قبولیتِ دُعا کے حیرت انگیز واقعات
تالیف:
مُسَلَّم عبدالعزیز الزامل
ترجمہ وتعلیق:
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی
ناشر:
المنار پبلشنگ ہاؤس
N-5B-ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی ۱۱۰۰۲۵
AL-MANAR PUBLISHING HOUSE
N-5B, Abul Fazal Enclave, Jamia Nagar, New Delhi-110025
نام کتاب : قبولیتِ دُعا کے حیرت انگیز واقعات
تألیف : مُسَلَّم عبدالعزیز الزامل
ترجمہ وتعلیق : مولانا ولی اللہ مجید قاسمی
طبع اول : جولائی ۲۰۱۹ء
صفحات : ۱۴۴
ناشر : المنار پبلشنگ ہاؤس، N-5B، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی 25
khalid.azmi64@gmail.com
- ملنے کے پتے:
- المنار پبلشنگ ہاؤس، N-27، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی 110025
- ادارۂ علمیہ جامعۃ الفلاح، بلریاگنج، اعظم گڑھ، یوپی276121
- جامعۃ القاسم دار العلوم الاسلامیہ، مدھوبنی وایا پرتاپ گنج، ضلع سپول 852125، (بہار)
- ایجوکیشنل بک ہاؤس، نزد ایس بی آئی، بلریاگنج، اعظم گڑھ، یوپی276121
فہرستِ مضامین
۳-اگر دن اور تاریخ مقرر کرتے تو تعیین میں اختلاف ہوجاتا 19
۹-مسافر کے ہاتھ نئے گیرج کا افتتاح 38
۱۴-اپاہج کے علاج سے ڈاکٹروں کی ناکامی 52
۱۵-بیوی مصر میں اور شوہر سعودیہ میں 58
۱۸-تنگدست کے ذریعے تنگدست کی مدد 66
دعا میں سادگی اور بے تکلّفی 103
مسلمانوں کے لیے دعا کی فضیلت 105
خاتم النبیین اور سید المرسلین کا طرزِ عمل 115
۴- قبلہ کی طرف رخ کرنا اور دونوں ہاتھوں کو اٹھانا 122
۹- خشوع وخضوع کے ساتھ دل لگاکر دعا کرنا 129
قبولیتِ دعا کے اوقات واحوال 133
۷- صیام وسفر کی حالت میں دعا، اور مظلوم کی بددعا، اور باپ کی دعا بیٹے کے لیے قبول ہوتی ہے 135
عرضِ مترجم
پروردگار اور بندے کے درمیان ربط وتعلق کا سب سے روشن عنوان دعا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ”عبدِ کامل“ محمد مصطفیٰ ﷺ کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو دعا سے عبارت ہے، اور اسی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے سب سے آخری کتابِ ہدایت کی ابتدا وانتہا دعا سے کی گئی ہے کہ سورہ فاتحہ بھی دعا پر مشتمل ہے اور سورہ ناس بھی۔
اپنے خالق ومالک اور پالنہار کے سامنے بے بس اور لاچار بچے کی طرح بے چارگی ودرماندگی کی تصویر، نیاز مندی اور خود سپردگی کا پیکر اور بے کسی وبے بسی کا اقرارِ مجسّم بن جانے کا نام دعا ہے، اور درحقیقت یہی بندگی ہے، اور پروردگار کو بندے کی یہ ادا بہت پسند ہے۔
اپنی طاقت پر غرور، اسباب ووسائل پر بھروسہ، اپنی ہستی کا پندار، ربِ کائنات سے بے نیازی کا اظہار اور اس کے سامنے دستِ طلب دراز کرنے سے انکار کا دوسرا نام کفر ہے، اور انسان کی یہ روش خالق ومالک کی شدید ناراضگی کا سبب ہے۔ اس کا فرمان ہے:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِيْنَ۶۰ۧ ﴾ [سورۃ غافر:۶۰]
”اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھ سے دعا مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بے شک جو لوگ تکبر کی وجہ سے میری عبادت سے کتراتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہوکر دوزخ میں داخل ہوں گے۔“
پہلی قسم کے لوگ کبھی بدحال اور پریشان نہیں ہوتے، کیونکہ ان کے پاس ہر مصیبت کا علاج اور ہر مشکل کا حل موجود ہے، وہ اپنی ہر ضرورت کو اپنے پروردگار کے سامنے رکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور کبھی اس کے دَر سے ناکام واپس نہیں ہوتے۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے بہت سے برگزیدہ لوگوں کا تذکرہ خود قرآن میں کیا ہے جنہوں نے دعا کے ذریعے اپنی وہ مراد بھی حاصل کر لی جو اسباب کے درجے میں ناممکن تھی اور جس کے بارے میں سوچ کر انسانی عقل حیران وسرگرداں ہے۔ اور اس سے روشنی پا کر متعدد علماء نے قبولیتِ دعا کے حیرت انگیز، عبرت خیز اور نصیحت ریز واقعات پر کتابیں لکھی ہیں، کیونکہ ان کے ذریعے پریشان حال کی تسلی ہوتی ہے، اور دعا کی قوت اور اللہ کے لطف وکرم کا مشاہدہ ہوتا ہے جو ایمان ویقین میں اضافے کا سبب ہے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی «عجائب الدعاء: قصص واقعية معاصرة» بھی ہے جس میں معروف کویتی عالم مُسَلَّم عبد العزیز الزامل نے موجودہ زمانے کے بعض واقعات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے، اور رفیقِ محترم جناب محمد خالد اعظمی کی خواہش پر اسے اُردو میں منتقل کیا گیا ہے۔ کتاب کا انداز نہایت دلچسپ اور مؤثر ہے، اور واقعات کے ساتھ عبرت خیز اور سبق آموز پہلو کو ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے، اور آخر میں دعا کی فضیلت، اہمیت اور آداب وشرائط وغیرہ پر اختصار کے ساتھ جامع انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
میں نے ترجمے کی زبان کو آسان سے آسان تر رکھنے کی کوشش کی ہے، اور اُردو قارئین کی رعایت کرتے ہوئے بعض اضافے بھی کیے ہیں، اسی طرح سے بعض حوالہ جات کی تخریج بھی کی گئی ہے اور ان سب کے آخر میں ”وامق“ لکھ دیا ہے جو میرے نام کا مخفف ہے۔
برادرم مولانا عبید اللہ طاہر فلاحی مدنی نے بڑی محنت اور دقتِ نظر کے ساتھ مراجعت کی ہے اور حوالہ جات کی تخریج میں تعاون کیا ہے اور احادیث کی صحت وضعف کا حکم لگایا ہے، میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے۔ اور رفیقِ محترم جناب محمد خالد اعظمی کا بھی شکرگزار ہوں جو اُردو قارئین کی خاطر مفید کتابوں کے ترجمے اور اس کی نشر واشاعت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اصل کتاب کی طرح سے ترجمے کو بھی شرفِ قبولیت سے نوازے، آمین، والحمد للہ رب العالمین۔
ولی اللہ مجید قاسمی
جامعۃ الفلاح، بلریاگنج
یکم جولائی ۲۰۱۹ء
پیشِ لفظ
تمام تعریف اور شکر اس ذاتِ واحد کے لیے ہے جو اپنی مخلوقات پر نہایت مہربان اور اپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرنے والا اور اپنے چاہنے والوں سے بہت زیادہ قریب ہے، جس سے مصیبت کے وقت فریاد کی جاتی ہے اور اس سے مدد کی امید کی جاتی ہے، جس سے کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ہے، اور وہ سننے اور جاننے والا ہے۔
ہم اس سے مغفرت کی دُعا کرتے ہیں اور اس سے ہدایت اور مدد طلب کرتے ہیں، ہم اللہ سے اپنی ذات اور برے اعمال کےشر سے پناہ چاہتے ہیں کہ جسے وہ ہدایت دے وہی راہ یاب ہے اور جسے وہ ہدایت نہ دے تو پھر اس کا کوئی رہنما اور مددگار نہیں ہے۔
ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی ساجھی نہیں۔ اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، انہوں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا، اور انہیں جو امانت دی گئی تھی اسے انہوں نے امت کے حوالے کردی، اور اس میں انہوں نے خیر خواہی کا حق ادا کردیا، اور اللہ کے پیغام کو پہنچانے میں انہوں نے اپنی پوری کوشش صرف کردی، اور اسی حال میں انہوں نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
آپ ﷺ نے اس بات کی ترغیب دی کہ ہر موقع پر اللہ کو پکارا جائے، اس سے مدد طلب کی جائے اور اس سے فریاد کی جائے، کیونکہ اسے پکارنا اور اس سے دعا کرنا ہی بندگی کی روح ہے۔ یہی پرہیز گاروں اور نیکو کاروں کی عبادت ہے جو بھلائی اور نیکی کے کاموں کی طرف سے تیزی سے لپکنے والے اور دن ورات محبت وخشیت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنے رب کو پکارنے والے ہیں، اور دعا ہی پریشان حال، بے کس اور مظلوم کے لیے نجات کی رسّی ہے۔
اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان ہر حال میں اللہ کا محتاج ہے اور اس کا کوئی بھی کام اس کی مدد کے بغیر پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا ہے، اور وہ پلک جھپکنے کے بقدر بھی اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے، وہ سراپا محتاج اور نیاز مند ہے، اور اللہ بالکل بے نیاز ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
﴿يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللہِ۰ۚ وَاللہُ ہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ۱۵ اِنْ يَّشَاْ يُذْہِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ۱۶ۚ وَمَا ذٰلِكَ عَلَي اللہِ بِعَزِيْزٍ۱۷ ﴾
[سورۃ فاطر:۱۵-۱۷]
”اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز اور بڑی خوبیوں والے ہیں، اگر اللہ چاہیں تو تم کو ختم کردیں اور ایک نئی مخلوق پیدا کردیں، اور یہ اللہ کے لیے کچھ دشوار نہیں ہے۔“
اوراللہ تبارک وتعالیٰ انکار کرنے والوں سے بے نیازہیں اور شکر کرنے والوں کو انعام سے نوازتے ہیں، اور جو لوگ اس کی بارگاہ میں حاضری دیتے رہتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں، اور وہ بندوں کی توبہ اور استغفار سے خوش ہوتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے ان پر فخر کا اظہار کرتے ہیں، اور یہ سب کچھ محض ان کا کرم، ان کی نوازش اور احسان ہے۔
دعا کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں اور حدیث کے ذخائر کا مطالعہ کرنے والوں کے سامنے قبولیتِ دُعا کے ایسے واقعات سامنے آئیں گے جس کو دیکھ کر عقل دنگ اور حیران رہ جائے گی جیسے کہ حضرت ابراہیم کے واقعے میں اللہ تعالیٰ نے آگ کو گل وگلزار بنا دیا اور بھڑکتے ہوئے شعلے ٹھنڈے پڑگئے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعا کی توفیق ایک بہت بڑی نوازش اور قیمتی تحفہ ہے جو زمان ومکان کی حد بندیوں سے آزاد ہے، اور ہر حال میں بارگاہِ الٰہی میں دستک دیتی ہے۔
ہمارے بعض مشائخ، ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ قبولیتِ دُعا کے سلسلے میں بعض حیرت انگیز اور تعجب خیز واقعات پیش آئے جن میں آزمائشوں اور آلام ومصائب میں شکار لوگوں کے لیے بڑی عبرت ونصیحت ہے۔ اس لیے خیال ہوا کہ ان واقعات کو کتابی شکل دے دی جائے تاکہ ان لوگوں کو روشنی ملے جن کے سامنے راستے بند اور تاریک ہیں اور ان کے لیے زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہوگئی ہے اور وہ حیران وسرگرداں ہیں اور انہیں یہ احساس ہوچکا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی ٹھکانہ اور جائے پناہ نہیں ہے، تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اگر وہ سچے دل سے اللہ کو پکاریں گے اور زمین وآسمان کے رب سے رشتہ استوار کر لیں گے اور اس سے اپنے ربط وتعلق کو مضبوط کرلیں گے تو وہ پلک جھپکنے کے بقدر وقت میں ان کی مراد پوری کردے گا، کیوں کہ اس نے قبولیتِ دُعا کا وعدہ کیا ہے، اور اس کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوتا ہے:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِيْنَ۶۰ۧ ﴾ [سورۃ غافر:۶۰]
”اور تمہارے پروردگار کا فرمان ہے: مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بے شک جو لوگ تکبر کی بنا پر میری عبادت سے کتراتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہوکر دوزخ میں داخل ہوں گے۔“
اور بعض مشکلات اور رکاوٹ کے باوجود دُعا سے متعلق یہ واقعات اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں شائع کیے جارہے ہیں کہ :
﴿وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۱۱ۧ ﴾ [سورۃ الضحیٰ:۱۱]
”اور اپنے پروردگار کے انعامات کو بیان کرتے رہو۔“
تو اللہ کی نعمت کے اظہار کے لیے قبولیتِ دُعا کے واقعات بیان کیے جارہے ہیں جن میں بعض جگہوں پر کچھ لوگوں کے ناموں کی صراحت ہوگی اور بعض لوگوں کے سلسلے میں اشارے کیے جائیں گے تاکہ اظہار اور اخفاء کے درمیان توازن برقرار رہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِىَ۰ۚ وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۰ۭ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۲۷۱ ﴾
[سورۃ البقرۃ:۲۷۱]
”اگر تم صدقہ ظاہر کرکے دو تب بھی اچھی بات ہے اور اگر چھپا کر دو اور فقیروں کے حوالے کردو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے، نیز اللہ اس کو تمہارے گناہوں کے لیے کفارہ بھی بنا دیں گے اور اللہ تمہارے کاموں سے باخبر ہیں۔“
کچھ نمونے کے واقعات اس لیے ذکر کیے جارہے ہیں تاکہ اس سے ان لوگوں کو تسلی ہو جو مصائب وآلام میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک کمتر اور حقیر کی کوشش ہے، اس میں جو کچھ صحیح ہو وہ اللہ کی طرف سے ہے، اور جو کچھ غلطی اور بھول چوک کی وجہ سے نوکِ قلم پر آگیا ہو وہ میری اور شیطان کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان قصوں کو خیر اور بھلائی کے کاموں کے لیے مشعلِ راہ بنائے اور آخرت کے لیے توشہ جس دن کہ نہ مال واسباب کام آئیں گے اور نہ اولاد وخاندان، مگر یہ کہ کوئی اللہ کے پاس قلبِ سلیم لے کر آئے، اور اللہ ہی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والا ہے۔
مُسَلَّم عبد العزیز الزامل
کویت
جون ۲۰۰۷ء
واقعات
۱-شیر کے کچھار میں
ڈاکٹر عبدالرحمن السمیطؒ() کہتے ہیں اللہ کی نوازش اور قبولیتِ دُعا کاایک حیرت انگیز واقعہ میرے ساتھ پیش آیا، میں اس واقعے کو جب بھی یاد کرتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور میرے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے اور میرا دل اور زبان اللہ کی حمد وثنا اوراس کے کرم ونوازش کے شکریے سے تر ہوجاتی ہے کہ اس نےمیرے لختِ جگر کو اس وحشی جانور سے محفوظ رکھا جو بھوکا ہونے کی حالت میں رحم کرنا جانتا ہی نہیں۔
افریقہ کے دعوتی اسفار میں میرے بچے ہمیشہ میرے ساتھ رہنے کی ضد کیا کرتے تھے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ان کو ساتھ لے جانااپنے آپ کو پریشانی اور خطرات کے حوالے کرنا ہے، لیکن میں ان کی ضد کے آگے یہ سوچ کر ہتھیار ڈال دیتا تھا کہ ساتھ رہنے کی وجہ سے ان میں بھی دعوتی جذبہ پیدا ہوگا اور وہ اس راہ کی محنت ومشقت کے خوگر ہوجائیں گے اور میرے بعد اس کام کو اچھی طرح سے سنبھال سکیں گے۔
ایک دن ان کے ساتھ ایک افریقی قبیلے میں جارہا تھا جس کا راستہ ایک جنگل سے ہوکر گزرتا تھا جہاں کثرت سے خونخوار جانور پائے جاتے ہیں۔ اچانک راستے میں گاڑی خراب ہوگئی، میرا لڑکا جس کی عمردس سال تھی گاڑی سے اترا اور سڑک پر لگی ہوئی خاردار رکاوٹ کو پار کرکے جنگل میں داخل ہوگیا اور پھر نظر اٹھا کر دیکھا تو اس کے سامنے چند میٹر کی دوری پر شیر کھڑا تھا، میرا لڑکا خوف اور دہشت کی وجہ سے بالکل بے حس وحرکت اپنی جگہ پر جم گیا،اور جب میری نظر پڑی تو میں بھی سکتے میں آگیا، مگر فوراً ہی مجھے یہ آیت یاد آگئی:
﴿اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۶۲ۭ ﴾ [سورۃ النمل:۶۲]
”بھلا کون ہے کہ جب کوئی بے کس پکارتا ہے تو وہ اس کی فریاد کو سنتا ہے اور مصیبت کو دور کرتا ہے اور تم کو زمین پر گزشتہ لوگوں کی جگہ آباد کرتا ہے، کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے؟ مگر تم بہت کم دھیان دیتے ہو۔“
اور پھرمیں نے پروردگار کے حضور رونا اور گڑگڑانا شروع کردیا کہ وہ میرے نورِ چشم کو شیر سے بچالے اور اس بھنور سے ہمیں نجات دے، اور دعا کرنے کے بعد ایک اضطراری کیفیت کے ساتھ میں بھی شیر کے کچھار میں داخل ہوگیا اور اپنے بچے کے ہاتھ کو پکڑ کر آرام سے چلتے ہوئے وہاں سے باہر آگیا، اور اللہ کی مدد، حفاظت اور عنایت کے سائے میں ہم لوگ اس درندے سے بچ کر آگئے، ایسا لگ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے اور اس کے درمیان کوئی رکاوٹ کھڑی کردی گئی ہو۔
اس واقعے سے میرے اس یقین میں مزید پختگی اور قوت آگئی کہ پروردگار بے کس وبے نوا کی فریاد کو ضرور سنتے ہیں اور وہ بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، اور انہوں نے خود فرمایا ہے کہ
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ ﴾ [سورۃ غافر:۶۰]
”اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھے پکارو میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔“
سوال یہ ہے کہ وہ کون سی ذات تھی جس نے بچے پر سکینت واطمینان کی کیفیت طاری کی اور وہ بہادری کے ساتھ شیر کے سامنے ڈٹا رہا، اور وہ کون سی ہستی تھی جس نے شیر کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کردیا اس لیے وہ نہ تو بچے پر حملہ آور ہوا اور نہ اس کے باپ پر؟ وہ وہی ہے جو زمین وآسمان کا مالک ہے اور اس کے ہاتھ میں ہر ایک کا دل ہے اور جب وہ کہتا ہے: «كُنْ» (ہوجا)، تو ہوجاتا ہے۔
۲-غیب کی کنجیاں
مشہور کویتی مفکر اور داعی شیخ احمد القطان کہتے ہیں:
ہائی وے پر میں اپنی گاڑی چلا رہا تھا، میرے ساتھ میری اہلیہ اور چھوٹا بچہ عبداللہ تھا جو راستے بھر کھیل کود کرتا رہا، اچانک ایک آواز آئی جس پر ہم نے کوئی توجہ نہیں دی، لیکن جب رات کی تاریکی میں گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ بچے نے گھر کی چابی گاڑی سے باہر پھینک دی تھی اور وہ آواز اس کے گرنے کی تھی، اور ہمارے پاس اس کے علاوہ دوسری کنجی نہیں تھی، اس لیے ہم گھر کے باہر حیران وپریشان کھڑے تھے کہ اب کیا کریں۔ اسی دوران قریب کی مسجد سے اذان کی آواز آئی اور مجھے یاد آیا کہ اس وقت دعا قبول ہوتی ہے، چنانچہ میں نے اذان کے بعد یہ دعا کی:اے اللہ ہمیں اس چابی کا بدل عنایت کر تاکہ ہم اپنے گھر میں رات گزار سکیں۔ میری اہلیہ کو اس دعا پر بڑا تعجب ہوا اور کہنے لگیں: شیخ! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہماری اکلوتی چابی گم ہوچکی ہے، اور میں نے آپ سے بارہا کہا تھا کہ ڈبلی کیٹ چابی بنوالیں لیکن آپ نے توجہ نہیں دی، اب ہم کیا کریں؟ کہاں رات گزاریں؟ میں نے کہا: میں نے اس ہستی کے حضور درخواست پیش کردی ہے جس کے ہاتھ میں غیب کی کنجیاں ہیں جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور اس کے بہتر ناموں میں سے ایک نام ’’الفتاح‘‘ اور دوسرا نام ’’العلیم‘‘ ہے، اس لیے وہ کنجی کی جگہ کو بخوبی جانتا ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے:
﴿وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ۰ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۰ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا يَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ۵۹ ﴾ [سورۃ الأنعام:۵۹]
”اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، اس کے سوا کسی کو غیب کا علم نہیں، وہ خشکی اور دریا کی تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے، ایک پتّہ بھی گرتا ہے تو وہ اس کے علم میں ہے، زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ نہیں پڑتا ہے اور نہ کوئی تر اور خشک چیز مگر وہ روشن کتاب (لوحِ محفوظ) میں موجود ہے۔“
وہ دروازہ کھولنے پر قادر ہے، اس لیے تم خواہ مخواہ اِدھر اُدھر کی بات سوچ کر پریشان مت ہو، آؤ ہم مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور نماز کے بعد إن شاء اللہ کوئی شکل پیدا ہوجائے گی۔
شیخ احمد کہتے ہیں کہ مسجد میں جاکر تحیۃ المسجد پڑھ رہا تھا کہ اچانک میری نگاہ ایک رحل پر پڑی جس پر ایک کنجی رکھی ہوئی تھی جو بالکل ہمارے گھر کی کنجی کی طرح تھی، میں اسے تقریباً ایک سال سے اسی جگہ دیکھ رہا تھا، گویا کہ اس کا کوئی مالک نہیں تھا، میرے دل میں خیال آیا کہ اس کے ذریعے کوشش کی جائے۔ نماز مکمل کرنے کے بعد اسے لے کر گھر آیا اور بسم اللہ الفتاح العلیم کہہ کر میں نے اسے تالے میں لگایا۔ ایک حیرت انگیز اور فرحت بخش منظر سامنے تھا، تالا کھل گیا۔ میں نےاپنی بیوی سے کہا: تم نے اللہ کے ناموں اور صفات کی عظمت کا مشاہدہ کیا؟ اللہ تعالیٰ نے یونہی اور بلا وجہ نہیں بتلایا ہے کہ اس کے نناوے نام ہیں، بلکہ اس لیے ہمیں سکھایا ہے تاکہ اس کے ذریعے دعا کریں۔
اس حادثے کو سالوں گزر چکے ہیں اور اس کے بعد سے ہمارا معمول رہا ہے کہ ہم اللہ کے نام وصفات کے ذریعے اپنے ہر معاملے میں دعا کرتے ہیں، اور ہماری دعا قبول ہوتی ہے۔ یہ حادثہ ہمارے لیے اللہ کی طرف سے ایک بڑے خیر کا ذریعہ بن گیا کہ اس نے ہمارے لیے گھر کے دروازے سے زیادہ اہم دروازہ کھول رکھا ہے اور وہ ہے ’’دعا‘‘ جس کے بارے میں حضرت عمر کہتے ہیں: مجھے اس بات کا غم نہیں ہے کہ میری دعا قبول ہوتی ہے یا نہیں، لیکن اس بات کی فکر ضرور رہتی ہے کہ دعا کی توفیق ملتی ہے یا نہیں، اگر دعا کی توفیق مل گئی تو قبولیت کی ضمانت ہے۔ (ختم)
اس قصے میں عقل مندوں کے لیے بڑی عبرت ونصیحت ہے، اور ان لوگوں کے لیے بڑا سبق ہے جو مادی اسباب پر نگاہ رکھتے ہیں اور مُسَبِّبُ الأسباب کو بھول جاتے ہیں، حالانکہ اگر کسی کو دعا پر یقین ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے زمین وآسمان کے خزانوں کو کھول دیں گے۔
غور کرنا چاہیے کہ کیسے اور کیوں وہ کنجی ایک سال تک اسی جگہ پڑی رہ گئی اور کسی نے اسے ہاتھ نہیں لگایا؟ اور کیسے وہ کنجی شیخ کے گھر کے تالے میں لگ گئی؟ اور کس نے اُن لوگوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ اسی مسجد میں جاکر نماز ادا کریں اور کسی دوسری مسجد میں نہ جائیں؟ اور کس نے انہیں آمادہ کیا کہ وہ اسی جگہ جاکر نماز پڑھیں جہاں کنجی رکھی ہوئی ہے؟ کیا یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقی طور پر پیش آگیا؟ ہرگز نہیں۔
۳-اگر دن اور تاریخ مقرر کرتے تو تعیین میں اختلاف ہوجاتا
شیخ احمد القطان کہتے ہیں کہ ۱۹۸۵ء میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ پہنچا، اور منیٰ میں اپنے خیموں میں سامان رکھنے کے بعد ہمیں یاد آیا کہ ہمارے احباب کا ایک قافلہ جو ۳۵۰ نوجوانوں پر مشتمل ہے بس اور چار پہیہ گاڑی کے ذریعے مکہ پہنچنے والا ہوگا اور ہمیں ان کے استقبال کے لیے جانا ہے۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ میرے دل میں اس وقت کا الہام کردے جب وہ منیٰ پہنچنے والے ہوں تاکہ ان کو ان کےخیموں تک رہنمائی کا ثواب حاصل کرلوں۔ میرے دل میں خیال آیا کہ وہ قافلہ رات میں دو بجے آئے گا، میں نے اپنے ساتھیوں کو اس کی اطلاع دی، میں نے کہا کہ اللہ کے سوا کسی کو غیب کے بارے میں معلوم نہیں ہے، لیکن میں نے اللہ سے دعا کی تھی جس کے نتیجے میں اللہ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ وہ دو بجے رات میں منیٰ پہنچیں گے، پھر میں نے ان سے کہا کہ ان کے استقبال کے لیے آج رات میرے ساتھ کون رہے گا؟ خالد عبد اللطیف نے کہا کہ میں، اس کے بعد ہم لوگ سوگئے۔ دو بجنے میں جب پندرہ منٹ باقی تھا تو اللہ تعالیٰ نے میری آنکھ کھول دی، اٹھا، وضو کیا اور اپنے ساتھی کو جگایا اور پھر ہم منیٰ کے راستوں میں نکل پڑے، جہاں بھول بھلیاں کی طرح بے شمار راستے تھے، اور ہر طرف ہزاروں انسانوں کا مجمع تھا، میں نے خالد سے کہا: آؤ ہم سورہ مؤمنون کی آخری آیتیں پڑھتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش کو وادیٔ نخلہ بھیجتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ غنیمت بھی حاصل کرلو اور محفوظ بھی رہو تو سورہ مؤمنون کی ان آخری آیتوں کو ضرور پڑھو:
﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۱۱۵ فَتَعٰلَى اللہُ الْمَلِكُ الْحَقُّ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ۱۱۶ وَمَنْ يَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۰ۙلَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ۰ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۱۱۷ وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَ۱۱۸ۧ ﴾ [سورۃ المؤمنون:۱۱۵-۱۱۸]
”کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟ پس بالا وبرتر ہے اللہ، پادشاہِ حقیقی، اُس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، مالک ہے عرشِ بزرگ کا۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے گا – جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں – تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے، ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ اے محمد! کہو: میرے رب درگزر فرما، اور رحم کر، اور تو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے۔“
میں نے اپنے ساتھی سے کہا آؤ اس سورہ کو پڑھیں، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے ملا دے، اور تاکید کے ساتھ کہا کہ دعا پر یقین رکھو اس لیے کہ حدیث میں ہے کہ قبولیت کے یقین کے ساتھ دعا کرو، اور جونہی ہم سورہ مؤمنون کی آخری آیتوں کے پڑھنے سے فارغ ہوئے کہ دیکھا کہ ہمارے ساتھیوں کی سواری ہمارے سامنے ہے، اور ہمیں دیکھ کر انہیں جو خوشی حاصل ہوئی وہ ناقابلِ بیان ہے۔ وہ لوگ اپنی گاڑیوں سے اترے اور علیک سلیک کے بعد کہنے لگے کہ آپ سے اچانک ملاقات کی وجہ سے ہمیں جو فرحت وسرور حاصل ہوا ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے، ہم ایک گھنٹے سے منیٰ میں اِدھر اُدھر بھٹک رہے تھے لیکن اپنے خیمے تک نہیں پہنچے، اور ہم نے طے کرلیا تھا کہ اب یہ ہمارا آخری راستہ ہے، اگر اس کے ذریعے منزلِ مقصود تک پہنچ گئے تو ٹھیک ہے ورنہ مکہ واپس چلے جائیں گے، وہاں رات گزار کر پھر دوسرے دن آپ کو تلاش کریں گے۔
شیخ احمد کہتے ہیں کہ میں نے انہیں دعا کی قبولیت اور سورہ مؤمنون کے پڑھنے کا قصہ سنایا تو ان نوجوانوں نے اسے یاد کرلیا اور ہمیشہ اپنی دعا میں اس پر عمل کرتے رہے۔
میں نے شیخ احمد القطان کے اس واقعے کو جب سنا اور غور کیا تو اپنے آپ سے سوال کیا: کون ہے وہ ذات جس نے شیخ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ منیٰ میں رات کے فلاں وقت اور فلاں راستے سے پہنچیں گے؟ اور کیسے شیخ اور ان کے ساتھی ایک جگہ اور ایک ہی وقت میں جمع ہوگئے؟ حالانکہ وہ حج کا زمانہ تھا، جہاں انسانوں کا ایک سیلاب تھا،انسانی سروں کا سمندر اور بے شمار راستے اور گلیاں تھیں، یقینی طور پر یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ تھا جو ایسی صفات وکمالات کا حامل ہے جس کا عقلِ انسانی تصور نہیں کرسکتی ہے۔ ایک دیہاتی نے اس کی صفات کو ان الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دیہاتی کے پاس سے گزرے جو دورانِ صلاۃ اِن الفاظ میں دعا کررہا تھا:
”اے وہ ذات جو نگاہوں سے پوشیدہ ہے، جو خیال وگمان میں سما نہیں سکتا ہے، اور ماہر سے ماہر شخص بھی اس کی صفات بیان نہیں کرسکتا ہے، اور جس میں حالات اور زمانے کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے، اور نہ وہ کسی حادثے اور مصیبت سے دوچار ہوسکتا ہے۔ وہ پہاڑکے وزن سے، سمندر میں پانی کی مقدار سے اور بارش کے قطرے کی تعداد سے واقف ہے، وہ درخت کے پتوں کی تعداد سے باخبر ہے اور اس بات سے آگاہ ہے کہ زمین وآسمان میں موجود چیزوں کی تعداد اور مقدار کیا ہے، اس سے نہ تو آسمان کا کوئی حصہ پوشیدہ ہے اور نہ زمین کا کوئی ٹکڑا، اور نہ سمندر کی تہہ میں اور پہاڑ کے اندر رہنے والی کوئی چیز۔ اے میرے پروردگار! میری زندگی کا آخری حصہ سب سے بہتر بنا دے اور میرا آخری عمل سب سے بہتر کردے اور میرے لیے سب سے اچھا وہ دن بنا دے جس میں میری تجھ سے ملاقات ہو۔“
رسول اللہ ﷺ نے اس طرح سے دعا پر اس کی تعریف فرمائی اور خوش ہوکر اسے سونے کا ایک ٹکڑا بطورِ تحفہ دیا()۔
۴-صحرا میں چابی کی تلاش
شیخ احمد القطان کہتے ہیں:
۱۹۷۴ء میں ہم نے چند دوستوں کے ساتھ حج کا ارادہ کیا اور یمن سے چل کر سعودی سرحد کے پاس پہنچے، اور جب چیک پوسٹ میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ ہماری گاڑی کی چابی ایک ساتھی کے ہاتھ سے ریت میں گرگئی ہے اور اس چابی کے ساتھ کوئی چھلہ نہیں تھا، اور نہ ہی ہمارے پاس دوسری کوئی کنجی تھی، ہم نے اسے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا، کیونکہ اس کے حیثیت ایسی ہی تھی جیسے کہ سمندر میں سوئی تلاش کرنا، ہمارے اردگرد سینکڑوں لوگ آجارہے تھے اس لیے چابی ریت میں دھنس گئی اور اس کا کہیں نام ونشان نہیں تھا۔
ہمارے ساتھی حیران وپریشان کھڑے تھے، انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، میں نے ان سے کہا کہ تم اپنی پوری قوت اور طاقت لگاکر بھی اسے تلاش نہیں کرسکتے، اس لیے آؤ ہم اس ذات سے مدد مانگتے ہیں جو زمین وآسمان کی پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے، انہوں نے کہا کہ ہم کن الفاظ میں دعا کریں؟ میں نے کہا: ایک دعا تو قرآن میں مذکور ہے جو سورۂ مؤمنون کے آخر میں ہے، اور دوسری دعا حدیث میں ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے:
«اللَّهُمَّ يَا جَامِعَ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ، اِجْـمَعْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ ضَالَّتِنَا».
’’اے اللہ! اے وہ ہستی جو قیامت میں تمام لوگوں کو جمع کردی گئی! ہماری گم شدہ چیز ہمیں واپس دلا دے۔‘‘
ہمارے ایک ساتھی کی نگاہ بہت کمزور تھی اور وہ بہت زیادہ پاور کا موٹے شیشے والا چشمہ لگا تاتھا، اس کے باوجود وہ قریب کی چیزوں کو بھی بہت کم دیکھ پاتا تھا، لیکن جیسے ہی ہم دعا سے فارغ ہوئے وہ کہنے لگا کہ دیکھو چابی کی چمک میرے چشمے پر پڑرہی ہے، لیکن مجھے معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے، اس لیے تم لوگ اسے میرے آس پاس تلاش کرو، سب لوگ اس کی تلاش میں لگ گئے، اچانک ہم نے دیکھا کہ چابی کا ایک چھوٹا سا حصہ ریت سے باہر ہے اور وہ سورج کی کرنوں کی وجہ سے چمک رہا ہے اور اسی کا عکس ہمارے ساتھی کے چشمے پر پڑرہاہے۔ ہم نے ریت کو آہستہ سے ہٹایا، دیکھا کہ وہ ہماری کنجی ہے، ہم سب نے خوش ہوکر نعرۂ تکبیر بلند کی اور ہمیں احساس ہوا کہ اللہ ہم سے بالکل قریب ہے اور وہ ہر اس بندے سےقریب ہے جو اس کی پناہ میں آجاتا ہے اور روکر اورگڑگڑا کر اس سے دعا کرتا ہے، اس نے خود ہی فرمایا:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ ﴾ [سورۃ غافر:۶۰]
”اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھے پکارو، میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔“
۵-میزائل ناکام
شیخ احمد القطان بیان کرتے ہیں:
جب امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر حملہ کرنا چاہا تو صدام حسین نے یہ دھمکی دی کہ اگر اس پر حملہ کیا گیا تو وہ کویت پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال سے دریغ نہیں کرے گا، جس وقت ہمیں اس کی اطلاع ملی تو فوراً ہمیں وہ حدیث یاد آگئی جو واقعۂ معراج سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب آسمانی سفر پر روانہ ہوئے تو ایک سرکش شیطان نے آگ کا شعلہ لے کر آپ کو روکنا چاہا تو حضرت جبریل امین نے آپ سے یہ دعا کرنے کے لیے کہا:
«أَعُوذُ بِوَجْهِ اللهِ الْكَرِيمِ، وَبِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ اللَّاتِي لَا يُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَلَا فَاجِرٌ، مِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ، وَشَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا، وَشَرِّ مَا ذَرَأَ فِي الْأَرْضِ، وَشَرِّ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا، وَمِنْ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَمِنْ طَوَارِقِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ يَا رَحْمَنُ».
”لطف وکرم والے اللہ کی رضا اور اس کے ان کلمات کے ذریعے جن سے کوئی اچھا یا برا آگے نہیں جاسکتا ہے پناہ چاہتا ہوں اس شرسے جو آسمان سے آئے، اور اس شرسے جو اس میں داخل ہو، اور اس شر سے جو زمین پر پھیلے، اور اس شر سے جوزمین سے نکلے، اور رات ودن کے فتنوں سے، اور رات ودن میں شر لے کر آنے والوں سے، مگر یہ کہ وہ کوئی خیر لے کر آئے اے رحمٰن!“
یہ پڑھتے ہی اس کا شعلہ بجھ گیا اور وہ منہ کے بل گرپڑا()۔
میں ہمیشہ درس یا لکچر دیتے ہوئے یا تقریر اور وعظ ونصیحت کرتے ہوئے اس دعا کو ضرور پڑھتا ہوں اور لوگوں کو اس کے پڑھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ عراقی ظالم جس طرح کا بھی میزائل استعمال کرنا چاہے کرلے، یقینی طور پر اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے جیسے کہ اس نے شیطان کے شعلوں سے اپنے محبوب ﷺ کی حفاظت فرمائی۔
میں اور میرے ساتھی اس جنگ کے دوران مسلسل اس دعا کو پڑھتے رہے، اور ہم نے اس کا حیرت انگیز اثر دیکھا کہ جتنے بھی میزائل پھینکے گئے وہ دور دراز کے صحرا میں گرے، صرف ایک میزائل الشرق کے علاقے میں سمندر کی طرف گرا لیکن اس سے بھی کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔
شیخ احمد کہتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ اسی طرح سے دعا کے اثر کا مشاہدہ کیا ہے، خواہ کیمیاوی ہتھیار سے حملہ کیا جائے یا جراثیمی اسلحے سے۔ اور جب بھی مؤمن اپنے رب کی پناہ میں آجاتا ہے اور اس کے در پہ جا کے بیٹھ جاتا ہے اور مصیبت وپریشانی کو دور کرنے، میزائل کے حملے سے بچنے اور شیطان سے محفوظ رہنے اور سٹیلائٹ کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحش اور اخلاق کو تباہ کرنے والی چیزوں سے حفاظت کی دعا کرتا ہے اور فکری اور تہذیبی یلغار اور عقل کو ماؤف کرنے والے افکار سے دور رہنے کے لیے اللہ کی پناہ میں آجاتا ہے تو یقینی طور پر اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول کرتے ہیں۔ اور ان کے سوا کون ہے جو ان چیزوں سے ہماری اور ہمارے بچوں کی حفاظت کرے؟ کون ہے جو ہمیں آسمان سے برسنے والی مصیبت اور زمین سے ابلنے والے فتنوں اور آزمائشوں سے بچائے؟ اور کون ہے جو ہمیں ان بارودی سرنگوں سے محفوظ رکھے جو ہمارے گھروں اور بازاروں میں بچھائی گئی ہیں اور جس سے نہ ساحل سمندر بچا ہوا ہے اور نہ صحرا کا کوئی حصہ خالی ہے؟
ہم نے دیکھا ہے کہ دعا کی برکت نے ہمارے سروں پر بادل کی طرح سے سایہ کرلیا ہے، یہاں تک کہ مصیبت وبلا ٹل گئی۔ اللہ کا فیصلہ آسمان سے چلتا ہے، اور دعا اوپر کی طرف چڑھتی ہے، درمیان میں دونوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے، اور پھر اللہ تعالیٰ کی لطف وعنایت متوجہ ہوتی ہے اور بندے کی حفاظت کی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ:
«لَا يَرُدُّ القَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ»().
”تقدیر کو صرف دعا ہی لوٹا سکتی ہے۔“
۶-نگاہوں پہ پردہ
کویت پر عراقی قبضے کے دوران اللہ تعالیٰ کی حکمت وقدرت اور لطف وکرم کے بہت سے واقعات دیکھنے کو ملے۔ کویت کو آزاد ہونے میں تقریباً تین سال کا عرصہ لگ گیا، اور اس درمیان بڑے حوصلہ شکن حالات پیش آئے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اللہ کی عنایت اور عبادت ودعا کی برکت کا بھی مشاہدہ ہوا۔
اس موقع پر ہمیں حضرت نوح کی یہ دعا یاد آئی:
﴿إنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۱۰ ﴾ [سورۃ القمر:۱۰]
”میں بے بس ہوں تو میری مدد کر۔“
تو اللہ تعالیٰ نے سرکش ظالموں کو بے مراد واپس کردیا اور وہ کویت سے کچھ بھی حاصل نہ کرسکے جسے دیکھ کر ہمیں یہ آیت یاد آئی:
﴿سَيُہْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۴۵ ﴾ [سورۃ القمر:۴۵]
”عنقریب یہ جتھا شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا۔“
اور پھر ہمیں سکون واطمینان کا دن میسر ہوا، گھٹاٹوپ اندھیرے کے بعد روشنی کی کرن نمودار ہوئی۔ اس پورے عرصہ میں اللہ سے دعا اور اس کے سامنے رونا ہی ہمارے لیے واحد سہارا تھا، اور ہر گھر کی چھت مسجد کا مینارہ بن گئی جس سےاللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی تھی جس کے نتیجے میں ظالموں پر لرزہ طاری ہوجاتا، ہم نے ہر لمحے اللہ کی مہربانی کا مشاہدہ کیا۔
میرے دوست عصام رفاعی کہتے ہیں کہ ایک رات میں اور میرے ساتھی احمد کافی تاخیر سے گھر واپس ہورہے تھے۔ احمد ان لوگوں میں شامل تھے جو عراقی فوجیوں کا مقابلہ کررہےتھے، ان کا کام یہ تھا کہ حسبِ ضرورت بعض لوگوں کو دوسرے نام سے فرضی آئی ڈی بناکر دے رہے تھے تاکہ وہ گرفتار نہ ہوسکیں۔ واپسی میں ایک چیک پوائنٹ سے ہمارا گزر ہوا، پولیس نے گاڑی روک کر ہمیں اترنے کا حکم دیا اور نہایت باریک بینی سے ہماری گاڑی کی تلاشی ہونے لگی لیکن کچھ ہاتھ نہیں لگا، اسی دوران وہ اس چھوٹے سے ڈبے کو بھی کھولنے لگے جس میں کوڑا وغیرہ ڈال دیا جاتا ہے، جب انہوں نے اسے ہاتھ لگایا تو میں نے دیکھا کہ میرے ساتھی کو پسینہ چھوٹنے لگا، اور مجھے یقین ہوگیا کہ اس کے نیچے کچھ ہے، لیکن اللہ کی عنایت اور مہربانی ہمارے ساتھ رہی اور اس نے ہمیں مضبوطی عطا کی، اس لیے ہم نے کسی طرح کی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور پرسکون انداز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہے:
«اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ»().
پولیس والے نے اس ڈبے کو کئی مرتبہ ہلایا لیکن اس میں سے کچھ برآمد نہیں ہوا، حالانکہ نقلی آئی ڈی اور اسٹامپ وغیرہ اس میں رکھے ہوئے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ اس کی نگاہوں پر پردہ ڈال دیا اور اسے کچھ نظر نہیں آیا اور ہمیں جانے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت مجھے وہ جملہ یاد آگیا جو حضرت ابو بکر نے غارِ ثور میں چھپے ہونے کی حالت میں کہا تھا: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی کی نگاہ اپنے قدم پر پڑ گئی تو وہ ہمیں دیکھ لے گا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابو بکر! ان دو کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔“ اور جب بنی اسرائیل نے فرعونی لشکر کو آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے: ہم تو دھر لیے گئے، تو حضرت موسیٰ نے فرمایا:
﴿كَلَّا۰ۚاِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِ۶۲ ﴾ [سورۃ الشعراء:۶۲]
”ہرگز نہیں، میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ضرور مجھے راستہ بتائے گا۔“
ہم اپنی گاڑی لے کر آگے بڑھے اور ہم میں سے ہر ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ یہ کیسے ہوگیا! اگر وہ نقلی شناختی کارڈ کو دیکھ لیتا تو پھر زندگی بھر ہمیں سورج دیکھنا نصیب نہیں ہوتا،کیونکہ وہ لوگ تو محض شبہے کی بنیاد پر لوگوں کو پکڑ کر کال کوٹھری میں ڈال دیا کرتے یا صفحۂ ہستی سے اس کا نام ونشان مٹا دیتے۔
یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے اللہ کی قدرت وحکمت پر ہمارے یقین میں اضافہ کر دیا۔ اگر ہمارے رب کا فضل نہ ہوتا تو ہم لوگ غائب یا ختم کر دیے جاتے۔
۷-مظلوم کی بددعا
ایک دن میری تقریر کا موضوع تھا ”ظلم اور ظالم کا انجام“، جس میں اس حدیث کی شرح کی گئی:
«اِتَّقِ دَعْوَةَ الْـمَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّـهِ حِجَابٌ»().
”مظلوم کی بددعا سے بچو، کیونکہ اسے اللہ تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔“
میں نے کہا کہ مظلوم گرچہ فاجر وکافر ہو پھر بھی اس کی بددعا قبول ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت انس سے منقول ایک حدیث میں ہے کہ:
«اتَّقُوا دَعْوَةَ الْـمَظْلُومِ، وَإِنْ كَانَ كَافِرًا، فَإِنَّهُ لَيْسَ دُونَهَا حِجَابٌ»().
”مظلوم کی بددعا سے بچو گرچہ وہ کافر ہو، کیونکہ اسے اللہ تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔“
اور جب کافر مظلوم کی بددعا قبول ہوتی ہے تو مسلمان مظلوم کی تو یقیناً قبول ہوگی، اس لیے ظالم کو اپنے انجام سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے، اور اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے چین اور سکون کی نیند بہت جلد اُڑ جائے گی ، اس کی آنکھوں پر پڑا ہوا پردہ بہت جلد ہٹ جائے گا اور وہ کھلی آنکھوں سے اپنے برے انجام کو دیکھے گا، لیکن اُس وقت اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ
’’اگر تمہیں طاقت وحکومت ملی ہوئی ہے تو کسی پر ظلم مت کرو، کیونکہ ظلم کا انجام حسرت وندامت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ تم سورہے ہو اور مظلوم بیدار ہے، وہ تمہارے لیے بددعا کررہا ہے، اور اللہ کی آنکھیں کبھی نہیں سوتی ہیں۔‘‘
اور حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
«مَنْ ظَلَمَ قِيدَ شِبْرٍ مِنَ الأَرْضِ طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ»().
”جو شخص ایک بالشت کے بقدر بھی ناحق کسی کی زمین لے لے تو اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔“
اس حدیث کی شرح میں بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا، اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قیامت کے دن اسے پابند کیا جائے گا کہ وہ اس حصے کو میدانِ حشر میں منتقل کرے، اس طرح سے وہ زمین اس کے لیے طوق بن جائے گی۔
تقریر کے بعد ابو انس تنہائی میں میرے پاس آئے اور کہا: بڑی عمدہ بات کہی آپ نے، اللہ آپ کو بہتر بدلہ عنایت کرے، اگر میں اس سے متعلق ایک واقعہ بیان کروں تو اسے سچ باور کرنا مشکل ہوگا۔ میں نے کہا: ضرور بیان کیجیے، اور مکمل طور پر ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔ انہوں نے کہا: دو سال پہلے میں نے اور میرے بھائی طلال نے سلیم نامی ایک ٹھیکیدار کو دو گھر بنانے کا ٹھیکہ دیا، اس نے تعمیری کام شروع کردیا، ایک دن اس نے گھر کے پہرے دار سے جس کا نام اقبال تھا کہا کہ وہ چھت پر سے پتھر کو زمین پر منتقل کردے اور اس کے بدلے میں اسے پچاس دینار ملے گا (تقریباً دس ہزار روپئے)۔ اس نے اس کام کو انجام دے کر ٹھیکیدار سے اپنی مزدوری کا مطالبہ کیا مگر اس نے دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہمارے درمیان ایسی کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی، بلکہ یہ کام بھی تمہاری ذمے داری میں شامل ہے اس لیے یہاں سے چلے جاؤ۔
اقبال کو اس کے جواب سے بڑی حیرانی ہوئی اور ہر ممکن طریقے سے اس نے اس کے وعدے کو یاد دلانے اور اسے پورا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن بے فائدہ۔ پھر وہ شکایت لے کر میرے پاس آیا، میں نے بھی سلیم کو سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ اس غریب کی مزدوری دے دو، یہ سن کر وہ مجھ پر ناراض ہونے لگا اور کہا کہ تم میری طرف داری کے بجائے ایک پہرے دار کی طرف داری کر رہے ہو؟ اسے انصاف دلانے کے لیے میں اپنے بھائی طلال کے پاس پہنچا اور پورا قصہ بیان کیا تاکہ وہ اس پر دباؤ بنائے اور وہ اقبال کا حق ادا کردے، لیکن وہ بھی سنی ان سنی کرتے ہوئے کہنے لگا کہ تمہیں اس پہرے دار سے کیا دلچسپی ہے؟ وہ ان دونوں کا باہمی معاملہ ہے، ہمیں دخل اندازی کی کیا ضرورت ہے؟ کیا ضرورت ہے اس شور اور ہنگامے کی؟ میں نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی تو کہنے لگا: اپنی نصیحت اپنے پاس رکھو، میں اس وقت مشغول ہوں اس لیے یہاں سے جاؤ، میرے بھائی کو یہ فکر ستائے جا رہی تھی کہ کسی طرح سے اس کے ورکشاپ کا کام پورا ہوجائے اس لیے وہ اس موقع پر دوسرے کی وجہ سے ٹھیکیدار سے دشمنی مول نہیں لینا چاہتا تھا۔
اور ٹھیکیدار نے جب یہ دیکھا کہ میں پہرے دار کی پُرجوش حمایت کررہا ہوں تو اس نے مجھ سے اس طرح سے انتقام لیا کہ اس نے فرش پر کسی گیپ کے بغیر پتھروں کو لگا دیا، اور اس کے بارے میں مجھے پتہ اُس وقت چلا جب کہ ٹھیکے کا معاملہ ختم ہوچکا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند مہینوں کے بعد جب گرم موسم آیا تو پتھر چٹخ کر ٹوٹنے لگا، اور پورا فرش خراب ہوگیا، جس کی وجہ سے تقریباً پانچ سو دینار کا نقصان ہوا۔ یہ خسارہ اس وقت ہوا جب کہ میں اپنی پوری جمع پونچی گھر کی تعمیر میں لگا چکا تھا۔ مجھے اس کے ظلم، کمینگی اور کینہ پروری پر بڑا غصہ آیا اور میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اللہ کے حضور پھیلا دیا اور کہا: اے اللہ! میں تجھ سے ہی اپنے رنج والم کا شکوہ کررہا ہوں۔ اور مجھے معلوم نہیں کہ کیسے میرے ذہن میں یہ خیال گردش کرنے لگا کہ اسے دردناک سزا ملنی چاہیے، چنانچہ میں نے رات کے آخری تہائی حصے میں دعا کی کہ اے اللہ اسے آدھے جسم سے مفلوج کردے جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے کے لائق نہ رہ جائے۔
غم واندوہ کی حالت میں اور قرض کے بوجھ تلے کئی روز گزر گئے، ایک رات کافی تاخیر سے گھر واپس آیا، ابھی گھر میں داخل ہی ہوا تھا کہ باہر سے دروازہ پیٹنے کی آواز آئی، میں نے کہا: اس وقت کون آگیا؟ اور جب دروازہ کھولا تو حیرت سے میری آنکھ کھلی کی کھلی رہ گئی، میں نے دیکھا کہ ایک شخص بہت مشکل سے دیوار سے ٹیک لگا کر خود کو سنبھالے ہوئے ہے اور اس کے ہاتھ میں کچھ کاغذات اور فائلیں ہیں۔ میں نے اسے غور سے دیکھا تو یقین نہیں آیا کہ یہ تو وہی ٹھیکیدار ہے جو بالکل ایک گٹھری کی طرح ہوگیا ہےاور چہرہ بالکل جھلس گیا ہے۔ مجھے دیکھ کر رونے دھونے لگا، یقینی طور پر اسے میری بددعا لگ گئی تھی اور وہ آدھے دھڑ سے تقریباً اپاہج ہوچکا تھا۔ اور پھرکہنے لگا کہ عظمت والے رب کی قسم! جب سے میں تمہارے پاس سے گیا ہوں اسپتالوں کا چکر لگا رہاہوں، لیکن کوئی فائدہ نہیں اور رفتہ رفتہ میرا آدھا جسم مفلوج ہوگیا۔ میں نے اپنی پوری پونجی علاج میں لٹا دی، لیکن مرض بڑھتا گیا، اور اب ڈاکٹروں کا مشورہ ہے تمہارا مرض لاعلاج ہے، اس لیے اللہ کے فیصلے پر صبر کرو۔ میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ یہ سب میرے ظلم کا انجام ہے، اللہ کے لیے مجھے معاف کردو اور میری صحت کی دعا کرو۔
ابو انس کہتے ہیں کہ اسے اس حالت میں دیکھ کر میرا ضمیر مجھ کو ملامت کرنے لگا، اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری بددعا اس شکل میں اور اس قدر جلد قبول ہوجائے گی۔ مجھے اس پر بڑا ترس آیا، میں نے کہا: جاؤ کوئی بات نہیں، اللہ مجھے اور تمہیں معاف کرے۔ اور اسی رات میں اٹھ کر میں نے تہجد کی نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اسے شفا دے اور اس کی مصیبت وبے چینی کو ختم کردے۔
اس کے چند دنوں کے بعد اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز منظر میرے سامنے تھا۔ ٹھیکیدار اپنے پیروں پر چلتے ہوئے میرے پاس آیا، وہ بالکل تندرست ہو چکا تھا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور جب میں نے دروازہ کھولا تو وہ لپک کر مجھ سے چمٹ گیا، اس کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی، وہ کبھی مسکراتا اور کبھی قہقہہ لگانے لگتا، اور بار بار مجھے دعا دیتا اور اپنے کیے پر پچھتاتا، وہ کہنے لگا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میری ہڈیوں اور جوڑ میں پھر سے زندگی پیدا ہوگئی اور میرے پیر اور ہاتھ کی حرکت بحال ہوگئی، گویا کہ میرے کھال کے نیچے نہر بہہ رہی ہو، پھر اچانک میری آنکھ کھل گئی اور میرے دل کی دھڑکن رفتہ رفتہ تیز ہونے لگی، پھر میں نے اپنے پیر کو ہلایا اور کھڑا ہونے کی کوشش کی جو کامیاب رہی اور خود مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا ہوگیا ہے۔
یہ دیکھ کر اللہ کے حضور بطورِ شکریہ سجدہ ریز ہوگیا اور اس کے فضل وکرم اور مہربانی ومحبت کو یاد کرکے رو پڑا، اور مجھے یقین ہوگیا کہ تمہاری بابرکت دعا آسمان تک پہنچ گئی، وہاں سے رب کی رحمت کو لے کر آئی اور پھر اس کا نتیجہ سامنے ہے۔
اللہ تعالیٰ تمہیں بہتر بدلہ عنایت کرے، تم نے مجھے معاف کردیا اور پھر میرے لیے اللہ سے دعا کی، اور اللہ نے اپنے فضل اور تمہاری دعا کی برکت سے مجھے اس بلا سے نجات دی۔
میں نے ابو انس سے پوچھا کہ تمہارے بھائی طلال کا کیاحال ہوا؟ انہوں نے کہا: سچ کہوں تو پہرے دار نے اس پر بددعا کی تھی، کیونکہ اسی کی وجہ سے وہ ظلم کا شکار ہوا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسے ایک خوبصورت بیٹی عطا کی، مگر وہ بالکل گونگی تھی۔ میرے بھائی نے بہت سے ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، اور میرا بھائی اپنے کرتوت پر بہت شرمندہ ہوا، لیکن اُس وقت جب کہ وہ موقع گنوا چکا تھا۔
اس قصے کو سن کر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ حقیقت نہیں بلکہ خواب وخیال کی بات ہو، اور میرے ذہن میں یہ آیت گردش کرنے لگی:
﴿وَلَنُذِيْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ﴾ [سورۃ السجدۃ:۲۱]
”اور ہم ان کو بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزہ ضرور چکھاتے ہیں۔“
تو یہ ان لوگوں کے لیے ایک چھوٹی سزا تھی جو ایک مظلوم اور بے کس بندے کی بددعا کا نتیجہ تھی، اور اللہ نے ظالموں سے انتقام لے لیا کیونکہ اس کی طرف سے اعلان ہے کہ
﴿ذٰلِكَ۰ۚ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِہٖ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْہِ لَيَنْصُرَنَّہُ اللہُ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ۶۰ ﴾ [سورۃ الحج:۶۰]
”یہ تو سن چکے، اور (سنو کہ) جو شخص بدلے میں اتنی ہی تکلیف پہنچائے جتنی کہ اس کو پہنچائی گئی تھی، اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تو اللہ ضرور اس کی مدد فرمائیں گے، یقیناً اللہ خوب درگزر کرنے والے اور معاف کرنے والے ہیں۔“
اور کسی شاعر نے کہا ہے کہ:
’’رات کا تیر ٹھیک اپنے نشانے پر پہنچتا ہے جب اسے خشوع وخضوع کے کمان سے چلایا جائے، اسے نشانے تک ایسے لوگ لے جاتے ہیں جن کا رکوع اور سجدہ بڑا لمبا ہوتا ہے اور ان کی زبانوں پر دعا اور ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب ہوتا ہے۔‘‘
۸-اس بس کا کیا علاج؟
کویت یونیورسٹی کے طلبہ کا ایک گروپ خشکی کے راستے سے عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوا جس کے لیے دو بسیں کرائے پر لی گئیں، ان میں سے ایک نئی تھی اور دوسری پرانی، جس کا حال یہ تھا کہ انجن میں کسی خرابی کی وجہ سے پچاس کلو میٹر چلنے کے بعد رک جاتی تھی، جسے ٹھیک کرنے میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا۔ جب ایسا کئی بار ہوا تو لوگ اکتا گئے اور طے یہ پایا کہ ڈرائیور کے ساتھ پانچ لوگ رک جائیں اور بقیہ لوگ دوسری بس میں سوار ہوکر روانہ ہوجائیں۔
اس طرح سے ہم پانچ کے علاوہ دوسرے لوگ چلے گئے۔ اس وقت ہم لوگ ایک چھوٹی سے آبادی میں تھے جہاں نہ تو کوئی گیرج تھا اور نہ گاڑی کے پارٹس کی کوئی دوکان۔ چار وناچار ہم لوگ صلاۃِ حاجت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور اللہ سے دعا کی کہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دے۔ اس کے بعد بس میں سوار ہوئے۔ حالانکہ ہمارا بدن تھک کے چور ہوچکا تھا اور رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی، لیکن صلاۃ کی ادائیگی کے بعد ہم پر سکون واطمینان کی کیفیت طاری ہوگئی تھی، اس لیے کہ مؤمن کے لیے صلاۃ باعثِ سکون وراحت ہے، اللہ کے رسول ﷺ کہا کرتے تھے کہ:
«أَرِحْنَا بِهَا يَا بِلَالُ»().
”بلال! صلاۃ کے ذریعے ہمیں راحت پہنچاؤ۔“
اور تھوڑی دیر بعدسب لوگ گہری نیند میں غرق ہوگئے، اور کچھ گھنٹے گزرنے کے بعد روشنی اور شور کی وجہ سے ہماری آنکھ کھل گئی، اور ہم نے سمجھا کہ شاید کسی گیرج کے پاس پہنچ گئے ہیں، لیکن بس ایسی جگہ کھڑی تھی جس کی ہم میں سے کسی کو امید نہیں تھی، وہ مدینہ منورہ میں ہوٹل کے گیٹ کے پاس تھی۔ ہم نے ڈرائیور سے پوچھا: ہم اِس وقت کہاں ہیں؟ اس نے جواب دیا: مدینہ منورہ پہنچ چکے ہیں، اور ہم لوگ ہوٹل کے گیٹ پر ہیں، تمہاری صلاۃ نے بالکل جادو کا کام کیا، اس کے بعد سے جب وہ چلی ہے تو ایک لمحے کے لیے بھی بند نہیں ہوئی، اور ہم نے بس کو ٹھیک بھی نہیں کیا تھا۔
ڈرائیور نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ایسے کیسے ہوگیا؟ ٹھیک کیے بغیر بس کیسے چل پڑی؟ بلکہ خود اس کے اندر ایسی چستی اور پھرتی آگئی کہ وہ مسلسل ڈرائیونگ کرتے ہوئے یہاں تک لے کر آگیا حالانکہ ہماری طرح سے وہ بھی تھکا ہوا تھا۔
ہم لوگ ایک دوسرے کو حیرت اور خوشی سے دیکھ رہے تھے کہ اس قدر جلد ہماری دعا قبول ہوگئی اور بخیر وعافیت اپنی منزل پر پہنچ گئے، اور ہر ایک نے اس آیت کو دہرانا شروع کر دیا:
﴿اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ﴾ [سورۃ النمل:۶۲]
”بھلا کون ہے کہ جب کوئی بے کس پکارتا ہے تو وہ اس کی فریاد کو سنتا ہے اور مصیبت کو دور کردیتا ہے۔“
یہ واقعہ خود میری نگاہوں کے سامنے پیش آیا، میں بھی اُن پانچ لوگوں میں شامل تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے صلاۃِ حاجت اور دعا کی توفیق بخشی تھی۔
۹-مسافر کے ہاتھ نئے گیرج کا افتتاح
ہم نے اِس کتاب میں قبولیتِ دعا کے جو واقعات بیان کیے ہیں وہ زیادہ تر سفر سے متعلق ہیں ،کیونکہ سفر بھی ان جگہوں میں سے ہے جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَہٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۰ۚ لَىِٕنْ اَنْجٰىنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ۶۳ ﴾ [سورۃ الأنعام:۶۳]
”تم کہہ دو: تمہیں خشکی اور تری کی تاریکیوں سے کون نجات دیتا ہے؟ جب تم گریہ وزاری کے ساتھ چپکے چپکے اسے پکارتے ہو کہ اگر اس نے ہمیں اس سے نجات دی تو ہم ضرور اس کے شکر گزاروں میں شامل ہوجائیں گے۔“
اس لیے سفر سے متعلق ایک اور واقعہ بیان کیا جارہا ہے جو اَسّی (۸۰)کی دہائی میں پیش آیا، جس کے راوی ابو خالد کہتے ہیں کہ دوستوں کے ایک گروپ کے ساتھ عمرہ کرنے کے ارادے سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے۔ کویت واپسی میں ہماری ایک گاڑی خراب ہوگئی جس کی وجہ سے دمام کے قریب ایک پٹرول پمپ پر رکنا پڑا، اور میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ کسی قریب ترین گیرج سے اسے ٹھیک کرا لاؤ، میں اور میرا ایک ساتھی اس کے لیے روانہ ہوئے،لیکن گاڑی اسٹارٹ ہوتے ہی ایکسلیٹر پر دباؤ کے بغیر خود بخود چلنے اور رفتار پکڑنے لگی، اور پریشانی کی بات یہ تھی کہ میں ایک ایسی سڑک پہ تھا جس پر دونوں طرف سے گاڑیاں آجارہی تھیں اور گاڑی کی رفتار کم کرنے کے لیے ہر بار گیر کاسہارا لینا پڑتا، میرا ساتھی سانس روکے ہوئے یہ منظر دیکھ رہا تھا، اسے نظر آرہا تھا کہ میں اپنے ارادہ واختیار کے بغیر گاڑیوں کو اُورٹیک کررہا ہوں اور گاڑی کی رفتار کبھی ۱۵۰کلو میٹر فی گھنٹہ سے آگے بڑھ جاتی، اسی کیفیت کے ساتھ ہم لوگ دمام پہنچ گئے۔ ایک جگہ گاڑی روکی اور گیرج کی تلاش میں پیدل نکل کھڑے ہوئے، لیکن وہ جمعہ کا دن تھا اور ہم لوگ دوپہر کے وقت پہنچے تھے اس لیے کوئی گیرج کھلا ہوا نہیں ملا، اور کوئی گاڑی بھی نظر نہیں آرہی تھی جو ہمیں شہر کے اندر لے جائے، اس لیے پیدل چلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، حالانکہ موسم بہت گرم تھا۔
ہم نے اللہ تعالیٰ کے آگے دستِ طلب کو پھیلا دیا، اس سے دعا مانگی کہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا۔ اور اس کے بعد ہم نے طے کیا کہ ہم دونوں الگ الگ جگہوں پر تلاش کرتے ہوئے فلاں جگہ کے چوراہے پر ملیں گے۔ ایک طویل مسافت طے کرنے کے بعد ایک بڑے گیٹ کے پاس ہم دونوں کا آمنا سامنا ہوا جو کھلاہوا تھا لیکن اس پر کوئی بینر یا سائن بورڈ نہیں لگا تھا جس سے کہ اندازہ ہو کہ یہ کس چیز کی دوکان ہے، لیکن جب اندر داخل ہوکر دیکھا تو وہ ایک بالکل نیا گیرج تھا، ہم نے پہرے دار سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ جواب ملا: گیرج ہے، جس کا کل یعنی سنیچر کو افتتاح ہونے والا ہے، اور اسی تقریب کی تیاری کے سلسلے میں تمام کاریگر آج یہاں آئے ہوئے ہیں۔ وہ سب عمدہ یونیفارم پہنے ہوئے تھے، اور ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ہم نے صورتحال بتلائی، پھر ہماری گاڑی وہاں لائی گئی، ان لوگوں نے پُرجوش انداز میں اور نہایت توجہ سے ہماری گاڑی کی مرمت کی، کیونکہ یہ ان کے لیے خوش فالی تھی کہ ان کے گیرج میں مرمت کے لیے پہلی گاڑی آگئی ہے، اور ہماری خوشی بھی قابلِ دید تھی کہ اچانک تیز دھوپ میں دوپہر کے وقت اور چھٹی کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس عزت کے ساتھ ہماری ضرورت پوری کردی۔ ہم کو تو صرف ایک گیرج کی تلاش تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک نئے گیرج میں پہنچا دیا جہاں کے کاریگر اس وقت ہماری آمد کی وجہ سے سب خوش تھے کہ جمعہ کے مبارک دن میں ہماری گاڑی وہ پہلی گاڑی تھی جو اس گیرج میں داخل ہوئی۔ یقینی طور پر دعا میں ایسی قوت ہے جو اسباب اور قوانین کے پردے کو چاک کردیتی ہے۔
۱۰-اسپورٹ گاڑی (Sport Car)
ہمارے محلے کے ایک بوڑھے آدمی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ صلاۃِ فجر ادا کرکے مسجد سے باہر آئے، اور گھر جاتے ہوئے راستے میں فجر کے وقت کی پُرسکون فضا کے بارے میں گفتگو کرنے لگے کہ یہ وقت کتنا سہانا ہے، اس میں جسم اور روح کو کتنی راحت اور کتنا سکون ملتا ہے، ایک خوبصورت اور خوش منظر ماحول میں نئے دن کی شروعات ہوتی ہے۔ یہ ایک غور وفکر کا مرحلہ بھی ہے کہ کس طرح سے رات کی تاریکی چھٹ گئی اور دن کی روشنی نمودار ہورہی ہے۔ یہ ایمانی اور روحانی گفتگو جاری تھی کہ موسیقی کی تیز آواز نے اس کے سلسلے کو توڑ دیا، دیکھا کہ ایک اسپورٹ گاڑی (Sport Car) سے یہ آواز آرہی ہے جس میں دو نوجوان بیٹھے ہوئے ہیں، اور جن کی حالت سے معلوم ہورہا تھا کہ انہوں نے کھیل تماشے میں پوری رات گزار دی ہے اور اب سونے کے لیے گھر جارہے ہیں۔
مجھے یہ دیکھ کر ایک جھٹکا سا لگا، اور میرے دل میں طرح طرح کے خیالات اور سوالات آنے لگے۔ میں سوچنے لگا کہ کیا وجہ ہے کہ یہ نوجوان پوری رات جاگ کر گزار دیتے ہیں؟ لیکن اگر ان سے تھوڑی دیر کے لیے تہجد پڑھنے کے لیے کہا جائے تو جمائی لینے لگتے ہیں۔
میں نے تھوڑی دیر کے لیے اپنا سر جھکایا اور پھر جسم اور دل کی پوری توجہ سے اپنے خالق ومالک سے سرگوشی کرنے لگا، میں نے گریہ وزاری کے ساتھ اسے پکارا اور دعا کی کہ اے اللہ! یہ دونوں نوجوان گھر پہنچنے سے پہلے ہی ہدایت پاجائیں اور ہم انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ وہ تیری راہ پر گامزن ہیں۔ تو راہِ راست کے لیے ان کے سینے کو کھول دے اور ایمان ویقین اور عملِ صالح کو ان کے لیے پسندیدہ، اور کفر وفسق اور نافرمانی کو ان کے لیے باعثِ نفرت بنا دے۔
میرا ساتھی اس کیفیت کو حیرت کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا، اور جب میری یہ کیفیت ختم ہوئی تو میں دوبارہ اس کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوگیا۔ دوسرے دن میں ان نوجوانوں کو بالکل فراموش کر بیٹھا اور عادت کے مطابق صلاۃِ فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد پہنچا، لیکن وہاں کا منظر دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا، میں نے دیکھا کہ کل والی اسپورٹ گاڑی (Sport Car) مسجد کے باہر کھڑی ہے اور وہ دونوں نوجوان مجھ سے پہلے مسجد پہنچ چکے ہیں۔
مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا میری دعا اس قدر جلد قبول ہوگئی؟ کیا یہ مجھ جیسے کمزور بندے کے لیے میرے رب کی طرف سے خوشخبری تھی کہ اس نے تمہاری دعا قبول کرلی ہے؟ کیوں نہیں، اور اس کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ دعا کے ٹھیک دوسرے دن وہ دونوں فجر کی صلاۃ میری مسجد میں ادا کریں، اور یہ کہ دوسرے دن میری بھی صلاۃِ فجر نہ چھوٹے، اور میں اپنی آنکھوں سے دعا کے اثر کو اور اللہ کی رحمت کی وسعت کو دیکھ سکوں۔ اس موقع پر مجھے جو فرحت وسرورحاصل ہوا اور اپنی خوش بختی پر جو رشک آیا وہ ناقابلِ بیان ہے، اور اللہ کے اس وعدے پر یقین میں اضافہ ہوا:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ﴾ [سورۃ غافر:۶۰]
”اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھے پکارو، میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔“
۱۱-نوزائیدہ بچی کی وفات
اللہ تبارک وتعالیٰ جسے چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے، اور کسی کو دونوں سے نواز دیتا ہے، اور کسی کو دونوں سے محروم رکھتا ہے۔ جو شخص دونوں سے محروم ہوتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ بس وہ صاحبِ اولاد ہوجائے، چاہے لڑکا ہو یا لڑکی۔ اور اگر کسی کو ایک جنس سے نوازا گیا ہے تو اس کی چاہت ہوتی ہے کہ دوسری جنس بھی پیدا ہوجائے تاکہ اس کی خوشی مکمل ہوجائے۔ یہ ایک انسانی فطرت ہے۔ لیکن کچھ ایسے بدفطرت بھی ہوتے ہیں جن کے لیے بیٹی کی پیدائش بہر صورت سخت ناگوار ہوتی ہے۔ اگر اسے لڑکی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ غصے سے بدحال ہوجاتا ہے۔ البتہ بندۂ مؤمن ہر حال میں اللہ کے فیصلے پر راضی رہتاہے، اگر بچی پیدا ہو تو بھی وہ اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے، اور اگر اس کے جگر کے ٹکڑے کو چھین لیا جائے اور اللہ تعالیٰ اسے واپس لے لیں تو اس کا دل تو رنجیدہ ہوتا ہے، آنکھ سے آنسو بھی بہتا ہے، لیکن وہ کرتا اور کہتا وہی ہے جس سے اس کا رب راضی ہو، وہ کہتاہے:
«إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ».
”ہم اللہ ہی کے ہیں، اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔“
جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے، اور اللہ ہی کے لیے ہے جو اس نے واپس لے لیا ہے۔ وہ ذات نہایت پاکباز ہے جس نے ہمیں مٹی سے پیدا کیا اور جوڑے بنائے۔
﴿وَاللہُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا۰ۭ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْـثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ۰ۭ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِہٖٓ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌ۱۱﴾ [سورۃ فاطر:۱۱]
”اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو مٹی سے، پھر نطفے سے پیدا فرمایا، اور پھر تم کو جوڑا جوڑا بنایا۔ اور جو بھی عورت حاملہ بنتی ہے اور بچہ جنتی ہے وہ سب اللہ کے علم سے ہوتا ہے۔ اور نہ کسی کی عمر زیادہ رکھی جاتی ہے اور نہ کم مگر یہ کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں لکھا ہوا ہے۔ بے شک یہ سب اللہ کے لیے آسان ہے۔“
اُمّ محمد کی داستان سنتے ہوئے میرے ذہن میں یہ تمام باتیں گردش کررہی تھیں، وہ کہہ رہی تھیں کہ ہمارے تین لڑکے تھے، اس کے بعد میری اور میرے شوہر کی خواہش تھی کہ کاش ایک لڑکی پیدا ہوجاتی۔ چند سالوں کے بعد وہ حاملہ ہوئیں اور اللہ سے دعا کی کہ میری دیرینہ آرزو پوری ہوجائے، اور ٹیسٹ کے ذریعے بھی ہماری یہ تمنا پوری ہوتی ہوئی معلوم ہوئی۔ پیدائش کے موقع پر مجھے اسپتال منتقل کردیا گیا اور مجھ پر خوشی اور خوف کی کیفیت طاری تھی۔ مجھے ولادت کے مخصوص حصے میں لے جایا گیا اور میرے شوہر پوری رات باہر رہے۔ اور جب انتظار طویل ہوگیا تو ان کی پریشانی میں اضافہ ہونے لگا، اور جب بھی کوئی نرس باہر آتی تو وہ خوشخبری سننے کے لیے اس کی طرف لپکتے، لیکن اس کی طرف سے خاموشی کے سوا کچھ نہیں ملتا، یہاں تک کہ وہ تشویش میں مبتلا ہوگئے اور سوچنے لگے کہ شاید معاملہ کچھ گڑبڑ ہے، اس لیے وہ تیز آواز میں گفتگو کرنے لگے اور معاملے کے متعلق اصرار کے ساتھ پوچھ گچھ کرنے لگے، اتنے میں ایک ڈاکٹر آیا اور اس نے غمزدہ لہجے میں کہا کہ ایک بچی پیدا ہوئی تھی لیکن وہ پیدائش سے پہلے ہی مرچکی تھی، اللہ تعالیٰ آپ کو اجرِ عظیم سے نوازے اور اس کا بہتر بدل عنایت کرے۔ جب ابو محمد نے یہ سنا تو ان کی زبان گنگ ہوگئی، اس خبر نے ان کے ہوش اڑا دیے، لیکن انہوں نے خود کو سنبھالا اور ایمان ویقین کے ساتھ کہنے لگے:
«إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.. اللهُمَّ آجَرْنَا فِي مُصِيْبَتِنَا، وَأَخْلِفْنَا خَيْرًا مِنْهَا… لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّـهِ»().
”ہم اللہ ہی کے لیے ہیں، اور اسی کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ! ہماری اس مصیبت کے بدلے میں ثواب عطا فرما اور ہمیں اس کا بہتر بدل عنایت فرمایا۔ اللہ کے علاوہ کسی میں کوئی طاقت وقدرت نہیں ہے۔“
یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ گئے، شب بیداری اور بہت دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے ان کی قوت جواب دے گئی تھی۔ ام محمدکہتی ہیں کہ جس کیفیت سے میرے شوہر دوچار تھے میں بھی اس سے گزر رہی تھی، اور اللہ سے اپنے دکھ درد کو بیان کررہی تھی۔ ہم نے نہ واویلا مچایا اور نہ روئے چلائے، بلکہ معاملے کو اپنے رب کے حوالے کردیا اور اللہ کے فیصلے پر راضی ہوگئے۔
مجھے معلوم نہیں کہ کیسے اس موقع پر مجھے حضرت ابراہیم کا قصہ یاد آنے لگا، جن کے یہاں بڑھاپے میں اللہ کی قدرت سے معجزانہ طریقے پر ایک بیٹا پیدا ہوا تھا، اور جب وہ ان کے ساتھ چلنے پھرنے لگا اور ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن گیا تو پروردگار کی طرف سے حکم آیا کہ اسے ذبح کردیا جائے، یقیناً یہ ایک بڑی آزمائش تھی۔
اس خیال کا آنا تھا کہ سکون واطمنان نے ہمیں ڈھانپ لیا اور ہم ایک نفسیاتی آزمائش سے محفوظ رہے، کیونکہ اس موقع پر ہم دونوں کے گھر والے سفر پر تھے اور ہماری ڈھارس بندھانے والا کوئی نہیں تھا۔ میں اپنی نوزائیدہ بچی کے خوبصورت اور دمکتے ہوئے چہرے کو دیکھنے میں مشغول ہوگئی جو روئی کی ایک چادر میں لپٹی ہوئی تھی جسے ہم نے بطورِ بستر کے تیار کیا تھا جو اَب اس کے لیے کفن کا کام دے رہا تھا۔
ابو محمد کہتے ہیں کہ میں نے اس بچی کو ہاتھ میں لیا اور قبرستان کی طرف روانہ ہوگیا، اور وہاں جاکر میں نے کفن ہٹایا تو اس کے حسین ونورانی اور چمکتے ہوئے چہرے کو دیکھ دنگ رہ گیا، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کوئی دلہن ہو جو گہری نیند میں سورہی ہے، آہستہ سے اسے قبر میں رکھا، حسرت وافسوس کے باوجود پُرسکون انداز میں اس پر مٹی ڈالی، اور پھر اپنی بیوی کے پاس واپس آگیا، اور ہم دونوں ایک دوسرے کو تسلی دینے لگے۔
دن اور مہینہ تیزی کے ساتھ گزرتا رہا، یہاں تک کہ میری اہلیہ دوبارہ حاملہ ہوئی، اور ہم نے اللہ سے دعا کی کہ ہمیں ایک بیٹی عنایت کر جو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے۔ پیدائش کا وقت قریب آگیا اور اس موقع پر ہمیں پہلی بچی کا خیال آنے لگا جس کا نام ہم نے ”بسمہ“ رکھا تھا۔ اور پھر ہم اسے لے کر اسپتال پہنچے اور تھوڑی ہی دیر میں ایک خوبصورت بچی کی پیدائش کی خوشخبری مل گئی جس کا نام ہم نے ”نورہ“ رکھا، جو ایک آسمانی تحفہ اور پروردگار کی طرف سے انعام تھی، اور اسی دن پیدا ہوئی جس دن کی پہلی بچی ہوئی تھی اور جس کی وفات پر ایک سال گزر چکا تھا، گویا کہ اس وقت میں اس آزمائش کی طرف اشارہ تھا جس سے ہم ایک سال پہلے دوچار ہوئے تھے۔ اور پھر دو سال گزرنے پر ایک دوسری بچی پیداہوئی اور ہماری خوشی دوبالا ہوگئی، اور اللہ کی رحمت کی وسعت پر یقین میں اضافہ ہوا، اور ہم نے دعا کی کہ وہ قیامت کے دن ہمارے حق میں ’’بسمہ‘‘ کی شفاعت قبول کرے اور ہماری زندگی پر ’’بسمہ‘‘ کے اثرات نمایاں رہیں۔
”نورہ“ اور اس کی بہن نے ہماری زندگی میں خوشی اور خوش بختی کی لہر دوڑا دی۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اس پر بھی جو اس نے لے لیا اور اس پر بھی جو اس نے عطا کیا۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے، اور وہ بڑے فضل والا ہے۔
۱۲-گورنر کا مہمان
شیخ مساعد مندنی اور طارق العمر بڑے گہرے دوست تھے اور وہ دونوں حج کے سفر سےو اپس آرہےتھے اور حج کی رحمتوں، برکتوں اور ثواب کے تذکرے کر رہے تھے۔ وہ دونوں محسوس کررہے تھے کہ وہ پھر سے پیدا ہوگئے ہیں اور انہیں ایک نئی زندگی مل گئی ہے اور کتابِ زندگی کا ہر ورق گناہ اور خطا کے گرد وغبار سے پاک وصاف ہے۔ وہ اسی طرح کی گفتگو میں مشغول ریاض پہنچ گئے، لیکن وہاں پہنچتے ہی اچانک انجن سے دھماکے کی آواز آئی۔
شیخ مساعد نے سڑک کے کنارے گاڑی روک دی اور جلدی سےانجن کا ڈھکن کھولا اور معلوم ہوا کہ انجن بالکل تباہ ہوچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بڑا حادثہ تھا اور اس کی مرمت کے لیے کافی صرفے کی ضرورت تھی، اور ادھر حال یہ تھا کہ جیب تقریباً خالی ہوچکی تھی اور بہت کم رقم بچی تھی۔
شیخ مساعد کہتے ہیں کہ ہم حیران وپریشان ہوگئے کہ اب کیا کریں، اور تھک ہار کر گاڑی کے پاس راستے کے کنارے چپ چاپ بیٹھ گئے کہ نہ تو رکنے کے لیے کوئی جگہ تھی اور نہ جانے کے لیے کوئی راستہ۔ اچانک میرے ساتھی طارق نے کہا: کیا ہم سفر میں نہیں ہیں؟ میں نے کہا: بالکل۔ کہا: کیا ہم محتاج اور ضرورت مند نہیں ہیں؟ میں نے کہا: ضرور۔ کہا: کیا ہم مصیبت زدہ نہیں ہیں؟ اس طرح کے سوالوں سے میں جھلا گیا اور کہا: تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟ اس نے کہا: مسافر، پریشان حال اور مصیبت زدہ کی دعا قبول ہوتی ہے، تو پھر ہمیں انتظار کس بات کا ہے؟ آؤ صلاۃِ حاجت پڑھ کر دعا کریں اور اپنے رب سے رو کر اور گڑگڑا کر اس مصیبت کو دور کرنے کی التجا کریں۔ مجھے اس کی اس ایمانی حرارت سے خوشی ہوئی اور ہم اس ذات کی طرف متوجہ ہوگئے جس کے ہاتھ میں زمین وآسمان کی کنجیاں ہیں، اور ہماری زبانیں دعا اور حمد وثنا میں مشغول ہوگئیں، ہم میں سے ہر ایک اپنے رب سے سرگوشی کرنے لگا اور امید ویقین سے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ اسے پکارنے لگے۔ اور جواب ملنے میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی، تھوڑی ہی دیر کے بعد ہماری گاڑی کے پاس ایک شاندار گاڑی رکی، اس کا مالک نیچے اترا جس کے لباس وپوشاک سے اور رکھ رکھاؤ سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ بہت مالدار ہے۔ اس نے ہمیں سلام کیا اور حال چال دریافت کرنے کے بعد شدید گرمی اور دوپہر کے وقت راستے کے کنارے بیٹھنے کی وجہ پوچھنے لگا، ہم نے صورتحال بتلائی، اس نے ہمیں تسلی دی اور کہا: گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔
اس نے کہا کہ ریاض کے گورنر نے صلاۃِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے تمہیں راستے میں ایک طرف بیٹھا ہوا دیکھ لیا، انہیں تشویش ہوئی کہ اس وقت تم لوگ راستے کے کنارے کیوں بیٹھے ہو، اس لیے انہوں نے مجھے بھیجا کہ تمہاری مشکل معلوم کروں اور اسے حل کرنے کی کوشش کروں، آؤ تم دونوں اب ان کے مہمان ہو۔
شیح مساعد کہتے ہیں کہ ہم اس کے ساتھ ایک شاندار محل اور فرحت بخش باغ میں پہنچے اور مہمان خانے میں داخل ہوتے ہی دیکھا کہ طرح طرح کے کھانوں سے سجا ہوا دستر خوان ہمارے انتظار میں ہے۔ شدت کی بھوک کی وجہ سے ہمارے لیے انکار کی گنجائش نہ تھی، اس لیے ہم دسترخوان پر ٹوٹ پڑے۔
کھانے اور آرام کرنے کے بعد انہوں نے گاڑی کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ آج تو جمعہ ہے اس لیے تمام ورکشاپ اور دوکانیں بند ہوں گی، اس لیے ایک دن آرام کیجیے، لیکن ہمارا اصرار تھا کہ کوشش کرلیتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کوئی دوکان کھلی مل جائے۔ ہمارے اصرار کو دیکھ کر وہ ہمیں لے کر انڈسٹریل ایریا میں گئے جہاں ہمارا مقصد حاصل ہوگیا، ایک دوکان کھلی ہوئی مل گئی، حالانکہ خود ہمارے میزبان کو اس پر حیرت ہورہی تھی کہ آج یہ کیسے کھلی ہوئی ہے۔ گورنر کے خرچ پر ہماری گاڑی بنائی گئی اور ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگئے، اس لیے کہ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔
ہم راستے بھر پیش آمدہ واقعے کے بارے میں سوچتے رہے کہ ہماری سوچ اور خیال سے اوپر اٹھ کر ہماری مدد کی گئی، ہمیں مصیبت سے نجات ملی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو ہماری حاجت پوری کرنےپر مامور کردیا، تو کون ہے وہ ذات جس نے گورنر کے دل میں بات ڈالی کہ وہ ہماری طرف متوجہ ہو اور ہمارے بارے میں معلوم کرے اور اس کے لیے ایک شخص کو متعین کردے؟ حالانکہ ہم لوگوں کی نگاہوں میں محض ایک مسافر تھے جو آرام یا کسی ضرورت کی وجہ سے رک گیا ہے، خصوصاً جب کہ ہم شہر کے اندرونی حصے میں تھے اور ہائی وے پر نہیں تھے۔
بلاشبہ یہ اللہ کی رحمت تھی جس نے ہمارے لیے تمام اسباب مہیا کیے، ورنہ تو ظاہری اعتبار سے ہم سفر کے لائق نہیں تھے۔ یہ اللہ کی نوازش اور کرم کی بارش ہے جو اس کے بندوں پر برستی رہتی ہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں، یہ پروردگار کی نعمت ہے جس نے انسانیت نواز گورنر کو ہماری طرف متوجہ کیا اور اسے ہمارے غم وآلام کو دور کرنے کا ذریعہ بنایا۔
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندوں پر بہت مہربان اور اپنی مخلوق پر نہایت رحم کرنے والی ہے، جس کا یہ وعدہ ہے کہ :
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ﴾ [سورۃ غافر:۶۰]
”اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھے پکارو میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔“
۱۳-وہیل چیئر
ابو معاذ کہتے ہیں کہ رمضان کے آخری عشرے میں مکہ پہنچے اور حرم میں داخل ہوتے ہی اللہ کی قدرت اور رحمت کے مشاہدے ہونے لگے، ہر طرف خیر وبرکت کی ہوائیں چل رہی تھیں، پروردگار کی رحمت جوش میں تھی اور قبولیتِ دعا کے حیرت انگیز واقعات سامنے آرہے تھے۔
جدّہ پہنچنے کے بعد ہم نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ ٹریفک کا کیا حال ہے؟ اس نے منہ بنا کر جواب دیا کہ بہت خراب ہے، بہت جام لگا رہتا ہے، گزشتہ کل مکہ پہنچنے میں دو گھنٹے لگ گئے تھے۔ ہم نے اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے اطمینان سے کہا کہ اللہ کریم ہے، اور پھر ہم دعا میں لگ گئے اور بہت جلد قبولیت کے آثار نظر آنے لگے، راستہ بالکل خالی تھا اور ہم لوگ بہت کم وقت میں حرم سے بالکل قریب پہنچ گئے۔ ڈرائیور نے اس قدر جلد پہنچنے کو خواب وخیال میں بھی نہیں سوچا تھا، اس لیے وہ حیرت ودہشت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ ہماری طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ معاف کیجیے، اللہ کی قسم! یہ آپ کی برکت ہے، کل یہاں تک آنے کی اجازت نہیں تھی، کیونکہ پولیس والوں نے بھیڑ کی وجہ سے اسے بند کررکھا تھا۔
پھر میں اپنی والدہ کو وہیل چیئر پر بٹھا کر حرم شریف میں داخل ہوا، ہمارے ساتھ ایک نوکرانی بھی تھی، دیکھا کہ طواف میں بہت زیادہ بھیڑ ہے، جس کی وجہ سے پولیس والوں نے وہیل چیئر پر طواف کرنے سے منع کردیا ہے۔ ہم نے ایک پولیس والے سے پوچھا کہ کیا کریں؟ جواب ملا کہ صرف پہلی منزل پر وہیل چیئر سے طواف کرنے کی اجازت ہے، ہم حیران وپریشان ہوگئے، کیونکہ پہلی منزل پر ایک مرتبہ طواف کرنا زمین پر سات مرتبہ طواف کرنے کے برابر تھا۔ مشکل یہ تھی کہ نوکرانی لمبی دوری تک پیدل چل نہیں سکتی تھی، اور والدہ کے لیے نیچے طواف کرنا ممکن نہ تھا، اور یہ بھی ممکن نہ تھا کہ نوکرانی کو تنہا طواف کرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے اور میں اوپر کی منزل میں والدہ کو طواف کرا دوں، کیونکہ وہ پہلی مرتبہ آئی تھی اور اسے عمرے کا طریقہ معلوم نہیں تھا، ایسی حالت میں کیا کیا جائے؟
طویل غور وفکر اور گفتگو کے بعد والدہ نے کہا کہ وہ اللہ کے بھروسے کمزور اور سوجے ہوئے پیر کے ساتھ پیدل طواف کریں گی، ہم انہیں لے کر کعبہ کے پاس پہنچے، ہمیں اندیشہ اور شک تھا کہ اس قدر شدید بھیڑ میں کمزوری کی حالت میں وہ طواف مکمل کرسکیں گی یا نہیں۔ ہم نے پہلا طواف کیا، پھر دوسرا، یہاں تک کہ ساتوں چکر ہم نے آدھے گھنٹے میں پورے کر لیے، اور والدہ حجرِ اسود کے پاس پہنچ کر خوشی کے مارے رونے لگیں اور کہنے لگیں: اے پروردگار! تو ہی میرا مطلوب اور مقصود ہے۔
عمرہ ادا کرنے کے تین دن بعد مجھے بعض مصروفیات کی وجہ سے کویت واپس آنا ضروری تھا، اس لیے میری جگہ پر میرا بھائی مکہ آیا، اور جب میں جدہ ایئر پورٹ میں داخل ہوا اور ٹکٹ کاؤنٹر پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ میری فلائٹ ہفتے کے تیسرے دن نہیں بلکہ مہینے کی تیسری تاریخ کو ہے()، یعنی میرا سفر کل شروع ہوگا، آج نہیں۔ میں نے ٹکٹ کلرک سے پوچھا کہ کیا آج جانے کی کوئی شکل ہے؟ جواب ملا کہ آپ کے علم میں ہے کہ رمضان کا مہینہ چل رہا ہے، اس لیے کافی رش ہے اور کوئی سیٹ خالی نہیں، یہ سن کر ایئر پورٹ کی مسجد میں پہنچا، چاشت کا وقت تھا، میں نے صلاۃ اداکی اور اللہ سے دعا کی وہ میری مشکل کو آسان کردے۔ اور پھر تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ کلرک کے پاس پہنچا اور صورتحال معلوم کی، اس نے کہا: آپ کا ٹکٹ کہاں ہے، آپ کے لیے ایک سیٹ خالی ہوگئی ہے اور آپ اس فلائٹ کے آخری مسافر ہیں، اس لیے وقت نکلنے سے پہلے جلدی سے وہاں پہنچ جائیں۔
تعجب خیز بات یہ ہوئی کہ جب میں فلائٹ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ میری سیٹ سب سے عمدہ سیٹ تھی، اور میرے بغل کی سیٹ کا مسافر اپنی نشست چھوڑ کر پیچھے اپنے ایک رشتے دار کے پاس چلا گیا، اس طرح سے اس کی خالی سیٹ پر میرے سامان اور کاغذات کو رکھنے کی جگہ نکل آئی، اس طرح سے میری جگہ کی لمبائی چوڑائی فرسٹ کلاس سے زیادہ ہوگئی۔
دورانِ سفر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں اور نوازشوں پر غور کرتا رہا، خصوصاً میری والدہ کے طواف کا واقعہ میرے دماغ پر چھایا ہوا تھا، وہ تھوڑی دور تک بھی چلنے پر قادر نہیں تھیں، لیکن انہوں نے پورا طواف مکمل کیا۔ مجھے اس موقع پر ایک شیخ کی بات یاد آرہی تھی جو اکثر اللہ کی طرف سے مہیا کردہ آسانی اور سہولت کے بارے میں بیان کرتے تھے اور دلیل میں یہ آیت پڑھتے:
﴿فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى۵ۙ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى۶ۙ فَسَنُيَسِّرُہٗ لِلْيُسْرٰى۷ۭ ﴾
[سورۃ اللیل: ۵-۷]
”تو جس نے (اللہ کے راستے میں مال) دیا اور ڈرتا رہا اور بھلی بات کو سچ جانا تو ہم اس کے لیے مشکل راہ کو آسان کردیں گے۔“
﴿فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۵ۙ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۶ۭ ﴾ [سورۃ الشرح:۵-۶]
”تو یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے، ضرور مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔“
تو والدہ کی رفاقت اور دعا کی برکت سے آسانی اور راحت کے ایسے ایسے واقعات پیش آئے کہ اس کے بارے میں سوچا تک نہیں جا سکتا تھا۔
۱۴-اپاہج کے علاج سے ڈاکٹروں کی ناکامی
جب جسم بیماری کی گرفت میں آجاتا ہے، مرض کے چنگل میں پھنس جاتا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے، کمزوری اور بیچارگی چھا جاتی ہے اور ہاتھ پیر جواب دے جاتے ہیں تو اس وقت احساس ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت میدان میں پڑے ہوئے پتے جیسی ہے جسے ہوا اِدھر اُدھر الٹتی پلٹتی رہتی ہے، نہ تو اسے آسمان کا سایہ میسر ہے اور نہ زمین اس کے بوجھ کو برداشت کرنے کے لیے آمادہ ہے، اور وہ کسی طرح کے نفع اور نقصان پر قادر نہیں ہے، اور موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ قریب ہے۔
اس وقت اسے معلوم ہوتاہے کہ وہ کس درجہ اپنے پالنہار کا محتاج ہے، جس کے ہاتھ میں اس کی کامیابی وکامرانی ہے۔ اور اس بے کسی اور بے بسی کی حالت میں اسے احساس ہوتاہے کہ اس کا پروردگار اس کے ساتھ ہے جو نہایت مہربان اور کریم وشفیق ہے، اور اس کمزور اور لاچار بندے کا نگہبان ہے جسے مرض نے لاغر، بے خوابی نے کمزور اور تھکاوٹ نے چور کر رکھا ہے، اور وہ عرشِ عظیم کے مالک کے در پر حاضر ہوکر اس سے صحت وعافیت کی بھیک مانگ رہا ہے، اور محتاج ومجبور بندے کی یہ ادا رب کو بہت پسند ہے، اس لیے اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور بخشش وکرم کی پُرکیف اور پُربہار ہوا چلنے لگتی ہے، اور نوازش کی موسلاد ھار بارش شروع ہوجاتی ہے، اور وہ مرض کے گرد وغبار سے پاک وصاف ہوجاتا ہے۔
اِس وقت ہمارے پیشِ نظر ایک ایسا ہی واقعہ ہے جو بظاہر خواب وخیال اور قصہ وکہانی معلوم ہوتا ہے، اور اگر میں نے بذاتِ خود اسے شیخ احمد الدبوس کی زبانی نہ سنا ہوتا تو اس پر یقین کرنا دشوار ہوتا ہے۔ شیخ کہتےہیں کہ میں ۱۹۸۷ء میں ایکسیڈنٹ کا شکار ہوگیا جس کی وجہ سے میری ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور جس کے علاج کے لیے مجھے لاس انجلس امریکہ کا سفر کرنا پڑا۔
ڈاکٹر نے ٹیسٹ وغیرہ کرنے کے بعد کہا کہ آپریشن نہایت خطرناک اور کامیابی کی امید بہت کم ہے اور اس کے نتیجے میں آدھا جسم مفلوج ہوسکتا ہے۔ سخت تکلیف، درد اور مرض کی شدت کی وجہ سے میں نے کہا کہ آپریشن کردو، پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ چنانچہ آپریشن شروع ہوا اور مسلسل آٹھ گھنٹے تک چلتا رہا، اچانک میری حالت بگڑنے لگی، خون کا دوران کم ہونے لگا اور جس کا اندیشہ تھا وہی ہوا، اور ڈاکٹروں کا گروپ علاج سے مایوس ہوگیا اور سب اس پر متفق ہوگئے کہ حقیقت تسلیم کرلینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، اور آپریشن تھیٹر کے تمام لوگ ناکامی کے احساس کے ساتھ باہر چلے گئے، دیکھ ریکھ کے لیے صرف چند کمپاؤنڈر رہ گئے۔
میرے بھائی کے اندر اس خبر کو سننے کی تاب نہیں تھی، اس لیے جب ڈاکٹروں نے انہیں اس کی اطلاع دی تو وہ کانپنے لگے، خود پر قابو نہیں رکھ سکے اور زمین پر گرگئے، ڈاکٹر انہیں یہ کہہ کر تسلی دیتے رہے کہ ہمیں افسوس ہے کہ آپریشن ناکام رہا اور آپ کے بھائی کا آدھا جسم ناکارہ ہوگیا، ہم نے اپنی پوری توانائی اور کوشش لگا دی لیکن قدرت کے فیصلے کے سامنے کیا کرسکتے ہیں۔
اس کے بعد ڈاکٹروں نے یہ طے کیا کہ مجھے اور بارہ گھنٹے تک بے ہوش رکھا جائے تاکہ مجھ میں اس خبر کو سننے کی طاقت پیدا ہوئے۔ اور جب مجھے ہوش آیا اور نچلے حصے کے بارے میں کچھ احساس نہیں ہوا تو میں نے سوچا کہ شاید بے ہوش کرنے والی دوا کا اثر ہے، لیکن بہت جلد یہ حقیقت کھل گئی کہ میرا آدھا جسم مفلوج ہوچکاہے، اور میں نہ تو اپنے قدم کو حرکت دے سکتا ہوں اور نہ استنجے کی ضرورت پوری کرسکتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں کہ کیسے میرے اوپر سکون وطمانیت اور اللہ کے فیصلے پر رضا کی کیفیت طاری ہوگئی اور میں نے اپنے دل میں کہا: تمام تعریف اور شکر اللہ کے لیے ہے، اللہ کے سوا نہ تو کسی کے پاس کوئی طاقت ہے اور نہ قدرت، اے پروردگار! اگر آپ نے مجھے آزمائش میں مبتلا کیا تو ایک طویل مدت تک آپ نے مجھے عافیت بھی بخشی ہے، اگر آپ نے کچھ لے لیا ہے تو ایک طویل عمر تک آپ نے اسے میرے حوالے کررکھا تھا، اگر آپ نے میرے آدھے حصے کو ناکارہ کردیا ہے تو اوپر کے آدھے حصے کو صحیح سالم رکھا ہے، تو تمام تعریف اور شکر اُس اللہ کے لیے ہے جس نے میرے دل کو اور زبان کو باقی رکھا جس سے میں اس کا ذکر اور شکر ادا کرسکتا ہوں۔ اور اس موقع سے مجھے حضرت اُمّ سلمہ کی حدیث یاد آگئی اور میں نے کہا:
«اللهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا»().
”اے اللہ! مجھے اس مصیبت کا اجر وثواب دیجیے، اور اس کا بہتر بدل عنایت کیجیے۔“
میں اِسی کیفیت میں بیٹھا ہوا تھا کہ سرجن اندر داخل ہوا تاکہ حادثے پر مجھے تسلی دے اور اظہارِ افسوس کرے اور آپریشن کی ناکامی کے اسباب بیان کرے، لیکن جب اس نے مجھے پُرسکون حال میں اور اللہ کے فیصلے پر راضی بیٹھا ہوا دیکھا اور اس نے مشاہدہ کیا کہ میرا عزم وحوصلہ بہت بلند ہے او رمیری گفتگو سے کسی گھبراہٹ اور مایوسی کا اظہار نہیں ہورہا ہے تو اسے بڑا تعجب ہوا اور اس نےگروپ کے تمام ڈاکٹروں کو بلا لیا تاکہ وہ مجھے دیکھ کر نصیحت حاصل کریں۔
اس کے بعد داخلی امراض کے اسپیشلسٹ، پیشاب کی نالی سے متعلق امراض کے ماہر اور اعصاب کے ڈاکٹروں نے میرا معائنہ شروع کیا اور پھر سب کا نتیجہ ایک تھا کہ مریض کا آدھا جسم ناکارہ ہوچکا ہے اور اب اس کی امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ کبھی چلنے پھرنے کے لائق ہوسکے گا۔
اور مجھے بھی اس بات کا احساس ہوچکاتھا کہ میرا معاملہ ڈاکٹروں کے بس سے باہر ہوچکا ہے، ان کی تمام تدبیریں اور کوششیں ناکام ہوچکی ہیں، تمام دنیاوی اسباب فیل ہوچکے ہیں، اس لیے اب اسباب کے مالک کے سوا کوئی سہارا نہیں ہے۔ لہٰذا میں نے اب اپنی پوری توجہ دعا اور مناجات پر لگا دی، اور ایک رات سحری کے وقت فجر سے کچھ پہلے کا وقت تھا، اور یہ وہ وقت ہے جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور کہتے ہیں: ہے کوئی مانگنے والا جس کے دامنِ مراد کو بھردوں، میں اس جملے پر رُک کر غور کرنے لگا اور پھر عرض کیا: اے میرے پروردگار! میں تیرا ایک محتاج بندہ ہوں، اور میرے ساتھ جو کچھ ہوا ہے تو اس سے بخوبی واقف ہے، اور پھر مختلف انداز والفاظ میں اپنی محتاجی، بے چارگی، بیماری اور کمزوری کو اپنے رب سے بیان کرنے لگا اور اسی طرح کے الفاظ کو بار بار دہراتا رہا اور دعا کرتا رہا، خشوع وخضوع، تذلّل وانکساری اور خود سپردگی کے عالم میں دل سے نکلے ہوئے سچے الفاظ تھے اور اس پر مکمل یقین واعتماد تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ میری حالت کو بدلنے پرقادر ہے، اور وہ کسی چیز کے لیے کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔
وہ آپریشن کا چھٹا دن تھا اور سورج نکلنے سے پہلے مجھے پیشاب کی ضرورت محسوس ہوئی، میں نے کمپاؤنڈر سے کہا کہ مجھے پیشاب کی ضرورت ہے، اس نے میری بات پر کوئی توجہ نہیں دی اور سمجھا کہ صدمے کی شدت کی وجہ سے دیوانگی کی حالت میں یہ کہہ رہا ہوں، اور وہ سوچ رہا تھا کہ اپاہج مریض کو پیشاب کا احساس کیسے ہوسکتا ہے، دوبارہ سختی کے ساتھ اور چیختے ہوئے میں نے اس سے کہا، لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر میں نے خوب زور سے اس کے ہاتھ کو کھینچا اور اپنی بات دہرائی۔ میری اس کیفیت کو دیکھ کر وہ بدحواس ہوگیا اور فوراً فون کے ذریعے ڈاکٹر سے ربط کیا اور کہا کہ مریض کی یہ صورتحال ہے، جلدی سے یہاں آئیے، آپ کا آنا ضروری ہے، میں کسی طرح کی ذمے داری نہیں لے سکتا ہوں، مجھے ڈر ہے کہ ٹانکے ٹوٹ جائیں گے اور زخم کھل جائے گا اور اس کے نتیجے میں بہت سی مشکلات پیش آسکتی ہیں، اس لیے فوراً آئیے۔ لیکن ڈاکٹر نے بھی کوئی پرواہ نہیں کی اور کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اسے ہسٹریا کا دورہ پڑا ہے اور اسی کی وجہ سے وہ بے حقیقت چیزوں کا احساس کررہاہے، لیکن کمپاؤنڈر اپنے اصرار پر قائم رہا اور کہا کہ ٹھیک ہے، لیکن جو کچھ ہوگا اس کی تمام تر ذمے داری آپ پر ہوگی اور میں کسی چیز کے بارے میں جوابدہ نہیں ہوں گا۔ یہ سنتے ہی ڈاکٹر میرے پاس آیا اور کہا: کیا بات ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے پیشاب کا احساس ہورہاہے، لیکن اسے میری بات پر یقین نہیں آیا اور مثانہ اور اس کے امراض کے ماہر سے ربط کیا اور صورتحال بتلائی اور یہ بھی کہا کہ ہوسکتاہے کہ یہ ہسٹریا کے نتیجے میں ہو، کیونکہ ہماری اور آپ کی جانچ میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس مریض کے لیے پیشاب وغیرہ کا احساس ممکن ہی نہیں ہے۔ دوسرا ڈاکٹر سب کچھ چھوڑ کر جلدی سے میرے پاس پہنچا اور دوبارہ جانچ شروع کردی اور انجکشن لگایا اور پھر میرے جسم پر اس کے ردِعمل کا انتظار کرنے لگا، اس نے دیکھا کہ میرے اعصاب متاثر ہورہے ہیں اور حرکت میں اضافہ ہوگیا ہے، بلکہ اس کے معاون ڈاکٹر کو اندیشہ ہوا کہ اس کی وجہ سے میرا زخم کھل سکتا ہے، لیکن ڈاکٹر نے اس سے کہا کہ رکو، دس منٹ انتظار کرو، تاکہ معلوم ہوسکے کہ پیشاب کی نالی پر اس انجکشن کا کیا اثر پڑتا ہے۔ اس نے دیکھا کہ تھوڑی دیر کے بعد میرے جسم کی حرارت میں اضافہ ہوگیا اور میری رگوں میں خون گردش کرنے لگا اور دل کی دھڑکن میں اضافہ ہوگیا اور میرے چہرے پر انجکشن کے اثرات ظاہر ہونے لگے، اور اس کا معاون ڈاکٹر اس سے چپکے چپکے کہہ رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملہ ہمارے اختیار اور قابو سے باہر ہوجائے اور شدتِ اضطراب کی وجہ سے ٹانکے ٹوٹ جائیں اور ہم کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جائیں، اس لیے جانچ کا یہ سلسلہ ختم کیجیے، لیکن ڈاکٹر نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی اور آلۂ تناسل کی پٹی کھول دی اور ایک حیرت انگیز منظر سامنے تھا، طبعی طریقے پر پیشاب نکلنے لگا اور ڈاکٹر نے چیختے ہوئے کہا کہ مریض کی زندگی واپس آگئی۔
ہاں، میرے اپاہج جسم میں زندگی کی لہر دوڑ گئی اور میرا بے حس وحرکت رہنے والا آدھا دھڑ کام کرنے لگا، اور اس تجربے نے مجھے ایمان وشعور کی ایک لافانی دولت سے ہم آشنا کیا اور میرے جسم کی طرح سے میرے دل میں بھی ایمان کی لہر دوڑ گئی، کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ علاج کے نت نئے طریقے اور سائنس کی ترقی جہاں ہار مان لیتی ہے وہاں قدرت دست گیری فرماتی ہے، مجھے اللہ کی عظمت وکبریائی کا احساس ہوا کہ اسے کسی بھی چیز کو وجود میں لانے کے لیے بس لفظ ’’کُن‘‘ (ہوجا) کہہ دینا کافی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کمزور، محتاج اور مسکین بندے کی دعا قبول فرمائی اور مجھے اس کے اس ارشاد پر یقین ہوگیا کہ:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ ﴾ [سورۃ غافر:۶۰]
”اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھے پکارو، میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔“
چنانچہ اس نے میری صحت کسی مادی سبب کے بغیر واپس کردی۔ اس سے دعا اور گریہ وزاری کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اور اس کی توفیق ایک ایسی نعمت اور دولت ہے جس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے، اور میں اس وقت کسی سہارے کے بغیر اپنی زندگی کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہوں اور عام لوگوں کی طرح چلتا پھرتا اور سفر کرتا رہتا ہوں اور کسی طرح کی دقت اور پریشانی محسوس نہیں کرتا۔
۱۵-بیوی مصر میں اور شوہر سعودیہ میں
شیخ احمد الدبوس بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن سعودی عرب کے شہر الخبر میں کیسٹ کی ایک دوکان میں داخل ہوئے، مقصد یہ تھا کہ کچھ ایسی کیسٹس حاصل ہوجائیں جن کے ذریعے ایک لکچر میں مدد مل سکے۔ وہ دوکان کے اندرونی حصے میں ٹہل رہے تھے تو دوکان والے نے دیکھا کہ آنے والوں میں کچھ لوگ انہیں حضرت مولانا کہہ کر مخاطب کررہے ہیں اور بڑی گرمجوشی سے ان سے ملاقات کررہے ہیں، یہ دیکھ کر وہ ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: حضرت! آپ سے ایک درخواست ہے، یہاں موجود رشتے داروں، جان پہچان کے لوگوں اور سماج کے باحیثیت افراد کے ذریعے کوشش کرکے میں تھک چکا ہوں کہ وہ میری بیوی کو یہاں لانے میں میری مدد کریں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی، ڈیڑھ ماہ سے اس کوشش میں لگا ہوا ہوں لیکن بہت سے لوگوں کی سفارشوں کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔ آپ کے جاننے والے آپ کو حضرت کہہ کر مخاطب کررہے ہیں، اس لیے آپ میرے لیے دعا کردیجیے کہ میری بیوی کے یہاں آنے کے راستے میں جو رکاوٹیں ہیں وہ دور ہوجائیں۔ میں نے کہا: میرے بھائی! تمہیں اس سے بہتر طریقہ بتلا رہا ہوں، اس نے کہا: وہ کیا ہے؟ میں نے کہا: تم الخبر میں ہو اور تمہاری بیوی مصر میں، آج رات تم تہجد کی نماز پڑھو، اور اس سے پہلے فون کرکے اپنی بیوی سے کہو کہ وہ بھی آج تہجد کی نماز پڑھے، اور پھر تم دونوں اللہ سے دعا کرو کہ وہ رکاوٹوں کو دور اور تمہاری مراد پوری کردے۔
دوکان والے اور اس کی بیوی نے اس پر عمل کرتے ہوئے پوری رات دعا ومناجات اور نماز میں بسر کی، ایک ہی فریاد تھی اور ایک ہی خواہش اور وقت بھی ایک، البتہ جگہ الگ الگ، ایک سعودیہ میں اور دوسرا مصر میں، اور فریاد سننے والے نے ان کے دامن کو گوہرِ مراد سے بھردیا۔
شیخ احمد الدبوس کہتے ہیں کہ ایک عرصے کے بعد دوبارہ وہاں حاضر ہوا،میں اس دوکان والے کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو بھول چکا تھا اور جیسے ہی اندر داخل ہوا وہ مجھے دیکھتے ہی لپک کر میرے پاس آیا اور گرمجوشی کے ساتھ مجھ سے مصافحہ اور معانقہ کرنے لگا اور میں حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ کیا بات ہے! اور آخرکار اس سے پوچھ ہی لیا کہ بھائی معاملہ کیا ہے؟ کہنے لگا: خوشخبری، خوشخبری، میں نے کہا: کس چیز کی؟ کہنے لگا میں نے اور میری بیوی نے آپ کی نصیحت پر عمل کیا اور دعا کے بعد چوتھے ہی دن میری بیوی سعودیہ پہنچ گئی۔
میں نے دعا کے اس قدر جلد اثر کرنے پر اللہ کی تعریف کی اور شکر ادا کیا اور اس سے کہا: دعا کے اثر کا تم نے مشاہدہ کرلیا ہے، خصوصاً وہ دعا جو سحر کے وقت کی جائے۔ دعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بڑی بھلائیوں اور دیرپا اچھائیوں سے نوازتے ہیں، اس گھڑی وہ خود پکار کر کہتے ہیں کہ ہے کوئی مانگنے والا جس کو میں نواز دوں۔
شیخ احمد الدبوس نے اس قصے کو بیان کرتے ہوئے ایک دوسرے واقعے کا بھی ذکر کیا جسے انہوں نے ۱۹۹۹ء میں شائع ہونے والے کسی رسالے میں پڑھا تھا کہ ایک ستر سالہ بوڑھی عورت کی بینائی بچپن میں ہی ختم ہوگئی تھی اور زندگی کے اس آخری مرحلے میں وہ دعا کرنے لگی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس کی بینائی کو لوٹا دے، اور سولہ سال تک مسلسل دعا، فریاد اور گریہ وزاری کے نتیجے میں اس کی آنکھ کی روشنی واپس آگئی۔
اسی طرح سے سعودی عرب کے شہر القصیم کی رہنے والی ایک عورت پیدائشی نابینا تھی اور وہ مسلسل پچپن سال سے ہر روز فجر کی نماز کے بعد دعا کرتی تھی کہ اے اللہ! میری آنکھ میں روشنی دے دے، اور آخرکار اس کی دعا قبول ہوئی اور وہ دنیا دیکھنے کے لائق ہوگئی۔
۱۶-کہاں سے گوشت لاؤں؟
کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا کہ کسی دوکان سے سامان خرید کر جب قیمت چکانے کی باری آئی تو معلوم ہوا کہ جیب تو بالکل خالی ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا کہ کسی نے آپ کی گاڑی کو ٹکر ماردی ہو لیکن غصے میں بھرے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھول کر دیکھا تو ٹکر مارنے والا جگری دوست نکلا؟ اس وقت ندامت اور شرمندگی کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ شیخ مساعد مندنی ایک اسی طرح کے واقعے کو بیان کررہے تھے جس میں وہ ایک عجیب کشمکش اور احساسِ شرمندگی سے دوچار تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے دعا کی برکت سے انہیں اس سے نجات دی۔ وہ کہتے ہیں کہ سعودیہ سے کچھ لوگ کویت آئے ہوئے تھے، میں نے انہیں اور کویت کے بعض دوستوں کو جن میں شیخ احمد القطان بھی تھے دعوت دی۔
یہ۱۹۸۹ء کا واقعہ ہے، اور مہمانوں کی تعداد چالیس کے قریب تھی۔ صبح سویرے گوشت خریدنے کے لیے بازار گیا اور مجھے یاد نہیں تھا کہ آج دوکان بندی کا دن ہے، اس لیے جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ دوکان بند ہے، پھر وہاں سے دوسرے علاقے میں گیا، وہاں بھی دوکان بند ملی، پھر تیسری جگہ گیا، وہاں بھی یہی حال، اس طرح سے میں نے چھ علاقوں کو چھان مارا لیکن ہر جگہ سے ناکامی ہاتھ لگی۔
اور رسوائی کے اندیشے سے پریشان ہونے لگا، میرا ذہنی اضطراب بڑھتا رہا اور ٹینشن میں مبتلا ہوگیا۔ بار بار یہی خیال آتا رہا کہ مہمان کیا سوچیں گے کہ اس نے ہماری دعوت کی لیکن کوئی انتظام نہیں کیا، حیران وپریشان گھر واپس آگیا، لیکن گاڑی سے اترنے سے پہلے میں نے اللہ سے دعا کی اور اپنے دل میں سوچا کہ آج اس حدیث پر کیسے عمل ہوپائے گا جس میں کہا گیا ہے کہ:
«مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ»().
