پیداوار میں اضافہ کے لیے زہریلی دواؤں
اور حرام و ناپاک چیزوں کا استعمال۔

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

جسم و جان اور صحت و تندرستی ایک گراں قدر نعمت اور امانت ہے ، جس کی حفاظت اور نگہداشت ایک شرعی فریضہ ہے اور اس میں کسی طرح کی کوتاہی اور غفلت جرم ہے ، اللہ عزو جل کا ارشاد ہے :
’’ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ‘‘۔
’’اور خود کو اپنے ہاتھوں تباہی میں مت ڈالو ‘‘۔(سورۃ البقرۃ:195)
نیز فرمایا گیا ہے :
’’ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا‘‘۔
’’اور اپنے آپ کو قتل مت کرو ، بلا شبہ اللہ تعالیٰ تم پر بہت مہربان ہیں ‘‘۔(سورۃ النساء:29)
اور صحت جسمانی کے پیش نظر قرآن میں مردار ، خون اور خنزیر وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
’’ من تردی من جبل فقتل نفسہ فھو فی نارجھنم یتردی فیہ خالد مخلدا فیھا ابدا ومن تحسی سما فقتل نفسہ فسمہ فی یدہ یتحساہ فی نارجھنم خالد مخلدا فیھا ابدا ومن قتل نفسہ بحدیدۃ فحدیدتہ فی یدہ یجأ بھا فی بطنہ فی نارجھنم خالدا مخلدا فیھا ابدا‘‘۔
’’ جو کوئی خود کو پہاڑ سے گرا کر مار ڈالے تو اسے جہنم کی آگ میں ہمیشہ پہاڑ سے گرایا جائے گا ، اور جو کوئی زہر کھا کر خود کو ہلاک کر لے تو جہنم کی آگ میں ہمیشہ اپنے ہاتھ میں زہر لے کر اسے کھاتا رہے گا اورجو کوئی کسی دھار دار ہتھیار سے خود کشی کرلے تو جہنم کی آگ میں ہمیشہ اس ہتھیار کو اپنے پیٹ میں گھونپتارہے گا ‘‘۔(صحیح بخاری5778،صحیح مسلم:175)
اسلام کی روح عبادت ہے ، لیکن صحت جسمانی کی حفاظت کے پیش نظر اس میں بہت زیادہ انہماک سے منع کیاگیاہے ، چنانچہ حدیثوں میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رات و دن کچھ کھائے پیئے بغیر لگاتار روزہ رکھنے سے ممانعت فرمائی ہے ، ایک صحابی سے آپؐ نے پوچھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم مسلسل روزے رکھتے ہو اور رات بھر نماز پڑھتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا ؛ ہاں ، میرا مقصد زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنا ہے ، آپؐ نے فرمایا کہ ایسا مت کر و ، کیونکہ :
’’تم ایسا کروگے تو تمہاری نگاہ کمزور ہوجائے گی اور تمہارا نفس اکتا جائے گا ‘‘۔
’’ فانک اذا فعلت ذلک ھجمت عینک ونفھمت نفسک‘‘. (صحیح بخاری49/2 ،کتاب التہجد)
اور ایک روایت میں ’’نکھت” کا لفظ آیا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ اس کی وجہ سے تم کمزور اور لاغر ہوجاؤ گے ۔‘‘۔(فتح الباری:38/3)
اور شراب کی حرمت کی ایک وجہ انسانی جسم کے لیے اس کا نقصان دہ ہونا بھی ہے ، اسی لیے فقہاء لکھتے ہیں کہ کسی چیز کے کھانے پینے کی حرمت کی ایک وجہ اس کا ضرر رساں ہونا ہے ، چنانچہ مولانا عبدالحی فرنگی محلی لکھتے ہیں :
’’ کسی چیز کے کھانے پینے کے حرام ہونے کی وجہ کبھی اس کا نقصان دہ ہونا ہوتا ہے ، جیسے کہ زہر اور کبھی نشہ آور ہونا ، جیسے کہ شراب ، یا نجس ہونا جیسے کہ پیشاب و پائخانہ ، یا عقل کو ماؤف کردینا ، جیسے کہ بھانگ ، یا گھنائونا اور گندا ہونا ہوتا ہے ، جیسے کہ لعاب ، ناک کی ریزش وغیرہ ‘‘۔(ترویج الجنان:34)
اور علامہ شامی رقم طراز ہیں :
’’…یہی حکم ان جامد چیزوں کا بھی ہے جو عقل وغیرہ کے لیے ضرر رساں ہوں ، ایسی چیزوں کا اتنی مقدار میں استعمال کرنا حرام ہے جو نقصان دہ ہو ، اور کم مقدار جو مفید ہو وہ حرام نہیں ہے ، کیونکہ اس کی حرمت ذاتی نہیں ہے بلکہ اس کے نقصان کی وجہ سے ہے ‘‘۔(رد المحتار:40/10)
اور بھانگ و افیون کے اختلاط سے بنی ہوئی ’’برش‘‘ نامی چیز کے متعلق کہتے ہیں کہ :
’’اس کے بکثرت استعمال سے جسم خراب اور عقل فاسد ہوجاتی ہے ، بھوک اور شہوانی قوت ختم ہوجاتی ہے ، رنگ پھیکا پڑجاتا ہے اور قوت میں کمی آجاتی ہے اور اس کے علاوہ بہت سے نقصانات ہیں ‘‘۔(حوالۂ مذکور:41/10)
اور فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
’’ اذا کان یخاف علی نفسہ انہ لو اکلہ اورثہ ذلک علۃ او آفۃ لایباح لہ التناول وکذلک ھذا فی کل شییٔ‘‘۔ (فتاویٰ ہندیہ:240/5)
’’اگراسے اندیشہ ہوکہ اسے کھانے کی وجہ سے کسی بیماری یا آفت میں مبتلا ہوجائے گا تو اس کاکھاناجائز نہیں ہے اور یہی حکم دوسری چیزوں کا بھی ہے ‘‘۔
اور علامہ وہبہ زحیلی لکھتے ہیں :
’’نباتاتی اشیاء جو کھائی جاتی ہوں سب حلال ہیں مگر یہ کہ وہ نجس ، نقصان دہ یا نشہ آور ہوں ، نقصان دہ چیزیں جیسے زہر ، ناک کی ریزش، منی، مٹی، پتھر وغیرہ ‘‘۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ:506/3)
مذکورہ آیتوں ، روایتوں اور فقہی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ :
پیدا وار میں اضافہ یا پھلوں کو کیڑوں سے بچانے یا دودھ کی مقدار بڑھانے یا جانوروں کو فربہ کرنے کے لیے ایسے زہرآلود مادوں کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے ، جس کا اثر کھانے والوں تک پہنچتاہو اور وہ بتدریج خطرناک بیماریوں کا سبب بنتا ہو، جیسے کہ کینسر وغیرہ۔
البتہ بعض حالات میں پیدا وار میں اضافہ یا اسے کیڑے مکوڑوں سے بچانا اس کے بغیر دشوار ہوتا ہے ، ایسی صورت میں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا نقصان دہ پہلو غالب ہے کہ عام طور پر لوگ اس کی وجہ سے کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا بہت کم لوگ اس کی زد میں آتے ہیں ،جیسے کہ بعض دواؤں کے ضرر رساں پہلو کی وجہ سے کچھ لوگوں کے گردے فیل ہوجاتے ہیں ، ایسی صورت میں اس کے غالب فائدے کا اعتبار ہوگا ،اور ضرورت کے پیش نظر اسے گوارا کیاجائے گا ، جیساکہ فقہی ضابطہ ہے کہ عمومی ضرر کو ختم کرنے کے لیے خصوصی ضرر کو بر داشت کیاجائے گا ، پیداوار میں اضافہ نہ کرنے یا انہیں نہ بچانے کی وجہ سے عمومی نقصان ہوگا، اور لوگ غذائی قلت کا شکارہوں گے ، علامہ وہبہ زحیلی نے فقہ حنبلی کے حوالہ سے لکھاہے کہ :
’’زہریلی دوا کے پینے کی وجہ سے عام طورپر لوگ ہلاک یا پاگل ہوجاتے ہیں تو اس کا پینا حلال نہیں ہے اور اگر عام طور پر لوگ صحیح و سالم رہتے ہیں اور اس سے کوئی فائدہ وابستہ ہو تو اس کا پینا جائز ہے تاکہ اس سے زیادہ خطرناک چیزکو ختم کیاجاسکے ‘‘۔(حوالۂ مذکورہ:538/3)
جانوروں کو فربہ کرنے کے لیے ایسی غذائیں دی جاسکتی ہیں جن میں نجس وحرام چیزوں کی آمیزش ہو بشرطیکہ یہ چیزیں مغلوب ہوں ، نیز ان کے اثرات ان میں منتقل نہ ہوں ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ سے مرغی کا گوشت کھانا ثابت ہے ، حالانکہ یہ ان جانوروں میں سے ہیں جو نجس چیزیں بھی کھاجاتے ہیں ، امام بخاری وغیرہ نے نقل کیا ہے :
’’ عن ابی موسیٰ قال جاء رجل وھویأکل دجاجا فتنحی فقال انی حلفت ان لا أکلہ، انی رأیتہ یاکل شیئا قذرا فقال ادنہ فقد رأیت رسول اللّٰہ یاکلہ‘‘ (مسند احمد۔ صحیح بخاری:5518)
’’حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ مرغی کا گوشت کھارہے تھے ، اتنے میں ایک آدمی آیا اور ایک کنارے جاکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں نے اسے نہ کھانے کی قسم کھا رکھی ہے ، حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے فرمایاکہ قریب آجاؤ اور کھاؤ ، میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو اس کا گوشت تناول کرتے ہوئے دیکھاہے ‘‘۔
اور فقہ حنفی کی مشہور کتاب در مختار میں ہے :
’’اگرکوئی جانور دیگر چیزوں کے ساتھ نجاست بھی کھائے لیکن اس کی وجہ سے اس کے گوشت میں بدبو پیدا نہ ہو تو اس کا کھانا حلا ل ہے ، جیسے کہ بکری کے اس بچے کو کھانا درست ہے جس کی پرورش خنزیر کے دودھ سے ہوئی ہو ، اس لیے کہ اس کی وجہ سے اس کے گوشت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی اور جو غذا اسے دی گئی ہے وہ ختم ہوچکی ہے ، اس کا کوئی اثر باقی نہیں ہے ‘‘۔(الدر المختار مع الرد492/9)
لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب کہ اس کے اثرات گوشت میں منتقل نہ ہوں ، اور اگر حرام اور نجس جانوروں کے اثرات غذ ا کے ذریعہ اس میں منتقل ہوجائیں تو اس کا کھانا مکروہ تحریمی ہوگا،(الدر المختارمع الرد:492/9)
چنانچہ ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ:
’’نھی رسول اللّٰہ عن اکل الجلالۃ والبانھا‘‘ ۔
’’رسول اللہ ﷺ نے جلالہ جانور کے کھانے اور اس کے دودھ پینے سے منع فرمایا ہے ‘‘۔( نیل الاوطار:140/8)
اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
’’ نھی رسول اللّٰہﷺ عن الجلالۃ فی الابل ان یرکب علیھا او یشرب من البانھا‘‘.
’’رسول اللہ ﷺ نے جلالہ اونٹ پر سوار ہونے اور اس کے دودھ پینے سے منع فرمایا ہے ‘‘۔(ابوداؤد:3785،نسائی4447،ترمذی:1824)
علامہ شوکانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’گندگی اور گوبر کھانے والے جانور کو جلالہ کہا جاتا ہے …بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر وہ نجس چیزوں کو زیادہ کھاتا ہو تو اسے جلالہ کہاجائے گا ، اور اگر غالب غذا پاک چیزوں پر مشتمل ہو تو وہ جلالہ نہیں ہے …صحیح یہ ہے کہ اس میں کم یا زیادہ کھانے کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، بلکہ اس میں معیار بدبو ہے ، اگر اس کی وجہ سے شوربہ ، گوشت ، ذائقہ یا رنگ میں تبدیلی واقع ہوجائے تو وہ جلالہ ہے، اور’’ نہی‘‘اپنی حقیقت کے اعتبار سے حرمت پر دلالت کرتی ہے ، اس سے مذکورہ حدیثوں سے بظاہر جانور کے گوشت کی حرمت معلوم ہوتی ہے ‘‘۔(نیل الاوطار:140/8)
ماضی میں اثرات کے منتقل ہونے کا علم ، اس کے گوشت میں بدبو وغیرہ کے ذریعہ ہوتا تھا، آج اس سلسلہ میں جدید ذرائع سے بھی مدد لے کر دیکھنا ہوگا کہ اس کے مضر اثرات و خصوصیات اس میں منتقل ہوئے ہیں یا نہیں ؟ محض گوشت کی تبدیلی پر اکتفا نہیں کیا جائے گا۔
غذائی مصنوعات میں مضر صحت اشیاء کا استعمال ممنوع ہے ، اگر اس کا نقصان دہ ہونا یقینی اور عام ہو تو حرام ہوگا ورنہ مکروہ ، اور ایسی چیزوں کی خرید وفروخت ، خود کھانا اور دوسروں کو کھلانا درست نہیں ہے ، جیساکہ علامہ شامی نے لکھاہے کہ :
’’ ان ما قامت المعصیۃ بعینہ یکرہ بیعہ تحریما والافتنزیھا‘‘ (رد المحتار:561/9)
’’اگر معصیت اس کی ذات سے متعلق ہو تو اسے بیچنا مکروہ تحریمی ورنہ مکروہ تنزیہی ہے ‘‘۔
٭٭٭

Related Post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے