(12)
*خواتین کے اعتکاف کی بہترین جگہ*
ولی اللہ مجید قاسمی۔
بعض مذاھب کے پیروکار عبادت میں یکسوئی اور نجات کے لئے تمام رشتے اور تعلقات توڑ کر کسی غار یا جنگل میں پناہ لے لیتے ہیں ،لیکن ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر فطری طریقہ ہے اس لئے اسلام میں اس سے منع گیا ہے اور اس کے بدلے میں اعتکاف کا طریقہ جاری کیا گیا ہے، خصوصاً رمضان کے آخر کے دس دنوں کے اعتکاف کو سنت قرار دیاگیا ہے ، چنانچہ نبی کریم ﷺ رمضان میں ہمیشہ اعتکاف کرتے رہے۔(صحیح بخاری: 2026)
اعتکاف کرنے والا ہمہ وقتی عبادت گذار شمار ہوتا ہے، اس کا سونا جاگنا ،کھانا پینا ، بولنا اور چلنا پھرنا سب عبادت ہے ، اور مسجد سے باہر رہنے کی صورت میں وہ نیکی اور بھلائی کا جو کام کرسکتا تھا اس کا ثواب بھی اسے ملتا رہتاہے ۔
اور رمضان میں اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ شب قدر کا حصول ہے کہ اعتکاف کرنے والا ہرحال میں شب قدر کی عبادت کا ثواب حاصل کرلے گا کیونکہ اس کا ہر لمحہ عبادت ہے ۔
اعتکاف کے لئے مسجد شرط ہے یعنی مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف درست نہیں ہے اور خواتین کی بہترین مسجد ان کے گھر کا ایک گوشہ ہے ، اس لئے ان کا اعتکاف گھر کی مسجد میں درست ہے بلکہ ان کے لئے یہیں اعتکاف کرنا بہتر ہے ۔چنانچہ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
خیر مساجد النساء قعر بیوتھن ۔
عورتوں کی بہترین مسجد ان کے گھر کا ایک گوشہ ہے (مسند احمد: 26584، صحیح ابن خزیمہ: 1683، مستدرک حاکم :756، صحیح الجامع الصغیر: 3327)
جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی اور مشہور فقیہ اور محدث سفیان ثوری ، ابن علیہ اور امام ابو حنیفہ اسی کے قائل ہیں ( المغنی 189/3، عمدۃ القاری 142/11) اور امام شافعی کا قدیم قول یہی ہے ۔ اس کے برخلاف امام مالک اور امام احمد بن حنبل مرد کی طرح سے عورت کے اعتکاف کے لئے بھی مسجد عام کو شرط قرار دیتے ہیں لہذا گھر میں نماز کے لئے مخصوص جگہ پر اعتکاف درست نہیں ہوگا ، امام شافعی کا قول جدید یہی ہے اور شافعیہ کے نزدیک یہی راجح ہے ۔ ان کے دلائل یہ ہیں :
1___ولا تباشروهن و انتم عاكفون في المساجد .
اور جب تم مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہو تو اپنی عورتوں سے مباشرت نہ کرو۔
مذکورہ آیت عام ہے ، اور مرد وعورت ہر ایک کو شامل ہے ، لہذا مرد کی طرح سے عورت کے اعتکاف کے لئے بھی مسجد شرط ہے۔
2___ اللہ کے رسول ﷺ نے ازواج مطہرات کو مسجد میں اعتکاف کرنے کی اجازت دی مگر بعض عوارض کی وجہ سے آپ نے اس اجازت کو منسوخ کردیا ، اگر عورت کے اعتکاف کے لئے مسجد شرط نہ ہوتی تو پھر اس کے لئے اجازت لینے اور پھر منع کرنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ انھیں گھروں میں اعتکاف کرنے کا حکم دیا جاتا. (دیکھئے : شرح الزرقانی علی المؤطا 313/2)
چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف في كل رمضان ، واذا صلى الغداة دخل مكانه الذي اعتكف فيه ، قال : فاستاذنته عائشة ان تعتكف فاذن لها فضربت فيه قبة ، فسمعت بها حفصة فضربت قبة ، و سمعت زينب بها فضربت قبة اخرى . فلما انصرف رسول الله صلى عليه وسلم من الغد ابصر أربع قباب ، فقال : ما هذا ؟ فاخبر خبرهن . فقال : ما حملهن على هذا ؟ آلبر؟ انزعوها فلا اراها ، فنزعت فلم يعتكف في رمضان حتى اعتكف في آخر العشر من شوال . (صحيح بخاري : 2041)
رسول اللہ ﷺ ہر رمضان میں اعتکاف کرتے اور فجر کی نماز پڑھ کر اپنے اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوجاتے ، حضرت عائشہ نے اعتکاف کی اجازت مانگی اور آنحضرت ﷺ نے اجازت مرحمت فرمادی اور ان کے لئے بھی ایک خیمہ لگا دیا گیا ۔ حضرت حفصہ کو اس کی اطلاع ملی (ایک روایت میں اس کی صراحت ہے کہ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تھی اور آپ نے ان کو بھی اجازت دے دی )تو انھوں نے اپنے لئے ایک خیمہ لگوا لیا ۔ حضرت زینب کو معلوم ہوا تو انھوں نے بھی اپنے لئے ایک خیمہ لگوا لیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر سے فارغ ہو کر دیکھا کہ مسجد میں چار خیمے لگے ہوئے ہیں۔ فرمایا : یہ سب کیا ہے ؟ آپ کو صورت واقعہ کی اطلاع دی گئی ، فرمایا : کس چیز نے انھیں اس پر آمادہ کیا ہے ؟ کیا نیکی کا ارادہ ہے ؟ تمام خیمے ہٹادو ۔ آپ کے حکم کے مطابق تمام خیمے ہٹادیۓ گئے اور خود بھی آپ ﷺ نے اس سال رمضان میں اعتکاف نہیں کیا اور اس کے بدلے میں شوال کے ابتدائی دس دنوں کے آخر میں اعتکاف کیا ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف کے معاملے میں مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں ہے اور اسی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رض کو مسجد میں اعتکاف کی اجازت دی تھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ آپ سے قریب رہنے کے شوق میں ازواج مطہرات کے اندر مقابلہ آرائی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور مسجد میں ان کے جمع ہوجانے کی وجہ سے اعتکاف کا مقصد فوت ہوجائے گا اور یکسوئی و خلوت کے مواقع میسر نہیں آسکیں گے تو آپ نے تمام خیموں کو ہٹانے کا حکم دیا ۔( ارشاد الساری 439/3)
لیکن اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ خواتین کے اعتکاف کے لئے مسجد شرط ہے بلکہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لئے اپنے شوہر کے ساتھ مسجد میں اعتکاف کرنا جائز ہے ۔
دوسرے یہ کہ حضرت عائشہ کے گھر کا ایک دروازہ مسجد نبوی میں کھلتا تھا اس لئے ان کو مسجد میں اعتکاف کرنے کی اجازت دی گئی کہ ان کے لئے مسجد میں اعتکاف کرنا گھر کے ایک گوشے میں اعتکاف کرنے کی طرح تھا ، اور یہی حال حضرت حفصہ کے گھر کا تھا کہ وہ حضرت عائشہ کے گھر سے بالکل قریب تھا ، اتنا قریب کہ اپنے اپنے کمروں میں رہتے ہوئے وہ ایک دوسرے سے گفتگو کرلیتی تھیں ، نیز دونوں کے گھروں کے بیچ میں آنے جانے کا راستہ تھا جس سے وہ ایک دوسرے کے یہاں آیا جایا کرتی تھیں ( خلاصۃ الوفاء 144/2) لئے ان کے اعتکاف میں بھی کوئی پریشانی نہیں تھی لہذا ان کو بھی اجازت دے دی گئی لیکن جب ان کو دیکھ کر حضرت زینب نے بھی خیمہ لگا دیا تو آپ نے ناگواری کا اظہار فرمایا اور تمام خیموں کو ہٹا دینے کا حکم دیا، کیونکہ مسجد میں ہر طرح کے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں اور حضرت زینب کو اپنی ضروریات کے لئے مسجد کے دروازے سے آنا جانا ہوگا جس سے ان کی بے توقیری ہوگی ۔(دیکھئے: المنہاج للنووی 69/8)
اور اس روایت کے پیش نظر بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ مذکورہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے لئے مسجد میں اعتکاف کرنا ممنوع اور اپنے گھروں میں اعتکاف کرنا درست ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
امام شافعی نے عورتوں کے لئے اس مسجد میں اعتکاف کو مکروہ قرار دیا ہے جس میں جماعت کے ساتھ نماز ہوتی ہو اور اس کی دلیل میں مذکورہ حدیث پیش کی ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لئے گھر کی مسجد کے علاوہ اعتکاف کرنا مکروہ ہے ، اس لئے کہ مسجد میں اعتکاف کی وجہ سے لوگوں کی نگاہ اس پر پڑتی رہےگی .(فتح الباری 275/4).
اور علامہ خطابی مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
یہ حدیث ایک طرح سے اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے لئے اپنے گھر میں اعتکاف کرنا جائز ہے (معالم السنن 139/2).
3___ حضرت عائشہ صدیقہ سے منقول ہے کہ :
ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشر الاواخر حتى توفاه الله ثم اعتكف ازواجه من بعده (صحيح بخاري: 2026).
نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی پھر آپ کے بعد ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ۔
اس حدیث سے بعض لوگوں نے عورت کے اعتکاف کے لئے مسجد کے شرط ہونے پر استدلال کیا ہے ( دیکھئے : عون المعبود 97/7).
لیکن اس حدیث سے بھی اس مسئلے پر استدلال درست نہیں ہے ، کیونکہ اگر حدیث کا یہ مفہوم تسلیم کرلیا جائے کہ ازواج مطہرات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسجد میں اعتکاف کیا تو اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے لئے مسجد میں اعتکاف کرنا جائز ہے ، اور حنفیہ بھی اس کے قائل ہیں کہ اگر پردے کی رعایت ممکن ہو اور کسی طرح کے فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو عورت کے لئے مسجد میں اعتکاف درست ہے ۔
گرچہ حدیث کا مذکورہ مفہوم ظاہر کے خلاف ہے کیونکہ بظاہر اس سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس سنت کو جاری رکھا اور اپنے گھروں میں اعتکاف کیا ، اس لئے کہ ان کے بارے میں یہ سوچا نہیں جاسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں انھیں جس چیز سے منع کیا ہو وہ اسے آپ کی وفات کے بعد کرنے لگیں ، چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں :
(ثم اعتكف ازواجه ) أي في بيوتهن لما سبق من عدم رضائهن بفعلهن و لذا قال الفقهاء يستحب للنساء ان يعتكفن في مكانهن (من بعده) أي من بعد موته احياء لسنته و إبقاء لطريقته( مرقاة المفاتيح1444/4).
