طہارت سے
متعلق
نئےمسائل
ولی اللہ مجید قاسمی
جامعہ انوار العلوم
فتح پور تال نرجا،ضلع مئو
اسلام کی جامعیت اور کمال کی دلیل ہے کہ اس میں چھوٹی بڑی ہر چیز کے متعلق حکم موجود ہے۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ایک غیر مسلم نے بطوراعتراض کہا کہ تمہارے نبی تو تم کو ہر چیز سکھاتے ہیں یہاں تک کہ پیشاب اور پاخانہ کا طریقہ بھی بتاتے ہیں۔
قد علمكم نبيكم كل شيء حتى الخراءة.
انھوں نے جواب دیا :
أَجَلْ، لَقَدْ نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ.(صحیح مسلم: 262وغیرہ)
ہاں ایسا تو ہے ۔ انھوں نے ہمیں پیشاب اور پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے ، داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے ،تین پتھر سے کم سے طہارت حاصل کرنے اور گوبر یا ہڈی سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
جواب کا مقصد یہ ہے کہ یہ کوئی نقص نہیں کہ اعتراض کرو بلکہ خوبی ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہئے ۔کسی دین کے مکمل اور جامع ہونے کی دلیل ہے کہ اس میں زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں رہنمائی موجود ہو یہاں تک کہ استنجاء کا طریقہ بھی بتلایا گیا ہو کیونکہ نبوی ہدایات و تعلیمات کے بغیر اس معمولی کام کو بھی انسان سلیقے سے انجام نہیں دے سکتا ہے ۔
1-کموڈ کا استعمال :
حدیث میں کھڑے ہوکر قضاء حاجت سے منع کیا گیا ہے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی تھا کہ ہمیشہ بیٹھ کر استنجاء کیا کرتے تھے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
من حدثكم أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يبول قائما فلا تصدقوه ما كان يبول إلا قاعدا. (سنن الترمذي :12)
اور حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں:
إن من الجفاء أن تبول وأنت قائم. (سنن الترمذي :12)
کھڑے کھڑے پیشاب کرنا گنوار پنا ہے ۔
اور حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتينا الخلاء أن نتوكأ على اليسرى. (أخرجه البيهقي "1/96”: كتاب الطهارة: باب تغطية الرأس عند دخول الخلاء والاعتماد على الرجل اليسرى إذا قعد إن صح الخبر، وذكره الهيثمي في "مجمع الزوائد” "1/211″، وعزاه للطبراني في "الكبير”، وقال: وفيه رجل لم يسم.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ جب ہم بیت الخلاء جائیں تو بائیں پیر پر ٹیک لگا کر بیٹھیں ۔
یہ حدیث گرچہ سندی اعتبار سے کمزور ہے لیکن اکڑوں بیٹھ کر قضائے حاجت کرنا عملی سنت سے ثابت ہے اور یہی فطری اور طبعی طریقہ ہے اور طبی اعتبار سے یہی زیادہ مناسب اور مفید ہے ۔
اس لئے کموڈ استعمال کرنا خلاف سنت ہے اور بلا ضرورت اس کا استعمال مکروہ ہے البتہ مجبوری اور معذوری کی حالت میں اجازت ہے مثلاً دوسرا متبادل موجود نہ ہو یا گھٹنے میں تکلیف ہو ۔چنانچہ بعض مواقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ثابت ہے اور حدیث کے شارحین کا کہنا ہے کہ آپ نے کسی عذر یا بیماری کی وجہ سے ایسا کیا۔
2- گندے پانی کا فلٹر کے بعد استعمال:
گھروں اور دیگر جگہوں پر استعمال شدہ پانی کو _ جس میں پیشاب وپائخانہ اور دوسری گندگیوں کی آمیزش بھی ہوتی ہے_ نالی کے ذریعے کسی جگہ جمع کرلیا جائے اور پھر اسے فلٹر کر لیاجائے جس کے نتیجے میں اس کا رنگ، بو، مزا اورخاصیت عام پانی کی طرح ہوجائے اور گندگی کا کوئی اثر باقی نہ رہے توکیا اسے پینا یا وضو و غسل وغیر ہ میں اسے استعمال کرنا درست ہے؟
اس سلسلے میں دو طرح کے نقطہ نظر پائے جاتے ہیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فلٹر کی وجہ سے اس کی حقیقت نہیں بدلتی ہے بلکہ صرف بدبو دار اور نقصان دہ اجزاء اور رنگ کو نکال لیاجاتا ہے، اس لیے اسے پاک نہیں سمجھا جائے گا، نیز طبعی طور پر گندے پانی سے گھن محسوس ہوتی ہے اور بدبو، رنگت اور اثرات وغیرہ کی تبدیلی کے باوجود اس کے استعمال سے کراہت ہوگی۔
اس کے برخلاف بعض علماء کا خیال ہے کہ اگر فلٹر کرنے کی وجہ سے پانی اپنی پہلی کیفیت پر لوٹ آئے اور نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے، تو اسے پاک سمجھاجائے گااور اسے پینا بھی درست ہے بشرطیکہ اس کے استعمال سے صحت کونقصان نہ پہنچے، اور اگر ایسا ہے تو اس کے استعمال سے منع کیاجائے گا لیکن ناپاک ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ مضر صحت ہونے کے باعث، ان کی دلیل یہ ہے کہ کسی چیز کے پاک ہونے کے لیے اس کی حقیقت کا بدلنا ضروری نہیں بلکہ ناپاکی کے اثرات کا ختم ہوجانا کافی ہے، جیسے کہ شراب ناپاک ہے لیکن اگر سرکہ بن جائے تو پاک ہوجاتا ہے، سرکہ بننے میں اس کی حقیقت ختم نہیں ہوتی بلکہ صرف اس کی نشہ آور ہونے کی کیفیت ختم ہوجاتی ہے، اسی طرح سے حنفیہ، مالکیہ اور ابن حزم کے نزدیک شراب میں نمک وغیرہ ڈال کر اسے سرکہ بنالیاجائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے، اسی طرح سے ناپاک کھال دباغت کی وجہ سے پاک ہوجاتی ہے، حالانکہ دباغت کی وجہ سے کھال کی حقیقت نہیں بدلتی بلکہ اس کے ناپاک اجزاء ختم کر دیے جاتے ہیں، اس لیے جو چیزیں بذات خود نجس نہ ہوں بلکہ نجاست کی آمیزش کی وجہ سے نجس ہوگئی ہوں، اگر کسی ذریعے سے اس کے ناپاک اجزا ء کو نکال دیاجائے تووہ پاک ہوجائیں گی، کیونکہ جو چیزیں ذاتی حیثیت سے ناپاک نہ ہوں بلکہ نجاست مل جانے کی وجہ سے ناپاک ہوگئی ہوں، ان میں انقلاب عین ضروری نہیں بلکہ انقلاب وصف کافی ہے۔
3- پٹرول سے پاکی حاصل کرنا:
پٹرول بذاتِ خود پاک ہے اور اس میں پاک کرنے کی صلاحیت بھی ہے، اس لیے اگر اس میں کسی ناپاک چیزکی ملاوٹ نہ ہوتو اس کے ذریعہ جسم یا کپڑے وغیرہ پر لگی ہوئی گندگی اور ناپاکی دور کی جاسکتی ہے، کیونکہ نجاست زائل کرنے کے لیے پانی ضروری نہیں ہے بلکہ کسی بھی پاک اور سیال چیز سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے، اس لئے کہ مقصدمحض ناپاک چیز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو جس چیز سے بھی اس کا اثر زائل ہوجائے اسے استعمال کرلینا کافی ہے خواہ سرکہ، پٹرول، دوا یاکوئی اور چیز ہو، چنانچہ بعض احادیث میں تھوک کے ذریعے خون کے اثر کو زائل کرنے کا ذکر ہے۔
البتہ وضو اور غسل کے لیے پانی ضروری ہے، اس کے علاوہ کسی دوسرے سیال مادے سے وضو یا غسل درست نہیں ہے، چنانچہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ:
فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا
( النساء: 43)۔
اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرلو۔
4- ڈرائی کلین
اونی، ریشمی یا اس کے علاوہ بعض دوسرے کپڑے پانی سے دھونے کی وجہ سے خراب ہوجاتے ہیں، اس لیے ایسے کپڑوں کے میل، کچیل، گندگی اور نجاست کو بھاپ کے ذریعے زائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں پانی کا استعمال بہت کم یا بالکل نہیں ہوتا ہے، اور اس کی جگہ بعض کیمیاوی مادے استعمال کیے جاتے ہیں۔
اور یہ بات گزر چکی ہے کہ نجاست کو زائل کرنے کے لیے پانی کا استعمال ضروری نہیں ہے بلکہ ہر اس ذریعے سے نجاست ختم کی جاسکتی ہے جس سے اس کا رنگ و بو وغیرہ زائل ہوجائے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے :
كَانَتِ الْكِلَابُ تَبُولُ، وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ.(صحیح البخاري: 174، سنن أبي داود: 382)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسجد نبوی میں کتے آتے جاتے اور پیشاب کردیتے تھے مگر اس پر پانی نہیں بہایا جاتا تھا ۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منی کے بارے میں منقول ہے:
كنت أفركه من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم (صحيح مسلم: 288)
میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے کھرچ دیتی تھی۔
اور حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ:
عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَتْ: قُلْتُ لِأُمِّ سَلَمَةَ: إِنِّي امْرَأَةٌ أُطِيلُ ذَيْلِي وَأَمْشِي فِي المَكَانِ القَذِرِ؟ فَقَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُطَهِّرُهُ مَا بَعْدَهُ». (موطأ للإمام مالك: (1/24/16، سنن أبي داود: 383، سنن الترمذي: 143)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے بارے میں پوچھا گیا جس کا کپڑا لمبا ہو اور وہ کسی گندی جگہ سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے بعد والی پاک جگہ اسے پاک کر دیگی۔
اور حضرت ابو سعید خدریؓ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
فَإِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيَنْظُرْ فَإِذَا رَأَى فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا فَلْيَمْسَحْهُمَا بِالْأَرْضِ ثُمَّ يُصَلِّي فِيهِمَا» (سنن أبي داود: 650، مسند أحمد: 11153، صحيح ابن خزيمة: 786)
جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو اپنے چپل کو دیکھ لے اور اگر اس میں کوئی گندگی نظر آئے تو اسے زمین پر رگڑ دے اور پھر اسے پہن کر نماز پڑھ لے۔
اور حضرت ابوہریر نقل کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا وَطِئَ أَحَدُكُمْ بِنَعْلِهِ الْأَذَى، فَإِنَّ التُّرَابَ لَهُ طَهُورٌ» (سنن أبي داود: 385، صحيح ابن خزيمة: 292)
جب تم گندی جگہ پر چپل پہن کے چلے جاو تو مٹی اسے پاک کردینے والی ہے۔
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نجاست ختم کرنے کاذریعہ صرف پانی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بہت سے طریقے ہیں جس کے ذریعے نجاست زائل کی جاسکتی ہے، کیونکہ مقصود نجاست کے اثر کوزائل کرنا ہے نہ کہ اس کے لیے کوئی خاص طریقہ، بلکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ بعض چیزیں نجاست کے اثرکو زائل کرنے میں پانی سے بھی زیادہ موثر ہوں، مذکورہ اور اس کے علاوہ بعض دوسری احادیث کے پیش نظر فقہاء نے لکھا ہے کہ شیشہ اور چھری پوچھ دینے سے اور منی کھرچ دینے سے اورجوتا رگڑ دینے سے اور زمین خشک ہوجانے سے اور روئی دھنائی کے ذریعے پاک ہوجاتی ہے۔ (الہندیہ44/1)
لہٰذا ڈرائی کلین کے ذریعے کپڑے پاک ہوجاتے ہیں بشرطیکہ اس میں نجاست کا کوئی اثر نہ ہو۔
5- سولر ہیٹر کے ذریعے گرم کیے ہوئے پانی سے وضو:
سولر ہیٹر (Solar Heaters) سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرکے پانی وغیرہ کو گرم کردیتا ہے، کیا اس طرح کے گرم پانی سے وضو، غسل وغیر ہ درست ہے یا نہیں ؟
سورج کی حرارت کے ذریعے گرم کیے گئے پانی کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک ایسے پانی کااستعمال مکروہ تنزیہی ہے اور بعض حنفی فقہاء نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، شافعیہ کے نزدیک اس کی کراہت کے لیے شرط ہے کہ علاقہ گرم ہو، برتن کا میٹریل ایسا ہو کہ اسے پگھلایاجاسکے، جیسے کہ دھات، وغیرہ کا برتن، اسے وضو یا غسل میں استعمال کیاجائے، کپڑا وغیر ہ کے دھونے میں کوئی کراہت نہیں،گرم ہونے کی حالت میں استعمال کیاجائے، ٹھنڈا ہونے کے بعد مکروہ نہیں، ان حضرات کی دلیل وہ احادیث و آثار ہیں جن میں سورج کی تپش سے گرم کیے ہوئے پانی کے استعمال سے منع کیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ اس سے برص کی بیماری پیداہوتی ہے۔
اس کے برخلاف حنابلہ، جمہور حنفیہ، بعض مالکیہ اور بعض شافعیہ جیسے کہ امام نووی وغیرہ کے نزدیک اس میں کوئی کراہت نہیں ہے، (دیکھئے الموسوعہ الفقہیہ363/39)کیونکہ اس سلسلے میں وارد حدیث یا کسی صحابی کا قول صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، جیسے کہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ:
عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ سَخَّنْتُ مَاءً فِي الشَّمْسِ , فَقَالَ: «لَا تَفْعَلِي يَا حُمَيْرَا فَإِنَّهُ يُورِثُ الْبَرَصَ». قال الدارقطني: غَرِيبٌ جِدًّا، خَالِدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ مَتْرُوكٌ. (سنن الدارقطني: 86)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے لئے میں نے دھوپ کے ذریعے پانی گرم کیا تو آپ نے فرمایا: حمیرا ! ایسا مت کیا کرو،اس سے برص کی بیماری ہوتی ہے۔
اس روایت کو ابن عدی نے موضوع قرار دیا ہے۔ (الکامل في ضعفاء الرجال:3/ 475)، اس ميں ايك راوى خالد بن اسماعيل ہيں وه متروك ہيں۔
اور حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ:
«لَا تَغْتَسِلُوا بِالْمَاءِ الْمُشَمَّسِ , فَإِنَّهُ يُورِثُ الْبَرَصَ». (سنن الدارقطني: 88)
سورج کے ذریعے گرم پانی سے غسل نہ کرو کیونکہ اس سے برص کی بیماری پیدا ہوتی ہے ۔
امام نووی کہتے ہیں کہ: یہ اثر ضعیف ہے، (الخلاصۃ 69/1) اورعقیلی کہتے ہیں کہ دھوپ سے گرم پانی کے متعلق کچھ بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، (الضعفاء 176/2)اور اما م شافعی فرماتے ہیں کہ وَلَا أَكْرَهُ الْمَاءَ الْمُشَمَّسَ إلَّا مِنْ جِهَةِ الطِّبِّ الأم للشافعي (1/ 16) یعنی ان کے نزدیک بھی اس سلسلے کی روایتیں صحیح نہیں ہیں، البتہ طبی اعتبار سے مرض کا سبب ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے، حاصل یہ ہے کہ اگر جدید سائنس کے ذریعہ اس کا نقصان دہ ہونا ثابت ہوجائے تو بچنا چاہیے ورنہ تو شرعی اعتبار سے اس میں کوئی کراہت نہیں۔
علاوہ ازیں سولر ہیٹر کے ذریعے دھوپ سے پانی گرم نہیں ہوتا ہے بلکہ دھوپ کے ذریعے حاصل کردہ توانائی کے ذریعے پانی گرم ہوتا ہے اس لئے یہ دھوپ سے گرم کردہ پانی کے حکم میں شامل نہیں ہے ۔
6-کاغذ کے ذریعے استنجاء:
پانی کے ذریعے استنجاکرنا بہتر اور پسندیدہ ہے کہ اس سے اچھی طرح سے پاکی اور صفائی حاصل ہوجاتی ہے، چنانچہ آنحضرت ﷺ عام طور پر اس کے لیے پانی ہی استعمال کرتے تھے، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ:
مُرْنَ أَزْوَاجَكُنَّ أَنْ يَسْتَطِيبُوا بِالْمَاءِ، فَإِنِّي أَسْتَحْيِيهِمْ مِنْهُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُهُ. (سنن الترمذي: 19، سنن النسائي: 46)
اپنے شوہروں کو حکم دو کہ وہ پانی سے استنجاء کیا کریں ۔براہ راست ان سے کہتے ہوئے میں شرم محسوس کرتی ہوں۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔
نیز وہ بیان کرتی ہیں کہ:
مارأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من غائط قط الا مس ماء (ابن ماجة:354.مسند احمد:25561)
مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ غَائِطٍ قَطُّ إِلَّا مَسَّ مَاءً. (سنن ابن ماجه: 354، مسند أحمد: 25561)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی میں نے قضاء حاجت سے واپس ہوتے ہوئے دیکھا ہے تو آپ نے پانی ضرور استعمال کیا ہے ۔
اور حضرت انس کہتے ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِهِ أَجِيءُ أَنَا وَغُلَامٌ مَعَنَا إِدَاوَةٌ مِنْ مَاءٍ يَعْنِي يَسْتَنْجِي بِهِ.(صحیح البخاری:150، صحيح مسلم: 271)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضاء حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو میں اور ایک دوسرا بچہ وہاں پانی کا برتن رکھ دیتے تاکہ آپ اس سے استنجاء کرسکیں۔
اور قرآن پاک میں طہارت کے معاملے میں اہل قبا کی تعریف کی گئی ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا:
…..وَنَسْتَنْجِي بِالْمَاءِ. قَالَ: «فَهُوَ ذَاكَ، فَعَلَيْكُمُوهُ». (سنن أبي داود: 44، سنن الترمذي: 3100، سنن ابن ماجه: 355، 357)
۔۔۔اور ہم پانی سے استنجاء کرتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسی وجہ سے تمہاری تعریف کی گئی ہے تو اسے اپنے اوپر لازم کرلو ۔
تاہم پتھر اور ڈھیلے وغیرہ سے استنجا کرلینے سے بھی طہارت حاصل ہوجائے گی، جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ:
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا ذَهَبَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْغَائِطِ، فَلْيَذْهَبْ مَعَهُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ يَسْتَطِيبُ بِهِنَّ، فَإِنَّهَا تُجْزِئُ عَنْهُ». (سنن أبي داود: 40، سنن النسائي: 44)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی قضاء حاجت کے لئے جائے تو اپنے ساتھ تین پتھر لے لے اور اس سے پاکی حاصل کرے کیونکہ یہی تین پتھر اس کے لئے کافی ہوجائیں گے ۔
اورجب پتھر اور ڈھیلے وغیرہ سے استنجاء درست ہے تو کاغذ سے ا س سے بہتر درجے میں استنجاء جائز ہے، البتہ دوباتوں کا خیال رکھنا چاہیے، ایک یہ کہ وہ چکنا نہ ہو کیونکہ اس کی وجہ سے نجاست جذب نہیں ہوگی بلکہ اورپھیل جائے گی، دوسرے یہ کہ وہ اس لائق نہ ہو کہ اس پر لکھا جائے بلکہ اسی کام کے لیے اسے بنا یا گیا ہو، کیونکہ دوسرے کاغذ علم کاایک ذریعہ ہوتے ہیں، اس لیے اس کا احترام کیاجانا چاہیے اور عام حالات میں اسے اس طرح کے گندے اور اہانت آمیز کاموں میں استعمال نہیں کرنا چاہیے، اسی لیے فقہا ء نے کاغذ سے استنجاء کو مکروہ لکھا ہے۔
7- الکوہل ملی ہوئی خوشبو :
الکوہل کی دو قسمیں ہیں: میتھائل اور ایتھائل، میتھائل ایک زہریلامادہ ہے جس کے پینے سے اندھا پن پیدا ہوتا ہے، بلکہ زیادہ پینے کی صورت میں موت واقع ہوسکتی ہے، خوشبو وغیرہ میں عام طورپر اسی کی ایک قسم آئی سوپر ویائل استعمال کی جاتی ہے جو نشہ آور نہیں ہوتی ہے، اس لیے اسلامک فقہ اکیڈمی ہندوستان کا فیصلہ ہے کہ:
’’عطریات میں جو الکوہل استعمال ہوتا ہے فنی ماہرین کی تحقیق و اطلاع کے مطابق وہ نشہ آور نہیں ہے، اس لیے وہ ناپاک نہیں ہے‘‘۔ (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے/289)
دوسری قسم ایتھائل ہے جو نشہ آور ہے اور دواؤں میں عام طور پر اسی کا استعمال کیا جاتا ہے اور مفتی محمد تقی عثمانی نے انسائیکلو پیڈیا آف بڑیطانیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ آج کل جن چیزوں سے الکوہل تیار کیاجاتا ہے، انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ نگاروں نے اس میں انگور اور کھجور کا ذکر نہیں کیا ہے۔ (تکملہ فتح الملہم515/1)
اور نشہ آور چیزوں کے بارے میں امام ابوحنیفہ اورابویوسف کی رائے یہ ہے کہ انگور اورکھجور کے علاوہ نشہ آور سیال چیزیں پاک ہیں اور ان کی خرید و فروخت درست ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اسپرے اور سینٹ میں استعمال ہونے والا الکوہل اگر نشہ آور بھی ہو تو وہ اسی وقت ناپاک ہے جب کہ اسے کھجور اور انگور سے کشید کیاگیا ہو، اس لیے عام طور پر استعمال ہونے والے اسپرے اور سینٹ کو پاک سمجھا جائے گا اور اس کے استعمال کی وجہ سے جسم یا کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب شرعی مقالات 495/1)
8- کلر کریم:
بالوں کی رنگت تبدیل کرنے کے لیے مختلف رنگوں کے کریم وغیرہ استعمال کی جارہى ہیں، اگر ان میں استعمال ہونے والا مادہ پاک ہو اور اس کے لگانے کی وجہ سے بالوں پر کوئی پرت نہ چڑھتی ہو بلکہ وہ محض مہندی کی طرح سے ایک رنگ ہو تو پھر اس کے ہوتے ہوئے وضو اورغسل درست ہے، اور اگر و ہ پینٹ کی طرح سے جسم دار ہو اور جسم یا بالوں پر اس کی پرت چڑھ جاتی ہو تو پھر اس کے ہوتے ہوئے وضو یاغسل درست نہیں ہے، کیوں کہ وضو میں مسح کرتے ہوئے پانی کی تری کو بالوں تک پہنچانا اور غسل میں بالوں کو دھونا ضروری ہے۔
9- سرخی، پاؤڈر، کریم اور لپ اسٹک:
عام طورپر جو سرخی،پاؤڈر، کریم اور لپ اسٹک رائج ہے وہ گرد وغبار اور تیل کی طرح سے ہے جس کی وجہ سے جسم پر کوئی تہہ نہیں جمتی ہے اور یہ چیزیں بدن تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بنتی ہیں، اس لیے ان کے ہوتے ہوئے وضو یا غسل درست ہے، البتہ بعض لپ اسٹک یا سرخی ایسی ہوتی ہے کہ اسے لگانے کی وجہ سے موم کی طرح سے تہہ جم جاتی ہے لھذا اس کی موجودگی میں وضو یاغسل صحیح نہیں ہے۔
10- ناخن پالش:
وضو یا غسل میں جسم تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ بننے والی چیز کو کسی شرعی ضرورت وحاجت کے بغیر لگا لینے سے وضو یا غسل درست نہیں ہے، ناخن پالش بھی محض زینت کے لیے لگائی جاتی ہے اور اس سے کوئی شرعی ضرورت وحاجت وابستہ نہیں ہے اور وہ جسم تک پانی کے پہنچنے میں بھی رکاوٹ ہے، اس لیے اس کے ہوتے ہوئے وضو یا غسل درست نہیں ہے۔
واضح رہے کہ تما م علما ء کا اس پر اتفاق ہے کہ غسل واجب میں پورے بدن پر اور وضومیں پورے اعضاء وضو پر پانی کا پہنچانا ضروری ہے، اس لیے جسم سے ان تمام چیزوں کو زائل کرنا لازم ہے جو پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ ہوں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ:
ان رجلا توضأ فترک موضع ظفرعلی قدمہ فابصرہ النبی ﷺ فقال ارجع فاحسن وضوء ک۔ (صحیح مسلم:243)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص نے وضو کرتے ہوئے پیر پر ناخن کے بقدر سوکھا چھوڑ دیا تو فرمایا: جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو
اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ:
ان النبیﷺ رای رجلا لم یغسل عقبہ فقال ویل للاعقاب من النار۔ (صحیح مسلم:243 صحیح بخاری:165)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے ایڑی کو نہیں دھلا ہے تو فرمایا:ایڑیوں کے لئے جہنم کی ھلاکت ہے ۔
11- مصنوعی بال:
گنجے پن کو دور کرنے یابالوں کو گھنا اور لمبا ظاہرکرنے کے لیے مصنوعی بالوں کا استعمال کیا جاتا ہے، ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو پیوست کردیے جاتے ہیں اور انہیں آسانی سے الگ کر دینا اور پھر عمل جراحی کے بغیردوبارہ لگادینا ممکن نہیں، ظاہر ہے کہ اس طرح کے بال اصل بال کے حکم میں ہوں گے۔
اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو آسانی سے الگ کیے اور لگائے جاسکتے ہیں، اس طرح کے بال اگرپورے سر پر لگے ہوئے ہوں تو وضو کے وقت مسح کے لیے انہیں الگ کرنا اور سر پر مسح کرنا ضروری ہے، کیونکہ مسح کے لیے ضروری ہے کہ پانی کی تری اصل بالوں یا سرتک پہنچ جائے۔
اور اگر پورے سر پر نہ لگے ہوں بلکہ سر کا چوتھائی حصہ کسی بھی طرف سے خالی ہو تو اس کو الگ کرنا ضروری نہیں بلکہ چوتھائی حصے پر مسح کرلینے سے فرضیت ساقط ہوجائے گی، البتہ پورے سر پر مسح کرنا سنت ہے اوراس سنت پر عمل کے لیے مصنوعی بالوں کو الگ کرنا ہوگا۔
اور غسل واجب میں مر د کے لیے بالوں سمیت پورے سر پر پانی بہانا ضروری ہے، اس لیے اگر مصنوعی بال ان تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ ہوں تو انہیں الگ کرنا ضروری ہے ورنہ نہیں، اور عورتوں کے لیے اگر بال کے جوڑے بنے ہوئے ہوں تو بالوں کی جڑمیں پانی کا پہنچانا کافی ہے،اور اگر کھلے ہوئے ہوں تو جڑ اور پورے بال کو بھگونا ضروری ہےاس لیے ان بالوں کو الگ کیے بغیر بھی پانی جڑ اور پورے بال تک پہنچ جائے تو غسل درست ۔بصورت دیگر انھیں نکالنا ضروری ہوگا۔
واضح رہے کہ اس مقصد کے لیے انسانی بالوں کا استعمال ممنوع ہے خواہ انہیں مستقل طورپر لگایاجائے یا عارضی طریقے پر، اس لیے کہ حدیث میں ایسا کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے، البتہ حیوانات یا مصنوعی بالوں کے استعمال کی اجازت ہے، چنانچہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے بعض خواتین کو اونی دھاگا استعمال کرنے کی اجازت دی اور حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ریشمی اور اونی دھاگا لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
وإنما الرخصة فی غیرشعر بنی آدم تتخذہ المرأة لتزید في قرونھا وھو مروي عن أبي یوسف وفي الخانیة لاباس للمرأۃ أن تجعل في قرونھا وذوائبھا شیئًا من الوبر۔( رد المحتار 535/9)
12-مصنوعی دانت:
مصنوعی دانت دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو مستقل طور پر جبڑے میں فٹ کردیے جاتے ہیں، دوسرے وہ جو آسانی سے نکالے اور لگائے جاسکتے ہیں، پہلی صورت میں وہ اصل دانت کے حکم میں ہوں گے، چنانچہ بعض صحابہ کرام سے دانتوں کو سونے کے تار سے باندھنا منقول ہے ۔اور فقہاء نے بہ صراحت ٹوٹے ہوئے دانت کی جگہ بکری یا سونے، چاندی کے دانت کو لگانے اور ہلتے ہوئے دانت کو سونے، چاندی کے تار سے باندھنے کی اجازت دی ہے۔(ردالمحتار 521/9)
اگر یہ چیزیں غسل کے صحیح ہونے میں رکاوٹ ہوتیں تو ہرگز اس کی اجازت نہ دی جاتی، حالانکہ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے دانتوں کی جڑوں تک پانی کا پہنچانا دشوار تر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی موجودگی میں جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے۔
دوسری صورت میں اگر اس کے ہوتے ہوئے مسوڑھوں تک پانی پہنچنا ممکن ہو تو پھر اسے نکالنے کی ضرورت نہیں اور اگر پانی نہ پہنچنے کا امکان ہو تو پھر غسل میں اس کا نکالنا ضروری ہے، کیونکہ غسل میں پورے منہ میں پانی پہنچانا ضروری ہے، اور وضو میں اس کا نکالنا ضروری نہیں ہے، کیوں کہ کلی کرنا وضو میں سنت ہے، البتہ سنت کی ادائیگی کے لیے اسے نکالنا ہوگا۔
13-مصنوعی اعضاء:
مصنوعی اعضا اگر جسم میں اس طرح فکس کر دیے جائیں کہ ان کے نکالنے اور لگانے میں ضرر اور نقصان ہو تو وہ پھر اصلی اعضا کی طرح ہوں گے اورغسل و وضو میں ان کے اوپر سے پانی بہادینا کافی ہوگا۔
اور اگر وہ جسم میں مستقل طورپر فٹ نہ ہوں بلکہ آسانی سے انہیں لگایا اورنکالا جاسکتا ہے تو اگر انہیں نکالے بغیر پورے جسم تک پانی کے نہ پہنچنے کا اندیشہ ہوتو پھر غسل واجب کے صحیح ہونے کے لیے انہیں نکالنا ہوگا اور اگر اس کے رہتے ہوئے بھی اصل جسم تک پانی پہنچ جائے تو پھر نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اور وضو میں دیکھا جائے گا کہ جن حصوں کو دھونا فرض ہے اگر ان کا کوئی بھی حصہ موجود ہے تو اس تک پانی کا پہنچانا ضروری ہوگا، مثلاً ہاتھ گٹے سے کٹ گیا ہے اورکلائی یا کلائی کا کوئی بھی حصہ موجود ہے تو اسے دھونا ضروری ہوگا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ:
’’إذا أمرتکم بشيء فاتوا منه مااستطعتم‘‘ (صحیح مسلم:1337)
جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو اپنی طاقت وسعت کے مطابق اسے انجام دینے کی کوشش کرو۔
اورفقہا لکھتے ہیں کہ:
’’ولو قطعت یدہ أورجله فلم یبق من المرفق والکعب شيء یسقط الغسل ولوبقی وجب‘‘ (البحر الرائق 29/1)
اگر کسی کا ہاتھ یا پیر کاٹ دیا گیا ہو اور کہنی اور ٹخنے کا کوئی حصہ نہیں بچا ہے تو اس کے دھونے کا حکم ساقط ہوگیا اور اگر کچھ بھی باقی ہے تو اسے دھونا ضروری ہے ۔
اوراگر اعضا ء وضو کا کوئی حصہ موجود نہیں ہے تو پھرمصنوعی اعضا کو نکالنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اس سے جڑے ہوئے حصے تک پانی پہنچانے کی حاجت ہے۔ اور اعضا ء وضو کا کوئی حصہ موجود ہو یا نہ ہو، بہر صورت اس حالت میں مصنوعی اعضا کو دھونے یا اس پر مسح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اورنہ ہی ایسا کرنا مستحب یا سنت ہے۔
14- سسٹو اسکوپ Cystoscopy:
یہ ایک ایساطبی آلہ ہے جس میں باریک نلکی لگی رہتی ہے اورجس کے سرے پر کیمرہ ہوتا ہے، اسے پیشاب کے راستے سے اندر داخل کرکے مثانہ اور گردے وغیر ہ کی پتھری،سوجن یا سوزش کا مشاہدہ کیاجاتا ہے۔
اور پیشاب ، پائخانہ کے راستے سے کسی چیز کو داخل کرنے اور نکالنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، کیونکہ یقینی طور پر اس کے ساتھ گندگی کے اثرات باہر آئیں گے گر چہ اس کی مقدار بہت ہی معمولی کیوں نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ:
’’کان رسول اللہﷺ یأمرنا إذا کنا سفرا ألا ننزع خفافنا ثلاثة أیام ولیالھن إلا من جنابة ولکن من غائط وبول ونوم‘‘ (سنن الترمذي: 96)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ سفر میں ہم تین دن اور رات تک اپنا خف نہ نکالیں الا یہ کہ جنابت پیش آجائے تو اسے اتارنا ہے البتہ پیشاب پاخانہ کے کسی بھی جزء اور نیند کے بعد اسے نہیں اتارنا ہے ۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب و پائخانہ کی کسی بھی مقدار کے نکلنے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
اور ان راستوں سے کسی چیز کو داخل کرکے نکالنے کی وجہ سے غالب گمان یہ ہے کہ اس کے ساتھ گندگی بھی باہر آئے گی اورظن غالب کا اعتبار کرتے ہوئے حدیث میں نیند کو ناقض وضو میں شمار کیا گیا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے ہوا خارج ہونے کا امکان ہوتا ہے ۔اوران راستوں کے ذریعے کسی چیز کوداخل کرکے نکالنے پرتری اورنمی کا نہ ہونا ایک نادر واقعہ ہے اور کسی نادر واقعہ پر مسئلے کا دار و مدار نہیں ہوتا۔
15- انڈو اسکوپی Endoscopy
بعض امراض مثلاً پیٹ کے کینسرکی تشخیص کے لیے معدہ تک کیمیرے والی نلکی داخل کی جاتی ہے اور بسااوقات اس کے ذریعے گوشت کے ٹکڑے کو بھی تجربے کے لیے کاٹ کر نکال لیا جاتا ہے، اس پائپ کو پیٹ میں داخل کرنے اور نکالنے سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑےگا کیونکہ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ پیٹ کے ذریعے منہ کے راستے کسی چیز کے نکلنے سے وضو اسی وقت ٹوٹیگا جب کہ وہ کثیر ہو اور ظاہر ہے کہ معدہ سے گزر کر جو نلکی باہر آئے گی اس پرنجاست کی بہت معمولی مقدار لگی ہوگی
اسی طرح سے گوشت کے ٹکڑے کا نکالنا بھی ناقض وضو نہیں ہے البتہ اگر اس عمل کے نتیجے میں منہ سے خون نکل آئے تو وضو ٹوٹ جائے گا، کیونکہ خون کا نکلنا مطلقاً ناقض وضو ہے خواہ وہ قلیل ہو یاکثیر ہو۔
واضح رہے کہ اگر یہ نلکی پیچھے کے راستہ سے معدہ تک پہنچائی گئی ہے تو بہر صورت ناقض وضو ہے، اس پر نجاست کا نظر آنا ضروری نہیں ہے۔
16- خون نکالنا اور چڑھانا:
بعض امراض کی تشخیص یا خون منتقل کرنے کے لیے جسم سے خون نکالنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور جسم سے خون نکلنے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اس لیے اگر انجکشن یا کسی اور ذریعے سے اتنی مقدار میں خون نکالا جائے کہ وہ جسم سے نکل کر بہہ سکے تواس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’من أصابه قيء أو رعاف او قلس أو مذي فلینصرف ثم ليبني علی صلاته وھو في ذلک لایتکلم‘‘(ابن ماحه:1221)
اگر کسی کو قے ہوجائے یا نکسیر پھوٹ پڑے یا مذی نکل آئے تو نماز چھوڑ کر جائے اور وضو کرکے آئے اور پھر جہاں سے چھوڑا تھا وہیں سے شروع کردے بشرطیکہ اس دوران وہ بات چیت نہ کرے ۔
سندی اعتبار سے حدیث ضعیف ہے مگر یہ روایت متعدد سندوں سے منقول ہے اس لیے یہ حسن لغیرہ سے فروتر نہیں، نیز صحیح سند کے ساتھ مرسلاً بھی منقول ہے اور مرسل روایت جمہور محدثین کے نزدیک لائق دلیل ہے، علاوہ ازیں حضرت علیؓ،ابن عمرؓ، ابن عباسؓ اور سلمان فارسیؓ کے قول اور فتوے کی حیثیت سے
یہ روایت ثابت ہے اور کسی صحابی کا خلاف قیاس فتویٰ مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتا ہے لہذا ان تمام تائیدات کی وجہ سے مذکورہ حدیث استدلال کے لائق ہوجاتی ہے ۔
البتہ خون چڑھانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ جسم میں نجاست داخل کرنے کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا، جیسے کہ وضوکے بعد شراب پینا ناقض وضو نہیں ہے، البتہ اگر سرنج لگانے کی وجہ سے خون نکل کر بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
17- ڈائلیسس Dialysis:
گردے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ خون میں موجود زہریلے اور فاسد مادے کو صاف کرکے اسے پیشاب کے راستے سے باہر کردیتا ہے اورجب کسی کا گردہ ناکاہ ہوجاتا ہے تو پھر مصنوعی طریقے سے خون کی صفائی کی جاتی ہے جسے ڈائلسیزکہا جاتا ہے اور اس وقت اس کی دو صورتیں رائج ہیں:
۱۔ مصنوعی گردے کے ذریعے خون کی صفائی:
اس طریقے میں ہاتھ یا گردن کی رگ میں ایک پائپ لگا ديا جاتا ہے اورپھر اس کے ذریعے جسم سے خون نکال کرایک مشین سے گزاراجاتا ہے جسے مصنوعی گردہ کہاجاتا ہے، پھر اس کے ذریعہ خون صاف کرکے دوبارہ جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اس طریقے میں جسم سے خون کو نکالاجاتا ہے اور یہ گزر چکا ہے کہ جسم سے خون نکالنے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لہٰذا کسی نے وضو کے بعد ڈائلسیز کرایا ہے تو پھر اس کا وضو باقی نہیں رہا۔
۲۔ پریٹونیم کے ذریعے خون کی صفائی:
پریٹونیم اوجھڑی میں چاروں طرف موجود ایک جھلی کا نام ہے اور خون صاف کرنے میں یہ بھی بالکل مصنوعی گردے کی طرح کام کرتا ہے اورجس میں انسان کے قدو قامت کے اعتبار سے ایک سے تین لیٹر تک پانی بھرنے کی گنجائش ہوتی ہے، اس میں ایک نلکی کے ذریعے سے خون صاف کرنے والا سیال مادہ داخل کیاجاتا ہے اور پھر کچھ گھنٹوں کے بعد اس کو نکال لیاجاتا ہے جس کے ذریعے خون میں موجود فاسد مادے اور زہریلے اثرات باہر آجاتے ہیں اور اس پانی میں پیشاب کے تمام اجزا ء موجود ہوتے ہیں اور وہ بالکل پیشاب کے مانند ہوتا ہے اور اس طرح سے وہ ایک نجس پانی ہوتا ہے، اور جسم کے کسی بھی حصے سے نجاست کا نکلنا ناقض وضو ہے، اس لیے اس اس طرح سے ڈائلسیز کرنے سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔
18- ناف کے نیچے کے حصے کو بے حس کر دینا:
آپریشن یا میڈیکل ٹیسٹ کے لیے ناف کے نیچے کے حصے کو سن کر دیا جاتا ہے، اس حالت میں مریض گرچہ پورے ہوش وحواس میں رہتا ہے لیکن اسے پیشاب و پائخانہ اور ہوا کے نکلنے کا احساس نہیں رہتااور اس ادراک کے نہ ہونے کی بنیاد پرحدیث میں نیند کو ناقض وضو شمار کیاگیا ہے، حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:
’’وکاء السه العینان فمن نام فلیتوضأ‘‘ (سنن أبي داود: 203، وسنن ابن ماجه: 477، سنن الدارمي: 749)
شرمگاہ کے لئے آنکھیں بندھن کی طرح ہیں لہذا جو سوجائے وہ وضو کرے .
اور نیند ہی کی طرح بے ہوشی بھی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے، اس لیے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ بے ہوشی کی وجہ سے وضو واجب ہے۔
لہٰذا جسم کے نچلے حصے کو بے حس کردینے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جائے گا، کیونکہ اس با ت کا امکان ہے کہ ہوا خارج ہوئی ہو اور اسے پتہ نہ چلا ہو۔
19- نلکی کے ذریعہ پیشاب و پائخانہ:
بعض امراض کی وجہ سے طبعی طریقہ پر فضلات کانکالنا دشوار ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان دونوں جگہوں پر یا پیٹ کے نچلے حصے میں جگہ بناکر پائپ لگا دیا جاتا ہے، جس سے پیشاب و پائخانہ خارج ہوکر ایک تھیلی میں جمع ہوتا ہے اور اس کے خارج ہونے میں مریض کے ارادہ و اختیار کو کوئی دخل نہیں ہوتا ہے اوریہ گزر چکا ہے کہ نجاست کے خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے خواہ نجاست متعین جگہ سے نکلے یاجسم کے کسی بھی حصے سے، البتہ چونکہ اسے روکنے کی قوت موجود نہیں ہے اس لیے ایسے شخص کو معذور سمجھا جائے گا اور معذور کا حکم یہ ہے کہ وہ ہر وقت کی نماز کے لیے تازہ وضو کرے، گرچہ اس کے علاوہ وضو کو توڑنے والی چیزوں میں سے کوئی چیز پیش نہ آئی ہو۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ:
جَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: «لَا، إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ، وَلَيْسَتْ بِالحَيْضَةِ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَصَلِّي»، قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ فِي حَدِيثِهِ: وَقَالَ: «تَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ حَتَّى يَجِيءَ ذَلِكَ الوَقْتُ»،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت فاطمہ بنت حبیش آئیں اور عرض کیا : اللہ کے رسول! مجھے استحاضہ کی بیماری ہے اس لئے میں کبھی پاک نہیں رہتی ۔کیا میں نماز چھوڑ دوں؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں۔وہ تو رگ کا خون ہے ۔حیض نہیں ہے ۔اس لئے جب تمہارے حیض کا زمانہ آئے تو نماز چھوڑ دو اور جب ختم ہوجائے تو خون دھو دو اور غسل کرکے نماز پڑھو اور ایک روایت میں ہے کہ ہر نماز کے لئے وضو کرو۔یہاں تک کہ تمہارے حیض کا زمانہ آجائے۔
اورہر وضو سے پہلے تھیلی کو بدل دینا یا تھیلی میں موجود گندگی کو صاف کردینا ضروری ہے لیکن اگر ایسا کرنے میں شدید مشقت ہو یا تھیلی تبدیل کرنے میں ناقابل تحمل مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے تو پھر اس کے ساتھ نماز اداکرنے کی اجازت ہوگی، اس لیے کہ:
{ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا } [البقرة: 286]
اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتے ۔
ایسا شخص گھر پہ نماز پڑھے ، پیشاب کی تھیلی کے ساتھ مسجد نہ آئے کیونکہ مسجد میں کسی ناپاک چیز کو لانا مکروہ اور اس سے مسجد کی آلودگی کا خطرہ ہے نیز دوسرے لوگ اس سے گھن محسوس کرتے ہیں اور انھیں تکلیف ہوتی ہے
20- مصنوعی طریقہ تولید کے بعد غسل:
مردو عورت میں کسی نقص کی وجہ سے طبعی طریقے پر نطفہ بار آور نہ ہوسکے تو پھر اولاد کے حصول کے لیے مصنوعی طریقہ اپنایا جاتا ہے جس میں کبھی مرد سے مادۂ منویہ لے کر سرنج کے ذریعے عورت کے رحم میں پہنچا دیا جا تا ہے اور کبھی دونوں کے تولیدی مادے کو کچھ دنوں تک ایک مخصوص ٹیوب میں رکھاجاتا ہے اور پھر اسے بچہ دانی میں منتقل کردیا جاتا ہے۔
دونوں صورتوں میں جب کہ تولیدی مادے کو مرد یا عورت سے طبی آلات کے ذریعہ حاصل کیا گیاہے اور اس کے نکلنے میں شہوت کو دخل نہیں ہے تو دونوں میں سے کسی پر غسل فرض نہیں ہے، کیوں کہ غسل فرض ہونے کے لیے منی کا شہوت کے ساتھ نکلنا ضروری ہے، حنفیہ، مالکیہ اورحنابلہ اسی کے قائل ہیں(1)، چنانچہ حضرت علیؓ کہتے ہیں :
’’کنت رجلا مذاء فجعلت اغتسل حتی تشقق ظھری۔ فذکرت ذالک للنبیﷺ، فقال رسول اللہﷺ لاتفعل، اذا رایت المذی فاغسل ذکرک وتوضا وضوءک للصلاۃ فاذا فضخت الماء فاغتسل‘‘(ابوداؤد:206)
مجھے کثرت سے مذی آتی تھی اور میں اس کی وجہ سے غسل کیا کرتا تھا جس سے میری پیٹھ پھٹنے لگی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے اس کا تذکرہ کیا تو فرمایا:غسل مت کیا کرو۔جب مذی نظر آئے تو اپنی شرمگاہ دھو دو اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرو۔اور جب جوش کے ساتھ پانی نکلے تو غسل کرو۔
حدیث میں وارد لفظ” فضخ "کے معنی ہیں شدت و شہوت کے ساتھ نکلنا (عون المعبود)لہٰذا شہوت کے بغیر منی نکلنے پر غسل واجب نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذی کے نکلنے پر غسل نہیں ہے، حالانکہ وہ بھی منی ہی کی طرح ہے، کیونکہ وہ شہوت کے ساتھ نہیں نکلتی ہے۔
البتہ امام شافعی کے نزدیک شہوت کے بغیر بھی منی نکلنے سے غسل واجب ہے، (المجموع 158/2)اس لئے احتیاطاً غسل کرلینا چاہئے ۔
اور شہوت کے بغیر بھی مرد و عورت سے منی نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا (البدائع 24/1)
اسی طرح سے طبی آلات کی ذریعے شرمگاہ کے راستے سے عورت کا بیضہ حاصل کیا گیا ہے تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا، لیکن اگر پیٹ میں سوراخ کرکے بیضہ کوحاصل کیاگیا ہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا الا یہ كہ خوننکل کر بہہ پڑے کیونکہ بیضہ کے ناپاک ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، اس لیے اباحت اصلیہ کے ضابطے سے اسے پاک سمجھاجائے گا۔ اور اگر ناپاک بھی ہو تو وہ اس درجہ باریک اور لطیف ہوتا ہے کہ خورد بین کے بغیر اسے نہیں دیکھاجاسکتا ہے، اس لیے وہ قلیل کے درجے میں اور اس طرح سے کم مقدار میں ناپاکی معاف ہے۔
اور مرد سے منی حاصل کرکے طبی آلات کے ذریعے بچہ دانی میں داخل کرنے سے عورت پر غسل واجب نہیں ہے بشرطیکہ اس عمل کی وجہ سے اسے انزال نہ ہو، چاروں امام اسی کے قائل ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ شریعت نے غسل کو اس شخص پر واجب قرار دیا ہے جس سے منی خارج ہو، کیونکہ شہوت کے ساتھ منی کے نکلنے سے لذت اور تسکین حاصل ہوتی ہے اور ٹیوب کے ذریعے منی داخل کرنے میں یہ وجہ نہیں پائی جاتی۔
21- بے ہوشی کے بعد غسل:
دوا وغیرہ کے ذریعہ کسی کو مکمل طورپر بے ہوش کر دیاجائے تو ہوش آنے پر اس کے لیے غسل کرلینا مستحب ہے گرچہ کپڑے یاجسم پرمنی وغیرہ کے اثرات نہ ہوں۔
چنانچہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں :
ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَصَلَّى النَّاسُ؟» قُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ، قَالَ: «ضَعُوا لِي مَاءً فِي المِخْضَبِ». قَالَتْ: فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، فَذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَصَلَّى النَّاسُ؟» قُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «ضَعُوا لِي مَاءً فِي المِخْضَبِ» قَالَتْ: فَقَعَدَ فَاغْتَسَلَ. (صحيح البخاري: 687، صحيح مسلم: 418)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بوجھل ہوگئی ۔آپ نے پوچھا کیا لوگ نماز پڑھ چکے ؟ہم نے کہا نہیں ۔وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا: میرے لئے لگن( ٹب )میں پانی رکھ دو۔ ہم نے ایسا ہی کیا ۔آپ نے غسل فرمایا اور پھر چاہا کہ اٹھیں لیکن آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی اور افاقہ کے بعد پوچھا: لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ہم نے کہا نہیں ۔وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا: میرے لئے لگن میں پانی رکھ دو ۔ پھر آپ نے اس میں بیٹھ کر غسل فرمایا ۔
آپ ﷺ کے اس عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ بے ہوشی سے افاقہ پر غسل کرلینا چاہیے البتہ اگر افاقہ ہونے پر تری دکھائی دے اور اس کے منی ہونے کا یقین ہو تو غسل واجب ہے اور اگر منی یامذی ہونے میں شک ہو تو غسل واجب نہیں ہے۔ (رد المحتار 300/1.308/1)
22- کنڈوم کے ساتھ صحبت کرنے سے غسل:
مرد کے ختنے کی جگہ کے بقدر حصہ عورت کی شرمگاہ میں داخل ہوجائے تو غسل واجب ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو، چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’إذا جاوز الختان الختان وجب الغسل‘‘ (سنن الترمذي:108، سنن ابن ماجه: 608)
جب مرد کے ختنے کی جگہ عورت کے ختنے کی جگہ سے آگے بڑھ جائے تو غسل واجب ہے ۔
اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے منقول روایت کے الفاظ یہ ہیں:
إِذَا الْتَقَى الْخِتَانَانِ، وَتَوَارَتْ الْحَشَفَةُ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ. (سنن ابن ماجه: 611، مسند أحمد (2/178)
اور جب مرد وعورت کے ختنے کی جگہ باہم مل جائے اور سپاری چھپ جائے تو غسل واجب ہے ۔
اور بعض روایتوں میں التقاء کی جگہ ملامسہ (چھونے) کا ذکر ہے، اور التقاء وملامسہ (ملنے اور چھونے)کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو، اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص شرمگاہ پر کپڑا وغیرہ لپیٹ کر داخل کرے اور انزال نہ ہوتو غسل واجب نہیں بشرطیکہ حائل کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کی حرارت اور لذت محسوس نہ کریں اور اگر رکاوٹ کے باوجود حرارت اور لذت محسوس ہو تو انزال کے بغیر بھی غسل واجب ہے۔
اور کنڈوم کے استعمال کامقصد ہی ہے کہ مردو عورت ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں مگرحمل نہ ٹھہرے، اس لیے وہ اس درجہ باریک بنا یاجاتا ہے کہ اس کی موجودگی میں بھی دونوں جنسی لذت حاصل کرتے ہیں لہٰذا اس کے ساتھ جنسی عمل سے غسل واجب ہے گرچہ انزال نہ ہو
23- حیض روکنے یالانے کے لیے دوا کا استعمال:
بعض فرائض کی ادائیگی جیسے کہ حج کرنے یا رمضان کے خیرو برکات سے استفادے کے لیے حیض روکنے والی دواؤں کا استعمال جائز ہے بشرطیکہ اس سے صحت اور بچہ جننے کی صلاحیت کو کوئی نقصان نہ پہنچے، نیز اگر اس سے شوہر کا کوئی حق متعلق ہو تو اس سے اس کی اجازت لے لی جائے اور جائز ہونے کے باوجود بہتر ہے کہ ایسا نہ کیا جائے، کیونکہ فطری طریقے پر چلنے میں سلامتی ہے، محدث عبدالرزاق نے نقل کیا ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک عورت کے بارے میں پوچھا کہ:
’’تطاول بھا دم الحیضة فأرادت أن تشرب دواء بقطع الدم عنھا فلم یر ابن عمر بأسا ونعت ابن عمر ماء الأراک‘‘(مصنف عبدالرزاق 318/1)
حیض کا خون زیادہ مدت تک آنے کی وجہ سے اگر کوئی عورت اسے روکنے کے لئے دوا پی لے تو کیا اس میں کوئی قباحت ہے ؟حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور انھوں نے کہا کہ اس کے لئے وہ پیلو کی لکڑی کا پانی استعمال کرے ۔
اور معمر کہتے ہیں کہ:
’’وسمعت ابن أبي نجیح یسأل عن ذالک فلم یربه بأسا‘‘ (حوالہ مذکور)
میں نے سنا کہ ابن نجیح سے اس کے بارے میں پوچھا جارہا تھا تو انھوں نے بھی کوئی حرج نہیں سمجھا ۔
اور دوا کے استعمال کے بعد خون نہ آئے تو عورت پاک سمجھی جائے گی، کیونکہ حیض نام ہے خاص دنوں میں خون کے آنے کا اور جب خون کا آنا بند ہے تو ان خاص دنوں میں وہ پاک رہے گی۔
اسی طرح سے حیض جلد آنے کے لیے بھی کسی دوا کااستعما ل کرنا درست ہے، بشرطیکہ اس کے لیے شوہر سے اجازت لے لی جائے اور کسی واجب کو ساقط کرنے کے لیے بطور حیلہ اسے نہ اپنایاجائے اور دوا کے ذریعہ آنے والا خون حیض شمار ہوگا، اگر پندرہ دن یا اس سے زائد پاک رہنے کے بعد آئے اور تین دن تک برقرار رہے، گرچہ وہ عادت کے دنوں میں نہ آئے۔
24- بچہ دانی میں ورم یاکینسر کاعلاج:
بچہ دانی میں ورم یا کینسر کا علا ج دو طرح سے کیاجاتا ہے، ایک ریزکے ذریعے اس کی سینکائی کی جاتی ہے اور دوسرے بچہ دانی کو کاٹ کر نکال دیا جاتا ہے، پہلی صورت میں علاج کے دوران یا اس کے بعد آنے والے خون کو حیض کاخون سمجھاجائے گا بشرطیکہ وہ حیض کے دنوں میں آئے اور اگر حیض کے دنوں کے علاوہ آئے تو اسے استحاضہ کا خون باور کیا جائے گا کیوں کہ وہ رگوں کا خون ہے جو اس کے علاج کی وجہ سے بہہ پڑا ہے، رسول اللہ ﷺ سے حضرت فاطمہ بنت جیش نے پوچھا:
’’إني استحاض فلا أطھر أفأدع الصلوٰۃ؟ فقال علیه الصلاۃ والسلام: "لا إنما ذلک عرق ولیس بحیض فإذا أقبلت حیضتک فدعی الصلاة، وإذا أدبرت فاغسلي عنک الدم ثم صلي‘‘(صحیح البخاری: 226)
مجھے استحاضہ کا مرض لاحق ہے کیا نماز چھوڑ دوں ؟فرمایا : نہیں ۔وہ تو رگ کا خون ہے ۔حیض نہیں ہے ۔لہذا جب تمہارے حیض کا زمانہ آئے تو نماز نہ پڑھو اور جب وہ وقت ختم ہوجائے تو خون دھوکر اور غسل کرکے نماز پڑھو۔
اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ جب تمہارے حیض کا زمانہ آئے تو نماز چھوڑ دو، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حیض کی عادت کے دنوں کے علاوہ جو خون آئے اسے حیض کا خون نہیں سمجھاجائے گا۔
دوسری صورت میں جب کہ بچہ دانی کوختم کردیاجائے اور اس کے بعد بھی خون آئے تو اسے حیض کاخون نہیں سمجھاجائے گا، کیونکہ حیض کا خون وہ ہے جو بچہ دانی سے آئے، چنانچہ حیض کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’ھوالدم الخارج من الرحم الممتد إلی وقت معلوم‘‘(تحفة الفقهاء/33)
حیض وہ خون ہے جو بچے دانی سے آئے اور ایک مخصوص وقت تک دراز رہے ۔
25- ڈیجیٹل قرآن کو بے وضو چھونا:
موبائل وغیرہ میں جس وقت اسکرین پر قرآنی آیت ظاہر ہو تو اس وقت موبائل کو بلاوضو ہاتھ لگانا درست نہیں ہے، کیونکہ اس وقت وہ قرآن کے مانند ہے، اور حدیث میں کہا گیا کہ صرف پاک شخص ہی قرآن کو ہاتھ لائے”أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ” (موطا: 534)
البتہ کسی قلم یا اس مقصد کے لیے بنائی گئی پنسل سے موبائل کو ہاتھ لگائے بغیر اسے پڑھناممکن ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
اور اگر اسکرین پر حروف ظاہر نہ ہوں بلکہ صرف آواز آئے تو پھر موبائل کو بلاوضو ہاتھ لگانا اور اس کے ذریعے قرآن سننا درست ہے۔
26- جنابت اور بے وضو ہونے کی حالت میں قرآن کی کمپوزنگ:
جنابت کی حالت میں قرآن پاک پڑھنا بھی ممنوع ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرئنا القرآن مالك يكن جنبا (سنن الترمذي: 146)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کے علاوہ ہر حال میں ہمیں قرآن پڑھایا کرتے تھے۔
اور انھیں سے منقول ایک روایت میں ہے :
لا يحجبه عن القرآن شيء ليس الجنابة (سنن أبي داود: 229)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنابت کے علاوہ کوئی چیز قرآن کے پڑھنے سے نہیں روکتی تھی۔
گویا کہ جنابت کی وجہ سے ناپاکی کا اثر منہ اور ہاتھ دونوں تک پھیل جاتا ہے اس لئے اس حالت میں قرآن پڑھنا اور چھونا دونوں ممنوع ہے اور بے وضو ہونے کی صورت میں ناپاکی کا اثر صرف چھونے تک محدود رہتا ہے اس لئے ہاتھ لگائے بغیر تلاوت جائز ہے ۔اور دونوں صورتوں میں اسے براہ راست چھونا ناجائز ہے البتہ کسی علاحدہ غلاف وغیرہ کےذریعے اسے ہاتھ لگانے میں کوئی حرج نہیں اس لئے اگر اسکرین پر ہاتھ نہ لگے تو جنابت اور بے وضو ہونے کی حالت میں کمپوزنگ درست گرچہ بہتر یہ ہے کہ مکمل طور پر پاکی کی حالت میں کمپوزنگ کی جائے اور جنابت و بے وضو ہونے کی حالت میں کمپوزنگ سے احتیاط کیا جائے
27-ترجمہ قرآن کو بے وضو ہاتھ لگانا :
قرآن کریم کی ترجمے کو خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہوں بے وضو ہاتھ لگانا مکروہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے قرآن کے معانی کی ترجمانی ہوتی ہے اس لئے اس کا احترام بھی مطلوب ہے ۔
نماز سے متعلق نئےمسائل
1- غیرمعتدل علاقوں میں نماز کے اوقات:
چھ مہینے رات یا دن رہنے والے علاقوں میں نماز کا حکم
اللہ تعالیٰ نے معراج کے موقع پر فرمایا:
’’یا محمد! إنھن خمس صلوات کل یوم ولیلة لکل صلاۃ عشرفذلک خمسون صلاۃ‘‘. (صحیح مسلم: 162)
محمد! یہ دن اور رات میں کل پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز کا ثواب دس گنا ہے ،اس طرح سے یہ پچاس نمازیں ہوگئیں۔
اورحضرت طلحہ بن عبیداللہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ سے ایک صاحب نے اسلام کے بارے میں دریافت کیا توآپؐ نے فرمایا:
’’خمس صلوات في الیوم واللیلة فقال: ھل علی غیرھن؟ قال: لا إلا أن تطوع…‘‘(صحیح البخاري: 46)
رات اور دن میں پانچ نمازیں ۔عرض کیا :کیا میرے ذمے اس کے علاوہ بھی کوئی نماز ہے ؟فرمایا : نہیں الا یہ کہ اپنی خوشی سے پڑھ لو۔
اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے سوال کیا کہ:
’’…وزعم رسولک أن علینا خمس صلوات في یومنا ولیلتنا قال: صدق، قال: فبالذي أرسلک اللہ أمرک بھذا؟ قال نعم…‘‘(صحیح مسلم: 12)
آپ کے قاصد کا کہنا ہے کہ ہمارے ذمے دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا ۔عرض کیا :جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اس کی قسم! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔
ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرمومن پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں خواہ ان کاتعلق دنیاکے کسی بھی خطے سے ہو، اس لیے جن علاقوں میں کئی دن، کئی ہفتہ یا مہینوں سورج طلوع یا غروب نہیں ہوتا وہاں کے لوگوں پر بھی چوبیس گھنٹوں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھناضروری ہے، اور ان نمازوں کے درمیان وہاں بھی وہی فاصلہ اور تناسب رکھا جائے گا جو معتدل ممالک کی نمازوں میں ہوتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دجال کے بارے میں بیان فرمایا، صحابہ کرام نے دریافت کیاکہ وہ کتنے دنوں تک رہے گا، آپؐ نے فرمایا:
’’أربعون یوماً، یوم کسنة، ویوم کشھر، ویوم کجمعة، و سائرأیامه کأیامکم، فقیل: یا رسول اللہ الیوم کسنة أیکفینا فیه صلاۃ یوم؟ قال: لا اقدروا له‘‘ (صحیح مسلم:2937)
چالیس دن تک جس کا ایک دن ایک سال کی طرح اور ایک دن ایک مہینہ کی طرح اور ایک دن ایک ہفتے کی طرح ہوگا اور بقیہ ایام عام دنوں کی طرح ہونگے ۔عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ایک دن جو ایک سال کی طرح ہوگا اس میں ایک دن کی نماز کافی ہوگی! فرمایا نہیں بلکہ تم اندازہ لگا کے پورے سال کی نماز پڑھو
محقق علامہ ابن ہمام اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’فاستفدنا أن الواجب في نفس الأمر خمس علی العموم، غیرأن توزیعھا علی تلک الأوقات عند وجودھا فلایسقط بعدمھا الوجوب‘‘. (فتح القدیر 156/1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر حال میں اور ہر ایک پر پانچ نمازیں فرض ہیں البتہ ان کو ان کے اوقات میں اس وقت تقسیم کیا جائیگا جب وہ موجود ہوں اور اگر موجود نہ ہوں تو اس کی وجہ سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی ۔
یہی حکم ان علاقوں کابھی ہے جہاں سورج غروب ہونے کے بعد فوراً طلوع ہوجائے، رہے و ہ علاقے جہاں بائیس بائیس گھنٹے کی رات یا دن ہوتا ہے وہاں سورج ڈوبنے اور نکلنے کے درمیان مغرب، عشاء اور فجر کی نماز ادا کی جائے گی اور ان کے درمیان فاصلے کا وہی تناسب ہوگا جو معتدل ممالک کی نمازوں کے درمیان ہوتا ہے، جیسے کہ مغرب اورفجر کا وقت پوری رات کے ۱_ ۸ حصے کے بقدر ہوتا ہے تو ان علاقوں کی مختصر رات کے آٹھویں حصے تک مغرب کا وقت ہوگا اور پھر عشاء کا اور سورج نکلنے سے پہلے فجر کا اور دن میں ظہر اورعصر کی نماز ادا کی جائے گی، اس طرح سے کہ پورے دن کے آدھے کے بعد ظہرکی نماز اور پھرسورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی نماز، چنانچہ دجال سے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ:
’’وآخرأیامه کالشررۃ، یصبح أحدکم علی باب المدینة فلا یبلغ بابھا الآخرحتی یمسي، فقیل: یا رسول اللہ! کیف نصلي في تلک الأیام القصار؟ قال: تقدرون فیھا الصلاۃ کما تقدرونھا في ھذہ الأیام الطوال ثم صلوا‘‘. (سنن ابن ماجه: 4077)
اور آخر کے دن شعلہ کی طرح ہونگے ۔تم صبح کے وقت شہر کے دروازے ہوگے اور دوسرے دروازے تک پہنچنے سے پہلے شام ہوجائے گی ۔عرض کیا گیا کہ ان چھوٹے دنوں میں ہم نماز کیسے پڑھیں گے ؟فرمایا کہ ان میں بھی نماز کے وقت کا اندازہ اسی طرح سے لگانا جیسے کہ تم بڑے دنوں میں لگاؤ گے پھر اس کے مطابق نماز پڑھو۔
یہی حکم اس صورت کا بھی ہے جب کہ دن مختصر اور رات بہت لمبی ہو، اور اگر رات اتنی مختصرہو کہ مغرب اورفجر کاوقت مل جائے لیکن عشاء کا وقت نہ ملے تو جس کا وقت مل جائے اسے پڑھ لے اور جس کا وقت نہ ملے اس کی قضاء کرے ۔
2-نماز پڑھنے کے بعد ایسی جگہ پہنچے جہاں اس نماز کا وقت اس کے بعد آئے:
اگر کوئی شخص مثلاً ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد ہوائی جہاز کے ذریعے ایسی جگہ پہنچا جہاں ابھی ظہر کا وقت نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے پہنچنے کے کچھ دیر بعد ظہر کاوقت شروع ہوا تو اس کو دوبارہ ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ نفل کی نیت سے شریک ہونا چاہے تو وہاں کی جماعت میں شامل ہوسکتا ہے، اس لیے کہ دن اور رات میں صرف پانچ نمازیں فرض ہیں، حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺسے سناکہ:
خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى الْعِبَادِ، فَمَنْ جَاءَ بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ،كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ،وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ(الموطأ: 320)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔لہذاجو کوئی انھیں ادا کرے اور ان کے حق کو ہلکا سمجھتے ہوئے ان میں سے کسی کو ضائع نہ کرے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کا وعدہ ہے اور جو کوئی ادا نہ کرے تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں ہے ،اگر چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو جنت میں داخل کردے ۔
اور کسی فرض نماز کوایک مرتبہ ادا کرلینے کے بعد اسے دوبارہ پڑھنا درست نہیں ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:
’’لاتصلوا صلاۃ في یوم مرتین‘‘. (سنن أبي داود: 1420)
في رواية: لا تعاد الصلاة في يوم مرتين. (سنن النسائي: 860)
کوئی نماز ایک دن میں دو مرتبہ نہ پڑھو اور ایک روایت میں ہے کہ کوئی نماز ایک دن میں دوبار نہیں پڑھی جائے گی ۔
اور ایک دوسری حدیث میں ہے:
لا تصلى صلاة مكتوبة في يوم مرتين ‘‘. (سنن الدارقطني: 1544)
فرض نماز ایک دن میں دو مرتبہ نہیں پڑھی جائے گی ۔
3- اوقات نماز میں تقویم کی رعایت:
نماز کے اوقات کو جاننے کامدار سورج کی گردش پر ہے، جس پر بعض لوگ آگاہ نہیں ہوسکتے ہیں اورتمام لوگوں کو اس کے جاننے کا مکلف بنانا بھی دشواری کا سبب ہے، اس لیے اس سلسلے میں کسی جاننے والے پراعتماد کیا جاسکتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’إن بلالا یؤذن بلیل فکلوا واشربوا حتی یؤذن ابن ام مکتوم‘‘. (صحيح البخاري: 2656.، صحيح مسلم: 1052)
بلال رات میں اذان دیتے ہیں اس لئے کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ وقت کے سلسلے میں اذان پر اعتماد کیا کرتے تھے۔
اس وقت سورج کی گردش کے بارے میں حسابی نتائج کے ذریعے نماز کے اوقات کو جاننے کے لیے جوتقویم تیار کیے جاتے ہیں اس پر اعتماد کیاجاسکتا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ اسے تیار کرنے والے لائق اطمینان ہوں اور مشاہدہ اور تجربے سے اس کا صحیح ہونا ثابت ہو۔
4-خون یا پیشاب کے سمپل کے ساتھ نماز:
میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ کے لئے پیشاب پائخانہ یا خون کسی شیشی میں بند ہو تو بھی اسے جیب میں رکھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے کیونکہ ضابطہ یہ ہے کہ اگر کوئی نجاست اپنی طبعی جگہ پر ہو اور اس جگہ سے خروج نہ ہو تو اس کی وجہ سے اس جگہ کے ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگایا جائیگا جیسے کہ ہر انسان کے پیٹ میں نجاست اور جسم اور رگوں میں نجس خون موجود ہے لہذا اگر انڈا خراب ہو کر خون بن جائے لیکن صحیح سالم چھلکے میں موجود ہو تو اسے جیب میں رکھ کر نماز پڑھنا درست ہے کیونکہ نجاست اپنی طبعی جگہ میں موجود ہے اور وہاں سے خارج نہیں ہوئی ہے اور اس کے برخلاف نجاست کسی شیشی میں پیک ہو تو اسے ساتھ لیکر نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی طبعی جگہ میں نہیں ہے بلکہ جسم سے خارج ہوکر دوسری جگہ جمع ہوگئی ہے اس لئے ناپاکی کے ساتھ نماز پڑھنے والا سمجھا جائے گا۔
5–ناپاک پانی سے سیراب گھاس پر نماز:
ناپاک پانی سے سیراب گھاس پر ناپاکی کا رنگ ،بو وغیرہ موجود ہو تو اس پر نماز پڑھنا درست نہیں ہے اور اگر اس کا اثر زائل ہوچکا ہے تو اس پر نماز کی ادائیگی جائز ہے۔ (دیکھئے: رد المحتار 513/1، الفتاوى التتارخانية 461/1)
اس لئے کہ زمین کو پاک کرنے کے لئے اس پر پانی بہانا ضروری نہیں ہے بلکہ خشک ہونے کے بعد نجاست کا اثر باقی نہ رہے تو اسے پاک سمجھا جائے گا۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں:
كَانَتِ الْكِلَابُ تَبُولُ، وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ. (صحیح البخاري: 174، سنن أبي داود: 382)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کتے مسجد میں پیشاب کردیتے اور آتے جاتے رہتے تھے مگر لوگ اس پر پانی نہیں بہایا کرتے تھے۔
6-قبلہ نما پراعتماد:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ما بین الشرق والمغرب قبلة‘‘. (سنن الترمذي: 342، سنن النسائي: 2243، سنن ابن ماجه: 1011)
مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ اور اس کی سمت میں رہنے والوں کے لیے فرمایا کہ ان کے لیے ٹھیک کعبہ کا استقبال ضروری نہیں ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے بلکہ ان کے لیے کعبہ کی سمت میں رخ کرلینا کافی ہے۔
سمت کعبہ کو جاننے کے لیے دن میں سورج کے طلوع و غروب اوررات میں چاندکے طلوع وغروب اور قطب شمالی کا سہارا لیاجاتا رہا ہے، آج کے دور میں اس کے لیے قطب نمایاالیکٹرانک آلات ایجاد کرلیے گئے ہیں اور تجربہ سے ثابت ہے کہ اس کے ذریعہ عام طور پر قبلہ کا پتہ چل جاتا ہے، اس لیے قبلہ کی تعیین میں اس پراعتماد کیا جاسکتا ہے، جب کہ اس کے علاوہ دوسرے طبعی ذرائع سے قبلہ کی سمت کا پتہ نہ چلے۔
7-ہوائی جہاز، ٹرین اور بس میں استقبال قبلہ:
نماز صحیح ہونے کے لیے قبلہ کی طرف رخ کرنا شرط ہے، اس لیے ٹرین، بس یا ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز پڑھتے ہوئے قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری ہے اور اگر دوران نماز ان کا رخ بدل جائے تو نمازتوڑنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنا رخ بھی بدل کر قبلہ کی طرف کرلینا چاہیے،اور قدرت کے باوجود رخ تبدیل نہ کرنے پر نماز نہیں ہوگی۔
اوراگر ہجوم یا گاڑی کی ساخت کی وجہ سے قبلہ کی طرف رخ کرنا ممکن نہ ہواور باہر نکل کرنماز پڑھنے پر بھی قدرت حاصل نہ ہو تواستقبال قبلہ کی بغیر بھی نماز درست ہے۔
واضح رہے کہ بس اورجہاز وغیرہ کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ اگر اس کا رخ قبلہ کی طرف نہ ہو تو پھر قبلہ کااستقبال دشوار ہے، ایسی حالت میں بہتر ہے کہ اگر وقت کے اندر منزل پر پہنچنے کا امکان ہوتو نمازکومؤخر کر دیا جائے یابس کہیں ٹھہر جائے تو اس سے اتر کے نماز ادا کرے اور اگر ایسا نہ ہواوربس رکوانے پر قدرت بھی حاصل نہ ہو توپھرقبلہ کی طرف رخ کیے بغیر بھی نماز درست ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ‘‘(البقرۃ:۱۱۵)
8-تصویردار کپڑا:
کسی ایسے کپڑے کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ اور ناجائز ہے جس پر کسی جاندار کی تصویر بنی ہوئی ہو گرچہ وہ کارٹون ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ نماز میں ہرایسی چیزسے بچنا چاہیے جس سے اس کا یا دوسرے کا خشوع و خضو ع متاثر ہو: حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ:
قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في خميصة ذات أعلام، فنظر إلى علمها، فلما قضى صلاته قال: «اذهبوا بهذه الخميصة إلى أبي جهم بن حذيفة، وائتوني بأنبجانيه، فإنها ألهتني آنفا في صلاتي». (صحيح مسلم: 556، سنن أبي داود: 4052)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیل بوٹے والی چادر میں نماز پڑھنے کھڑے ہوئے ۔نماز کے دوران اس کے نقش و نگار پر آپ کی نگاہ پڑی ۔اور نماز مکمل کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: اس چادر کو ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور ان کی انبجانی چادر لے آؤ کیونکہ اس نے مجھے ابھی نماز میں غفلت میں مبتلا کردیا تھا ۔
نیز وہ بیان کرتی ہیں کہ:
’’إنه کان لھا ثوب فیه تصاویرممدود إلی سھوۃ فکان النبيﷺ یصلي إلیه فقال: أخریه عني، قالت: فأخرته فجعلته وسائد‘‘. (صحيح مسلم: 2107، سنن النسائي: 761)
ان کے پاس ایک تصویر دار کپڑا ٹھاجسے انھوں نے بطور پردہ طاق پر لٹکا رکھا تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف نماز پڑھتے تھے ۔آپ نے فرمایا اسے یہاں سے ہٹادو میں نے وہاں سے ہٹا کر اس کے تکئے بنا لئے۔
نیز مسجد ایسی جگہ ہے جہاں فرشتوں کی آمد رہتی ہے اور نماز کی حالت میں بندہ اپنے رب سے زیادہ قریب رہتا ہے، اس لیے ایسی ہیئت میں اس وقت بطورخاص نہیں رہنا چاہیے جو اللہ کو ناگوار ہو اور فرشتوں کے لیے خلل انداز، حضرت ابو طلحہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’لاتدخل الملائکة بیتا فیه کلب ولاصورۃ‘‘. (صحیح البخاري: 3322)
فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔
9-جینس پینٹ میں نماز:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
{يَابَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ } [الأعراف: 31]
اے آدم کی اولاد! جب مسجد میں آؤ تو اپنی خوشنمائی کا سامان لے کر آؤ اور کھاؤ پیو مگر فضول خرچی مت کرو۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ فضول خرچوں کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے زینت اختیارکرنا ضروری ہے اور سترپوشی کے ذریعہ مطلوبہ زینت کا مقصد پورا ہوجائے گا، لیکن ستر پوشی کے ساتھ لباس کا ڈھیلا ڈھالاہونا بھی مطلوب ہے جس کے ذریعہ حقیقی معنوں میں ستر پوشی کامقصدپورا ہوگا، اس لیے تنگ اورچست لباس میں نماز پڑھنا کراہت سے خالی نہیں ہے ۔لہٰذا جینس پینٹ یااس طرح کا کوئی بھی لباس پہننا جوجسم سے چپکا ہوا ہو مکروہ ہے، البتہ نماز کراہت کے ساتھ درست ہوجائے گی بشرطیکہ اس درجہ باریک نہ ہو کہ اس سے جسم کی رنگت نظر آنے لگے۔
10-مفلر یا رومال کے دونوں کناروں کو لٹکتا ہوا چھوڑدینا:
نماز ميں مفلر یا رومال کے دونوں کناروں کو لٹکتا ہوا چھوڑدینا
سر یا کندھے پرمفلر اور رومال وغیرہ اس طرح سے رکھنا کہ اس کے دونوں کنارے سامنے لٹک رہے ہوں، مکروہ ہے، کیوں کہ حدیث میں ہے کہ:
’’إن رسول اللہﷺ نھی عن السدل في الصلاۃ‘‘. (سنن أبي داود: 643، سنن الترمذي: 378)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل سے منع فرمایا ہے ۔
اور ’’سدل‘‘ کی تفسیر میں امام ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ:
السدل إسبال الرجل ثوبه من غير أن يضم جانبيه بين يديه فإن ضمه فليس بسدل. عون المعبود وحاشية ابن القيم (2/ 244)
سدل یہ ہے کہ کوئی اپنے کپڑے کے دونوں کناروں کو لپیٹے بغیر سامنے کی طرف لٹکا دے اور اگر اسے لپیٹ دے تو سدل نہیں ہے ۔
اوربعض روایتوں میں ہے کہ سدل کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے، چنانچہ ابوعبیدہ نے نقل کیا ہے کہ:
عن علي أنه خرج فرأى قوما يصلون قد سدلوا ثيابهم فقال كلهم اليهود خرجوا من قهرهم. عون المعبود وحاشية ابن القيم (2/ 245)
حضرت علی باہر آئے دیکھا کہ کچھ لوگ اپنے کپڑوں کو لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں انھوں نے کہا گویا کہ سب یہود ہیں جو اپنی درسگاہوں سے نکل کر آگئے ہوں۔
اس تفسیر کی بنیاد پر فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص قبا یاقمیص وغیرہ کو کندھے پر رکھ لے اور اس کی آستین کو ہاتھ میں نہ ڈالے تو یہ بھی سدل میں شامل ہے اور مکروہ ہے۔ (الہندیہ 106/1)
کرتے کے اوپر سے کوئی کپڑا مثلاً مفلر یا رومال وغیرہ کو لٹکایا جائے یا کرتے کے بغیر کوئی چادر اوڑھے اور اس کے دونوں کناروں کو لٹکتا ہوا چھوڑ دے بہر صورت سدل ہے اور مکروہ ہے کیونکہ حدیث کا لفظ عام ہے اور دونوں صورتوں کو شامل ہے ۔
اس طرح سے کپڑا لٹکانے کی ممانعت کی وجہ یہود سے مشابہت ہے نیز کپڑے کو گرنے سے بچانے کے لئے اسے باربار پکڑنا اور ٹھیک کرنا ہوگا جس سے خشوع وخضوع متاثر ہوگا اور نماز میں اطمینان و سکون کی کیفیت برقرار نہیں رہیگی۔
11-ریکارڈ کردہ اذان:
ٹیپ یا چپ وغیرہ میں کسی کی آواز میں اذان ریکارڈ کرلی جائے اور پھر اوقات مقررہ میں اس کی کیسٹ چلاکر اذان دی جائے تو کیا یہ درست ہے ؟ جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے اور اس طرح سے اذان دینے سے اذان نہیں ہوگی کیوں کہ:
1-اذان اسلامی شعائر میں سے ایک شعار ہے اور کسی شعار و علامت کو اس کی اصل شکل میں باقی رکھنا ضروری ہے ، اس لئے کہ تبدیلی کے بعد شعار ہونے کی حیثیت ہی برقرار نہیں رہیگی ۔
2-اذان ایک مستقل عبادت ہے اور عبادت کے لئے دوچیزوں کی رعایت ضروری ہے :اخلاص اور کتاب وسنت سے ثابت خاص شکل کی پابندی اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی بدعت کہلاۓ گی۔
اور ظاہر ہے کہ اخلاص ایک باشعور انسان کی صفت ہے نہ کہ کسی بے جان مشین کی جس کی حرکت شعور و احساس اور آگہی سے عاری ہوتی ہے ۔
3-اذان کے لئے بہت سی چیزیں سنت و مستحب ہیں جیسے باوضو ہونا ،کھڑے ہوکر اذان دینا ،قبلہ رو ہونا،کانوں میں انگلیاں ڈالنا ، حی علیٰ الصلاۃ اور حی علیٰ الفلاح کے وقت دائیں بائیں رخ کرنا ۔
اور مشینی اذان میں ان چیزوں کی رعایت ممکن نہیں ہے ۔
4- اذان کا مقصد نماز کے وقت کے ہوجانے کی خبر دینا ہے اور اس خبر کا تعلق دینی امور سے ہے جس کے معتبر ہونے کے لیے خبر دینے والے کامسلمان، عاقل، بالغ اور دیندار ہونا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام شرطیں کیسٹ یا چپ وغیرہ میں نہیں پائی جاسکتی ہیں (1)
لھذا ریکارڈ کردہ اذان کی نشر کرنا درست نہیں ہے اور اس طرح سے اذان دینے سے اذان نہیں ہوگی ۔
(1)’’ان المقصود الاصلی من الاذان فی الشرع الاعلام بدخول اوقات الصلاۃ… فمن حیث الاعلام بدخول الوقت وقبول قولہ لابدمن الاسلام والعقل والبلوغ والعدالۃ۔ (رد المحتار:290/1، مطلب فی الموذن اذا کان غیرمحتسب فی اذانہ.)
12-ایک اذان کو متعدد مسجدوں سے نشر کرنا:
موذن کسی ایک مسجد سے اذان دے اور اس کی آواز اسی وقت نیٹ یاالیکٹرانک مشین کے ذریعے متعدد مساجد سے نشرہو، جیسے کہ ریڈیو کی خبریں بیک وقت متعدد جگہوں سے سنی جاتی ہیں تو یہ شکل بھی ناجائز ہے کیونکہ یہ اس مسلسل عمل کے خلاف ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے آج تک امت عمل پیرا ہے،
اور گزرچکا ہے کہ اذان ایک ایک اسلامی شعار اور ایک مستقل عبادت ہے جس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کی اجازت نہیں ہے اور ایسا کرنا بدعت و ضلالت ہے
دوسرے یہ کہ اس طرح سے اذان دینے میں لوگوں کو اذان کے اجرو ثواب سے محروم کرنا ہے جس کی فضیلت متعدد حدیثوں سے ثابت ہے، چنانچہ حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے انہوں نے سنا کہ:
’’الموذنون اطول الناس اعناقا یوم القیامۃ‘‘ (صحیح مسلم:674)
قیامت کے دن اذان دینے والوں کی گردنیں سب سے زیادہ بلند ہونگی ۔
اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’لویعلم الناس مافی النداء والصف الاول ثم لم یجدوا الا ان یستھوا علیہ لاستھموا‘‘ (صحیح بخاری:615)
اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اذان اور پہلی صف میں کیا ثواب ہے اور پھر اسے حاصل کرنے کے لئے قرعہ اندازی کی ضرورت پڑ جائے تو لوگ اس کے لئے ضرور قرعہ اندازی کرتے ۔
اور ان سے منقول ایک دوسری حدیث میں ہے :
’’یغفرللموذن مدی صوتہ ویشھد لہ کل رطب ویابس‘‘(مسند احمد:,9935)
مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کے بقدر اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ،اور ہر خشک و تر اس کے لئے گواہی دیتا ہے ۔
اور حضرت ابو سعید خدری سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لایسمع مدی صوت الموذن جن ولاانس الاشھد لہ یوم القیامۃ‘‘ (صحیح بخاری:609)۔
مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے وہاں تک کے جو بھی جنات و انسان اسے سنتے ہیں وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دیں گے ۔
13-ریڈیائی یا الیکٹرانک اذان کاجواب:
ریڈیائی یا ٹیلیفونک اذان کی دو شکلیں ہیں ایک یہ کہ براہ راست انہیں نشر کیا جائے، دوسرے یہ کہ اسے پہلے رکارڈ کر لیا جائے اور پھروقت ہونے پر نشر کیاجائے، پہلی صورت میں سننے والے نے اگر ابھی اس وقت کی نماز نہیں پڑھی ہے اور اس اذان کاوقت ہوچکا ہے تو اس کے لیے جواب دینا مستحب ہے خواہ قریب کی مسجد سے براہ راست مؤذن کی آواز آئے یا لاؤڈ اسپیکر اور ریڈیو وغیرہ کے ذریعے اس کی آواز دور کی مسجد سے سنی جائے۔
اور اگر سننے والے نے اس وقت کی نماز پڑھ لی ہے یا اس کے اعتبار سے ابھی اس کا وقت نہیں ہوا ہے، جیسے کہ ریڈیو کے ذریعہ مکہ کی آواز ہندوستان میں سنی جائے یا یہاں کی اذان مکہ میں سنائی دے تو اس صورت میں جواب دینا مسنون نہیں ہے، کیونکہ موذن اس کے ذریعے نماز کے لیے بلارہا ہے اور سننے والا اس کو ادا کر چکا ہے یا اس کے اعتبار سے ابھی اس کاوقت ہی نہیں ہوا ہے توجب اسے نماز کے لیے جانا ہی نہیں ہے تو اس کا جواب کیسے دے گا ؟ اور حی علی الصلاۃ و حی علی الفلاح کا جواب لاحول کے ذریعے دے کر اللہ تعالیٰ سے اس کی ادائیگی کی توفیق کی دعا کیسے کر ے گا، جب کہ وہ اسے پڑھ چکا ہے؟ البتہ اگر کوئی ذکر کے ارادے سے جواب دینا چاہے توا س میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور دوسری صورت میں بہر حال اذان کا جواب دینا سنت نہیں ہے کیوں کہ اس اذان کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور اسی بنیاد پرکہا گیا ہے کہ آواز بازگشت یا پرندے وغیرہ کے ذریعے آیت سجدہ کے سننے پر سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہے۔
14-لاؤڈاسپیکر کے ذریعے اذان دینے میں دائیں بائیں رخ کرنا:
اذان دینے میں حی علی الصلوٰۃ اورحی علی الفلاح کے وقت دائیں بائیں رخ کیا جاتا ہے تاکہ اذان کی آواز دور تک پہنچ سکے، اسی طرح سے آواز کی بلندی کے لیے کان میں انگلی ڈالی جاتی ہے تو کیا لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دینے کی صورت میں اس علت کے نہ پائے جانے کی وجہ سے ایسا کرنا مسنو ن ہوگا یا نہیں؟
صحیح یہ ہے کہ لاؤڈاسپیکر کے ذریعے اذان کرنے کی حالت میں بھی دائیں بائیں رخ کرنا اور کان میں انگلی داخل کرنا مستحب ہے، کیوں کہ اذان کا یہ طریقہ ایک تسلسل کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک سے لے کر آج تک جاری ہے، اس لیے اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، چنانچہ طواف کے دوران دائیں کندھے کوکھلا رکھا جاتا ہے اور اکڑ کر چلا جاتا ہے، صحیح حدیث میں اس کی علت یہ بتلائی گئی ہے کہ ایسا کرنے سے مشرکوں پر رعب طاری ہوگا اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کی یہ غلط فہمی دور ہوجائے گی کہ وہ بہت کمزور ہوچکے ہیں، رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے بعد طواف کے دوران حضرت عمرؓ مذکورہ علت کو سوچ کر تھوڑی دیر کے لیے رکے لیکن پھریہ کہہ کر آگے بڑھ گئے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہے، اس لیے اس علت کے نہ پائے جانے کے باوجود ہم اسی کیفیت کے ساتھ طواف کریں گے، اس سلسلے میں صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں:
ثم قال: «فما لنا وللرمل إنما كنا راءينا به المشركين وقد أهلكهم الله»، ثم قال: «شيء صنعه النبي صلى الله عليه وسلم فلا نحب أن نتركه». (صحيح البخاري: 1605)
اب ہم رمل کیوں کریں؟ یہ تو مشرکوں کو دکھانا کے لئے تھا، اور اللہ تعالی نے انھیں تباہ وبرباد کردیا۔ پھر کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیا کرتے تھے اس لئے اسے چھوڑنا ہمیں گوارہ نہیں ۔
علامہ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح میں لکھا ہے:
حضرت عمر فاروق نے طواف میں رمل نہ کرنے کا ارادہ کرلیا تھا کیونکہ انھیں اس کی وجہ معلوم تھی اور وہ وجہ باقی نہیں رہی تو سبب کے نہ پائے جانے کی وجہ سے انھوں نے اسے ترک کرنے کا ارادہ کیا پھر وہ اس ارادے سے یہ سوچ کر باز آگئے کہ ہوسکتا ہے کہ رمل کی کوئی اور بھی حکمت ہو جس سے وہ باخبر نہیں ہیں اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی بہتر ہے ۔
اورامام ابو داؤد وغیرہ نے اس واقعہ کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
فيم الرملان الآن؟ وقد أطأ الله الإسلام، ونفى الكفر وأهله، وايم الله، ما ندع شيئا، كنا نفعله على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم. (سنن أبي داود: 1887، سنن ابن ماجه: 2952)
آج رمل کرنے اور کندھا کھولنے کی کیا ضرورت ؟اب تو اسلام غالب آچکا ہے کفر اور کفار ختم ہوچکے ہیں ۔ اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہم جو کچھ کرتے رہے ہیں اسے ترک نہیں کریں گے ۔
رمل کی مشروعیت کے سبب کی خود حدیث میں صراحت ہے اور وہ سبب موجود نہیں رہا، اس کے باوجود اسے چھوڑا نہیں گیا اور اذان میں دائیں بائیں پھرنے کے سبب کے بارے میں حدیث میں کوئی وضاحت نہیں ہے کہ اس کامقصد آواز کو دور تک پہنچا نا ہے یا اور کوئی مقصد ہے تو محض احتمال کی بنیاد پر اسے کیسے تر ک کیا جاسکتا ہے، البتہ کان میں انگلی ڈالنے سے متعلق بعض روایتوں میں ہے کہ اس سے آواز کی بلندی میں مدد ملے گی، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بلالا أن يجعل إصبعيه في أذنيه، وقال: «إنه أرفع لصوتك». (سنن ابن ماجه: 710)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ اپنے کان میں انگلی داخل کریں کیونکہ اس سے آواز زیادہ بلند ہوگی ۔
لیکن یہ روایت ضعیف ہے، اس لیے اس سے استدلال نہیں کیاجاسکتا ہے، علاوہ ازیں اس کی حکمت اس کے علاوہ بھی ہوسکتی ہے، جہاں تک ہماری عقل کی رسائی نہیں ہوسکی ہے ، اس لیے محض ایک حکمت کے نہ ہونے کی وجہ سے کسی سنت کو ترک نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ:
اور اذان میں حی علیٰ الصلاۃ اور حی علیٰ الفلاح کے وقت دائیں بائیں رخ کرے گرچہ وہ کسی جگہ تن تنہا ہو یا بچے کے کان میں اذان دے رہا ہو اس لئے کہ یہ بہر صورت اذان کی سنت ہے
15- اذان کا الارم:
حضرت بلالؓ رمضان کے مہینے میں سحر ی کے لیے باخبر کرنے کے مقصد سے اذان دیا کرتے تھے، اس سلسلے میں صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں:
’’لايمنع أحدکم أذان بلال من سحوره فإنه يؤذن بليل ليرجع قائمکم ولينبه نائمکم‘‘. (صحيح البخاري: 620)
بلال کی اذان تم میں سے کسی کو سحری سے نہ روکے کیونکہ وہ رات میں اذان دیتے ہیں تاکہ تہجد پڑھنے والا سحری کرلے اور سونے والا بیدار ہوجائے (اور سحری کھالے)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نیند سے بیدار ہونے یا کسی دوسرے مقصد کے لیے اذان کے الارم میں کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ کھیل کود کی جگہوں پر اس طرح کا الارم نہ لگایا جائے، دوسرے یہ کہ اس کی وجہ سے نماز کی اذان میں التباس نہ ہو۔
16- کلمات اذان کی بیل اور موبائل میں اذان کا رِنگ ٹون:
قرآنی آیات یا ذکر الٰہی پرمشتمل کلمات کو ذکر الٰہی کے علاوہ کسی اورمقصد کے لیے استعمال کے جائز ہونے یا نہ ہونے کامدار اس کے مقصد اور غرض پر ہے، اگر وہ جائز ہو تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسے کہ کسی کا مقصد ہو کہ فون یا اطلاعی گھنٹی سننے کی جگہ پر اذان وغیرہ کے الفاظ سنے جائیں اور وہ ذکر الٰہی سے مستفید ہوتا رہے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ سفر کے دوران فجرکی نماز کے لئے نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام بیدار نہ ہوسکے اور سورج نکلنے کے بعد کچھ لوگوں کی آنکھ کھلی جن میں حضرت عمر فاروق بھی تھے اور وہ دوسروں کو جگانے کے لئے زور زور سے تکبیر کہنے لگے ۔روایت کے الفاظ یہ ہیں:
فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، فَمَا زَالَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، حَتَّى اسْتَيْقَظَ بِصَوْتِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔(صحیح بخاری:344)
البتہ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ فون اٹھانے کی صورت میں قرآنی آیت یا اذان کے کلمات درمیان سے نہ کٹیں، ورنہ آیت ادھوری رہ جاتی ہے اورغیرمکمل آیت کے معنی بدل جاتے ہیں، اس لئے ایسا کرنا درست نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس طرح رِنگ ٹون پر مشتمل فون کو لے کر ناپاک جگہوں پر نہ جایاجائے، مثلاً بیت الخلاء وغیرہ میں فون آنے پر ان کلمات کی بے حرمتی ہوگی۔
اوراگر محض مقصد یہ ہو کہ اس کے ذریعے اطلاع حاصل ہوگی تو ا س کے لیے بہرصورت ذکرالٰہی پر مشتمل کلمات کا استعمال مکروہ ہوگا۔
17-پیدائش کے موقع پر فون کے ذریعے اذان:
بچے کے دائیں کان کے پاس اذان کہنا اور بائیں کان کے پاس اقامت کہنا سنت ہے، چنانچہ بعض روایتوں میں ہے کہ:
’’من ولد له ولد فأذن في أذنه اليمنی، وأقام في أذنه اليسری لم تضرہ أم الصبيان‘‘. (مسند أبي يعلى الموصلي: 6780. عمل اليوم والليلة لابن السني :623)
پیدائش کے موقع پر بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے تو بچہ شیطانی اثرات سے محفوظ رہیگا ۔
اور حضرت ابو رافعؓ کہتے ہیں کہ:
’’رأيت رسول الله ﷺ أذن في أذن الحسن بن علي حين ولدت فاطمة بالصلاۃ‘‘ (رواہ أحمد، وكذلك أبو داود والترمذي وصححه. (نيل الأوطار: 1060/2)
میں نے دیکھا کہ جب حضرت فاطمہ کے یہاں حسن بن علی کی ولادت ہوئی تو اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان دی ۔
ملا علی قاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’حين ولدت فاطمة يحتمل السابع وقبله‘‘ (مرقاة المفاتيح 75/7)
حضرت فاطمہ کے یہاں ولادت کے موقع پر اذان دی میں احتمال ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن اذان دی گئی یا اس سے پہلے۔
بچے کے کان میں اذان دینے کی حکمت یہ ہے کہ اذان کے کلمات اسلامی تعلیمات کا خلاصہ اور مغز ہیں اور وہ دنیاوی ترقی اور اخروی کامیابی و نجات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں چنانچہ سب سے پہلے اللہ کی عظمت و برتری اور توحید کا بیان ہے اور اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان اور پھر اسلامی زندگی اور عمل صالح کا تذکرہ اور پھر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور وہاں کی کامیابی کا ذکر اور آخر میں دوبارہ اللہ کی عظمت و برتری کا اعلان ہے ۔
اس لئے دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے اذان کے ذریعے اس کے دل کی گہرائیوں میں ایمان وعمل کے جذبات کو پیوست کرنا ہے ۔
نیز اذان سے شیطان دور بھاگتا ہے لہذا اذان دینے کی وجہ سے وہ شیطانی اثرات سے محفوظ رہیگا ۔
اور بچے کے کان میں اذان کے آداب کے سلسلے میں علامہ سندھیؒ کہتے ہیں کہ:
پیدائش کے موقع پر بچے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیکر قبلہ رو ہوجائے اور اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے اور حی علیٰ الصلاۃ کہتے ہوئے دائیں طرف اور حی علیٰ الفلاح کہتے ہوئے بائیں طرف رخ کرے۔
اور جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ اذان ایک عبادت ہے اور عبادت کے معاملے میں صحیح طریقہ یہی ہے کہ اس کو اصل شکل میں باقی رکھا جائے اس لئے پیدائش کے موقع پر فون کے ذریعے اذان دینا صحیح نہیں ہے اور اگر کسی وجہ سے فوری طور پر اذان دینا ممکن نہ ہو تو عذر کے زائل ہونے تک اسے موخر کردیا جائے اور پھر براہ راست اذان دی جائے کیونکہ اذان کے لئے کسی وقت اور دن کی پابندی ضروری نہیں ہے گرچہ بہتر یہی ہے کہ جلد سے جلد اس سنت کو ادا کرلیا جائے۔
18-ٹرین میں نماز:
ٹرین کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ اس میں کھڑے ہوکرنماز ادا کی جاسکتی ہے، نیز اس کا تعلق براہِ راست زمین سے ہے، اس لیے وہ تخت کی طرح ہے، اس لیے اس سے اترکر زمین پر نماز پڑھنے کی قدرت کے باوجود اس پر نماز ادا کر نا جائز ہے۔
لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب کہ ٹرین رکی ہوئی ہو اوراگر چل رہی ہوتو عذر کی وجہ سے نماز درست ہے کیونکہ نماز کے لیے اسے روکنا ممکن نہیں ہے اور نمازمیں مکان کا اتحاد بھی شرط ہے اور یہ شرط اسی وقت ساقط ہوگی جب کہ کوئی عذر ہو۔
اورجیساکہ معلوم ہے کہ نماز میں قیام کرنا شرط ہے، اس لیے قیام پرقدرت کے باوجود ٹرین میں بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے اوراگر شدید حرکت یا بھیڑ کی وجہ سے کھڑے ہوکر نماز پڑھنا ممکن نہیں تو پھر بیٹھ کر رکوع اور سجدے کےساتھ نماز ادا کرنا درست ہے۔
واضح رہے کہ اگر امید ہو کہ کسی اسٹیشن پر ٹرین رکنے کی صورت میں یا منزل مقصود تک پہنچنے کی حالت میں وہ وقت کے اندر ٹرین سے باہر نمازپڑھ سکتا ہو تو نماز کوموخر کردینا مستحب ہے۔
"اگر واقعتا اس قدر بھیڑ ہو کہ رکوع وسجدہ کرنا ممکن نہ ہو اور ٹرین سے باہر نماز ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو استقبال اور قیام کے بغیر ہی نماز ادا کریں گے”.(فتاوی دارالعلوم دیوبند 142/2)
19-بس اورجیپ وغیرہ میں نماز:
بس اورجیپ وغیر ہ کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ اس میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنا دشوار ہوتا ہے، نیز اگر وہ قبلہ کی طرف نہ جارہی ہو تو قبلہ کی طرف رخ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، اس لیے اگر وہ ٹھہری ہوئی ہو تو اتر کرنماز اداکرنا ضروری ہوگا اوراگر چل رہی ہو اور نماز کے لیے اسے رکوانا ممکن ہے تو بھی اسے روک کرزمین پرنمازادا کرنا واجب ہے اوراگر یہ ممکن نہ ہواور کھڑے ہوکر نماز ادا کرنے کی کوئی شکل نظر نہ آئے توبیٹھ کر نماز رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز ادا کرنا درست ہے، البتہ وقت کے اندر منزل مقصودتک پہنچنے کی امید ہو تو موخر کردینا بہتر ہے۔
20-ہوائی جہازمیں نماز:
سجدہ آخری درجے کی عاجزی اور انکساری کا نام ہے جس کی صورت یہ ہوگی کہ جسم کا سب سے اوپری حصہ یعنی سر کو جسم کے سب سے نچلے حصے یعنی یعنی پیر کے برابر کردے ، سجدے کا حقیقی مفہوم یہی ہے اور فقہی کتابوں میں جو لکھا گیا ہے کہ پیشانی کو زمین پر رکھنے کا نام سجدہ ہے تو وہ عمومی حالات کے اعتبار سے ہے یعنی عام طور سجدہ زمین ہی پر کیا جاتا ہے اس لئے سجدہ کی تعریف میں زمین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ورنہ تو سجدے کے لئے زمین کا ہونا ضروری نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے کشتی میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے حالانکہ کشتی اور زمین کے درمیان پانی حائل ہے لہذا کشتی اورپانی کے جہاز کی طرح سے ہوائی جہاز میں بھی نمازاداکرنا درست ہے، جب کہ نماز کے فوت ہونے کاخطرہ ہو اوراس میں نمازادا کرنے کی صورت میں اگر قیام اوررکوع ممکن ہو تو کھڑے ہوکر پڑھے اوراگر اس کا امکان نہ ہوتو بیٹھ کر رکوع اور سجدے کے ساتھ پڑھے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
{لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا} [البقرة: 286]
اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا (سورہ البقرہ:286)
{ فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} [التغابن: 16]
اور جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو ۔
اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عمران بن حصین نے عرض کیا مجھے بواسیر کی بیماری ہے میں نماز کیسے پڑھوں ؟فرمایا:
صل قائما فإن لم تستطع فقاعدا، فإن لم تستطع فعلى جنب. (صحيح البخاري: 1117)
اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ :
سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الصلاة في السفينة فقال: كيف أصلي؟ قال: صل قائما إلا أن تخاف الغرق. (السنن الکبری للبيهقي: 155/3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کشتی میں نماز پڑھنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کھڑے ہوکر پڑھو الا یہ کہ ڈوبنے کا اندیشہ ہو۔
21-گلوکوز چڑھانے کی حالت میں نماز:
اگر گلوکوز چڑھانے کی حالت میں نماز کا وقت آجائے اور وضو کرنے کی وجہ سے مرض میں اضافہ یامرض سے افاقہ میں تاخیر ہونے کااندیشہ نہ ہو تو وضو کرکے رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرنا ضروری ہے۔
اور اگر وضو کی وجہ سے بیماری میں اضافہ یا افاقہ میں تأخیر کااندیشہ ہو تو تیمم کرکے رکوع وسجدہ کے ساتھ نمازپڑھے اور اگر اس پر قدرت نہ ہو تو پھر اشارہ سے نماز ادا کرلے اور قضا نہ کرے بلکہ وقت کے اندر جس طرح سے ممکن ہو پڑھے۔
22-کرسی پر نماز:
قیام، رکوع اورسجدہ نمازکے ارکان وفرائض میں سے ہے اور قدرت کے باوجود ان میں کسی کو چھوڑ دینے سے نماز نہیں ہوگی، البتہ اگر ان میں سے کسی کی ادائیگی پر قادر نہ ہو تو پھر وہ رکن ساقط ہوجائے گا، البتہ دوسرے رکن کو اس کے مطلوب طریقے پر ادا کرنا ضروری ہے، چنانچہ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے کہ:
’’صل قائما، فإن لم تستطع فقاعدا، فان لم تستطع فعلی جنب‘‘. (صحيح البخاري: 1117)
کھڑے ہوکر نماز پڑھو ،اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر پڑھو ۔
اس لیے اگر کوئی شخص کھڑے ہونے پرقادر نہ ہو تواس کے لیے بیٹھ کر نماز اداکرنا درست ہے، قادر نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ کھڑے ہونے پر سر چکراتا ہو اورگرپڑنے کا خطرہ ہو یا بیماری کے بڑھ جانے یا صحت یابی میں تأخیر کا اندیشہ ہو یااس کی وجہ سے کسی جگہ شدید درد ہو یاکسی بھی حیثیت سے اس کے لیے نقصان دہ اور ضرر رساں ہو، محض معمولی مشقت یا پریشانی کی وجہ سے اس فریضے کو ترک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ (الہندیہ 136/1)
بلکہ فقہا ء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی تھوڑی دیر بھی یہاں تک کہ تحریمہ کے بقدر بھی قیام پر قادر ہو تو اس کے لیے اتنی دیر تک کھڑا رہنا ضروری ہے، نیز اگر کسی چیز سے ٹیک لگاکر کھڑا ہوسکتا ہے تو اس کے سہارے کھڑا ہوناضروری ہے۔ (مراقي الفلاح: ص235.الہندیہ 132/1.ردالمحتار 565/2)
اوراگر کوئی شخص رکوع اور سجدہ پرقادرنہ ہو لیکن قیام پر قدرت رکھتا ہو تواس کے لیے بھی قیام فرض ہے، کیونکہ قیام ایک مستقل رکن ہے اورجس رکن کی ادائیگی پر قدرت حاصل ہو اسے ترک کرنا صحیح نہیں ہے، بعض فقہائے حنفیہ اسی کے قائل ہیں اور اما م شافعی اور احمد بن حنبل کایہی مسلک ہے، (المغني: 572/2) دلیل کے اعتبار سے یہی رائے زیادہ قوی ہے، اس کے برخلاف دوسری رائے یہ ہے کہ چونکہ نماز میں سجدہ اصل مقصود ہے اور قیام ا س کے لیے ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے اورجب مقصو د ساقط ہوگیا تو وسیلہ بدرجہ اولیٰ ساقط ہوجائے گا، اس لیے اس صورت میں قیام ضروری نہیں ہے لیکن اس بات کوثابت کرنا مشکل ہے کہ سجدہ مقصود اور قیام اس کے لیے ایک وسیلہ ہے، بلکہ نماز کاہر ایک رکن مقصود ہے۔
اگر کوئی شخص قیام پرقادر نہ ہو تو اس کے لیے بیٹھ کر نماز ادا کرنا صحیح ہے اور اگر زمین پر بیٹھنے کی صورت میں اس کے لیے سجد ہ اداکرنا ممکن ہے تو کرسی پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کرنا درست نہیں ہے اور اگر سجدہ کرنے کی قدرت نہ ہو توپھر کرسی پر بیٹھ کر پڑھنا درست ہے، تاہم اس حالت میں بھی زمین پر بیٹھ کر پڑھنا افضل ہے، کیونکہ رسول اللہؐ سے یہی ثابت ہے۔
اور یہی نماز کے مقصود کے مناسب ہے ۔اور کرسی پر پڑھنا نماز کے اصل وضع کے خلاف ہے ۔
سجدہ پرقادر نہ ہونے کی صورت میں کرسی پر نماز پڑھنا درست ہے، لیکن اگر قیام و رکوع پر قدرت حاصل ہے تواسے مطلوبہ کیفیت پر ادا کرنا ضروری ہے۔
کر سی پر نماز پڑھنے کی صورت میں مناسب ہے کہ اسے صف کے بالکل آخر میں رکھا جائے نہ کہ درمیانِ صف میں، کیونکہ ایساکر نے میں بظاہر صف کٹ جاتی ہے اور بعض لوگ اس میں گرانی محسوس کرتے ہیں اور جماعت کے دوران نمازیوں کو تنگی میں مبتلا کرنا درست نہیں۔
23-اسٹول پر سجدہ:
اگر کوئی شخص زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو اور وہ عذر اور مجبوری کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہے اور سامنے اسٹول وغیرہ رکھ کر اس پرسجدہ کرنا چاہتا ہے تو اس کی اجازت ہوگی، چنانچہ حضرت ام سلمہؓ کے متعلق منقول ہے کہ وہ آشوبِ چشم کی بیماری میں مبتلا تھیں جس کی وجہ سے پورے طور پر سجدہ نہیں کرپاتی تھیں تو سامنے تکیہ رکھ کر اس پر سجدہ کیا کرتی تھیں۔
’’عن الحسن عن أمه قالت: رأيت أم سلمة زوج النبی ﷺ تسجد علی وسادۃ من أدم من رمد بها‘‘(السنن الکبرى للبيهقي: 3489 نیز دیکھئے مصنف عبدالرزاق: 4145)
حضرت حسن بصری اپنی والدہ سے نقل کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ میں نے آنحضرت کی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ کو آشوب چشم کی وجہ سے چمڑے کے ایک تکیہ پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔
بعض روایتوں میں جو اس کی ممانعت آئی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کو اٹھاکر اپنی پیشانی اس سے لگالی جائے لیکن اگر کوئی اونچی چیز زمین پر رکھ دی جائے اور اس پر سجدہ کیاجائے تواس میں کوئی حرج نہیں بلکہ باعث ثواب ہے کہ اس نے ممکن حد تک اشارہ کے بجائے سجدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ (1)
بلکہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی معذور اتنا سر جھکانے پر قادر نہ ہو جو زمین سے دواینٹ (۹؍انچ)کے بقدر ہو تو اس پر قادر ہونے کی حالت میں کوئی ٹھوس چیز زمین پر رکھ کر سجدہ کرنا لازم ہے، کیونکہ ۹؍انچ کے بقدر اونچی جگہ پر سجدہ کرنا بھی حقیقی سجدہ کہلا تا ہے اور جب کوئی حقیقی سجدہ پر قادر ہو تو اس کے لیے اشارہ درست نہیں ہے۔ (2)
(1)ھذا محمول علی ما اذاکان یحمل الی وجہہ شیئا یسجدعلیہ بخلاف ما اذا کان موضوعا علی الارض، یدل علیہ ما فی الذخیرۃ حیث نقل عن الاصل الکراھۃ فی الاول ثم قال فان کانت الوسادۃ موضوعۃ علی الارض وکان یسجد علیھا جازت صلاتہ۔ ( ردالمحتار:568/2) وان وضع بین یدیہ وسادۃ او شیئا عالیاجاز اذا لم یمکنہ تنکیس وجھہ اکثرمن ذالک وحکی ابن المنذر عن احمد انہ قال اختار السجود علی المرفقۃ وھو احب الی من الایماء وکذالک قال اسحاق، وجوزہ الشافعی واصحاب الرای ورخص فیہ ابن عباس وسجدت ام سلمۃ علی مرفقۃ…وجہ الجواز انہ اتی بما یمکنہ من الانحطاط فاجزاہ کما لو اومأ فاما ان رفع الی وجھہ شیئا فسجد علیہ فقال بعض اصحابنا لایجزیہ وروی عن ابن مسعود وابن عمر وجابروانس انھم قالوا یومی ولایرفع الی وجہہ شیئا۔(المغنی 576/2)
(2)دیکھئے : ردالمحتار 569/2.الہندیہ 136/1)
24-موبائل بند کرنا:
نماز كے درميان ٹیلیفون کا جواب دینے کے لیے نماز توڑنا درست نہیں ہے، کیونکہ کسی شدید مجبوری ہی میں نماز توڑ ی جاسکتی ہے، اس کے بغیر نہیں، جیسے کہ کسی کے چھت سے یا گڈھے میں گرجانے کا یا آگ وغیرہ لگ جانے کااندیشہ ہو، فون کے ذریعے عام طور پر اس طرح کی چیزوں کے بارے میں اطلاع نہیں دی جاتی اور اگر دی بھی جائے تو فوری طور پر نماز توڑ کر کوئی مدد بھی نہیں کی جاسکتی، اس لیے محض گھنٹی کی آواز سن کر نماز ختم کردیناجائز نہیں۔
اور اگر بہت زیادہ عمل اور حرکت کے بغیر اسے بند کیا جاسکتا ہو تو بند کردینا چاہیے تاکہ اس کی اور دوسرے لوگوں کی یکسوئی اورخشوع و خضوع متاثر نہ ہو۔
بہت زیادہ عمل اور حرکت کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والوں کو یہ گمان ہو کہ وہ نماز میں نہیں ہے، اگر کوئی شخص ایک ہاتھ باندھے ہوئے دوسرے ہاتھ سے موبائل بند کردے تو دیکھنے والوں کو یہ خیال نہیں ہوگا کہ وہ نماز میں نہیں ہے، اس لیے اگر اس طرح سے موبائل کی گھنٹی کو بند کر سکتا ہو تو کرلینا چاہیے۔اور اگر معمولی عمل کے ذریعے موبائل کو بند کرنا ممکن نہ اور گھنٹی کی آواز ایسی ہو کو خود اس کو اور دوسرے نمازیوں کو وحشت ہورہی ہو اور نماز میں خلل پیدا ہورہا ہے تو نماز توڑ کر اسے بند کردینا چاہئے ۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ:
” إِذَا وُضِعَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ (صحيح البخاري: 5463، صحيح مسلم: 557، سنن الترمذي: 353)
جب شام کا کھانا آجائے اور نماز کے لئے اقامت کہی جائے تو پہلے کھانا کھالو ۔
امام ترمذی اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
وَإِنَّمَا أَرَادُوا أَنْ لَا يَقُومَ الرَّجُلُ إِلَى الصَّلَاةِ وَقَلْبُهُ مَشْغُولٌ بِسَبَبِ شَيْءٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ : لَا نَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ وَفِي أَنْفُسِنَا شَيْءٌ.
صحابہ کرام اور تابعین وغیرہ نے حدیث سے یہ مراد لیا ہےکہ کوئی نماز کے لئے اس وقت کھڑا نہ ہو جب کہ اس کا دل کسی چیز میں مشغول ہو اور حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ ہمیں اس حال میں نماز میں نہیں کھڑا ہونا چاہیے جب کہ ہمارے دلوں میں کچھ ہو۔
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ، وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ”. (صحيح مسلم: 560، سنن أبي داود: 89)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ کھانے کی موجودگی میں اور پیشاب پاخانہ کے شدید تقاضے کے وقت نماز نہیں ہے۔
اس حدیث کی شرح میں لکھا گیا ہے کہ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ دل اس میں اٹکا ہوا ہوگا اور خشوع وخضوع باقی نہیں رہیگا اور اس کے حکم میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو دل کو مشغول کردیں اور کمال خشوع باقی نہ رہے۔
اور ان احادیث کی روشنی میں فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر نماز شروع کرنے کے بعد بھی ضرورت کا تقاضا ہونے لگے تو وقت میں گنجائش ہوتو نماز توڑ کر پہلے ضرورت پوری کرے۔
اور زیادہ بہتر اور مناسب طریقہ یہ ہے کہ نماز کے وقت موبائل کو بند کر دیا جائے یا سائلنٹ موڈ پر کردیا جائے ۔
25-لاؤڈاسپیکر، ریڈیو یا ٹیلی ویزن کے ذریعے اقتداء:
اقتداء جائز ہونے کے لیے شر ط ہے کہ امام اور مقتدی کی صفوں میں اتصال ہو، اس لیے فقہاء نے لکھاہے کہ اگر امام اورمقتدی کے درمیان کوئی گذرگا ہ یا نہر وغیرہ حائل ہو تو اقتداء درست نہیں ہے، (دیکھئے: الہندیہ 87/1) اس لیے اگر صف متصل ہو تو پھر لاؤڈاسپیکریا ٹیلی ویژن کے ذریعے اقتدا ء درست ہے، جیسے کہ مسجد کی دوسری منزل پر یا مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے ٹیلی ویژن لگادیا جائے جس کے ذریعے براہ راست امام کی نقل وحرکت اور آواز پہنچتی رہے۔
لیکن اگر صف میں اتصال نہ ہوتو اقتدا ء درست نہیں ہے، جیسے کہ کوئی اپنے گھر میں ہو اور لاؤڈاسپیکر یاریڈیو کے ذریعے امام کی آواز وہاں تک پہنچتی ہو یا ٹیلی ویژن اسکرین پر امام کی نقل وحرکت دکھائی دیتی ہو اور وہ گھر میں رہتے ہوئے اس کی اقتداء میں نماز شروع کردے تو یہ درست نہیں ہے، کیونکہ جماعت کے لیے یہ ضروری ہے کہ امام کے ساتھ شریک مانا جائے اور امام و مقتدی کے درمیان دو صف کے بقدر فاصلہ نہ ہو اور اگرمسجد میں نماز ہورہی ہو تو وہ مسجد میں حاضر ہو، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
’’من سمع النداء فلم يأته فلا صلاۃ له إلا من عذر‘‘(سنن ابن ماجه: 793)
جو شخص اذان کی آواز سنے اور مسجد میں نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہے الا یہ کہ کوئی عذر ہو ۔
یاد رہے کہ امام کی نقل و حرکت کی اطلاع کے لئے مکبر یا لاؤڈ اسپیکر کافی ہے اس کے لئے ٹی وی وغیرہ کے لگانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اس کے لگانے میں کراہت ہے .
26-بیڑی اور سگریٹ وغیرہ پینے کے بعد جماعت میں شریک ہونا:
بیڑ ی اور سگریٹ وغیر ہ پینے والوں کی منہ کی بدبو دوسروں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے، اس لیے ایسے لوگوں کاجماعت میں شریک ہونامکروہ ہے، انہیں چاہیے کہ منہ کو خوب اچھی طرح سے صاف کرلیں اور اس کی بدبو زائل ہونے کے بعد ہی مسجد میں داخل ہوں کیونکہ کیونکہ حدیث میں پیاز اور لہسن کھانے والوں کو مسجد میں آنے سے منع کیاگیا ہے حالانکہ ان کی بد بو بیڑی کی بدبو سے کمتر ہوتی ہے، حضرت جابربن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ:
’’من أکل ثوماً أو بصلا فليعتزل مسجدنا وليقعد في بيته‘‘(صحيح البخاري: 855، صحيح مسلم : 564)
جو کوئی لہسن یا پیاز کھالے تو وہ ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے ۔
اور فقہاء کرام لکھتے ہیں:
حدیث میں جن چیزوں کی صراحت کی گئی ہے ان کے ساتھ ان چیزوں کو بھی لاحق کر دیا جائے گا جن میں ناگوار بدبو ہو خواہ وہ کھانے کی چیز ہو یا اس کے علاوہ اور بعض لوگوں نے اسی کے حکم میں اس کو بھی رکھا ہے جس کے منہ یا اس کے زخم سے بدبو آتی ہو
27-متعدی امراض کے حامل شخص کا جماعت میں شریک ہونا:
متعدی امراض جیسے کوڑھ وغیرہ میں مبتلا شخص کو جماعت میں شریک ہونے سے احتیاط برتنا چاہیے، اسی طرح سے ایسے شخص کو بھی جو کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس سے لوگ گھن محسوس کرتے اور اس سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے کوڑھ میں مبتلا عورت کوطواف کرتے ہوئے دیکھ کرفرمایا:
يَا أَمَةَ اللهِ. لاَ تُؤْذِي النَّاسَ. لَوْ جَلَسْتِ فِي بَيْتِكِ. فَجَلَسَتْ. فَمَرَّ بِهَا رَجُلٌ بَعْدَ ذلِكَ. فَقَالَ لَهَا: إِنَّ الَّذِي كَانَ قَدْ نَهَاكِ، قَدْ مَاتَ، فَاخْرُجِي. فَقَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُطِيعَهُ حَيّاً، وَأَعْصِيَهُ مَيِّتاً. موطأ مالك ت الأعظمي (3/ 625)
اللہ کی بندی ! لوگوں کو تکلیف مت پہونچاؤ ۔کاشکہ تم اپنے گھر میں رہتی ۔ اس خاتون نے ان کے حکم پر عمل کیا ۔کچھ عرصہ کے بعد ایک شخص اس کے پاس آیا اور کہا جس شخص نے تمہیں طواف سے روکا تھا وہ دنیا سے جاچکا ہے اس لئے اب تم جاکر طواف کرو ۔اس خاتون نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ میں ان کی زندگی میں ان کی اطاعت اور مرنے کے بعد ان کی نافرمانی کروں۔
اورپیازکھاکر آنے کی ممانعت سے متعلق احادیث سے استدلال کرتے ہوئے فقہاء نے لکھا ہے کہ:
اور بعض لوگوں نے اس کے حکم میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا ہے جن کے منہ یا زخم سے بدبو آتی ہو اور اسی طرح سے گوشت اور مچھلی بیچنے والے اور کوڑھ سفید داغ کے مریض کا بدرجہ اولی یہی حکم ہے۔
28-ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے تلاوت پر سجدۂ تلاوت:
آیت سجدہ کے سننے والے پر سجدۂ تلاوت اسی وقت ہے جب وہ اسے کسی باشعور انسان سے سنے، اس لیے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر کسی پرندے کو آیت سجدہ سکھادی جائے یا صدائے بازگشت کے ذریعے سجدہ کی آیت سن لے توسجدہ واجب نہیں ہے۔ ٹیپ ریکارڈ ایک بے جان مشین ہے جو شعور واحساس سے عاری ہے، اس لیے اس کے ذریعے آیت سجدہ کی تلاوت سننے سے سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوگا۔
29-ریڈیواورٹی وی کی تلاوت:
ریڈیو یاٹی وی کے ذریعے براہ راست کسی قاری کی تلاوت نشر کی جارہی ہو تواس کے ذریعے آیت سجدہ کے سننے والے پر سجدۂ تلاوت واجب ہے، کیونکہ وہ ایک باشعور شخص کی تلاوت ہے اور اگر براہ راست نشر نہیں کیاجا رہا ہے بلکہ محفوظ کردہ تلاوت کی کیسٹ چلائی جارہی ہو تو سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہے اور اگر یہ معلوم نہ ہوسکے کہ براہ راست یا ریکارڈ کردہ تلاوت نشر کی جارہی ہے تواحتیاطاً سجدۂ تلاوت کرلینا چاہیے۔
30–الکٹرانک محراب:
آج کل ایک ایسا محراب دستیاب ہے جس میں الکڑانک اسکرین لگی ہوتی ہے، جسے آن (On) کرنے پر بڑے حروف میں قرآن کا ایک صفحہ کھل جاتا ہے جسے دومیٹر کی دوری سے بھی نمازی آسانی سے پڑھ سکتا ہے اورصفحہ پلٹنے کے لیے بائیں ہاتھ میں گھڑی نما ایک مشین پہن لی جاتی ہے، جس کے بٹن کو دائیں ہاتھ سے دبانے پر پہلا صفحہ ہٹ جاتا ہے اور دوسرا ظاہرہوجاتا ہے، ا س میں پارہ یا سورہ کو منتخب کرنے کی بھی سہولت ہوتی ہے، کیا اس طرح کے الکٹرانک محراب کو گھروں یا مسجدوں میں استعمال کرنا اور نماز میں اس میں سے دیکھ کر قرآن پڑھنا درست ہے یا نہیں؟
جواب یہ ہے کہ اس طرح کے محراب کولگانا اوراس میں سے نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنادرست نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ:
’’صلوا کمارأیتمونی اصلی‘‘(صحیح بخاری:631)
ویسے ہی نماز پڑھو جیسے تم لوگوں نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔
اوراللہ کے رسولﷺ کی حیات مبارکہ میں کوئی بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ آپؐ نے کبھی نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھا ہو، اور نہ ہی ایسا کرناکسی صحابی سے ثابت ہے، حالانکہ ابتدائی دور میں اس کی ضرورت بھی تھی کیونکہ نئے مسلمان ہونے والوں کو قرآن یاد نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے انہیں قرآن کی جگہ ۔الحمد للہ ، اللہ اکبر لاالہ الااللہ کہنے کا حکم دیا گیا( فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ، وَإِلَّا فَاحْمَدِ اللَّهَ وَكَبِّرْهُ وَهَلِّلْهُ، ترمذی :302)لیکن قرآن سے دیکھ کر پڑھنے کی گنجائش فراہم نہیں کی گئی۔
اورحضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ:
نھانا امیرالمومنین عمر ان یوم الناس فی المصحف(کتاب المصاحف لابی داؤد :189)
امیرالمومنین حضرت عمر نے ہمیں قرآن میں سے دیکھ کر امامت کرنے سے منع کیا ہے ۔
اور حضرت عمار بن یاسرؓ کے متعلق منقول ہے کہ:
کان یکرہ ان یوم الرجل باللیل فی شھررمضان فی المصحف ھو من فعل اھل الکتاب(تاریخ بغداد 120/9)
وہ رمضان میں قرآن دیکھ کر تراویح پڑھانے کو ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ یہود ونصاریٰ کا طریقہ ہے ۔
مشہور تابعی حضرت مجاہد اورابراہیم نخعی سے بھی منقول ہے کہ نماز میں قرآن سے دیکھ کر پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ یہ اہل کتاب کے ساتھ مشابہت ہے۔ (کتاب المصاحف:190)
نیز نماز میں مطلوب یہ ہے کہ قیام کی حالت میں سجدہ گاہ پر نگاہ ہو، اور قرآن سے دیکھ کر پڑھنے میں نظر اس پر ٹکی ہوگی، چنانچہ اللہ کے رسولﷺ کے متعلق منقول ہے کہ:
’’اذا صلی طاطأ راسہ ورمی ببصرہ الی الارض‘‘ (اصل صفۃ صلاۃ النبی 230/1)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنا سر جھکالیتے اور اپنی نگاہ زمین کی طرف کرلیتے ۔
علاوہ ازیں اس کی اجازت دینے میں حفظ قرآن کے ساتھ بے اعتنائی پائی جائے گی اور حفظ کے رجحان میں کمی آئے گی ۔
31-رکعات کی تعداد بتانے والا مصلیٰ:
بعض ایسے مصلے بنائے گئے ہیں جس میں سجدے کی جگہ پرایک مشین فٹ ہوتی ہے اور اس کے کنارے ایک چھوٹی سی اسکرین لگی ہوتی ہے جس کے ذریعہ سجدوں اور رکعات کی تعداد معلوم ہوتی ہے، کیااس مقصد کے لیے اس طرح کے جائے نماز کا استعمال درست ہے؟
عبادتوں کے سلسلے میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ اس میں اصل شریعت کی اتباع، آسانی اور سہولت کاحصول میں تکلف سے احتراز ہے اور نماز کامقصد اللہ کا ذکر اور اس سے تعلق کی مضبوطی ہے اور اس کاتقاضا ہے کہ انسان مکمل طور پر نماز میں حاضر رہے اور ادھر ادھر کے خیالات میں الجھانہ رہے، حضرت عمار بن یاسرؓ کہا کرتے تھے:
’’لا يکتب للرجل من صلاته ما سها عنه‘‘(کتاب الزھد لابن مبارک: 1300)
کسی کی نماز کا وہ حصہ نہیں لکھا جائے گا جسے اس نے غفلت کی حالت میں گزارا ہے۔
اور اگرکبھی ذہن بھٹک جائے اور اس کی وجہ سے سجدے یارکعات وغیرہ کی تعداد میں شک ہوجائے تو احادیث میں اس کی تلافی کی صورت مذکور ہے کہ غور و فکر کرنے کے بعد ظن غالب پرعمل کرے اور اگر کسی پہلو پر غالب گمان نہ ہو تو پھر یقین پر عمل کر ے، جیسے کہ یہ شک ہوجائے کہ اس نے دورکعت کی پڑھی ہے یا تین رکعت اور غور و فکر کے ذریعے کسی ایک کا گمان غالب ہوجائے تو اس پر عمل کرے، ورنہ اسے دو رکعت مان کر بقیہ مکمل کرے، چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى ثَلَاثًا أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، فَإِنْ كَانَ صَلَّى خَمْسًا شَفَعْنَ لَهُ صَلَاتَهُ، وَإِنْ كَانَ صَلَّى إِتْمَامًا لِأَرْبَعٍ كَانَتَا تَرْغِيمًا لِلشَّيْطَانِ» (صحیح مسلم: ۵۷۱)
اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے اور پتہ نہ چلے کہ بس نے تین رکعت پڑھی ہے یا چار ۔تو وہ شک کو ایک طرف کرکے یقین پر عمل کرے اور پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرلے۔اگر بس اس نے پانچ رکعت پڑھ لی ہے تو یہ دوسجدے اس ک جفت بنا دیں گے اور اگر چار رکعت ہی پڑھی ہے تو یہ دوسجدے شیطان کی ناک کو مٹی میں ملا دیں گے ۔
اس طرح کے مصلے پر نماز پڑھنے سے نمازکامقصد فوت ہوجائے گا اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے یکسوئی کی کیفیت برقرار نہیں رہے گی نیز یہ نماز کے باہر سے تلقین اور تعلیم ہے اور ایسا کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، اس لیے عام حالات میں اس کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔
البتہ اگر کوئی شک کا اس درجہ مریض ہوجائے کہ اسے تعدادبالکل یاد نہ رہے تو پھراس کے لیے اس کے استعمال کی اجازت دی جاسکتی ہے
32-مسجد میں ہیٹر رکھنا:
مجوسی قوم آگ کی پوجا کرتی ہے اس لیے ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے آگ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا گیا ہے جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج نکلتے اور ڈوبتے ہوئے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ مشرک اس وقت اس کی پوجا کرتے ہیں، نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’من تشبه بقوم فھو منھم‘‘(سنن أبي داود: 4031)
جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ انھیں میں سے ہے۔
اس لیے سردی سے بچنے کے لیے نمازی کے سامنے اس طرح کا ہیٹر رکھنا جو گرم ہونے کے بعد آگ کی طرح معلوم ہومکروہ ہے۔
33-ویڈیو کالنگ کے ذریعے مریض کی عیادت:
مریض کی عیادت ایک عبادت ہے اور ایک مسلمان کا یہ حق ہے کہ جب وہ بیمار ہو تو دوسرا مسلمان اس کی عیادت کو جائے (دیکھئے صحیح بخاری ومسلم وغیرہ )
اور حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” فُكُّوا الْعَانِيَ ، وَأَجِيبُوا الدَّاعِيَ، وَعُودُوا الْمَرِيضَ”. (صحيح البخاري: 5174)
قیدی کو چھڑاؤ دعوت قبول کرو اور مریض کی عیادت کرو۔
اور حضرت ثوبان سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ عَادَ مَرِيضًا لَمْ يَزَلْ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَرْجِعَ (صحيح مسلم:2568 )
جو کوئی کسی مریض کی عیادت کے لئے جائے تو وہ جنت کے پھلوں میں رہتا ہے یہاں تک کہ واپس آجائے.
اور حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُودُ مُسْلِمًا غُدْوَةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ عَادَهُ عَشِيَّةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ ". (سنن الترمذي: 969)
جو کوئی کسی مسلمان کی عیادت کے لئے صبح میں جاتا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور جو کوئی شام میں عیادت کے لئے جاتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور جنت میں اس کے لئے ایک باغ ہوگا ۔
ویڈیو کالنگ کے ذریعے مریض سے گفتگو کرنے اوراسے دیکھنے کی وجہ سے بھی عیادت کا اجرو ثواب حاصل ہوسکتا ہے، کیونکہ عیادت کا مقصد ہے مریض اور اس کے گھر والوں کی دلجوئی اور تسلی اوراس کے دکھ درد میں شرکت ، اظہارہمدردی اوراسے دیکھنا اور اس کے لیے دعا کرنا، یہ تمام چیزیں ویڈیو کالنگ کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں، اس لیے اس پر عیادت کے اجرو ثواب کی امید کی جاسکتی ہے، یہ اور بات ہے کہ ہسپتال یا اس کے گھرجاکر براہِ راست عیادت کرنے کا ثواب اس سے زیادہ ہے۔ اور حدیث میں مذکور خاص ثواب کا مستحق وہی ہے
34-مریض کو پھول پیش کرنا:
مریض کی عیادت کے وقت پھول لے جانے کا رواج بڑھتا جارہا ہے، یہ مغرب سے آئی ہوئی رسم ہے جس سے مریض کا کوئی فائدہ متعلق نہیں اوربلاوجہ عیادت کرنے والے کی جیب پر بوجھ پڑتا ہے اور جولوگ اس حیثیت میں نہیں ہوتے وہ عیادت کے لیے جانے سے کتراتے ہیں، اس لیے اس رسم سے بچنا ضروری ہے کہ اس میں غیروں کے ساتھ مشابہت ہے نیز عیادت کے مقصد کے خلاف ہے۔
35-وینٹی لیٹر لگانا اور ہٹانا:
دماغ کے دوحصے ہیں، ایک بالائی حصہ اور دوسرا نچلا حصہ، بالائی حصہ جسم کے نظام کوکنٹرول کرتا ہے اور اگر اس تک خون نہ پہنچنے کی وجہ سے اس میں زندگی باقی نہ رہے تو پھر دیکھنا، بولنا، سوچنا اورسمجھنا ممکن نہیں، البتہ دل کی حرکت اور سانس کی آمدورفت برقرار رہتی ہے اور اس وقت انسان کوما کی حالت میں چلاجاتا ہے اورایسا ہوسکتا ہے کہ وہ اسی حال میں مہینوں اوربرسوں زندہ رہے۔
اوراگرنچلے حصے کی موت واقع ہوجائے تو پھرتھوڑی دیر میں جسم کے دیگر حصوں سے بھی زندگی کے آثار ختم ہوجاتے ہیں اورمکمل طورپر موت واقع ہوجاتی ہے۔
پہلی صورت میں اگر ماہر ڈاکٹر کی رائے ہو کہ مریض کے بچ جانے کا گمان غالب ہے اور مریض مالی حیثیت سے اس لائق ہو کہ وہ علاج کا خرچ برداشت کرسکتا ہو تو پھر بوقت ضرورت دل کی حرکت کو برقرار رکھنے کے لیے مصنوعی آلۂ تنفس (وینٹی لیٹر) کولگانا ضروری ہوگا، کیوں کہ جان کی حفاظت واجب ہے اور اگر استطاعت نہ ہو تو پھر اسے نہ لگانے یا ہٹالینے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لیے کہ انسان وسعت کے مطابق ہی شرعی احکام کا مکلف ہوتا ہے اور اگر مصنوعی آلہ تنفس کے استعمال سے جان بچ جانے کا محض امکان ہو، ظن غالب نہ ہوتو پھر صاحب استطاعت کے لیے بھی مصنوعی آلہ تنفس کو لگانا ضروری نہیں ہے۔
اوراگر دماغ یا دل نے کام کرنا بند کردیا ہو اور ماہر ڈاکٹروں کی رائے ہو کہ معمول کے مطابق دل کی حرکت بحال ہونے کی کوئی امید نہیں ہے یا یہ کہ دماغ کی کارکردگی دوبارہ بحال نہیں ہوسکتی تو مصنوعی آلہ تنفس کو ہٹالینا درست ہے، گرچہ اس کی وجہ سے مریض کے دل کی حرکت برقرار ہو، البتہ اس کی موت اس وقت سے مانی جائے گی جب اسے ہٹانے کی وجہ سے دل کی حرکت بند ہوجائے۔
36-ٹیسٹ کے لیے مردہ کے جسم کا کوئی ٹکڑا لینا
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکرم ومحترم بنایاہے اور اس کے ساتھ کسی ایسے عمل کی اجازت نہیں دی ہے جس میں اس کی اہانت ہو، ارشادِ ربانی ہے:
{ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ } [الإسراء: 70]
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی ہے ۔
اور وفات کے بعد بھی اس کی کرامت وشرافت باقی رہتی ہے، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِهِ حَيًّا (سنن أبي داود: 3207، سنن ابن ماجه: 1616)
مردہ کی ہڈی کو توڑنا زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے ۔
البتہ جس طرح سے ضرورت کی وجہ سے زندگی میں آپریشن کی اجازت ہے بلکہ بسااوقات ضروری ہے، اسی طرح سے مرنے کے بعد بھی کسی حقیقی ضرورت کی وجہ سے اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر الگ کرلیناجائز ہے، جیسے کہ کسی کی مشتبہ حالت میں وفات ہوجائے اور موت کی حقیقت جاننے کے لیے اس کے جسم کے کسی ٹکڑے کی ضرورت ہو تو پھر اسے کاٹ کر اس سے تحقیق میں مدد لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
37-پلاسٹک میں پیک میت کو غسل دینا:
بعض متعدی امراض کے حامل میت کو وفات کے بعد پلاسٹک کے تھیلے میں پیک کردیاجاتا ہے، کیونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ اس کے جراثیم زندوں میں منتقل ہوجائیں گے اور ایسی صورت میں نہ تو اسے غسل دینا ممکن ہوتا ہے اورنہ تیمم کرانا اور یہ معلوم ہے کہ میت کو غسل دینا فرض اور ا نمازجنازہ کے لیے شرط ہے کہ اس کے بغیر جنازہ کی نماز نہیں ہوگی، لیکن مذکورہ صورت میں اس شرط پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے غسل کی شرط ساقط ہوجائے گی، البتہ جنازہ کی فرضیت باقی رہے گی اورنماز جنازہ کے بعد اسے دفن کیاجائے گا، کیونکہ جس واجب کو ادا کرنا ممکن نہ ہو تو اس کی وجہ سے وہ واجب ساقط نہیں ہوگا جسے ادا کرنا ممکن ہو، اس لئے کہ انسان اپنی وسعت کے بقدر عمل کا مکلف ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے:
’’فاتقوااللہ مااستطعتم‘‘ (سورہ التغابن :16)
لہذا جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’إذا أمرتکم بأمرفأتوا منه ما استطعتم‘‘. (صحیح البخاري: 7288، صحيح مسلم: 1337)
’’جب میں تمہیں کسی چیز کاحکم دوں تواپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو‘‘۔
38-میت کے جسم کو گلانے کے لیے کیمیکل کا استعمال:
بڑے شہروں میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے بعض جگہوں کے بارے قبر میں ایسے کیمیکل کے استعمال کی اطلاع ملتی ہے جس سے میت کا جسم جلد گل کر مٹی میں مل جاتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ طریقہ انسانی کرامت و شرافت کے خلاف ہے، اس لیے ایسا کرنا سخت ناپسندیدہ ہے اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔
اس سے پہلے زکاۃ پھر روزہ
زکاۃ سے متعلق نئےمسائل
1- سونے، چاندی کا نصاب:
تمام علماء کا اتفاق ہے کہ چاندی کانصاب دوسودرہم ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’ليس فيما دون خمس أواق من الورق صدقة‘‘(صحيح البخاري: 1447. صحيح مسلم: 979)
’’پانچ اوقیہ (ایک اوقیہ چالیس درہم) سے کم چاندی میں صدقہ نہیں ہے‘‘۔
اور حضرت ابوبکرؓ نے حضرت انسؓ کولکھا :
’’وفي الرقة إذا بلغت مائتي درهم ربع العشر‘‘. (صحيح البخاري: 1454)
’’اور جب چاندی کی مقدار دوسودرہم تک پہنچ جائے تو اس میں سے چالیسواں ہے‘‘۔
اسی طرح سے سونے کے معاملے میں بھی تقریباً اتفاق ہے کہ اس کا نصاب بیس دینار ہے، کیونکہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے :
’’إن النبيﷺ کان يأخذ من کل عشرين دينارا فصاعداً نصف دينار‘‘. (سنن ابن ماجه: 1791)
’’نبی ﷺ بیس دینار یااس سے زیادہ میں آدھادینار لیاکرتے تھے‘‘۔
2- کرنسی کا نصاب:
کرنسی کے نصاب کے لئے سونے یا چاندی کو معیار بنانے کے مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، عام طورپر متحدہ ہندوستان کے علماء کی رائے یہ ہے کہ اس کے لیے چاندی کو معیار بنایاجائے گا، لہٰذا جس کے پاس360ء 612گرام چاندی کی قیمت کے بقدر کاغذی نوٹ ہو تو وہ صاحب نصاب سمجھاجائے گا اور اس پر زکاۃ واجب ہوگی، کیونکہ چاندی کو معیار بنانے میں فقیروں اور مسکینوں کازیادہ فائدہ ہے کہ اس کے سبب دولت مندوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور زیادہ سے زیادہ زکات حاصل ہوگی اور اما م ابوحنیفہ کے نزدیک زکاۃ کے معاملے میں ترجیح اسی کو دی جاتی ہے جس میں فقیروں کا زیادہ فائدہ ہو، فقہ اکیڈمی رابطہ عالم اسلامی اور سعودیہ کے علماء کی کمیٹی نے اسی کو ترجیح دی ہے اور اس کے برخلاف بعض عرب اور متحدہ ہندوستان کے کچھ علماء کی رائے یہ ہے کہ سونے کو معیار بنایاجائے گا، کیونکہ چاندی کومعیار بنانے کی وجہ سے بہت معمولی مقدار کی کرنسی میں زکاۃ واجب ہوجائے گی، جیسے کہ موجودہ دور میں اگر کسی کے پاس سال بھرتک تقریباً چالیس ہزار روپیہ محفوظ رہا یا وہ فٹ پاتھ پر اتنے روپیہ کا سامان لے کر بیچنے لگے تو اس پرزکاۃ واجب ہوجائے گی اور اسے زکاۃ لینا حرام ہوگا، حالانکہ ا س مقدار کی رقم کی وجہ سے کوئی بھی عرف اور سماج میں مالدار نہیں سمجھاجاتا اور نہ ہی اتنے روپیہ کی تجارت سے اس کے لئے ایک چھوٹے سے پریوار کا خرچ نکالنا آسان ہوگا اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی مایہ ناز کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں:
’’وإنما قدرالنصاب بخمس أواق من الفضة لأنها مقدار يکفی أقل أهل بيت سنة کاملة إذا کانت الأسعار موافقة في أكثر الأقطار. (حجة الله البالغة)
چاندی کا نصاب دو سو درہم اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسی مقدار ہے جو نرخ موافق ہونے کی صورت میں اکثر ممالک میں ایک چھوٹے خاندان کے لئے پورے سال تک کافی ہوتی ہے ۔
علاوہ ازیں سونے کے نصاب کو اونٹ، بکری وغیرہ کے نصاب سے موازنہ کیاجائے تو بہت کم فرق نظر آئے گا، اس کے برخلاف اگر موجودہ دور میں چاندی کے نصاب کے ذریعے موازنہ کیاجائے تو پھرکوئی نسبت نہیں ہوگی۔
3- سنگ مرمر میں زکاۃ:
زمین سے برآمد ہونے والے معدنیات کو فقہاء حنفیہ نے تین زمروں میں تقسیم کیا ہے، ایک وہ جو جامد ہوں اور انہیں عام طور پر پگھلایا اور مختلف سانچوں میں ڈھالا جاتا ہو جیسے: سونا، چاندی، لوہا، پیتل وغیر ہ، دوسرے وہ جو جامد ہوں لیکن انہیں پگھلا یا نہ جاسکتا ہو، جیسے سرمہ، چونا یا مختلف قسم کے پتھر، تیسرے وہ جو جامد نہ ہوں بلکہ سیال ہوں، جیسے پٹرول وغیر ہ۔
پہلی قسم کے دستیاب ہونے پر اس کا پانچواں حصہ حکومت کو دینا ہوتا ہے، گویا اس کی حیثیت زکاۃ کی نہیں بلکہ مال غنیمت کی ہے اور اس کے مصارف بھی وہی ہیں جو مال غنیمت کے ہیں اور اس پر سال گزرنا بھی شرط نہیں۔
اور بقیہ دونوں قسموں پر کچھ نہیں ہے اور ان کا شمار اموالِ زکاۃ میں نہیں ہے الا یہ کہ ان کی تجارت کی جائے۔ لہذا سنگ مرمر میں کوئی زکاۃ نہیں ہے الا یہ کہ تجارت مقصود ہو تو اس میں زکاۃ واجب ہوگی اور اس کا نصاب وہی ہے جو مال تجارت کا ہے ۔
4- ہیرے، جواہرات کی زکوٰۃ:
زکوٰۃ ایک عبادت ہے اور عبادت میں قیاس ورائے کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے، بلکہ شریعت کی طرف سے جس کیفیت کے ساتھ ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح سے ادا کرنا ضروری ہے، زکاۃ کے معاملے میں شریعت نے ان اموال کی تحدید و تعیین کردی ہے جن کی زکوٰۃ نکالی جائے گی، جن میں ہیرے جواہرات شامل نہیں ہیں، اس لیے ان کی مالیت جو بھی ہو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر یہ کہ ان کی تجارت مقصود ہو تو مال تجارت ہونے کی حیثیت سے زکاۃ فرض ہوگی، چنانچہ علامہ حصکفی لکھتے ہیں:
(لا زكاة في اللآلئ والجواهر) وإن ساوت ألفا اتفاقا (إلا أن تكون للتجارة) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 273)
’’بہ اتفاق موتی اور جواہرات میں زکات نہیں ہے گرچہ وہ ہزاروں درہم کے برابر ہوں مگر یہ کہ وہ تجارت کے لئے ہوں‘‘۔
5- سمندر سے برآمد ہونے والا موتی، مرجان اور عنبرکی زکاۃ:
ابوعبید کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں سمندر سے موتی وغیرہ نکالی جاتی تھیں لیکن کسی حدیث میں مذکور نہیں ہے کہ آپؐ نے اس میں سے زکوٰ ۃ وصول کی ہو، نیز خلفاء راشدین سے بھی ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے اس میں زکاۃ لی ہو، (کتاب الأموال: 346)
اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے عنبر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
’’ليس العنبر برکاز وإنما ھوشيئ دسرہ البحر، ليس فيه شيئ‘‘. (کتاب الاموال:346)
’’عنبر کوئی دفینہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسی چیز ہے جسے سمندر نے اگل دیا ہے، اس میں کچھ بھی واجب نہیں‘‘۔
اور حضرت جابربن عبداللہؓ فرماتے ہیں:
’’ليس العنبر بغنيمة، هو لمن أخذہ‘‘. (کتاب الأموال: 346، المغني: 245/4)
’’عنبر مال غنیمت نہیں ہے (کہ اس میں سے پانچواں حصہ وصول کیا جائے) بلکہ وہ اس کا ہے جو اسے لے لے‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ اسی کے قائل ہیں، ان کے نزدیک سمندر سے برآمد ہونے والی موتی مرجان اور عنبر وغیرہ میں زکاۃ نہیں ہے اورامام مالکؒ، شافعیؒ اور ثوریؒ وغیرہ کا یہی مسلک ہے اور امام احمدؒ سے ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے۔ (المغنی 245/4)
6-مچھلی میں زکاۃ:
كيا مچھلی میں بھى زکاۃ واجب ہے؟
مچھلی کا کاروبار ایک نفع بخش تجارت ہے اور اس کے لیے زراعتی زمین کو پوکھرے میں تبدیل کر دیاجاتا ہے، کیونکہ کاشت کاری میں مشقت زیادہ ہے اور منفعت کم ہے، اس کے برخلاف مچھلی پالنے میں خرچ کم اور فائدہ زیادہ ہے، تالاب میں پانی بھرنے کے لیے قدرتی نہروں اور نالیوں سے مدد لی جاتی ہے اور کبھی ٹیوب ویل کے ذریعے، کیا مچھلی کی اس تجارت کو کاشتکاری کے حکم میں رکھ کر اس پر زکاۃ عائد کی جائے گی ؟
زمین کی پیداوار میں زکاۃ کے سلسلے میں قرآن حکیم میں کہا گیا ہے:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ} [البقرة: 267]
اے ایمان والو!جو کچھ تم نے کمایا ہو اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اللہ کے راستے میں)خرچ کیا کرو
اور ظاہر ہے کہ مچھلی زمین سے نکلنے والی چیزوں میں شامل نہیں ہے، اس لیے اس میں زکات واجب نہیں ہوگی، گرچہ کاشت کاری کی زمین کھود کر پوکھرا بنا یا گیا ہو اوربارش اور قدرتی نہروں کے ذریعہ اس میں پانی بھرا گیا ہو، البتہ چونکہ وہ مال تجارت ہے اس لیے اگر اس کی قیمت نصاب کے بقدر ہو تو پھر سال گزرنے پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
7-مکھانہ اور سنگھاڑا:
مکھانا اور سنگھاڑا ميں زكاة
مکھانہ اور سنگھاڑا کی جڑیں زمین میں پیوست ہوتی ہیں اور محض پانی میں اس کی کاشت نہیں ہوسکتی ہے، اس لیے وہ زمین کی پیداوار میں شامل ہے اور اس میں زکاۃ واجب ہے۔
8-مرغی اور انڈے میں زکاۃ:
مرغی اورانڈے میں زکوٰۃ نہیں ہے خواہ اس کی تعداداورمقدار کچھ بھی ہو، کیونکہ شریعت میں اموالِ زکوٰۃ کی تحدید کر دی گئی ہے جس میں انڈا اورمرغی شامل نہیں، البتہ اگر مقصود تجارت ہے تو پھر ان سے ہونے والی آمدنی پر زکوٰۃ ہے بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے۔ (دیکھئے :الہدایہ108/1)
9- ریشم میں زکوٰۃ:
ریشم کے کیڑوں کی غذا کے لیے شہتوت کے درخت لگائے جاتے ہیں اور ان درختوں سے اس کے سوا کوئی خاص فائدہ وابستہ نہیں ہوتا، اس لیے اس میں عشر نہیں ہے لیکن کیا ان کیڑوں سے حاصل ہونے والے ریشم میں عشر ہے کیونکہ وہ زمین کی پیداوار سے غذا حاصل کرتے ہیں، علامہ مرغینانی کہتے ہیں کہ اس میں عشر نہیں ہے، کیونکہ شہد کی مکھی پھولوں اور پھلوں سے رس حاصل کرتی ہے اور ان دونوں میں عشر ہے، تو یہی حکم اس کا بھی ہوگا جو ان دونوں سے پیدا ہو، بخلاف ریشم کے کیڑے کے کہ وہ پتے کھاتا ہے اور پتے میں عشر نہیں ہے
مگر ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد اس پر پے کہ اس دور میں شہتوت کے درخت اس مقصد سے نہیں لگائے جاتے تھے لیکن موجودہ دور میں ان درختوں کی کاشت کا مقصدہے ان کے پتوں کے ذریعے کیڑوں کو غذا فراہم کرنا، تو جس طرح سے بالقصد اگر گھاس وغیرہ اگائے جائیں تو اس میں عشر ہے، اسی طرح سے ان درختوں سے مقصد پتا حاصل کرنا ہے اس لئے پتا عشری ہے اور کیڑا اس سے غذا حاصل کرتا ہے، لہٰذا اس کی پیداوار یعنی ریشم میں بھی عشر ہے جیسے کہ شہد میں ہے، چنانچہ صاحب کفایہ لکھتے ہیں:
امام ابوحنیفہ کے نذدیک ضابطہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے باغ میں لگایا جائے اور اس کا مقصد زمین سے آمدنی حاصل کرنا ہو تو اس میں عشر ہے ۔
علامہ شامی لکھتے ہیں:
مصنف کا مقصد محض بانس نہیں بلکہ اس سے مراد یہ تمام چیزیں ہیں جن کے ذریعے عام طور پر زمین سے آمدنی حاصل کرنا مقصود نہ ہو اور یہ کہ مسئلے کا مدار مقصد پر ہے، اس لیے اگر بانس اور گھاس وغیرہ سے مقصود آمدنی ہو تو عشر واجب ہوجائے گا۔
اور شہد کے بارے میں عمر و بن شعیب کے حوالے سے منقول ہے کہ:
’’عن النبيﷺ أنه أخذ من العسل العشر‘‘. (سنن ابن ماجه: 1824)
’’نبی ﷺ نے شہد میں سے عشر لیا‘‘۔
اور حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک صاحب کو لکھا :
’’أن أدّ إليک ما کان يودّی إلی رسول الله ﷺ من عشور نحله‘‘. (إرواء الغليل: 284/3)
’’رسول اللہؐ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں شہد کا جو حصہ عشر کے طور پر دیتا تھا وہ تمہیں بھی دے‘‘۔
10- لکڑی میں زکوٰۃ:
ایسے درخت کی لکڑیوں میں زکوٰۃ نہیں ہے جن سے مقصود پھل حاصل کرنا ہوتا ہے،کیونکہ پھلوں سے عشر لیا جاتا ہے الا یہ کہ ان لکڑیوں کی تجارت کی جائے لیکن لکڑی حاصل کرنے کے لیے جو درخت لگایاجاتا ہے، جیسے کہ بانس، ساگون یا جلاون کی لکڑی تو اس میں پیداوار کی زکوٰۃ واجب ہے، کیونکہ وہ بھی زمین کی پیداوار میں شامل ہے، علامہ مرغینانی لکھتے ہیں:
أما الحطب والقصب والحشيش فلا تستنبت في الجنان عادة بل تنقى عنها حتى لو اتخذها مقصبة أو مشجرة أو منبتا للحشيش يجب فيها العشر’’. الهداية (1/ 108)
جلاون، بانس، نرکل اور گھاس پھوس میں زکوٰۃ نہیں، کیونکہ عام طور پر ان کی کاشت نہیں کی جاتی ہے بلکہ اگر خود سے اگ آتے ہیں تو کاٹ کر باغ کو صاف کر دیاجاتا ہے، البتہ اگر کوئی شخص بانس، جلاون کی لکڑی یا گھاس کی کاشت کرے تو اس میں عشر واجب ہے‘‘۔
11- فکس ڈپوزٹ اور اِنشورنس:
فکس ڈپوزٹ یا انشورنس حرام ہے، کیونکہ اس مقصد سے جو رقم جمع کرائی جاتی ہے وہ قرض کے حکم میں ہے اور قرض سے زائد رقم حاصل کرنا سود ہے، جو شریعت کی نگاہ میں سخت ترین حرام ہے، البتہ اگر جمع کردہ اصل رقم نصاب کے بقدر ہے تو اس پر ہر سال کی زکاۃ فرض ہے، امام محمد لکھتے ہیں:
’’عن علی ابن ابی طالب قال اذا کان ذالک دين علی الناس فقبضه فزکاه لما مضی، قال محمد وبه نأخذ وهو قول أبي حنيفة‘‘. (کتاب الآثار: ص: 108)
’’حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ اگر کسی کا لوگوں پر قرض ہو اوروہ اس پر قبضہ کرلے تو گذشتہ کی زکاۃ ادا کرے گا۔اماممحمد کہتے ہیں ہم اسی کے قائل ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے ۔
اور ان سے منقول ایک روایت میں ہے کہ:
’’عن الحسن: سئل علی عن الرجل یکون لہ الدین علی الرجل قال یزکیہ صاحب المال فان توی علیہ وخشی ان لایقضی قال یمھل فاذا خرج ادی زکاۃ مالہ‘‘ (مصنف ابن أبی شیبۃ 162/3)
عن الحسن، قال: سئل علي عن الرجل يكون له الدين على الرجل قال: «يزكيه صاحب المال فإن توى ما عليه وخشي أن لا يقضي» قال: «يمهل فإذا خرج أدى زكاة ماله» (مصنف ابن أبي شيبة: 10246)
’’حضرت حسن بصری سے منقول ہے کہ حضرت علیؓ سے دریافت کیا گیا کہ کسی شخص کا قرض دوسرے پر ہو تو وہ کیا کرے، فرمایا: مال کا مالک اس کی زکاۃ ادا کرے، البتہ اگر اندیشہ ہو کہ مقروض ادا نہیں کرے گا تو رکا رہے اور جب وصول ہوجائے تو اد ا کر ے‘‘۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے منقول ہے کہ:
’’زکوا ما في أيديکم وما کان من دين علی ثقة فهو بمنزلة ما في أيديکم‘‘ (مصنف ابن أبي شيبة: 162/3.السنن الکبری للبيهقي: 150/4)
’’تمہارے قبضے میں جو مال ہے اس کی زکوٰۃ ادا کرو اور جو قرض قابل اعتماد جگہ پر ہو وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ تمہارے قبضہ میں ہے‘‘۔
فکس ڈپوزٹ یا انشورنس کے لیے جمع کردہ رقم کی وصولی یقینی ہے اس لیے وہ بھی قبضہ میں موجود مال کی طرح ہے اور وصولی سے پہلے ہی ہر سال اس کی زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ لائف انشورنس میں مفروضہ عمر سے پہلے وفات پانے کی صورت میں جمع کردہ رقم کے ساتھ مزید ایک خطیر رقم ملتی ہے جو قمار (جوا) سے حاصل کردہ رقم کی طرح ہے اور اس مدت کے بعد انتقال کی حالت میں کچھ سود کے ساتھ اصل رقم واپس کی جاتی ہے ۔
اور گاڑی اور بیماری وغیرہ کے انشورنس میں حادثہ پیش آنے یا بیمار ہونے کی حالت میں انشورنس کمپنی نقصان کی تلافی یا علاج کا خرچ برداشت کرتی ہے اور جمع کردہ رقم واپس نہیں کرتی ہے اس لئے ان صورتوں میں پالیسی ہولڈر گویا کہ کمپنی کو اپنی رقم کا مالک بنا دیتا ہے اس لئے اس رقم میں زکاۃ نہیں ہے۔
12- بانڈز اور شیئرز:
حکومت یا کمپنیوں کی طرف سے بسا اوقات لوگوں سے قرض دینے کی خواہش کی جاتی ہے اورایک محدود مدت میں فائدے کے ساتھ واپسی کی ضمانت دی جاتی ہے اور ثبوت کے لیے سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے، اسی کو بانڈ کہتے ہیں غرضیکہ قرض کی سند اور وثیقہ کو بانڈز کہا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ بھی ایک سودی معاملہ ہے اور حرام ہے اور اگر اصل رقم نصاب کے بقدر ہے تو وصولی کے بعد تمام سالوں کی زکاۃ فرض ہوگی۔
شیئر کے معاملے میں بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس کے صرف اس رقم پر زکوٰۃ ہے جو کاروبار میں لگی ہوئی ہے اور رقم کا جو حصہ مشنری اور عمارت وغیرہ پر خرچ ہوا ہے اس میں زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ یہ چیزیں ضرورت اصلیہ کی فہرست میں داخل ہیں نیز اگر شیئر کمپنی نے جمع کردہ رقم سے زمین و مکان یا مشین حاصل کرکے اسے کرایہ پر لگاکر فائدہ حاصل کررہی ہے تو اب زکاۃ اسی وقت فرض ہے جب کہ اس سے حاصل ہونے والی ہر ایک کی آمدنی نصاب کے بقدر ہو، ورنہ زکوٰۃ نہیں۔
اس کے برخلاف بعض لوگوں کا رجحان یہ ہے کہ کسی تفصیل کے بغیر شیئرز پر زکوٰۃ ہے، کیونکہ عرف و رواج میں شیئرز خود ایک سامان تجارت کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسی حیثیت سے ان کی خرید و فروخت ہوتی ہے، اس لیے جن لوگوں نے اصل حصے کو باقی رکھ کر اس سے ہونے والی آمدنی سے استفادہ کے ارادے سے شیئرز خریدے ہوں اور کمپنی کی طرف سے لگائی گئی قیمت کے اعتبار سے وہ نصاب تک پہنچتے ہوں تو اس کی زکوٰۃ واجب ہے اور جن لوگوں نے قیمت بڑھنے پر فروخت کرنے کے ارادے سے خریدے ہوں اور مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے اس کی قیمت نصاب تک پہنچ جائے تو اس کی زکاۃ فرض ہے اور یہی رائے زیادہ صحیح ہے اور یہی احتیاط کا تقاضا ہے۔
13-کرنٹ اور سیوِنگ اکاؤنٹ:
کرنٹ یا سیونگ اکاؤنٹ میں جمع کردہ رقم بھی قرض ہے، امانت نہیں، کیونکہ بینک اس کا مالک ہوجاتا ہے، اپنی مرضی کے مطابق اس میں تصرف کرتا ہے، ضائع ہونے پر اس کا تاوان دیتا ہے اور جمع کرنے والوں کے مطالبے پر اسے واپس کردیتا ہے، البتہ وہ ایک ایسے قرضے کی طرح ہے جس کی واپسی یقینی ہے اور اکاؤنٹ ہولڈر اس میں ایسے ہی تصرف کرتا ہے جیسے کہ اپنے گھر کی الماری میں رکھی ہوئی رقم پر، اس لیے وہ گویا کہ اس کے قبضے میں ہے اور اس طرح کے قرضے میں ہر سال کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی، گرچہ وہ رقم بینک میں پڑی رہے اور اس پر قبضہ نہ کرے۔
14- پراویڈنٹ فنڈ:
مالی حقوق کی ادائیگی کسی کے ذمہ واجب ہو تو اسے دَین کہاجاتا ہے، اور اس کی تین قسمیں ہیں: دین قوی، دین متوسط، دین ضعیف۔
دین قوی یہ ہے کہ کسی کو نقد رقم یا سو نا چاندی بطور قرض دے رکھا ہو یا سامانِ تجارت کو فروخت کیا ہو اور اس کا عوض باقی ہو اوردینے والے کے پاس قرض کا ثبوت یا لینے والے کو اعتراف ہے، اس طرح کا دین اگر کئی سالوں کے بعد وصول ہو تو بھی گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ فرض ہوگی اوراگر مکمل دین ایک ساتھ نہ ملے تو جتنا ملتا جائے اس کی زکوٰہ ادا کر تا رہے بشرطیکہ وصول شدہ قرض نصاب زکوٰۃ کے پانچویں حصے کے بقدر ہو، مثلاً اگر چاندی ہو تو چالیس درہم وصول ہونے پر ایک درہم بطور زکوٰۃ نکالنا ہوگا اور اگر اس سے کم وصو ل ہو تو فی الحال اس کی زکوٰۃ نہیں ہے، البتہ جب بھی حاصل ہوجائے تو گذشتہ کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔
دین متوسط یہ ہے کہ سامانِ تجارت کے علاوہ کسی اور چیز کو فروخت کیا ہو اوراس کا عوض باقی ہو جیسے کہ کھیتی کی زمین یا گھریلو سامان کو فروخت کیا ہواوراس کی قیمت باقی ہو، یہ دین بھی جب وصول ہو تو گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب ہوگی، البتہ اگر تھوڑا تھوڑا وصول ہو تو اس میں فی الحال اسی وقت زکوٰۃ ہے جب نصاب کے بقدر وصول ہوجائے، اس کے برخلاف دین قوی میں نصاب کے پانچویں حصے کے بقد ر بھی حاصل ہوجائے تو فی الحال اس کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی، یہی دونوں کے درمیان فرق ہے۔
دین ضعیف وہ ہے جو کسی مال کا عوض نہ ہو بلکہ وہ کسی حق اور منفعت کا بدل ہو، جیسے کہ شوہر کے ذمے مہر یا بیوی کے ذمے خلع کی رقم باقی ہو، ایسے قرض کا حکم یہ ہے کہ اس پر زکوٰۃ اس وقت واجب ہوگی جب وہ قبضہ میں آجائے اوروصول ہونے کے بعد اس پر ایک سال گزر جائے، اس پر گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
پراویڈنٹ فنڈ کے لیے ملازم کی تنخواہ سے کاٹ کر جو رقم جمع کی جاتی ہے وہ ’’دین ضعیف‘‘ کے حکم میں ہے، اس لیے اس پر اسی وقت زکوٰۃ واجب ہوگی جب قبضہ میں آجائے اور اس کے بعد اس پر سال گزر جائے، گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ اس میں واجب نہیں ہوگی۔ اور جمع کردہ سے زائد رقم اس کے لئے حلال ہے ۔
یہ حکم اس وقت ہے جب کہ ملازم قانونی طور پر تنخواہ سے پی ایف کے بقدر رقم کم لینے کا پابند ہو اور اگر قانون کے اعتبار سے کوئی مجبوری نہیں ہے بلکہ ملازم برضا و رغبت اپنی تنخواہ سے پی ایف کے بقدر رقم منہا کرادیتا ہے تو وہ قرض ہے اور دین قوی کے حکم میں ہے اور وصول ہونے پر گذشتہ سالوں کی زکاۃ بھی واجب ہوگی ۔اورجمع کردہ سے زائد رقم سود ہے ۔
15-فیکٹری اور مشینوں پر زکوٰۃ:
آج کے دور میں آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ فیکٹری اور مشینیں ہیں، جنہیں خریدنے اور لگانے میں ایک بہت بڑی رقم مشغول ہوجاتی ہے، تو کیا ان کی مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے؟
تمام اماموں کا اس پر اتفاق ہے کہ آلات اور مشینوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے،خواہ ان کی قیمت کچھ بھی ہو کیونکہ ان کا شمار ضروریات میں ہے، البتہ ان سے ہونے والی آمدنی نصاب کے بقدر ہو اوراس پر سال گزر جائے تو زکوٰۃ فرض ہے۔ان کے دلائل یہ ہیں:
1-قرآن حکیم میں ہے :
أَمَّا السَّفينَةُ فَكانَت لِمَسـٰكينَ يَعمَلونَ فِى البَحرِ( سورة الكهف:79)
جہاں تک کشتی کا تعلق ہے وہ کچھ غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں مزدوری کرتے تھے،
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آیت میں کشتی کا مالک ہونے کے باوجود انھیں مسکین قرار دیا اور مسکین مستحق زکاۃ ہوتا ہے حالانکہ کشتی ایک قیمتی چیز ہے کیونکہ کشتی سامان تجارت نہیں بلکہ آلات حرفت میں سے ہے لہذا ذریعے معاش اور آلات تجارت گرچہ بہت قیمتی اور مہنگا ہو اس پر کوئی زکاۃ نہیں ہے۔
2-حضرت علی ؓ سے روایت ہے ہ کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
”لیس علی العوامل شيء” (سنن أبي داود: 1572)
کام میں استعمال ہونے والے اونٹوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ 3-حضرت عمرو بن شعیب کی سند سے منقول ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
لیس في الإبل العوامل صدقة” (السنن الکبری للبيهقي:116/4)
کام کاج میں استعمال ہونے والے اونٹوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ 4-امام بیہقی فرماتے ہیں کہ ابن عباسؓ سے مروی ایک روایت میں اونٹ کے ساتھ بیل اور گائیوں کا بھی ذکر ہے ۔السنن الکبری للبيهقي: 116/4
5-اور حضرت علی ؓ ، حضرت جابرؓ اور بعض دیگر صحابہ اور تابعین و تبع تابعین سے مروی ہے کہ ”ہل چلانے والے جانور (بیل ، گائے وغیرہ) پر زکوٰۃ نہیں۔” (السنن الکبریٰ للبيهقي 116/4)
انروایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پیداوار کا ذریعہ بننے والے جانوروں پر زکاۃ نہیں ہے لہذا جانوروں کے علاوہ بھی جو چیزیں اور مشینیں پیداوار کا ذریعہ ہوں ان پر زکاۃ نہیں ہے ۔
16- فیکٹری کے ذریعے تیارمال پر زکاۃ:
مشین کے ذریعے تیار شدہ مال پر زکوٰۃ ہے بشرطیکہ اس پر سال گزر جائے، گرچہ وہ مال فیکٹری ہی میں موجود ہو اور اسے فروخت نہ کیاگیا ہو، کیونکہ اس کا شمار مال تجارت میں ہے اور اس کا شمار خام مال میں نہیں ہوگا اس لئے تیار شدہ سامان کی مالیت کے اعتبار سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔
17-خام مال کی زکوٰۃ:
کسی فیکٹری میں دو طرح کے سامان استعمال ہوتے ہیں، ایک وہ جس کا اثر سامان میں باقی رہتا ہے جیسے کہ گاڑیوں کے لیے لوہے وغیرہ کے پارٹس یا کپڑے کے لیے روئی یا اون وغیرہ،اور مکان بنا کر بیچنے والوں کے لئے لوہا ،اینٹ سمنٹ وغیرہ اور فرنیچر بنا کر بیچنے والوں کے لئے لوہا لکڑی وغیرہ دوسرے وہ جس سے سامان کی تیاری میں مدد تو لی جاتی ہے مگر اس کا کوئی اثر سامان میں نہیں رہتا ہے جیسے کہ اوزار، مشین چلانے کے لیے پٹرول یا صفائی کرنے کے لیے صرف، صابن وغیرہ۔
پہلی قسم کے سامان میں زکوٰۃ ہے، گرچہ وہ سال بھر تک اپنی اصلی شکل میں برقرار رہے اور اس سے کوئی سامان نہ بنایاگیا ہو، کیونکہ وہ مال تجارت ہے، اسے خریدا ہی اس لئے گیا ہے کہ اس سے سامان بناکر فروخت کیاجائے۔ اور دوسری قسم میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے گرچہ وہ نصاب کے بقدر ہو اور سال بھر تک اپنی اصلی شکل میں بر قرار رہے، اس لیے کہ اس سے مقصود تجارت نہیں بلکہ استعمال ہے۔
18-طویل مدتی قرضے:
آج کل حکومتی ادارے یا غیر سرکار ی بینکوں کی طرف سے تجارت، تعمیرمکان اور زراعت کے لیے ایک بڑی رقم قرضے پر دی جاتی ہے اور قسط وار ایک طویل مدت کے بعد اس کی ادائیگی ہوتی ہے، جیسے کہ اگر دس لاکھ روپے قرض لیا ہے تو ہر سال ایک ایک لاکھ کرکے دس سال میں اس کی ادائیگی مطلوب ہوتی ہے۔
اور زکوٰۃ کے معاملے میں ضابطہ یہ یہ ہے کہ اگر کسی کے ذمے ایسا قرض ہے جس کا مطالبہ انسانوں کی طرف سے کیاجائے تو پورے سرمایہ میں سے قرض کے بقدر مال کو غیر موجود سمجھاجائے گا، گویا کہ وہ اس مال کا مالک ہے ہی نہیں بلکہ وہ قرض دینے والوں کا ہے اور اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ بقیہ مال نصاب کے بقدر ہے یا نہیں، نصاب کے بقدر ہے تو بچے ہوئے مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی ورنہ نہیں، اس لیے کہ حدیث میں ہے کہ:
(۱)”فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ”. (صحيح البخاري: 1395، صحيح مسلم: 19)
’’پھرانہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مالوں میں سے صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیاجائے گا اور ان کے فقیروں کو واپس کر دیاجائے گا‘‘۔
اورظاہر ہے کہ جو شخص قرض میں گھرا ہو ا ہو اسے مالدار نہیں بلکہ محتاج اورضرورت مند سمجھا جائے گا۔
اور حضرت عثمانؓ رمضان کے موقع پر کہاکرتے تھے:
’’هذا شهر زکاتکم فمن کان عليه دين فليؤدہ حتی تخرجوا زکاۃ أموالکم‘‘.
’’یہ تمہاری زکاۃ کا مہینہ ہے، اس لیے جس کے ذمے کسی کا قرض ہو تو قرض ادا کردے تاکہ بقیہ مال کی زکاۃ ادا کرسکو۔ (الموطأ: 253/1، مصنف ابن أبي شيبة: 194/3، مصنف عبدالرزاق: 92/4)
انہوں نے یہ بات صحابہ کرام کے مجمع میں کہی اور کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر صحابہ کرام کا اتفاق ہے۔ (المغني: 264/4)
مذکورہ ضابطہ کے تحت طویل مدتی قرض کو بھی الگ کرکے زکاۃ فرض ہونا چاہیے لیکن طویل مدتی قرضوں کو منہا کرنے کی صورت میں شاید ہی کسی سرمایہ دار پر زکوٰۃ واجب ہو بلکہ وہ خود مستحق زکوٰۃ نکل آئے گا، حالانکہ وہ ان قرضوں سے بڑے معاشی فائدے حاصل کرتا ہے اور اس کا شمار مالداروں میں ہوتا ہے اور ایساکرنے کی صورت میں مستحقین ہمیشہ اپنے حق سے محروم رہیں گے، اس لیے اس معاملے میں شریعت کے روح سے ہم آہنگ بات یہ ہے کہ ہرسال قرض کی جو قسط ادا طلب ہے اسے زکاۃسے الگ سمجھاجائے گا اور بقیہ مال میں زکاۃ واجب ہوگی اور باقی قرض کو پورے مال سے الگ نہیں کیاجائے گا۔ چنانچہ فقہاء حنفیہ نے لکھا ہے کہ ادھار مہر قرض میں شمار نہیں ہوگا اس لئے اسے مال زکاۃ سے الگ نہیں کیا جائیگا اور مہر کے بقدر رقم منہا کئے بغیر پورے مال میں زکاۃ واجب ہوگی کیونکہ عام طور پر اس کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔
19-قیمت خرید یا قیمت فروخت:
سامان تجارت میں زکاۃ کے نصاب کا اندازہ اور ادائیگی یا اموال زکاۃ میں اصل مال کی جگہ قیمت ادا کرنے میں ادائیگی کے دن کی قیمت فروخت کا اعتبار ہوگا قیمت خرید کا نہیں ۔خواہ خریداری کی قیمت کے اعتبار سے اس کا ویلو کم ہو یا زیادہ ۔ یعنی سامان تجارت کو اکھٹا فروخت کرنے میں اس دن اس کی جو قیمت فروخت ہوگی اسی اعتبار سے اس کی زکاۃ نکالی جائے گی
20- زکوٰۃ کی ادائیگی میں شمسی سال کا اعتبار:
پیداوار میں زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے سال کاگزرنا شرط نہیں ہے بلکہ کٹائی کے وقت زکوٰۃ ادا کی جائے گی اور اگر ایک سال میں متعدد بار کٹائی ہوتو ہر مرتبہ زکوٰۃ نکالی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ} [الأنعام: 141]
اور جب ان کی کٹائی کا وقت آئے تو اللہ کا حق ادا کرو۔
اور پیداوار کے علاوہ دوسرے اموال میں زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے سال کا گزرنا شرط ہے، اور اس مسئلے میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ اس میں قمری سال کا اعتبار ہوگا، شمسی سال کا نہیں، کیونکہ تمام دینی امور قمری مہینے اور سال سے وابستہ ہیں، چنانچہ قرآن حکیم میں ہے:
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ } [البقرة: 189]
لوگ آپ سے نئے مہینوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔آپ انھیں بتادیں کہ یہ لوگوں ( کے مختلف معاملات) اور حج کے اوقات متعین کرنے کے لئے ہیں ۔
اور ایک دوسری آیت میں ہے:
{هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ} [يونس: 5]
اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا اور چاند کو سراپا نور ،اور اس کے لئے سفر کی منزلیں مقرر کردیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور (مہینوں)کا حساب معلوم کرسکو ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سال کے جاننے کا ذریعہ چاند کے منازل کو قرار دیا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ مہینے کی ابتدا اورانتہا چاند کے طلوع سے متعلق ہو، اس لیے زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ چاند کے مہینے کے اعتبار سے سال گزرنے پر زکوٰۃ ادا کریں۔
21-جنرل اسٹور کا حساب:
: جنرل اسٹور یا اس جیسی دوسری دکانوں میں جہاں چھوٹی بڑی بیشمار چیزیں ہوتی ہیں اور ان کو الگ الگ شمار کرنا اور پھر ان کی قیمت کا اندازہ کرنا پڑا دشوار ہوتا ہے وہاں بھی زکاۃ کی ادائیگی کے لئے دکان میں موجود پورے سامان تجارت کو الگ الگ شمار کرناضروری ہے محض اندازہ لگا کر زکاۃ نکالنے میں اندیشہ ہے کہ کچھ چیزوں کی زکاۃ ادا نہ ہو اور اس کی ادائیگی ذمے میں باقی رہ جائے ،جس کے بارے میں آخرت میں بازپرس ہوگی ۔اس لیے آخرت کی جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے دکان کے ایک ایک سامان کا حساب کیا جائے ۔ اور قیمت فروخت كا لحاظ کرکے زکاۃ نکالی جائے ۔
البتہ انسان اپنی وسعت اور طاقت کے بقدر شرعی احکام کا مکلف ہوتا ہے اس لئے اگر ہر ایك سامان كی گنتی بہت دشوار اور تقریباً ناممكن ہو تو جس قدر ممكن ہو کوشش اور محنت کرکے حساب لگائیں اور جن چھوٹی موٹی چیزوں كو شمار کرنا دشوار ہو وہاں ظن غالب کے ذریعے اندازہ لگالیں اور احتیاطاً کچھ زیادہ محسوب کرلیں تاكہ زكاۃ کی ادائیگی میں كمی نہ رہ جائے۔
22-مسافر کے لئے صدقہ فطر کی ادائیگی:
-صدقہ فطر کے وجوب کے لئے مسافر کے ساتھ نصاب کے بقدر مال ہونا ضروری ہے . کیونکہ اگر اس کے ساتھ میں نصاب کے بقدر مال نہیں ہے تو وہ خود زکاۃ اور صدقۃ فطر کا مستحق ہے ۔چنانچہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیاگیا :
مسافر جو مکان میں صاحب نصاب ہے اس کو حالت سفر میں اگر قربانی و فطرہ دینے کی قدرت ہو تو اس پر قربانی یافطرہ واجب ہوگا یا نہیں ۔ لیکن فی الحال سفر میں مقدار نصاب مال ساتھ نہیں ہے، لیکن بوقت ضرورت منگانے پر قادر ہے ایسے شخص پر کیاحکم ہے ؟
انھوں نے جواب میں لکھا:
ایسے مسافر پر نہ صدقہ فطر واجب ہے اور نہ قربانی، کیوں کہ وجوب صدقہ وحلت اخذ صدقہ مجتمع نہیں ہوتے، اور اس شخص کو زکوٰۃ لینا جائز ہے ۔ پس صدقہ فطر وقربانی واجب نہیں ۔۔۔( امداد الفتاوی 111/2 ط کراچی)
2-اگر وہ جنس اور غلہ سے ادا کرنا چاہتا ہے تو اس میں قیمت کا لحاظ نہیں کیا جائے گا چاہے وہ جہاں بھی ادا کرے۔
3-قیمت ادا کرنا چاہتا ہے تو جہاں موجود ہے وہاں کی قیمت کا اعتبار ہوگا گرچہ مسافر ہو۔(1)
(1)والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.
(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه”
(ردالمحتار:355/2)
23-زکوٰۃ کے مال سے غریبوں کے لیے پانی کا انتظام:
عالم اسلام میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہیں پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہے اور نہ ہی ان کی استطاعت ہے کہ اس کے لیے ٹیوب ویل وغیرہ کا نظم کرسکیں، تو کیا اس بات کی اجازت ہوگی کہ زکوٰۃ کی رقم سے ٹیوب ویل کا نظم کردیاجائے جس سے غریب و نادار مسلمان پانی حاصل کرسکیں؟
تمام فقہا ء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی اسی وقت ہوگی جب کہ فقیر کو زکوٰۃ کا مالک بنادیاجائے (دیکھیے فتح القدیر:267/2 المجموع:157/6. الفروع:619/2) مذکورہ صورت میں کسی کو مالک بنانا نہیں پایا جارہا ہے اس لئے زکوٰۃ کی رقم کا استعمال درست نہیں ہے، اور اس ضرورت کی تکمیل کے لیے دوسرے ذرائع اختیار کرنا چاہیے۔
روزہ سے متعلق نئےمسائل
1- فلکیاتی حساب کے ذریعے چاند کا ثبوت:
رمضان کے مہینے کا آغاز و انتہا ء کے لیے فلکیاتی حساب کا کوئی اعتبار نہیں ہے، کیونکہ حدیث میں کہاگیا ہے کہ مہینے کی ابتدا و انتہا کے لیے افق پر چاند کا وجود کافی نہیں ہے بلکہ آنکھوں کے ذریعے نظر آنا ضروری ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ:
’’صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته فإن غبي عليکم فأکملوا عدۃ شعبان ثلاثين‘‘ (صحيح البخاري: 1909، صحيح مسلم: 1081)
چاند دیکھ کر روزہ شروع اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرو ۔اگر بدلی چھا جائے تو شعبان کی تیس کی تعداد پوری کرو ۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’لا تصوموا حتی تروا الھلال ولا تفطروا حتی تروہ فإن غم عليکم فاقدروا له‘‘. (صحيح البخاري: 1906، صحيح مسلم: 1080)
روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو۔ اور روزہ ختم نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو ۔اور اگر بدلی چھا جائے تو اس کے لئے اندازہ لگاؤ۔
اندازہ لگانے سے مراد تیس کی تعداد کو مکمل کرنا ہے جیسا کہ پہلی حدیث میں ہے اور خود حضرت عبداللہ بن عمر کی دوسری روایات میں اس کی صراحت ہے.( دیکھئے: صحیح بخاری:1807
مذکورہ احادیث میں صراحت ہے کہ چاند کے ثبوت کا بس دو ہی ذریعہ ہے، ایک آنکھ کے ذریعے نظر آجانا، دوسرے تیس کی مقدار کا مکمل ہوجانا، اس کے علاوہ کوئی تیسرا ذریعہ نہیں ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ افق پر چاند کا وجود کافی نہیں ہے بلکہ بدلی کی وجہ سے اگر چاند نظر نہ آئے گرچہ افق پر موجود ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں اوریہ کہ بادل وغیرہ کی وجہ سے چاند نظر آنے کی حالت میں تیس کی تعداد مکمل کی جائے گی، نہ یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے چاند کے بارے میں جاننے کی کو شش کی جائے گی، اس لیے کہ آنحضورؐ نے فرمایا کہ تیس کی تعداد مکمل کر و، یہ نہیں کہاکہ ماہرین فلکیات سے معلوم کرلو، حالانکہ آنحضورﷺ کے زمانے میں بھی اس کے ماہرین موجود تھے اور مدینے کے یہودی انہیں پر اعتماد کرکے اپنے رسوم اور تیوہار وغیرہ منایاکرتے تھے بلکہ آپ نے بصراحت چاند کے معاملے پر حساب وکتاب پر اعتماد نہ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا کہ:
إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لَا نَكْتُبُ وَلَا نَحْسُبُ. الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا ” يَعْنِي مَرَّةً تِسْعَةً وَعِشْرِينَ، وَمَرَّةً ثَلَاثِينَ.(صحيح البخاري:1913)
ہم انپڑھ لوگ ہیں اس لئے حساب وکتاب کے چکر میں نہیں پڑتے ۔مہینہ اس طرح کا ہوتا ہے اور اس طرح کا ۔آپ کی مراد یہ ہے کہ مہینہ کبھی انتیس کا ہوتا ہے اور کبھی تیس کا ۔
اس حدیث میں دین اسلام کے مزاج ومذاق کا بیان ہے کہ اس میں حد درجہ سادگی اور آسانی ہے کہ اس میں عبادات وغیرہ کی ادائیگی کے لئے کسی ایسی چیز کا پابند نہیں بنایا گیا ہے جس کا حصول دشوار ہو اور ان کے اوقات کے لئے کسی ایسی چیز کو معیار نہیں قرار دیا ہے جسے کچھ خاص لوگ ہی جان سکیں اورعام لوگوں کو اس کے بارے میں معلوم کرنا دشوار ہو ۔
مذکورہ حدیث سے یہ سمجھنا غلط ہے ناخواندگی کے عام ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حساب و کتاب کی باریکیوں میں الجھنے کو مناسب قرار نہیں دیا اس لئے اگر یہ مجبوری ختم ہوجائے اور امت میں خواندگی عام ہو جائے تو پھر فلکیاتی حساب اور اس کے مطابق عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
کیونکہ حدیث میں کسی مجبوری کا اظہار نہیں ہے بلکہ دین اسلام کے عمومی ذوق کا بیان ہے کہ اس میں عبادات وغیرہ کے اوقات کا مدار ایسی چیزوں پر رکھا گیا جسے جاننا عوام وخواص عالم و جاہل ،شہری اور دیہاتی اور امیر وغریب سب کے لئے آسان ہے ۔چنانچہ سمت قبلہ کے بارے میں عین کعبہ کے استقبال کو ضروری قرار نہیں دیا گیا بلکہ جہت کعبہ کے استقبال کو کافی سمجھا گیا اور مدینہ کے لوگوں سے کہاگیا :
ما بين المشرق و المغرب قبلة.
مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔
کیونکہ بعینہ کعبہ کا استقبال بہت دشوار تھا ۔بلکہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی بہت مشکل ہے کہ معمولی انحراف سے بھی عین کعبہ سے بہت دور ہوجائے گا ۔
اسی طرح سے نماز کے وقت کے معاملے میں سورج کی گردش کو اور روزہ اور عید کے لئے نئے چاند کے طلوع کو معیار بنایا گیا ہے جسے جاننا یکساں طور پر ہر ایک کے لئے بہت آسان ہے ۔
اور یہ سمجھنا بھی غلط ہے کہ خواندگی کے عام ہونے کی وجہ سے امت کے لئے فلکیاتی حساب کو جاننے میں کوئی دشواری نہیں ہے کیونکہ یہ فن آج بھی چند خاص لوگوں تک محدود اور عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے ۔اور اس کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کو جاننا ان کے لئے بہت دشوار ہے ۔
اگر ان کو معیار قرار دیا جائے تو ہماری عبادتیں چند لوگوں کا دست نگر بن جائیں گی اور یہ دین کی ابدیت ، عمومیت و شمولیت ، عالمگیریت اور یسر و سہولت کے خلاف ہے حالانکہ اسی بنیاد پر شرعی احکام کی بنیاد شمسی حساب پر نہیں رکھا گیا کہ دنیا کے چند افراد اس کے حساب کو جانتے ہیں اور ساری دنیا ان کی تقلید کرتی ہے اس کے برخلاف قمری تاریخ کو شہری اور جنگلی ہر شخص جان سکتا ہے ۔
واضح رہے کہ موجودہ دور کے ماہرین فلکیات کو اس بات کااعتراف ہے کہ فلکیاتی حساب کے ذریعے چاند کے وجود اور اس کے دکھائی دینے کے امکان کو معلوم کیا جاسکتا ہے اور اس بات کا یقینی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ آنکھوں کے ذریعے نظر آجائے گا۔
2-ٹیلیفون، ای میل وغیرہ کے ذریعے چاند كى اطلاع:
تحریر اور ٹیلیفون کے ذریعے گفتگو دونوں میں نقل اتار کر دھوکہ دینے کا اندیشہ رہتا ہے لیکن اس احتمال کے باوجود بہت سے معاملات میں تحریر کا اعتبار کیاگیا ہے ، خود قرآن حکیم میں کہاگیاہے کہ جب تم ادھار کاکوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیاکرو ۔
{إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ} [البقرة: 282]
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر پرایک حد تک اعتماد کیاگیاہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے متعدد مواقع پرخطوط بھیجے ہیں اور دوسروں کی طرف سے آئی ہوئی تحریر کو قبول بھی فرمایا ہے ، اس لیے اگر خطوط کے بارے میں جعل سازی کا اندیشہ نہ ہواور اس بات کا اطمینان اور ظن غالب ہوجائے کہ وہ بھیجنے اور لکھنے والے کی تحریر ہے تو اس کا اعتبار کیاجائے گا ، متعدد فقہی نظیریں اس سلسلے میں موجود ہیں اور یہی حکم ٹیلیفونک گفتگو کا بھی ہے اور اس کے بارے میں بعض فقہی نظیریں ایسی ملتی ہیں جو اس پر مکمل طورپر صادق آتی ہیں جیسے کہ علامہ ابن ہمام نے لکھاہے کہ :
ولو سمع من وراء حجاب كثيف لا يشف من ورائه لا يجوز له أن يشهد، ولو شهد وفسره للقاضي بأن قال سمعته باع ولم أر شخصه حين تكلم لا يقبله لأن النغمة تشبه النغمة إلا إذا أحاط بعلم ذلك لأن المسوغ هو العلم غير أن رؤيته متكلما بالعقد طريق العلم به فإذا فرض تحقق طريق آخر جاز. فتح القدير للكمال ابن الهمام (7/ 384)
اگر کوئی ایسی موٹے پردے کے پیچھے سے کسی کی گفتگو سنے جس سے پردے کے پیچھے موجود شخص نظر نہ آئے تو اس کے لئے اس گفتگو سے متعلق گواہی دینا جائز نہیں ہے اس لئے کہ ایک شخص کی آواز دوسرے کے مشابہ ہوسکتی ہے الا یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے گفتگو کرنے والے کے بارے میں معلوم ہوجائے اس لئے کہ گواہی کے جواز کے لئے علم کی ضرورت ہے اور کسی کے کسی معاملے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے دیکھناعلم کا ایک ذریعہ ہے اور اگر یہ علم دوسرے طریقے سے حاصل ہوجائے تو اس کے مطابق گواہی دینا جائز ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ اگر دوسرے ذرائع سے ظن غالب حاصل ہوجائے کہ آواز اسی شخص کی ہے جس کی طرف نسبت کی جارہی ہے تو اس پر اعتماد کیا جائے گا۔
رمضان کے چاند کی خبرکومنتقل کرنے کے لیے ایک عادل اور دیندارشخص کافی ہے ، اس لیے اگرکوئی دیندار شخص فون کے ذریعہ اطلاع دے کہ میں نے خود چاند دیکھاہے یا مجھ سے فلاں معتبر شخص نے چاند دیکھنا بیان کیاہے یا شرعی ہلال کمیٹی نے رویت ہلال کا فیصلہ کیا ہے یا فلاں قاضی صاحب کی طرف سے رویت کا اعلان کیاجارہا ہے تو اس کا اعتبار کیاجائے گیا ،بشرطیکہ مضبوط قرائن کے ذریعہ متکلم کی تعیین ہوجائے اور اس کی آواز پہچان لی جائے ، چنانچہ مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
‘‘رمضان المبارک کے چاند میں چونکہ شہادت یا استفاضہ کی خبر دونوں شرط نہیں ہیں ، ایک ثقہ مسلمان کی خبر بھی کافی ہے ، ا س لیے خط اور آلات جدیدہ (ٹیلیفون ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن ) کی خبروں پر اس شرط کے ساتھ عمل کرنا درست ہے کہ خبر دینے والے کا خط یا آواز پہچانی جائے اور وہ بچشم خود چاند دیکھنا بیان کرے اور جس کے سامنے یہ خبر بیان کی جارہی ہو وہ اس کو پہچانتا ہو اور اس کی شہادت کو قابل عمل سمجھتا ہو’’۔(آلات جدیدہ/121)
عید کے چاند کی خبر کو منتقل کرنے کے لیے شہادت یا خبر مستفیض کی ضرور ت ہے اور ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعے گواہی نہیں دی جاسکتی ہے ، اس لیے محض دولوگوں کی طرف سے فون کا آنا کافی نہیں ہے بلکہ ایک کثیر تعداد کی طرف سے فون کا آنا لازم ہے جس کے ذریعے سے اس کی حیثیت خبر مستفیض کی ہوجائے ، یا مرکزی ہلال کمیٹی یا کسی قاضی کی طرف سے متعین کرد ہ شخص کا فون آئے جو اپنے یہاں چاند کی شہادت لے کرقاضی یا مرکزی کمیٹی کو اس کو اطلا ع دے ،کیوں کہ یہ شہادت نہیں بلکہ شہادت سے ثابت شدہ امر کی اطلاع ہے ، جیساکہ مفتی شفیع صاحب وغیرہ کی رائے ہے۔
3- ریڈیواور ٹیلی ویژن كے ذريعہ چاند كى اطلاع:
ریڈیواور ٹیلی ویژن کے ذریعے دی گئی اطلاع کی حیثیت خبر اور اعلان کی ہے ، اس لیے اگر یہ مسلم حکومت کے زیرانتظام ہو اور حکومت کی طرف منسوب کرکے رمضان یا عید وغیرہ کا اعلان کیاجائے تو اس ملک میں رہنے والوں کے لیے اس پر اعتماد کرنا اوراس کے موافق عمل کرنا ضروری ہے ، کیونکہ ایسی صورت میں غلبہ ظن بلکہ ایک درجہ میں یقین حاصل ہوجاتا ہے اور گمان غالب پر عمل کرنا ضروری ہے چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں :
والظاهر أنه يلزم أهل القرى الصوم بسماع المدافع أو رؤية القناديل من المصر؛ لأنه علامة ظاهرة تفيد غلبة الظن وغلبة الظن حجة موجبة للعمل كما صرحوا به واحتمال كون ذلك لغير رمضان بعيد إذ لا يفعل مثل ذلك عادة في ليلة الشك إلا لثبوت رمضان. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 386)
‘‘ظاہر یہ ہے کہ شہر سے توپ کی آواز سن کر یا روشنی دیکھ کر دیہات کے لوگوں کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہے ، اس لیے یہ کہ چاند کے نظر آجانے کی ایک واضح علامت ہے جس سے ظن غالب کا فائدہ ملتا ہے اور ظن غالب ایک ایسی دلیل ہے جس کے تقاضے پرعمل کرنا ضروری ہے اور اس بات کا احتمال بہت بعید ہے کہ توپ کی آواز یا قندیلوں کی روشنی ثبوت رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مقصد سے کی گئی ہو کیوں کہ تیس شعبان کی رات (لیلۃ الشک)کوعام طورپر رمضان ہی کے لیے توپ کے گولے داغے جاتے ہیں اور قندیلیں روشن کی جاتی ہیں ’’۔
توپ کے گولوں کے داغنے یا قندیلوں کی روشنی میں معمولی درجے میں دوسرا احتمال ہے لیکن ریڈیویا ٹیلی ویژن کے اعلان میں اس طرح کا کوئی احتمال نہیں ہے ، اس لیے اس سے یقین کا درجہ حاصل ہوجاتاہے ، جس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔
ریڈیویا ٹیلی ویژن اگرپرائیوٹ اداروں کے زیر انتظام ہو تواس پر اعتماد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قاضی ،رویت ہلال کمیٹی یا ان کے نمائندوں کی طرف سے اعلان کیاجائے اور اس طرح کے اعلان پر ان کے حلقے کے لوگوں کو عمل کرنا ضروری ہوگا اور دوسری جگہ کے لوگوں کے لیے اس کی حیثیت خبر کی ہوگی اور یہ گزر چکا ہے کہ رمضان کے چاند کی خبر کو منتقل کرنے کے لیے ایک دیندار شخص کی اطلاع کافی ہے ، اس لیے کسی ایک جگہ سے ریڈیو کا اعلان معتبر ہوگا اور وہاں کے علماء اس پر اعتماد کرکے چاند کا اعلان کرسکتے ہیں۔
اور عید کے چاند کے لیے شہادت یا خبر مستفیض کی ضرورت ہے اور ظاہرہے کہ ریڈیو پر شہادت نہیں دی جاسکتی ہے ، اس لیے اس موقع پر دوسری تدبیر ہی کار گر ہے کہ متعدد جگہ کی خبروں کو مختلف ریڈیواسٹیشن سے نشر کیاجائے کہ ا س کی حیثیت خبر مستفیض کی ہوجائے اوروہاں کے علماء اور مفتیان اسے تسلیم کرلیں ،چنانچہ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں :
‘‘مختلف ریڈیواسٹیشن کی خبریں جب حد تواتر کو پہنچ جائیں تو استفاضہ میں داخل ہیں ’’۔(فتاویٰ دار العلوم ط: کراچی)
ریڈیو یاٹیلی ویژن کی طرف سے نشر کردہ ایسی کسی خبر کا اعتبار نہیں ہوگا جس میں کہا گیا ہو کہ فلاں جگہ چاند دیکھاگیا یا فلاں شخص نے دیکھا یا بہت سے لوگوں نے دیکھا یا متعدد جگہوں سے چاند کی اطلاع آرہی ہے ۔
حکومت یاقاضی کی طرف سے ریڈیو وغیرہ پراعلان ،اعلان سلطانی کے حکم میں ہوگا اور زیر اقتدار علاقوں کے لیے معتبر ہوگا ، خواہ اعلان کرنے والا عادل ہو یا فاسق ، البتہ دوسرے ملکوں یا علاقوں کے لیے اسی وقت معتبر ہوگا جب کہ اعلان کرنے والا دیندار ہو کیونکہ چاند کے ثبوت کے لیے خبردہندہ کا دیندار ہوناضروری ہے
ریڈیو وغیرہ سے رویت ہلال کی خبر نشرکرنے کے لیے اعلان کرنے والے کا مسلمان ہونا ضروری ہے ،کیوں کہ یہ ایک دینی معاملے کی خبر ہے جس میں غیر مسلم کی بات کا اعتبار نہیں کیاجاتاہے ۔
4-دوربین اوررصد گاہ کے ذریعے چاند دیکھنا:
دور بین اور دوسرے آلات کے ذریعہ چاند کا دیکھنا بھی درحقیقت ظاہری آنکھ سے دیکھنا ہے، کیونکہ ان کے ذریعے کسی چیز کو محض بڑا، قریب اور یکسو کردیاجاتا ہے، لہٰذا ان کی حیثیت چاند دیکھنے میں صرف ایک معاون کی طرح ہے اور ایسے ہی ہے جیسے کہ پاور کے چشمے کے ذریعے چاند دیکھنا، اس لیے چاند دیکھنے میں اس طرح کے آلات کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، قدیم زمانے میں لوگ اس مقصد کے لئے بلند جگہوں، پہاڑوں اور مناروں وغیرہ پر چڑھ جایا کرتے تھے اور فقہا نے بلند جگہوں سے نظر آنے والے چاند کااعتبار کیا ہے، بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ اگر مطلع صاف ہو تو رمضان اور عید دونوں میں ایک بڑی تعداد کی خبر مطلوب ہے لیکن اگر اس حالت میں بھی اگر رمضان کے چاند میں ایک شخص اور عید کے چاند میں دوشخص بلند جگہ سے چاند دیکھنے کی گواہی دیں تو اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ (دیکھئے: رد المحتار:357/3)
5-افطار اور سحری کے وقت کے لیے فلکیاتی حساب پر اعتماد:
نماز کے اوقات اور اسی طرح سے سحری اور افطار کے وقت کو جانچنے کے لیے فلکیاتی حساب پر مبنی جنتری یا گھڑی وغیرہ پر اعتماد کرنا درست ہے، اس لیے کہ کتاب و سنت میں سورج کے ڈوبنے کو افطار کے وقت کے شروع ہونے اور صبح صادق کو سحری کے وقت کے ختم ہونے کا سبب قرار دیاگیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْاحَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِص ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ‘‘ (سورہ البقرہ:187)
اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکر تم پر واضح نہ ہوجائے ،اس کے بعد رات کے آنے تک روزے پورے کرو ۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’إذا أقبل الليل وأدبر النهار وغابت الشمس فقد أفطر الصائم‘‘. (صحيح البخاري: 1954، صحيح مسلم: 1100 واللفظ له)
جب رات آجائے اور دن پشت پھیر کر چلا جائے تو روزہ دار کے روزہ کھولنے کا وقت ہوگیا
اور اس سبب کا علم جس طریقے سے بھی ہوجائے اس کا اعتبار کیاجائے گا بلکہ موجودہ زمانے میں روشنی کی کثرت اور آبادی میں اضافے اور بلندترین عمارتوں کی وجہ سے آنکھوں کے ذریعے دیکھ کر صبح صادق اور سورج ڈوبنے کا پتہ چلانا مشکل ہوگیا ہے، اس لیے اس طرح کے آلات اور ذرائع پر اعتماد کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔
، حاصل یہ ہے کہ نماز کے لیے وقت سبب ہے جس کے لئے شریعت نے کچھ علامتیں مقرر کی ہیں ،جیسے کہ سورج کا ڈھل جانا اور غروب ہوجانا وغیرہ ، لہٰذا نماز کا وقت ہوجانے کے بعد نماز فرض ہوجائے گی خواہ اس کے وقت کا علم کسی بھی طریقے سے ہو یعنی علامتوں کے ذریعے یا حساب کے طریقے پر، اس کے برخلاف روزے کی فرضیت کا سبب چاند کادیکھ لیاجانا یا تیس کی تعداد کو مکمل کرنا ہے نہ کہ چاند کا افق پر موجود ہونا ، یہی وجہ ہے کہ اگر چاند افق پر موجود ہو مگر بدلی کی وجہ سے دکھائی نہ دے تو روزہ فرض نہیں ہوگا۔
نیز چاند کے معاملے میں صریح حدیث موجود ہے جس میں واضح طور پر کہاگیا ہے کہ مہینے کی ابتدا و انتہا ء میں صرف دو چیزوں کا اعتبار کیاجائے گا یا تو چاند دیکھ لیے جانے کا ،دوسرے تیس کی تعداد مکمل کرنے کا لہذا صریح حدیث کے ہوتے ہوئے نماز کے اوقات پر قیاس کرکے فلکیاتی حساب پر اعتماد کرنا غلط ہے۔
6-ہوائی جہاز پر سحری اور افطار ی کا وقت:
روزہ کاوقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور غروب آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے اور صبح صادق کے طلوع اور آفتاب کے غروب ہونے میں اس جگہ کا اعتبار ہے جہاں پر روزہ دار موجود ہے خواہ وہ زمین پرہو یا فضاء میں اور اس طرح سے ہوائی جہاز پر سحری یا افطار کی دوصورت ہوگی، ایک یہ کہ ہوائی جہاز ایئرپورٹ پر ہے اور وہیں سورج غروب ہوگیا اور روزہ دار نے افطار کرلیا اور پھر ہوائی جہاز کی پرواز شروع ہوئی اور بلندی پر پہنچنے کی وجہ سے سورج نظر آنے لگا، ایسی حالت میں نہ تو اسے دوبارہ کھانے پینے سے رکنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی روزہ قضا کرنے کی، کیونکہ شریعت نے اسے غروب آفتاب تک روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا اور ا س کی تعمیل ہوچکی ہے اور افطار کے معاملے میں اس جگہ کا اعتبار کیاجائے گا جہاں روزہ دار موجود ہے، اس لیے جب ایئرپورٹ پر سورج ڈوب گیا تو اسے افطار کرنا درست ہوگیا، دوسری صورت یہ ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی ہوائی جہاز اڑان بھرلے، ایسی حالت میں جب تک سورج غروب نہ ہوجائے افطار کرنا درست نہیں ہے، گرچہ وہ ایسے شہر سے گزر رہا ہے جہاں سورج ڈوب چکا ہے اور وہاں کے لوگ افطار کر چکے ہوں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ‘‘ (سورہ البقرہ:187)
اس کےبعد رات کے آنے تک روزے پورے کرو۔
یہ آیت اس مسئلے میں بالکل واضح ہے کہ سورج ڈوبنے سے پہلے افطار کرنا درست نہیں ہے۔
اور اگر بادل کی وجہ سے سورج نظر نہ آئے تو فلکیاتی حساب کی مدد سے معلوم کرنا چاہیے کہ جس بلند ی پر وہ موجود ہے وہاں سورج کب غروب ہوتا ہے؟
7- معمول سے زیادہ طویل دن میں روزہ:
دنیا میں بعض علاقے ایسے بھی ہیں کہ وہاں دن معمول سے زیادہ طویل ہوتا ہے، مثلاً بیس یابائیس گھنٹے کا دن اور دویا چار گھنٹے کی رات ہوتی ہے، تو ایسے علاقے جہاں رات اور دن کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، گرچہ رات یا دن کے اوقات بہت ہی مختصر کیوں نہ ہو، وہاں پورے دن روزہ رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ قرآن کے بیان کے مطابق روزے کی ابتدا صبح صادق سے اور انتہا سورج ڈوبنے پر ہوتی ہے۔
البتہ کمزوری، بڑھاپا، بیماری یا کسی اوروجہ سے روزہ رکھنا ناقابل بر داشت ہو جائے یاماہر اور قابل اعتماد ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق کسی بیماری میں مبتلاہونے یا بیماری کے بڑھ جانے کااندیشہ ہو تو اس کے لیے روزہ چھوڑ دینے اورپھردوسرے دنوں میں قضا کرلینے کی اجازت ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَھَا‘‘(سورہ البقرہ:286)
اللہ تعالیٰ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا ۔
رہے وہ علاقے جہاں رات اور دن کا سلسلہ نہیں رہتا ہے یعنی چوبیس گھنٹے میں تھوڑی دیر کے لیے بھی سورج نکلتا یا ڈوبتا نہیں ہے بلکہ مسلسل چوبیس گھنٹے کی رات یادن ہوتا ہے تو وہاں نماز کی طرح سے روزے کے لیے بھی اوقات کا اندازہ لگایاجائے گا اور اس جگہ سے قریب ترین ممالک کے اعتبار سے روزہ رکھاجائے گا جہاں دن اور رات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
8- منہ تک محدود رہنے والی دوائیں:
وہ چیزیں جو منہ تک محدود رہیں اور حلق تک نہ پہنچیں ان سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے، چنانچہ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی بارگاہ میں حضرت عمرؓ حاضر ہوئے اور عرض کیا:
’’صنعت اليوم أمراً عظيماً فقبلت وأنا صائم فقال رسول الله ﷺ أ رأيت لو تمضمضت ماء وأنت صائم قال: فقلت: لاباس بذالک فقال رسول الله ﷺ: فمه‘‘ ( سنن أبي داود: 2385، صحيح ابن حبان: 3544، صحيح ابن خزيمة: 1999، حدیث صحیح ہے۔)
آج مجھ سے ایک سنگین حرکت سرزد ہوگئی ہے ۔میں نے روزہ کی حالت میں بیوی کو بوسہ دے دیا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بتاؤ اگر تم روزے کی حالت میں پانی لیکر کلی کرلو تو کیا ہوگا ؟عرض کیا :کچھ بھی نہیں ۔فرمایا :پھر بوسہ لینے کی وجہ سے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ؟
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ منہ میں پانی لینے کی وجہ سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے بشرطیکہ وہ حلق سے نیچے نہ اترے۔
اور حضرت عامر بن ربیعہؓ کہتے ہیں :
’’رأيت النبیﷺ يستاک وهوصائم ما لا أحصي أو أعد‘‘ (صحيح البخاري، کتاب الصيام معلقا)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیشمار مرتبہ میں نے روزہ کی حالت میں مسواک کرتے ہوئے دیکھا ۔
اس حدیث میں خشک اور تر مسواک کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور روزہ کی حالت میں ہر طرح کے مسواک کی اجازت ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ مسواک کے ذائقے کا اثر لعاب کے ساتھ مل جاتا ہے لیکن اس کا حکم وہی ہے جو کلی کے پانی کے اجزاء کا ہے، جو تھوک کے ساتھ مل جاتے ہیں اور پھر کلی کرنے کے بعد تھوک کو نگلنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے پوچھا گیا کہ کیا روزہ دار کھانے کے ذائقے کو چکھ سکتا ہے تو انہوں نے فرمایا: ہاں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (صحیح بخاری معلقا، باب اغتسال الصائم)
اور حضرت ابراہیم نخعی کہتے ہیں:
’’لا باس أن تمضغ المرأة لصبيها وهي صائمۃ مالم تدخل حلقھا‘‘(المصنف لابن أبي شيبة: 306/2)
عورت روزہ کی حالت میں اپنے بچے کے لئے لقمے کو چبا سکتی ہے ۔
مذکورہ احادیث اور صحابہ کرامؓ و تابعین عظامؒ کے فتووں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز منہ تک محدود رہے اورحلق کے نیچے سے نہ اترے تو اس کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوگا اور اسی کے قائل مشہور چاروں امام اور ان کے پیرو کار بھی ہیں۔ (دیکھیے تبیین الحقائق: 184/2، حاشیہ الدسوقی:154/2، المجموع:221/6، کشاف القناع: 392/2)
اس لیے ہارٹ اٹیک وغیرہ کی جو دوا زبان کے نیچے رکھی جاتی ہے اور وہیں پر تحلیل ہوجاتی ہے یا ہومیوپیتھ کی بعض دوائیں جو زبان پرٹپکائی جاتی ہیں اور منہ اور زبان میں موجود مسامات کے ذریعے خون میں شامل ہوجاتی ہیں اور ان میں سے کوئی دوا بھی حلق تک نہیں پہنچتی ہے، اس لئے اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے، البتہ ان کے استعمال کے بعد کلی کرلینا چاہیے تاکہ تھوک کے ذریعہ اس کے اجزا ء حلق تک نہ پہنچ جائیں۔
9-منہ کی بدبو یا بیماری کو دور کرنے والی دوائیں:
منہ کی بدبو یا بیماری کو دور کرنے کے لیے بعض دواؤں کا اسپرے کیا جاتا ہے جس کا اثر منہ تک محدود رہتا ہے اس لیے اس کے استعمال کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، البتہ اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا کہ ان کا کوئی حصہ حلق تک نہ پہنچے نیز منہ میں اس کے جو اثرات اور ذرات باقی رہ گئے ہیں انہیں کلی کے ذریعے زائل کر دے تاکہ وہ لعاب کے ذریعہ پیٹ تک نہ پہنچ جائیں۔
10-ٹوتھ پیسٹ کا استعمال:
حدیث میں مسواک کی بڑی تعریف و اہمیت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’لولا أن أشق علی أمتي لأمرتهم بالسواک مع کل صلاة‘‘ (صحيح البخاري:847، صحيح مسلم:252)
اگر میری امت کے لئے دشواری کا باعث نہ ہوتا تو میں انھیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔
اور فقہائے کرام نے اس پر بڑ ی لمبی بحث کی ہے کہ روزہ کی حالت میں مسواک درست ہے یا نہیں؟ حنفیہ اورمالکیہ کے نزدیک تر اورخشک ہر طرح کے مسواک کی اجازت ہے خواہ سورج ڈھلنے سے پہلے کیاجائے یا سورج ڈھلنے کے بعد، جیسا کہ مذکورہ حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے اور شافعیہ وحنابلہ کے نزدیک سورج ڈھلنے کے بعد روزہ کی حالت میں مسواک کرنا بہتر نہیں ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے منہ کی وہ بو زائل ہوجائے گی جو اللہ کی نگاہ میں مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے، ’’لخلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسک‘‘. (صحيح البخاري: 1795) اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اس بو کا تعلق منہ سے نہیں بلکہ معدہ سے ہے جو پیٹ خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لیے منہ کی صفائی کے باوجود وہ بو برقرار رہتی ہے۔
اور فقہاء کے یہاں اس پر اتفاق پایاجاتا ہے کہ اگر مسواک کی لکڑی کا کوئی حصہ ٹوٹ جائے اوروہ اسے نگل جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
مسواک پر قیاس کرتے ہوئے ٹوتھ پیسٹ یا منجن کرنے کی اجازت ہونی چاہیے مگر مسواک کے مقابلے میں اس میں دو طرح کا فرق پایا جاتا ہے، ایک یہ کہ اس میں غذائی چیزوں کی طرح سے ذائقہ ہوتا ہے اورفقہا ء نے بلاوجہ کسی چیز کے چکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے
دوسرے یہ کہ اس بات کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ اس کا کچھ حصہ حلق سے نیچے اتر جائے اور معلوم نہ ہوسکے اور حدیث میں اس امکان کی بنیاد پر روزہ کی حالت میں وضو کرتے ہوئے ناک میں پانی چڑھانے سے منع کیاگیا ہے، حالانکہ عام حالات میں ایسا کرنا پسندیدہ ہے، چنانچہ لقیط بن صبرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’وبالغ في الاستنشاق إلا أن تکون صائما‘‘ . (سنن أبي داود: 3366)
وضو کرتے ہوئے ناک میں خوب اندر تک پانی پہچاؤ الا یہ کہ تم روزے کی حالت میں ہو۔
اس لیے شدید ضرورت کے بغیر ٹوتھ پیسٹ یا منجن کرنا مکروہ ہے اوراگر اس کا کچھ حصہ حلق سے نیچے اترجائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
11- دانت کا علاج اوردانت اکھاڑنا:
آپ كو معلوم ہونا چاہئے كہ محض منہ میں کسی چیز کے داخل کردینے کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے، اس لیے روزہ کی حالت میں دانت یا داڑھ کا علاج و معالجہ کرنا یا دانت اکھاڑنا درست ہے ،اسی طرح سے سن کرنے کے لئے مسوڑھے میں انجکشن لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ا س کی وجہ سے دوا یا دانت کے سے نکلنے والا خون ، پیپ، دانت کا ٹکڑا یا کوئی او ر چیز حلق سے نیچے نہ اتر ے نیز علاج کے بعد پانی سے کلی کرلے تاکہ منہ میں موجود دوا وغیرہ کے اثرات و ذرات زائل ہوجائیں۔
اوراگر دوا یادانت سے نکلنے والے خون اور دانت کا کوئی ٹکڑا پیٹ میں چلاجائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا، اس لیے بہتر ہے کہ روزہ کی حالت میں اس سے بچاجائے اور اگر علاج ناگزیر ہوتو افطار کے بعد کرایاجائے۔
12-انہیلر Inhelar کا استعمال:
دمہ کے مرض یا تنفس کی شکایت میں انہیلر کا استعمال کیاجاتا ہے، جس سے بھاپ کی شکل میں دوا نکل کر سانس کی نالی کو کھول دیتی ہے اور سانس نہ لے پانے کی تکلیف سے نجات مل جاتی ہے۔
انہیلر پانی اور دوا پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کا ایک حصہ حلق کے اندر جاتا ہے نیز اس کے کچھ ذرات معدے تک پہنچتے ہیں، جیسا کہ ماہر ڈاکٹروں کی رائے ہے، اس لیے روزے کی حالت میں اس کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا کرنا ہو گا، کیونکہ تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی چیز معدہ تک پہنچ جائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا خواہ اس کی مقدار بہت معمولی ہی کیوں نہ ہو۔
البتہ اگر کوئی شخص انہیلر کے استعمال کے بغیر نہیں رہ سکتا ہو تو اس کے لئے رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی گنجائش ہے اور معتدل موسم میں اس کے لئے انہیلر کے بغیر روزہ رکھنا ممکن ہو تو اس کے لئے قضاء ضروری ہے۔ اور اگر ہمیشہ انہیلر کا استعمال ناگزیر ہو تو پھر روزہ کی جگہ پر فدیہ دینے کی اجازت ہے۔
13- بھپارہ لینا:
بعض دوائیں بھاپ کے ذریعے جسم میں داخل کی جاتی ہیں جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ابلتے ہوئے پانی میں دوا ڈال دی جاتی ہے اورپھر اس بھاپ کو ناک اور منہ کے ذریعہ کھینچا جاتا ہے جس سے اس کااثر منہ اور ناک کے ذریعے دماغ اورسینے تک پہنچتا ہے اور آج اس کے لیے بعض مشینی طریقے بھی ایجاد کرلیے گئے ہیں۔
اس طرح سے بھاپ کھینچنے سے روزہ فاسد ہوجائے گا، کیونکہ اس میں اپنے ارادہ واختیار سے منہ اور ناک کے ذریعہ ایسی چیز دماغ یا سینے تک پہنچائی جاتی ہے جس سے جسم کا فائدہ وابستہ ہے اورجس سے بچنا ممکن ہے۔
14-گرد وغبار اور دھواں :
کمپنیوں اورفیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں اوربھاپ سے بچ پانا مشکل ہوتا ہے، خصوصاً ان لوگوں کے لیے جو وہاں کام کرتے ہیں، اسی طرح سے کسی جگہ آگ لگ جانے کی صورت میں آگ بجھانے والوں کے لئے دھوئیں سے بچ پانا دشوار ہوتا ہے، اس لیے اس سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، کیونکہ روزہ فاسد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار سے اسے منہ میں داخل کر ے نیز اس سے بچ پانا دشوار نہ ہو، چنانچہ فقہا ء نے لکھاہے کہ راستے کے گرد و غبار سے اور باورچی خانے کے بھاپ اوردھوئیں سے اور حلق میں مکھی داخل ہوجانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے۔
(دیکھیے: البدائع:238/2، المعونة:289/1، مغني المحتاج:157/2، کشاف القناع:290/2)
15-آکسیجن لینا:
بعض حالات میں مصنوعی آکسیجن لینے کی ضرورت پڑتی ہے اورماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مصنوعی آکسیجن میں دوا یا غذا کا کوئی جزء شامل نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ محض ایک ہوا ہے اور فقہاء لکھتے ہیں کہ روزہ ٹوٹنے کے لیے شرط ہے کہ کوئی جسم دار چیز پیٹ میں داخل ہو، اس لیے آکسیجن لینے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا۔
16- خوشبو استعمال کرنا:
خوشبو کے استعمال کے تین طریقے رائج ہیں:
۱۔ تیل کی طرح سے اسے جسم میں لگایاجائے، اس سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا لہذا اگر خوشبو سر میں لگائی جائے اور اس کا ذائقہ منہ یا حلق میں محسوس ہو تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، کیونکہ روزہ فاسد ہونے کے لیے شرط ہے کہ پیٹ یا دماغ میں کسی چیز کے داخل ہونے کے جو طبعی راستے ہیں ان راستوں میں سے کوئی چیز داخل ہو اس لئے جسم کے مسامات کے ذریعے داخل ہونے والی چیزوں سے روزہ خراب نہیں ہوتا ہے۔
۲۔ خوشبو اِسپرے کرنا اورچھڑکنا، جس کی وجہ سے اس کے اجزاء ہوا میں بکھر جائیں، خوشبو کے اس طرح کے استعمال سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوگا بشرطیکہ چھڑکا ؤ کے وقت اسے ارادہ و اختیار سے ناک یا منہ کے ذریعے اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش نہ کی جائے، کیونکہ ایسی حالت میں اس کے اجزاء ناک یا منہ کے راستے دماغ یا پیٹ تک پہنچ سکتے ہیں اوراس کے نتیجے میں روزہ فاسد ہوسکتا ہے، البتہ چھڑکا ؤ کا عمل ختم ہونے کے بعد اسے جان بوجھ کر سونگھنے سے بھی روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ اب منہ کے اندر اس کے اجزاء کے داخل ہونے کا اندیشہ نہیں ہے اس لئے کہ وہ ہوا میں تحلیل ہوچکے ہیں اور روزہ خراب ہونے کے لیے شرط ہے کہ کوئی چیز منہ یا ناک وغیرہ کے راستے سے پیٹ یا دماغ تک پہنچ جائے۔
۳۔ خو شبو سلگانا، اگر کوئی خوشبو سلگا کر اس کے دھوئیں کو سونگھ رہا ہے اور جذب کررہا ہے تو روزہ فاسد ہوجائے گا، کیونکہ دھواں ایک جسم دار چیز ہے جو اس کے اختیار سے اس کے پیٹ یا دماغ میں داخل ہورہا ہے اور اگر ارادہ و اختیار کے بغیر خود سے دھواں منہ میں داخل ہوجائے تو روزہ فاسد نہیں ہوگاکیونکہ اس سے بچنا دشوار ہوتا ہے۔
17-ویسلین لگانا
ہونٹ پھٹنے سے مرض میں روزہ کی حالت میں ویلسین یا کوئی دوسری کریم ہونٹ کے بیرونی حصہ پر لگانے میں کوئی حرج نہیں ، البتہ یہ خیال رہے کہ اس کے اجزاء منہ کے اندر نہ جائیں، اور اگر منہ کے اندر جانے کا اندیشہ ہو تو مکروہ ہے، اور حلق سے نیچے اترنے کی صورت میں روزہ فاسد ہوجائے گا۔ کیونکہ منہ کے ذریعے کسی چیز کے اندر داخل ہوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور مسامات کے ذریعے داخل ہونے سے نہیں ٹوٹتا ہے ۔چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
جسم کے مسامات کے ذریعے تیل داخل ہوجانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے ۔
وما يدخل من مسام البدن من الدهن لا يفطر ( الهندية 203/1)
-18وکس اور بام لگانا:
ناک کے اوپر یا اس کے بانسہ کے اندر وکس یا بام لگانے کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے کیونکہ بعینہ وہ دوا اور اس کے ذرات ناک کے راستے سے دماغ یا سینہ تک نہیں پہنچتے ہیں بلکہ مسامات کے ذریعے اس کے اثرات پہنچتے ہیں ۔اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی سرپر تیل لگائے اور اس کا اثر حلق میں محسوس ہو
نیز کسی چیز کے سونگھنے کی وجہ سے بھی روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اسی بنیاد پر خوشبو سونگھنے کی وجہ سے روزہ کو فاسد قرار نہیں دیا جاتا ہےکیونکہ اس کے ذرات اندر نہیں پہونچتے اور اس کے برخلاف عود وغیرہ سلگا کر سونگھنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے کیونکہ خوشبو کے ساتھ دھواں بھی اندر داخل ہوجاتا ہے.(1)
(1)ولا يتوهم أنه كشم الورد والمسك لوضوح الفرق بين هواء تطيب بريح المسك و شبهه وبين جوهر دخان وصل الى جوفه بفعله (رد المحتار 366/3)
19- ناک یا منھ میں دوا ٹپکانا:
اگر کوئی دوا ناک یا منھ تک محدود رہے اوردماغ اورپیٹ تک نہ پہنچے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا خواہ سیال دوا ہو یاجامد، کیونکہ کلی کرنے یا ناک میں پانی ڈالنے کی وجہ سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، البتہ اگر دماغ یا پیٹ میں پہنچ جائے تو ا س کی وجہ سے روزہ فاسد ہوجائے گا، گرچہ اس کی مقدار بہت معمولی ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’أسبغ الوضوء وخلل الأصابع وبالغ في الاستشاق إلا أن تکون صائمًا‘‘. (سنن أبي داود: 142)
مکمل وضو کرو ،انگلیوں کا خلال کرو اور ناک میں پانی ڈالتے ہوئے خوب اندر تک پانی پہونچاؤ الا یہ کہ تم روزے سے ہو۔
20- آنکھ میں دوا ڈالنا یا سرمہ لگانا:
آنکھ میں دوا ڈالنے یا سرمہ لگانے کے سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک آنکھ میں جامد یا سیال دوا ڈالنے یا سرمہ لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، گرچہ اس کا اثر حلق میں معلوم اور تھوک میں ظاہر ہو، (ردالمحتار 367/3)شافعیہ بھی اسی کے قائل ہیں (المجموع 251/6) اور علامہ ابن تیمیہ حنبلی کی بھی یہی رائے ہے، (مجموع الفتاوی 233/25) ان کے دلائل یہ ہیں:
1- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
’’اکتحل النبيﷺ وھوصائم‘‘.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی حالت میں سرمہ لگایا ۔
امام ابن ماجہ اور بیہقی نے اسے نقل کیا ہے لیکن اس کے ایک راوی سعید زبیدی پر کلام کیا گیا ہے اور بہ اتفاق اسے ضعیف قرار دیاگیا ہے، چنانچہ علامہ زیلعی کہتے ہیں ’’في إسنادہ سعيد الزبیدي وھومجمع علی ضعفه‘‘(نصب الرایة: 452/2)اور حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ ’’وھوضعيف جدا‘‘(الدرایة: 281/1)
اس لیے مذکورہ روایت میں دلیل بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔
2- حضرت انس بن مالکؓ سے منقول ہے کہ:
’’جاء رجل إلی النبيﷺ فقال: اشتکت عیني أفأکتحل وأنا صائم قال: نعم‘‘.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا: میری آنکھوں میں درد ہے ،کیا روزہ کی حالت میں سرمہ لگا سکتا ہوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں۔
امام ترمذی نے اسے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :
’’إسنادہ ليس بالقوي ولا يصح عن النبيﷺ في ھذا الباب شيء وفي سندہ أبوعاتکة وھو ضعيف‘‘(سنن الترمذي 105/3)
اس کی سند مضبوط نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے میں کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے ۔اور اس کی سند میں موجود ایک راوی ابو عاتکہ ضعیف ہے ۔
ابو عاتکہ کے بارے میں علامہ زیلعی کہتے ہیں کہ:
حديثه واہ جداً وأبوعاتكة مجمع علی ضعفه وقال البخاری عنه: حديثه منکر‘‘. (نصب الراية: 454/2)
اس کی حدیث بالکل کمزور ہے اور ابوعاتکہ کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے اور امام بخاری نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی حدیث منکر ہے ۔
اس لیے اس حدیث سے بھی استدلال صحیح نہیں ہے۔
3- رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سرمہ لگانے کا عام رواج تھا، اگر ا س کی وجہ سے روزہ فاسد ہوجاتا تو آنحضورؐ ضرور اس کی وضاحت کرتے اورپھرصحابہ کرامؓ کے ذریعے سے امت تک اس کا حکم منتقل ہوتا، حالانکہ نبی ﷺ سے روزہ کی حالت میں سرمہ لگانے کی ممانعت کی کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرمہ لگانا جائز ہے اور اس سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ (مجموع الفتاوی 234/25)
اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ نبی ﷺ سے صحیح سند کے ذریعے ثابت ہے کہ آپؐ نے روزہ کی حالت میں ناک میں پانی ڈالتے ہوئے مبالغہ کرنے سے منع فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی مقدار میں بھی کوئی چیز پیٹ میں داخل ہوجائے تو اس سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے، لہٰذا جسم کے کسی بھی راستے سے پیٹ تک کوئی چیز پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور آنکھ کے ذریعہ پیٹ تک جانے کا راستہ موجود ہے اس لیے آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ کے فساد کے سلسلے میں صحیح دلیل موجود ہے۔
4-آنکھ کے ذریعے پیٹ تک پہنچنے کی کوئی نالی یا راستہ نہیں ہے اور منہ میں پہنچنے والا ذائقہ یارنگ مسامات کے ذریعہ پہنچتا ہے اور مسامات کے ذریعے پہنچنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک آنکھ میں دو اڈالنے یا سرمہ لگانے سے روزہ فاسد ہوجائے گا، (مواھب الجلیل 347/3.کشاف القناع 388/2) ان کے دلائل یہ ہیں:
نعمان بن سعید کی سند سے منقول ہے :
أنه صلى الله عليه وسلم أمر بالإثمد المروح عند النوم "، وقال: «ليتقه الصائم»، (سنن أبي داود: 2377، مسند أحمد: 16072)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشک آمیز اثمد کا سرمہ لگانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ روزہ دار کو اس سے بچنا چاہئے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کی حالت میں آنکھ میں کسی چیز کے لگانے سے روزہ پر اثر پڑتا ہے، اس لیے آپ ﷺ نے روزہ کی حالت میں اس سے بچنے کا حکم دیا مگر یہ حدیث بھی حد درجہ ضعیف ہے، اس لیے استدلال کے لائق نہیں ہے، چنانچہ امام ابوداؤد نے اسے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :
’’قال لي يحیی بن معین: ھوحدیث منکر ‘‘.
یحییٰ بن معین نے مجھ سے کہا کہ یہ منکر حدیث ہے ۔
اس لیے صحیح یہ ہے کہ آنکھ میں کسی دوا وغیرہ کے لگانے کی وجہ سے روزہ کے فاسد ہونے یا نہ ہونے کے سلسلے میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے اور مسئلہ کا اصل مدار اس بات پر ہے کہ آنکھ سے حلق تک کوئی طبعی راستہ موجود ہے یا نہیں، جنہوں نے یہ سمجھا کہ آنکھ سے حلق تک کوئی راستہ موجود نہیں ہے اور منہ میں محسوس ہونے والا ذائقہ یا رنگ مسامات کے ذریعے آتا ہے، انہوں نے کہا کہ اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا اور جنہوں نے یہ سمجھا کہ آنکھ سے حلق تک راستہ موجود ہے اور اسی راستے سے منہ میں بعینہٖ وہی چیز منتقل ہوجاتی ہے جو آنکھ میں ڈالی گئی ہے ان کے نزدیک روزہ فاسد ہوجائے گا اور میڈیکل سائنس سے اسی دوسری رائے کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ موجودہ دور کے ڈاکٹر اس پر متفق ہیں کہ آنکھ سے ناک تک ایک چینل موجود ہے، اس لیے آنکھ میں جو چیز داخل کی جاتی ہے وہ ناک کے راستے حلق تک پہنچ جاتی ہے، اس لیے صحیح یہ ہے کہ آنکھ میں دوا ڈالنے یا سرمہ لگانے کی وجہ سے روزہ فاسد ہوجائے گابشرطیکہ اس کا اثر حلق تک پہنچ جائے۔
21-کان میں دوا ڈالنا:
حنفیہ ،مالکیہ ،شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک کان میں دوا ڈالنےکی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے گا، اس کے برخلاف حنابلہ میں سے امام ابن تیمیہ کے نزدیک اس کی وجہ سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، اور ظاہریہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔
جو لوگ روزہ ٹوٹ جانےکے قائل ہیں ان کے پیش نظر یہ ہے کہ کان اور دماغ کے درمیان ایک طبعی راستہ موجود ہے جس کے ذریعے دوا معدے تک پہونچ سکتی ہے لیکن جدید میڈیکل سائنس کی تحقیق یہ ہے کہ سر اور کان کے درمیان پردۂ سماعت حائل ہے ،اور پردۂ سماعت کے پاس ایسی کوئی نالی موجود نہیں ہے جس سے کوئی چیز دماغ تک براہ راست منتقل ہوسکے ، اور اگر دوا کا کوئی اثر منتقل بھی ہو تو وہ مسامات کے ذریعے ہوتا ہے کسی طبعی راستے کے ذریعے نہیں ،
البتہ پردۂ سماعت کے بعد ناک تک ایک نالی موجود ہے ، اس لیے اگر پردۂ سماعت میں سوراخ ہوجائے تو پھر کان میں کسی چیز کے ڈالنے کی وجہ سے اس نالی کے ذریعے وہ ناک اور پھر حلق تک پہونچ سکتی ہے ،
اس لیے عام حالات میں جب کہ پردۂ سماعت صحیح سالم ہوتو کان میں دوا ڈالنے کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوگا البتہ از راہ احتیاط اس میں بھی روزہ کی حالت میں دوا ڈالنے سے بچنا چاہیے ، اور پردہ سماعت میں سوراخ ہونے کی صورت میں روزہ فاسد ہوجائے گا۔
22- شرمگاہ میں دوا ڈالنا:
پیچھے کی شرمگاہ کے ذریعے پانچ چھ انگل اندر تک دوا پہونچا دی جائے تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا ، کیوں کہ وہاں سے دوا پیٹ میں منتقل ہوجائے گی خواہ دوا جامد ہو یا سیال ،
بواسیری مسے اس قدر اندر نہیں ہوتے بلکہ ایک دو انگل اندر ہوتے ہیں ، اس لیے ان پر دوا لگانے کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوگا کیوں کہ وہاں سے پیٹ تک پہونچنے کا امکان نہیں ہے ۔(دیکھیے امداد الاحکام 3/129)
مرد کے آگے کی شرمگاہ میں کوئی تر یا خشک دوا ڈالی جائے تو اس سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیوں کہ وہاں سے پیٹ تک جانے کا کوئی طبعی راستہ موجود نہیں ،
اسی طرح عورت کی شرمگاہ کے خارجی حصہ میں دوا لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا کیوں کہ دوا کے پیٹ تک پہونچنے کا امکاں نہیں ہے لیکن اندر کے حصے میں دوا ڈالنے یا رکھنے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے گا کیوں کہ وہاں سے پیٹ تک طبعی راستہ موجود ہے ۔
یہ تفصیل قدیم طبی تحقیق کے مطابق ہے اور جدید میڈیکل سائنس کے اعتبار سے مرد و عورت دونوں کے آگے کی شرمگاہ کا معدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے اس میں داخل کی جانے والی کوئی چیز معدہ تک نہیں پہنچتی ہے ۔اس تحقیق کے مطابق عورت کے آگے کی داخلی شرمگاہ میں بھی دوا وغیرہ کے لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہونا چاہئے ۔
23-معدہ میں کیمرہ داخل کرنا:
بعض امراض کی تشخیص کے لیے منہ یا پیچھے کی شرمگاہ کے راستے کیمرہ داخل کیا جاتا ہے ، اور بسا اوقات معدہ وغیرہ سے گوشت کا ٹکڑا کاٹ کر نکالا جاتا ہے ،
امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایسا کرنے کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوگاکیوں کہ ان کے یہاں روزہ ٹوٹنے کے لیے شرط ہے کہ معدہ میں داخل کی جانے والی چیز وہاں جاکر رہ جائے ، اور اگر وہاں سے واپس آجائے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا ، لیکن یہ تفصیل اس وقت جب کہ داخل ہونے والی چیز جامد ہو اور اگر سیال ہو تو کسی تفصیل کے بغیر روزہ فاسد ہوجائے گا (1)اور جمہور مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک کسی چیز کے محض معدہ میں داخل ہوجانے سے روزہ فاسد ہوجائے گا اور وہاں جاکر رک جانا اور رہ جانا ضروری نہیں ہے ، اس لیے ان کے یہاں منہ یا شرمگاہ کے ذریعے کیمرہ داخل کرنے سے کسی تفصیل کے بغیر روزہ فاسد ہوجائے گا۔ (دیکھیے حاشیۃ الدسوقی 2/151، نہایۃ المنھاج 3/165، کشاف القناع 2/387)
یہ اختلاف اس وقت ہے جب کہ کیمرہ کے ساتھ کوئی سیال مادہ نہ ہو اور اگر ہے تو بہ اتفاق روزہ فاسد ہوجائے گا ، اور اس وقت حقیقی صورت حال یہی ہے کہ کیمرہ کو آسانی سے اندر داخل کرنے کے لیے اس پر چکنائی لگائی جاتی ہے ، نیز کیمرہ کے شیشہ کی دھلائی کے لیے پانی داخل کیا جاتا ہے جس کا کچھ حصہ معدہ میں رہ جاتا ہے اس لیے اس صورت میں بہ اتفاق کسی تفصیل کے بغیر روزہ فاسد ہوجائے گا(2)
(1)و لو شد الطعام بخیط و أرسلہ فی حلقہ و طرف الخیط فی یدہ لایفسدالصوم ،( البحر 2/279) او أدخل عودا و نحوہ فی مقعدتہ و طرفہ خارج و ان غیبہ فسد و کذا لو ابتلع خشبۃ او خیطا و لو فیہ لقمۃ مربوطۃ الا أن ینفصل منھا شیئ و مفادہ أن استقرار الداخل فی الجوف شرط للفساد ۔(رد المحتار3/369)
(2)او أدخل اصبعہ الیابسۃ فیہ ای فی دبرہ او فرجھا و لو مبتلۃ فسد لبقاء شیئ من البلۃ فی الداخل ،( الدر مع الرد 3/369) الااذا کانت الاصبع مبتلۃ بالماء او الدھن فحینئذ یفسد لوصول الماء او الدھن ، (البحر 2/487)
24-پیشاب کے راستے کیمرہ داخل کرنا(4)
حنفیہ ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک مرد کے پیشاب کے راستے مثانہ میں کسی چیز کو داخل کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا خواہ خشک یا تر ، کیوں کہ مثانہ اور پیٹ کے درمیان کوئی طبعی راستہ یا نالی نہیں ہے ، بعض شافعی علماء بھی اسی کے قائل ہیں۔ (دیکھیے تبیین الحقائق 2/183، مواھب الجلیل 3/346، شرح منتہی الارادات 2/364، المجموع6/218)
حنفیہ میں سے امام ابویوسف کے نزدیک اس کی وجہ سے روزہ فاسد ہوجائے گا کیوں کہ ان کے خیال کے مطابق مثانہ سے پیٹ تک طبعی راستہ موجود ہے ، شافعیہ کے یہاں بھی یہی صحیح اور راجح ہے ۔(فتح القدیر 2/348، مغنی المحتاج2/156)
جدید میڈیکل سائنس کے ذریعے پہلی رائے کی تائید ہوتی ہے اس لیے مرد کے پیشاب کے راستے سے کیمرہ یا کسی چیز کے داخل کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا خواہ اس کے ساتھ چکنائی یا پانی ہی کیوں نہ ہو،
عورت کے پیشاب کے راستے سے کسی چیز کے داخل کرنے میں اختلاف ہے ، حنفیہ ، شافعیہ اور جمہور مالکیہ و حنابلہ کے نزدیک عورت کے آگے کی شرمگاہ کے اندرونی حصہ میں کسی جامد یا سیال چیز کے داخل کرنے سے روزہ فاسد ہوجائے گا بشرطیکہ وہاں جاکر رہ جائے کیوں کہ عورت کی شرمگاہ سے پیٹ تک طبعی راستہ موجودہے ۔(البحر 2/488،حاشیۃ الدسوقی 2/152، مغنی المحتاج2/156،کشاف القناع2/388)
اس لیے محض کیمرہ داخل کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا البتہ اگر اس کے ساتھ پانی ہے یا اس کے اوپر چکنائی لگی ہے تو روزہ فاسد ہوجائے گا ،
اس کے برخلاف بعض مالکیہ اور بعض حنابلہ کے نزدیک مرد کی طرح سے عورت کی شرمگاہ میں بھی کسی جامد یا سیال چیز کے داخل کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیوں کہ وہاں سے پیٹ تک کوئی طبعی راستہ موجود نہیں ہے ۔(حاشیۃ الخرشی 3/32،شرح منتہی الارادات2/364)
جدید میڈیکل سائنس کی تحقیق کے مطابق مرد کی طرح سے عورت کی شرمگاہ سے پیٹ تک کوئی طبعی راستہ موجود نہیں ہے ، اس لیے اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے ۔
25-انجکشن لگانا اور گلوکوز چڑھانا:
جس انجکشن سے علاج مقصود ہو اور اس سے غذائی ضرورت کی تکمیل نہ ہوتی ہو تو اس کے بارے میں تقریبا اتفاق ہے کہ اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ، کیوں کہ اس کے ذریعے سے داخل ہونے والی دوا طبعی راستے سے پیٹ تک نہیں پہونچتی ہے ، اور اگر اس کا کچھ اثر پہونچتا ہے تو وہ مسامات کے ذریعے ، اور اس طرح سے کسی چیز کے داخل ہونے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے ،
اور رگوں کے ذریعے غذائی انجکشن لگانے یا گلوکوز چڑھانے کے بارے میں اختلاف ہے ، عام طور پر علماء ہند اس بات کے قائل ہیں کہ اس کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے اور بعض عرب علماء کی بھی یہی رائے ہے ، ان کے دلائل یہ ہیں :
1-رأیت رسول اللہ ﷺ بالعرج یصب الماء علی رأسہ و ھو صائم (موطأامام مالک807.ابوداؤد2365واللفظ له.مسند احمد 15903)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے عرج نامی جگہ پر دیکھا کہ روزہ کی حالت میں پیاس یا گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنے سر پر پانی بہا رہے ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر کے متعلق منقول ہے :
و بلّ ابن عمر ثوبا فألقاہ علیہ وھوصائم (بخاری باب اغتسال الصائم )
انھوں نے روزہ کی حالت میں اپنے کپڑے کو پانی سے تر کیا اور اسے اپنے اوپر ڈال لیا ۔
ٹھنڈے پانی سے غسل کی وجہ سے پیاس کی شدت کم ہوجاتی ہے ،کیوں پانی کے اجزاء مسامات کے ذریعے بدن میں داخل ہوجاتے ہیں ، مگر اس کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے ،اسی طرح سے ایئر کنڈیشن میں رہنے کی وجہ سے بھوک اور پیاس کا احساس کم ہوجاتا ہے ، تو جس طرح سے ان صورتوں میں روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے ، اسی طرح سے گلوکوز وغیرہ سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوگا ۔
3-روزہ فاسد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طبعی راستے کے ذریعے کوئی چیز پیٹ یا دماغ میں داخل ہوجائے ، رگوں میں انجکشن لگانے یا گلوکوز چڑھانے سے طبعی راستے کے ذریعے وہ پیٹ تک نہیں پہونچتا ہے ، بلکہ وہ سرے سے پیٹ تک پہونچتا ہی نہیں ہے بلکہ وہ رگوں اور پٹھوں تک محدود رہ جاتا ہے اور اگر پہونچتا ہے تو بعینہ وہ دوا نہیں ، بلکہ اس کا اثر اور نفع پہونچتا ہے ، اور کسی چیز کے اثر کے معدے تک پہونچنے کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ۔
اس کے برخلاف بعض دوسرے علماء کی رائے ہے کہ غذائی ضرورت کے لیے رگوں میں لگائے جانے والے انجکشن یا گلوکوز سے روزہ ٹوٹ جاتاہے ،
فقہ اکیڈمی جدہ نے یہی قرار داد پاس کی ہے ، اور سعودیہ کی فتاویٰ کمیٹی نے اس کے مطابق فتویٰ دیا ہے اور مشہور فقیہ وھبہ زحیلی بھی اسی کے قائل ہیں ، ان کے دلائل یہ ہیں :
1-اس کے ذریعے جسم میں قوت آجاتی ہے ، نیز کھانے پینے کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے ، یہاں تک کہ اس کے ذریعے کھائے پیئے بغیر ایک طویل مدت تک زندگی گزاری جاسکتی ہے ، اس لیے یہ کھانے پینے کے حکم میں ہے اور روزہ نام ہے کھانے پینے سے رکنے کا ، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس کے لیے فطری راستہ اختیار نہیں کیا گیا ہے ، جیسے کہ نشہ آور چیز کے کھانے یا اس کا انجکشن لگوانے میں فرق کا کوئی قائل نہیں ہے ، کیوں کہ ممانعت کی اصل وجہ نشہ ہے جو انجکشن کے ذریعے بھی حاصل ہورہا ہے ، اس لیے وہ بھی نشہ آور چیز کے کھانے پینے کے حکم میں ہے ۔
2-حضرت عبد اللہ بن عباس کا قول ہے جو خلاف قیاس ہونے کی وجہ سے حدیث کے حکم میں ہےاور بعض لوگوں نے حدیث کی حیثیت سے نقل بھی کیا ہے کہ :
انما الوضوء مما خرج و لیس مما دخل والفطر فی الصوم مما دخل ولیس مما خرج ۔(ارواءالغلیل79/4)
وضو جسم سے خارج ہونے والی چیزوں سے ٹوٹتا ہے ۔جسن میں داخل ہونے والی چیزوں سے نہیں ۔اور روزہ جسم میں داخل ہونے والی چیزوں سے ٹوٹتا ہے ۔خارج ہونے والی چیزوں سے نہیں ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح جسم کے کسی بھی حصے سے ناپاکی خارج ہونے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اسی طرح سے جسم میں کسی بھی طریقے سے کوئی چیز داخل ہوتو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔
3- نسوں کا تعلق براہ راست دماغ سے ہوتا ہے اور یہ دماغ تک کسی چیز کے پہونچانے کے طبعی راستے ہیں جن کی دریافت ماضی میں نہ ہوسکی تھی ، اس لیے پہلے کے فقہاء نے قدیم طبی تحقیق یا اپنے مشاہدے کی روشنی میں جن ذرائع کے بارے میں سمجھا کی اس کی وجہ سے کوئی چیز دماغ یا معدے تک پہونچ سکتی ہے ان کے بارے میں فتویٰ دیا کہ اس کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔
4-غسل کرنے یا تر کپڑا لپیٹ لینے کی وجہ سے یا ایئر کنڈیشن میں رہنے سے تھوڑی سی راحت تو مل سکتی ہےیا وقتی طور پر بھوک و پیاس کا احساس ختم ہوسکتا ہے مگر اس سے غذائی ضرورت پوری نہیں ہوسکتی ہے ، کمزوری بہر کیف لاحق ہوگی اور جسمانی توانائی متأثر ہوگی اس کے برخلاف گلوکوز کے ذریعہ غذائی ضرورت پوری ہوتی ہے اور قوت ونشاط بر قرار رہتا ہے یہاں تک کہ محض اسی کے سہارے ایک عرصے تک انسان زندہ رہ سکتا ہے ۔
جولوگ انجکشن لگانے یا گلوکوز چڑھانے کی وجہ سے روزہ کے فاسد نہ ہونے کے قائل ہیں ان کے رائے زیادہ صحیح ہے کیونکہ روزہ کے صحیح یا فاسد ہونے کا مدار کھانے پینے کے مقصد کے پائے جانے یا نہ پائے جانے پر نہیں ہے بلکہ کھانے پینے کی حقیقت پر ہے اور کھانے پینے کی حقیقت یہ ہے کہ طبعی راستوں کے ذریعے کوئی چیز پیٹ میں داخل ہوجائے ، چنانچہ ایک تل کھالینے کی وجہ سے تمام فقہاء کے نزدیک روزہ فاسد ہوجاتا ہے حالانکہ اس کے ذریعے کھانے کا مقصد پورا نہیں ہوتا ہے بلکہ کنکر یا پتھر کھالینے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے جس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوتا ہے ،اسی طرح سے حلق سے ایک قطرہ پانی اتر جانے کی وجہ سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے اور اسی بنیاد پر حدیث میں روزہ کی حالت میں ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ سےمنع کیا گیا ہے حالانکہ ایک قطرہ پانی سے پیاس میں کمی نہیں آئے گی ، اس کے برخلاف روزہ کی حالت میں غسل کرنے یا تر کپڑا لپیٹ لینے کی اجازت ہے جس سے مسامات کے ذریعے جسم میں پانی داخل ہوجاتا ہے مگر روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے اس لیے اصل اعتبار اس کا ہے کہ جو چیز جسم میں داخل ہورہی ہے اس کا راستہ کیا ہے البتہ روزہ کے مقصد کے خلاف ہونے کی وجہ سے بلاضرورت شدیدہ گلوکوز چڑھانا مکروہ ہوگا ۔
کما لو اغتسل بالماء البارد فوجد برودتہ فی کبدہ لکن ینبغی ان یکون مکروھا ۔(مجمع الانھر 1/245)
26-خون چڑھانا:
گلوکوز کی طرح خون چڑھانے کے بارے میں بھی اختلاف ہے ، عام طور پر علماء ھند اس کی وجہ سے روزہ ٹوٹنے کے قائل نہیں ہیں ، اور اس کے برخلاف بعض علماء عرب روزہ کو فاسد قرار دیتے ہیں ، دونوں کے دلائل وہی ہیں جو گلوکوز سے متعلق ہیں ۔
27-قے کرنے کے لیے انجکشن لگانا :
معدہ میں زہریلے مواد کے جمع ہونے کی وجہ سے قے کرانے کے لیے انجکشن لگایا جاتا ہے ، اس طرح کا انجکشن لگانا بھی جان بوجھ کر اپنے ارادہ و اختیار سے قے کرنے کی طرح ہے اور اس کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے گا ، چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
من ذرعہ القی فلا قضاء علیہ ومن استقاء فعلیہ القضاء (ترمذی 720، ابن ماجہ 1676 وغیرہ)
28-ڈائیلیسس :
ڈائیلیسس دو طرح سے کیا جاتا ہے ،ایک طریقہ یہ ہے کہ رگوں کے ذریعے سے خون نکال کر اسے ایک مشین سے گذارا جاتا ہے جہاں اس کی صفائی ہوتی ہے اور پھر اسے جسم میں منتقل کردیا جاتا ہے ، اور اس عمل کے درمیان اکثر گلوکوز چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے ، اس کی وجہ سے عرب کے بعض علماء روزہ کے فاسد ہوجانے کے قائل ہیں ، اور مشہور فقیہ وھبہ زحیلی بھی اسی کے قائل ہیں ، لیکن علماء ھند اس کے قائل نہیں ہیں کیوں کہ طبعی راستے کے ذریعے کوئی چیز معدہ میں داخل نہیں ہورہی ہے ۔
دوسرے طریقے میں ناف کے نیچے ایک چھوٹا سا سوراخ کردیا جاتا ہے جس سے پائپ کے ذریعے گلوکوز آمیز پانی داخل کرکے خون کو صاف کیا جاتا ہے ، اس طریقے میں چونکہ پانی اور گلوکوز پیٹ میں داخل ہوجاتا ہے اس لیے اس سے بہ اتفاق روزہ فاسد ہوجائے گا ۔
حج سے متعلق نئے مسائل
1-حج کے لیے کوٹہ مقرر کرنا:
حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے نظم و ضبط کو قائم رکھنے اور جان و مال کی حفاظت اور آسانی کے ساتھ حج کے ارکان ادا کرنے کے مقصد سے بہت ہی انتظامی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں ، جس میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کا ایک کوٹہ مقرر کردیا گیا ہے اور اس سے زیادہ کی تعداد میں حج کے لیے آنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے اور نہ ویزہ جاری کیا جاتا ہے ، اسی طرح سے ایک مرتبہ حج کرنے کے بعد دوبارہ جانے کے لیے ایک مدت مقرر کردی گئی ہے مثلا پانچ سال کے بعد ہی دوبارہ حج کرنے کی اجازت ہوگی ،
ظاہر ہے کہ حکومت کی طرف سے اس طرح کا فیصلہ شریعت کی روح کے مطابق ہے اس لیے اس کی پابندی ضروری ہے ورنہ توتمام لوگوں کے لیے دشواری اور پریشانی کا باعث ہوگا ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
یُرِیدُ اللہُ بکم الیُسرَ و لایرید بِکمُ العُسرَ(البقرۃ :185)
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
یَسِّرُوا وَ لا تُعَسِّرُوا(بخاری:69کتاب العلم، مسلم :1734کتاب الجہاد)
2-حج فرض ہوجانے کے بعد ویزہ نہ ملے:
اگر کسی شخص پر حج فرض ہوجائے ، یعنی جسمانی اعتبار سے وہ حج کے لیے جانے پر قادر ہے نیز سفر کے لیے مطلوبہ زاد راہ اور سواری وغیرہ پر قدرت رکھتا ہے مگر کوٹہ مکمل ہوجانے کی وجہ سے ویزہ نہ مل سکا اور دوبارہ حج کا موقع ملنے سے پہلے ہی مرگیا تو کیا اس کے لیے حج بدل کی وصیت لازم ہے ؟
اس سلسلے میں ائمہ حنفیہ کے درمیان اختلاف ہے ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک حج فرض ہونے کے لئے اس طرح کی رکاوٹوں کا نہ ہونا ضروری ہے اس لئے اس کے ذمے حج فرض نہیں ہے لہذا حج بدل کی وصیت لازم نہیں ہے۔ اس کے برخلاف امام ابویوسف اور محمد رحمۃ اللّٰہ علیہما کےنزدیک اس کی طرح کی چیزیں فرضیت حج کے لئے رکاوٹ نہیں بنتی ہیں ،البتہ وجوب ادا کے لئے مانع ہیں ،اس لئے اس طرح کی مجبوری کی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے اور ہر سال ویزہ کے حصول کے لئے پوری کوشش کرنی چاہئے اور اگر اس دوران وفات ہوجائے تو اس کے لیے حج بدل کی وصیت ضروری ہےکیونکہ اس پر حج فرض ہوچکا ہے،(1)فقہاءحنفیہ میں سے متعدد لو گوں نے اسی کو راجح قرار دیا ہے(2) ۔
(1)فالمحبوس و الخائف من السلطان كالمريض لا يجب عليهما أداء الحج بأنفسهما ولكن يحب عليهما الإحجاج او الإيصاء عند الموت عندهما (غنية الناسك:24البحر311/2)
(2) دیکھئے: رد المحتار 457/3
3- حج کے لئے کفیل کی رضامندی:
بہت سے لوگ ملازمت کے مقصد سے مکہ سے قریب کے شہروں میں مقیم ہوتے ہیں ، اور اس بات کی استطاعت رکھتے ہیں کہ حج کے مصارف برداشت کرسکیں ، اور حج کے لئے جانے کی وجہ سے کسی طرح کی معاشی تنگی اور پریشانی لاحق نہیں ہوگی لیکن کفیل اور اسپانسر اسے اس کی اجازت نہیں دے رہا ہے ، اور ملازمت کے اگریمنٹ میں حج کی اجازت کا معاہدہ شامل نہیں ہے تو ایسی حالت میں راجح قول کے مطابق اس پر حج فرض ہو گیا ہے البتہ معاہدہ اس کی ادائیگی کی راہ میں رکاوٹ ہے اس لیے فی الحال حج کے لیے جانا ضروری نہیں ہے ، لیکن جب بھی موقع مل جائے تو حج کرنا ضروری ہوگا ، اور اگر اس وقت وطن سے حج کے لئے جانے کی استطاعت نہ ہو تو جہاں وہ مقیم تھاوہاں سے حج بدل کی وصیت کر جائے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
و أوفوا بالعھد ان العھد کان مسئولا۔
اور عہد کو پورا کرو، یقین جانو کہ عہد کے بارے میں (تمہاری) باز پرس ہونے والی ہے۔ (الاسراء:34)
اور رسول اللہﷺ نے فرمایا : المسلمون علی شروطھم۔
مسلمانوں کےلئے شررطوں کی پابندی ضروری ہے۔ (ابوداؤد:3/304 کتاب القضا،باب الصلح)
4-محرم کے بغیر ہوائی جہاز کا سفر
تیز رفتارسواریوں کی سہولت نے ایک نئی صورت یہ پیدا کردی ہے کہ کوئی عورت اپنے محرم کے ساتھ مقامی ایئرپورٹ تک جائے اور پھر دوسری جگہ کے ایئر پورٹ پر اس کا دوسرا محرم موجود ہواور ہوائی جہاز سے درمیانی چند گھنٹوں کا سفر محرم کے بغیر طے ہو چونکہ سفر کے مسئلے میں اصل اعتبار مدت سفر کا نہیں ہے بلکہ مسافت کا ہے ، اس لیے ہوائی جہاز کا سفر اگرسفر شرعی کے دائرے میں داخل ہے یعنى 48/میل یا اس سے زیادہ کا سفر ہے تو وہ محرم کے بغیر ممنوع ہے ، جس میں حج کا سفر بھی شامل ہے خواہ حج فرض ہو یا نفل ۔(1) چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لایخلون رجل بامرأۃ الا و معھا ذو محرم و لاتسافر المرأۃ الامع ذی محرم فقال رجل یا رسول اللہ ان امرأتی خرجت حاجۃ و انی اکتتبت فی غزوۃ کذا فقال انطلق فحج مع امرأتک (صحیح مسلم :1341، صحیح بخاری:3006)
و فی روایۃ انی ارید أن اخرج فی جیش کذا و کذا و امرأتی ترید الحج فقال اخرج معھا (صحیح بخاری:1862)
و فی روایۃ انی نذرت ان اخرج فی جیش کذا و کذا (اخرجہ ابن حزم فی المحلی بسندہ 52/7، نیز دیکھیے فتح الباری :75/4)
محرم کے بغیر کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے ۔محرم کے بغیر کوئی عورت سفر نہ کرے ،ایک صحابی نے عرض کیا : اللہ کے رسول!میری بیوی حج کے لئے جارہی ہے اور میں نے ایک غزوہ میں جانے کے لئے نام لکھا لیا ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔اور ایک روایت میں ہے کہ میں فلاں فلاں جنگ میں جانا چاہتا ہوں اور میری بیوی حج کے لئے جانا چاہتی ہے ۔آپ نے فرمایا تم اس کے ساتھ جاؤ ۔اور ایک روایت میں ہے کہ میں نے فلاں لشکر میں جانے کی نذر مانی ہے ۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے منقول ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
قال رسول اللہ ﷺ : لاتحجن امرأۃ الا و معھا ذو محرم۔
کوئی عورت محرم کے بغیر حج کے لئے نہ جائے(2) ۔
(1)ویعتبر فی المرأۃ ان یکون لھا محرم تحج بہ او زوج ، ولا یجوز لھا ان تحج بغیرھا اذا کان بینھا و بین مکۃ مسیرۃ ثلاثۃ ایام ،(القدوری مع الھدایۃ 133/1)
(2)سنن الدارقطنی 322/2،محدث ابو عوانہ اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے
(دیکھیے فتح الباری 76/4، الدرایۃ مع الھدایہ234/1)
5-جدہ سے احرام باندھنا
ہندوستان اور دوسرے بہت سے ممالک کے لوگ ہوائی یا سمندری سفر کے ذریعے پہلے جدہ پہونچتے ہیں اور پھر وہاں سے حرم کے لیے روانہ ہوتے ہیں،اور جدہ حرم میں شامل نہیں ہے تو کیا اس راستے سے حرم پہونچنے والوں کے لیے جدہ کو میقات قرار دیا جاسکتا ہے ، اور یہیں سے احرام باندھنا درست ہوسکتا ہے ؟
اس سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ معظمہ کے اطراف میں مختلف فاصلے پر پانچ مقامات متعین فرمادیا ہے جسے میقات کہا جاتا ہے اور حرم میں جانے والے کے لیے وہاں سے احرام کے بغیر گذرنے کو ممنوع قرار دیا ہے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ :
وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّأْمِ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلِ، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ، فَهُنَّ لَهُنَّ وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ لِمَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَمَنْ كَانَ دُونَهُنَّ فَمُهَلُّهُ مِنْ أَهْلِهِ، وَكَذَاكَ حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ يُهِلُّونَ مِنْهَا(بخاری :1454،مسلم :1182) و فی روایۃ عن ابن عمر فرضھا رسول اللہ ﷺ (بخاری:1420)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لئے ذو الحلیفہ اور شام والوں کے لئے جحفہ اور نجد والوں کے لئے قرن منازل اور یمن والوں کے لئے یلملم کو میقات قرار دیا ،یہ جگہیں میقات ہیں ان لوگوں کے لئے جو ان گھروں میں رہتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بھی جو وہاں سے گزریں جو حج وعمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں اور جو لوگ میقات کے اندر ہوں تو ان کا احرام ان کے گھر سے ہے یہاں تک کہ مکہ والے بھی مکہ ہی سے احرام باندھیں گے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میقات سے احرام باندھے بغیر آگے بڑھنا جائز نہیں ہے ،
اور جن لوگوں کے راستے میں کوئی میقات نہ پڑے ان کے لیے حکم ہے کہ جب وہ کسی میقات کے برابر میں آجائیں تو وہاں سے احرام باندھ لیں اور میقات سے برابر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ مکہ اور آنے والے کی سمت میں جو میقات واقع ہے ان دونوں کے درمیان جو فاصلہ ہے وہی فاصلہ ان لوگوں کے لیے میقات قرار دیا جائے گا جو اس سمت کے میقات سے گزریں ،
چنانچہ ابن عمر سے روایت ہے کہ کوفہ اور بصرہ کے لوگ حضرت عمر کے پاس آئے اور کہا کہ :
ان رسول اللہ ﷺ حد لاھل نجد قرنا وھو جور عن طریقتنا و اناان اردنا قرناشق علینا قال فانظروا حذوھا من طریقتکم فحد لھم ذات عرق (بخاری :1458)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نجد والوں کے لئے قرن کو میقات قرار دیا ہے اور وہ ہمارے راستے سے الگ ہے اگر ہم وہاں جائیں تو ہمارے لئے دشواری ہوگی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:تم دیکھ لو کہ تمہارے راستے میں قرن کے سیدھ میں کون سی جگہ ہے پھر آپ نے ذات عرق کو ان کے لئے میقات قرار دیا ۔
اور یلملم یا جحفہ کا جو فاصلہ مکہ سے ہے جدہ کا فاصلہ اس سے کم ہے ، اس لئے ہندوستان جیسے ممالک کے لوگوں کے لئے جدہ سے احرام باندھنا درست نہیں ہے ، بلکہ ہوائی جہاز جب کسی میقات کے برابر میں آجائے تو وہاں سے احرام باندھنا ضروری ہے ، اور آج کل اس میں کوئی پریشانی بھی نہیں ہے کہ جہازوں میں اس کا اعلان کردیا جاتا ہے کہ اس وقت جہاز فلاں میقات سے گزرنے والا ہے ، اس لیے جہاز میں سوار ہونے سے پہلے ہی غسل کرکے احرام کے کپڑے پہن لے اور جب میقات کے برابر آجانے کا اعلان ہو تو احرام کی نیت کرکے تلبیہ کہہ لے اور ظاہر ہے کہ نیت کرنے اور تلبیہ کہنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے ۔
البتہ اگر کسی وجہ سے جدہ سے پہلے احرام باندھنے میں بہت پریشانی ہو تو حرم جانے کے بجائے جدہ جانے کی نیت کی جائے اور پھر وہاں سے حسب سہولت احرام باندھ کر مکہ لیےروانہ ہو(1)
علامہ اخوند جان مرغینانی مہاجر مکی کی اس معاملے میں رائے یہ ہے کہ جب کوئی کسی ایسی جگہ سے گزرے جہاں کوئی میقات نہ ہو تو دو میقاتوں کے برابر میں آجانے کا اعتبار ہوگا یعنی دائیں بائیں میں واقع دو میقاتوں کے درمیان لکیر کھینچی جائیگی۔اور جب کوئی اس لائن پر پہونچے تو وہاں سے احرام باندھ لے ،اس رائے کے اعتبار سے جدہ میقات سے باہر ہوجاتا ہے کیونکہ اس کےایک طرف یلملم ہے اور دوسری طرف جحفہ ۔اور ان کے درمیان لکیر کھینچی جائے تو وہ بحرہ سے گزرتی ہے جو جدہ تقریباً سات آٹھ کیلو میٹر کے بعد ہے ۔اس تحقیق کے اعتبار سے جدہ سے احرام باندھ سکتے ہیں۔اور علامہ مرغینانی کی بات یوں قوی ہےکہ حدود حرم پر جو چار نشانات لگائے گئے ان کے درمیان خط کھینچا جاتا ہے پس یہاں بھی خط کھینچا جائے گا اور وہی محاذات ہوگی۔
اور مفتی محمد سعید صاحب پالنپوری نے لکھا ہے کہ میرا عمل پرانی رائے کے مطابق ہے لیکن اگر کوئی جدہ سے احرام باندھے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ (دیکھئے: جواہر الفقہ 35/4.تحفۃ الالمعی 228/3)
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہوائی جہاز قرن منازل اور یلملم دونوں میقاتوں سے گزرتا ہے جہاز کس وقت میقات کے مقابل آیا ہے ؟کپتان عام طور پر اس کا اعلان کرتا ہے لیکن اگر اس کی طرف سے اعلان نہ ہو تو صحیح اندازہ دشوار ہے لہذا ہند و پاک اور مشرق کے حجاج کو چاہئے کہ آغاز سفر میں یا سفر شروع ہونے کے ایک دو گھنٹہ بعد ہی احرام باندھ لیں۔(جدید فقہی مسائل 475/2)
(1)الحیلۃ لمن اراد من الآفاقی دخولہ من غیر احرام ان یقصد بستان بنی عامر او غیرہ من الحل فلایجب الاحرام (العنایہ علی الھدایۃ : 429/2)
6-پرمیشن کے بغیر حج و عمرہ کے لئے جانا:
حج کے دوران بہت زیادہ بھیڑ ہوجانے کی وجہ سے نظم و ضبط کو برقرار رکھنے میں کافی پریشانی ہوتی ہے ،نیز اس کی وجہ سے بہت سے حادثات واقع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سعودی حکومت نے ہر ملک کے حاجیوں کا ایک کوٹہ مقرر کردیا ہے نیز جن لوگوں نے ایک مرتبہ حج کرلیا ہے انہیں دوبارہ پانچ سال بعد ہی موقع ملتا ہے اور اس سے پہلے جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے ،
لیکن لوگ ان پابندیوں کی پرواہ نہیں کرتے اور مختلف تدبیروں کے ذریعے وہاں پہونچنے کی کوشش کرتے ہیں جو ایک غلط حرکت ہے اور ناجائز کام ہے اور وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے گنہ گار ہوں گے کیوں کہ حکومت کی طرف سے اس طرح کی پابندی شریعت کے مطابق ہے اس لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہے ،
ان تدبیروں میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ میقات سے احرام کے بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں تاکہ چیک پوائنٹ پر انہیں روکا نہ جائے اور آگے پڑھنے کی اجازت مل جائے اور وہاں سے گزرنے کے بعد احرام باندھ لیتے ہیں ، اس طرح سے حج کے لیے جانے والوں کا حج تو صحیح ہوگا اور احرام باندھنے کے بعد حج و عمرہ کی تکمیل ضروری ہوگی البتہ میقات سے احرام کے بغیر گزرنے کی وجہ سے دم دینا ہوگا ، اس لیےکہ حدیث گزر چکی ہے کہ حرم میں آنے والوں کے لیے رسول اللہ ﷺ نے بعض مقامات مقرر کیے ہیں جہاں سے بغیر احرام کے گزرنا درست نہیں ہے ، اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے منقول حدیث میں ہے کہ :
من نسی من نسکہ شیئا او ترکہ فلیھرق دما (التلخیص الحبیر :244/2) اس روایت کو بعض لوگوں نے حدیث ہونے کی حیثیت سے ضعیف قرار دیا ہے البتہ عبد اللہ بن عباس کے قول کی حیثیت سے صحیح ہے (دیکھیے الموطأ419/1، دار قطنی مع التعلیق المغنی 244/2، ارواء الغلیل 299/4)
اور ان کا یہ فتوا خلاف قیاس ہونے کی وجہ سے مرفوع حدیث کے حکم میں ہے ، نیز کسی صحابی سے اس کے برخلاف منقول نہیں ہے اس طرح سے گویا اس پر اجماع ہے نیز امت کے درمیان اسے قبول عام حاصل ہے اور اسی کے مطابق عمل ہے ۔
7-سلے ہوئے کپڑے میں احرام باندھنا
اور کچھ لوگ چیک پوسٹ پر چیکنگ سے بچنے کے لیے سلے ہوئے کپڑے ہی میں احرام کی نیت کرلیتے ہیں اور پھر میقات سے آگے بڑھنے کے بعد احرام کا کپڑا پہن لیتے ہیں ، ظاہر ہے کہ اس میں بھی شریعت کی شدید خلاف ورزی ہے،حدیث میں بہ صراحت احرام کے وقت سلاہوا کپڑا پہننے سے منع کیا گیا ہے ، بلکہ بڑی جرأت کی بات ہے کہ کوئی یہ سوچ کر حرام کام کا ارتکاب کرے کہ وہ بعد میں توبہ کرلے گا اور فدیہ دے دیگا ، اس طرح کی سوچ کے بارے میں علامہ نووی لکھتے ہیں :
بعض لوگ حج کے ممنوعات کا یہ سوچ کر ارتکاب کرلیتے ہیں کہ بعد میں فدیہ دے دیں گے وہ گمان کرتے ہیں کہ فدیہ دینے کی وجہ سے معصیت کے وبال سے بچ جائیں گے ۔حالانکہ یہ صریح غلطی ہے اور بھیانک نادانی ہے ۔کیونکہ اس کے لئے ایسا کرنا حرام ہے اور حکم شرعی کی مخالفت کی وجہ سے وہ گنہ گار ہوگا اور فدیہ دینا ضروری ہوجائے گا اور فدیہ حرام فعل پر اقدام کو جائز قرار نہیں دیتا ہے۔اور اس شخص کی جہالت ایسی ہے ہے جیسے کہ کوئی کہے کہ میں شراب نوشی اور زنا کا ارتکاب کرونگا اور شرعی سزا کے ذریعے پاک ہو جاؤنگا ۔۔۔اور جو کوئی جان بوجھ کر حج کے محرمات کا ارتکاب کریگا تو اس کا حج مقبول نہیں ہوگا ۔(1)
لہذا اگر کوئی اس طرح سے دھوکہ دے کر حج و عمرہ کرلیتا ہے تو اس پر فدیہ واجب ہے اور اس کا حج صحیح ہے مگر قانون کی خلاف ورزی اور جان بوجھ کر سلاہوا کپڑا پہننے کی وجہ سے گنہ گارہوگا ۔
(1)و ربما ارتکب بعض العامۃ شیئا من ھذہ المحرمات و قال انہ افتدی متوھما انہ بالتزام الفدیۃ یتخلص من وبال المعصیۃ و ذالک خطأ صریح و جھل قبیح فانہ یحرم علیہ الفعل و اذا خالف اثم و وجبت علیہ الفدیۃ و لیست الفدیۃ مبیحۃ للاقدام علی فعل المحرم و جھالۃ ھذا الفاعل کجھالۃ من یقول انا اشرب الخمر و ازنی و الحد یطہرنی … ومن فعل شیئا مما حکم بتحریمہ فقد اخرج حجہ عن ان یکون مبرورا (منسک النووی ۱۸۸)
8-اگر احرام کے بعد حج و عمرہ سے روک دیا جائے:
حکومت کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے یہ خطرہ ہو کہ اسے چیک پوسٹ سے واپس کردیا جائے گا مگر اس کے باوجود کوئی شخص حج کا احرام باندھ لے اور حج کی نیت کرلے اور چیک پوسٹ سے واپس بھیج دیا جائے تو وہ محصر کے حکم میں ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی حاجی کو جانور ذبح کرنے کے لیے رقم دے دے اور ذبح کرنے کا وقت اور تاریخ متعین کردے تاکہ اس وقت اس کی طرف سے قربانی کردی جائے اور اس کے بعد ہی وہ احرام سے نکل سکے گا ، اس سے پہلے نہیں۔ اور پھر دوسرے سال اس حج کی قضا ضروری ہے خواہ حج فرض ہو یا نفل۔(1) چنانچہ قرآن پاک میں کہا گیا ہے :
وَ اَتِمُّوا الۡحَجَّ وَ الۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ ؕ فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ وَ لَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَکُمۡ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡہَدۡیُ مَحِلَّہٗ ؕ
اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا پورا ادا کرو، ہاں اگر تمہیں روک دیا جائے تو جو قربانی میسر ہو (اللہ کے حضور پیش کردو) اور اپنے سر اس وقت تک نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔(سورہ البقرۃ :196)
گرچہ یہ آیت دشمن کے ذریعے عمرہ سے روکے جانے کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے مگر الفاظ عام ہیں اس لیے کسی بھی ذریعے سے حج و عمرہ میں رکاوٹ پیش آجائے تو اس میں محصر کے حکم پر عمل کیا جائے گا ۔
اور حجاج بن عمر و الانصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَنْ كُسِرَ أَوْ عَرَجَ فَقَدْ حَلَّ، وَعَلَيْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ ".
جس کا پیر ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ احرام سے نکل جائے گا (ابوداؤد1862،ترمذی940،نسائی2860، وغیرہ)
اور امامطحاوی وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص کو حالت احرام میں کسی زہریلے جانور نے ڈس لیا تھا اور وہ راستے میں لاچار پڑا ہوا تھا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو اسے دیکھ کر اس کے بارے میں معلوم کیا اور کہا اس کے لئے قربانی کا جانور حرم میں لے جاؤ اور اس سے ایک دن متعین کرلو اس دن وہ احرام سے نکل جائے گا۔(2)
(1) ولا قضاء على من كان نسكه تطوعا عند مالك والشافعي و قال ابوحنيفة بوجوب القضاء بكل حال فرضا كان او تطوعا و عن احمد روايتان كالمذهبين.( رحمة الأمة:147)
(2)و فی قصۃ الرجل الذی لدغ و ھو محرم ھو صریع فی الطریق اذ طلع علیھم رکب فیھم ابن مسعود فسألوہ فقال ابعثوا بالھدی و اجعلوا بینکم و بینہ یوما امارۃ فاذا کان ذالک فلیحل ( شرح معانی الآثار 2/251، وقال الحافظ :و اخرجہ ابن جریر باسناد ،صحیح فتح الباری:4/13)
9- خوشبو دار صابن اور شیمپو کا استعمال :
حالت احرام میں خوشبو کا استعمال ممنوع ہے ، حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: و لاتمسوہ طیبا(صحیح بخاری 1850، صحیح مسلم 1206)
اس لیے اگر صابن میں خوشبو غالب ہو اس طور پر کہ دیکھنے والااسے خوشبودار صابن سمجھے اور اس کا استعمال خوشبو حاصل کرنے کے مقصد سے ہو تو جائز نہیں ہے اور اس کے استعمال پر دم دینا ہوگا ، اور اگر خوشبو مغلوب ہو اس طور پر کہ اسے خوشبو نہیں بلکہ صرف صابن سمجھا جاتا ہو اور محض صفائی کے مقصد سے استعمال کیا جاتا ہو تو ایک مرتبہ استعمال کرنے کی وجہ سے صدقہ اور بار بار استعمال کرنے کی وجہ دم واجب ہوگا۔(1)یہی حکم خوشبو آمیز شیمپو کا بھی ہے ۔
یہ تفصیل اس وقت ہے جب کہ خوشبو کو صابن کے اجزاء کی ساتھ ملا کر پکایا نہ گیا ہو ۔اور اگر پکا دیا گیا ہو جیسے کہ عام طور پر صابن اسی طرح سے بنایا جاتا ہے تو پھر اس کا استعمال کرنا جائز ہے (2)مگر کراہت سے خالی نہیں ہے کیونکہ شریعت کا مقصد یہ ہے انسان حالات احرام میں خوشبودار چیزوں سے بچنے کی کوشش کرے۔اور فرحت بخش خوشبو دار صابن کا استعمال بظاہر اس مقصد کے خلاف معلوم ہوتا ہے ۔
(1)و لو غسل رأسہ او یدہ باشنان فیہ الطیب فان کان من رآہ سماہ اشنانا فعلیہ صدقۃ الا ان یغسل مرارا فدم و ان سماہ طیبا فدم و لو غسل رأسہ بالخطمی فعلیہ دم عند ابی حنیفۃ و قالا صدقۃ ،( غنیۃ الناسک /249)
(2) ولو تداوى بطيب او بدواء فيه طيب غالب و لم يكن مطبوخا فألزقه بجراحته يلزمه صدقة اذا كان موضع الجراحة لم يستوعب عضوا او أكثر إلا أن يفعل ذلك مرارا فيلزمه دم( غنية الناسك/248)
10- کھانے پینے کی چیزوں میں خوشبو استعمال کرنا
اگر کوئی شخص حالت احرام میں خوشبو کھالے جیسے کہ زعفران کو کھاجائے تو اگر وہ زیادہ ہو اس طور پر کہ منہ کے اکثر حصے میں چپک جائے تو دم واجب ہوگا اور اگر کم ہو اس طور پر کہ منہ کے اکثر حصے میں نہ لگی ہو تو صدقہ واجب ہوگا (1)۔
اگر خوشبو دار چیز کو کھانے کے ساتھ پکا دیا جائے تو اس کے کھانے اور پینے میں کوئی حرج نہیں ہے، گرچہ خوشبو کا اثر موجود ہو،جیسے کہ کھانے کی چیز میں زعفران اور دارچینی وغیرہ ملا کر پکا دینا کیوں کہ پکا دینے کی وجہ سے وہ چیزغذا بن گئی اس لیے خوشبو کا حکم اس پر نافذ نہیں ہوگا ، چنانچہ عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ حالت احرام میں گھی اور کھجور سے یا میدہ، بادام اور گلاب کے پانی سے بنے ہوئے حلوے کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(دیکھیے مصنف ابن ابی شیبہ3/167، سنن بیہقی 5/58)
اور حضرت طاؤس و عطا کہتے ہیں کہ حالت احرام میں گھی اور کھجور سے بنے ہوئے حلوے کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ دونوں یہ بھی کہتے تھے کہ :
جو چیز آگ پر پکا دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ما مستہ النار فلابأس بہ (مصنف ابن ابی شیبہ 3/166)
اور اگر خوشبو دار چیز کو کھانے کے ساتھ پکایا نہ جائے بلکہ مکمل طور پر پک جانے کے بعد کھانے کے وقت اس میں خوشبو ملادی جائے تو اگر مقدار کے اعتبار سے خوشبو زیادہ اور کھانا کم ہے تو وہ خالص خوشبو کے حکم میں ہوگا اور اس کے کھانے کی وجہ سے دم دینا ہوگا اور اگر کھانے کی مقدار زیادہ اور خوشبو کی مقدار اس سے کم ہے مگر اس کی مہک موجود ہے تو اس کی وجہ سے کوئی دم یا کفارہ نہیں ہے البتہ مکروہ ضرور ہے اور اگر مہک ختم ہوگئی ہو تو اس میں کوئی کراہت بھی نہیں ہے ۔(دیکھیے فتح القدیر 3/27، غنیۃ الناسک /246)
حضرت عطا اور ابراہیم نخعی کے متعلق منقول ہے کہ :
وہ حالت احرام میں زعفران آمیز نمک کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔(2)
(1)فلو اکل طیبا کثیرا و ھو ان یلتصق باکثر فمہ یجب الدم وان کان قلیلابان لم یلتصق باکثر فمہ فعلیہ الصدقہ ، ھذا اذا اکلہ کما کما ھو من غیر خلط( غنیۃ الناسک 249، نیز دکھیے تاتار خانیہ 2/506)
(2)کانا لا یریان باسا ان یأکل المحرم الملح الذی فیہ الزعفران (مصنف ابن ابی شیبہ 3/167)
11- خوشبو دار مشروبات
اگر پانی ، شربت یا چائے وغیرہ میں کوئی خوشبو ملا دی گئی ہے اور خوشبو کی مقدار زیادہ ہے تو ایسی صورت میں دم واجب ہوگا اور اگر شربت کی مقدار زیادہ اور خوشبو کی مقدار اس سے کم ہو تو صدقہ واجب ہوگا لیکن اس طرح کے مشروب کو ایک ہی مجلس میں بار بار پینے سے دم واجب ہوجائے گا ۔(دیکھیے فتح القدیر 3/27، غنیۃ الناسک 247)
12- حجر اسود کی خوشبو :
بعض صحابہ کرام کے طرز عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے زمانے میں حجر اسود وغیرہ پر خوشبو لگانے کا رواج تھا ، چنانچہ امام باقر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کو کعبہ کے قریب اس حال میں دیکھا کہ کعبہ کی خوشبو ان کے سینے میں لگی ہوئی تھی ۔
(رأیت ابن عمر قاربا من الکعبۃ و قد تلطخ صدرہ من طیبھا ۔)
اور حضرت انس کے متعلق منقول ہے کہ ان کے کپڑے میں کعبہ کی خوشبو لگ گئی تھی اور وہ حالت احرام میں تھے لیکن انھوں نے اسے دھلا نہیں ۔
(انہ اصاب ثوبہ خلوق الکعبۃ و ھو محرم فلم یغسلہ دیکھیے مصنف ابن ابی شیبہ 3/209، المحلیٰ 7/83))
واضح رہے کہ ان میں سے پہلی روایت جابر جعفی کی وجہ سے اور دوسری روایت صالح بن حیان کی وجہ سے ضعیف ہے (دیکھیے التقریب :271،127)
اور حجر اسود پر خوشبو لگانا ایک مجبوری بھی ہے کیوں کہ بوسہ لینے والوں کی کثرت کی وجہ سے بد بو پیدا ہوجاتی ہے اور شاید اسی مجبوری کا خیال کرتے ہوئے مشہور تابعی حضرت عطا ء اور امام مالک کے نزدیک حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے یا ہاتھ لگاتے ہوئے منہ یا ہاتھ میں خوشبو لگ جائے تو اس کی وجہ سے کسی طرح کا کفارہ واجب نہیں ہے ، چاہے خوشبو کی مقدار کم ہو یا زیادہ ، جان بوجھ کر خوشبو پر منہ یا ہاتھ رکھے یا انجانے میں (دیکھیے المدونۃ :1/342)
اور شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی جان بوجھ کر کعبہ میں لگی خوشبو کو چھو دے اور وہ خشک خوشبو ہو تو کوئی کفارہ نہیں ہے اور اگر تر ہو تو فدیہ ہے (دیکھیے المجموع:7/272،المغنی 5/150)
اس کے برخلاف حنفیہ کہتے ہیں کہ جانے انجانے ہر حال میں کعبہ پر لگی خوشبو چھونے سے کفارہ واجب ہے اگرزیادہ خوشبو لگ جائے تو دم دینا ہوگا اور کم لگنے کی صورت میں صدقہ (دیکھیے المبسوط:4/124) ان کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں کسی تفصیل کے بغیر حالت احرام میں خوشبو سے منع کیا گیا ہے اور کفارہ واجب ہونے کے لیے قصد و ارادہ شرط نہیں ہے بلکہ غلطی اور انجانے میں بھی خوشبو لگ جانے سے کفارہ واجب ہوجاتا ہے (دیکھیے البدائع2/191، فتح القدیر :2/439)
دوسری دلیل یہ ہے کہ حدیث میں کہا گیا ہے :
فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ ".(بخاري 7288)
اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ ممنوعات سے ہر حال میں پرہیز کرنا ہے ، البتہ مامورات پر عمل استطاعت کے مطابق ہوگا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترک ممنوع فعل مامور پر مقدم ہے ، اور ظاہر ہے کہ یہ ضابطہ اس وقت ہے جب مامور واجب ہو اور مامور مستحب ہو تو ممنوع کے مقابلہ میں اسے بدرجہ اولیٰ ترک کردیا جائے گا ، مذکورہ مسئلے میں حجر اسود کو بوسہ دینا اور ہاتھ لگانا مستحب ہے لیکن اس پر عمل کی وجہ سے ایک ممنوع چیز کا ارتکاب لازم آتا ہے لہذا کسی مستحب امر کے لیے ممنوع کے ارتکاب کی اجازت نہیں ہوگی ۔
13-حرم میں کثرت سے آنے والوں کے لیے احرام
امام ابو حنیفہ کے نزدیک مکہ سے باہر رہنے والوں کے لیے احرام کے بغیر میقات سے گزرنا درست نہیں ہے ، حج و عمرہ کا ارادہ ہو یا نہ ہو ، ہر حال میں احرام باندھنا اور پھر عمرہ کے ذریعے حلال ہونا ضروری ہے ، اسی طرح سے مکہ کا رہنے والا شخص میقات سے باہر نکل جائے تو واپسی میں احرام اور عمرہ ضروری ہے ۔
دوسرے اماموں کے نزدیک احرام اسی کے لیے ضروری ہے جو حج و عمرہ کے ارادے سے مکہ آئے ۔
سوال یہ ہےکہ مکی یا غیر مکی اگر بار بار میقات سے باہر جا کر حرم میں آتا ہو تو کیا ہر مرتبہ احرام باندھنا اور عمرہ کرنا ضروری ہوگا ؟ جیسے تجارت پیشہ افراد یا ٹیکسی اور ٹرک ڈرائیور وغیرہ ، ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو ہر مرتبہ احرام باندھنے اور عمرہ کرنے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں دم لازم کرنے میں حرج اور تنگی ہے ، اور شرعی احکام میں آسانی اور سہولت کا خیال رکھا گیا ہے اور تنگی و پریشانی کو دور کیا گیا ہے ، ارشاد ربانی ہے :
یرید اللہ بکم الیسر و لا یرید بکم العسر ۔
اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لئے مشکل پیدا کرنا نہیں چاہتا۔(سورة البقرة:185)
اور دوسری آیت میں ہے :
و ما جعل علیکم فی الدین من حرج ۔
، اور تم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔(سورة الحج :78)
چنانچہ بغیر احرام کے ہر شخص کے لیے مکہ میں داخل ہونے کی ممانعت کی روایات حضرت عبد اللہ بن عباس سے منقول ہیں (1)
مگر وہ بھی سامان ڈھونے والوں اور ایندھن کی لکڑی فروخت کرنے والوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں ۔(2)
علامہ عینی کہتے ہیں کہ ایندھن فروش کے معاملے میں امام ابو حنیفہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
نیز وہ لکھتے ہیں : ابوعمر کہتے ہیں میرے علم کے مطابق اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایندھن فروش اور وہ لوگ جو روزانہ بکثرت مکہ آتے جاتے ہیں انھیں احرام باندھنے کا پابند نہیں بنایا جائے گا کیونکہ ایسا کرنے میں وہ پریشانی میں مبتلا ہوجائیں گے۔(3)
اورعلامہ ابن ھمام لکھتے ہیں :
میقات کے اندر رہنے والے کے لئے اپنی حاجت وضرورت کے لئے احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہونا جائز ہے؛ اس لئے کہ وہ کثرت سے مکہ جاتا رہتا ہے ۔اور اس پر ہر مرتبہ احرام لازم کرنے میں بڑی دشواری ہوگی۔(4)
میقات کے اندر رہنے والوں کے لیے حل کا آخری حصہ یعنی حرم مکی سے پہلے کا حصہ میقات کے حکم میں ہوتا ہے اور اگر حج وعمرہ کرنا ہوتو ان کے لیے اس سےآگے احرام کے بغیر بڑھنا درست نہیں ہے اور اس زمانے میں انہیں کے بارے میں بار بار حرم آنے کا تصور کیا جا سکتا ہے کیوں کہ وہ حرم سے قریب ہوتے ہیں ، دوسرے لوگوں کے بارے میں اس دور میں ایسا نہیں سوچا جا سکتا ہے ، موجودہ دور میں تیز رفتارسواری کی سہولت نے دوسرے لوگوں کو انہیں جیسا بنادیا ہے اس لیے جو حکم میقات کے اندر رہنے والوں کا ہے وہی باہر رہنے والوں کا بھی ہوگا کیوں کہ حرج و مشقت میں دونوں مشترک ہیں ۔
(1)لا یدخل احد مکۃ الا محرما ، حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے ، (نیل الاوطار 2/300،)اور سعید بن جبیر کی مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا یجاوز احد الوقت الا محرما ۔
کوئی بھی میقات سے احرام کے بغیر آگے نہ بڑھے ۔
( مصنف ابن ابی شیبہ 4/52 ) بعض لوگوں نے اسے مرفوعا ابن عباس کے واسطے سے نقل کیا ہے ۔
(2)عن ابن عباس قال لا یدخل احد مکۃ الا باحرام الا الحطابین و الحمالین و اصحاب منافعھا (مصنف ابن ابی شیبہ ،4/211، تلخیص الجبیر 1/211)
(3)قال ابو عمر : لا اعلم خلافا بین فقہاء الامصار فی الحطابین و من يدمن الاختلاف الی مکۃ و یکثرہ فی الیوم و اللیلۃ انھم لا یامرون بذالک لما علیھم فیہ من المشقۃ ، (عمدۃ القاری10/205)۔
(4)من کان داخل المیقات لہ ان یدخل مکۃ بغیر احرام لحاجتہ لانہ یکثر دخول مکۃ و فی ایجاب الاحرام فی کل مرۃ حرج بین (فتح القدیر 3/425 )۔
14 -حالت حیض میں طواف زیارت :
حج کا ایک اہم رکن طواف زیارت ہے بلکہ حنفیہ کے نزدیک حج میں صرف دو چیزیں فرض ہیں : وقوف عرفہ اور طواف زیارت ، اور اس کے علاوہ بقیہ افعال یاتو واجب ہیں یا سنت اور یہ دونوں ارکان بہر حال ادا کرنے ہوتے ہیں نہ تو کسی عذر کی وجہ سے ساقط ہوتے ہیں اور نہ ہی ان میں نیابت ہوسکتی ہے ۔
دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں صرف ایک متعین وقت تک ٹھہرنے کی اجازت ہوتی ہے اور اس کے بعد نہیں ، نیز رکنے کی وجہ سے ساتھیوں سے بچھڑنے کا خطرہ بھی رہتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ طواف زیارت سے پہلے اگر کسی عورت کو حیض آجائے اور روانگی کی مقررہ مدت سے پہلے وہ پاک نہ ہوسکتی ہو یا اس کے ساتھی رکنے کے لیے آمادہ نہ ہوں تو ایسی حالت میں وہ کیا کرے ؟
جواب یہ ہے کہ وہ حیض و نفاس کی حالت میں طواف زیارت کرے گی ، اور ترک واجب یعنی پاکی کے بغیر طواف کرنے کی وجہ سے بطور فدیہ بڑے جانور کی قربانی کرے گی جسے حدود حرم میں ذبح کرنا ضروری ہوگا البتہ حج کےزمانے میں ذبح کرنا لازم نہیں بلکہ کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے ، اور اگر پاکی کے بعد دوبارہ طواف کرلے تو فدیہ ساقط ہوجائے گا ۔( دیکھیے رد المحتار 2/519، البحر 2/370)
دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کے طواف کا حکم دیا ہے :
ولیطوفوا بالبیت العتیق ۔
اور اس بیت عتیق کا طواف کریں۔ (سورۃ الحج :29)
اور طواف، کعبہ کے ارد گرد چکر لگانے کا نام ہے ، اور ظاہر ہے کہ اسے پاکی اور ناپاکی دونوں حالتوں میں انجام دیا جا سکتا ہے ، لہذا ناپاکی کی حالت میں بھی طواف کا تحقق ہوسکتا ہے ، چنانچہ حضرت عطاء سے روایت ہے کہ :
حاضت امراۃ مع عائشۃ فاتمت بھا عائشۃ طوافھا۔ ( المحلی 7/180، نصب الرایۃ 3/128)
15- حیض روکنے کے لیے دوا کا استعمال:
حیض کا خون ایک فطری اور طبعی چیز ہے اور اسے روکنے کے لیے دوا وغیرہ کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہے ، اس لیے شدید مجبوری کے بغیر دوا کا استعمال صحیح نہیں ہے ، البتہ مجبوری کی حالت میں اس کی اجازت ہے جس میں سے ایک یہ کہ طواف زیارت یا طواف عمرہ کے زمانے میں حیض آنے کا امکان ہو ، اور حیض ختم ہونے تک وہاں ٹھہرنا بہت دشوار ہو تو مانع حیض دوا کا استعمال کیا جاسکتا ہے ، اور اس کی دو شکل ہوگی :
ایک یہ کہ خون آنے سے پہلے ہی دوا کااستعمال کرلیا جائے جس کی وجہ سے خون آئے ہی نہیں تو ایسی صورت میں وہ پاک سمجھی جائے گی اور اس کے لیے نماز اور طواف وغیرہ سب درست ہے بشرطیکہ حیض کی عادت کے دنوں میں خون کا دھبہ نظر نہ آئے جو ایک مرتبہ ظاہر ہونے کے بعد تین دنوں تک دکھائی دیتا رہے ، لہذا اگر دوا کے استعمال کے باوجود 72/گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت تک خون کا دھبہ بار بار نظر آتا رہا تو عورت حائضہ شمار ہوگی ۔
دوسری شکل یہ ہے کہ حیض کا خون آنا شروع ہوگیا اور پھر دوا کے ذریعے اسے بند کیا گیا ، ایسی صورت میں طواف وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد اگر عادت کے دنوں میں دوبارہ خون آگیا تو سمجھا جائے گا کہ اس نے حیض کی حالت میں طواف کیا ہے جس کی وجہ سے بطور فدیہ اونٹ یا گائے کی قربانی دینی ہوگی، اور پاکی کی درمیانی مدت کے بارے میں وہی حکم ہوگا جو عادت کے دنوں میں کسی ایک دن خون نہ آنے کا ہوتا ہے ، یعنی وہ بھی حیض شمار کیا جاتا ہے ، اور اگر دوا کے ذریعے اس طرح سے بند ہوگیا کہ طواف کے بعد عادت کا زمانہ ختم ہونے تک حیض نہیں آیا تو ایسی حالت میں بلا کراہت طواف وغیرہ درست ہے ۔(دیکھیے غنیۃ الناسک: 274)