گردن کا مسح
ولی ﷲ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو ۔

اما م ابوحنیفہؒ ایک روایت کے مطابق امام شافعی اور احمد بن حنبل کے نزدیک گردن کا مسح مستحب ہے ، اسی طرح سے علامہ بغوی ، ابن سید الناس ، رافعی ، غزالی اور شوکانی وغیرہ بھی اس کے استحباب کے قائل ہیں ،(۱(۱)دیکھیے: نیل الاوطار:164/1 اوجزالمسالک :432/1) صحابہ میں سے حضرت ابوہریرہؓ ( دیکھیے المغنی :۱/۱۵۱،فتاویٰ ابن تیمیہ :127/21) اور ابن عمرؓ سے گردن کا مسح منقول ہے اور کسی دوسرے صحابی سے اس کے برخلا ف ثابت نہیں ہے ، مالکیہ اور بعض دوسرے حضرات کے نزدیک یہ مکروہ ہے ۔(موسوعۃ الفقہ الاسلامی:23/7)
جو لوگ مستحب کہتے ہیں ان کے دلائل یہ ہیں :
1۔ حضرت کعب بن عمرؓ نے اللہ کے رسول ﷺ کے وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :
’’ ثم مسح راسہ قال ھکذا و اومأ بیدہ من مقدم رأسہ حتی بلغ بھما الی اسفل عنقہ من قبل قفاہ‘‘ (المعجم الکبیر:180/19)
’’ پھر آپ ﷺ نے اپنے سر کا مسح اس طرح سے کیا ، راوی نے اشارہ کرکے بتلایا کہ آپؐ نے سر کے اگلے حصے سے شروع کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو گدی کی طرف سے گردن کے نچلے حصے تک لے گئے ‘‘۔
2۔ سنن ابی دائود وغیرہ میں مذکور روایت کے الفاظ یہ ہیں :
’’ مسح راسہ الی مؤخرہ حتی اخرج یدیہ من تحت اذنیہ‘‘(سنن ابی داؤد مع العون:67/2 المعجم الکبیر:180/19)
’’آپ ﷺ نے اپنے سرکا آخری حصے تک مسح کیا ، یہاں تک کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے نیچے سے نکال لیا ‘‘۔
یہ روایت گردن کے مسح کے لیے بالکل واضح ہے ، اس لیے کہ کان کے نیچے سے ہاتھ نکالنے کے لیے گردن کا مسح ہونا لازمی ہے ۔
اس حدیث کی تشریح میں علامہ عظیم آبادی نے لکھاہے کہ یہ حدیث ضعیف ہونے کے ساتھ گردن کے مسح کے مستحب ہونے پر دلالت نہیں کرتی ہے ، کیونکہ اس سلسلہ کی مختلف روایتوں میں سرکے اگلے حصے سے پچھلے حصے تک یا گردن کے آخری حصے تک مسح مذکور ہے اور اس میں کوئی کلام نہیں ہے ، کلام درحقیقت گردن کے مروجہ مسح کے مسئلے میں ہے کہ لوگ سر کے مسح سے فارغ ہونے کے بعد انگلیوں کی پشت سے گردن کا مسح کرتے ہیں ، یہ کیفیت کسی صحیح یاحسن حدیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ گردن کے مسح کے سلسلے کی تمام روایتیں ضعیف ہیں ۔(عون المعبود:67/2)
یعنی علامہ کے نزدیک اگر سر کے مسح کے ساتھ گردن کا مسح بھی کرلیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، کلام صرف گردن کے مسح کے رائج طریقے پرہے ، ہمیں بھی اس طریقے پر اصرار نہیں ہے کیونکہ صراحۃً کسی روایت میں یہ کیفیت مذکور نہیں ہے لیکن فقہ حدیث اور عقل سلیم سے ہم آہنگ ضرور ہے ، اس لیے کہ مسح پانی کی تری سے کیاجاتا ہے اور سر کے مسح میں ہاتھ کا اندرونی حصہ استعمال ہوچکا ہے اور کان کے مسح میں انگوٹھا اور شہادت کی انگلی استعمال ہوچکی ہے ، صرف پشت باقی رہ گئی ہے جس سے گردن کا مسح کیاجاسکتا ہے اور یہ بھی اسی وقت ہے جب الگ سے گردن کا مسح کیا جائے اور اگر سر کے مسح کے ساتھ ہی گردن کا مسح کرلیاجائے تو پھر ہاتھ کی پشت کے ذریعہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
3۔ مسنداحمد بن حنبل میں مذکور حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
’’ رأی رسول اللّٰہﷺ یمسح راسہ حتی بلغ القذال وما یلیہ من مقدم العنق بمرۃ‘‘ ( الفتح الربانی:35/2)
’’انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو سر کا مسح کرتے ہوئے دیکھا ، آپؐ نے اپنے سرکا مسح کیا یہاں تک کہ سر کے پچھلے حصے اور گردن کے ابتدائی حصے تک ایک مرتبہ مسح کیا ‘‘۔
مشہور محدث ابن سید الناس نے امام احمد بن حنبل اورامام ابوداؤد کی ذکر کردہ حدیث کو اما م بیہقی کی طرف بھی منسوب کیاہے اور لکھاہے کہ اس حدیث میں گردن کا مسح ایک عمدہ اضافہ ہے ، ’’فیہ زیادۃ حسنۃ وھی مسح العنق‘‘ علامہ شوکانی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دیکھ لو ، ابن سید الناس جیسا حافظ حدیث گردن کے مسح سے متعلق اضافہ کو حسن قرار دے رہا ہے ۔( نیل الاوطا ر:164/1)
ان تمام کتابوں میں مذکور اس روایت کا دار و مدار چار راویوں پر ہے ، لیث ، طلحہ ، مصرف ، کعب بن عمرو ۔
1۔ لیث کے متعلق محدثین کی رائیں مختلف ہیں ،ابن حبان انہیں ضعیف کہتے ہیں ، الزام یہ ہے کہ یہ سندوں کو الٹ پلٹ دیتے تھے ، نیز آخر عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے ، یحییٰ بن قطان ، ابن معین اور احمد بن حنبل کے نزدیک یہ اعتبار کے لائق نہیں ہیں ۔(میزان الاعتدال :509/5)
اس کے برخلاف ابن معین ہی سے منقول ہے کہ ان میں اعتراض کی کوئی چیز نہیں ہے ، "لاباس بہ” ، ابن عدی کہتے ہیں کہ ان کے پاس اچھی حدیثیں ہیں ، ’’لہ احادیث صالحۃ‘‘ دارقطنی کہتے ہیں کہ اہل سنت میں سے ہیں ، ان کی حدیثیں نقل کی جائیں گی ،( اعلاء السنن:82/1)
علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ یہ سچے راوی ہیں ،(صدوق)لیکن اختلاط کا شکار ہو گئے تھے ، امام بخاری نے ان کی روایت کو تعلیقاً اور امام مسلم نے بطور تابع نقل کیا ہے ،(تقریب التہذیب:)علامہ مقدسی لکھتے ہیں کہ لیث پر کلام کیاگیاہے اور پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں اس لیے کوئی بات نہیں ہے ۔( نیل الاوطار:164/1)
حاصل یہ ہے کہ لیث کے ضعیف ہونے پرتمام محدثین متفق نہیں ہیں، لہٰذ ا علامہ نووی کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ان کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے ۔(حوالہ مذکور 163/1)
اور جب کسی راوی کے سلسلہ میں محدثین کے درمیان اختلاف ہو تو اس کی روایت دوسرے درجے کی (حسن ) اور قابل عمل ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابن سید الناس نے اس اضافے کو حسن قرار دیا ہے ۔
2۔ طلحہ کے متعلق امام نووی کہتے ہیںکہ وہ نامور اماموں میں سے ایک ہیں ، احد ائمۃ الاعلام، تابعی ہیں ، امام بخاری ، مسلم ، ترمذی ،ابو داود ، نسائی اور ابن ماجـہ نے ان سے روایت نقل کی ہے ،(عون المعبود :79/2۔)ابن معین ، ابوحاتم ، عجلی اور ابن سعد نے انہیں قابل اعتماد (ثقہ ) قرار دیا ہے ، ابو معشر کہتے ہیں کہ ان کے بعد ان جیسا کوئی نہیں رہا ، عبداللہ بن ادریس کا بیان ہے کہ میں نے اعمش کو طلحہ بن مصرف کے سوا کسی کی تعریف کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔
3۔ کعب بن عمرو ، یہ حضرت طلحہ کے دادا ہیں ، ان کے صحابی ہونے کے سلسلے میں محدثین کے درمیان اختلاف ہے ، لیکن صحیح یہی ہے کہ یہ صحابی ہیں ۔(دیکھیے: نیل الاوطار :163/1، عون المعبود :79/2، بذل المجہود :322/1)
4۔ مصرف ، یہ حضرت طلحہ کے والد ہیں اور ان کے حالاتِ زندگی پر پردہ پڑا ہوا ہے ، اس لیے محدثین انہیں مجہول قرار دیتے ہیں لیکن اسے عجوبہ ہی کہا جائے گا کہ پوتا مشہور تابعین میں سے ہے اور دادا کا صحابی ہونا ثابت ہے اور باپ کی روایت صرف اس بنیاد پر رد کردی جائے کہ ان کے حالات معلوم نہیں ہیں ، حالانکہ یہ اس دور کے رہنے والے ہیں جس کے خیر اور بہتر ہونے کی گواہی خود زبان رسالت نے دی ہے ، جس عہد میں نیکیوں اور بھلائیوں کا غلبہ اور سچائی اور راست بازی کا بول بالا تھا ،برائی اور جھوٹ کا چلن بہت کم تھا ، علاوہ ازیں جلیل القدر تابعی کا ان سے روایت لینا خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان کی نگاہ میں قابل اعتماد ہیں ، اس لیے مشہور محدث اور ناقد حدیث علامہ ابن حبان کا یہ اصول عقل سے ہم آہنگ ہے کہ اگر بیچ کے راوی کے حالات معلوم نہ ہوں لیکن اس کے دونوں طرف کے راوی مضبوط اور قابل اعتماد ہوں تو اس درمیان کے راوی کو بھی لائق اعتبار سمجھاجائے گا ،(۱(۱) اعلاء السنن:82/1) لہٰذا اس ضابطہ کے مطابق مصرف نامی راوی ،ثقہ ہیں کیونکہ ان کے لڑکے قابل اعتماد اور ان کے باپ کو شرف صحابیت حاصل ہے ۔
امام ابو داود نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :
’’سمعت احمد بن حنبل یقول ان ابن عیینۃ زعموا انہ کان ینکرہ ویقول ایش ھذا طلحۃ عن ابیہ عن جدہ‘‘ ( سنن ابی داؤد مع العون:67/2)
’’میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا ہے کہ لوگوں کا گمان ہے کہ ابن عیینہ اس روایت کا انکار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ طلحہ اپنے باپ سے ، وہ ان کے داد ا سے یہ کیا چیز ہے ‘‘۔
ابن عیینہ کا یہ قول امام احمد بن حنبل کے پاس قابل اعتبار ذریعہ سے نہیں پہنچا ، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کا گمان ہے کہ ابن عیینہ ایسا کہتے تھے ، دوسرے ان کو اس سند کی کس چیز پر اعتراض ہے ، وہ بھی واضح نہیں ہے ، علامہ عظیم آبادی کہتے ہیں کہ ان کی نگاہ میں حدیث اس لیے بے حیثیت ہے کہ ان کے نزدیک عمر و بن کعب کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے ،( عون المعبود:79/2)
اگر اعتراض کی وجہ یہ ہے تو پھر اس کی کوئی وقعت نہیں ہے کیونکہ راجح قول کے مطابق ان کا صحابی ہونا ثابت ہے ، بعض لوگوں نے کہا کہ انہیں طلحہ کے والد مصرف کے مجہول ہونے پر اعتراض ہے لیکن ذکر کیا جاچکاہے کہ اس میں بھی بہت زیادہ وزن نہیں ہے ۔
4۔ حضرت وائل بن حجر سے منقول ہے :
’’ ثم مسح علی راسہ و مسح رقبتہ و باطن لحتیہ بفضل ماء الراس‘‘ ( المعجم الکبیر:49/22، کشف الاستار:140/1)
’’اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اپنے سر پہ مسح کیا اور پھر سر کے بچے ہوئے پانی سے گردن اور داڑھی کے اندرونی حصے کا مسح کیا ‘‘۔
اس حدیث کے پہلے راوی بشر بن موسیٰ کے متعلق امام ذہبی کہتے ہیںکہ وہ امام فن ، حافظ حدیث اور قابل اعتماد ہیں ، اسی طرح سے امام دارقطنی کے نزدیک بھی وہ بھروسے کے لائق ہیں اور خطیب بغدادی کا بیان ہے کہ ’’کان ثقۃ امینا عاقلا رکینا ‘‘ثقہ، امانت دار ، دانا و بینا اور قوی راوی ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء :352/13)
دوسرے راوی محمد بن حجر کے سلسلے میں محدثین کے درمیان دو طرح کی رائیں پائی جاتی ہیں ،امام بخاری کہتے ہیں کہ ’’فیہ بعض النظر ‘‘ان میں کچھ چیزیں محل نظر ہیں ، امام حاکم کاخیال ہے کہ وہ محدثین کی نگاہ میں قوی نہیں ہیں ، علامہ ذہبی کی نگاہ میں ان کی کچھ حدیثیں منکر ہوتی ہیں’’لہ مناکیر‘‘۔(میزان الاعتدال:352/13،)
واضح رہے کہ امام بخاری جب کسی راوی کے متعلق کہتے ہیںکہ ’’فیہ نظر‘‘تو اس کی روایت کمتر اور گھٹیا درجے کی ہوتی ہے ،( الباعث الحثیث:106)، امام بخاری نے ان کے سلسلے میں "فیہ نظر ” کے بجائے "فیہ بعض النظر” کہا ہے ، جو پہلے کے مقابلے میں ہلکا ہے ۔
اس کے برخلاف ابوحاتم جیسے متشدد ناقد حدیث نے انہیں شیخ کہا ہے ( لسان المیزان:136/5) جو الفاظ تعدیل میں سے تیسرے درجے کا لفظ ہے ۔(تدریب الراوی:435/1)
تیسرے راوی سعید بن جبار کے متعلق امام نسائی کہتے ہیں وہ قوی نہیں ہے ، اس کے برخلاف علامہ ابن حبان نے انہیں ثقہ راویوں میں شمار کیاہے ۔( مجمع الزوائد:232/1، تہذیب التہذیب:54/4)
چونکہ حدیث کے راوی بہ اتفاق ضعیف نہیں ہیں اس لیے حافظ عراقی نے اس کی سند کے متعلق فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،’’لاباس بہ ‘‘۔( حاشیہ التلخیص الحبیر: 134/1)
اور علامہ ظفر احمد عثمانی رقم طراز ہیں کہ :
’’کسی راوی کی ثقاہت میں اختلاف ہو اور وہ کوئی ایسی بات نقل کرے جو ثقہ راویوں کے برخلاف ہوتو ثقہ کی روایت اس کے بالمقابل لائق ترجیح ہوگی ، لیکن اگر وہ کوئی ایسی بات بیان کرے جو ثقہ کی روایت میں نہ ہو تو وہ زائد بات قبول کی جائے گی، اس لیے کہ یہ ’’حسن حدیث ‘‘ کا راوی ہے اور ’’صحیح و حسن حدیث ‘‘کے راوی کے اضافہ کو قبول کیاجاتا ہے بشرطیکہ وہ ثقہ کی روایت کے خلاف نہ ہو ، گردن کا مسح ، ثقہ کی روایت کے برخلاف نہیں ہے بلکہ ایک زائد بات ہے جس سے ثقہ راوی خاموش ہیں ، اس لیے اسے قبول کیاجائے گا ‘‘۔( اعلاء السنن:125/1)
5۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ من توضأ ومسح بیدیہ علی عنقہ وقی الغل یوم القیامۃ ‘‘( التلخیص الحبیر:135/1)
’’جوکوئی وضو میں اپنی گردن کا مسح کرے ، وہ قیامت کے دن بیڑی پہنائے جانے سے محفوظ رہے گا ‘‘۔
اس روایت کو حسین بن فارس نے اپنی سند سے فلیح بن سلیمان سے اور وہ نافع سے نقل کرتے ہیں اور حسین بن فارس نے کہا ان شاء اللہ حدیث صحیح ہے ، لیکن علامہ ابن حجر کہتے ہیں کہ حسین بن فارس اور فلیح کے درمیان ایک بیابان حائل ہے ، لہٰذا اس پر غور کرلیا جائے(حوالہ مذکور)
یعنی دونوں کے درمیان متعدد راوی ہیں جو یہاں مذکور نہیں ہیں ۔
علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ اسی طرح کی ایک روایت متصل سند کے ساتھ منقول ہے ،(نیل الاوطار :164/1) لیکن اس کے راویوں پر سخت جرح کی گئی ہے ، اس لیے روایت ضعیف ہے ، تاہم اس سے گزشتہ حدیثوں کی تائید ضرور ہوتی ہے ،ایسے ہی محدث ابو نعیم نے بھی ایک روایت گردن کے مسح سے متعلق نقل کی ہے ، لیکن اس کے ناقلین پر بھی سخت کلام ہے ، (دیکھیے: میزان الاعتدال :48/6-343/5)اس کے باوجود حدیث صرف ضعیف ہے ، موضوع اور من گھڑت نہیں ۔( دیکھیے الاتحاف :3652، ظفر الامانی :98، الفوائد المجموعۃ :12)
علامہ شوکانی نے اس طرح کی کچھ اور روایتوں کو نقل کے بعد لکھاہے کہ ان روایات کے دیکھنے سے یہ معلو م ہوتا ہے کہ علامہ نووی کا یہ کہنا کہ اس سے متعلق روایات موضوع اور گردن کا مسح بدعت ہے ، ایک بے سر پیر کی بات ہے ، اس سے زیادہ حیرت انگیز علامہ نووی کا یہ قول ہے کہ امام شافعی اور ان کے زیادہ تر شاگردوں نے اسے نقل نہیں کیاہے ، اس کے ناقل صرف ابن القصاص اور ایک مختصر سی جماعت ہے ، اس لیے کہ امام شافعی کے شاگرد رویانی نے اپنی کتاب ’’بحر‘‘ میں لکھا ہے کہ ہمارے ساتھیوں کے قول کے مطابق گردن کا مسح سنت ہے ،’’قال اصحابنا ھوسنۃ ‘‘اور علامہ نووی کی گرفت ابن رفعہ نے بھی کی ہے ، وہ کہتے ہیںکہ علامہ بغوی جیسے حدیث کے امام بھی اس کے مستحب ہونے کے قائل ہیں اور اس کے لیے یقینی طور پر ان کے سامنے کوئی حدیث ہوگی ، اس لیے کہ اس میں قیاس اور عقل کا دخل نہیں ہے ، حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ شاید ان کے سامنے طلحہ بن مصرف کی روایت رہی ہوگی ۔( نیل الاوطار :164/1)
علاوہ ازیں وضو اور نماز کا طریقہ عملی تواتر کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے اور جو چیزیں متواتر ہوتی ہیں اس کے لیے سند کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے ، جیسے کہ قرآن کے ثبوت کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں ہے ، اسی طرح سے صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں مسلم معاشرہ میں جس چیز کو قبول عام حاصل ہوا اور اس عہد کے کسی فقیہ نے اسے اپنایا ہو تو یہ اس کے ثبوت کی دلیل ہے ، اگرچہ اس سے متعلق حدیث ضعیف اور غیر صحیح ہو ، چنانچہ علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ :
’’ قال بعضھم یحکم الحدیث بالصحۃ اذا تلقاہ الناس بالقبول وان لم یکن لہ اسناد صحیح‘‘ ( تدریب الراوی:24، التحفۃ المرضیۃ مع المعجم الصغیر:264)۔
’’ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب کسی حدیث پر لوگوں کا عمل ہوتو اسے صحیح کہا جائے گا گرچہ اس کی سند صحیح نہ ہو ‘‘۔
سنن ترمذی میں ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی جس میں وہ خود حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد لکھتے ہیں کہ محدثین کے نزدیک عمل اسی پر ہے ،اس لیے کہ سند کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ جو چیزیں دین میں شامل نہیں ہیں اسے حدیث گڑھ کے دین میں داخل نہ کیا جائے ، سندیں اس لیے نہیں ہیں کہ جن چیزوں کا دین ہونا ثابت ہے اسے ان کے ذریعہ سے نکال باہر کیاجائے ۔

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے