بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

 

سلسله(20)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل

 

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242

 

10-کھیل کود بطور پیشہ :

 

کھیل کود بذات خود مقصود نہیں ہے بلکہ بعض مقاصد کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہے ۔اس لئے کھیل برائے کھیل اور اس میں انہماک اور غلو جائز نہیں ہے۔ اور کسی کھیل کو کسب معاش کا وسیلہ اور روزی روٹی کے حصول کا ذریعہ اور مستقل پیشہ بنانے کا مطلب ہے کہ کھیل کو مقصد بنالیا گیا ہے اور یہ اس میں حد درجہ انہماک کا تقاضا کرتا ہے اور یہ دونوں چیزیں ممنوع ہیں، لہذا اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے ۔چنانچہ علامہ شامی کہتے ہیں:

   جہاد کے لیے قدرت و طاقت کے حصول کے مقصد سے کشتی کی اجازت حدیث میں دی گئی ہے نہ کہ محض کھیل تماشا کے طور پر؛ کیونکہ یہ مکروہ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہی بات  گھوڑے کو سدھانے میں اور تیر اندازی کرنے میں بھی کہی جائے گی۔۔

نیز وہ کہتے ہیں:

  اگر مقصد کھیل یا فخر یا بہادری دکھانا ہو تو ظاہر ہے کہ یہ چیزیں مکروہ ہیں اس لیے کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے تو جس طرح سے  کوئی مباح چیز نیت کی وجہ سے طاعت بن جاتی ہے اسی طرح سے طاعت نیت کی وجہ سے معصیت بن جاتی ہے۔(رد المحتار 651/9- 664)

اور امام غزالی کہتے ہیں:

  اللعب مباح لكن المواظبة عليه مذمومة۔

 کھیل کود جائز ہے لیکن اس میں لگے رہنا قابل مذمت ہے۔(احیاء علوم الدین128/3)

اور علامہ ابن قیم کہتے ہیں:

حکمت کا تقاضا ہے کہ کھیل کود کی گنجائش رکھی جائے اس لیے کہ اس میں جسم وجان کو آرام اور راحت پہنچانا ہے اورحکمت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ  اس میں عوض حرام ہو  کیونکہ اگر عوض کے ساتھ جائز قرار دیا جائے تو لوگ اسی کو پیشہ اور کمائی کا ذریعہ بنا لیں گےاور اس کی وجہ سے دین اور دنیا کی بہت سی مصلحتوں سے غافل ہو جائیں گے۔ اور اگر محض کھیل کی حد تک محدود ہو اور اس میں کسی طرح کی کمائی نہ ہو تو عام طور پر لوگ اسے دنیاوی اور دینی مصلحت پر ترجیح نہیں دیں گے اور صرف وہی لوگ اسے ترجیح دیں گے جو پیدائشی طور پر نکمے ہیں۔(الفروسية /172)

 

11- کھیل دیکھنا:

 

    وہ کھیل اور تماشا جو اسلامی نقطۂ نظر سے درست نہیں اس کا دیکھنا بھی جائز نہیں ، یہاں تک کہ ایسے کھیل کود کی آواز سننا بھی مکروہ ہے۔(البحر الرائق 207/8)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ  مُعۡرِضُوۡنَ.

اور جو لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ (سورہ المؤمنون : 3)

حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

:”خود تو لہو و لعب میں مصروف نہیں ہوئے بلکہ اگرکوئی اور شخص مصروف ہو تو اس سے بھی اعراض کرتے ہیں‘‘۔(فتاویٰ مفتی محمود،کتاب الحظر و الاباحہ ، 11/295، جمعیۃ پبلیکیشنز)

  لہذا ناجائز اور بے فائدہ کھیل و تماشا دیکھنا مکروہ تحریمی ہے ، خاص کر کراہت اس وقت اور دو چند ہوجاتی ہے جبکہ ستر پوشی کا کوئی اہتمام نہ ہو۔ اور دیکھنے میں مشغول ہوکر نماز و دیگر واجبات سے غافل ہوجائے، اسی طرح ریڈیو پر ایسے کھیلوں کو کو سننا مکروہ ہے۔

  البتہ مباح کھیل دیکھنا درست ہے حدیث گزر چکی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حبشیوں کے کھیل کو دیکھا اور حضرت عائشہ صدیقہ کو دکھایا ۔

    جوشخص ناجائز کھیلوں میں مشغول ہو امام ابویوسف کے یہاں اسے سلام کرنا مکروہ ہے، امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ سلام کرنا جائز ہے کیونکہ جتنی دیر میں وہ سلام کا جواب دے گا ، کم از کم اتنی دیر تک تو وہ گناہوں سے محفوظ رہے گا۔(بدائع الصنائع 127/5)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے