حیوانات کے حقوق ۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
روئے زمین پر جانوروں، پرندوں، یہاں تک کی کیڑے مکوڑوں کا وجود اللہ کی نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت ہے جنہیں انسان کے فائدے اور منفعت کے لیے پیدا کیا گیا ہے چنانچہ قران حکیم میں ہے:
اولم يروا انا خلقنا لهم مما عملت ايدينا انعاما فهم لها مالكون وذللناها لهم فمنها ركوبهم ومنها ياءكلون ولهم فيها منافع ومشارب افلا يشكرون .(سورة ،يس:71-73)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جو چیزیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کے لیے چوپائے پیدا کر دیے چنانچہ وہ ان کے مالک ہیں اور ہم نے ان کو ان کے قابو میں کر دیا تو ان میں سے بعض تو ان کی سواری ہیں اور بعض ان کی غذا ہیں نیز ان کے لیے اس میں بہت سے فائدے ہیں اور بعض جانور میں پینے کی چیزیں بھی ہیں تو کیا پھر بھی یہ شکر ادا نہیں کرتے ۔
اور ایک دوسری آیت میں کہا گیا ہے:
والانعام خلقها لكم فيها دفء و منافع ومنها تاكلون ولكم فيها جمال حين تريحون وحين تسرحون وتحمل اثقالكم الی بلد لم تكونوا بالغیه الا بشق الانفس ان ربكم لرؤوف رحیم۔والخيل والبغال والحمير لتركبوها وزينة ويخلق مالا تعلمون۔(سورة النحل:5-8)
اور اللہ نے تمہارے لیے چوپائے بھی پیدا کیے ،جن میں تمہارے لیے جاڑے کا لباس اور متعدد فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو اور جس وقت تم شام میں ان کو چرا کر واپس آتے ہو اور جب چرانے لے جاتے ہو تو تمہارے لیے ان میں رونق کا سامان ہے اور یہ چوپائے تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھا کر لے جاتے ہیں جہاں تم جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے بے شک آپ کے پروردگار نہایت شفیق اور بے حد مہربان ہیں نیز گھوڑے ،خچر اور گدھے پیدا فرمائے تاکہ تمہاری سواری اور زینت کے کام آئیں اور ایسی چیزیں بھی پیدا کی جن سے تم ابھی واقف نہیں ہو۔
یہ جانور بھی انسانوں کی طرح سے ایک قوم ہیں اور ایک خاص مصلحت اور مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وما من دابة في الارض ولا طائر يطير بجناحيه الا امم امثالكم ما فرطنا في الكتاب من شيء ثم الى ربهم يحشرون۔(سورة الانعام: 38)
زمین پر چلنے والے تمام چوپائے اور اپنے بازوں کی مدد سے اڑنے والے تمام پرندے تمہاری ہی طرح کے گروہ ہیں اور ہم نے لوح محفوظ میں کوئی چیز چھوڑی ہی نہیں پھر یہ سب اپنے رب ہی کی طرف جمع کیے جائیں گے۔
علامہ ابن قیم اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تخلیق رزق اور تقدیر میں ہماری طرح ہیں اور یہ کی انہیں بیکار نہیں پیدا کیا گیا ہے بلکہ وہ بھی اللہ کے حکموں کے پابند ہیں اور ان کی روزی، زندگی اور انجام کے بارے میں پہلے سے فیصلہ ہو چکا ہے۔(شفاء العلیل/41)
اور وہ بھی انسانوں کی طرح سے جذبات اور احساسات کے مالک ہیں چنانچہ قران کریم کی ایک آیت میں ان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
حتى اذا اتوا على واد النمل قالت نملۃ يا ايها النمل ادخلوا مساكنكم لا يحطمنكم سليمان وجنوده وهم لا يشعرون.
(سورة النمل:18)
یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کے میدان میں آئے تو ایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو !اپنے بلوں میں گھس جاؤ کہیں سلیمان اور ان کا لشکر بے خبری میں تم کو پیس نہ ڈالے ۔
قرآن حکیم کے اس جملے سے چیونٹیوں کے بارے میں بہت کچھ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ان میں باہم محبت اور ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں،اور کسی مصیبت و آفت کے وقت اپنی قوم کو بچانے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے، اور وہ کسی پر بے جا الزام عائد نہیں کرتی ہیں ،چنانچہ ان کے سردار نے کہا کہ حضرت سلیمان کے لشکری کہیں بے خبری میں تمہیں روند نہ ڈالیں یعنی وہ جان بوجھ کر تمہیں مارنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ قرآن حکیم میں یہ بھی بتلایا گیا ہےکہ تمام ذی روح کا مادہ تخلیق ایک ہے :
وجعلنا من الماء كل شيء حي۔( الانبياء:30)
اور ہم نے پانی سے ہر جاندار کو بنایا ۔
انسانوں کی طرح سے ایک گروہ ہونے کی حیثیت اور مادہ تخلیق میں شرکت اس بات کو واجب کرتی ہے کہ ان کے ساتھ بھی ہمدردی ،محبت، اور خیر خواہی کا معاملہ روا رکھا جائےاور انہیں ستانے ، پریشان کرنے اور مارنے سے پرہیز کیا جائے ۔
,اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ان الله كتب الاحسان على كل شيء فاذا قتلتم فاحسنوا القتلة واذا ذبحتم فاحسنوا الذبحۃ وليحد احدكم شفرته فليرح ذبيحته۔(صحیح مسلم:1955، ابوداؤد:2815،ترمذی:1409وغیرہ)
اللہ تعالی نے ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کو فرض کیا ہے اس لیے جب تم کسی کو قتل کرو تو اس میں بھی اچھائی کا خیال رکھو اور کسی جانور کو ذبح کرو تو اس میں بھی اچھائی کا لحاظ رکھو اور اسے راحت دینے کے لیے چھری کو اچھی طرح تیز کر لو.
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بينما رجل يمشي واشتد عليه العطش فنزل بئرا فشرب منها فاذا هو بكلب يلهث ياكل الثرى من العطش فقال لقد بلغ هذا مثل الذي بلغ بي فملأخفه ثم امسك بفيه ثم رقى فسقى الكلب، فشكر الله له فغفر له فقالوا يا رسول الله وان لنا في البهائم اجرا قال في كل كبد رطبة اجر
(صحيح بخاري:2363)
ایک ادمی کہیں جا رہا تھا ،اسے شدید پیاس لگی، وہ ایک کنویں میں اترا ،اور اس سے پیاس بجھائی، باہر آیا تو دیکھا کہ ایک کتا زبان نکالے ہوئے اور پیاس کی شدت کی وجہ سے نم زمین کو چاٹ رہا ہے اس آدمی نے سوچا جیسے مجھے پیاس لگی تھی اسی طرح سے اسے بھی لگی ہے پھر اس نے اپنے موزے میں پانی بھرا اور اس کا منہ پکڑ کے کنویں کے باہر آیا اور کتے کو پانی پلایا اللہ تعالی نے اس کی اس جذبے کی قدر فرمائی اور اس کی مغفرت کر دی صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول کیا جانوروں کے معاملے میں بھی ثواب ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر تر جگر والے میں اجر ہے. اسلام نے تمام مخلوقات کے تعلق سے لطف و مہربانی اور محبت اور رحمت کے جذبے کی جس طرح سے آبیاری فرمائی ہے اس کا کچھ اندازہ فقہی کتابوں میں لکھے ہوئے اس مسئلہ سے ہو سکتا ہے :
طرح القمل في المسجد ان كان ميتا حرم بنجاسته، وان كان حيا ففي كتب المالكيه كذلك؛ لان فيه تعذيبا له بالجوع (رد المحتار:653/1)
،مسجد میں مردہ جوئیں کو ڈالنا حرام ہے، کیونکہ وہ ناپاک ہے اور اگر زندہ ہو تو فقہ مالکی میں یہی حکم لگایا گیا ہے اس لیے کہ اسے بھوکا رکھ کر عذاب میں مبتلا کرنا ہے ۔
جانور کی حفاظت و رعایت :
جانور بھی انسان کی طرح سے ایک جاندار مخلوق ہے، اس لیے اس کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آنا اور اس کی راحت اور آسانی کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، مشہور حدیث ہے کہ روئ زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا، اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کمزور اور دبلے پتلے اونٹ کو دیکھا تو فرمایا
اتقوا الله في هذه البهائم المعجمة …. فاركبوها صالحة وكلوها صالحة۔(ابوداؤد:2548،احمد:17662)
ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو …ان پر اسی وقت سواری کرو جب وہ سواری کے لائق ہوں ،اور اگر ذبح کر کے کھانا چاہتے ہو انہیں کھلا پلا کے موٹا تازہ رکھو ۔
اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے وہاں ایک اونٹ تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی رونا اور بلبلانا شروع کر دیا آپ اس کے پاس گئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ چپ ہو گیا، آپ نے پوچھا اس اونٹ کا مالک کون ہے ؟ایک نوجوان انصاری آئے اور عرض کیا یہ میرا اونٹ ہے ،آپ نے فرمایا:
افلا تتق الله في هذه البهيمه التي ملك الله اياها فانه شکى الي انك تجيعه وتدئبه (ابوداؤد:2549،احمد:1754)
تم اس جانور کے بارے میں اللہ سے کیوں نہیں ڈرتے ہو جس کا اس نے تمہیں مالک بنایا ہے ،اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور بہت زیادہ کام لیتے ہو۔
یعنی یہ جانور تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک امانت کے طور پر ہیں اس لیے ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی نگہداشت ضروری ہے۔
ان احادیث کے پیش نظر فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جانور کو کھلانا پلانا واجب ہے، اور امام مالک، شافعی اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے جانور کو چارہ پانی نہ دے تو قاضی اس پر مجبور کرے گا ،اور حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ یہ اخلاقی طور پر واجب ہے قضاءً واجب نہیں۔(فتح القدیر:427/4
اور شافعیہ کہتے ہیں کہ اگر اس کا مالک اس کے نفقہ پر قادر نہیں ہے تو اسے کرایہ پر لگا دیا جائے گا اور اس کی آمدنی کواس پر خرچ کیا جائے گا ،اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو بیت المال سے خرچ کیا جائے گا ،اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر تمام مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے چارےکا نظم کریں۔(مغنی المحتاج:463/3)
اور حنابلہ کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے اس پر خرچ کیا جائے گا اور وہ اس کے مالک پر قرضہ رہے گا، اور جب وہ اس کی ادائیگی پر قادر ہوگا تو اس سے وصول کر لیا جائے گا۔(کشاف القناع:494/5)
ان عبارتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک جانور کی
زندگی کو فقہاء اسلام نے کس قدر اہمیت دی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن طریقے کو اختیار کرنے کی کوشش کی ہے یہاں تک کہ ان جانوروں کے بارے میں بھی اس کا کوئی مالک نہ ہو اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ وابستہ ہو ،چنانچہ علامہ دسوقی نے لکھا ہے کہ اگر کسی کے گھر میں کوئی اندھی بلی داخل ہو جائے اور اندھے پن کی وجہ سے وہاں سے نہ جا سکے تو اس گھر والے کے لیے اس کو کھلانا پلانا ضروری ہے ۔(حاشية الدسوقي:522/2)
بوقت ضرورت جانور پر سوار ہونا درست ہے لیکن اس حالت میں بھی اس کی حفاظت اور اس کے آرام اور راحت کا خیال رکھنا ضروری ہے ،حضرت انس جنہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ارکبواهذه الدابة سالمة وابتدعوها سالمة ولا تتخذوها كراسي۔(احمد:15677،ابن حبان:5619،دارمي:2668)
اور حضرت ابو ہریرہ سے منقول حدیث میں ہے :
اياكم ان تتخذوا ظهور دوابكم منابرفان الله سخرها لكم لتبلغكم الى بلد لم تكونوا بالغيه الا بشق الانفس وجعل لكم الارض فعليها فقضوا حاجاتكم (ابو داوود :2567۔بيهقي:10115)
جانوروں کو ممبر بنانے سے بچو اس لیے کہ اسے اللہ نے تمہارے قابو میں اس لیے دیا ہے تاکہ تم ان پر سوار ہو کر ان جگہوں تک پہنچ سکو جہاں جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں جا سکتے تھے اور اللہ نے تمہارے لیے زمین بنائی ہے اس لیے اسی پر اپنی دوسری ضرورت پوری کرو۔
اور علامہ نووی لکھتے ہیں کہ کسی جانور پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لادنا درست نہیں ہے، اور اگر کسی نے اس کو کرایہ پر دے دیا اور لینے والے نے اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لاد دیا تو مالک کے لیے اس پر راضی ہونا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ نے ہر چیز کے ساتھ حسن سلوک کو فرض کیا ہے، اور دوسری حدیث میں ہے کہ لاضرر و ضرار کوئی فائدہ حاصل کرنے کے لیے یا بے فائدہ کسی کو نقصان پہنچانا نہیں ہے، اور مستحب ہے کہ صبح شام میں اور کسی گھاٹی پر چڑھتے ہوئے جانور پر سے اتر جائے، اور جانور کو پشت پر سونے سے اجتناب کرے، اور اپنے ساتھ کسی اور کو سوار کر لینا جائز ہے ،بشرطيكہ کی جانور دونوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہو، اور اگر اس میں اس کی طاقت نہ ہو تو جائز نہیں ہے، اور اس کے جائز نہ ہونے کی دلیل مذکورہ احادیث ہیں اور اس پر تقریبا اجماع ہے ۔(المجموع:390/4)
اور حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذا سافرتم في الخصب فاعطوا الابل حقها من الارض واذا سافرتم في السنة فاسرعوا عليها السير واذا عرستم بالليل فاجتنبوا الطريق فانها ماوى الهوام بالليل۔ (مسلم:1926،ابوداؤد:2569وغيره)
جب تم ہریالی کے موسم میں سفر کرو تو زمین سے اونٹ کا حصہ دیتے چلو (یعنی آہستہ چلو تاکہ وہ چر چگ سکیں )اور جب خشک سالی میں سفر کرو تو تیزی سے چلو اور جب رات میں پڑاؤ ڈالو تو راستے سے ہٹ کے چلو کیونکہ وہ کیڑے مکوڑوں کا ٹھکانہ ہے۔
اور ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ولاتعدوالمنازل۔
اور منزل سے آگے نہ بڑھو.( ابوداؤد:2570)
علامہ عظیم آبادی اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ ایسا کرنے میں خود کو اور جانور کو تھکاناہے (عون:171/7)
اور حدیث کے اخری ٹکڑے کی شرح میں کہا گیا ہے کہ راستے میں پڑاؤ ڈالنے کی وجہ سے خطرہ ہےکہ کوئی زہریلا کیڑا یا درندہ انسان یا سواری کو نقصان نہ پہنچا دے لیکن اسی کے ساتھ ان کیڑوں مکوڑوں کے ساتھ رحم کا جذبہ بھی کار فرما ہے کیونکہ وہ راستے میں اس لیے آتے ہیں تاکہ مسافروں کے ذریعے گرے ہوئے کھانے کے ٹکڑوں کو اپنی خوراک بنا سکیں ۔(التسير للمناوي:205/1)
اسی طرح سے جانور کا ایک مقصد دودھ کا حصول بھی ہے لیکن اس میں بھی اس کی صحت کا خیال اور اس کے بچوں کی رعایت ضروری ہے حضرت سوادہ بن ربیع کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی ضرورت بیان کی آپ نے انہیں اوٹنی دینے کا حکم دیا اور فرمایا :
اذا رجعت الى بيتك فمرهم فليحسنوا غذاء رباعهم ومعرهم فليقلموا اظفارهم ولايعبطوا بها ضروع مواشيهم اذا حلبوا (احمد:16003،بيهقي:15598وغيره)
جب تم اپنے گھر واپس جاؤ تو گھر والوں سے کہو کہ اپنے جانوروں کا خاص خیال رکھیں اور اچھی طرح سے انہیں چارہ دیتے رہیں اور اپنے ناخن کو تراش لیں اور اس کے ذریعے دودھ نکالتے ہوئے ان کے تھنوں کو زخمی نہ کریں ۔
حدیث کے شارحین نے لکھا ہے کہ آخری ٹکڑے سے مراد یہ ہے کہ دودھ نکالتے ہوئے اتنی شدت اختیار نہ کریں کہ اس کے تھن زخمی ہو جائیں اور خون نکلنے لگے یا اسے اس حد تک نہ نہیں نچوڑا جائے کہ دودھ ختم ہونے کے بعد خون نکلنے لگے۔
علامہ خطیب شربینی نے اس مسئلے پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جانور کے دودھ کو اس قدر نہیں نکالنا چاہیے کہ اس کے بچوں کے لیے نقصان دہ ہو بلکہ بچوں کے پیٹ بھرنے کے بقدر دودھ چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ انسان کی طرح سے جانور کے بچوں کی غذا بھی ابتدائی مرحلے میں ان کی ماں کا دودھ ہی ہوتا ہے اس لیے بچوں کا پیٹ بھر جانے کے بعد بقیہ دودھ نکالنا چاہیے کیونکہ جانور کا بچہ اپنی ماں کے دودھ کا سب سے زیادہ حقدار ہوتا ہے البتہ اگر وہ ماں کے دودھ کو نہیں پیتا ہے یا اس کے لیے سازگار نہیں ہے تو مالک کو اجازت ہے کہ بچے کو کسی دوسرے جانور کا دودھ دے ،مگر بے ضرورت ایسا نہیں کیا جائے گا اسی طرح سے اگر دودھ نکالنے کی وجہ سے کسی جانور کی صحت خراب ہوتی ہو تو دودھ نکالنا جائز نہیں ایسی حالت میں جانور کی غذا کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ دودھ میں اضافہ ہو۔(الاقناع:483/2)
اور الجوہر النیرہ میں ہے :
ويكره الاستقصاء في الحلب اذا كان يضربها لقلۃ العلف ويكره ترك الحلب ايضا لانه يضر بالبهيمة۔( الجوهره:95/2)
جانور کی فطرت کی حفاظت:
اللہ نے اس کائنات میں موزونیت بھی رکھی ہے اور حسن بھی، اس میں ہر چیز کو وہی شکل وصورت ،پیرہن اور فطرت عطا فرمائی جو اس کے لیے مناسب ترین ہے۔
الذي احسن كل شيء خلقه وبدا خلق الانسان من طين ۔
(سورة السجده:7)
اس نے جو چیز بنائی بہتر بنائی اور مٹی سے اس نے انسان کے پیدا کرنے کا اغاز کیا۔
اور اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت میں تبدیلی ایک شیطانی روش اور کائنات میں فساد اور بگاڑ کا باعث ہے شیطان نے انسان کو گمراہ کرنے کے لیے جو طریقے اپنائے ہیں وہ خود اسی کی زبانی قران میں بیان کیا گیا ہے:
وقال لاتخذن من عبادك نصيبا مفروضا ولا ضلنهم ولامنينهم فليبتكن اذان الانعام ولامرنهم فليغيرن خلق الله۔(سورةالنساء:116)
اور کہا کہ میں تمہارے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کے رہوں گا میں ضرور انہیں گمراہ کروں گا انہیں آرزوئیں دلاؤں گا ان کو سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان کاٹیں اور حکم دوں گا کہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کریں۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بينما رجل راكب على بقره التفتت اليه فقالت لم اخلق لهذا خلقت للحراسة۔(بخاري:2324،مسلم:2388)
ایک شخص گائے پر سوار تھا ،وہ اس کی طر ف متوجہ ہوئی اور کہا میں اس کے لیے پیدا نہیں کی گئی میں تو کھیتی کے لیے پیدا کی گئی ہوں۔
غور کا مقام ہے کہ اللہ تعالی نے صرف انہی جانوروں کے گوشت کو حلال قرار دیا ہے جو گوشت خور نہیں ہیں بلکہ سبزی دانہ یا بھوسہ کھاتے ہیں اور گوشت خور جانوروں اور پرندوں کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے ایسے میں حلال جانور کی غذا میں لحمی اجزاء کو شامل کرنا ان کی فطرت سے بغاوت اور اللہ کی منصوبہ بندی میں مداخلت ہے اور سخت نقصان کا باعث ہے اس لیے جانور کی غذا میں لحمی اجزا شامل کرنا درست نہیں خواہ اس کا مقصد جانوروں کی افزائش ہو یا کچھ اور چنانچہ جدید طبی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ غیر فطری غذا جانور کے لیے اور اس کے گوشت یا انڈے کو استعمال کرنے والوں کے لیے نہایت خطرناک ہے ایک مطالعہ کا حوالہ دیتے ہوئے لا کمیشن نے اپنی سفارش میں کہا ہے :
کوسی ڈیوریسیڈ سمیت متعدد اینٹی بایوٹک دوائیں جو لحمی اجزاء پر مشتمل غذاؤں اور انجکشنوں کی وساطت سے مرغ کو دی جا رہی ہیں حالانکہ یہ بہت نقصان دہ ہے ۔(روزنامہ انقلاب صفحہ نمبر پانچ 11 جولائی 2017)
اس بات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ اگر لحمی اجزاء کو مردار یا حرام جانور سے حاصل کیا گیا ہے اور اس کی ماہیت تبدیل نہ ہوئی ہو تو اسے جانور کو کھلانا حرام ہوگا لیکن اگر جانور اسے کھا لے مگر اس کی وجہ سے اس کے گوشت میں بدبو نہ پیدا ہوئی ہو تو اس کا گوشت حلال ہے اور اگر بدبو پیدا ہو گئی ہو تو وہ جلالہ جانور کے حکم میں ہوگا یہ حنفیہ کی رائے ہے۔ شافعیہ بھی اسی کے قائل ہیں اور امام احمد سے بھی ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے۔ (دیکھیے الموسوعۃ الفقہیہ:392/39) اور مالکیہ کے نزدیک حرام جانوروں کو نجس غذا کھلائی جا سکتی ہے۔( الکافی ابن عبدالبر :440/1)اور حنابلہ کے نزدیک حلال جانور کو بھی ناپاک چارہ دیا جا سکتا ہے بشرطیکہ کھلانے کے تین دن بعد اسے ذبح کیا جائے( المغنی:350/13)
نسل کی حفاظت :
روئے زمین پر زندگی برقرار رکھنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے جو درختوں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور درختوں کی زندگی کے لیے کاربن ڈائی اکسائیڈ کی ضرورت ہے جو جاندار کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اس طرح سے دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اس لیے اگر حیوانات نہ ہوں تو جنگلات کے لیے خطرہ ہے اور جنگلات کی کمی انسان کے وجود کے لیے خطرناک ہے اس لیے اسلام نے خصوصی طور پر حیوانات کی زندگی پر توجہ دی گئی ہے اور بلاوجہ کسی جانور کو مارنے سے منع کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے اس کائنات میں کسی بھی چیز کو بلاوجہ اور بے مقصد پیدا نہیں کیا ہے اور اسی لیے طوفان نوح کے موقع پر اہل اسلام کے ساتھ ہر جانور کے ایک جوڑے کو کشتی میں سوار کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ حیوانات میں سے کسی خاص نوع کا بالکل خاتمہ نہ ہو جائے ارشاد ربانی ہے:
حتى اذا جاء امرنا وفار التنور قلنا احمل فيها من كل زوجين اثنين واهلك الا من سبق عليه القول ومن آمن
( سوره هود:40)
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور سے پانی ابلنا شروع ہو گیا تو ہم نے کہا ہر قسم میں سے ایک نر اور مادہ یعنی دو عدد کشتی میں چڑھا لیجئے اور جن کے بارے میں پہلے ہی عذاب کا فیصلہ ہو چکا ہے ان کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو نیز دوسرے ایمان والوں کو بھی سوار کر لیجئے ۔
کائنات میں نہ تو کوئی چیز زائد ہے اور نہ بے مقصد بلکہ تمام چیزیں جچے تلے انداز میں اور ایک خاص مقصد سے پیدا کی گئی ہیں اس لیے ان میں سے کسی کو ختم کرنے کی کوشش سے ماحولیاتی توازن میں بگاڑ پیدا ہوگا، حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لولا ان الكلاب امة من الامم لامرت بقتلها فاقتلوا منها الاسود اليهم۔( ابو داوود:2845،ترمذي:1486)
اگر کتے بھی اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق نہ ہوتے تو میں انہیں قتل کرنے کا حکم دیتا تو اب تم صرف کالے بھجنگے کتے کو قتل کرو۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ خطابی لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوقات میں سے کسی مخلوق کی پوری نسل کے خاتمے کو اور ایک گروہ کے مکمل طور پر نسلی صفایا کو ناپسند فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اس میں ایک خاص حکمت و مصلحت ہے اس لیے تمام کتوں کے مارنے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ صرف ان کتوں کو قتل کرو جو شری ہیں ۔(معالم السنن:289/4)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی جانور کی نسل ختم ہوتی جا رہی ہو اور اس کی وجہ سے حکومت کی طرف سے ان کے شکار پر پابندی لگا دی گئی ہو تو اس پر عمل کرنا لازمی ہے نیز اگر کسی ملک میں کسی جانور کو قومی جانور قرار دے کر اسے مارنے کی ممانعت کر دی گئی ہو تو اس کی پابندی واجب ہے کیونکہ اس طرح کی چیزوں میں اگر مسلم حکمران کی طرف سے کوئی حکم نافذ کیا جاتا ہے تو اس کی اطاعت ضروری ہے اور اگر کسی غیر مسلم حکمران کی طرف سے اس طرح کا کوئی حکم دیا جاتا ہے تو قانون کی پابندی اور عہد کی پاسداری کے اصول کے مطابق اس پر عمل کرنا لازم ہے شکار سے متعلق حکومت کی طرف سے مقرر کردہ دوسرے قوانین کا بھی یہی حکم ہے۔
اسی طرح سے اگر مسلمان کسی ملے جلے معاشرے میں رہتے ہوں جہاں کوئی گروہ کسی خاص جانور کو معبود اور مقدس مانتا ہو اور اسے ذبح کرنے کی وجہ سے وہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہوتے ہوں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوتی ہو یا قانونا اس کو ذبح کرنے کی پابندی ہو تو مسلمانوں کو اسے ذبح کرنے سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کسی ایسے عمل سے بچیں جس کی وجہ سے غیر مسلم رد عمل کا شکار ہو اور دعوتی مواقع ختم ہو جائیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله فيسبوا الله عدوا بغير علم كذلك زينالكل امة عملهم ثم الى ربهم مرجعهم فینبهم بما كانوا يعملون۔(سوره الانعام:108)
اور اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے ہیں ان کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ وہ بھی حد سے تجاوز کرتے ہوئے جہالت کی وجہ سے اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں گے اسی طرح سے ہم نے ہر گروہ کے لیے ان کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے پھر ان کے رب کی طرف ہی ان کی واپسی ہے پس اللہ ان کو ان کے اعمال کے بارے میں بتادیں گے۔
علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اس میں ان تمام چیزوں کو برا بھلا کہنے اور گالی دینے سے منع کیا گیا ہے جسے دوسرے مذہب کے لوگ مقدس اور قابل احترام سمجھتے ہوں اور امت مسلمہ کے لیے یہ حکم ہر حال میں باقی ہے اور ایسا کرنا بطور تعظیم نہیں بلکہ حکمت عملی کا ایک حصہ اور غیر مسلموں کی دل جوئی اور ان کو قریب کرنے کا ایک ذریعہ ہے لہذا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ عیسائیوں کے صلیب، ان کے مذہب اور ان کے عبادت خانوں کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کریں بلکہ ان تک پہنچانے والا بھی کوئی کام نہ کرے۔ اور اس ایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حق پر قائم رہنے والوں کے لیے بھی کبھی حق کہنے سے بچنا چاہیے جب کہ اس کی وجہ سے کوئی ديني ضرر لاحق ہو
(الجامع الاحکام القرآن:61/7)
غیرے جنس کے ساتھ اختلاط :
گدھے اور گھوڑى کے اختلا ط سے ایک نئی نسل وجود میں آتی ہے جسے خچر کہا جاتا ہے اور اللہ تعالی نے اس کے وجود کو اپنی قدرت کا ایک نمونہ اور اپنے انعامات میں شمار کیا ہے ار شاد ربانی ہے:
والخيل والبغال والحمير لتركبوها وزينة(سورة النحل:8)
اور گھوڑے خچر اور گدھے پیدا فرمائے تاکہ تمہاری سواری اور زینت کے کام آئیں۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے خچر پر سوار ہونا ثابت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر جنس کے ساتھ اختلاط کرناجائز ہے کیونکہ اگر یہ عمل ناجائز ہوتا تو قرآن حکیم میں اسے بطور احسان ذکر نہ کیا جاتا اور نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوتے اس لیے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر سوار ہونے سے اس عمل کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور عام طور پر فقہاء بھی اس کے جواز کے قائل ہیں ۔
بعض فقہاء سےاس عمل کی کراہیت یا حرمت منقول ہے ان کے دلائل یہ ہیں:
1-عن علي بن ابي طالب قال اهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم بغله فركبها فقال علي لاحملنا الحمير على الخيل فكانت لنا مثل هذه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم انما يفعل ذلك الذين لايعلمون۔ (ابوداؤد:2565،نسائی:3580)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تحفہ میں ایک خچر آیا آپ اس پر سوارہوئے انہوں نے کہا اگر ہم بھی گدھے اور گھوڑی کااختلاط کراتے تو ہمارے پاس بھی اس طرح کے جانور ہوتے یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جاہلوں کا کام ہے ۔
2-عن ابن عباس رضي الله عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم عبدا مامورا مااختصنا دون الناس بشيء الا بثلاث امرنا ان نسبغ الوضوء وان لا ناكل الصدقه وان لا ننزى حمارا على فرس۔(ابو داود:808،ترمذي:1701)
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم کے پابند تھے آپ کو جو حکم دیا جاتا اسے دوسروں تک پہنچا دیتے اور آپ نے اہل بیت کے لیے تین چیزوں کے علاوہ کوئی خصوصی حکم نہیں دیا آپ نے ہمیں خاص طور سے حکم دیا کہ مکمل طریقے پر وضو کریں اور صدقہ نہ کھائیں اور گدھے اور گھوڑی سے اختلاط نہ کریں۔
ان احادیث کے بارے میں علامہ ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں کہ ان کے ذریعے اس عمل کا عدم جواز معلوم نہیں ہوتا بس یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا کرنا پسندیدہ اور بہتر نہیں ہے خاص کر اہل بیت اور شرفا و علماء کے لیے
(اعلاءالسنن:453/17)
اور بعض حضرات کا خیال ہے کہ مذکورہ احادیث میں ممانعت اس وقت ہے جبکہ اس عمل کی وجہ سے گھوڑوں کی قلت یا ان کی نسل ختم ہونے کا اندیشہ ہو اور اگر ایسا ہے تو تمام فقہاء عدم جواز پر متفق ہیں
اور بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر اس کی وجہ سے جانور کو کوئی نقصان پہنچے یا اسے شدید تکلیف ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ۔(نہایةالمحتاحج:170/6)
حاصل یہ ہے کہ حلال جانوروں کے دودھ میں اضافہ یا اس کے جسمانی حجم کو بڑھانے کے لیے حرام جانور سے اس کا اختلاط جائز ہے جیسے کہ گدھا باتفاق حرام ہے اور عام طور پر فقہا کے نزدیک گھوڑا حلال ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہے۔
اور حلال و حرام اختلاط سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ ماں کے تابع ہوگا اگر ماں حلال ہے تو حلال اور ماں حرام ہے تو بچہ بھی حرام شمار ہوگا جیسا کہ فقہی کتابوں میں اس کی صراحت ہے چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں :
وہ بچہ جو گھریلو اور جنگلی جانور کی اختلاط سے پیدا ہو وہ ماں کے تابع ہوگا کیونکہ بچے کے تابع ہونے کے سلسلے میں ماں ہی اصل ہے یہاں تک کہ اگر بھیڑیا بکری سے جفتی کرے تو اس سے پیدا ہونے والے بچے کی قربانی درست ہوگی۔(ردالمحتار:386/1باب المیاہ)
یہ بعض حنفیہ کی رائے ہے اور اس کے برخلاف اکثر مشائخ حنفیہ کے نزدیک حلال و حرام جانور کے اختلاط سے پیدا ہونے والے بچے کے گوشت کو کھانا یا اس کے دودھ کو استعمال کرنا درست نہیں۔(البنایہ :49/12)
علامہ ابن نجیم مصری نے اسی کو راجح قرار دیا ہے کیونکہ ضابطہ یہ ہے :
اذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام
(الاشباه والنظائر:109)
اور یہی رائے زیادہ صحیح ہے۔
واضح رہے کہ جرسی گائے کے متعلق مشہور ہے کہ اسے خنزیر کے اختلاط سے پیدا کیا گیا ہے تو اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ وہ ایک گائے کی مستقل قسم ہے جس میں نر اور مادے دونوں ہوتے ہیں اور ایک قدیم نسل ہے جو انگلستان کے جزیرہ جرسی کی طرف منسوب ہے۔نیز خنزیر کے مادہ منویہ سے گائے کو حاملہ کرنا ممکن نہیں ۔
صحت کی حفاظت:
انسان جس طرح سے اپنی صحت کا خیال رکھتا ہے اسی طرح سے جانور کی صحت کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے اور جس طرح سے اس کے لیے حکم ہے کہ وہ ایسی تمام چیزوں سے بچے جو اس کی صحت کے نقصان دہ اور اس کو بیماری میں مبتلا کر سکتی ہیں اور کسی مرض کا شکار ہونے پر دوا اور علاج سے غفلت نہ برتے اسی طرح سے یہ تمام احکام جانوروں کے لیے بھی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اتقوا الله في هذه البهائم المعجمة فركبوها صالحة وكلوها صالحة ۔(ابوداؤد:2548)
ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے خوف کرو اور ٹھیک ہونے کی حالت میں ان پر سواری کرو اور ٹھیک ہونے کی حالت میں ان کو کھاؤ ۔
علامہ مناوی لکھتے ہیں کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جانور کو چارہ پانی دیتے رہو تاکہ وہ تمہارے مقصد کے لیے کارآمد رہے اگر تم نے اسے سواری کے لیے رکھا ہے تو اسے اس کو سواری کے لائق باقی رکھو ۔ وہ تندرست و توانا اور چلنے پر قادر ہو تو اس پر سواری کرو ۔ اور نہ اس پر ایسا بوجھ لادو جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا اور اگر تم اسے ذبح کر کے کھانا چاہتے ہو تو بھی اسے موٹا تازہ رکھو تاکہ وہ کھانے کے لائق رہے ۔(فیض القدیر :164/1)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يوردن ممرض على مصح۔
متعدی مرض میں مبتلا اونٹ کو ایسی جگہ سے پانی نہ پلاؤ جہاں سے تندرست اونٹ پانی پیتے ہیں ۔
لہذا زیادہ دودھ حاصل کرنے یا گوشت میں اضافے کے مقصد سے جانور کو انجکشن لگانے سے اس کی صحت کے لیے خطرہ ہے تو ایسا کرنا درست نہیں اور اگر اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس سے انسان کا کوئی فائدہ وابستہ ہے تو جائز ہے حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نکالنے والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ناخن کو کاٹ لیا کریں تاکہ اس کی وجہ سے جانور کا تھن زخمی نہ ہو یا اتنا دودھ نہ نچوڑا جائے کہ دودھ کے بعد خون آنے لگے اور علامہ شربینی کے حوالے سے یہ بات آچکی ہے کہ اگر دودھ نکالنے کی وجہ سے جانور کی صحت خراب ہوتی ہو تو دودھ نکالنا جائز نہیں ہے۔(الاقناع: 483/2)
یہ صحیح ہے کہ جانور کو انسان کے فائدے کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور اسے ہر طرح سے انتفاع کا حق حاصل ہے لیکن اسی کے ساتھ ممکن حد تک جانور کے درد و الم کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے چنانچہ غصب کے سلسلے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ سامان غصب کو بعينہ واپس کرنا ضروری ہے مگر یہ کہ بعینہ واپسی کی وجہ سے کوئی ضرر لاحق ہو جیسے کہ کوئی شخص دھاگا غصب کر کے کسی جانور کے زخم کی سلائی کر دے تو امام قرافی کہتے ہیں کہ اس دھاگے کو جانور کے جسم سے نکال کر واپس نہیں کیا جائے گا۔لايحتمل النقض لان له حرمة۔(الذخيرة للقرافي:327/8)
جانور کو قتل کرنا:
روئے زمین پر فساد پھیلانے کی ایک شکل جانوروں کو ناحق قتل کرنا بھی ہے چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
واذا تولى سعى في الارض ليفسد فيها ويهلك الحرث والنسل والله لا يحب الفساد ۔(سوره البقره:205)
اور جب اٹھ کرجاتا ہے تو زمین میں اس کی دوڑ دھوپ اس لئے ہوتی ہے کہ وہ اس میں فساد مچائے، اور فصلیں اور نسلیں تباہ کرے، حالانکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
ما من انسان قتل عصفورا فما فوقها بغير حقها الا ساله الله عنها قيل يا رسول الله وما حقها قال يذبحها فياكلها ولا يقطع راسها يرمي بها۔(نسائي: 4349،احمد: 6550)
جو شخص بھی کسی گوریا یا اس سے چھوٹے پرندے کو ناحق مار دے تو اللہ تعالی اس سے باز پرس کریں گے عرض کیا گیا :اللہ کے رسول! حق کے ساتھ مارنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے ذبح کر کے کھا جائے یہ نہ ہو کہ سر کاٹے اور پھینک دے۔
اور حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے :
ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن قتل اربع من الدواب النملة والنحلة والهدهد والصرد۔
(ابو داوود: 5267،ابن ماجه:3224،احمد: 3067 )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار جانوروں کو مارنے سے منع فرمایا ہے چیونٹی شہد کی مکھی ہدہد اور صرد پرندہ۔
علامہ طحاوی کہتے ہیں کہ ہدہد یا سرد کو مارنا ایک فعل عبث ہے کیونکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ اس طرح کے چھوٹے پرندوں کا اتنی مقدار میں شکار کر لیا جائے کہ اس سے غذائی ضرورت پوری ہو جائے اس لیے بےمقصد اور ناحق قتل کرنا ہوگا اور انہیں مارنے والا بھی مذکورہ وعید میں شامل ہوگا اور شہد کی مکھی کو مارنے سے بھی کوئی فائدہ وابستہ نہیں ہے نیز ان کے ذریعے انسانوں کو فائدہ ملتا ہے اس لیے اسے مارنے میں دو نقصان ہیں ایک تو اس کے فائدے کو ختم کرنا دوسرے مار کر کوئی فائدہ حاصل نہ کرنا اس لیے اس کے مارنے والے کا جرم ہدہد اور صردکے مارنے والے سے زیادہ ہے اسی طرح سے چونٹی کے مارنے میں بھی کوئی فائدہ نہیں اور اس کے زندہ رہنے سے کوئی نقصان نہیں بلکہ بعض فائدے ہی ہیں ۔(شرح مشکل الآثار:330/2)
اور تمام فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ غیر ضرر رساں کیڑے مکوڑے کو مارنا مکروہ ہے البتہ چیونٹی اگر کاٹ لے تو اسے مارنا درست ہے چنانچہ فتاوی ہندیہ وغیرہ میں ہے کہ چیونٹی کو کاٹنے سے پہلے مارنا مکروہ ہے اور جب کاٹ لے تو مارنے کی گنجائش ہے۔(الہندیہ:361/5)
اور مالکیہ کہتے ہیں کہ چیونٹی کو مارنا اسی وقت درست ہے جبکہ وہ کاٹ لے اور اس کی ایذا رسانی سے بچنے کے لیے مارنے کی وجہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہو یعنی اگر اسے بھگانے کا کوئی طریقہ موجود ہو تو پھر مارنا مکروہ ہے(الفواكه الدواني::102/1،الذخيره:287/3)
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی بھی ايذا پہنچانے والے کیڑے کوایذا رسانی سے پہلے یا بے وجہ مارنا جائز نہیں ہے ۔(حاشیة الدسوقي:108/2)
اور شافعیہ کہتے ہیں کہ کیڑے مکوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کی فطرت میں ایذا رسانی شامل ہے انہیں مارنا مستحب ہے دوسرے وہ جو فائدے مند ہوں اور نقصان دہ بھی ہوں انہیں مارنا نہ مکروہ ہے اور نہ مستحب تیسرے وہ جن کا نفع و نقصان معلوم نہ ہو انہیں قتل کرنا مکروہ ہے ۔
شافعیہ کے نزدیک سلیمانی چیونٹی ،شہد کی مکھی اور مینڈک کو مارنا حرام ہے اور چھوٹی چیونٹی کو جلائے بغیر مارنا جائز ہے اور اگر جلانے کے علاوہ کوئی اور تدبیر کارگر نہ ہو تو اسے بھی اختيار کیا جا سکتا ہے۔(المجوع :316/7)
اورحنابلہ کہتے ہیں کہ ہر وہ جانور جس کی فطرت میں ایذا رسانی ہو اسے مارنا مستحب ہے اور چیونٹی کو مارنا مکروہ ہے مگر یہ کہ وہ شدید تکلیف کا باعث ہو۔
(المغنی:342/3)
ان تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی جانور کو بے مقصد اور بلاوجہ مارنا درست نہیں ہے البتہ کسی ضرورت اور حاجت کے تحت مارنا جائز ہے اور زینت کے لیے بھی ۔ لہذا ہاتھی کو محض اس کے دانت کو حاصل کرنے کے لیے اور ہرن کو محض سینگ اور کھال حاصل کرنے کے لیے مارنا درست ہے(1) اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَّ الۡخَیۡلَ وَ الۡبِغَالَ وَ الۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً ؕ وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔
اور گھوڑے، خچر اور گدھے اسی نے پیدا کیے ہیں تاکہ تم ان پر سواری کرو، اور وہ زینت کا سامان بنیں۔ اور وہ بہت سی ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں ہے۔(النحل: 8)
البتہ اعتدال کا خیال رکھنا چاہیے اور اس کی وجہ سے ان کی نسل ختم ہونے کا اندیشہ نہ ہو ۔
وہ جانور جسے مارنا جائز ہے:
حدیث میں ہے بعض جانوروں کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی اس جانور کی نسل کو ختم کرنے کے درپے ہو جائے حدیث گزر چکی ہے کہ اگر کتا مخلوقات کے زمرے میں شامل نہ ہوتا تو میں اسے قتل کرنے کا حکم دیتا ۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے :
خمس فواسق يقتلن في الحرم الفارةوالاقرب والحديا والغراب والكلب العقور۔(بخاري:3136،مسلم:1198)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ طرح کے جانور شرپسند ہیں انہیں حرم میں بھی مار دیا جائے گا بچھو ،چیل، کوا اور کاٹنے والا کتا۔
حدیث میں ان جانوروں کو شرپسند کہا گیا ہے گویا کہ ایذا رسانی ان کی فطرت میں شامل ہے اس لیے ہر موذی جانور کا یہی حکم ہوگا۔(احكام الاحكام لابن دقيق العيد: 311/1)
اور کاٹنے والے کتے کی طرح ہر وہ جانور ہے جو انسانوں پر حملہ آور ہو اور انہیں خوف زدہ کرے جیسے کہ شیر چیتا وغیرہ لیکن واضح رہے کہ اس اجازت کا مقصد ضرر سے بچنا ہے اس لیے اگر ان جانوروں سے کوئی خطرہ نہ ہو تو بلا وجہ انہیں مارنے کی اجازت نہ ہوگی چنانچہ علامہ نووی کہتے ہیں کہ تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کی پاگل اور کاٹنے والے کتے کو مارنا جائز ہے اور بے ضرر کتے کے مارنے میں اختلاف ہے امام الحرمین جوینی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تمام کتوں کو مارنے کا حکم دیا پھر اس حکم کو ختم کر کے اسے مارنے سے منع کر دیا سوائے کالے بجھنگے کتے کے پھر شریعت کا آخری اور مستقل حکم یہ ہوا کہ ان تمام کتوں کو نہ مارا جائے جن سے کوئی نقصان نہ ہو خواہ کالا کتا ہو یا دوسرا اور اس کی دلیل ابن مغفل کی وہ حدیث ہے جس میں کتے کو ایک مخلوق اور گروہ کہا گیا ہے ۔(المنہاج:235/1)
غرضيکہ مذکورہ جانوروں کو مارنے کی اجازت کی علت نقصان دہی اور ضرر رسانی ہے لہذا اگر ان سے کسی نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو پھر مارنے کی اجازت نہ ہوگی
اور ان کے ضرر سے بچنے کے لیے ایسے طریقے سے مارنے کی اجازت ہوگی جس سے ان کو کم سے کم تکلیف پہنچے حضرت عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقتل شيء من الدواب صبرا۔(مسلم:1959،ابن ماجه:3188،احمد:14463)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جانور کو باندھ کر اور نشانہ بنا کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اور یہ حدیث آچکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو بھلے طریقے سے ذبح کرو بعض لوگوں نے اس حدیث کی روشنی میں ایک دوسری حدیث کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جس میں کہا گیا ہے :
من قتل وزغۃ في اول ضربة فله كذا وكذا حسنةومن قتلها في الضربۃ الثانيۃ فله كذا وكذا حسنة لدون الاولى وان قتلها في الضربة الثالثة فله كذا وكذا حسنة لدون الثانية۔(مسلم:2240،ابوداؤد:5263،ترمذي:1482)
جو شخص گرگٹ کو ایک مرتبہ میں جان سے مار دے تو اسے اتنا اتنا ثواب ملے گا اور جو کوئی دوسری مرتبہ میں مارے تو اسے اتنا اتنا اجر ملے گا جو پہلی مرتبہ میں مارنے سے کم ہوگا اور جو کوئی تیسری مرتبہ میں مارے تو اسے اتنا اتنا اجر ملے گا جو دوسری مرتبہ میں مارنے سے کم ہوگا۔
ضابطہ یہ ہے کہ جس نیکی کو کرنے میں زیادہ پریشانی ہوتی ہے اس میں اتنا ہی زیادہ اجر ملتا ہے لیکن یہاں محنت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اجر میں کمی واقع ہو رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ مار دینے میں اسےکم سے کم تکلیف ہوگی اس لیے یہ زیادہ بھلا طریقہ ہے لہذا اس کا اجر زیادہ ہے ۔(عون المعبود:116/14)
اور مذکور حدیث کے پیش نظر امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بلی کی ایذا رسانی سے پریشان ہو جائے اور اس کو جان سے مارنا چاہے تو اسے سزا نہ دے اور نہ گلا گھونٹے بلکہ تیز چھری سے ذبح کر دے اور علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں کہ ضرررساں جانور جیسے کی کاٹنے والا کتا اور بلی کو مارنا جائز ہے جبکہ وہ کبوتر اور مرغی کو کھا جاتی ہو لیکن اس کی پٹائی نہ کرے بلکہ ذبح کر دے کیونکہ پٹائی کرنے کا کوئی حاصل نہیں اس لیے ایسا کرنے میں بلا وجہ سزا دینا اور عذاب میں مبتلا کرنا ہوگا۔(البحر:455/8)
جانور کی جان لینے کے لیے آگ سے جلانا جائز نہیں حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چیونٹیوں کے گھروں کو جلا ہوا دیکھا تو پوچھا انہیں کس نے جلایا ہے ؟میں نے اور ہمارے ساتھیوں نے کہا: ہمیں لوگوں نے،۔ فرمایا:
انه لا ينبغي ان يعذب بالنار الا رب النار،۔(ابوداؤد:2675)
اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے آگ کا عذاب دینا مناسب نہیں۔
اس لیے وبائی اور متعدی امراض کو روکنے کے لیے مرغی وغیرہ کو زندہ دفن کرنا یا ایسڈ ڈالنا درست نہیں کیونکہ ایسڈ ڈالنا بھی جلانے کے حکم میں ہے بلکہ اس کے لیے کوئی ایسا طریقہ اپنایا جائے جس میں جانور کو کم سے کم تکلیف ہو۔
ستانا:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عذبت امرأةفي هرةحبستها حتى ماتت جوعا فدخلت فيها النار۔(بخاري:2236،مسلم:2242)
ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ اس نے ایک بلی کو بند کر رکھا تھا اور کچھ کھلایا پلایا نہیں یہاں تک کہ وہ بھوک سے تڑپ کر مر گئی تو وہ عورت اس کی وجہ سے جہنم میں ڈال دی گئی۔
ایک بلی کو ستا کر مارنے کی وجہ سے اس قدر سخت عذاب کو دیکھ کر حدیث کے بعض شارحین کو یہ خیال ہوا کہ وہ ایک کافرہ عورت تھی اور بلی کی وجہ سے اس کی عذاب میں اضافہ کر دیا گیا لیکن علامہ نووی نے اس رائے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ اسے بلی کو ستانے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا گیا جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔(المنہاج:207/6)
نیز وہ کہتے ہیں کہ حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت مسلمان تھی (المنہاج:240/4)
اور حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ بلی کی علاوہ اس جیسے دوسرے جانوروں کا بھی یہی حکم ہے
(فتح الباری:358/6)
اور علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ جب بلی کے بارے میں یہ وعید ہے تو وہ جانور جو کسی کی ملکیت میں ہوتے ہیں ان کو ستا کر مارنے والے بدرجہ اولی اس میں شامل ہیں کیونکہ انہیں مالک کے فائدے اور مصلحت کے لیے رکھا گیا ہے۔(نیل الاوطار:91/7)
زمانۂ جاہلیت میں اور آج کے مہذب کہلانے والے سماج میں بھی جانوروں کے تعلق سے بڑی بے حسی پائی جاتی ہے جانوروں کو باہم لڑا کر تماشہ دیکھنے کا رواج آج بھی ہے ۔
اسی طرح نشانہ ٹھیک کرنے کے لیے کسی جانور کو باندھ دیا جاتا اور پھر اس پر تیر چلانے کی مشق کی جاتی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شدت سے اس کی ممانعت فرمائی حضرت عبداللہ بن عمر ایک جگہ سے گزرے دیکھا کہ قریش کے چند نوجوانوں نے ایک پرندے کو باند رکھا ہے اور اس پر نشانہ سادھ رہے ہیں اور شرط یہ تھی کہ ہر وہ تیر جو پرندے کو نہ لگے وہ پرندے کے مالک کا ہوگا جب انہوں نے حضرت عبداللہ کو آتے ہوئے دیکھا تو تتر بتر ہو گئے ۔انہوں نے کہا کہ یہ کس نے کیا ہے ؟جس نے ایسا کیا اس پر اللہ نے لعنت بھیجے۔رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص پر لعنت بھیجی ہے جو کسی جانور پر نشانہ سادھے۔
(ان رسول الله لعن من اتخذ شيئا فيه الروح غرضا۔
بخاري:5196،مسلم:1958)
اور ان کی سنگ دلی کی انتہا یہ تھی کہ وہ زندہ جانور کے جسم کے بعض حصوں کو کاٹ کر کھا جاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا اور کہا :
ما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة۔
زندہ جانور سے جو حصہ کاٹ لیا جائے وہ مردار ہے۔(ترمذي:1480،ابوداؤد:2858)
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بھی گوارا نہیں کیا کہ جانوروں کے چھوٹے بچوں کو ان کی ماں سے الگ کر کے انہیں پریشان کیا جائے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فانطلق لحاجتة فراينا حمرة معها فرخان فاخذنا فرخيها فجاءت الحمرة تعرش فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال من فجع هذه بولدها ردوا ولدها اليها۔(ابوداؤد:2675)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم ایک سفر میں تھے آنحضور اپنی ضرورت کے لیے ہم سے الگ ہو گئے ہم نے سرخ پروں والی چڑیا کے ساتھ اس کے دو بچوں کو دیکھا ہم نے ان بچوں کو اٹھا لیا وہ آئی اور بچوں کے لیے ہمارے اوپر منڈلانے لگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور فرمایا اس پرندے کو اس کے بچے کی وجہ سے کس نے پریشان کر رکھا ہے؟ انہیں واپس کر دو۔
آپ کی تعلیمات کا یہ اثر ہوا کہ وہ سنگدل جنہیں اپنی بچیوں کو زندہ دفن کرتے ہوئے رحم نہیں آتا تھا وہ لطف و مہربانی اور رحم و کرم کا پیکر بن گئے اور اب انہیں بکری ذبح کرتے ہوئے بھی رحم آنے لگا حضرت معاویہ بن قرہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں :
ان رجلا قال يا رسول الله لاذبح الشاة وانا ارحمها او قال اني لارحم الشاة ان اذبح ها فقال والشاة ان رحمتها رحمها الله۔(مسنداحمد:16530)
ایک شخص نے کہا کہ اللہ کے رسول بکری ذبح کرتے ہوئے مجھے اس پر رحم آتا ہے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم بکری پر رحم کرتے ہو تو اللہ بھی تم پر رحم کرے گا۔
پنجرے میں رکھنا:
جانوروں کی تخلیق کا ایک مقصد زینت بھی ہے چنانچہ قران حکیم میں ہے:
وَّ الۡخَیۡلَ وَ الۡبِغَالَ وَ الۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً ؕ وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔
اور گھوڑے، خچر اور گدھے اسی نے پیدا کیے ہیں تاکہ تم ان پر سواری کرو، اور وہ زینت کا سامان بنیں۔ اور وہ بہت سی ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں ہے۔(النحل: 8)
اس لیے خوش رنگ اور خوش الحان پرندوں کو پالنا درست ہے اسی طرح سے شکار کے مقصد سے کتا یا چیتا وغیرہ رکھنا درست ہے بشرطیکہ فخر اور بڑائی جتانا مقصود نہ ہو نیز انہیں اس طرف سے مانوس کر لیا جائے کہ وہ پنجرے کے بغیر رہ سکیں ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الخيل لرجل اجر ولرجل ستر وعلى رجل وزر…. .رجل ربطها فخرا ورياء ونواء لاهل الاسلام فهي على ذلك وزر
(بخاري:2371)
گھوڑا کسی کے لئے باعث اجر و ثواب،کسی کے لئے پردہ پوشی کا سبب اور کسی کے ذریعے عقاب ہے ۔۔۔جو شخصریا کاری ،فخر اور اہل اسلام سے دشمنی کے لئے گھوڑا رکھے تو وہ اس کے لئے ذریعے عقاب ہے ۔
اور حضرت انس کہتے ہیں :
ان كان النبي صلى الله عليه وسلم ليخالطنا حتى يقول لاخ لي صغير يا ابا عمير ما فعل النغير۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے گھلے ملے رہتے تھے یہاں تک کہ ہمارے چھوٹے بھائی سے پوچھتے کہ ابو عمیر !نغیر(پرندہ) نے کیا کیا۔ (بخاري:6129)
اور انہیں پنجرے میں بند رکھنا مکروہ ہے کیونکہ محض زینت اور شوق کی تکمیل کے لیے کسی جانور کی آزادی کو چھین لینا اور اسے ستانا اور پریشان کرنا درست نہیں ہے۔ چنانچہ فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ بلبل کو پنجرے میں بند کر کے کھانا یا پانی دینا جائز نہیں علامہ شامی نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پنجرے میں بند رکھنے کی کراہت کا سبب یہ ہے کہ ایسا کرنے میں جانور کو قید میں رکھنا اور ستانا ہے اور یہ کہ جانور پر ظلم کرنا غیر مسلم پر ظلم کرنے سے زیادہ شدید ہے کیونکہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا ان بے زبان جانوروں کی مدد کرنے والا نہیں ہے اور غیر مسلم پر ظلم کرنا مسلمان پر ظلم کرنے سے زیادہ شدید ہے کیونکہ قیامت کے دن اس کا مطالبہ ہوگا کہ اس کے گناہ اس مسلمان پر ڈال دیے جائیں تاکہ وہ بھی اس کے ساتھ عذاب میں شریک رہے۔(ردالمحتار:576,575/9)
اور علامہ ابن مفلح مقدسی حنبلی نے لکھا ہے کہ گانے اور چہچانے والے پرندوں کو ان کی خوش الحانی کی وجہ سے پنجرے میں رکھنے کو ہمارے اصحاب نے مکروہ قرار دیا ہے اس لیے کہ اس کی کوئی ضرورت اور حاجت نہیں بلکہ فخر، اتراہٹ اور عیاشی کی دلیل ہے اور جانور کو پنجرے میں رکھنا اسے ستانا اور پریشان کرنا ہے۔( الاداب الشرعيه:/525/3)
جانور کو خصی کرنا:
جانور کو خصی کرنے کے مسئے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ اور مالکیہ کے یہاں اس میں کوئی حرج نہیں ہے جب کی مقصد گوشت کی عمدگی یا دانت کاٹنے یا سینگ مارنے سے روکنا ہو۔(تبیین الحقائق: 31/6،البيان والتحصيل لابن رشد: 436/18)
اور شافعیہ کہتے ہیں کہ جو حلال ہیں انہیں بچپنے میں خصی کرنا درست ہے ،بڑے ہونے کے بعد نہیں اور جو حرام ہیں انہیں کسی بھی صورت میں خصی کرنا جائز نہیں۔اس لیے کہ ان دونوں کے خصی کرنے سے نسل کے خاتمے کا اندیشہ ہے۔(المجموع: 177/6)
اور حنابلہ کے نزدیک کسی تفصیل کے بغیر خصی بنانا مکروہ ہے۔(شرح منتهى الارادات للبهوتي:248/3)اس لئے کہ حدیث میں ہے :
ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن صبر الروح وان اخصاء البهائم نهيا شديدا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جانور کو باندھ کر نشانہ لگانے اور چوپائے کو خصی کرنے سے سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔(اخرجه البزار باسناد صحيح نيل الاوطار:167/8)
اور جو لوگ جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ حدیث ہے:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان اذا اراد ان يضحي اشترى كبشين، عظيمتين، سمينين ،اقرنين املحين، موجوءين۔
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم جب قربانی کرنا چاہتے تو دو بڑے ،موٹے تازے،سینگ والے ،سفید وسیاہ رنگ والے اورخصی مینڈھا خریدتے(ابن ماجه:3122،بيهقي:18868)
اگر خصی بنانا حرام ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے جانور کی قربانی نہ کرتے۔ نیز جانور کا مقصد وجود اس کے گوشت سے استفادہ بھی ہے اور خصی کرنے کی وجہ سے جانور موٹا تازہ ہوتا ہے نیز اس کا گوشت عمدہ اور خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور جس حدیث میں خصی بنانے کی ممانعت ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جانوروں کو اس طرح سے خصی نہ بنایا جائے کہ ان کی نسل ختم ہو جائے چنانچہ امام طحاوی لکھتے ہیں کہ حدیث میں اس طرح سے خصی بنانے کی ممانعت ہے جس سے اس جانور کی نسلیں ختم ہو جائیں جیسے کہ ہر نرجانور کو خصی کر دیا جائے اور اگر صرف بعض کو خصی کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(اعلاء السنن: 453/17)
داغنا:
جانور کی پہچان اور علامت کے لیے اہل عرب میں انہیں اگ سے داغ لگانے کا رواج تھا چونکہ یا ایک جائز مقصد ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی البتہ چہرے پر داغنے سے منع فرمایا کہ وہ تمام قوتوں کا مرکز اور ایک نازک جگہ ہے وہاں داغنے کی وجہ سے دوسرے اعضاء متاثر اور بے کار ہو سکتے ہیں۔ حضرت جابر سے روایت ہے :
نهی رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الضرب في الوجه وعن الوسم في الوجه۔(مسلم:2116،ترمذي:1710)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر ماننے اور داغنے سے منع فرمایا ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے چہرے پر داغ لگایا گیا تھا تو اپ نے فرمایا:
اما بلغكم اني قد لعنت من وسم البهيمة في وجهها او ضربها في وجهها۔(ابوداؤد:2564)
کیا تم تک یہ بات نہیں پہنچی ہے کہ میں نے اس پر لعنت کی ہے جو جانور کے چہرے کو داغے یا اس کے چہرے پر مارے۔
علامہ نووی کہتے ہیں کہ چہرے کے علاوہ جانور کے جسم کے دوسرے حصے پر داغ لگانا بہ اتفاق جائز ہے اور صدقہ وجزیہ کے جانور کو داغنا مستحب ہے۔(المنہاج: 97/14)
اور علامہ عینی کہتے ہیں کہ داغ لگانے کا مقصد پہچان اور علامت ہے تاکہ اگر وہ بھاگ جائے تو اس کے مالک تک اسے پہنچایا جا سکے اور اگر کوئی صدقہ کر دے تو پھر دوبارہ اسے خرید نہ سکے۔(عمدۃ القاری: 137/14)
اور فقہاء نے اس بابت بھی بہت تفصیل سے لکھا ہے کہ کسی جانور کے جسم کے کسی حصے پر داغ لگایا جا سکتا ہے تاکہ اسے کم سے کم تکلیف ہو۔
میڈیکل تجربات:
تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی ضرورت اور مصلحت کے بغیر کسی جانور کو تکلیف دینا اور پریشان کرنا ظلم اور ناجائز ہے۔(دیکھیے تبین الحقائق: 227/6،البحرالرائق:554/8المہذب:266/1،المغنی:591/3)
اور انسانی منفعت اور مصلحت کے لیے ان کے جسم کے کسی حصے کو نکالنا یا زخمی کرنا درست ہے لیکن اس میں بھی کم سے کم تکلیف پہنچانے کی کوشش کی جائے گی دوا اور علاج بھی چونکہ انسانی ضرورت ہے اس لیے جانوروں پر میڈیکل تجربات کیے جا سکتے ہیں اس طور پر کہ پہلے انجیکشن یا دوا کے ذریعے انہیں بیمار بنایا جائے اور پھر اس بیماری کے علاج کے لیے ان پر امکانی دواؤں کا تجربہ کیا جائے اور اسی طرح سے دوا اور علاج کے لیے زندہ جانوروں کو بے ہوش کر کے اس کے جسم کے کسی حصے کو نکال لینا یا اس میں کوئی آلہ رکھ دینا جو اس کے لیے باعث تکلیف ہو درست ہے علامہ ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں کہ
فلما جاز اتلاف نفسه للمنفعة او دفع المضرةجاز اتلاف عضوه بالاولى۔(اعلاء السنن:454/17)
لیکن اس کی اجازت اسی وقت ہوگی جبکہ اس کی شدید ضرورت ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہو۔ چنانچہ حدیث میں ہے :
ان طبيبا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ضفدع يجعلها في دواءفناهاه النبي صلى الله عليه وسلم عن قتلها(ابوداؤد:3871)
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ایک حکیم نے مینڈک کو دوا میں ڈالنے کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مارنے سے منع فرمایا ۔
اور علامہ سہارن پوری نے اس کی شرح میں لکھا ہے :
لانها ليس بموذ ولا ماكول ولا يتوقف عليه الدواء بان لا يكون له بدل۔(بذل المجهود:653/13)
اس لئے کہ مینڈک نہ تو ایذا پہونچاتا ہے اور نہ اسے کھایا جاتا ہے ۔اور دوا اس پر موقوف نہیں ہے کہ اس کا بدل موجود نہ ہو۔
اور اگر اس عمل کی وجہ سے جانور مستقل تکلیف میں رہتا ہو تو اس آلے کو نکال کر اسے ذبح کر کے آرام پہنچانا ضروری ہے۔
(1)ولا باس بذلك من شعر البهيمه وصوفها لانه انتفاع به بطريق التزين بما يحتمل ذلك ولهذا احتمل الاستعمال في سائر وجوه الانتفاع فكذا في التزين۔( البدائع:177/11)
و حل اصطياد ما يوكل لحمه وما لا يوكل لحمه لمنفعة جلده او شعره او ريشه
او لدفع شره وكله مشروع لاطلاق النص۔( رد المحتار:84/10)
اور علامہ شاطبی لکھتے ہیں
وابيح لنا اتلاف ما لا ينتفع به اذا كان موذيا او لم يكن موذيا وكان اتلافه تكملة لما ليس بضروري ولا حاجی من المنافع( الموافقات: 441/3