تراویح اور تہجد
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان مبارک کی وجہ سے تہجد کی نماز میں کوئی اضافہ نہیں فرماتے تھے ۔حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں:
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ : مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهَا عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ؟ قَالَ : ” يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی کیفیت کیا ہوتی تھی؟ انہوں نے فرمایا : آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، چار رکعت پڑھتے اور اس کی خوبی اور اس کی طوالت کے بارے میں نہ پوچھو ، پھر چار رکعت پڑھتے اور اس کی خوبی اور اس کی طوالت کے بارے میں نہ پوچھو ، پھر تین رکعت پڑھتے تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر سے پہلے سو جاتے ہیں ؟ فرمایا : عائشہ ! یقینا میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔ (صحيح بخاري : 2013)
البتہ جس طرح سے رمضان میں خیر کے دوسرے کاموں میں اضافہ کردیتے اسی طرح سے عشاء کے بعد الگ سے ایک نماز پڑھتے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دیتے چنانچہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص رمضان میں ایمان کی حالت میں اورثواب کی نیت سے رات میں قیام کرے تو اللہ تعالی اس کے پچھلے گناہوں کو معاف فرما دیں گے۔(صحيح بخاري : 37)
اور جس طرح سے صیام رمضان ایک خاص عبادت ہے اسی طرح سے قیام رمضان بھی ایک خاص عبادت ہے جو اسی مہینے کے ساتھ مخصوص ہے اگر وہ اس ماہ کے لئے خاص نہ ہوتا تو الگ سے اس کے فضائل بیان نہ کئے جاتے ،نبی کریم ﷺ اس کی اہمیت و فضلیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
” إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَرَضَ صِيَامَ رَمَضَانَ عَلَيْكُمْ، وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ".
اللہ تعالی نے رمضان کے روزے کو تم پر فرض فرمایا اور میں نے تمہارے لئے اس کے قیام کو جاری کیا تو جو شخص اس کے روزے رکھے اور اس کا قیام کرے ایمان کی حالت میں اور ثواب سمجھتے ہوئے تو اپنے گناہ سے اس طرح سے پاک و صاف ہوجاتاہے جیسے کہ پیدائش کے وقت تھا ۔(نسائي: 2210)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انفرادی طور پر اسے پڑھتے ۔اور صحابہ کرام میں سے کچھ لوگ اپنے گھر پے یا مسجد نبوی میں انفرادی طور پر یا کسی امام کی اقتداء میں ادا کرتے۔ چند لوگ اکھٹے ہوجاتے اور کسی امام کی اقتداء کرلیتے ،اس طرح سے مسجد میں کئی جماعتیں ہوجاتیں . چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ أَوْزَاعًا يَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الشَّيْءُ مِنَ الْقُرْآنِ، فَيَكُونُ مَعَهُ النَّفَرُ الْخَمْسَةُ أَوِ السِّتَّةُ أَوْ أَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرُ، يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں لوگ رمضان کی رات میں مختلف ٹولیوں میں نماز پڑھتے تھے، ان میں سے کچھ لوگوں کو قرآن کا کچھ حصہ یاد ہوتا تو پانچ چھ لوگ یا اس کم یا اس سے زیادہ لوگ اس کی اقتداء کرلیتے ۔(مسند احمد : 26307)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دنعشاء کے بعد اپنے اعتکاف کے حجرے سے باہر آئے اور آپ نے خود امامت فرمائی اور تمام لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی ، اس واقعے کو بھی حضرت عائشہ ہی کی زبانی سنتے ہیں:
َقَالَتْ : فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنْ ذَلِكَ أَنْ أَنْصِبَ لَهُ حَصِيرًا عَلَى بَابِ حُجْرَتِي، فَفَعَلْتُ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ. قَالَتْ : فَاجْتَمَعَ إِلَيْهِ مَنْ فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا طَوِيلًا، ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ، وَتَرَكَ الْحَصِيرَ عَلَى حَالِهِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ تَحَدَّثُوا بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْ كَانَ مَعَهُ فِي الْمَسْجِدِ تِلْكَ اللَّيْلَةَ. قَالَتْ : وَأَمْسَى الْمَسْجِدُ رَاجًّا بِالنَّاسِ، فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، ثُمَّ دَخَلَ بَيْتَهُ، وَثَبَتَ النَّاسُ. قَالَتْ : فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَا شَأْنُ النَّاسِ يَا عَائِشَةُ ؟ ” قَالَتْ : فَقُلْتُ لَهُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعَ النَّاسُ بِصَلَاتِكَ الْبَارِحَةَ بِمَنْ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ، فَحَشَدُوا لِذَلِكَ لِتُصَلِّيَ بِهِمْ. قَالَتْ : فَقَالَ : ” اطْوِ عَنَّا حَصِيرَكِ يَا عَائِشَةُ ". قَالَتْ : فَفَعَلْتُ، وَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ غَافِلٍ، وَثَبَتَ النَّاسُ مَكَانَهُمْ حَتَّى خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصُّبْحِ، فَقَالَتْ : فَقَالَ : ” أَيُّهَا النَّاسُ، أَمَا وَاللَّهِ مَا بِتُّ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ لَيْلَتِي هَذِهِ غَافِلًا وَمَا خَفِيَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ، وَلَكِنِّي تَخَوَّفْتُ أَنْ يُفْتَرَضَ عَلَيْكُمْ، فَاكْلَفُوا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ ؛ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا ". قَالَ : وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ : إِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک رات حجرے کے پاس چٹائی بچھانے کا حکم دیا ، میں نے حکم کی تعمیل کی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد وہاں آئے اور مسجد میں موجود لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئے ،اور آپ نے انھیں طویل وقت تک نماز پڑھائی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آگئے اور حجرے میں داخل ہو گئے اور چٹائی کو وہیں اسی حالت پر چھوڑ دیا تو جب صبح ہوئی تو رات میں مسجد میں موجود لوگوں کو نماز پڑھانے کے واقعہ کا چرچا ہوا ۔ اور شام میں مسجد لوگوں سے کھچا کھچ بھر گئی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عشاء کی نماز پڑھائی پھر اپنے گھر کے اندر آگئے اور لوگ وہیں جمے رہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا :عائشہ !لوگوں کی کیا خبر ہے ؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں نے کل رات مسجد میں موجود لوگوں کو آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا تذکرہ سنا تو اس کی وجہ سے وہ جمع ہو گئے ہیں تاکہ آپ انہیں نماز پڑھائیں۔ اللہ کے رسول نے فرمایا: عائشہ !چٹائی کو وہاں سے ہٹا لو، میں نے ویسے ہی کیا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری رات نماز پڑھتے رہے اور صحابہ کرام مسجد نبوی میں رکے رہے ،بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے نکلے اور فرمایا:لوگو سنو ! قسم بخدا! اللہ کا شکر ہے کہ میں نے رات غفلت میں نہیں گزاری اور نہ تمہاری موجودگی سے بے خبر تھا البتہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہو جائے لہذا تم اپنے آپ کو اتنے ہی اعمال کا پابند بناؤ جسے تم کرسکتے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اجر وثواب دینے سے نہیں اکتاتا یہاں تک کہ تم خود عمل کرنے سے اکتا جاؤ ۔اور حضرت عائشہ کہا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جسے ہمیشہ کیا جائے گرچہ وہ تھوڑا ہو۔(مسند احمد: 26307)
صحیح بخاری وغیرہ میں واقعہ کے الفاظ یہ ہیں:
عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّوْا مَعَهُ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ، فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ : ” أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ، لَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا ".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات درمیان شب میں نکلے اور مسجد میں نماز پڑھی اور کچھ لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی ، صبح ہوئی تو لوگوں نے آپس میں بیان کیا تو دوسرے دن اس سے زیادہ لوگ جمع ہو گئے ،ان لوگوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی پھر صبح ہوئی تو لوگوں نےاسے دوسروں سے بیان کیا تو تیسری رات اور زیادہ لوگ جمع ہو گئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، لوگوں نے آپ کی امامت میں نماز پڑھی ۔ جب چوتھی رات ہوئی تو مسجد نمازیوں سے تنگ پڑ گئی،اس رات آپ باہر نہیں آئے یہاں تک کہ صبح ہوگئی تو آپ ﷺ فجر کی نماز کے لئے نکلے اور نماز کی ادائیگی کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور حمد و درود کےبعد فرمایا :مسجد میں تمہاری موجودگی سے میں بے خبر نہیں تھا البتہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ ہو جائے اور تم لوگ اس کی ادائیگی سے عاجز ہوجاؤ( صحیح بخاری: 924)
اس کے بعد لوگ پہلی کیفیت پر آگئے ۔حضرت عمر نے اپنی خلافت کے دور میں اسے منظم کرنے کے لئے تمام لوگوں کو ایک امام کے پیچھے پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ نئی چیز کتنی عمدہ ہے( نعمة البدعة هذه) یہ نئی چیز موجودہ مختلف جماعتوں کے مقابلے میں ہے کہ متعدد اماموں کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی جگہ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھنا ایک نئی چیز ہےلیکن بذات خود نئی نہیں ہے کیونکہ قیام رمضان اور اسے ایک امام کی اقتداء میں ادا کرنا تو خود اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ،اس سلسلے کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ : وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَانِي لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ ، فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ : ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، فَقَالَ عُمَرُ : نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي تَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي تَقُومُونَ : يَعْنِي آخِرَ اللَّيْلِ، وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ.
عبدالرحمن ابن عبدالقاری سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان میں مسجد کے لیے روانہ ہوا تو کچھ لوگ الگ الگ ٹولیوں میں موجود تھے ،کوئی تنہا تو کوئی کسی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بخدا میری رائے ہے کہ اگر میں ان کو ایک قاری پر جمع کر دوں تو یہ بہتر ہے پھر انھوں نے سب کو حضرت ابی ابن کعب کی امامت میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر میں آپ کے ساتھ دوسری رات میں نکلا اور لوگ اپنے قاری کے اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کتنی اچھی بدعت ہے.جس نماز کو چھوڑ کر تم سو جاتے ہو وہ اس سے بہتر ہے، ان کی مراد رات کے آخر کی نماز ہے ،اور اس نماز کو لوگ رات کے اول حصے میں ادا کیا کرتے تھے ۔
(الموطا:301 )
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تہجد اور تراویح دو الگ الگ نماز ہے ان کو ایک قرار دینا صحیح نہیں ہے، کیونکہ تراویح عشاء کے بعد اور تہجد رات کے آخری پہر پڑھی جاتی ہے اور یہ نماز تراویح سے افضل ہے اور پورے سال پڑھی جاتی ہے۔