(پھر ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ) یعنی اپنے گھروں میں ، کیونکہ گزر چکا ہے کہ مسجد میں ان کے اعتکاف سے نبی کریم ﷺ راضی نہیں تھے اور اسی لئے فقہاء نے کہا ہے کہ عورت کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے گھر میں اعتکاف کرے ، ( نبی کریم ﷺ کے بعد ). یعنی آپ کی وفات کےبعد آپ کی سنت کو باقی رکھنے اور آپ کے طریقے کو جاری رکھنے کے لئے۔
4___حضرت علی رض کہتے ہیں کہ مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف جائز نہیں ہے ۔ (لا اعتکاف الا فی مسجد جماعۃ ۔ مصنف عبدالرزاق 346/4)
5___حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں :
ان ابغض الامور الى الله البدع و ان من البدع الاعتكاف في المساجد التي في الدور . (السنن الكبرى 519/4)
اللہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ مبغوض چیز بدعت ہے ،اور گھروں کی مسجدوں میں اعتکاف کرنا بھی ایک بدعت ہے ۔
مذکورہ دونوں اقوال کی یہ مناسب تاویل کی جاسکتی ہے کہ اس سے مراد مردوں کا اعتکاف ہے کہ ان کے لئے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا بدعت اور ناجائز ہے، اور رہی خواتین تو ان کے لئے گھر کی وہ مخصوص جگہ مسجد ہے جہاں وہ نماز پڑھا کرتی ہیں اس لئے وہ ان فتووں سے مستثنیٰ ہونگی ۔(دیکھئے : المنھل العذب المورود 228/10، الفتح الربانی 242/10)
6___اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جس کے بارے میں صراحت ہے کہ وہ مسجد کے ساتھ خاص ہے، اور اس کا مقصد اس جگہ کی تعظیم ہے لہذا وہ اس جگہ کے ساتھ خاص ہوگا جو شرعا لائق تعظیم ہے ، اور گھر کی مسجد حقیقی مسجد نہیں ہے اس لئے اسے مسجد جیسی عظمت بھی حاصل نہیں ہے ، چنانچہ اسے فروخت کرنا اور وہاں پر ناپاک شخص اور حیض والی عورت کا سونا جائز ہے ۔(دیکھئے : المغنی 190/3)
اس دلیل کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ گھر کی مسجد کو گرچہ بعض احکام کے سلسلے میں مسجد کے درجے میں نہیں رکھا گیا ہے ،لیکن عورت کے اعتکاف کے حق میں وہ مسجد کے حکم میں ہے ،کیونکہ اسکے نماز کے معاملے میں اسے مسجد کا درجہ دیا گیا ہے ،اور اس کے لئے گھر میں تنہا نماز پڑھنا مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے سے بہتر ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے ، اور جب وہ نماز کے حق میں مسجد کی طرح ہے تو اعتکاف کے لئے بھی وہ مسجد کے حکم میں ہے، کیونکہ اعتکاف کی طرح سے اصلا نماز بھی مسجد کے ساتھ خاص ہے ۔( دیکھئے : المبسوط للسرخسی 119/3 ، البدائع 113/2)
حنفیہ وغیرہ کے دلائل:
1___ بلا شبہ اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جو مسجد ہی میں ادا ہوتی ہے ، مگر گھر میں نماز کے لئے مخصوص جگہ عورت کے لئے مسجد کے حکم میں ہے ، چنانچہ قرآن حکیم میں ان الفاظ میں جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے :
واركعوا مع الراكعين.(سورة البقرة :43،,تفسير قرطبي 348/1)
اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
یہ حکم عام ہے اور اس میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں مگر حدیث کے ذریعے عورتوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، اور ان کے لئے گھر میں نماز پڑھنے کو بہتر قرار دیا گیا ہے ، اور جب فرض نماز کے لئے ان کو مسجد کی حاضری سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے تو سنت اعتکاف کے لئے انھیں بدرجہ اولیٰ مستثنیٰ رکھا جائے گا۔
2___ اسی طرح سے حدیث میں جماعت میں شرکت کے لئے سخت تاکیدی حکم دیا گیا ہے ، یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ نے ان لوگوں کے گھروں میں آگ لگا دینا چاہا جو مسجد میں آکر جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے مگر اس خیال سے کہ عورتیں اور بچے بھی اس کےزد میں آجائیں گے آپ نے اپنے ارادے کو عملی شکل نہیں دی ۔( دیکھئے : صحیح بخاری : 644، صحیح مسلم : 651)
جماعت میں شمولیت کے لئے مردوں کے حق میں اس قدر سختی کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لئے ان کے گھر کو بہترین مسجد قرار دیا اور وہیں پر نماز کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کی ۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خیر مساجد النساء قعر بیوتھن۔( مسند احمد : 26584،صحیح الجامع الصغیر: 3387وغیرہ)
عورتوں کی سب سے بہترین مسجد ان کے گھر کے اندر کا ایک گوشہ ہے ۔
اور حضرت ام حمید ساعدیہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہوں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
قد علمت أنك تحبين الصلاة معي وصلاتك في بيتك خير لك من صلاتك في حجرتك ، وصلاتك في حجرتك خير لك من صلاتك في دارك و صلاتك في دارك خير من صلاتك في مسجد قومك و صلاتك في مسجد قومك خير من صلاتك في مسجدي .( صحيح ابن حبان :2217، صحيح ابن خزيمة : 1689، المحلى 133/3، تحقيق احمد شاكر )
مجھے معلوم ہے کہ تم میری اقتداء میں نماز پڑھنے کی چاہت رکھتی ہو مگر تمہارے لئے گھر کے چھوٹے کمرے میں نماز پڑھنا بڑے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور بڑے کمرے میں نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک عورت امام الانبیاء کی امامت میں نماز پڑھنے کی اپنی دلی خواہش ظاہر کرتی ہے اور ایک ایسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آرزو رکھتی ہے جہاں ایک نماز کا ثواب ہزار گنا ہوجاتا ہے مگر اس کے باوجود نبی کریم ﷺ انھیں اپنے گھر ایک گوشے میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تمہارے لئے وہاں نماز پڑھنا میری مسجد میں اور میری اقتداء میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تمہیں گھر بیٹھے میری اقتداء اور میری مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب مل جائے گا ۔(اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں جن میں عورت کے لئے گھر میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا گیا ، جسے میں نے مسجد میں خواتین کی نماز سے متعلق اپنے مضمون میں نقل کیا ہے )
اور جب نماز کا یہ حکم ہے تو اعتکاف کا بدرجہ اولیٰ یہی حکم ہونا چاہئے، کیونکہ نماز کے لئے چند گھڑی مسجد میں رہنا ہوتا ہے اور اعتکاف کی حالت میں رات و دن وہیں قیام کرنا ہوتا ہے جہاں ہر طرح کے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور ایک عورت کے لئے بڑا دشوار ہوگا کہ وہ ہر وقت چھپ کر بیٹھی رہے ، اس لئے کسی بھی اعتبار سے اس کے لئے مسجد میں اعتکاف مناسب نہیں ہے۔
3___ عہد نبوی میں عورتوں کو نماز کے لئے مسجد میں آنے کی اجازت تھی ، مگر بعد میں حالات کی تبدیلی کو دیکھ حضرت عائشہ طاہرہ کہا کرتی تھیں اگر رسول اللہ ﷺ اس حالت کو دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیتے ، روایت کے الفاظ یہ ہیں :
لو ان رسول الله صلى عليه وسلم راى ما احدث النساء لمنعهن المسجد كما منعت نساء بني إسرائيل.(صحيح مسلم : 445، صحيح بخاري: 1922وغيره )
رسول اللہ ﷺ اگر عورتوں کی ان نئی نئی حرکتوں کو دیکھ لیتے تو انھیں مسجد میں آنے سے روک دیتے جیسا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔
مذکورہ حدیث عام ہے اور نماز و اعتکاف ہر ایک کو شامل ہے ، پس نماز کی طرح سے اعتکاف کے لئے بھی مسجد آنے میں ان کی حوصلہ شکنی کی جائے گی ۔
مذکورہ دلائل کے سلسلے میں علامہ ابن عربی مالکی کہتے ہیں :
عورت کے لئے اعتکاف کی جگہ اس کے گھر کی مسجد ہے ، کیونکہ نماز کے حق میں وہ جگہ اس کے لئے شرعاً مسجد ہے ، اور یہ حد درجہ مضبوط دلیل ہے اگر خیمے والی حدیث نہ ہوتی ۔
لیکن ظاہر ہے کہ ازواج مطہرات کی طرف سے اعتکاف کے لئے مسجد میں خیمے لگانے کی مذکورہ حدیث سے محض مسجد میں خواتین کے اعتکاف کا جواز ثابت ہوتا ہے ، شرط اور وجوب نہیں ۔(دیکھئے : اوجز المسالک 464/5) لھذا مذکورہ دلائل کی قوت اپنی جگہ برقرار ہے اور ان سے ان کے لئے گھر میں اعتکاف کا جواز بلکہ استحباب ثابت ہے ۔
4___ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے :
ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشر الاواخر من رمضان حتى توفاه الله ثم اعتكف ازواجه من بعد .(صحيح بخاري : 1912 وغيره )
نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی اور پھر آپ کے بعد ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ۔
اس حدیث کی شرح میں متعدد شارحین نے لکھا ہے کہ ازواج مطہرات آنحضرت کی وفات کے بعد اپنے گھروں میں اعتکاف کیا کرتی تھیں ۔ (دیکھئے: مرقاۃ المفاتیح 1446/4، فتح المنعم شرح صحیح مسلم 72/5، از ڈاکٹر موسی شاہین ) اور مشہور اہل حدیث عالم علامہ وحید الزماں حیدرآبادی مذکورہ حدیث کا ان الفاظ میں ترجمہ کیا ہے :
پھر اعتکاف کیا حضرت کی بیویوں نے یعنی اپنے گھروں میں (ترجمہ سنن ابوداؤد 275/2)
اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف کرنے سے انھیں منع کرچکے تھے ۔
اور اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اعتکاف کی عبادت مردوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ دونوں کے حق میں رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف مسنون ہے ، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صحابیات میں سے کسی کے بارے میں مسجد میں اعتکاف کرنا ثابت نہیں ہے ، تو کیا یہ سوچا جاسکتا ہے کہ انھوں نے رمضان کے مہینے کی اس خصوصی اور اہم عبادت سے پہلوتہی اختیار کی ؟ ہرگز نہیں ۔ بلکہ جس طرح سے وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھتی تھیں اسی طرح سے اعتکاف بھی کیا کرتی تھیں اور اسی وجہ سے اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔
حاصل یہ ہے کہ شریعت کے عمومی مزاج کا تقاضا ہے کہ جس طرح سے نماز کے لئے گھر کے ایک حصے کو مسجد کا درجہ دیا گیا ہے اسی طرح سے اعتکاف کے حق میں بھی اسے مسجد کے حکم میں رکھا جائے اور اعتکاف جیسی رمضان کی خصوصی عبادت اور روحانیت کے ارتقاء کے اہم ذریعے اور اللہ سے لو لگانے کی اہم گھڑی کا موقع خواتین کو بھی فراہم کیا جائے تاکہ وہ بھی دنیاوی مشاغل سے کنارہ کش ہوکر ایمان اور بندگی کی تجدید کرسکیں ، اور اپنے پروردگار سے تعلق استوار کرنے کے لئے بالکل یکسو ہوجائیں اور اس کے لئے سب سے بہتر جگہ مسجد ہے لیکن وہ ایک عمومی جگہ ہے جہاں کسی بھی وقت کسی کو آنے سے روکا نہیں جاسکتا ہے جس کی وجہ سے اس کی عصمت و عفت کو خطرہ ہوگا اور شرم و حیا کو طاق پر رکھ دینا ہوگا اس لئے اس کے گھر کے ایک گوشے کو نماز کی طرح سے اعتکاف کے لئے بھی مسجد کا حکم دے دیا گیا ہے۔