ڈیجیٹل تصویر اور اس کے احکام
.
خالد احمد اعظمی (شعبہ افتاء)
مدرسہ انوار العلوم فتح پور تال نرجہ مئو
زیر نگرانی (الاستاذ مفتی ولی اللہ مجید قاسمی)
________________________________
تعریف :
تصویر چیزوں یا آدمیوں کی صورت کو نقش کرنا ہے تختی یا دیوار یا اس جیسی کسی چیز پر قلم برش یا تصویر کے آلہ سے ۔( نقش صورۃ الاشیاء او الأشخاص علی لوح او حائط او نحوھما بالقلم او بالفرجون او بآلۃ التصویر ۔المعجم الوسیط)
شرعی تعریف: تصویر کسی چیز کے پائدار نقش کو کہتے ہیں ۔ (احسن الفتاوی)
تصویر سازی کا مقصد: جاندار کہ جسم کی شبیہ کو حسی حالت میں محفوظ کرنا تاکہ بوقت ضرورت استعمال کی جا سکے
تصویر سازی کی وجہ حرمت: سبب شرک ہونا، اللہ تعالی کی تخلیق کے مشابہ ہونا ۔
تصویر سازی کی حرمت کے بارے میں قطعی نصوص موجود ہیں جن میں اس کام کو حرام اور ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان نصوص کا اطلاق ڈیجیٹل تصویر پر ممکن ہے؟کیا یہ تصویر کے حکم میں داخل ہے کہ نہیں؟
اس سے پہلے چند تمہیدات کو ذہن نشیں کرنا مناسب ہوگا…..
کیمرہ کام کیسے کرتا ہے:-
پہلا مرحلہ: ڈیجیٹل کیمرے میں سب سے آگے لینس لگا ہوتا ہے جو کسی منظر کو دیکھتا ہے اس کے بعد C.C.T یا C.MOS سینسر ہوتا ہے یہ شمسی پینل کی طرح کے سیلز ہوتے ہیں جو خود سے ٹکرانے والی روشنی کو برقی سگنلز میں تبدیل کر دیتے ہیں یہاں سے یہ منظر تبدیل ہو کر بجلی کی شکل میں آجاتا ہے۔
دوسرا مرحلہ: یہ برقی لہریں بذریعہ پروسیسر میموری میں محفوظ ہو جاتی ہیں انہیں کوڈز کہا جاتا ہے ،لیکن یہ درحقیقت اعداد نہیں ہوتے ہیں بلکہ خاص قسم کے برقی سگنلز ہوتے ہیں جن سے جب اگلی بار بجلی گزرتی ہے تو وہ اسے مخصوص حالت میں تبدیل کر کے گزارتے ہیں ۔
تیسرا مرحلہ: جب ہم اسکرین پر ایک تصویر کھولتے ہیں تو پروسیسر میموری کی جانب بجلی بھیجتا ہے۔ مخصوص کوڈز سے گزر کر بجلی واپس پروسیسر میں آتی ہے اور پروسیسر اسے ایسی حالت میں اسکرین کی جانب بھیجتا ہے کہ اسکرین میں لگی چپس اسے سمجھ سکے ۔
اسکرین پر نہایت ہی باریک بلب نما نقطے ہوتے ہیں، چپس بجلی کو سمجھ کر اسکرین پر ان بلبز کو روشن کر دیتی ہے، بلب کی روشنیاں مخصوص رنگوں سے گزر کر انہیں رنگوں کی ہو کر اسکرین سے باہر آتی ہیں، یہاں سے یہ منظر تبدیل ہو کر روشنی کی شکل میں آجاتا ہے، یہ روشنیاں جب آنکھ کی پتلی سے ٹکراتی ہیں تو ہمیں تصویر نظر آتی ہے۔
چوتھا مرحلہ : جب ہم پرنٹ کا حکم دیتے ہیں تو پروسیسر بجلی کو میموری میں بھیجتا ہے، اور وہاں سے ایسی حالت میں پرنٹر کو بھیجتا ہے جسے پرنٹر کی چپس سمجھ سکے، پرنٹر کی چپس انہیں سمجھ کر ان کے مطابق صفحے پر رنگ اتارتی ہے جو کہ فورا خشک ہو کر تصویر بن جاتی ہے۔۔ یہاں سے یہ منظر تبدیل ہو کر پائیدار ہو جاتا ہے۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد اب ہم تفصیلا ڈیجیٹل تصویر کی حیثیت پر کلام کرتے ہیں۔
جیسا کہ ابھی ڈیجیٹل کیمرے کے عمل کی تفصیل سے ہمیں معلوم ہوا کہ اس عمل کے چار مرحلے ہیں، ان میں چوتھا مرحلہ جمہور کے نزدیک ناجائز ہے جبکہ پہلے تین مرحلوں کے بارے میں اختلاف ہے۔
علماء کی ایک جماعت ان کے جائز ہونے کی طرف گئی ہے اور دوسری جماعت ناجائز ہونے کی طرف، جو حضرات ناجائز ہونے کا کہتے ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ یہ چونکہ ایک منظر کو محفوظ کرنا اور دیکھنا ہے اس لیے یہ تصویر ہے۔۔ اور جو حضرات اس کے جائز ہونے کی جانب کو ترجیح دیتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ پہلے مرحلے میں اصل منظر کی تصویر ہے دوسرے میں برقی لہریں ہیں اور تیسرے مرحلے میں روشنی کی لہریں ہیں، اور ان چیزوں پر تصویر کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں دوسری رائے بسبب چند وجوہ زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے۔
1 ). تصویر کسی بھی چیز پر بنی ہوئی ایسی شبیہ ہوتی ہے جس سے روشنی کی لہریں ٹکرا کر منعکس ہوں تو وہ نظر آتی ہے، جبکہ ڈیجیٹل میں صرف نور یا روشنی کی ایسی لہریں ہوتی ہیں جو اسکرین کے اندر سے نکل کر ہماری آنکھوں سے ٹکراتی ہیں،اس میں انعکاس نہیں ہوتا ہے۔
یہاں یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ انعکاس ہو کہ نہ ہو بہرحال ہم اسے دیکھ تو رہے ہیں،لہذا ان دونوں میں کیا فرق ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ تصویر کی ایک حقیقت و حیثیت ہوتی ہے جس سے روشنی منعکس ہو رہی ہوتی ہے، جبکہ اسکرین کی اصل حقیقت وہ جلنے والے بلبس ہیں،اگر ان بلبس کو بجھا دیا جائے تو آپ جتنے بھی جتن کر لیں اور جتنی بھی روشنی میں اسکرین کو لے ائیں اس تصویر کو نہیں دیکھ سکتے اس کی کوئی حقیقت واقع میں موجود ہی نہیں ہوتی جس سے روشنی منعکس ہو اور تصویر نظر آئے،تو جس چیز کی کوئی حقیقتِ ظاہری نہیں اس پر تصویر کا حکم کیسے لگایا جا سکتا ہے؟بالفاظ دیگر یوں کہہ لیا جائے کہ ڈیجیٹل میں تصویر موجود ہی نہیں ہوتی بلکہ صرف ایک ساتھ جلنے والے بلب آنکھوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور ان کے بجھتے ہی وہ دھوکہ ایسا ہو جاتا ہے گویا تھا ہی نہیں،اور اس کے برعکس تصویر میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔
2 ). تصویر پائیدار ہوتی ہے اس کو آپ جب تک بالکل ختم نہ کر دیں پھاڑ کر یا مٹا کر وغیرہ تب تک وہ باقی رہتی ہے،اور جب آپ اس کو ایک مرتبہ ختم کر دیں تو دوسری بار نئے سرے سے بنانی پڑتی ہے۔۔ جبکہ ڈیجیٹل صرف برقی رَو کی مرہون منت ہے آپ اس کے تار کو ڈِس کنیکٹ کر دیں تو یہ تصویر بالکل صاف ہو جائے گی اور دو بارہ کنیکٹ کریں تو دو بارہ نظر آنے لگے گی۔ یہ تصویر صرف اتنے ہی وقت کے لیے موجود ہے جتنا وقت آپ اس کو اپنے سامنے رکھنا چاہیں جب آپ اس کو بند کر دیں گے تو یہ تصویر کی حالت میں نہیں رہے گی بلکہ بجلی کے سگنلز باقی رہیں گے جن پر تصویر کا اطلاق کسی صورت میں ممکن نہیں ہے، جبکہ حقیقی تصویر کو اگر اپ بند کر کے رکھ دیں تب بھی وہ تصویر کی حالت میں باقی رہتی ہے۔
الغرض ڈیجیٹل میں یہ نقش پائیدار نہیں ہے اور پائیداری سے مراد یہ ہے کہ وہ تصویر کسی خاص حالت کے ساتھ مقید نہ ہو بلکہ مختلف احوال میں موجود رہے اور اسکرین پر تصویر بجلی کی فراہمی کی حالت کے ساتھ مقید ہے۔
یہاں پر ایک اعتراض پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں،ڈیجیٹل تصویر کو ناجائز قرار دینے والے حضرات بھی آئینے میں اپنا عکس دیکھنے کو درست قرار دیتے ہیں جبکہ اس میں بھی نور کا انعکاس ہوتا ہے،اس طرح کہ روشنی کی لہریں آپ کے جسم سے ٹکراتی ہیں پھر آئینے سے ٹکراتی ہیں آئینہ انہیں کامل طور پر پلٹا دیتا ہے یہ واپس آپ کی آنکھوں سے ٹکراتی ہیں تو آپ کو اپنا عکس نظر آتا ہے،یہاں جس چیز سے ٹکرا کر روشنی نے یہ تصویر حاصل کی ہے یعنی آپ کا جسم اس کا حسی وجود ہے جبکہ ڈیجیٹل اسکرین جو دکھا رہی ہوتی ہے اس کا کوئی حسی وجود نہیں ہوتا ہے یعنی ڈیجیٹل والی صورت آئینہ کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہے، بالفاظ دیگر ڈیجیٹل بالکل آئینے کی طرح نہیں ہے بلکہ آئینہ سے قریب قریب ہے یعنی کمتر ہے لہذا ڈیجیٹل کو بدرجہ اولیٰ جائز سمجھنا چاہیے۔
3 ). جب یہی ڈیجیٹل کیمرہ لائیو دکھا رہا ہوتا ہے تو اکثر علماء اس کو جائز قرار دیتے ہیں حالانکہ لائیو میں بھی وہی تمام عمل ہو رہے ہوتے ہیں جو محفوظ شدہ میں ہوتے ہیں،بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ لائیو میں یہ برقی رَو لمحے کے معمولی سے حصے میں پروسیسر میں رک کر آگے اسکرین کی جانب چلی جاتی ہے جبکہ محفوظ شدہ میں یہ طویل وقت کے لیے روک دی جاتی ہے، عمل دونوں میں یکساں ہوتا ہے اور فرق صرف وقت کا ہوتا ہے۔
4 ). ڈیجیٹل درحقیقت ایک یاد ہوتی ہے جسے پروسیسر اپنی زبان میں محفوظ کرتا ہے پروسیسر اس یاد کے مطابق روشنییاں جلاتا ہے اور ان روشنیوں کے اجتماع سے ایک تصویر اور شبیہ کا گمان ہوتا ہے۔
5 ). عموما ڈیجیٹل تصویر سبب شرک نہیں ہوتی کیونکہ کہیں بھی ڈیجیٹل کی عبادت نہیں کی جاتی۔
6 ). موجودہ دور میں ڈیجیٹل کے استعمال کو ترک کرنے میں دینی اور دنیاوی حرج لازم آتا ہے کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب نہ صرف عالمی بلکہ ملکی ذرائع ابلاغ بھی مساجد و مدارس،دین اور اہل دین کے خلاف پروپیگنڈے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے،یورپ کے الحاد و تحریر سے بھرپور منڈیوں سے درآمد شدہ تجدد پسند اسکالرز اور ان کے ہم نوا ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر جس طرح اپنے زہریلے افکار و نظریات کا پرچار کر رہے ہیں اور دینی شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں ایسے حالات میں ان باطل پرستوں کے پروپیگنڈوں اور ان کی ریشہ دوانیوں کی بیخ کنی کے لیے وہی ہتھیار اور وسائل زیادہ موثر ثابت ہو سکتے ہیں جنہیں مخالفین کی جانب سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ابتدا میں جو تعریف بیان کی گئی تھی اس کو سامنے رکھ کر کچھ گفتگو کی جاتی ہے۔
تعریف یہ ہے -: نقش صورۃ الاشیاء او الأشخاص علی لوح او حائط او نحوھما بالقلم او بالفرجون او بآلۃ التصویر ۔(المعجم الوسیط)
اس تعریف کے مطابق تصویر کسی بھی چیز پر نقش کرنے کو کہتے ہیں،یہ نقش کسی بھی ذریعے سے ہو سکتا ہے لیکن کسی چیز پر ہوتا ہے! ڈیجیٹل میں کسی چیز پر نقش نہیں ہوتا بلکہ اسکرین سے ابھرنے والی عارضی روشنیاں ہوتی ہیں۔
تصویر ممنوعہ کے لیے تین شرط یا تین قید ہیں۔
وہ جاندار کی ہو۔
وہ تصویر بنائی جائے یعنی اس میں صنعت پائی جائے۔
وہ تصویر پائیدار اور محفوظ ہو۔
ان تینوں قیود کو سامنے رکھتے ہوئے لغوی تعریف کی مدد سے ہمارے سامنے یہ شرعی تعریف آتی ہے کہ -:” تصویرِ ممنوعہ کسی چیز پر کسی جاندار کا پائدار نقش بنانا ہے”۔
اب اس تعریف کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈیجیٹل تصویر پر تصویر کی تعریف صادق نہیں آتی ،اس کی دو وجہیں ہیں،
اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ یہ روشنیوں کے اجتماع سے آنکھوں کا دھوکا ہوتی ہے۔
اس میں پائیداری نہیں ہوتی۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ جب اس پر تصویر کی تعریف صادق ہی نہیں آتی تو اسے تصویر کا نام کیوں دیا جاتا ہے اور عرف میں تصویر کیوں سمجھا جاتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مشابہت کی وجہ سے اور بعض مقاصد کے یکساں ہونے کی وجہ سے ہے،جدید چیزیں جو تیار کی جاتی ہیں انہیں اکثر ان سے مشابہ چیزوں کا نام دے دیا جاتا ہے اور اسی نام سے وہ مشہور بھی ہو جاتی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کی تصویر کا وجود ہوتا ہے جس سے روشنی منعکس ہوتی ہے،جبکہ ڈیجیٹل میں ایسا وجود نہیں ہوتا۔
تصویر پائیدار ہوتی ہے جبکہ ڈیجیٹل پائیدار نہیں ہوتی۔
لائیو(live) اور سیو(save) شدہ ڈیجیٹل عمل میں یکساں ہوتی ہے،لائیو کو جائز قرار دینے کی صورت میں سیو شدہ ڈیجیٹل کو بھی جائز قرار دینا چاہیے۔
ڈیجیٹل ایک یاد کے مثل ہوتی ہے جس کو بعض روشنیوں کے اجتماع سے دکھایا جاتا ہے۔
یہ عموما سبب شرک نہیں ہوتی۔
(حکم) اس قدرے تفصیلی بحث کے بعد ہم بطور حکم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈیجیٹل تصویر کھینچنا،رکھنا اور اسکرین پر دیکھنا جائز ہے اور اس کا پرنٹ نکالنا یا نکلوانا قطعا ناجائز ہے،اس کے کھینچنے میں اگر نیت ناجائز کی ہوگی تو کھینچنا بھی ناجائز ہوگا،اور اگر نیت جائز کی ہوگی تو کھینچنا بھی جائز ہوگا۔اور جن چیزوں کو آنکھ سے دیکھنا منع ہے ان کی تصویر کھینچنا،رکھنا اور دیکھنا بھی منع ہے۔لہذا تقوی اور احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ اس سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے اور بوقت ضرورتِ شدیدہ اس کو استعمال کیا جائے۔۔ واللہ اعلم بالصواب ۔