کفاءت کی شرعی حیثیت۔
ولی اللہ مجید قاسمی
دو اجنبی مرد و عورت کے درمیان ایک حسین عہد رفاقت، ایک پاکیزہ پیمان وفا اور اس سے بڑھ کر ایک مقدس رشتہ اتحاد کا نام نکاح ہے، ان اجنبیوں کے درمیان ذہنی اور قلبی ہم آہنگی ہو تو یہ ملاپ بڑا خوشگوار اور پائیدار ہوتاہے، نفرت بھری دنیامیں خلوص، محبت، سکون اور اطمینان کا جزیرہ ثابت ہوتاہے اور اگر ایسانہ ہو تو پھر ہنستا اور مسکراتا ہوا گھر جہنم بن جاتاہے۔ اس لیے اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ نکاح سے پہلے ہی ایک دوسرے کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرلی جائے۔ چال چلن، عادت و اطوار اور سیرت و کردار کے سلسلہ میں اطمینان کرلیاجائے۔
مرد وعورت کے درمیان ہم آہنگی اور عقد نکاح کی پائیداری کے لیے فقہی کتابوں میں متعدد چیزوں میں ان کے درمیان برابری کی شرط لگائی گئی ہے جسے شریعت کی زبان میں کفاءت کہاجاتاہے۔ یہ لفظ ک، ف، ء سے بنایا گیاہے اور برابر اور ہم مثل ہونے کا معنی دیتاہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے ۔
ولم یکن لہ کفوا احد۔
اور اللہ کا کوئی ہم مثل نہیں ہے۔(سورہ اخلاص)
نیز اللہ کے رسول ﷺ کاارشادگرامی ہے:
المسلمون تتکافا دماءھم ۔
تمام مسلمانوں کا خون برابر ہے۔(مسند احمد، سنن نسائی و ابوداؤد، دیکھئے بلوغ المرام 246)
اور دربار رسالت کے مشہور شاعر حضرت حسان بن ثابت کا ایک شعر ہے ؎
وروح القدس لیس لہ اکفاء
اور روح القدس کی طرح کوئی نہیں ہے ۔
فقہی اصطلاح میں کفاءت یہ ہے کہ مرد مذہب، دینداری، نسب اور پیشہ وغیرہ کے اعتبار سے عورت کے برابر یا اس سے بڑھ کر ہو اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عورت ان امور میں مرد سے کمتر ہو۔
امور کفاءت:
تمام علماء کا اتفاق ہے کہ مذہب کے اعتبار سے مرد کا عورت کے برابر ہونا ضروری ہے ، لہٰذا کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی کافر سے درست نہیں ہے ۔ چنانچہ ارشادربانی ہے:
ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ ولو اعجبتکم ولا تنکحوا المشرکین حتی یومنوا ولعبد مومن خیر من مشرک ولو اعجبکم ۔
اور کافر عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائیں اور مسلمان باندی کافرہ عورت سے بہتر ہے گرچہ وہ تم کو اچھی معلوم ہو اور اپنی عورتوں کو کافر مردوں کے نکاح میں نہ دو ،جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائیں اور مسلمان غلام کافر سے بہترہے گو وہ کافر تم کو اچھا معلوم ہو۔۔(سورۃ البقرہ:221)
مذہب کے علاوہ دیگر چیزوں میں کفاءت کے سلسلہ میں اختلاف ہے ، بعض فقہاء کفاءت کے لیے کچھ چیزوں کو ضروری قرار دیتے ہیں اور دوسرے علماء اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان آٹھ چیزوں میں کفاءت کا اعتبار کیاگیاہے: دینداری، نسب و خاندان، پیشہ، خاندانی اسلام، مالداری، عیوب سے برأت ، آزادی اور وجاہت۔
1- دینداری:
رشتہ نکاح کی پائیداری اور خوشگوار ی میں کلیدی کردار ادا کرنے والی چیز دینداری ہے ، یہی چیز ہے جو اس نازک ترین بندھن کو استحکام دیتی ہے ، زندگی کے سمندر میں کشتی چلانے کے لیے مضبوط پتوار ہے ، اگر یہی ہاتھ میں نہ ہو تو پھر ساحل کی تمنا خواب و خیال ہے، کشتی کسی بھنور میں جاکر پھنس جائے گی اور طوفان کے تھپیڑے جینا محال کردیں گے۔ اسی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے ہادیٔ عالم ﷺ نے فرمایاہے:
اذا خطب الیکم ممن ترضون دینہ و خلقہ فزوجوہ الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد قالوا یارسول اللہ! وان کان فیہ ؟قال اذا جاء کم من ترضون دینہ و خلقہ فانکحوہ ثلاث مرات.
جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا پیغام آئے جس کی دینی اور اخلاقی حالت بہتر ہے تو اس کے پیغام کو منظور کرلو، ایسا نہ کروگے تو روئے زمین پر فتنہ و فساد برپا ہوجائے گا، لوگوںنے عرض کیا:یارسول اللہؐ! یعنی گرچہ اس میں کچھ ہو؟(یعنی وہ خاندانی اور مالی اعتبار سے کم تر ہو)آپ ﷺ نے فرمایا تم اس کے دین و اخلاق سے راضی ہو تو شادی کردو، یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی۔( سنن ترمذی 128/1،) حدیث حسن ہے دیکھئے (ارواء الغلیل 266/6)
آپ ﷺ نے جس فتنہ وفساد کی بات کہی تھی وہ محتاج بیان نہیں ہے ، ہرشخص
اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتاہے کہ دینداری کو نظر انداز کرکے دولت و ثروت ، مال و جمال، حسب و نسب، گھرانا اور خاندان کو معیار بنانے کا کیا نتیجہ ظاہر ہورہا ہے؟ کتنی برائیاں پھیل رہی ہیں؟کتنے فتنے جنم لے رہے ہیں؟اس معیار کی تلاش میں کتنے لڑکے لڑکیاں سسک سسک کر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں؟ اس خود تراشیدہ بت پر نہ جانے کتنی جوانیاں بھینٹ چڑھ چکی ہیں؟ اس کی وجہ سے کتنے سماجی مسائل و مشکلات پیدا ہورہے ہیں؟ بے سمتی، بے راہ روی اور بدکرداری کے کتنے واقعات ہورہے ہیں؟ آشنا کے ساتھ فرار، کورٹ میرج، غیرمسلموں سے شادی ،اسی درخت کے کڑوے کسیلے پھل ہیں، یہی وہ فساد ہے جس کی طرف مذکورہ بالا حدیث میں اشارہ کیاگیاہے۔
مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ جس کے دین و اخلاق سے تم راضی ہو اس سے رشتہ کرلو چاہے وہ کوئی بھی ہو۔( کائنا من کان. 153/6)
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
لاتزوجوا النساء لحسنھن فعسی حسنھن ان یردیھن ولا تزوجوھن لاموالھن فعسی اموالھن ان تطغیھن ولکن تزوجھن علی الدین والامۃ السوداء ذات دین افضل۔
عورتوں کے حسن و جمال کی بنیاد پر نکاح نہ کرو، ہوسکتاہے کہ ان کا حسن و جمال انھیں خرابی کی راہ پر ڈال دے اور نہ ہی مال و دولت کی وجہ سے شادی کرو کہ ہوسکتاہے کہ ان کامال انھیں سرکش بنادے بلکہ دین کی بنیاد پر نکاح کرو، کالی کلوٹی دیندار باندی [خوبصورت ،مالدار بددین عورت سے]بہت بہترہے۔( سنن ابن ماجہ، بزار، بیہقی ، نیل الاوطار 106/6)
اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا:
تنکح المرأۃ لاربع لمالھا ولحسبھا ولجمالھا
ولدینھا فاظفر بذات الدین تربت یداک۔
نکاح چار چیزوں کی وجہ سے کیاجاتاہے؛مال، حسب، خوبصورتی، دینداری۔ تم دینداری کوترجیح دے کر کامیابی حاصل کرو (اگرتم ایسانہ کروگے)تو تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں، تم ناکام و نامراد ہو۔(صحیح بخاری و مسلم وغیرہ ، دیکھئے سبل السلام 111/3۔ای وقع لک ذلک ان لم تفعل ورجحہ ابن العربی، نیل الاوطار 106/6)
محدثین لکھتے ہیں کہ آنحضور ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ لوگ شادی بیاہ میں عام طور پر انھیں چار چیزوں میں سے کسی ایک کو دیکھتے ہیں اور اسی بنیادپر رشتے طے کیے جاتے ہیں لیکن ایک مومن اور مسلم کے لیے مناسب ہے کہ ان میں سے آخری چیز یعنی دینداری کو پیش نظر رکھے کہ اسی میں دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے ، عورت دیندار ہوتو پھر شوہر کو اس کی عصمت و عفت کی طرف سے اطمینان ہوگا، بے اطمینانی کی فضا نہ ہوگی، شک و شبہ کی کیفیت پیدا نہ ہوگی، نیز بچوں پر بھی اچھا اثر پڑے گا، ان کی تعلیم و تربیت اور ذہن سازی میں اچھا کردار اداکرے گی اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتو اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، گردوپیش کے ماحول پر ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیاہے کہ تم میں سے ہرشخص کو چاہیے کہ ایماندار بیوی کو اپنائے کیونکہ وہ امور آخرت میں مددگار ہوتی ہے (’’لیتخذ احدکم زوجتہ مومنۃ تعین احدکم الی امر الآخرۃ‘‘.سنن ابن ماجہ 312/1 قال الالبانی الحدیث صحیح )
دینداری میں کفاءت کے متعلق اکثر فقہاء کا اتفاق ہے بلکہ امام مالک اور امام شافعی و احمد سے منقول ایک روایت کے مطابق کفاءت صرف دینداری میں ہے۔ (شرح السنۃ 9/9، فتح الباری 132/9، المغنی 48/6، بدایۃ المجتہد 26/2)
لہٰذا دیندار، نماز روزے کی پابند عورت کسی شرابی، جواری، فاسق و فاجر مرد کا کفو نہیں
ہوسکتی ہے لیکن علامہ ابن حزم کے نزدیک محض مومن و مسلم ہونا کافی ہے ۔ دینداری کفاءت کے لیے شرط نہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں:
والفاسق الذی بلغ غایۃ من الفسق المسلم ما لم یکن زانیا کفوا لمسلمۃ الفاضلۃ۔
فاسق مسلمان گرچہ وہ انتہائی درجہ کا فاسق ہو بشرطیکہ بدکار نہ ہو تو وہ فضل و تقویٰ والی عورت کا کفو ہوسکتاہے۔(المحلی 24/1)
امام محمد بھی اس خیال سے متفق ہیں کیونکہ دینداری کا تعلق آخرت سے ہے اور نکاح دنیاوی معاملہ ہے ، لہٰذا اس کے لیے دینداری میں برابری کا اعتبار نہیں ہے لیکن ان کے نزدیک بھی مرد کا کھلا ہوا فسق ایک دیندار عورت کا کفو ہونے میں مانع ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
الا اذا کان یصفح ویسخر منہ او یخرج الی الاسواق سکران ویلعب بہ الصبیان۔
لیکن اس کا مذاق اڑایا جاتا ہو، مدہوشی کے عالم میں بازار چلاجاتا ہو اور بچے اس سے کھیلتے ہوں تو وہ دیندار عورت کا کفو نہیں۔( الھدایہ 300/2)
دینداری میں کفاءت کے سلسلہ میں صرف لڑکی کی دینداری کا اعتبار ہے یا اس کے والدین اور گھرانے کو بھی دیکھاجائے گا؟ اس سلسلہ میں علامہ ابن نجیم مصری کا خیال ہے کہ عورت نیک ہو یا اس کا باپ ، دونوں میں سے کوئی ایک دیندار ہو تو فاسق اس کا کفو نہیں ہوسکتاہے۔(البحرالرائق 132/2)لیکن علامہ ابن عابدین شامی نے تفصیلی بحث کے بعد لکھا ہے کہ کفاءت میں اصل اعتبار دونوں کی حالت کا ہے ، جن لوگوں نے صرف ایک کی حالت کا اعتبار کیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر باپ دیندار ہوتو سمجھا جاتا ہے کہ بیٹی بھی نیک اور صالحہ ہوگی اور بیٹی پرہیزگار ہوتو اس بات کی دلیل ہے کہ گھرانا بھی دیندار ہے،
لیکن حقیقت کے اعتبار سے ایسانہ ہو یعنی باپ کی دینداری کا بیٹی پر کوئی چھاپ نہیں تو فاسق اس کا کفو ہوسکتاہے۔( لان ما یلحقہ من العار ببنتہ اکبرمن العار بصھرہ )ایسے ہی کسی دیندار لڑکی نے خود کو کسی فاسق کی زوجیت میں دے دیا تو فاسق باپ کو اعتراض کا حق نہ ہوگا( لانہ مثلہ وھی قدرضیت بہ . ردالمحتار 313/4)
صحیح العقیدہ:
دینداری کی طرح صحیح عقیدہ کا بھی کفاءت میں اعتبار ہے ، لہٰذا کوئی بدعقیدہ مرد کسی صحیح العقیدہ عورت کا کفو نہیں ہوسکتاہے، چنانچہ امام نووی شافعی لکھتے ہیں:
واذا لم یکن الفاسق کفوا للعفیفۃ فالمبتدع اولیٰ ان لا یکون کفوا.
جب فاسق ، پاکدامن عورت کا کفو نہیں ہوسکتاہے تو بدعتی تو بدرجہ اولیٰ کفو نہیں ہوگا۔(روضۃالطالبین 81/7)
اور ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
رہا بدعتی تو امام احمد نے جہمیوں کے متعلق کہاہے کہ کوئی اپنی لڑکی کی شادی ان میں کردیتاہے تو تفریق کرادی جائے گی، انھوں نے کہاکہ ان کی لڑکی کا رشتہ کسی ’’حروری‘‘ جو دین کے دائرے سے نکل چکاہے اور کسی رافضی اور قدری سے نہ کیاجائے، البتہ اگر یہ اپنے مذہب کی طرف دعوت نہ دیتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور قاضی کا خیال ہے کہ ان گمراہ فرقوں کے نسلی اور تقلیدی پیروکاروں سے نکاح درست ہے اور جو ان میں مبلغ ہوں اس سے درست نہیں۔(المغنی 486/6)
یہ حقیقت ہے کہ کسی دیندار اور صحیح عقیدہ لڑکی کی شادی بددین اور بدعقیدہ
گھرانے میں کرنا بڑی خرابیوں کا پیش خیمہ ہے ، یہ لڑکی پر ظلم ہے ہی ، شرعی اور دینی اعتبار سے بھی تباہ کن ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کا بطور خاص خیال رکھنا چاہیے، جن فقہاء نے دینداری کے علاوہ اور چیزوں کا بھی کفاءت میں اعتبار کیا ہے ان کے نزدیک بھی اصل اہمیت اسی کی ہے ۔ چنانچہ فقہ حنفی کے ترجمان علامہ کاسانی لکھتے ہیں:
وعندنا الافضل اعتبار الدین والاقتصار علیہ۔
ہمارے نزدیک افضل یہ ہے کہ دینداری کا اعتبار کیاجائے اور اسی پر اکتفا کیاجائے۔(البدائع 319/2)
لیکن اسے کیا کہا جائے کہ آج مسلمانوں میں یہی چیز سب سے زیادہ غیر اہم ہے، رشتہ نکاح طے کرتے ہوئے نہ دیکھنے اور پرکھنے کی کوئی چیز ہے تویہی دینداری۔
2- نسب و خاندان:
حضرت عمرؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، پانچویں خلیفہ راشد عمربن عبدالعزیز، مشہور اور جلیل القدر تابعی محمدبن سیرین، حسن بصری، ابن عون ، حماد بن ابی سلیمان، امام مالک ، بویطی کے نقل کے مطابق امام شافعی، ایک روایت کے مطابق امام احمد، امام کرخی حنفی ، ابوبکر جصاص رازی حنفی ، (علامہ نوح آفندی نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ سے کوئی روایت نہ ہوتی تو یہ دونوں بزرگ نسب میں عدم کفاءت کے قائل ہرگز نہ ہوتے، ) نزدیک دینداری کے علاوہ کسی اور چیز میں کفاءت اور برابر ی کا اعتبار نہیں ہے ، ابن حزم ظاہری کا بھی ہی نقطہ نظر ہے لیکن ان کے یہاں محض اسلام کافی ہے ،دینداری شرط نہیں۔(دیکھئے :شرح السنہ 9/9، فتح الباری 132/9، المغنی 48/6، المجموع 184/16،المغنی 18/6،المبسوط 24/5، رد المحتار 209/4،المحلی 26/1)
اس کے برخلاف امام ابوحنیفہ کے نزدیک نسب اور خاندان کے اعتبار سے بھی مرد کا عورت کے برابر یا اس سے برتر ہونا ضروری ہے ، امام شافعی کا مشہور قول بھی یہی ہے ، امام احمد سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے ۔
کفاءت فی النسب کے قائلین کے دلائل:
جو حضرات نسب وغیرہ میں کفاءت کے قائل ہیں ان کے دلائل یہ ہیں:
1- ارشادربانی ہے:
فلاتعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوا بینھم بالمعروف ۔
(پھر جب وہ عورتیں عدت بھی پوری کرچکیں)تو تم ان کو اس امر سے نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کرلیں جبکہ باہم سب رضامند ہوں قاعدہ کے مطاق ۔(البقرۃ :232)
علامہ ابن العربی مالکی نے اس آیت میں وارد لفظ ’’معروف‘‘ کے متعلق لکھا ہے کہ
اس سے مراد کفاءت ہے، کیونکہ آیت نازل ہوئی ہے ایسی شوہر دیدہ عورت کے متعلق جو اپنے معاملہ کی مالک تھی تو اس سے معلوم ہوا کہ آیت میں معروف سے مراد کفاءت ہے اور اس سے سرپرستوں کا ایک عظیم حق متعلق ہے ، کیونکہ کفاءت کا اعتبار نہ کرنے میں انھیں ننگ و عار میں مبتلا کرنا ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے( الآیۃ نزلت فی ثیب مالکۃ امرھا فدل علی ان المعروف بالآیۃ ھو الکفاءۃ وفیھا حق عظیم للاولیاء لما فی ترکھا ادخال العار علیھم وذلک اجماع من الامۃ۔احکام القرآن 201/1،)
2-رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
ان اللہ اصطفیٰ کنانۃ من ولد اسماعیل واصطفی من بنی کنانۃ قریشا واصطفی من قریش بنی ھاشم واصطفانی من بنی ھاشم۔
اللہ تعالیٰ نے اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے ’’کنانہ‘‘ کو منتخب کیا اور کنانہ کی اولاد میں سے قریش کو چنا اور قریش میں سے بنی ہاشم کاانتخاب فرمایا اور بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب کیا۔(صحیح مسلم 245/2)
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ انسانوں میں سے بعض کو دوسرے پر نسبی اعتبار سے فضیلت اور برتری حاصل ہے اور شریعت میں اس کا اعتبار کیاگیاہے۔ ’’اگر شرف نسب کوئی چیز نہ ہوتا تو حضور اقدسؐ اپنے فضائل میں اس کوکیوں بیان فرماتے۔‘‘( وصل السبب مع نہایات الارب/32)
3- حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا:
ثلاث لا توخر الصلوۃ اذا اتت، والجنازۃ اذا حضرت، والایم اذا وجدت لھا کفوا۔
تین چیزوں میں تاخیر نہیں کرناچاہیے جب نماز کا وقت ہوجائے، جنازہ جب آئے ، غیرشادی شدہ لڑکی کے لیے کفو میں رشتہ مل جائے۔(ترمذی 127/1، باب ماجاء فی تعجیل الجنازۃ)
اس حدیث کے متعلق امام ترمذی کا خیال ہے کہ اس کی سند متصل نہیں کیونکہ عمربن علی کا اپنے والد علی بن ابی طالب سے سماع ثابت نہیں، لیکن مشہور ناقد حدیث ابوحاتم کو اس سے اتفاق نہیں، وہ کہتے ہیں کہ سماع ثابت ہے، بعض لوگوں نے حدیث کے ایک راوی سعید بن عبداللہ پر کلام کیاہے ، تاہم ابن حبان نے انھیں ثقہ قرار دیاہے(الفتح الربانی 99/7) اسی لیے حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیاہے، امام ذہبی نے بھی اس کی تائید کی ہے اور امام سیوطی نے حسن کہاہے(اعلاء السنن 75/11)واضح رہے کہ امام حاکم نے سعید بن عبداللہ کی جگہ سعید بن عبدالرحمن لکھا ہے اور اسی بنیاد پر حدیث کو صحیح قرار دیاہے ، حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا کہ یہ حاکم کی فاش غلطی ہے۔(دیکھئے فیض القدیر 30/3) اس لئے حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے اس کی سند کو ضعیف قراردیاہے ۔(الدرایہ 63/2)
4- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشادہے:
تخیروا لنطفکم وانکحوا الاکفاء وانکحوا الیھم۔
اپنے نطفہ کے لیے بہترین رشتہ کا انتخاب کرو اور کفو میں شادی بیاہ کا تعلق رکھو۔
اس حدیث کو ابن ماجہ اور بیہقی وغیرہ نے روایت کی ہے اور حاکم نے کہا ہے کہ حدیث صحیح ہے.(اعلاء السنن75/11 )علامہ سخاوی نے کہاہے کہ اس حدیث کا مدار ضعیف راویوں پر ہے لیکن حدیث حسن ہے.(المقاصد الحسنۃ /155) علامہ بغوی کا بھی یہی خیال ہے .(فتح القدیر186/3) سیوطی نے بھی اس کی تصحیح کی ہے .( اعلاء السنن 75/11) امام نووی نے کہاہے کہ حدیث کے ہر سند پر کلام ہے لیکن متعدد سندوں کی وجہ سے حدیث قوی ہوجاتی ہے۔ (المجموع183/16)، البانی نے بھی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔(دیکھئے تعلیق الالبانی علی ابن ماجہ 333/1)
لیکن علامہ ابن جوزی نے اس حدیث کے تمام سندوں پر تفصیلی کلام کے بعد لکھا ہے کہ حدیث لائق قبول نہیں ہے ، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت عائشہؓ سے چار سندوں سے مروی ہے ، پہلی سند میں ایک راوی حارث بن عمران ہے جس کے متعلق ’’دارقطنی‘‘ نے کہا کہ ضعیف ہے، ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ شخص ’’ثقہ‘‘ لوگوں کی طرف نسبت کرکے حدیث گھڑا کرتا تھا، دوسری سند میں ایک راوی صالح بن موسیٰ ہے جس کے متعلق امام نسائی نے کہاکہ ’’متروک الحدیث‘‘ ہے ، مشہور ناقد حدیث یحییٰ کا خیال ہے کہ اس کی حدیث کچھ بھی نہیں ہے ، تیسری سند کے ایک راوی ابوامیہ بن یعلی کے متعلق یحییٰ کا بیان ہے کہ وہ ’’متروک الحدیث‘‘ ہے ، اس کی حدیث کچھ بھی نہیں، چوتھی سند کے ایک راوی عیسیٰ بن میمون کے بارے میں ابن حبان کہتے ہیں کہ منکرالحدیث ہے، اس کی روایت قابل استدلال نہیں ہے ، یہ حدیث مرسلاً بھی منقول ہے، یعنی حضرت عروہ براہ راست آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں حالانکہ وہ صحابی نہیں ہیں، اس سند سے یہ حدیث درستگی کے قریب ہے ’’وھو اشبہ بالصواب‘‘ ابن ابی حاتم نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ اس کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے ، اسے حارث بن عمران نے روایت کی ہے ، یہ شخص واہی تباہی روایت کرنے والا اور ضعیف ہے ، اس لیے یہ حدیث قابل ترک ہے۔(العلل المتناھیہ 122/2-126)
5- لاتنکحوا النساء الا الاکفاء ولایزوجن الا الاولیاء ولامھر دون عشرۃ دراھم.
کفو ہی میں عورتوں کی شادی کرو اور سرپرست ہی ان کا رشتہ طے کریں اور دس درہم سے کم مہر نہیں ہے ۔(دارقطنی /2و3، بیہقی 133/7، مسند ابویعلی 413/2)
یہ حدیث حضرت جابر بن عبداللہ کے واسطے سے مروی ہے لیکن اس کے ایک راوی مبشربن عبید پر محدثین نے بڑی سخت جرحیں کی ہیں، چنانچہ امام احمدبن حنبل کا بیان ہے کہ اس کی حدیثیں من گھڑت اور جھوٹی ہیں، ابن عدی فرماتے ہیں کہ پکا جھوٹا ہے، حدیث گھڑا کرتا تھا (’’کذاب یضع الحدیث‘‘) امام بخاری نے کہاکہ’’منکر الحدیث‘‘ ہے. ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ شخص ثقہ لوگوں کی طرف نسبت کرکے موضوع اور من گھڑت حدیث بیان کرتاتھا، اس کی احادیث کو لکھنا جائز نہیں مگریہ کہ اظہار تعجب کے لیے ہو. دارقطنی نے کہاکہ یہ شخص متروک الحدیث ہے ، اس کی احادیث کا کوئی متابع نہیں ہے ۔(دیکھئے الضعفاء للعقیلی/226، الآلی المصنوعہ 165/2، نصب الرایہ 196/3) انہی جرحوں کی وجہ سے علامہ ابن حجر عسقلانی نے کہاکہ اس کی سند بالکل کمزور ہے۔(الدرایہ 62/2)
6- حضرت معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : عرب آپس میں ایک دوسر ے کے کفو ہیں اور ایسے ہی غیر عرب آپس میں کفو ہیں۔
( العرب بعضھم اکفاء بعض والموالی بعضھم اکفاء بعض۔ کشف الاستار عن زوائد البزار 160/2)
یہ حدیث دو وجہوں سے ضعیف ہے ، ایک یہ کہ سلیمان بن ابی جون مجہول راوی ہے، کچھ اتاپتا نہیں کہ یہ کون ہے ، دوسری خرابی یہ ہے کہ خالد بن معدان کا سماع حضرت معاذ بن جبل سے ثابت نہیں۔ لہٰذا حدیث منقطع بھی ہے ۔(نصب الرایہ 198/3، نیل الاوطار 129/6)
7- حضرت عمربن خطاب ؓ فرماتے ہیں کہ میں’’حسب‘‘ والی عورتوں کو کفو کے سوا کسی اور سے نکاح کرنے سے روک دوں گا۔(معرفۃ السنن 64/10، السنن الکبری 133/7، مصنف عبدالرزاق 152/6، ابن ابی شیبہ 418/4، الدارقطنی /415)
عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، بیہقی اور دارقطنی وغیرہ نے یہ حدیث روایت کی ہے اور دارقطنی نے یہ وضاحت کردی ہے کہ حدیث کی سند منقطع ہے ،کیونکہ حضرت عمر سے روایت کرنے والے ابراہم بن محمد نے ان کا زمانہ نہیں پایا ہے ، گویا کہ درمیان کی کڑی غائب ہے ۔(ارواء الغلیل 265/6)
اس روایت میں ’’حسب‘‘ سے مراد نسب ہے ، ’’حساب‘‘بمعنی شمار کرنا سے ماخوذ ہے چونکہ عرب تفاخر کے وقت نسبی خوبیوں کو گنایا کرتے تھے اس لیے نسب کو ’’حسب‘‘ بھی کہا جانے لگا، بعض احادیث میں مال کو حسب کہا گیا ہے ’’الحسب المال‘‘(احمد، ترمذی، وصححہ حاکم ، نیل الاوطار 129/6) تو اس سے مراد یہ نہیں کہ اصل مفہوم ہی کے اعتبار سے مال کو حسب کہا جاتا ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ جن لوگوں کو نسبی شرف حاصل نہیں ہے ان کے لئے مال ہی نسب
بن جاتاہے ، مالداری شرافت نسبی کی کمی کو پورا کردیتی ہے ۔(انہ حسب من لا حسب لہ فیقوم النسب الشریف لصاحبہ المال لمن لا نسب لہ ۔فتح الباری 135/9) یا یہ کہ دنیا والوں کی نگاہ میں اصل اہمیت مال کی ہے ، ان کی نظر میں مال ہی معیار شرافت ہے، مال ہی نسب و خاندان کے قائم مقام ہے ، مالدار عزیز ہے چاہے اس کے اعمال و اخلاق کیسے ہوں، نادار ذلیل ہے گرچہ وہ متقی اور پرہیز گار ہی کیوں نہ ہو۔(الفتح الربانی 164/15، نیل الاوطار 129/6) غرضیکہ اصل معنی کے اعتبار سے حسب نسب کے لیے آتاہے۔
8- ایک موقع پر حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا تھا : عرب کے لوگو! ہم تمہیں افضل سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے تمہیں افضل قرار دیاہے، ہم نہ تو تمہاری عورتوں سے نکاح کرسکتے ہیں اور نہ تمہاری امامت کرسکتے ہیں۔
( نفضلکم یا معشرالعرب لتفضیل رسول اللہ ﷺ ایاکم لاننکح نساء کم ولا نؤمکم۔)
علامہ ابن تیمیہ نے اس حدیث کو ’’بزار‘‘ کے حوالے سے لکھاہے اور کہا ہے کہ اس کی سند جید ہے ۔(اقتضاء صراط المستقیم لابن تیمیہ /158) عبدالرزاق اور ابن ابی شیبہ نے بھی اس حدیث کی تخریج کی ہے اور بیہقی نے لکھا ہے کہ حضرت سلمان کے قول کی حیثیت سے یہ روایت محفوظ ہے۔(مصنف ابن بی شیبہ 419/4، عبدالرزاق 154/6، السنن الکبری 134/7)
9- غیر برادری اور غیر کفو میں نکاح کا پائیدار اور خوشگوار رہنا مشکل ہے، کیونکہ نسب وغیرہ کی برتری ایک فخریہ چیز ہے ، لوگ اس پر فخر کرتے ہیں اور کمتر نسب وغیرہ کو باعث ننگ و عار سمجھا جاتا ہے ، کوئی عورت اپنے سے کم تر درجے کے مرد کے ماتحتی کو پسند نہیں کرتی ہے ، ایسے ہی
سرپرست بھی اسے انگیز کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں، کوئی عورت غیر برادری میں شادی کرلے تو وہ ان کے ماتھے کا کلنک بن جاتاہے اور یہ چیز انسانی فطرت میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اسے ختم کرنا دشوار ہے۔
اور ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے مقاصد نکاح پر بڑا خراب اثر پڑے گا، باہمی الفت و محبت ، خلوص و یکانگت کی وہ فضا قائم نہ ہوسکے گی جو نکاح سے مطلوب ہے بلکہ اس رشتہ کا برقرار رہنا ہی مشکل ہے۔(دیکھئے المبسوط 23/5 البدائع 315/2)
10- اللہ کے رسول ﷺ نے بعض صحابیات کو غیر عرب سے شادی کرنے کا حکم دینے یا صحابہ کرام کا غیر عرب میں اپنی لڑکیوں کا نکاح کرنے سے مسئلہ کفاءت کی نفی نہیں ہوتی ہے کیونکہ کفاءت کا اعتبار کرنا کوئی لازمی اور ضروری نہیں ہے ، نکاح کی صحت اور جواز اس پر موقوف نہیں۔ بلکہ یہ عورت اور اولیاء کا حق ہے ، اگروہ خود ہی راضی ہوں اور اپنے حق سے دست بردار ہوجائیں تو کوئی قباحت نہیں اور ظاہر ہے کہ آنحضور ﷺ کے حکم کے بعد کون رضامند نہیں ہوگا؟ ابن حجر عسقلانی اس جواب کے متعلق کہتے ہیں کہ صحیح جواب ہے ، اگر نسبی کفاء مت کی بنیاد ثابت ہوجائے (وھو جواب صحیح ان ثبت اصل الکفاء ۃ فی النسب .فتح الباری 135/9)
ما نعین کے دلائل:
1- کفاءت کی پوری عمارت نسلی برتری، پیشہ ورانہ تفوق اور فخر پر قائم ہے، چنانچہ کسی بھی مسلک کی فقہی کتاب اٹھاکر دیکھئے، اس طرح کی عبارتیں لکھی ہوئی ملیں گی۔
الف-الکفاء ۃ تعتبر فی النسب لانہ یقع بہ التفاخر۔
ب-لأن التفاخر فیما بین الموالی بالاسلام۔
ج-لأنھم یتفاخرون بالغنی ویتعیرون بالفقر
د-ان الناس یتفاخرون بشرف الحرف ویتعیرون بدنائتھا۔(الہدایہ 300/2)
ہ-لان ذلک معدود نقصا فی عرف الناس یتفاضلون فیہ کتفاضلھم فی النسب۔( المغنی 484/6)
و-فان مفاخر الآباء ومثابھم ھی التی یدور علیھا امر النسب (روضۃالطالبین 87/7)
حالانکہ اسلام کی پوری عمارت ’’مساوات اور برابری‘‘ پر قائم ہے ، وہ نسلی برتری کو شہ دینے کے بجائے مٹانے کی کوشش کرتاہے، وہ اونچ نیچ اور ذات پات کی مخالفت اور مذمت کرتاہے، یہاں کسی کو نسب اور پیشہ وغیرہ کی بنیاد پر ذلیل اور کمتر سمجھنے کی گنجائش نہیں، سب ایک باپ کی اولاد ہیں ، ان میں کوئی برتر اور کمتر نہیں، قرآن کا یہی درس ہے ، یہی پیغام نبوت ہے اور صحابہ کی زندگیوں میں اسی کا عکس ملتاہے۔
واضح رہے کہ اس طرح کی عبارتیں بعد کے فقہاء کے یہاں ملتی ہیں، ائمہ مذاہب یعنی امام ابوحنیفہ اور ان کے رفقاء اور امام شافعی وغیرہ کے یہاں اس طرح کی کوئی بات نہیں ملتی ہے ، اس سے اندازہ ہوتاہے کہ نسلی برتری اور تفوق کا تصور بہت بعد کی پیداوار ہے ، ائمہ نے اگر کفاءت کا اعتبار کیا ہے تو وہ مماثلت اور میچنگ کے مفہوم میں ہے لیکن بعد کے لوگوں نے اس سے برتر اور کمتر کے تصور کو اس طرح سے جوڑ دیا ہے کہ اسے الگ کرنا دشوار ہے۔
2- خالق کائنات کا ارشادہے:
یاایھا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثی و جعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ۔
لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور پھر مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں وہی زیادہ معزز ہے جو صاحب تقویٰ اور پرہیزگار ہو۔(سورۃ الحجرات/13)
یعنی انسانوں کے درمیان خاندانی اور قبائلی تقسیم کی وجہ محض ’’تعارف‘‘ ہے تفاضل نہیں ہے ، اللہ کی نگاہ میں نسبی اعتبار سے کوئی ادنی اور اعلیٰ نہیں ہے بلکہ سب برابر ہیں،کیونکہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں، گر کسی کو برتری حاصل ہوگی تو محض تقویٰ اور خوف خداوندی کی وجہ سے ، اس کے علاوہ کوئی چیز باعث فوقیت نہیں ہے ۔
یہ آیت نسبی کفاءت کی بنیاد ہی کو منہدم کردیتی ہے کیونکہ نسبی اونچ نیچ کی تردید ہی کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے ، چنانچہ امام زہری کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے قبیلہ بنو بیاضہ کو حکم دیاکہ وہ ابو ہند سے نکاح کا تعلق قائم کریں (واضح رہے کہ ابو ہند آزاد کردہ غلام تھے اور سینگی لگانے کا کام کرتے تھے)تو انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اپنی بیٹیوں کو غلاموں کے نکاح میں دے دیں(’’نزوج بناتنا موالینا‘‘ )اس موقع پر مذکورہ آیت نازل ہوئی۔(رواہ ابوداؤد فی المراسیل وسکت عنہ ، اعلاء السنن 777/11، نیز معرفۃ السنن 66/1، الدر المنثور 579/7)
حضرت زینب آنحضور ﷺ کی پھوپھی زادبہن اور قریش کے اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان کا نکاح حضرت زیدبن حارثہ سے کرنا چاہا جو بظاہر داغ غلامی اٹھاکر آزاد ہوئے تھے لیکن نسبی تفریق کی وجہ سے وہ اور ان کے بھائی اس رشتہ کے لیے آمادہ نہ تھے ، چنانچہ حضرت زینب نے رسول کریم ﷺ سے دکھ بھرے لہجے میں
کہا: آپ اپنی پھوپھی زاد بہن کا رشتہ آزاد کردہ غلام سے کرنا چاہتے ہیں؟( تتزوج ابن عمتک مولاک؟ السنن الکبری 136/7) لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو منظور تھا کہ اس طرح کے موہوم امتیازات و تفریقات نکاح کی راہ میں حائل نہ ہوں اس لیے آپ ﷺ نے پرزور انداز میں اس رشتہ کو قبول کرنے کا حکم دیا اور اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔
وما کان لمؤمن ولامؤمنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعصی اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالاً مبینا.
کسی ایماندار مردوعورت کے لیے اللہ اور اسکے رسول کا حکم آجانے کے بعد کوئی اختیار نہیں رہ جاتاہے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی بات نہ مانے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں جا پڑے گا۔(سورۃ الاحزاب/36)
علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
فی ھذہ الآیۃ دلیل بل نص فی ان الکفاءۃ لاتعتبر فی الاحساب وانما تعتبر فی الادیان۔
اس آیت میں دلیل بلکہ صراحت ہے کہ نسب میں کفاءت کا اعتبار نہیں ہے بلکہ صرف دینداری میں کفاءت معتبر ہے۔(الجامع لاحکام القرآن 187/17)
3- نکاح میں نسبی کفاءت کے معتبر نہ ہونے پر امام بخاری نے اس آیت سے استدلال کیا ہے۔
وھو الذی خلق من الماء بشرا فجعلہ نسبا وصھرا وکان ربک قدیرا۔
اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے اور تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔(الفرقان :54)
بعض لوگوں نے نسبی کفاءت کے غیر معتبر ہونے پر قرآن حکیم کے درج ذیل آیتوں سے بھی استدلال کیاہے:
4- المومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض۔
مومن مردوعورت آپس میں ایک دوسرے کے قریبی ہیں۔(سورۃ التوبہ:71)
5- انما المومنون اخوۃ۔
تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں۔(سورۃ الحجرات:10)
اور واقعہ ہے کہ یہ تسلیم کرلینے کے بعد کہ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، سب آپس میں بھائی بھائی ہیں نسبی اونچ نیچ کی بنیاد ہی منہدم ہوجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس تفریق کو ختم کرنے کے لیے قرآن حکیم اور احادیث رسول ﷺ میں انسان کو اپنی حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
پیغام نبوی ﷺ:
6- رسول مقبول ﷺ کا ارشادہے:
ان اللہ اذھب نخوۃ الجاھلیۃ وتکبرھا باباءھا ، کلکم لآدم وحوا، کطف الصاع بالصاع وان اکرمکم عند اللہ اتقاکم فمن اتاکم ترضون دینہ وامانتہ فزوجوہ.
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جاہلی نخوت اور آباء واجداد کے ذریعہ بڑائی کے اظہار کو مٹا دیا ہے، تم سب آدم و حوا کی اولاد ہو، تم سب ایک ہی پیمانے سے ناپے ہوئے ہو اور اللہ کے نزدیک معزز وہی ہے جو صاحب
تقویٰ ہو، لہٰذا ایسا شخص تمہارے پاس نکاح کا پیغام لے کر آئے جس کے دین و ایمان سے تم راضی ہو تو اس سے نکاح کردو۔(اخرجہ البیہقی عن ابی امامۃ ۔ الدرالمنثور 579/7)
7- حضرت عقبہ بن عامر، رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
انسابکم ھذہ لیست بمسبۃ علی احد، کلکم بنوآدم طف الصاع بالصاع لم تملوا لیس لاحد علی احد فضل الا بدین و تقویٰ
تمہارے یہ انساب کسی عیب یا گالی کا ذریعہ نہیں ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو ایک ہی پیمانے سے ناپے ہوئے ہو، کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں دینداری اور تقویٰ ہو۔(مشکاۃ المصابیح 1375/3حدیث صحیح ہے ، دیکھئے تعلیق الالبانی علی المشکاۃ)
8- حضرت ابوہریرہ نقل کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لینتھین اقوام یفتخرون بآباء ھم الذین ماتوا انما ھم فحم من جھنم او لیکونن اھون علی اللہ من الجعل الذی یدھد الخراء بانفہ ان اللہ قد اذھب عنکم عبیۃ الجاھلیۃ وفخرھا بالآباء انما ھو مومن تقی او فاجر شقی کلکم بنو آدم و آدم من تراب۔
لوگ مرے ہوئے باپ دادا پر فخر کرنے سے باز آجائیں، وہ تو جہنم کا کوئلہ ہیں ورنہ اللہ کی نگاہ میں گبریلا سے بھی حقیر ہوجائیں گے، اللہ نے تم سے جاہلی نخوت اور باپ و دادا پر فخر کو مٹادیا ہے ، انسان یا تو پرہیز گار مومن ہے یا بدبخت کافر، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔(حوالہ مذکور1373/3 البانی نے کہاکہ حدیث حسن ہے۔)
9- آنحضرت ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے : لافضل لعربی علی عجمی الا بالتقویٰ.
کسی عربی کو غیر عربی پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کی وجہ سے۔(رواہ احمد و رجالہ رجال الصحیح، مجمع الزوائد366/3)
10- یہی بات آپ ﷺ نے واشگاف انداز میں آخری حج کے موقع پر لاکھوں کے مجمع میں ارشادفرمائی :
یاایھا الناس الا ان ربکم واحد وان اباکم واحد لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا لاسود علی احمر الا بالتقویٰ ، الناس من آدم وآدم من تراب ۔
لوگو! خبردار رہو، تمہارا رب ایک ہے ، تم سب ایک باپ کی اولاد ہو، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، گورے کو کالے پر، کالے کو گورے پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں تقویٰ ہو، تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے۔(اخرجہ ابن مردویہ والبیہقی عن جامر، الدرالمنثور 579/7)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نسلی برتری اور کمتری، نسبی اونچ نیچ کو مٹانے کے لیے آیا ہے، رنگ و نسل کی وجہ سے انسانوں کو مختلف خانوں میں بانٹنا اسے گوارا نہیں ہے، کسی خاندان میں پیدا ہونا نہ برتری کی دلیل ہے اور نہ ہی باعث ننگ و عار اور گالی، اور ایسا کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ اصل کے اعتبار سے تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔ اگر کسی قوم میں اونچ نیچ کا تصور پایاجاتا ہے تو پھر اس کا کیا انجام ہوگا اسے بھی زبان رسالت علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے سنتے چلئے رازدار رسول ﷺ حضرت ابوحذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
11- کلکم بنو آدم و آدم من تراب لینتھین اقوام یفخرون بآباء ھم او لیکونن اھون علی اللہ من الجعلان.
تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے، ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے باپ، دادا پر فخر کرنے سے باز آجائے ورنہ اللہ کی نگاہ میں وہ نجاست کے کیڑوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوجائے گا۔(کشف الاستار 234/2، حدیث 2043، قال الھیثمی فیہ الحسن بن الحسین وھو ضعیف ، مجمع الزوائد 86/8)
نسلی برتری کے احساس کی وجہ سے ایک قوم دوسری قوم سے بالکل کٹ کررہ جاتی ہے ، مذہبی بنیاد پربھی انھیں ہم رشتہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے، کسی صورت میں بھی ان میں یکتائی مشکل ہوجاتی ہے اور بات یہیں جاکر نہیں رکتی بلکہ ان برتر قوموں میں بھی اسی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوجاتاہے اور وہ قوم مختلف خانوں میں بٹ کر اپنی اجتماعی طاقت کو ختم کردیتی ہے اور ملت میں گم ہونے کے بجائے خود ہی میں کھو جاتی ہے اور اس کا جو نتیجہ نکلے گا وہ محتاج بیان نہیں ہے ، یقینا ایسی قوم کو یہی حیثیت ہوگی کہ جو چاہے گا اسے پیروں تلے مسل دے گا، حدیث میں اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ نجاست کے کیڑوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوجائے گا۔
12- یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ عربوں میں اسلام سے پہلے کفاءت نسبی کا شدید اہتمام کیا جاتا تھا، چنانچہ علامہ عینی لکھتے ہیں :
قدنسخ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ما کانت تحکم بہ العرب فی الجاھلیۃ من شرف الانساب بشرف الصلاح فی الدین فقال ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم.
زمانہ جاہلیت میں عرب شرافت نسبی کے قائل تھے، اللہ تعالیٰ نے اس کی جگہ دینداری کو معیار قرار دے کر اسے ختم کردیا چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ معزز وہ ہے جو صاحب تقویٰ ہو۔(عمدۃ القاری 377/9)
بلکہ غیر عرب قوموں میں بھی طبقاتی تقسیم کا وجود پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے اور یہ چیز ان کے ذہنوں میں اس طرح رچ بس گئی تھی کہ گویا فطرت ثانیہ بن چکی تھی اور محض کسی قانون کی بنیادپر اسے ختم کرنا دشوار تھا اس لیے ہادیٔ عالم ﷺ نے چاہا کہ قانون کے ساتھ عملی نمونہ کے ذریعہ اس غلط تصور کو مٹایا جائے ، چنانچہ آپ ﷺ نے زور دے کر اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب کی شادی آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ سے کرائی، حالانکہ اسی سماجی اونچ نیچ کے پیش نظر وہ اور ان کے گھر والے اس رشتہ کے لیے آمادہ نہ تھے۔ رہا یہ خیال کہ نسبی ناہمواری ہی کی وجہ سے حضرت زینب اور زید کا رشتہ برقرار نہ رہ سکا درست نہیں ہے کیونکہ خود قرآن کے بیان کے مطابق طلاق اور اس کے بعد آنحضور ﷺ سے زینب کا نکاح کی وجہ سے زمانہ جاہلیت کے ایک رسم بد کا خاتمہ تھا کہ وہ منھ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کو اسی طرح حرام سمجھتے تھے جیسے کہ حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے، اس بری رسم کو ختم کرنے کے لیے طلاق کے بعد بحکم خداوندی آنحضور ﷺ نے حضرت زینب سے نکاح کیا تاکہ مسلمانوں کے لیے اس طرح کے نکاح میں کوئی عار اور تنگی نہ رہے۔( لکی لایکون علی المومنین حرج۔ سورۃ الاحزاب :37)
اگراس طلاق کی وجہ نسبی ناہمواری ہوتی تو ایک عورت کو تجربہ کے بھینٹ چڑھا دینے کے بعد کسی دوسری قریشی عورت کی شادی حضرت زید سے نہ کی جاتی حالانکہ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ حضرت زینب کے بعد خاندان قریش کی تین عورتیں یکے بعد دیگرے حضرت زید کے نکاح میں آئیں۔(الاصابہ 564/1)
اسی طرح سے آپ ﷺ نے اپنی چچا زاد بہن ضباعہ بنت زبیر کا نکاح حضرت مقداد بن اسود سے کیا، جن کا تعلق خاندان قریش سے نہ تھا اور ان کا خاندان کپڑا کی بنائی میں مشہور تھا، اس کے علاوہ وہ قیدی بھی بنائے جاچکے تھے ، اس موقع پر آنحضور نے ارشاد فرمایا کہ میں نے زید کا نکاح زینب سے اور مقداد کا نکاح ضباعہ سے اس لیے کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ سب سے بڑا شرف اسلام کا شرف ہے۔ (لیعلموا ان اشرف الشرف الاسلام۔ سنن سعید بن منصور/146، مصنف عبدالرزاق 153/6 اور سنن کبریٰ 137/7، کے الفاظ یہ ہیں لیکون اشرفکم عند اللہ احسنکم اخلاقاً)
فاطمہ بنت قیس ایک قریشی خاتون تھیں، حضرت معاویہ اور عبدالرحمن بن عوف جیسے لوگ انھیں شادی کا پیغام دے چکے تھے لیکن اللہ کے رسول ﷺ کی خواہش تھی کہ وہ حضرت اسامہ کے رشتہ کو منظور کرلیں، حضرت اسامہ بن زید غلام زادے ہی نہیں بلکہ کنیز زادے بھی تھے، اس کے ساتھ ہی بالکل کالے کلوٹے اس لیے حضرت فاطمہ اس رشتہ کے لیے آمادہ نہ ہوئیں اور خدمت اقدس ﷺ میں حاضر ہوکر اظہار ناگواری کرتے ہوئے کہا: میں اسامہ جیسے سے نکاح کرلوں، رسول مقبول ﷺ نے یہ سن کر فرمایا : تمہارے لیے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی میں بہتری ہے ، یہ سن کر وہ نکاح کے لیے راضی ہوگئیں اور کہتی ہیں کہ شادی کے بعد ہمارے ازدواجی زندگی اس قدر کامیاب گذری کہ میں دوسری عورتوں کے لیے باعث رشک بن گئی۔(…لکن اسامۃ بن زید فقالت بیدھا ھکذا اسامۃ اسامۃ فقال لھا رسول اللہ ﷺ طاعۃ اللہ ورسولہ خیر لک رواہ مسلم وفی روایۃ لہ…انکحی اسامۃ فکرھتہ ثم قال انکحی اسامۃ فنکحتہ فجعل اللہ فیہ خیرا واغتبطت . صحیح مسلم 484/1)
غور کیجئے کس قدر نسبی تفاوت ہے ، کہاں حضرت فاطمہ اور کہاں حضرت اسامہ؟ لیکن اس نسبی ناہمواری کے باوجود یہ رشتہ اتنا خوشگوار اور پائیدار رہا کہ دوسروں کے لیے قابل رشک بن گیا۔ ابوہند نامی صحابی قبیلہ بنو بیاضہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور پچنا لگانے(جسم سے فاسد خون نکالنے) کاکام کرتے تھے جو بظاہر ایک گرا ہوا کام ہے، آنحضور ﷺ نے بنوبیاضہ کو حکم دیاکہ وہ ابوہند سے شادی بیاہ کا تعلق رکھیں (انکحو اباھند وانکحوا الیہ،رواہ ابوداؤدوقال الحافظ فی التلخیص اسنادہ حسن وفی بلوغ المرام اسنادہ جید، دیکھئے عون المعبود 131/6، سبل السلام 130/2) مگر نسبی ناہمواری کے تصور سے وہ لوگ اس کے لیے آمادہ نہ ہوئے تو اس موقع سے ’’یاایھا الناس انا خلقنا من ذکر و انثی‘‘نازل ہوئی جس نے اونچ نیچ کے تصور کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ایک انصاری خاندان میں پیغام نکاح دیا جسے ان لوگوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ایک کالے کلوٹے غلام سے رشتہ کریں، حضرت بلال نے کہا مجھے اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دے کر تمہارے پاس بھیجا ہے، اگر آپ نہ کہتے تو میں ہرگز نہ آتا، انھوں نے کہاکہ نبی اکرم ﷺ نے تمہیں بھیجا ہے تو ہمیں یہ رشتہ منظور ہے۔ (رواہ ابوداؤد فی المراسیل وسکت عنہ ، اعلاء السنن 77/11) اس سلسلہ کی بعض روایتوں میں ہے کہ جب انھوں نے حضرت بلال کے پیغام کو نامنظور کردیا تو رسول مقبول ﷺ یہ کہہ کر دوبارہ بھیجا:
’’قل لھم ان رسول اللہ ﷺ یامرکم ان تزوجونی ‘‘۔
جاؤ ان سے کہہ دو کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں اس رشتہ کے لیے حکم دے رہے ہیں (الفقہ الاسلامی وادلتہ 231/7)
بلکہ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ ﷺ نے ان کے انکار پر خاصی برہمی کا اظہار فرمایا۔(الجامع لاحکام القرآن 247/16) اس طرح کا واقعہ بعض کتابوں میں حضرت صہیب رومی کے متعلق بھی منقول ہے۔(دیکھئے سنن سعید بن منصور /147)
ان روایتوں میں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ کفاءت عورت یا اس کے سرپرستوں کا حق ہوتا تو آنحضور ﷺ انھیں نکاح کا حکم نہ دیتے اور ناپسندیدگی کے باوجود
رشتہ کے لیے دباؤ نہ ڈالتے، زیادہ سے زیادہ مشورہ دینے پر اکتفا کرتے جیساکہ حضرت بریرہ کے واقعہ میں ہواکہ جب انھوں نے آزادی کے بعد ’’حق فسخ‘‘ کو اختیار کرکے اپنے شوہر سے علاحدہ ہونا چاہا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کاش تم اس تعلق کو باقی رکھتی۔ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے حکم دیتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ میں تو صرف سفارش کررہاہوں۔ (اخرجہ البخاری وابوداؤدوغیرھما ۔ الارواء 277/6) کیا وجہ ہے کہ جب حضرت بریرہ نے اپنے حق آزادی کو استعمال کرکے ایک رشتہ کو توڑنا چاہا تو آپ ﷺ نے صرف مشورہ دیا اور اس کے برخلاف متعدد صحابیات اور ان کے سرپرستوں نے اپنے حق کفاءت کو استعمال کر کے یک نئے رشتہ سے انکار کیا تو آپ ﷺ نے ناراضگی اور ناگواری کا اظہار فرمایا اور حکماً اس رشتہ کو منظور کروایا۔ کیا یہ واضح اشارہ نہیں ہے کہ اسلام میں ذات و برادری کے اعتبار سے برتر اور کمتر کے تصور کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی اس اعتبار سے رشتۂ نکاح قائم کرنے کی کوئی قانونی اور شرعی حیثیت ہے۔
صحابہ کرام کا طرز عمل:
قرآن حکیم کے ارشادات اور سنت کی رہنمائی میں جو قوم اور ملت تیار ہوئی وہ پوری انسانیت کے لیے نمونہ اور آئیڈیل بن گئی، وہ آسمانی ہدایت کے تابندہ ستارے ہیں جن سے زندگی کی شب تاریک میں رہنمائی ملتی ہے ، وہ چراغ راہ ہیں جن کی روشنی میں منزل تک پہنچنا یقینی ہے ، ان کی حیثیت زندگی کے پر خطر سمندر میں سفینۂ نجات کی ہے ، آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ میں ہماری کیارہنمائی کرتے ہیں۔
13- امت محمدیہ ﷺ کا اتفاق ہے کہ انبیاء کے بعد سب سے افضل ابوبکرؓ ہیں ، انھوں نے اپنی بہن ام فروہ کا نکاح قبیلہ کندہ کے ایک شخص اشعث بن قیس سے کیا، یہ قبیلہ کپڑا بننے میں بڑا مشہور تھا، حضرت علیؓ انھیں ’’حائک بن حائک‘‘کہا کرتے تھے لیکن
ان سب کے باوجود ان کا رشتہ صدیق اکبر کی بہن سے طے پاتاہے.(دیکھئے المعجم الکبیر للطبرانی 208/1، اسنادہ صحیح، نیز مجمع الزوائد 415/9) ایسے ہی ان کی دوسری بہن قریبہ کا نکاح قیس بن سعدبن عبادہ انصاری سے ہوا۔(التجرید للذھبی 314/2)
14- دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ میں شادی بیاہ میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ کس طرح کے مسلمانوں سے میں رشتہ استوار کررہا ہوں۔( لا ابالی ای المسلمین انکحت وایھن نکحت. مصنف عبدالرزاق 152/6وابن ابی شیبہ 418/4)
15- چوتھے خلیفہ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے کفاءت کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا : تمام مومن و مسلم آپس میں ایک دوسرے کے کفو ہیں؛عربی، عجمی، قریشی، ہاشمی سب برابرہیں۔ (الناس اکفاء بعضھم لبعض عربیھم،عجمیھم، قریشیھم، ھاشمیھم اذا اسلموا وآمنوا۔فقہ السنہ 145/2)
16- حضرت عبداللہ بن مسعود تفقہ و اجتہاد میں امتیازی شان کے حامل ہیں، شریعت کی روح اور مقصد پر نگاہ رکھنے والے صحابہ کرام میں ان کا شمار ہوتا ہے، انھیں فقہ و اجتہاد کے بحر ناپیدا کنار سے فقہ حنفی کا آفتاب عالمتاب طلوع ہوا، وہ اپنی بہن کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
انشدک باللّٰہ ان لا تتزوجی الا مسلما وان کا احمر رومیا او حبشیا۔
میں تمہیں خدا کی قسم دیتاہوں کہ کسی مسلمان ہی سے نکاح کرنا چاہے وہ روم کا سرخ و سپید ہو یا کالا کلوٹا حبشی۔(المغنی 480/6)
17- حضرت ابوحذیفہ ؓ نے اپنی بھتیجی ہندبنت الولید- جو خاندان قریش سے تعلق
رکھتی تھیں اور اول ہجرت کرنے والوں میں شامل تھیں-کی شادی ایک انصاریہ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالم سے کی ۔ اسے بخاری اور نسائی نے نقل کیا ہے ، محدث رزین نے مزید یہ بھی لکھا ہے کہ قریش نے ان کے اس طرز عمل پر اعتراض کیا اور کہا کہ بھتیجی کی شادی غلام سے کردی، انھوں نے کہا میں تو بس اتنا جانتا ہوں سالم میری برادر زادی سے بہتر ہیں۔(جامع الاصول 466/11)
18- حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنی ہمشیرہ کا نکاح حضرت بلال حبشی سے کیا.(معرفۃ السنن والآثار 66/9، المجموع 186/16) واضح رہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کا تعلق خاندان قریش سے ہے جبکہ حضرت بلال آزاد کردہ غلام اور حبشی ہیں۔
19- حضرت سلمان فارسیؓ نے ایک عربی قبیلہ کندہ میں نکاح کیا.(مصنف عبدالرزاق 153/6، سنن سعید بن منصور /146) اور حضرت ابوبکر ؓ کی صاحب زادی سے نکاح کا پیغام دیا جسے انھوں نے منظور کرلیا تھا، حضرت عمرؓ کی صاحب زادی سے بھی رشتہ مانگا جسے انھوں نے کسی وجہ سے ٹال دیا، لیکن بعدمیں پیشکش کی کہ وہ اس رشتہ کے لیے آمادہ ہیں مگر حضرت سلمان نے انکار کردیا.(الجامع لاحکام القرآن 347/16، عمدۃ القاری 86/20، سبل السلام 130/2) اس کے علاوہ اور بہت سے واقعات ہیں ، لیکن اختصار کے پیش نظر اتنے پر اکتفا کیاجاتا ہے۔
یہ چند ایسی ہستیوں کا تذکرہ ہے جو صحابہ کرام میں خصوصی اہمیت اور فضیلت کے حامل تھے، شریعت کے رمز شناس ، سنت نبوی کے ماہر شناور تھے، اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے نقش قدم پر چلنے کا حکم دیاہے،چنانچہ حدیث میں ہے :
اقتدوا بالذین بعدی ابابکر وعمر ۔
میرے بعد ابوبکر و عمر کے نقش قدم پر چلو۔ کیاان حضرات کو معلوم نہیں تھاکہ غیر کفو میں نکاح ناپائیدار ہوتاہے ، ان کی بیٹی اور بہن ایک کمتر اور غیر عرب کی ماتحتی میں ننگ و عار محسوس کرے گی، کیا انھیں اللہ کے رسول کا یہ ارشاد معلوم نہیں تھاکہ ’’اپنے نطفے کے لیے بہترین رشتوں کا انتخاب کرو اور کفو ہی میں شادی بیاہ کا معاملہ رکھو‘‘ اور یہ کہ ’’کفو میں شادی کرو نیز عرب اور غیر عرب میں آپس میں کفو نہیں ہیں‘‘۔ آنحضور ﷺ نے ان احادیث میں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ارشادنبوی سے شیفتگی اور فدائیت کی حد تک تعلق رکھنے والوں نے اس حکمیہ جملے کے خلاف عمل کیا اور کیا بات ہے کہ حضرت عمرؓ یہ کہنے کے باوجود کہ غیر کفو میں نکاح کرنے سے میں روک لگادوں گا ، ایک غیر عرب سے اپنی بہن کے رشتہ کے لیے پختہ عزم کرلیتے ہیں (عمدۃ القاری86/2) اور حضرت سلمان فارسیؓ یہ اقرار کرنے کے بعد کہ ہم عربوں میں نکاح نہیں کرسکتے ہیں ، ایک عرب قبیلہ میں شادی کرتے ہیں بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کی صاحب زادیوں سے نکاح کا پیغام دیتے ہیں؟؟؟
قائلین کے دلائل کا ایک جائزہ:
واقعہ ہے کہ نسب میں کفاءت سے متلعق کوئی صریح آیت یا صحیح حدیث موجود نہیں ہے ، چنانچہ کفا ءت نسبی کے ثبوت میں پیش کردہ آیت قرآنی میں وارد لفظ ’’معروف‘‘ عام ہے اور مراد شرعی اصول و ضوابط ہے یعنی طلاق اور عدت گذر جانے کے بعد شرعی دائرے میں رہتے ہوئے ، اصول و ضابطہ کے مطابق میاں بیوی ٹوٹے ہوئے رشتہ کو پھر سے جوڑنا چاہیں تو ان کے سرپرستوں کو روکنا نہیں چاہئے۔ لیکن نسبی کفاءت کا نکاح کے شرعی اصول و ضوابط میں شامل ہونا محتاج دلیل ہے، لہٰذا اسے اس میں داخل نہیں کیاجاسکتاہے ، البتہ دینی کفاءت کو اس میں شامل کرسکتے ہیں اور یہی کفاءت ابن العربی کی مراد ہے ، کیونکہ اسی پر تمام فقہاء کا اجتماع اور اتفاق ہے ، اس کے علاوہ نسب وغیرہ کو بھی مراد لیاجائے تو پھر ان کے اجماع کا دعوا غلط ہوجائے گا۔
اس سلسلہ میں پیش کردہ احادیث میں سے پہلی حدیث کی صحت پر کوئی کلام
نہیں ہے لیکن مسئلہ کفاءت سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے ، چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے استدلال محل نظر ہے ( لکن فی الاحتجاج بہ لذالک نظر۔فتح الباری 133/9) نیز اس حدیث کی رو سے قریش کے دیگر قبائل کو بنی ہاشم کا کفو نہ ہوناچاہیے، حالانکہ ائمہ حنفیہ وغیرہ اس کے قائل نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ دوسری اور تیسری حدیث کی صحت کو کسی درجہ میں تسلیم کرلیاجائے تو بھی وہ کفاءت نسبی وغیرہ پر صریح نہٰں ہے بلکہ حدیث پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں تو ایک طرح سے نسبی کفاءت وغیرہ کی نفی کی گئی ہے کہ کسی غیرشادی شدہ مرد و عورت کے لیے کوئی مناسب رشتہ مل جائے تو پھر دیگر چیزوں کے لئے تاخیر نہیں ہونی چاہیے بلکہ فوراً رشتہ منظور کرلیں۔ نیز حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ مناسبت کا خیال مرد و عورت دونوں میں ملحوظ رکھنا چاہیے جیساکہ تیسری حدیث میں اس کی صراحت ہے ، لہٰذا ان احادیث سے کفاءت نسبی مراد ہے تو اس کی رعایت مرد کی طرف سے بھی ہونی چاہیے اور اگرکوئی لڑکا غیرکفو میں نکاح کرلیتاہے تو اس کے سرپرست کو نکاح فسخ کردینے کا اختیار ہوناچاہیے کیونکہ جس طرح سے لڑکی کا غیرکفو میں نکاح کرلینا سرپرستوں کے لیے باعث ننگ و عار ہے اسی طرح سے لڑکا بھی غیرخاندان میں نکاح کرلے تو اونچی ناک والوں کی ناک کٹ جاتی ہے اور لڑکے کا یہ فعل سماج اور معاشرہ میں سرپرستوں کے لیے باعث رسوائی ہوتا ہے بلکہ لوگ دو تین پشتوں تک ایسے خاندان میں رشتہ کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے ہیں، باپ کے کیے ہوئے اس جرم کی سزا اس کے بچوں تک کو بھگتنا پڑتا ہے ، حالانکہ قائلین کفاءت میں سے بیشتر فقہاء کفاءت کا اعتبار صرف عورت کی طرف سے کرتے ہیں۔ یا حدیث میں دینی اور اخلاقی مناسبت اور کفاءت مراد ہے جس کی ترغیب دوسری صحیح حدیثوں میں موجود ہے ۔
ان کے سوا بقیہ احادیث پایہ صحت کو نہیں پہنچتی ہیں، ان پر محدثین نے جو کلام کیا ہے اس کا ذکر آچکا ہے، اس لیے ان روایات سے استدلال درست نہیں ہے ۔
جہاں تک حضرت عمرؓ کے اثر کا تعلق ہے تو اس پر بھی کلام کیاگیاہے لیکن صحیح بھی ہو تو اس سے نسبی کفاءت پر استدلال درست نہیں ہے کیونکہ گرچہ حسب ، نسب کے مفہوم میں استعمال ہوتاہے تاہم مالداری کے معنی میں بھی آتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ میں کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکیوں کو ایسے ہی خاندان میں نکاح کی اجازت دوں گا ، مکمل روایت دیکھنے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے ، چنانچہ امام زہری سے منقول روایت کے الفاظ یہ ہیں:
ان عمر بن بن الخطاب قال علی المنبر والذی نفسی بیدہ لامنعن فروج ذوات الاحساب الا من ذوی الاحساب فان الاعراب اذا کان الجدب فلا نکاح لھم ۔
حضرت عمرؓ نے برسر منبر کہا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، میں حسب والی عورتوں کو صاحب حسب مردوں ہی سے نکاح کی اجازت دوں گا، کیونکہ خشک سالی کے موقع پر اعراب کے درمیان رشتہ نکاح باقی نہیں رہتاہے۔(مصنف عبدالرزاق 154/6)
حبیب بن ثابت سے بھی روایت کا آخری ٹکڑا منقو ل ہے ، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
ان عمر قال اذا کانت السنۃ فلیس لاھل البادیۃ نکاح.
حضرت عمرؓ نے فرمایاکہ قحط کے موقع پر بدویوں کا نکاح باقی نہیں رہ جاتاہے۔(حوالہ مذکور 152/6)
معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ کی ممانعت کی وجہ نسبی ناہمواری نہیں ہے ، کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ عربوں اور بدویوں میں نسبی اعتبار سے اونچ نیچ پائی جاتی تھی بلکہ ممانعت کی وجہ بدویوں کا عورتوں کے ساتھ غیرذمہ دارانہ سلوک ہے کہ وہ مصیبت کے موقع پر ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت کے بجائے صرف اپنی فکر کرنے لگتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ عورتوں سے ان کا کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے بلکہ ایسے موقع پر وہ بندھن کو توڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ نیز اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے عہد میں اس طرح کی شادیوں کا رواج تھا، البتہ مذکور علت کی بنیاد پر وہ اسے خلاف مصلحت سمجھتے تھے۔
رہا حضرت سلمان فارسی کا واقعہ تو وہ تواضع و انکسار ی پر مبنی ہے کیونکہ حقیقی مفہوم لینے کا مطلب ہوگاکہ کسی عرب کی موجودگی میں غیرعرب نماز کی امامت کے لیے بھی آگے نہیں بڑھ سکتاہے اور نماز کی امامت میں بھی نسبی کفاءت کا خیال رکھاجائے، حالانکہ کوئی اس حد تک جانے کے لیے تیار نہیں ہے ، علاوہ ازیں خود حضرت سلمان کا طرزعمل اس کے خلاف ہے جیساکہ گذرچکا ہے۔
قائلین کفاءت کی طرف سے پیش کردہ معاشرتی اور ازدواجی مصلحت بھی محل نظر ہے کیونکہ شریف اور خسیس کی تقسیم ہی نادرست ہے اور نسب کی بنیاد پر فخر کرنا ، دوسرے کو کمتر سمجھنا، اس کی ماتحتی کو باعث ننگ و عار خیال کرنا ایک غیراسلامی نظریہ ہے ، یہ صفت اگر پائی جاتی ہوتو اسے آہستہ آہستہ ختم کرنا چاہیے نہ کہ عرف و رواج کے نام پر مستقل قرار دے کر باقی رکھنا، اس لیے کہ شریعت میں ایسی ہی مصلحت کا اعتبار کیا گیا ہے جواس کے مزاج و مذاق سے متصادم نہ ہو، اگر لوگ غیرشرعی باتوں کے خوگر ہوجائیں اور اس کی وجہ سے طبیعت کسی چیز کو گوارا نہ کرے تو اس کا اعتبار نہیں ہے، چنانچہ امام ابواسحاق شاطبی لکھتے ہیں:
المراد بالمصالح والمفاسد ما کانت کذالک فی نظر الشرع لا ماکان ملائما او منافرا للطبع۔
وہ مصالح اور مفاسد مراد ہیں جو شریعت کی نظرمیں بھی مصلحت اور مفسدہ ہو، طبیعت کے موافق یا مخالف ہونے کا اعتبار نہیں ہے ۔(الموافقات)
حقیقت یہ ہے کہ برادری میں کفاءت سے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی صراحت موجود نہیں ہے ، اس سے متعلق جو احادیث ذکر کی جاتی ہیں وہ حد درجہ ضعیف ہیں، چنانچہ مشہور محدث حافظ حدیث علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
لم یثبت فی اعتبار الکفاءۃ بالنسب حدیث۔
نسبی کفاءت سے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں ہے ۔(فتح الباری 133/9)
اور نہ ہی صحابہ کی زندگیوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے بلکہ اس کے برخلاف بہت سی نظیریں ملتی ہیں جو ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ نسبی کفاءت وغیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر فقہاء ،دین کے علاوہ نسب وغیرہ میں کفاءت کے قائل نہیں ہیں یا ان سے متعدد آراء منقول ہیں ، جیساکہ گذرچکا ہے ۔ امام مالک صرف دین میں کفاءت کا اعتبار کرتے ہیں اور امام شافعی سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے ، جس ے ان کے مایہ ناز شاگرد بویطی نے نقل کیا ہے اور ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ امام شافعی سے کسی نے اس مسئلہ کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایاکہ میں عرب ہوں مجھ سے اس کے متعلق نہ پوچھو۔ (انا عربی لاتسالنی عن ھذا.حوالہ مذکور) اور امام احمد سے بھی ایک روایت امام مالک کے مطابق منقول ہے جیسا کہ گذرچکا ہے، فقہاء حنفیہ میں امام کرخی اور ابوبکر جصاص کے یہاں بھی نسب میں کفاءت کا اعتبار نہیں ہے اور علامہ نوح آفندی نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ سے کوئی روایت نسب میں کفاءت کے غیر معتبر ہونے کی نہ ہوئی تو یہ دونوں بزرگ عدم کفاءت کے قائل ہر گز نہ ہوتے ، گویا کہ امام ابوحنیفہ سے بھی ایک روایت نسبی کفاءت کے غیر معتبر ہونے کی ہے بلکہ امام سرخسی نے صراحتاً
لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے نسبی کفاءت کا اعتبار بطور تواضع و انکسار کیا ہے ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ امام سفیان ثوری نسبی کفاءت کے قائل نہیں ہیں اور امام ابوحنیفہ اس کا اعتبار کرتے ہیں، بعض لوگوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ سفیان ثوری عرب تھے، اس لیے بطور تواضع انہوں نے غیر عرب کو اپنا کفو سمجھا اور امام ابوحنیفہ عرب نہیں تھے اس لیے بطور تواضع انھوں نے خود کو عرب کا کفو نہیں سمجھا۔(المبسوط 22/5 الکفایہ 188/3)
واضح رہے کہ نسبی کفاءت کی پوری بحث عربوں سے متعلق ہے ، غیر عرب میں نسبی کفاءت کا اعتبار نہیں ہے ، چنانچہ علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں:
والحاصل ان النسب المعتبر ھنا خاص بالعرب واما العجم فلا یعتبر فی حقھم.
حاصل یہ ہے کہ جس نسب کا نکاح میں اعتبار کیا گیا ہے وہ عرب کے ساتھ خاص ہے اور غیر عرب میں نسب کا اعتبار نہیں ہے ۔(البحرالرائق 131/3)
عرب اور غیر عرب میں فرق کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان کا نسب نامہ محفوظ ہے اور غیر عرب کا نسب نامہ محفوظ نہیں ہے (فقد ضیعوا انسابھم۔ العنایہ 191/3)
اور عرب سے مراد وہ لوگ ہیں جو نسلی اور نسبی اعتبار سے کسی عرب قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں خواہ وہ عرب ممالک کے باشندے ہوں یا عجم کے کسی دور دراز علاقے میں بستے ہوں، زبان عربی ہو یا عجمی لیکن ان کا تعلق کسی قدیم عرب قبیلہ سے نہ ہو تو گرچہ عرب ملک میں رہتے ہیں اور زبان عربی ہو پھر بھی وہ عرب شمار نہ ہوں گے۔(ردالمحتار 211/2)
اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بیشتر عرب ممالک عجم میں شامل ہیں اور خالص عرب ملکوں میں وہاں کے رہنے والے عربوں میں سے زیادہ تر کا نسب نامہ محفوظ نہیں ہے، زیادہ تر جعلی نسب ناموں کا رواج ہے اور فقہاء کے بیان کے مطابق عجمیوں
نے اپنا نسب نامہ ضائع کردیاہے اور جو قومیں ہندوستان وغیرہ میں خود کو برتر خیال کرتی ہیں ان کے پاس کوئی نسبی شرافت نامہ موجود نہیں ہے بلکہ شرافت رذالت کا معیار خیالی اور وہمی ہے ، اس لیے جو فقہاء نسب میں کفاءت کے قائل ہیں ان کے نقطہ نظر کے مطابق بھی اب نسبی کفاءت کا اعتبار نہیں ہوناچاہیے کیونکہ اس کی بنیاد ہی اب موجود نہیں ہے بلکہ یہ ایک بھولی بسری بات ہے جو فقہی کتابوں میں قصۂ پارینہ کی حیثیت سے محفوظ رہ گئی ہیں اور اب ان واقعات کو چھیڑ کر کے مسلمانوں میں بھی ذات پات کی کشمکش کو ہوا دینے کو اچھا نہیں کہاجاسکتا ہے۔
3- پیشہ:
زندگی کی تمام ضروریات کو بذات خود انجام دینا مشکل بلکہ ناممکن ہے ، اس لیے زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے کاموں کو باہم تقسیم کردیا گیا ہے،لیکن یہ تقسیم عزت و ذلت کے اصول پر مبنی نہیں ہے بلکہ جس طرح سے قبیلہ اور خاندان کی تقسیم تعارف کے لیے ہے اسی طرح سے کاموں کی تقسیم ضروریات انسانی کی تکمیل کے لیے ہے ، کوئی پیشہ باعث فخر ہے نہ سبب ننگ و عار ۔ ہر وہ پیشہ جو حلال اور جائز ہو شریعت کی نگاہ میں پسندیدہ ہے بلکہ اللہ کی مقدر کی ہوئی رزق کی تلاش مقصود ہو جس کے ذریعہ حقوق کی ادائیگی پیش نظر ہو اور اللہ کی رزاقیت پر اعتماد ہو تو یہ عین عبادت ہے ۔
اسلام نے کسب معاش کو بڑی اہمیت دی ہے اور جائز حدود میں رہتے ہوئے ہر طرح کے پیشے کو درست قرار دیا ہے ۔ چنانچہ فقہ حنفی کے مشہور فقیہہ علامہ سرخسی لکھتے ہیں:
المذھب عند جمہور الفقہاء ان المکاسب کلھا فی الاباحۃ سواء ۔
جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ تمام ذرائع معاش مباح ہونے میں یکساں ہیں۔(المبسوط 258/3)
خصوصاً ہنر اور دست کاری کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ، چنانچہ حضرت مقدام بن معدیکرب نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کو ان الفاظ میں نقل کیاہے:
ما اکل احد طعاما قط خیرا من ان یاکل من عمل یدہ وان نبی اللہ داؤد علیہ السلام کان یاکل من عمل یدہ ۔
اپنی ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی بھی کمائی نہیں ہے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھاتے تھے۔(صحیح بخاری 278/1)
اور حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے :
قیل یا رسول اللہ ای الکسب أطیب ؟قال عمل الرجل بیدہ وکل بیع مبرور.
دریافت کیاگیا یا رسول اللہ ﷺ ! کون سی کمائی سب سے عمدہ ہے ؟ فرمایا: اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور سچائی اور دیانتداری سے بیچنا۔(مسند احمد، بزار، معجم طبرانی کبیر. جمع الفوائد 142/1)
آپ ﷺ نے سینگی لگانے جیسے بظاہر گھٹیا پیشے کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
نعم العبد الحجام یذھب بالدم ویخف الصلب ویجلو عن البصر.
سینگی لگانے والا کتنا اچھا آدمی ہے جو بدن سے خراب خون کو نکال دیتا ہے، ریڑھ کو ہلکا اور آنکھ کی روشنی کو بڑھا دیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ 272/2 باب الطب، تحقیق مصطفی الاعظمی، سنن ترمذی 26/2، کتاب الطب و حسنہ)
بہت سے پیشے ایسے ہیں جن کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ
نے اپنے برگزیدہ نبیوں کو اس کی تعلیم دی تھی ، چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق تو قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں زرہ بنانے کی صنعت سکھائی تھی اور وہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ (سورۃ الانبیاء /80) اور حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق صحیح مسلم میں ہے کہ وہ بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ (وکان زکریا نجاراً. صحیح مسلم . جمع الفوائد 243/3)
انبیا ء کے بعد سب سے معزز اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ جماعت صحابہ کرام کی طرف متعدد ایسے پیشے منسوب ہیں جنھیں عام طور پر آج کے بگڑے ہوئے ماحول میں اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے، چنانچہ بہت سے صحابہ کرام کے متعلق صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ وہ سلائی اور بنائی وغیرہ کیاکرتے تھے۔(صحیح بخاری 280/1)
ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ چمڑے بنانے کا کام کرتی تھیں، اسی لیے وہ ازواج مطہرات میں مالی اعتبار سے سب سے خوشحال تھیں ./الاصابہ 278/4) ایسے ہی ام المومنین حضرت زینب چمڑے کی دباغت اور سلائی کیا کرتی تھیں اور اس سے حاصل شدہ آمدنی کو اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کردیا کرتی تھیں. (حوالہ مذکور 317/4 ) ام المومنین حضرت ام سلمہ کے متعلق منقول ہے کہ وہ دھاگا کاتنے کا کام کرتی تھیں، بلکہ دیگر عورتوں میں بھی بننے اور کاتنے کا عام رواج تھا.(نبی رحمت249) اور کپڑے کی بنائی عربوں کے پیشوں میں سے ایک اہم پیشہ اور ذریعہ معاش تھی، لیکن کسی بھی پیشہ کو حقیر اور گھٹیا سمجھنے کا تصور نہ تھا اور نہ ہی اس کی وجہ سے شادی بیاہ میں کوئی رکاوٹ پیداہوتی تھی۔
ان روایتوں اور واقعات کی بنیاد پر امام ابوحنیفہ نے فرمایاکہ پیشہ کی وجہ سے کسی کو کسی پر فضیلت اور برتری حاصل نہیں ہے ، نہ کوئی پیشہ فخر و غرور کا ذریعہ ہے اور نہ کوئی ہنر باعث ننگ و عار بلکہ تمام پیشے برابر ہیں، اس لیے ان میں کفاءت کا اعتبار نہیں ہے اور امام مالک کے متعلق گذر چکا ہے کہ وہ صرف دینداری میں کفاءت کا اعتبار کرتے ہیں ، امام احمدبن حنبل اور امام محمد بن حسن کا بھی ایک قول یہی ہے ، شوافع اور امام احمد اور محمد کا دوسرا قول یہ ہے کہ پیشہ میں بھی کفاءت کا اعتبار کیاجائے گا ،لہٰذا جوشخص کسی حقیر اور گھٹیا سمجھے جانے والے پیشے سے متعلق ہو وہ کسی اچھے پیشہ سے منسلک شخص کا کفو نہیں ہوسکتا ہے، امام ابویوسف کابھی یہی نقطۂ نظر ہے. (دیکھئے المبسوط 25/5، فتح القدیر 192/3، روضۃ الطالبین 81/7، المغنی 485/6)
ان حضرات کی دلیل اللہ کے رسول ﷺ کی طرف منسوب یہ حدیث ہے:
العرب بعضھم اکفاء لبعض قبیلۃ بقبیلۃ ورجل برجل والموالی بعضھم اکفاء لبعض قبیلۃ بقبیلۃ ورجل برجل الاحائک او حجام.
عرب ایک دوسرے کے کفو ہیں، ایک خاندان دوسرے خاندان کا،اور ایک شخص دوسرے شخص کا اور عجم آپس میں کفو ہیں ایک خاندان دوسرے خاندان کا اور ایک شخص دوسرے شخص کا ۔ سوائے کپڑا بننے والے اور سینگی لگانے والے کے ۔(السنن الکبریٰ 134/7)
لیکن اس حدیث پر محدثین نے بڑی سخت جرح کی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ اس روایت کو امام حاکم اور بیہقی وغیرہ نے متعدد سندوں سے نقل کیا ہے لیکن کوئی بھی کلام سے خالی نہیں ہے ، چنانچہ امام حاکم نے جس سند سے حدیث روایت کی ہے اس کا ایک راوی مجہول ہے ، کچھ اتاپتا نہیں ہے کہ وہ کون صاحب ہیں، اور امام بیہقی نے جس سند سے روایت کی ہے اس کے ایک راوی عمران بن ابی فضل کے متعلق علامہ ابن حبان کا کہنا ہے کہ وہ ثقہ لوگوں کی طرف نسبت کرکے موضوع حدیث روایت کرتا تھا، اس کی روایتوں کا لکھنا حلال نہیں ہے ، ابن معین اور نسائی نے بھی اسے ضعیف قرار دیاہے، اور
ابن عدی کہتے ہیں کہ اس کی حدیثوں کا ضعیف ہونا بالکل واضح ہے ، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ابوحاتم کا خیال ہے کہ ’’ھو منکر الحدیث ضعیف جدا‘‘ امام دار قطنی نے بھی اس حدیث کی روایت کی ہے لیکن سلسلہ اسناد کے ایک راوی ’’بقیہ‘‘ کو ضعیف کہا گیا ہے اور دوسرے راوی محمدبن فضل پر بھی جرح کی گئی ہے ۔(نصب الرایہ197/3، الدرایہ 63/2، نیل الاوطار128/6، سبل السلام 128/3، ارواء الغلیل 268/6)
غرضیکہ اس حدیث کی کوئی بھی سند کلام سے خالی نہیں ہے ، اسی لیے محدثین کا خیال ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے ، چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں : الحدیث شاذ لایوخذ فیما تعمم بہ البلوی یعنی بکثرت پیش آنے والے معاملہ میں اس شاذ حدیث کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔(المبسوط 25/5 ) اور مشہور ناقد حدیث ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے اس روایت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا یہ بالکل جھوٹی، باطل اور بے اصل روایت ہے اور علامہ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر اور موضوع ہے ۔(نصب الرایہ 197/3، الدرایہ 63/2)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ گرچہ پیشہ میں کفاءت سے متعلق احادیث پر کلام کیاگیا ہے لیکن متعدد اور مختلف سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے روایت میں پختگی آجاتی ہے بالفاظ دیگر روایت درجہ حسن تک پہنچ جاتی ہے اور اس سے اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ حدیث کفاءت کی کچھ اصل ہے، نیز نفس کفاءت حدیث سے ثابت ہے ، لہٰذا عرف و عادت اور حالات کے اعتبار سے اس کی تفصیل کو ثابت کیاجاسکتاہے اور عرف و معاشرہ میں جس چیز کو باعث حقارت سمجھا جاتا ہو اس میں کفاءت کا اعتبار کیاجائے گا اور معاشرہ میں بعض پیشوں کو حقیر اور کچھ کو اچھا سمجھنے کا رجحان ہے ، لہٰذا اس میں بھی کفاءت شرط ہے ۔ (فتح القدیر 189/3)
اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ محدثین کا یہ اصول کہ متعدد سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے ضعیف حدیث میں قوت آجاتی ہے تو اس سے مراد وہ ضعف ہے جو سوء حفظ وغیرہ کی وجہ سے لاحق ہو اور اگر راوی کے فسق یا جھوٹ کی وجہ سے حدیث کو ضعیف قرار دیا گیاہے تو ویسے راوی کی موافقت کی وجہ سے حدیث قوی نہیں ہوسکتی ہے ، چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی تدریب و تقریب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
ھذا اذا کان ضعفہ لسوء حفظ الراوی الصدوق الامین او لارسال او تدلیس او جھالۃ حال او لوکان لفسق الراوی او کذبہ فلا یوثر فیہ موافقۃ مثلہ لہ ولا یرتقی بذالک الی الحسن ۔(رد المحتار 90/1)
رہی بات عرف و عادت کی تو یہ ذہن نشین رہے کہ ہر وہ چیز جو لوگوں کے درمیان رائج ہوجائے اور لوگ اس کے عادی اور خوگر ہوجائیں تو شریعت اسے سند جواز نہیں دے سکتی ہے کیونکہ اس طور پر تو شریعت کی عمارت ہی منہدم ہوجائے گی اور بنیاد تک باقی نہیں رہے گی بلکہ ایسے عرف و رواج کا اعتبار ہے جو شریعت کی روح اور مزاج سے متصادم نہ ہو نیز وہ قرین عقل ہو اور ذوق سلیم اسے قبول کرتی ہو اور ظاہر ہے کہ عام طور پر جن پیشوں کو ذلیل اور گھٹیا سمجھا جاتا ہے ان میں شرعی اور عقلی اعتبار سے کوئی قباحت اور برائی نہیں ہے ، بھلا بتلائیے کہ کپڑا بننے اور سلنے میں کونسی برائی ہے ، جس کی وجہ سے اسے گھٹیا سمجھا جاتا ہے ، لوہاری اور بڑھئی کے پیشہ کو فروتر سمجھنے کی کونسی عقلی اور شرعی وجہ ہے ، جوتا بنانے اور سلنے کو معیوب کیوں سمجھا جاتاہے اور اس کے برخلاف تجارت اور زراعت کے باعث فخر ہونے کی کونسی شرعی اور عقلی بنیاد ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی پیشہ کو کمتر سمجھنا بگڑے ہوئے ذہن کی پیداوار ہے اور شریعت اسلامیہ میں اس کے جواز کی گنجائش نہیں ہے ۔ چنانچہ مفتی اعظم مولانا کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں:
جائز پیشہ کی بناپر کسی کو ذلیل سمجھنا اسلامی احکام اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہے ، مسلمانوں میں یہ مرض ہندوستان میں ہندؤں کی اختلاط کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور بدقسمتی سے اس درجے تک پہنچ گیا ہے جس درجے میں ہندوں میں ہے اور اس نے اسلامی وحدت کو پاش پاش کردیاہے۔(کفایت المفتی 65/21)
اور مولانا مفتی شفیع لکھتے ہیں:
عرب میں مختلف آدمی مختلف صنعتیں اختیار کرتے تھے، کسی صنعت کو حقیر یا ذلیل نہیں سمجھا جاتا تھا اور پیشہ وار صنعت کی بنیاد پر کسی شخص کو کم یا زیادہ نہ سمجھا جاتا تھا، نہ پیشوں کی بنیاد پر کوئی برادری بنتی تھی، پیشوں کی بنیاد پر برادریاں بنانا اور بعض پیشوں کو بحیثیت پیشہ حقیر و ذلیل سمجھنا یہ ہندوستان میں ہندؤں کی پیدا وار ہے اور ان کے ساتھ رہنے سہنے سے مسلمانوں میں یہ اثرات قائم ہوگئے ہیں۔(معارف القرآن 262/7)
پیشے میں کفاءت کے قائلین کی طرف سے یہ کہاجاتاہے کہ بذات خود کوئی پیشہ باعث عزت و ذلت نہیں ہے ، البتہ بعض پیشوں کے کچھ خاصیات و تاثیرات ہیں جو ارباب بصیرت اور اہل تجربہ سے پوشیدہ نہیں ہیں اور ان خاصیات کی وجہ سے لازمی طور پر اچھے یا برے اخلاق کا ظہور ہوتاہے جیسے جوشخص مردوں کو نہلانے اور دفن وغیرہ کا پیشہ کرتاہے عموماً تجربہ سے ثابت ہے کہ اس کا قلب سخت ہوجاتاہے، گویا کہ پیشہ کی وجہ سے عزت و ذلت پیدا نہ ہوتی ہے بلکہ ان خصوصیات کی وجہ سے ہوتی ہے جو ان پیشوں کے لیے لازم ہیں۔ ( نہایات الارب /14و39)
اس دلیل سے یہ معلوم ہوتاہے کہ پیشہ میں کفاءت کا اعتبار دراصل دینی اور
اخلاقی حالت کا اعتبار ہے ، لہٰذا کوئی ان پیشوں میں جنھیں عام طور پر گھٹیا سمجھا جاتاہے مشغول ہوتے ہوئے بھی تقویٰ اور طہارت اور اچھے اخلاق سے متصف ہے ، اسے حقیر نہیں سمجھاجائے گا اور وہ ایسے شخص کا کفو بن سکتاہے جو اس سے اچھے پیشہ کو اختیار کیے ہوئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر فقہی کتابوں میں اس مسئلہ کو بڑے اہتمام سے بیان کیا گیا ہے کہ ظالم حکمرانوں کی ماتحتی میں کام کرنے والے سب سے زیادہ ذلیل ہیں۔ (واما اتباع الظلمۃ فاخس من الکل. الدر المختار 216/4) اور علامہ عینی لکھتے ہیں کہ قصاب کے پیشہ میں ایک طرح کی پستی ہے لیکن اس کی وجہ سے قصاب میں کوئی کمی پیدا نہیں ہوتی ہے ، اگر وہ دیندار ہو۔ (وان ذلک لاینقصہ ولایسقط شھادتہ ان کان عادلا ۔عمدۃ القاری) سوال یہ ہے کہ عملی دنیا سے بھی اس کا کوئی تعلق ہے؟ جولوگ پیشہ میں کفاءت کے سلسلہ بہت جذباتی ہوتے ہیں کیا سرکاری اہل کاروں کے ساتھ بھی ان کا یہی طرز عمل ہوتاہے جن کے ظلم و زیادتی اور رشوت خوری کی سابق میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ، کیا اس مسئلے میں فقہاء کی تصریحات ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ جب اصل دارومدار دینداری اور اخلاقی حالت پر ہے تو خود کسی پیشہ کو گھٹیا اور کمتر قرار دے کر شادی بیاہ کے معاملہ میں اسے مستقل حیثیت کیوں دی جاتی ہے ، کیوں نہ تقویٰ و طہارت اور اخلاقی حالت ہی کو معیار بنایاجائے، کیونکہ اخلاق وکردار کا تعلق نہ تو حسب و نسب سے ہے اور نہ کسی پیشہ سے بلکہ اس کا تعلق ذاتی کسب اور سماجی ماحول سے ہے ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ پیشہ کو ذلیل اور حقیر سمجھنے کا جو خیال ہندؤں کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے مسلمانوں کے دل و دماغ میں پیوست ہوگیا ہے اسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے لیکن اگر اس عجمی سوچ اور ہندوانہ فکر کو محمد عربی ﷺ کا لایا ہوا دین قرار دے کر گلے کا ہار بنایاگیا تو غیروں میں اسلام کے تعلق سے غلط پیغام جائے گا کہ یہاں بھی طبقاتی نظام کا وجود ہے ، کچھ لوگ پیدائشی اعتبار سے باعزت ہیں خواہ کردار کے اعتبار سے کیسے بھی ہوں اور دوسرے لوگ حقیر و ذلیل گرچہ وہ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر فائز ہوں، یہاں خوبیوں کے بجائے نسل اور ذات اور پیشہ کا اعتبار ہے اور جولوگ اسلام کے تصور مساوات سے متاثر ہوکر اسے قبول کرنا چاہیں گے وہ مسلمانوں کے اس طرز عمل کو دیکھ کر پیچھے ہٹ جائیں گے ، یہ صرف مفروضہ نہیں بلکہ واقعات کی دنیا میں آئے دن اس کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔
واضح رہے کہ جو لوگ پیشہ میں کفاءت کے قائل ہیں ان کے یہاں بھی پیشہ کا تعلق نسل سے نہیں ہے یعنی مثلا اگر کوئی شخص نسلی اعتبار سے حجام تھا لیکن اس کا اس پیشے سے کوئی تعلق نہیں ہے یا پہلے وہ اس پیشے سے وابستہ تھا بعد میں اس نے اسے ترک کرکے تجارت کا پیشہ اختیار کرلیا تو وہ نسلی تاجروں کا کفو ہوجائے گا ۔( أن الحرفة ليست بلازمة ويمكن التحول عن الخسيسة إلى النفيسة منها.الہدایہ 196/1)
4- خاندانی اسلام:
حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک عجمیوں کے اندر اسلام لانے میں بھی کفاءت کا اعتبار کیاجائے گا یعنی جو شخص خود مسلمان ہو اور اس کا باپ بھی اسلام قبول کرچکا ہو تو اس کے برابر وہ شخص نہیں ہوسکتاہے جو خود تو مسلمان ہو لیکن اس کا باپ کافر ہو اور جس کے باپ دادا دونوں مسلمان ہوں اس کے برابر وہ شخص نہیں جس کا باپ تو مسلمان ہو مگر دادا کافر ہو، لیکن کوئی شخص دو پشتوں سے مسلمان ہو تو وہ ایسے تمام لوگوں کا کفو ہے جو پشتہا پشت سے مسلمان ہوں، آگے مزید کوئی درجہ بندی نہیں ہے ، امام ابویوسف سے منقول ہے کہ کوئی شخص ایک پشت سے مسلمان ہو تو وہ تمام قدیمی مسلمان کا کفو ہوسکتاہے یعنی ان کے ماں باپ کا اسلام لانا کافی ہے ، کفاءت کے لیے دادا کا مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے ، شوافع کی دوسری رائے اسی کے مطابق مذکور ہے۔ (الہدایہ 300/2، رد المحتار 211/4، روضۃ الطالبین 81/7)
علامہ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ اور ابویوسف کے درمیان اختلاف کی وجہ حالات کی تبدیلی ہے ، امام صاحب کے عہد میں دادا کا غیر مسلم ہونا باعث عیب تھا اور امام ابویوسف کے وقت میں یہ عیب باقی نہ رہا۔(فتح القدیر 191/3)
امام احمدبن حنبل اور شافعیہ کا ایک قول یہ ہے کہ کفاءت کے سلسلہ میں قدیمی مسلمان اور نومسلم ہونے کا اعتبار نہیں ہے۔ (رد المحتار 211/4)
واضح رہے کہ یہ اختلاف عجمی مسلمانوں کے متعلق ہے ، اہل عرب کے متعلق تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ ان میں اس کفاءت کا اعتبار نہیں ہے ، عجم اور عرب میں فرق کی وجہ کیاہے؟ اس سلسلہ میں قائلین کفاءت کا خیال ہے کہ اہل عرب بجائے اسلام کے نسب پر فخر کرتے ہیں.(’’لانھم لایتفاخرون بہ وانما یتفاخرون بالنسب‘‘ )اس کے برخلاف اہل عجم کے پاس نسب محفوظ نہیں ہے لہٰذا وہ نسب پر فخر کے بجائے اسلام پر فخر کرتے ہیں۔( فقد ضیعوا انسابھم ومفاخرتھم بالاسلام. العنایۃ علی حاشیۃ فتح القدیر 191/3) مگر آج لوگوں نے بجائے اسلام کے اپنے کافر آباء و اجداد کو فخر و مباہات کا ذریعہ بنالیا ہے۔ اور اہل عجم میں قدیم اور نومسلم میں فرق کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ نو مسلم کے باپ دادا کا غیرمسلم ہونا باعث ننگ و عار ہے اس لیے کوئی قدیمی مسلمان اسے اپنی بیٹی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتاہے۔
قدیمی مسلمان اور نومسلم میں اعتبار کفاءت کے لیے مذکورہ دلیل کے سوا کتاب و سنت میں کوئی مضبوط یا کمزور بنیاد موجود نہیں ہے ،صحیح رویات تو بہت دور کی بات ہے ضعیف بلکہ موضوع روایت میں اشارتاً بھی اس کا تذکرہ نہیں ملتاہے ، اور نہ ہی کسی صحابی کے قول و فعل سے رہنمائی ملتی ہے بلکہ اس کے برخلاف ہی معلوم ہوتاہے ، چنانچہ ابن قدامہ بڑے تیکھے انداز میں سوال کرتے ہیں:
فان الصحابۃ رضی اللہ عنھم اکثرھم اسلموا وکانوا افضل الامۃ فلا یجوز ان یقال انھم غیر اکفاء للتابعین.
کیونکہ اکثر صحابہ کفر سے اسلام کی طرف آئے تھے اور وہ اس امت کے سب سے افضل لوگ ہیں ، تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ تابعین کے کفو نہیں ہیں۔(المغنی 485/6)
جہاں تک یہ بات ہے کہ باب و دادا کا مسلمان نہ ہونا باعث عیب ہے تو یہ باپ دادا کی حد تک تسلیم ہے ، بلاشبہ کفر ایک عیب ہے بلکہ ہر عیب سے بڑھ کر ہے لیکن یہ شخص تو اس عیب سے فرار اختیار کرکے اسلام کے دامن میں پناہ لے چکا ہے تو کیا دامن اسلام سے وابستہ ہونے کے باوجود باپ دادا کا یہ عیب اس سے چپکا رہے گا؟
دوسرے یہ کہ اس مسئلہ کے مطابق اگر کوئی شخص مسلمان ہونا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہو اور بیوی کو بھی اسلام پر رضا مند کرلے اور ایسا نہ ہو تو پھر کسی غیرمسلم لڑکی کو بھی اپنے ساتھ اسلام لانے پر آمادہ کرے اور پھر رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجائے ، اس کے علاوہ کوئی تیسری شکل نہیں ہے کیونکہ تمام قدیمی مسلمان اپنے سماج اور سوسائٹی کو دیکھتے ہوئے بلکہ ایک شرعی حق کی بنیاد پر اس سے رشتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
کیایہ اسلام لانے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے ، کیا ان زبردست مشکلات کے باوجود کوئی اسلام کی طرف راغب ہوسکتاہے؟ نیز ہماری دعوتی پوزیشن کیا ہوگی؟ کیا ہمارے پاس اس اہم سماجی اور معاشرتی مسئلہ کے لیے کوئی حل ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ نسب ، پیشہ، خاندانی اسلام میں کفاءت قبول اسلام کی راہ میں پہاڑ بن کر حائل ہے ، کتنے افراد نہیں بلکہ کتنے خاندان اور آبادیاں اس کی وجہ سے اسلام سے محروم رہ گئیں، وہ قبول اسلام کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے لیکن واقعی مشکلات کے ان چٹانوں نے انھیں راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کردیا، کیونکہ انھیں معلوم ہواکہ اسلام میں نظریاتی طور پر مساوات تو ہے لیکن مسلمانوں میں عملی طور پر اونچ نیچ کا تصور موجود ہے، پچھڑے ہوئے اور نیچ سمجھے جانے والے غیرمسلموں کی ایک بھاری تعداد ذات پات کے نظام سے چھٹکارا حاصل کرکے اسلام کے دامن میں پناہ لینا چاہتی تھی مگر ان کے رہنما نے راستہ کی ان مشکلات کو دیکھ کر رخ تبدیل کردیا، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا موجودہ مسلم معاشرہ کے سلسلہ میں یہ تبصرہ ملاحظہ ہو جو انھوں نے مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کو مخاطب کرکے کہاتھا:
مولانا! آپ اس الماری میں کتابیں دیکھ رہے ہیں یہ سب مذہب اسلام اور اسلامیات سے متعلق ہیں، میں سید امیر علی، عبداللہ ، یوسف علی اور دوسرے بہت سے مسلم اور غیرمسلم اور اسلام کے اسکالرز کی کتابوں کا توجہ سے مطالعہ کرلیا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ اصولی طور پر اسلام سماجی جمہوریت اور انسانی مساوات کا داعی و نقیب ہے لیکن ہندوستان میں آپ لوگ ’’منو‘‘ کے ورن آشرم پر عمل پیرا ہیں اور آپ نے اپنے سماج کو بھی ذات برادری میں تقسیم کررکھا ہے ، میں اگر اسلام قبول کرلیتا ہوں تو آپ مجھے کس خانے میں رکھیں گے۔(ہندوستانی معاشرے میں مسلمانوں کے مسائل 341-42، از ڈاکٹراشفاق محمدخاں)
اور جن لوگوں نے راستے کی ان مشکلات کو نظرانداز کرکے منزل پر نگاہ رکھی وہ بھی منزل پر پہنچنے کے بعد ناآسودہ اور غیر مطمئن ہیں، ان کی لڑکیاں بن بیاہی پڑی ہوئی ہیں، ان کے لڑکے کا رشتہ نہیں مل رہاہے ، حالانکہ اس مسئلہ کے لیے کوئی عقلی اور شرعی بنیاد نہیں ہے ، آخر نومسلموں کو حقیر اور کمتر سمجھنے اور قدیمی مسلمانوں کا غیر کفو قرار دینے کی کیا توجیہ کی جاسکتی ہے؟ اور اسے نظرانداز کردینے میں کوئی سماجی قباحت بھی نہیں ہے ۔ دوسری طرف اس کی وجہ سے اسلام کے پھیلنے کے امکانات بڑھ جائیں گے، اسی بنیاد پر جب ایک نومسلم نے حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب سے دریافت کیا :
سائل کو مع اہلیہ دین اسلام قبول کیے ۲۳سال ہوئے ، اس مدت میں دو لڑکے ہوئے جن کی عمر 17-19 سال کی ہے ، ان کی شادی کے لیے مسلمانوں میں پیغام بحیثیت مسلمان ہونے کے دیاگیا تو بعض حضرات جن کو اپنی علمیت دینی کا دعویٰ ہے فرماتے ہیں کہ نومسلم کی اولاد کا نومسلم کی اولاد سے رشتہ ہونا چاہیے، چنانچہ اس فتوے سے شادی کالعدم ہوگئی۔
تو حضرت مفتی صاحب نے یہ جواب دیاکہ
نومسلم کی اولاد کی شادی ہر مسلمان کی اولاد سے ہوسکتی ہے ، یہ بات نہیں ہے کہ نو مسلم کی اولاد کی شادی نومسلم کی اولاد کے ساتھ ہو، جو مسلمان یہ کہتاہے کہ نو مسلم کی اولاد کی شادی نومسلم کی اولاد سے ہی ہونا چاہیے وہ جاہل اور اسلامی احکام سے ناواقف ہے، شریعت مقدسہ اسلامیہ نے ہر مسلمان کو خواہ وہ موروثی مسلمان ہو یا نومسلم بھائی بھائی قرار دیا ہے اور ہر مسلم و نومسلم ایک دوسرے سے مناکحت کا رشتہ کرسکتے ہیں، کوئی ممانعت نہیں۔ جو مسلمان اپنے نومسلم بھائی کو رشتہ دے گا وہ دہرے ثواب کا مستحق ہوگا۔(کفایت المفتی241/5)
5- مالداری:
حضرت فاطمہ بنت قیس رسول اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور کہاکہ میرے لیے معاویہ بن ابوسفیان اور ابوجہم نے نکاح کا پیغام دیا ہے ، آپ کا اس سلسلہ میں کیا مشورہ ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوجہم تو ہر وقت لاٹھی اٹھائے رہتے ہیں اور معاویہ نادار اور مفلوک الحال ہیں، تم اسامہ سے نکاح کرلو۔(صحیح مسلم 484/1)
اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضور ﷺ نے حضرت معاویہ کی غربت اور ناداری کی بنیاد پر ان سے نکاح کا مشورہ نہیں دیا اور ایک دوسرے حدیث میں آپ ﷺ نے دنیاوی زندگی میں مال کی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: نسب ہی کی طرح مالداری بھی دنیا والوں کی نگاہ میں باعث عزو شرف ہے ۔(ان احساب اھل الدنیا المال۔ السنن الکبریٰ 136/7)
ان احادیث کی بنیاد پر فقہاء احناف اور شوافع کا خیال ہے کہ مالداری میں بھی کفاءت کا اعتبار ہے ، امام احمد سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے ، لیکن مالداری کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ مہر کی اتنی رقم کا مالک ہو جو فوری ادا طلب ہو اور بیوی کا خرچ اٹھانے پر قادر ہو بلکہ امام ابویوسف کے نزدیک تو صرف نفقہ کی ادائیگی پر قادر ہونا کافی ہے گرچہ وہ مہر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔(دیکھئے الہدایہ 300/2، المغنی 485/6، روضۃ الطالبین 82/7 )واضح رہے کہ فقہ شافعی میں صحیح یہ ہے کہ مالداری میں کفاءت غیر معتبر ہے ، امام احمد سے بھی ایک روایت یہی ہے ۔
بعض لوگوں نے امام ابوحنیفہ اور محمد کی طرف منسوب کرکے لکھا ہے کہ معاشی اور مالداری کے اعتبار سے مرد و عورت کی سطح ایک ہونی چاہیے یا بہت معمولی فرق ہو، اس لیے نفقہ و مہر پر قدرت کے باوجود کوئی شخص ایسی عورت کا کفو نہیں ہوسکتاہے جس کی معاشی سطح اس سے بہت بلند ہو۔(حتی ان الفائقۃ فی الیسار لایکافئھا القادر علی المھر والنفقۃ الہدایہ 300/2)
اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ سوسائٹی اور سماج میں مالدار کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ اس پر فخر کرتے ہیں اور مفلسی و ناداری کو باعث عار خیال کیاجاتا ہے اور امام ابویوسف کی رائے اس کے برخلاف مذکور ہے کہ وہ اس کا اعتبار نہیں کرتے کیونکہ مال ایک آنی جانی چیز ہے جس کو قرار نہیں (لأنہ لاثبات لہ اذا لمال غاد و رائح. حوالہ مذکور) نیز یہ کہ گرچہ لوگ فقر کو معیوب سمجھتے ہیں لیکن اللہ کی نگاہ میں باعث شرف و عزت ہے اسی لیے آنحضور ﷺ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے مسکینوں کی زندگی اور مسکینی کی موت عطافرما (اللھم احیینی مسکینا وامتنی مسکینا . سنن ترمذی 58/2، کتاب الزھد، سنن ابن ماجہ 396/2۔حدیث صحیح ہے ۔تعلیق الالبانی، نیز دیکھئے المبسوط 25/5، المغنی 485/6)
لیکن ابن ہمام وغیرہ نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ و محمد کی طرف اس قول کی نسبت غیر یقینی ہے ، کیونکہ ظاہر روایت میں اس کا تذکرہ نہیں ہے ، اسی لیے علامہ عینی نے اس قول کی بہ نسبت لکھا ہے کہ بے حقیقت ہے۔(لیس بشیء رمز الحقائق 222/1) اور امام سرخسی نے کہاکہ زیادہ صحیح یہی ہے کہ کثرت مال کا اعتبار نہیں ہے ۔(المبسوط 25/5)
حاصل یہ ہے کہ جن لوگوں نے مالداری میں کفاءت کا اعتبار کیا ہے ان کے پیش نظر بس اتنی سی بات ہے کہ کسی مالدار اور خوشحال شخص کو ایسے آدمی سے اپنی لڑکی کا رشتہ نہیں کرنا چاہیے جو بالکل قلاش اور بے صلاحیت اور کاہل ہو کیونکہ اس کی وجہ سے زندگی کی گاڑی کا چلنا مشکل ہے لیکن اگر کسی شخص میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ کماکر بیوی کا خرچ اٹھا سکتا ہو ، گرچہ نکاح کے وقت اس کے پاس کچھ بھی موجود نہ ہو تو اس سے رشتہ جوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، ایسا شخص مالدار عورت کا کفو ہوسکتاہے، چنانچہ ابن ھمام نے مجتبیٰ کے حوالے سے نقل کیا ہے :
الصحیح انہ اذا کان قادرا علی النفقۃ علی طریق الکسب کان کفواً ومعناہ منقول عن ابی یوسف قال اذا کان قادرا علی ایفاء ما یعجل لھا بالید ویکتسب ما ینفق لھا یوما بیوم فھو کفو والا لایکون کفأ .
صحیح یہ ہے کہ جو شخص کماکر خرچہ چلا سکتا ہے وہ کفو ہوگا، اسی طرح کی بات امام ابویوسف سے منقول ہے ، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ جوشخص عورت کو رواج کے مطابق مہر کا کچھ حصہ فوراً دے سکتاہے اور روزانہ کی کمائی سے خرچہ چلا سکتا ہے تو وہ کفو ہے ، ورنہ نہیں۔(فتح القدیر 192/3)
امام نووی شافعی لکھتے ہیں :
ان المعتبر الیسار بقدر المھر والنفقۃ فاذا ایسر فھو کفو لصاحبۃ الالوف ۔
محض مہر اور نفقہ کی حد تک مالداری کا اعتبار ہے ،لہذا ایسا شخص ہزاروں کی مالکہ کا کفو ہے۔( روضۃ الطالبین 82/7)
اور ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
والیسار المعتبر ما یقدر بہ علی الانفاق علیھا حسب ما یجب لھا ویمکنہ اداء مھرھا۔
اس مالداری کا اعتبار ہے جس کے ذریعے وہ عورت کو واجب نفقہ اور مہر دینے پر قادر ہو۔
(المغنی 485/6)
6- عیوب سے محفوظ ہونا:
شادی سے پہلے ہی مرد میں کوئی عیب ہو لیکن اس نے عورت یا اس کے سرپرستوں کو آگاہ نہیں کیا یا شادی کے بعد مرد میں کوئی عیب پیدا ہوجائے تو دونوں صورتوں میں عورت عدالت میں نکاح ختم کردینے کے لیے اپیل کرسکتی ہے ، جن عیوب کی وجہ سے عورت کو یہ حق حاصل ہوگا درج ذیل ہیں:
1-پاگل پن
2-کوڑھ
3-سیاہ و سفید داغ
4-خصی ہونا۔
5- عضو تناسل کٹا ہوا ہو۔
6-نامردی وغیرہ.
امام مالک ، شافعی، احمدبن حنبل کے نزدیک مذکورہ تمام عیوب کی وجہ سے عورت کو فسخ نکاح کا حق ملے گا، امام ابوحنیفہ کا خیال ہے کہ ان میں سے صرف پانچویں اور چھٹے عیب کی وجہ سے عورت فسخ کا مطالبہ کرسکتی ہے ، امام محمد کے نزدیک مذکورہ ان دو عیبوں کے ساتھ پاگل پن، سیاہ و سفید داغ اور کوڑھ بھی شامل ہے (الہدایہ 401/2 الشرح الصغیر467/2، المغنی 650/6، الفقہ علی المذاھب 180/4 وغیرہ) بلکہ بعض فقہی عبارتوں سے اندازہ ہوتاہے کہ امام محمد کے یہاں اس سلسلہ میں اور بھی زیادہ وسعت ہے کہ مرد میں ایسا کوئی عیب ہو کہ اس کی وجہ سے عورت کے لیے اس کے ساتھ رہنا مشکل ہے تو بھی فسخ کا مقدمہ دائر کرسکتی ہے ، چنانچہ زیلعی لکھتے ہیں:
وقال محمد ترد المرأۃ اذا کان بالرجل عیب فاحش لا تطیق المقام معہ ، لانھا تعذر علیھا الوصول الی حقھا لمعنی فیہ فکان کالجب والعنۃ.
امام محمد نے کہاکہ مرد میں کوئی فحش عیب ہو جس کی وجہ سے عورت اس کے ساتھ رہ نہ سکتی ہو تو اسے نکاح ختم کرنے کا حق ہے ، کیونکہ اس کی وجہ سے عورت کو اپنا حق حاصل کرنا مشکل ہوگا تو اس طور پر یہ آلہ تناسل کٹے ہوئے ہونے اور نامردی کے حکم میں ہوگیا۔(تبیین الحقائق 25/3)
جنون کے سلسلہ میں فقہی کتابوں میں صراحت ہے کہ فتویٰ امام محمد کے قول پر ہے۔(ان کان الجنون حادثاً یوجلہ سنۃ کالعنۃ وان کان مطبقا فھو کالجب وبہ ناخذ. الہندیۃ 134/2)
مذکورہ عیوب کے بارے میں کسی عورت کو پہلے سے علم ہو لیکن اس کے باوجود سرپرستوں کی اجازت کے بغیر اس مرد سے شادی کرلے تو امام مالک اور شافعی کے نزدیک سرپرستوں کو اعتراض کا حق ہوگا اور اس بنیاد پر وہ نکاح ختم کرسکتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان عیوب سے محفوظ ہونا ان کے نزدیک کفاءت میں شامل ہے (دیکھئے مواہب الجلیل 52/3، روضۃ الطالبین 80/7) صیمیری اور رویانی وغیرہ کا خیال ہے کہ اندھا پن بھی مانع کفاءت ہے نیز کوئی بوڑھا کسی جوان عورت کا کفو نہیں ہے ، (حوالہ مذکور 83/7)اس لیے کسی مرد میں مذکورہ عیوب میں سے کوئی عیب ہو تو وہ کسی ایسی عورت کا کفو نہیں ہوسکتا ہے جو اس مرض سے بری ہو، اس کے برخلاف حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک عیوب سے محفوظ ہونے میں کفاءت کا اعتبار نہیں ہے .(المغنی 485/6) لہٰذا کوئی عورت سرپرست کی
اجازت کے بغیر کسی عیبی اور مریض سے نکاح کرلیتی ہے تو ان کو اس بنیاد پر نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوگا،البتہ جنون کے سلسلہ میں بعض حنفی فقہاء کا خیال ہے کہ اس میں بھی کفاءت کا اعتبار ہے، چنانچہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں کہ جنون کے سلسلہ میں متقدمین سے کچھ منقول نہیں ہے اور بعد کے لوگوں میں اس مسئلہ سے متعلق اختلاف پایاجاتاہے (رد المحتار 200/4)اور ابن نجیم مصری لکھتے ہیں کہ پاگل کسی عقلمند عورت کا کفو ہوسکتا ہے تاہم اس مسئلہ میں مشائخ کے درمیان اختلاف ہے .(البحر 134/3) علامہ ابن عابدین شامی نے ابن نجیم کی اس رائے پر نقد کرتے ہوئے لکھا ہے :
قال فی النھر وقیل یعتبر لانہ یفوت مقاصد النکاح فکان اشد من الفقر ودناءۃ الحرفۃ وینبغی اعتمادہ لان الناس یعیرون بتزویج المجنون اکثر من دنی الحرفۃ الدنیئۃ وفی البنایۃ عن المرغینانی لایکون المجنون کفوا للعاقلۃ۔
نہر نامی کتاب میں ہے کہ بعض لوگوں کی رائے کے مطابق عقل میں کفاءت کا اعتبار ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو مقاصد نکاح ہی باقی نہیں رہیں گے ، لہٰذا عقل میں کفاءت فقر اور پیشہ کی کفاءت سے بڑھ کر ہے اور اس قول پر اعتماد کرنا چاہیے کیونکہ لوگ پاگل سے رشتہ کرنے کو گھٹیا پیشہ والے کے رشتہ سے زیادہ باعث عار سمجھتے ہیں اور بنایہ میں مرغینانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاگل کسی عقلمند عورت کا کفو نہیں ہے ۔(منحۃ الخالق 134/3)
اور علامہ ابن قدامہ حنبلی نے بھی لکھا ہے کہ عورت کے سرپرستوں کو کوڑھی، سفید داغ والے اور پاگل سے نکاح کرنے سے روکنے کا حق حاصل ہے ( ولولیھا منعھا من نکاح المجذوم والابرص والمجنون. المغنی 485/6)
7- آزادی:
غلامی کی حالت میں کسی باندی کی شادی کردی جائے تو آزاد ہونے کے بعد اسے اختیار ہے کہ سابق نکاح کو باقی رکھے یا ختم کردے ، اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے ، کیونکہ صحیح حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ مذکور ہے کہ بریرہ نامی ایک باندی کا نکاح مغیث نام کے ایک غلام سے ہوا تھا اور جب وہ آزاد ہوئیں تو اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اب آزاد ہو ، چاہو تو سابق نکاح کو باقی رکھو یا ختم کردو۔(الصحیح للبخاری ، کتاب العتق ، باب بیع الولاء وھبہ)
لیکن ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ کفاءت سے غیر متعلق ہے اور خیارات کے قبیل سے ہے یعنی حالت غلامی کی شادی میں باندی کی پسند و اختیار کو کوئی دخل نہیں ہوتاہے بلکہ آقا کی مرضی اور صواب دید پر منحصر ہے ، اس لیے جب آزاد ہوتی ہے تو اسے سابق معاملہ پر نظرثانی کا اختیار دیاجاتاہے۔ اس لیے امام مالک بھی اس کے قائل ہیں۔(بدایۃ المجتہد 26/2) اور اسی لیے عام طور پر فقہاء آزادی میں کفاءت سے اسے مراد بھی نہیں لیتے ہیں ، گرچہ بطور دلیل اس کا تذکرہ کیاجاتاہے بلکہ آزادی میں کفاءت کا معنی یہ ہے کہ کوئی غلام چاہے وہ حالت غلامی میں ہو یا آزاد کردیاگیا ہو کسی آزاد عورت کا کفو نہیں ہوسکتاہے اور ایسے ہی کوئی آزاد غلام اس عورت کا کفو نہیں ہوسکتاہے جو خود تو آزاد ہو لیکن باپ غلام ہو یا مرد آزاد ہے مگر باپ غلام تھا تو وہ ایسی عورت کا کفو نہیں ہوسکتاہے جو خود بھی آزاد ہو اور با پ بھی، اور جس عورت کے باپ دادا دونوں آزاد ہوں اس کا کفو وہ مرد نہیں ہوسکتا ہے جس کا داد ا غلام ہو گرچہ وہ اور اس کا باپ آزاد ہو۔ گویا کہ خاندانی اسلام کے سلسلہ میں جو تفصیل ہے وہ یہاں بھی ہے اور جو اختلاف وہاں مذکور ہوا وہ اس مسئلہ میں بھی ہے ۔(الہدایہ مع فتح القدیر والعنایہ 191/1، روضہ الطالبین 80/7)
8- وجاہت:
حنفی فقہاء نے کفاءت میں ’’حسب‘‘ کا بھی اعتبار کیا ہے بلکہ ’’حسب‘‘ اس قدر اہم ہے کہ صاحب حسب کسی شریف النسب کا کفو ہوسکتا ہے بلکہ کوئی شریف النسب بدکردار ہے تو صاحب حسب کفاءت کے اعتبار سے اس سے بڑھ جائے گا ، اس کی حیثیت اور وقعت اس درجہ ہے کہ اس کی وجہ سے نسب کی کمتری یا پیشہ کی دناءت وغیرہ کی تلافی ہوجاتی ہے ۔ (الحسب یکون کفوا لنسب . فتح القدیر 190/3)
’’حسب‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلہ میں قدرے اختلاف پایاجاتاہے، بعض حضرات کا رجحان ہے کہ حسب اچھے اخلاق کو کہاجاتاہے.( الحسب مکارم الاخلاق حوالہ مذکور) کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ’’حسب‘‘ دینداری کا نام ہے.( ویقال حسبہ دینہ .حاشیہ چلپی علی تبیین الحقائق 129/2) صدر الاسلام فرماتے ہیں کہ جاہ و حشمت اور عہدہ و منصب کے مالک صاحب حسب کہلائیں گے۔(البحرالرائق 130/3) خوارزمی نے صدر الاسلام کے حوالے سے جو عبارت ذکر کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں (الذی لہ جاہ و حرمۃ وحشمۃ ، الکفایۃ مع الفتح /192) جبکہ فتح القدیر اور بحر وغیرہ کے الفاظ یہ ہیں: (الذی لہ جاہ و حشمۃ و منصب)
لیکن فقہاء نے اس کے ذیل میں جو مسائل لکھے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حسب سے مراد علمی وجاہت اور دینداری ہے ، چنانچہ امام ابویوسف سے منقول ہے :
ان الذی اسلم بنفسہ او عتق اذا احترز من الفضائل ما یقابل بہ نسب الاخر کان کفوا لہ .(فتح القدیر 190/3)
اور علامہ ابن ہمام قاضی خاں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
قالوا الحسیب یکون کفوا للنسیب فالعالم العجمی کفوا للجاھل العربی والعلویۃ لان شرف العلم فوق شرف النسب .
فقہاء کہتے ہیں کہ صاحب حسب ، شریف النسب کا کفو ہوگا اس لیے عجمی عالم کسی عربی جاہل اور علوی کا کفو ہے، کیونکہ علم کا شرف نسب کے شرف سے بڑھ کر ہے۔(فتح القدیر 190/3)
اور علامہ ابن عابدین شامی کا بیان ہے :
کان شرف العلم اقویٰ من شرف النسب بدلالۃ الآیۃ .
علم کا شرف نسب کے شرف سے قوی ہے، قرآن کریم سے یہی معلوم ہوتاہے۔(رد المحتار 218/4)
اورجو لوگ علم دین کے مقابلہ میں نسب کو ترجیح دیتے ہیںان سے وہ بڑے تیکھے انداز میں سوال کرتے ہیں:
وکیف یصح لاحد ان یقول ان مثل ابی حنیفۃ او الحسن البصری وغیرھما ممن لیس بعربی انہ لایکون کفوا لبنت قرشی جاھل او لبنت عربی بوال علی عقبیہ ۔
کسی کے لیے یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ ابوحنیفہ اور حسن بصری وغیرہ جیسے غیر عربی کسی جاہل قریشی یا اپنے پاؤں پر پیشاب کرنے والے کسی عربی کی بیٹی کے کفو نہیں ہیں؟۔(حوالہ مذکور)
واضح رہے کہ حسب سے مراد جاہ و حشمت اور منصب ہو تو پھر وہ کسی عربی کا کفو نہیں ہوسکتاہے، اس کی وجہ سے نسب کی کمی کی تلافی نہیں ہوسکتی ہے جیساکہ ابن عابدین شامی نے رد المحتار میں اور منحۃ الخالق میں لکھا ہے۔
فقہاء کی ان تصریحات کے بعد کہ علمی شرافت سے پیشہ کی کمتری کی تلافی ہوجاتی ہے۔( ان شرف النسب او العلم یجبر نقص الحرفۃ بل یفوق سائر الحرف . رد المحتار 218/4) کیا کسی کے لیے کہ کہنے کی گنجائش ہے کہ جولاہے اور کھال پکانے والے اگر عالم بھی ہوجائیں جب بھی شرفاء کے کفو نہیں ہوسکتے ہیں۔(فتاویٰ رضویہ 117/3)
سچ تو یہ ہے کہ معیار فضیلت وہ علم دین ہی ہے جو ہمدوش عمل ہو ، اس کے سامنے ہر فضیلت ہیچ ہے ، گر انسانوں میں باہم فرق کیاجاسکتاہے تو اسی وجہ سے چنانچہ ارشاد ربانی ہے :
*ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون؟
کیا عالم اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں ؟ (سورہ الزمر :9)
*یرفع اللہ الذین آمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات.
اللہ ایمان والوں کو رفعت عطا کرتا ہے اور علم والوں کے درجے بہت بلند ہیں۔( سورہ مجادلہ /11)
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
الناس معادن کمعادن الذھب والفضۃ خیارھم فی الجاھلیۃ خیارھم فی الاسلام اذا فقھوا.
لوگ سونے اور چاندی کے کان کی طرح ہیں جو ان میں زمانہ جاہلیت میں اچھے کردار کا ہوتا ہے وہ اسلام کے بعد بھی ویسے ہی ہوتاہے بشرطیکہ دین کی سمجھ حاصل کرلے۔(رواہ مسلم. مشکاۃ70/1)
اور ’’حسب‘‘ سے متعلق فقہی عبارتوں سے اندازہ ہوتاہے کہ کفاءت میں اصل حیثیت اسی کی ہے، اس کے علاوہ بقیہ چیزیں بنیادی حیثیت سے کفاءت میں شامل نہیں ہیں بلکہ حالات، معاشرتی رواج پر مبنی ہیں، گر حالات و عادات بدل جائیں تو ان کی حیثیت میں بھی تبدیلی ہوجائیگی ، چنانچہ عجمیوں میں نسبی اعتبار سے کفاءت غیر معتبر ہونے کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ یہ چیز ان میں باعث فخر نہیں ہے اور اہل عجم میں پیشہ میں کفاءت کے مسئلہ میں فقہاء نے بصراحت لکھا ہے :
ان الموجب ھو استنقاص اھل العرف فیدور منہ۔
اصل سبب عرف میں کسی چیز کا کم تر ہونا ہے لہذا مدار عرف پر ہوگا۔
اسی بنیاد پر علامہ ابن ھمام نے لکھا ہے کہ اسکندریہ میں بنائی کے پیشہ کو اچھا سمجھا جاتا ہے، یہ وہاں باعث نقص نہیں ہے ، لہٰذا وہاں بنائی کرنے والا دوا فروش کا کفو ہوسکتاہے ( فتح القدیر 193/3)ایسے ہی خاندانی اسلام میں کفاءت کے سلسلہ میں علامہ کاسانی نے لکھا ہے:
ایسی جگہ جہاں قریبی زمانہ میں اسلام پھیلا ہواور وہاں نو مسلم ہونا باعث عار اور عیب نہ سمجھاجاتا ہو تو وہاں آپس میں ایک دوسرے کے کفو ہوسکتے ہیں۔(البدائع 319/2)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ سب چیزیں معاشرتی مصالح پر مبنی ہیں اور تمام تر دارومدار عرف و رواج پر ہے اور اب بدلتے ہوئے معیار اور قدروں کا تقاضا ہے کہ ان چیزوں میں کفاءت کا خیال نہ رکھنا چاہیے کہ اس سے بڑی خرابی پیدا ہورہی ہے ، سب سے بڑی خرابی تو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے غیرمسلموں میں اسلام کے متعلق غلط پیغام جارہا ہے ، دوسرے اس کی وجہ سے مسلمانوں میں اونچ نیچ کا تصور پیدا ہوتا جارہا ہے حالانکہ یہ صراحتاً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور اس کی وجہ سے مسلمانوں میں طبقاتی کشمکش کو ہوا مل رہی ہے ، اسلام دشمن عناصر اس کے سہارے مسلمانوں میں ذات پات کے نظام کو برپا کرنے اور آپس میں نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کررہے ہیں، انھیں مختلف خانوں میں بانٹ کر بے اثر کرنے کی منظم سازش ہورہی ہے اور اپنی اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں۔
نیز یہ کہ برادری اور پیشہ وغیرہ میں برابری کی تلاش میں نہ معلوم کتنی لڑکیاں بن بیاہی پڑی رہ جاتی ہیں یا انھیں برادری کے ایسے شخص کے پلے باندھ دیاجاتاہے جو تعلیم ، اخلاق و کردار ، رہن سہن کے اعتبار سے اس سے فروتر ہوتاہے، حالانکہ ان کی نگاہ میں ایسا لڑکا بھی ہوتاہے جو تعلیم، معیار زندگی، اخلاق و کردار کے اعتبار سے ان کے معیار پر پورا اترتا ہے اور لڑکی بھی ذہنی اعتبار سے اس سے وابستہ ہوتی ہے مگر برادرانہ نخوت کی وجہ سے اس رشتہ سے انکار کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے آئے دن آشنا کے ساتھ فرار ، کورٹ میرج بلکہ خود کشی تک کے واقعات پیش آرہے ہیں۔
حاصل بحث:
کفاءت ، برابری اور ہم مثل کے معنی میں آتاہے اور فقہی اصطلاح میں کفاءت یہ ہے کہ دینداری اور نسب وغیرہ کے اعتبار سے مردوعورت دونوں ہم پلہ یا مرد وعورت سے بڑھا ہوا ہو ۔
1- مردو عورتوں کے درمیان ہم آہنگی اور عقد نکاح کی پائیداری کے لیے ضروری ہے کہ مرد دینداری اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے عورت کے ہم پلہ یا اس سے بڑھ کر ہو ، ایسے ہی مرد کے لیے مناسب ہے کہ وہ پیغام دینے والی عورت کی دینداری کو پیش نظر رکھے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جس کی موجودگی میں اس نازک ترین بندھن کے استحکام کی ضمانت دی جاسکتی ہے ، اس کے علاوہ نسب ، پیشہ ، خاندانی اسلام وغیرہ میں برابری اور کفاءت کا لحاظ کرنا غیرضروری ہے کیونکہ دینداری کے علاوہ دوسری کسی چیز میں کفاءت قرآن و حدیث اور صحابہ کے قول و عمل سے ثابت نہیں ہے بلکہ آیت قرآنی، احادیث رسولؐ اور صحابہ کے طرز عمل سے اس کے برخلاف معلوم ہوتاہے۔
نیز نسب اور پیشہ وغیرہ میں کفاءت کی پوری عمارت نسلی اور پیشہ ورانہ تفاخر اور اونچ نیچ ، شریف اور رذیل کے تصور پر قائم ہے ، کفاءت اور ذات پات کا تصور لازم و ملزوم ہے ، یہ کہاجاسکتاہے کہ ائمہ مذاہب فقہیہ نے کفاءت کو مساوات نہیں بلکہ مماثلت اور میچنگ کے مفہوم میں استعمال کیا ہے ، لہٰذا وہ مساوات انسانی کے خلاف نہیں ہے اور تمام انسانوں کے حسب و نسب اور پیشہ وغیرہ میں برابر ہونے کے باوجود مماثلت اور مناسبت کے طور پر کفاءت کی شرط لگائی گئی تھی لیکن موجودہ پس منظر میں کفاءت نسبی وغیرہ سے اونچ نیچ کا تصور اس طرح سے جڑا ہوا ہے کہ اسے ختم کرنا محال ہے ، لہٰذا غیراسلامی فکر پہ قائم اس عمارت کو آہستہ آہستہ گرادینا چاہیے کیونکہ اسلام میں ذات پات کے نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، وہ ہمہ گیر اور وسیع انسانی برادری کا تصور دیتاہے ، اس کے تمدن کی پوری عمارت برابری اور مساوات کی اینٹ پر قائم ہے اور یہی وہ نظریہ ہے جو اسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتاہے، یہاں یہ ذہن بنایا جاتاہے کہ تمام انسان ایک رب کے بندے اور ایک باپ کی اولاد ہیں اور نسل و پیشہ کے اعتبار سے نہ کوئی برتر ہے اور نہ کمتر، معیار فضیلت صرف ایک چیز علم ہے، جو ہمدوش عمل ہو اور قبیلہ و خاندان کی تقسیم کا مقصد محض تعارف ہے ، تفاضل نہیں ہے اور اخلاق و کردار اور شرافت کا تعلق حسب و نسب سے نہیں بلکہ ذاتی کسب اور سماجی ماحول سے متعلق ہے ، پیدائشی اور نسلی اعتبار سے نہ کوئی شریف ہے اور نہ کوئی رذیل، بلکہ شرافت اور عزت کا معیار پر ہیز گاری اور خدا ترسی ہے۔
2- مختلف قسم کے پیشہ ضروریات انسانی کی تکمیل کے لیے ہیں، دنیا کا کوئی پیشہ حقیر اور ذلیل نہیں ہے ، ذلیل پیشہ صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ہے دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانا ، البتہ اگرکسی پیشہ کی وجہ سے اخلاق و کردار متاثر ہوجائے تو اسے بنیاد بناکر کفاءت کا اعتبار کیاجاسکتاہے۔
3- جوشخص اسلام کے دامن میں پناہ لے لے وہ امت مسلمہ کا ایک فرد ہے اور باپ دادا کا غیرمسلم ہونا اس کے لیے باعث عیب نہیں ہے ، وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے مسلم سماج میں ضم کرنے کی کوشش کی جائے، وہ ایک خاندان اور سماج کو چھوڑکر آیا ہے اور محض اسلام کے نام پر چھوڑا ہے اس لیے ہماری مذہبی ذمہ داری اور غیرت اسلامی کا تقاضا ہے کہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیاجائے اور اس کے معاشرتی مسائل کو حل کیاجائے، اسے حقیر اور کمتر سمجھ کر اس سے شادی بیاہ کامعاملہ نہ رکھنا اور اس سلسلہ میں سردمہری کا رویہ اپنانا شرعاً ناجائز ہے۔
4- شریعت کی نگاہ میں مال و دولت کی فراوانی باعث عزت ہے اور نہ کمی باعث ذلت و حقارت، البتہ ناکارہ اور نکما بن کر رہنا درست نہیں ہے ، اس لیے اللہ کی دی ہوئی صلاحیت اور قوت کو استعمال کرکے رزق کا متلاشی عزیز ہے اور ایسا نادار کسی مالدار سے کمتر نہیں ہے ، لہٰذا جوشخص روزانہ کی کمائی سے بال بچوں کا خرچہ چلا سکتا ہے وہ کسی مالدار سے مالدار عورت کا کفو ہے۔
5- صحت و تندرستی نکاح کی بنیادی شرائط میں سے نہیں ہے تاہم کسی عورت کے لیے عیبی اور بیمار مرد کے ساتھ نباہ مشکل ہوجائے تو وہ تفریق کا مطالبہ کرسکتی ہے۔
6- دینداری کے علاوہ مذکورہ چیزوں میں کفاءت کا اعتبار نہ ہونے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ لازمی طور پر ہر شخص کے لیے دوسرے خاندان میں نکاح کرنا ضروری ہے اور اس کے بغیر مساوات کا تصور نہ مکمل ہوگا بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ نکاح کے صحیح اور لازم ہونے کے لیے ان چیزوں کی رعایت ضروری نہیں ہے ، لہٰذا غیر خاندان کے کسی لائق لڑکے سے کوئی لڑکی رشتہ کرلیتی ہے جس سے وہ ذہنی طور پر وابستہ تھی تو نسب، پیشہ اور قدیمی اسلام وغیرہ کی بنیاد پر سرپرستوں کو فسخ کرنے کا حق نہ ہوگا۔ نیز سرپرست حضرات رشتہ کی تلاش میں سماجی اور معاشرتی معیار ، رہن سہن اور طرززندگی کو ملحوظ رکھیں تو کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ ایک حد تک مناسب ہے کہ طرز معاشرت میں یکسانیت کی وجہ سے ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوگی، کہا جاسکتاہے کہ بعض حدیثوں میں کفاءت کا تذکرہ اسی حیثیت سے ہے کہ ایسا کرنا پسندیدہ اور بہترہے مگر لازم اور ضروری نہیں ہے لیکن شریف و رذیل اور اونچ نیچ کا تصور نہ ہونا چاہیے۔
7- عقد نکاح میں قابل لحاظ چیز وہ علم ہے جو ہمدوش عمل ہو، یہی وہ چیز ہے جس کے سامنے تمام شرافتیں ہیچ ہیں، اس کے علاوہ دیگر چیزوں میں زیادہ جذباتی نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس کی بنیاد پر اونچ نیچ اور شریف و رذیل کے خانوں میں انسانوں کو تقسیم کرنا چاہیے ، خصوصاً ہندوستان کے پس منظر میں مسلمانوں کو کچھ زیادہ ہی حساس ہونا چاہیے کیونکہ اس کے ذریعہ سے بعض سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو مختلف خیموں میں بانٹ کران کو بے اثر کرنا چاہتی ہیں اور مسلمانوں میں بھی ذات پات کی آویزش کو ہوا دے رہی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندؤں کی طرح مسلمانوں میں بھی طبقاتی نظام کا وجود ہے اور یہ چیز غیرمسلموں کو قبول اسلام سے روک رہی ہے۔
8- جمہور فقہاء کے نزدیک کفاءت کا اعتبار صرف عورت کی طرف سے ہوگا یعنی مرد کو مذکورہ چیزوں میں عورت کے برابر یا اس سے برتر ہونا چاہیے، مرد کی طرف سے کفاءت کا اعتبار نہیں ہے ، لہٰذا کوئی مرد گھر والوں کی رضامندی کے بغیر بے کفو نکاح کرلیتاہے تو وہ درست ہے اور سرپرست وغیرہ کو اعتراض کا حق نہ ہوگا، لیکن امام ابویوسف و محمد کے نزدیک کفاءت کا اعتبار دونوں طرف سے ہوگا کیونکہ جس طرح سے لڑکی کے غیرکفو میں نکاح کرنے کی وجہ سے سرپرست کی بدنامی ہوتی ہے ایسے ہی لڑکے کے بھی غیرکفو میں نکاح کی وجہ سے سرپرستوں کی رسوائی ہوتی ہے بلکہ غیر کفو کی عورت سے پیدا شدہ بچے تک کو معاشرہ میں گری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور طعنہ دیاجاتاہے۔(دیکھئے: رد المحتار 207/4، روضۃ الطالبین 83/7، المغنی 487/6، الدسوقی249/2)
9- کفاءت عورت اور سرپرست دونوں کا حق ہے ، لہٰذا ان میں سے کوئی ایک غیرکفو کے پیغام کو منظور کرلے تو دوسرے کو نکاح ختم کردینے کے مطالبہ کا حق حاصل ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ غیرکفو میں کیاہوا نکاح درست ہے ، البتہ سرپرست عورت کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح غیرکفو میں کردے یا عورت سرپرست کی اجازت کے بغیر غیرکفو میں اپنا نکاح کرلے تو دونوں میں سے ہر ایک کو حق ہے کہ قاضی کی عدالت میں اس نکاح کو فسخ کردینے کا دعویٰ کرے، امام مالک اور امام شافعی کی یہی رائے ہے ، امام احمد سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے اور ابن قدامہ حنبلی کے بیان کے مطابق یہی راجح ہے ، امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف و محمد بھی اسی کے قائل ہیں اور یہی ظاہر روایت ہے ۔(امام محمد کی چھ کتابوں: الجامع الصغیر، الجامع الکبیر، السیر الصغیر، السیر الکبیر، المبسوط، الزیادات میں مذکور مسائل کو ظاہر روایت کہاجاتاہے) چونکہ یہ اقوال زیادہ قابل اعتماد ذرائع سے ہم تک پہنچے ہیں اس لیے ان کو دیگر کتابوں میں منقول اقوال پر ترجیح دی جاتی ہے، امام احمد بن حنبل کا دوسرا قول یہ ہے کہ غیر کفو میں کیا ہوا نکاح درست ہی نہیں ہے ، حسن بن زیاد کے حوالے سے امام ابوحنیفہ سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے اور متاخرین فقہاء نے اسی پر فتویٰ دیاہے۔(رد المحتار 206/4، روضۃ الطالبین 84/7، فتح الباری 132/9، المغنی 481/6) لیکن دوسرے بہت سے مشائخ نے پہلے قول پر فتویٰ دیاہے اور یہی راجح ہے کیونکہ فقہاء حنفیہ کے یہاں اصول ہے کہ جب مشائخ کے فتاویٰ میں اختلاف ہو تو ظاہر روایت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ (رد المحتار 51/1) نیز اس قول پر امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف اور امام محمد کا اتفاق ہے اور علامہ حصکفی نے لکھاہے کہ جس قول پر ہمارے تینوں اماموں کا اتفاق ہوجائے تو قطعی طور پر اسی پر فتویٰ دیاجائے گا۔(الدر المختار 49/1)
٭٭٭
شائع شدہ: سہ ماہی تحقیقات اسلامی ،علی گڑھ ،اپریل 2001ء