بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(1)
کھیل کود سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242

1-کھیل‌کود :

کھیل کود وغیرہ کے لیے عربی زبان میں دو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں: لھو اور لعب.
"لعب ” ہر ایسے عمل کو کہا جاتا ہے جس کا کوئی صحیح مقصد نہ ہو، بعض لوگوں نے کہا کہ لعب وہ کام ہے جو محض لذت طلبی کے لیے کیا جائے، اس میں کوئی فائدہ اور حکمت پیش نظر نہ ہو جیسے کہ بچوں کا کام کہ وہ فائدہ اور حکمت کو نہیں جانتے بس لذت اور مزا حاصل کرنے کے لیے اسے انجام دیتے ہیں.
اور لھو ایسی تفریح کو کہتے ہیں جس میں حکمت کے تقاضے کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو ۔دوسرے الفاظ میں بے فائدہ کھیل تماشا کو لہو کہا جاتا ہے۔ انما اللهو لعب لا يعقب نفعا (الموسوعة الفقهيية الكويتية268/35)

کھیل کی شرعی حیثیت:

انسانی فطرت میں کھیل کود اور تفریح کا میلان رکھا گیا ہے گویا کہ کھیل کود فطری جذبات و خواہشات کا ایک حصہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ چیزیں ہمیشہ سے انسانی سماج میں رائج رہی ہیں.
اور اسلام دین فطرت ہے، وہ زندگی کے ہر مرحلے اور تمام گوشوں میں طبعی تقاضوں کی رعایت کرتا ہے، وہ طبیعت کے تقاضوں کو نہ تو کچلتا ہے اور نہ ان پر بیجا بندشیں لگاتا ہے۔البتہ ان کے استعمال میں بے اعتدالی کو گوارہ نہیں کرتا ہے بلکہ افراط و تفریط سے ہٹ کر ایک متوازن راستہ متعین کرتا ہے، چنانچہ اس مسئلے میں بھی اس نے کچھ شرطوں کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے بلکہ کچھ کھیلوں کی طرف اس نے آمادہ کیا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی ہے جیسے کہ وہ کھیل جس سے جسمانی یا ذہنی نشوونما ہوتی ہو، طاقت و قوت میں اضافہ ہوتا ہو اور خوابیدہ صلاحیت بیدار ہوتی ہو ۔توانائی اور چستی پھرتی کا ذریعہ ہو یا اس سے فوجی ٹریننگ اور فنون جنگ میں مہارت اور بصیرت حاصل ہوتی ہو ۔چنانچہ ارشاد باری ہے :
وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُم .
اور (مسلمانو) جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے (موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، ۔ (سورہ الانفال: 60)
تفسیر:
یہ پوری امت مسلمہ کیلئے ایک ابدی حکم ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شوکت قائم کرنے کے لئے ہر قسم کی دفاعی طاقت جمع کرنے کا اہتمام کرے، قرآن کریم نے طاقت کا عام لفظ استعمال کرکے بتادیا ہے کہ جنگ کی تیاری کسی ایک ہھتیار پر موقوف نہیں ؛ بلکہ جس وقت جس قسم کی دفاعی قوت کار آمد ہو اس وقت اسی طاقت کا حصول مسلمانوں کا فریضہ ہے، لہذا اس میں تمام جدید ترین ہھتیار اور آلات بھی داخل ہیں اور وہ تمام اسباب ووسائل بھی جو مسلمانوں کی اجتماعی معاشی اور دفاعی ترقی کے لئے ضروری ہوں، افسوس ہے کہ اس فریضے سے غافل ہو کر آج مسلمان دوسری قوموں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں اور ان سے مرعوب ہیں، اللہ تعالیٰ ہم کو اس صورت حال سے نجات عطا فرمائے۔ امین۔ (آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور‌ جب طالوت کو بنی اسرائیل کی بادشاہت عطا کی گئی تو ان کی خوبی یہ بیان کی گئی کہ ان میں علم کے ساتھ جسمانی طاقت بھی ہے:
وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ بَعَثَ لَکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِکًا ؕ قَالُوۡۤا اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہُ الۡمُلۡکُ عَلَیۡنَا وَ نَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡکِ مِنۡہُ وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰٮہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ۔
اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ : اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ بنا کر بھیجا ہے۔ کہنے لگے : بھلا اس کو ہم پر بادشاہت کرنے کا حق کہاں سے آگیا ؟ ہم اس کے مقابلے میں بادشاہت کے زیادہ مستحق ہیں، اور اس کو تو مالی وسعت بھی حاصل نہیں۔ نبی نے کہا : اللہ نے ان کو تم پر فضیلت دے کر چنا ہے اور انہیں علم اور جسم میں ( تم سے) زیادہ وسعت عطا کی ہے، اور اللہ اپنا ملک جس کو چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔ (سورہ البقرۃ : 247)
اور حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ، احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجِزْ،
اللہ کی نگاہ میں طاقتور مومن، کمزور مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے اور دونوں میں بھلائی ہے، ایسی چیز کے لیے کوشش کرو جو تمہارے لیے نفع رساں ہو اور اللہ سے مدد چاہو اور کمزوری کا اظہار مت کرو۔ (صحیح مسلم:2664)
نیز عید کے موقع پر حبشیوں کے نیزہ بازی کے کھیل کو آنحضرت ﷺ دیکھا اور ان کی حوصلہ افزائی فرمائی حضرت عائشه سے روايت ہے :
وَكَانَ يَوْمَ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ، فَإِمَّا سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِمَّا قَالَ : ” تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ ؟ ” فَقُلْتُ : نَعَمْ. فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ – خَدِّي عَلَى خَدِّهِ – وَهُوَ يَقُولُ : ” دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ ". حَتَّى إِذَا مَلِلْتُ قَالَ : ” حَسْبُكِ ؟ ” قُلْتُ : نَعَمْ. قَالَ :” فَاذْهَبِي ".
عید کے موقع پر حبشہ کے لوگ ڈھال اور نیزے سے کھیلا کرتے تھے، یا تو میں نے خواہش کی یا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا:ہاں۔ آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ کے رخسار کے پاس تھا۔ اللہ کے رسول فرما رہے تھے: واہ واہ اے حبشہ کے لوگو! یہاں تک کہ جب میں اکتا گئی تو آپ نے فرمایا :بس، میں نے کہا:ہاں ۔ فرمایا: تو جاؤ.(بخاري:950)
امام احمد نے یہ الفاظ نقل کئے ہیں:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ : ” لِتَعْلَمَ يَهُودُ أَنَّ فِي دِينِنَا فُسْحَةً ؛ إِنِّي أُرْسِلْتُ بِحَنِيفِيَّةٍ سَمْحَةٍ ".
رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر فرمایا:تاکہ یہود جان لیں کہ ہمارے دین میں وسعت ہے۔مجھے آسان اور سیدھے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہے ۔(مسند احمد: 25962)
اس کے برعکس بعض احادیث سے بظاہر چند چیزوں کے علاوہ کسی اور کھیل کود کی ممانعت معلوم ہوتی ہے چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كلُّ شيءٍ ليس مِن ذِكْرِ اللهِ، فهو لَعِبٌ، إلّا أربعةً: مُلاعَبةَ الرَّجُلِ امرأتَهُ، وتأديبَ الرَّجُلِ فرَسَهُ، ومَشْيَ الرَّجُلِ بين الغرَضَيْنِ، وتعليمَ الرَّجُلِ السباحةَ.
جس چیز کا تعلق اللہ کے ذکر سے نہ ہو وہ کھیل تماشا ہے سوائے چار چیزوں کے:اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا ،اپنے گھوڑے کو سدھانا،دو نشانوں کے درمیان چلنا اور تیراکی سیکھنا۔(السنن الکبری للنسائی: 8891)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے :
كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ، إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ، وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتَهُ أَهْلَهُ، فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ۔(1)
مسلمان کا ہر لھو بیکار اور ناقابل اجر ہے الا یہ کہ تیر اندازی کرے اور گھوڑے کو سدھائے اور اپنے اہل کے ساتھ کھیلے۔کیونکہ یہ سب چیزیں باعث ثواب ہیں(ترمذی :1637. ابن ماجه:2811)
لیکن ظاہر ہے کہ مذکور حدیث میں لہو لعب سے مراد وہ کھیل ہے جس میں نہ تو دنیا کا کوئی فائدہ ہو اور نہ آخرت کا ، لہذا وہ کھیل جس سے کوئی صحیح مقصد وابستہ ہو وہ جائز ہے ،خود حدیث سے ان تین کے علاوہ کھیل بھی ثابت ہے جس کی تفصیل آئے گی چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں:
وفي معناها كل ما يعين على الحق من العلم والعمل إذا كان من الأمور المباحة كالمسابقة بالرجل والخيل والإبل والتمشية للتنزه على قصد تقوية البدن وتطرية الدماغ .
اس کے مفہوم میں وہ تمام چیزیں داخل ہیں جو حقیقی علم و عمل کے لئے معاون ہوں جب کہ ان کا تعلق جائز امور سے ہو جیسے کہ دوڑنے اور اونٹ اور گھوڑے کو دوڑانے میں مقابلہ کرنا اور جسم کو تندرست وتوانا اور دماغ کو تروتازہ رکھنے کے مقصد سے پیدل چلنا۔(تحفة الاحوذی حدیث نمبر:1937)
امام ابو داؤد نے یہ الفاظ نقل کئے ہیں :
لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ : تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ.
اور ابن معن نے اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ یعنی مستحب لھو میں صرف تین چیزیں شامل ہیں ۔۔۔( يعني ليس من اللهو المستحب ۔۔۔عون المعبود. حدیث نمبر:1513)
یا ایسے کھیل مراد ہوں جو اللہ کی یاد سے غافل کر دیں چنانچہ امام بخاری نے عنوان قائم کیا ہے "باب كل لهو باطل اذا شغله عن طاعة الله” (ہر لھو باطل ہے جب وہ اللہ کی اطاعت سے غافل کردے )
اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح میں لکھا ہے کہ کوئی بھی چیز اللہ کی اطاعت میں رکاوٹ کا سبب ہو تو وہ ممنوع ہے خواہ شریعت میں اس کی اجازت ہو یا ممانعت بلکہ نفل نماز ،ذکر ،تلاوت اور قرآن کے معانی میں غور و تدبر کی وجہ سے جان بوجھ کر نماز قضا کردے تو وہ بھی اس ضابطے میں داخل ہے ۔
اور جب پسندیدہ اور مطلوب چیزوں کا یہ حال ہے تو اس سے کمتر کا کیا حال ہوگا ؟
امام بخاری نے اس کے بعد درج ذیل آیت ذکر کی ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بغیر علم۔
اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بےسمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں.(سورہ لقمٰن : 6)
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ اس آیت کے ذکر کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر لھو لعب کے سامان کو اللہ کے راستے سے بھٹکانے کے ارادہ سے نہ خریدے تو وہ لائق مذمت نہیں ہے بشرطیکہ بذات خود وہ ممنوع نہ ہو۔(2)
اور مفتی تقی عثمانی صاحب مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
نیز اس میں یہ اصول بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ دل بہلانے کا مشغلہ جو انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل اور بےپرواہ کرے، ناجائز ہے کھیل کود اور دل بہلانے کے صرف وہ مشغلے جائز ہیں جن میں کوئی فائدہ ہو، مثلاً جسمانی یا ذہنی ورزش، یا تھکن دور کرنا، اور جن کی وجہ سے نہ کسی کو تکلیف پہنچے اور نہ وہ انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل کریں۔
( آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
حاصل یہ ہے کہ اگر کھیل کود کا مقصد ذہنی و جسمانی ورزش ،تفریح طبع، ہنسی مذاق، دنیاوی جھمیلوں سے دوری اور الجھنوں سے چھٹکارا حاصل کرنا اور طبیعت میں نشاط پیدا کرنا ہو تو بھی اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا ہے. مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ اس سلسے میں ضابطہ یہ ہے کہ بے فائدہ کھیل تماشا جس کا دنیا یا آخرت میں کوئی فائدہ اور صحیح غرض نہ ہو تو وہ حرام یا مکروہ تحریمی ہے اور اگر کسی کھیل سے کوئی صحیح غرض اور دینی یا دنیاوی مصلحت وابستہ ہو لیکن کتاب و سنت میں اس کی ممانعت مذکور ہے تو وہ بھی حرام یا مکروہ تحریمی ہے ۔اور اگر اس کے بارے میں شریعت نے منع نہیں کیا ہے اور اس میں لوگوں کا فائدہ اور مصلحت ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں:
1-تجربہ سے ثابت ہے کہ اس کا نقصان اور اس کا فساد اس کے نفع سے بڑھا ہوا ہے اور جو کوئی اس میں مشغول ہوتا ہے وہ اللہ کے ذکر ، نماز اور مسجدوں سے غافل ہوجاتا ہے،ایسا کھیل بھی ممانعت میں داخل ہے کیونکہ علت میں یہ بھی شریک ہے لہذا حرام یا مکروہ ہے ۔
2-اس میں مذکورہ خرابیاں نہیں ہیں لیکن محض کھیل تماشا کی حیثیت سے اس میں حصہ لیا جاتا ہے تو وہ بھی مکروہ ہے ۔
اور اگر اس میں موجود منفعت ومصلحت کے حصول کی نیت سے کھیلتا ہے تو وہ جائز ہے بلکہ کبھی استحباب یا اس سے بلند درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔اس ضابطے کے مطابق جن کھیلوں کا مقصد ذہنی یا جسمانی ورزش ہو تو وہ جائز ہیں بشرطیکہ اس میں کوئی دوسری معصیت نہ ہو اور اس میں مشغول ہوکر دینی اور دنیاوی واجبات اور ذمہ داریوں سے غافل نہ ہو ۔(3)
اصول و ضوابط:
شریعت نے کھیل کود کے سلسلے میں چند اصول و ضابطے متعین کئے ہیں جن کی روشنی میں کسی بھی کھیل کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کو سمجھا جا سکتا ہے
1-کسی بھی کام میں سب سے اہم چیز نیت ہے لہذا نیک نیت اور اچھے مقصد سے جائز کھیل بھی باعث اجر و ثواب ہے اور بری نیت کے ساتھ مستحب کھیل بھی باعث عذاب ہے امام نووی کہتے ہیں کہ مباح عمل سے بھی اللہ کی رضا مقصود ہوتو وہ اطاعت اور عبادت میں شامل ہے نبی کریم ﷺ نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:(4)
وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةُ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ۔
اللہ کی خوشنودی کے لئے تم جو بھی درج کرتے ہو اس کا تمہیں اجر ملے گا یہاں تک کہ اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنے میں بھی ثواب ہے۔(صحیح مسلم :1628)
‏۔ اور علامہ شامی لکھتے ہیں:
جہاد کے لئے حصول قدرت کے مقصد سے حدیث میں کشتی لڑنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ اس وقت ہے جب کہ محض کھیل تماشا کی حیثیت سے کشتی نہ لڑے ؛کیونکہ یہ مکروہ ہے اور ظاہر ہے کہ اسی طرح کی تفصیل گھوڑے کو سدھانے اور تیر اندازی میں بھی ہے ۔
(جاء الاثر في رخصة المصارعة لتحصيل القدرة القدره على المقاتلة دون التلهي فانه مكروه والظاهر انه يقال مثل ذلك في تاديب الفرس والمناضلة بالقوس ۔رد المحتار651/9)
اور مفتی شفیع صاحب لکھتے ہیں:
فقہاء نے یہ تصریح بھی کر دی ہے کہ یہ جائز کھیل بھی اسی وقت جائز ہیں جبکہ ان کا مقصد اور ان کی غرض صحیح ہو ورنہ اگر مقصد محض کھیل برائے کھیل ہو تو یہ مباح کھیل بھی جائز نہیں چنانچہ کوئی شخص کشتی ،تیراکی، دوڑ، نشانہ بازی محض لہو لعب کی نیت سے کرے تو یہ بھی مکروہ ہوں گے۔ (احکام القرآن 192/3)
2-کھیل کود سے دنیا و اخرت کا کوئی فائدہ وابستہ ہو اور اسی فائدہ کے پیش نظر اسے اختیار کیا جائے۔ لہذا جسمانی ورزش اور صحت کے لیے مفید اور قوت و طاقت میں اضافہ کے لیے کھیل جائز ہے ۔اور بے فائدہ کھیل تماشہ کی اجازت نہیں ہے اسی طرح سے فائدہ مند کھیل بھی محض کھیل تماشہ کے طور پر ہو تو وہ ناجائز ہے علامہ مرغینانی لکھتے ہیں:
ہر لھو مکروہ ہے کیونکہ اگر اس میں جوا کا عنصر شامل ہو تو وہ قرآنی صراحت کے مطابق حرام ہے اور اگر جوا نہ ہو تو بے کار اور بے فائدہ کھیل ہے۔
(يكره كل لهو لانه ان قام بها فلما يصير حرام بالنص وان لم يقامر فهو عبث ولهو. الهدايه 459/4)
3-ایسا کھیل نہ اختیار کیا جائے جس میں جان جانے کا خطرہ ہے اور نہ درندگی اور بے رحمی کا کھیل کھیلا جائے نیز اس کی وجہ سے کسی انسان یا حیوان کو کوئی نقصان نہ پہنچے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ۔
اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(سورہ البقرۃ :195)
اور حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” لَا ضَرَرَ وَلَا إِضْرَارَ.
نہ تو ابتداء کسی کو نقصان پہوچاؤ اور نہ بدلے میں ۔(مسند احمد:2865)
لہذا فری سٹائل کشتی اور باکسنگ وغیرہ جائز نہیں اور نہ ہی جانوروں کو باہم لڑانا درست ہے۔
4-اس میں مشغول ہو کر نماز اور دوسرے واجبات اور ذمہ داریوں سے غافل نہ ہو اور نہ ہی جھوٹی قسمیں کھائے۔علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ تمام علماء کے نزدیک ایسا کھیل حرام ہے جو جو ظاہری وباطنی واجبات سے غافل کرے۔ جیسے کہ نماز یا اس کے علاوہ دوسرے واجبات مثلاً اہل خانہ کی ضروریات، اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے، والدین کی اطاعت اورحسن سلوک یا حکومت و اقتدار کی ذمہ داریوں سے غافل کرے، یا اس کھیل سے کوئی حرام چیز متعلق ہو، ایسے تمام کھیل متفقہ طور پر حرام ہیں۔ (الذرائع: 1/85)
5- اس میں جوا کا عنصر شامل نہ ہو۔
قرآن حکیم میں جوا ، شراب اور بت پرستی وغیرہ کو ایک ساتھ ذکر کر کے حرام قرار دیا گیا ہے.فرمان باري ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۔اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّوۡقِعَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ فِی الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِ وَ یَصُدَّکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ ۔
اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیر یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے، اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے۔ اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے) باز آجاؤ گے ؟ (سورہ المآئدۃ : 90-91)
اور حدیث میں ہے :
من قال لصاحبہ تعال اقامرک فلیتصدق۔
اگرکوئی کسی سے صرف یہ کہہ دے کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے چاہیے کہ کچھ صدقہ کرے۔ (صحیح بخاری 6301 ۔صحیح مسلم :1647)
یعنی صرف جوا کھیلنا ہی حرام نہیں بلکہ جوئے کی طرف بلانا اور جوا کھیلنے کا ارادہ ظاہر کرنا بھی گناہ ہے اور اس گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ وہ کچھ صدقہ کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی کا طلب گار ہوگا۔ نیز آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’والدین کا نافرمان، جواری اور ہمیشہ شراب پینے والے کو جنت نصیب نہ ہوگی۔‘‘(مشکاۃ/318)
کسی مسلمان کے لیے اس سے بڑھ کر خسارے کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ محض چند گھڑی کی عشرت اور گناہ بے لذت کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کی جنت اس کے ہاتھ سے چلی جائے۔
6-مردوں کے لیے زنانہ کھیل اور عورتوں کے لیے مردانہ کھیل ناجائز ہے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ سے کہا گیا کہ ایک عورت مردوں جیسی چپل پہنتی ہے تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد بننے والی عورتوں پر لعنت کی ہے ۔
(قِيلَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : إِنَّ امْرَأَةً تَلْبَسُ النَّعْلَ. فَقَالَتْ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَةَ مِنَ النِّسَاءِ.(ابودؤد: 4099)
اور حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں اور عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت کی ہے
(عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ لَعَنَ الْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ، وَالْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ. ابوداؤد 4097)
7- کھیل کے دوران ستر پوشی کا لحاظ رکھا جائے. یعنی جسم کے اس حصے کو چھپانے کا اہتمام کیا جائے جنھیں چھپانا ضروری ہے مثلاً مرد کے لئے ناف سے گھٹنے تک کا حصہ چھپانا واجب ہے اور عورت کے لئے غیر محرم مردوں کے سامنے پورے جسم کا پردہ ضروری ہے البتہ عورتوں کے سامنے اس کا ستر بھی وہی ہے جو مردوں کا ہے یعنی ناف سے لے کر گھٹنے تک .(الاختیار 110/4)
نیز لباس اس قدر باریک اور چست نہ ہو کہ اس سے جسم کے اعضا نمایاں ہوں۔ اسی طرح غیر مسلموں کا مخصوص لباس پہننا بھی درست نہیں ہے یعنی اس لباس کو دیکھ کر معلوم ہو کہ اس کا تعلق فلاں قوم سے ہے ۔ مردوں کے لیے یہ بھی واجب ہے کہ ان کا لباس ٹخنوں سے اوپر ہو۔ چنانچہ عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو زعفرانی رنگ کا کپڑا پہنے دیکھ کر فرمایا : یہ کفار کا لباس ہے اس لیے اسے مت پہنو۔ (صحیح مسلم:2077)
8- ان تمام کھیلوں سے اجتناب کیا جائے جس میں کوشش اور محنت کی جگہ قسمت اور چانس پر ہار جیت ہوتی ہو جیسے کہ چوسر اور لوڈو ۔اس طرح کے کھیل بہر صورت ناجائز ہیں خواہ ہار جیت پر انعام مقرر ہو یا نہ ہو۔
9- کھیل کود کے مقابلوں میں ہار جیت پر دشمنی اور گالم گلوچ کی نوبت نہ آئے ۔اور دوستی و دشمنی کا معیار صرف رضائے الٰہی ہو ۔
10- اگر کوئی کھیل غیر مسلموں کے ساتھ خاص ہو تو اس سے احتراز کیا جائے اسی طرح سے کھیل کا ساز و سامان بھی کسی قوم کے ساتھ مخصوص ہو اور اس کا متبادل موجود ہوتو اس سے احتیاط کیا جائے
چنانچہ حدیث میں ہے :
فمَرَّ برجُلٍ يحمِلُ قَوسًا فارسيًّا، فقال: ألقِها؛ فإنَّها ملعونةٌ ملعونٌ من يحمِلُها، عليكم بالقَنا والقِسيِّ العَرَبيَّةِ؛ فإنَّ بها يُعِزُّ اللهُ دينَكُم، ويَفتَحُ لَكُمُ البِلادَ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ادمی کے پاس سے گزرے جو ایرانی کمال لیے ہوئے تھا۔ آپ نے فرمایا اسے پھینک دو یہ لعنت زدہ ہے اور وہ بھی لعنت زدہ ہے جو اس کو اٹھائے ۔ تم نیزوں کو اور عربی کمان کو لازم پکڑو کیونکہ اسی کے ذریعے اللہ تبارک و تعالی تمہارے دین کو سر بلند کرے اور تمہارے لیے شہروں کو فتح کرے گا۔
(فیض القدیر 346/4. فيه بكر بن سهل الدّمياطي قال الذّهبي: مقارب الحديث وقال النّسائي: ضعيف وبقية رجاله رجال الصّحيح)
اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اس روایت سے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت شدیدہ غیر مسلم قوموں کے آلات ورزش کا استعمال بھی مکروہ ہے اگرچہ حرمت کی کوئی دلیل نہیں (امداد الفتاوی 457/4)
11- ایک مومن کے لئے دنیا امتحان کی جگہ ہے جہاں وہ عبادت و طاعت کے لئے بھیجا گیا ہے اور چونکہ کھیل کود بھی ایک فطری میلان ہے اس لئے اس بالکل منع نہیں کیا گیا ہے ۔لیکن یہ زندگی کا مقصد نہیں ہے بلکہ بربناء ضرورت اس کی اجازت دی گئی ہے اس لئے اسے ضرورت کے بقدر ہی رہنا چاہئے ۔
اور قرآن میں اسراف سے منع کیا گیا ہے یہاں تک کہ عبادت میں بھی اسراف ناپسندیدہ ہے تو پھر کھیل کود میں اس کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟ کہنے والے کی یہ بات کس قدر چشم کشا اور بصیرت افروز ہے :
ما رأيت إسرافا إلا وبجانبه حق مضيع”
مجھے جہاں کہیں بھی اسراف نظر آیا تو دیکھا کہ اس کے پہلو میں ایک حق ہے جسے ضائع کیا جارہا ہے ۔

(1) كل ما يلهو به الرجل المسلم )أي يشتغل ويلعب به۔( باطل )لا ثواب له۔( إلا رميه بقوس )احتراف عن رميه بالحجر والخشب۔
( وتأديبه فرسه )أي تعليمه إياه بالركض والجولان على نية الغزو۔( وملاعبته أهله ، فإنهن من الحق )أي ليس من اللهو الباطل فيترتب عليه الثواب الكامل .( تحفۃ الاحوذی: حدیث نمبر:1637)
(2) بَاب كُلُّ لَهْوٍ بَاطِلٌ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ تَعَالَ أُقَامِرْكَ وَقَوْلُهُ تَعَالَى ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ﴾
قَوْلُهُ (بَاب كُلُّ لَهْوٍ بَاطِلٌ إِذَا شَغَلَهُ) أَيْ شَغَلَ اللَّاهِيَ بِهِ عَنْ طَاعَةِ اللَّهِ، أَيْ كَمَنِ الْتَهَى بِشَيْءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ مُطْلَقًا، سَوَاءٌ كَانَ مَأْذُونًا فِي فِعْلِهِ أَوْ مَنْهِيًّا عَنْهُ، كَمَنِ اشْتَغَلَ بِصَلَاةِ نَافِلَةٍ أَوْ بِتِلَاوَةٍ أَوْ ذِكْرٍ أَوْ تَفَكُّرٍ فِي مَعَانِي الْقُرْآنِ مَثَلًا حَتَّى خَرَجَ وَقْتُ الصَّلَاةِ الْمَفْرُوضَةِ عَمْدًا، فَإِنَّهُ يَدْخُلُ تَحْتَ هَذَا الضَّابِطِ، وَإِذَا كَانَ هَذَا فِي الْأَشْيَاءِ الْمُرَغَّبِ فِيهَا الْمَطْلُوبِ فِعْلُهَا، فَكَيْفَ حَالُ مَا دُونَهَا ۔۔۔۔۔قَوْلُهُ: وَقَوْلُهُ – تَعَالَى -: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ﴾ الْآيَةَ كَذَا فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ، وَالْأَكْثَرُ وَفِي رِوَايَةِ الْأَصِيلِيِّ وَكَرِيمَةَ: ﴿لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ﴾ الْآيَةَ وَذَكَرَ ابْنُ بَطَّالٍ أَنَّ الْبُخَارِيَّ اسْتَنْبَطَ تَقْيِيدَ اللَّهْوِ فِي التَّرْجَمَةِ مِنْ مَفْهُومِ قَوْلِهِ – تَعَالَى – ﴿لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ﴾ فَإِنَّ مَفْهُومَهُ أَنَّهُ إِذَا اشْتَرَاهُ لَا لِيُضِلَّ لَا يَكُونُ مَذْمُومًا، وَكَذَا مَفْهُومُ التَّرْجَمَةِ أَنَّهُ إِذَا لَمْ يَشْغَلْهُ اللَّهْوُ عَنْ طَاعَةِ اللَّهِ لَا يَكُونُ بَاطِلًا. لَكِنْ عُمُومُ هَذَا الْمَفْهُومِ يُخَصُّ بِالْمَنْطُوقِ، فَكُلُّ شَيْءٍ نُصَّ عَلَى تَحْرِيمِهِ مِمَّا يُلْهِي يَكُونُ بَاطِلًا، سَوَاءٌ شَغَلَ أَوْ لَمْ يَشْغَلْ…(فتح91/11)
(3)فالضابط في هذا : أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه.”(تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا،ج:4،ص:435،ط:دارالعلوم کراچی)
(4) وفيه : أن المباح إذا قصد به وجه الله تعالى صار طاعة ، ويثاب عليه ، وقد نبه صلى الله عليه وسلم على هذا بقوله صلى الله عليه وسلم : ” حتى اللقمة تجعلها في في امرأتك ” ؛ لأن زوجة الإنسان هي من أخص حظوظه الدنيوية وشهواته وملاذه المباحة ، وإذا وضع اللقمة في فيها فإنما يكون ذلك في العادة عند الملاعبة والملاطفة والتلذذ بالمباح ، فهذه الحالة أبعد الأشياء عن الطاعة وأمور الآخرة ، ومع هذا فأخبر صلى الله عليه وسلم أنه إذا قصد بهذه اللقمة وجه الله تعالى ، حصل له الأجر بذلك ، فغير هذه الحالة أولى بحصول الأجر إذا أراد وجه الله تعالى ، ويتضمن ذلك أن الإنسان إذا فعل شيئا أصله على الإباحة ، وقصد به وجه الله تعالى يثاب عليه ، وذلك كالأكل بنية التقوي على طاعة الله تعالى ، والنوم للاستراحة ؛ ليقوم إلى العبادة نشيطا ، والاستمتاع بزوجته وجاريته ؛ ليكف نفسه وبصره ونحوهما عن الحرام ؛ وليقضي حقها ؛ ليحصل ولدا صالحا ، وهذا معنى قوله صلى الله عليه وسلم : ” وفي بضع أحدكم صدقة ” والله أعلم . ‏( حاشیہ صحیح مسلم :1628)


 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے