مہمان اقامت پذیر کچھ لوگوں کے پاس چوسر کے ساز وسامان ہیں تو انہوں نے پیغام بھیجا کہ اگر اسے نہیں پھینکا تو ہم آپ کو اپنے گھر سے نکال باہر کریں گے ۔(الادب المفرد: 1274)
مذکورہ احادیث کے پیش نظر تمام فقہاء متفق ہیں کہ چوسر بہرصورت حرام ہے ، خواہ جوا کے طور پر کھیلا جائے یا محض دل بہلانے اور وقت گذاری کے لیے۔چنانچہ علامہ ابن قدامہ حنبلی کہتے ہیں کہ چوسر جوائے کے بغیر بھی اجماعی طور پر حرام ہے ۔
(المغنی 156/14)
اور بعض لوگوں نے نقل کیا ہے کہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مغفل اور مشہور تابعی حضرت عکرمہ ،شعبی ،سعید بن مسیب اور امام زہری اسے جائز سمجھتے تھے ۔لیکن علامہ باجی نے لکھا ہے کہ ان حضرات سے صحیح سند کے ساتھ جواز منقول نہیں ہے۔ اور اگر ثابت مان لیا جائے تو کہا جائے گا کہ ان کو حرمت سے متعلق حدیث نہیں پہونچی تھی۔ (المنتقی 278/7 نیز الذخیرہ للقرافی 278/13)
اور امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ قرآن میں مذکور لفظ "میسر” میں چوسر بھی شامل ہے ۔نیز وہ کہتے ہیں کہ میسر کے حرام ہونے کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ اس میں جوا ہو. (مجموع الفتاوی 142/32-253/32)
اور علامہ قرطبی کہتے ہیں کہ ہر وہ کھیل جسے تھوڑی دیر کھیلنا ایک طویل وقت تک کھیلنے کا داعی اور ذریعہ ہو اور اس کی وجہ سے کھیلنے والوں کے درمیان بغض و عداوت پیدا ہو اور اللہ کے ذکر اور نماز سے رکاوٹ بنے تو وہ شراب کی طرح ہے اور حرام ہے. (تفسیر قرطبی 165/8)
اور علامہ ابن حجر ہیتمی کہتے ہیں کہ چوسر کے حرام ہونے کی حکمت یہ ہے اس کھیل کا مدار بخت و اتفاق اور گمان و اندازے پر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں جھگڑا ہوتا ہے اور دشمنی جنم لیتی ہے اور علماء شافعیہ نے اس پہ قیاس کرتے ہوئے ہر اس کھیل کو حرام کہا ہے جس کا مدار بخت و اتفاق پر ہو. (نہایۃ المحتاج295/8.الموسوعہ224/40)
علامہ باجی کہتے ہیں کہ یہ کھیل عام طور پر اللہ کے ذکر سے غافل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے اور ایک طرح کا "میسر” ہے جس کا مقصد ایسی چیزوں میں انہماک ہے جس کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں ہے ۔(المنتقی 278/7)