”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو وہ مہمان کی عزت کرے۔“
میں کیسے ان کی عزت کروں گا جب کہ آج کہیں بھی گوشت دستیاب نہیں ہے! پھر اپنے رب سے مناجات کرتے ہوئے کہنے لگا کہ اے میرے پروردگار! یہ میرے مہمان ہیں، اور تو ہی ان کی عزت کا سامان پیدا کر۔ وہ کہتے ہیں کہ دعا کے بعد گاڑی سے اترا، اپنے گھر میں داخل ہونے کے بعد دروازہ بند کرکے ابھی چند ہی قدم چلا تھا کہ دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی، واپس جاکر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ میرے پڑوسی ابو احمد ہیں اور گرمجوشی کے ساتھ سلام کے بعد کہنے لگے کہ میرے یہاں بچے کی پیدائش ہوئی تھی اور آج اس کا عقیقہ تھا اور آپ کے حصے کا گوشت لے کر حاضر ہوا ہوں۔
ان کی زبان سے ادا ہونے والے کلمات بارش کی پھوار کی طرح تھے، جس نے میرے دل سے غم وپریشانی کے گرد وغبار کو زائل کردیا اور اس تحفے پر ان کا شکریہ ادا کرتا رہا، لیکن میری زبان ان کے ساتھ تھی اور میرا دل اور جسم کا رواں رواں اللہ کے شکر سےبھیگا جارہا تھا جو اپنے بندوں پر انتہائی مہربان اور ان سے حد درجہ محبت کرنے والا ہے، اس کی نوازش اور اس قدر جلد دعا کی قبولیت کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا اور فرحت ومسرت کے ساتھ گھر میں داخل ہوا اور اپنی اہلیہ سےکہا کہ یہ گوشت لو اور جلد سے جلد دوپہر کا کھانا تیار کرو، اسے دیکھ کر وہ کہنے لگیں کہ اس قدر تازہ گوشت آپ کو کہاں سے مل گیا؟ ایسا لگ رہا ہے کہ تھوڑی دیر پہلے ہی جانور کو ذبح کیا گیا ہے۔ میں نے کہا: تم سچ کہہ رہی ہو، یہ اللہ کا فضل و احسان ہے جو ہمیں اپنے پڑوسی ابو محمد کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔
شیخ مساعد کہتے ہیں کہ گوشت کے حصول سے زیادہ تعجب خیز اور حیرت انگیز اس میں ہونے والی برکت تھی، کیونکہ اس کی مقدار پانچ کلو سے زیادہ نہیں تھی اور اس قدر گوشت مہمانوں کے لیے کافی نہیں تھا، اس لیے ہم میاں بیوی نے طے کیا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دیے جائیں، اور میں اللہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ ہم سب نے جی بھر کے کھایا لیکن گوشت کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ اس میں سے کچھ کھایا ہی نہیں گیاہے، اور یہی حال اندرونِ خانہ کا بھی تھا کہ مہمانوں کے ساتھ آنے والی خواتین نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا لیکن اس میں سے کچھ کم نہیں ہوا، بلکہ جتنا بھی اس میں نکالا جاتا برکت کی وجہ سے وہ پھر پہلے کی طرح ہوجاتا۔
جس چیز کا ہم لوگ مشاہدہ کررہے تھے وہ خیال وتصور سے بہت بلند تھا، اور میں نے مسکراتے ہوئے اپنی بیوی سے کہا: ام احمد! یہ دعا کی برکت ہے، ورنہ کون ہے وہ جس نے ہمارے پڑوسی کو گوشت لے کر بھیجا جسے تلاش کرتے کرتے ہم تھک چکے تھے، اور کیسے اس میں برکت پیدا ہوگئی جس کے ذریعے ہم اس حدیث کی حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ:
«خَيْرُ الطَّعَامِ مَا كَثُرَتْ عَلَيْهِ الْأَيَادِي»().
یہ میرے رب کی طرف سے برکت تھی، اس کا بہت بہت شکر ہے کہ اس نے مجھے رسوائی سے بچا لیا۔
اس واقعے کے سننے سے پہلے میرا گمان تھا کہ برکت کی یہ شکل صرف نبی ﷺ کے زمانے میں پائی جاتی تھی کہ آنحضرت ﷺ دعا فرما دیتے اور تھوڑا سا کھانا سینکڑوں لوگوں کے لیے کافی ہوجاتا جیسا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر ہوا کہ کہیں سے ایک پیالہ دودھ آیا اور آپ ﷺ نے فرمایا: ابو ہریرہ! مسجد سے صفہ والوں کو بلا لو، سب لوگ آگئے، ایک پیالے دودھ کو ہر ایک نے شکم سیر ہوکر نوش کیا لیکن اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور پیالہ پہلے کی طرح بھرا ہوا تھا۔() پھر میں نے خود سے سوال کیا کہ اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ کیا اللہ ایک نہیں ہے؟ اور کیا ایک شرط کے علاوہ کوئی اور شرط ہے؟ اور وہ یہ ہے کہ
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ﴾ [سورۃ غافر:۶۰]
”اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھے پکارو، میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔“
۱۷-فٹ بال میچ
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حادثات، سخت مصیبت اور اہم کام کے لیے ہی دعا کی ضرورت ہے، اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف بڑے اور بزرگوں کی دعا قبول ہوتی ہے، لیکن یہ ایک غلط خیال ہے، چھوٹے، بڑے ہر کام کے لیے دعا کرنی چاہیے، اسی طرح سے چھوٹے بڑے ہر شخص کی دعا قبول ہوتی ہے، اس لیے کسی کو بھی دعا سے غفلت اور بے نیازی نہیں برتنی چاہیے۔ درج ذیل واقعے اور تجربے سے ہماری بات کی تائید ہوتی ہے:
عادل احمد ایک نوخیز لڑکا ہے جس کی عمر پندرہ سال سے زیادہ نہیں، وہ کہتا ہے کہ گلف کپ فٹ بال کا فائنل میچ تھا، میچ بالکل آخری مرحلے میں تھا اور کوئی فریق بھی ابھی تک گول نہیں کر پایا تھا، اور کھیلنے اور دیکھنے والے دونوں ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار تھے، امید اور ناامیدی کے درمیان کشمکش جاری تھی، میں نے اپنے دل میں کہا:
اے رب! مجھے دنیا کی ایک معمولی اور حقیر چیز مانگتے ہوئے شرم محسوس ہورہی ہے، لیکن… لیکن… میرے پروردگار! میری التجا یہ ہے کہ میرے پسندیدہ گروپ کو جتا دے۔ اے اللہ! میچ میں کامیابی مانگتا ہوں… اے پروردگار!
میرے ہاتھ ابھی دعا کے لیے اٹھے ہی تھے کہ جیت کی خوشخبری سنائی دینے لگی، اسٹیڈیم میں موجود لوگ خوشی کے مارے چیخنے لگے اور میں بھی خوشی کی وجہ سے ٹیلی ویژن کے پاس شور مچانے لگا، لیکن میری یہ خوشی جیت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس قدر جلد دعا کے قبول ہونے پر تھی۔ کیسے میرے پروردگار نے ایک دنیاوی معاملے میں اس طرح سے فوراً میری خواہش پوری کردی!؟ اس میں میری پوری زندگی کے لیے ایک نہایت ہی قیمتی اور خوشگوار سبق تھا، کیونکہ یہ ایک خوبصورت تحفہ تھا جو آسمان سے میرے لیے بھیجا گیا، یقین مانیے مجھے اپنی نیک بختی اور خوش قسمتی کا ایک ایسا احساس ہوا جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس لیے کہ جب میں نے اپنے رب کو یاد کیا تو اس نے بھی مجھے یاد کیا، اس نے فرمایا ہے:
﴿فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ ۱۵۲ۧ ﴾ [سورۃ البقرۃ:۱۵۲]
”تم مجھے یاد کرو تو میں تمہیں یاد کروں گا۔“
اور اگر میں اسے بھول جاتا تو وہ بھی مجھے فراموش کردیتا، اس کا ارشاد ہے:
﴿ نَسُوا اللہَ فَنَسِيَہُمْ۰ۭ ۶۷ ﴾ [سورۃ التوبۃ:۶۷]
”ان لوگوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی ان کو بھلا دیا۔“
اس واقعے سے میں نے سیکھا کہ اللہ تعالیٰ سے ہر چیز مانگنی چاہیے، گرچہ معمولی چیز ہی کیوں نہ ہو۔ اور دعا قبول ہونے کی فکر میں نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اس بات کی اہمیت ہونی چاہیے کہ ہمیں ہر وقت دعا کی توفیق مل جائے۔ وہ ہمارا پروردگار ہے، اور ہماری محبتوں کا مرکز۔
۱۸-تنگدست کے ذریعے تنگدست کی مدد
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ يَّـتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۲ۙ وَّيَرْزُقْہُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۳ ﴾
[سورۃ الطلاق:۲-۳]
”اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ پیدا کردیتے ہیں اور اس کو ایسی جگہ سے روزی دیتے ہیں جس کا اس کو گمان بھی نہ تھا۔“
اس آیت میں ایک ایسا قانون اور اصول بیان کیا گیا ہے جس میں غلطی اور چوک کا کوئی امکان نہیں ہے، اس لیے ہمیں اپنی توجہ کا مرکز روزی دینے والے کو بنانا چاہیے نہ کہ روزی کو، نعمت عطا کرنے والے پر نگاہ ہونی چاہیے نہ کہ نعمت پر، اس لیے کہ اللہ نے ایسے شخص کی روزی کی ذمے داری لے لی ہے جو اس پر مکمل بھروسہ اور اعتماد رکھتا ہے۔
شیخ محمد متولی الشعراوی کہتے ہیں کہ روزی تمہارے پتے سے واقف ہے، لیکن تم کو اس کا پتہ معلوم نہیں ہے، اس لیے تمہیں صرف وہی روزی ملے گی جو تمہاری قسمت میں ہے، یہی اسلام کی تعلیم ہے اور تجربے سے یہی ثابت ہے۔ درج ذیل واقعے میں اسی حقیقت نے ایک خوبصورت پیکر اختیار کرلیا ہے اور یہ ایک نہایت عجیب وغریب قصہ ہے جسے ہمارے جگری دوست عبدالوہاب الفہید بیان کرتے ہیں۔
وہ کہتےہیں کہ عمرہ ادا کرنے کے ارادے سے میں، میری بیوی، اپنی چھوٹی بچی کو لے کر مکہ روانہ ہوئے۔ عمرہ ادا کرنے اور کویت واپس ہونے سے پہلے میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے پاس موجود سارا سرمایہ صدقہ کردوں، چنانچہ اسے عملی جامہ پہناتے ہوئے راستے کی ضرورت کے بقدر رقم رکھ کر بقیہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔
دورانِ سفر سورج ڈوبنے سے کچھ پہلے گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا، میں نے گاڑی میں موجود دوسرا ٹائر لگاکر سفر کو جاری رکھا، اچانک بیچ سڑک پر لوہے کاایک ٹکڑا نظر آیا اور گاڑی اس سے جاکر ٹکڑا گئی جس کے نتیجے میں دوسرا ٹائر بھی پھٹ گیا اور میں نے اسے سڑک کے کنارے لاکر روک دیا، ہر طرف تاریکی پھیلی ہوئی تھی اور سناٹا چھایا ہوا تھا، اور دہشت کا ماحول تھا، جس کی وجہ سے بیوی اور بچے خوف کا شکار ہورہےتھے۔
میں نے اس سے کہا: آؤ دو رکعت صلاۃِ حاجت پڑھتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری مصیبت کو دور کردے اور ہماری حفاظت فرمائے۔ میری اہلیہ نے کہا کہ صلاۃ سے پہلے سڑک پر پڑے ہوئے لوہے کو ہٹانا ضروری ہے تاکہ دوسرے مسافروں کو پریشانی نہ ہو۔ ہم نے اسے ہٹاکر دو رکعت صلاۃِ حاجت پڑھی اور پھر روکر اور گڑگڑا کر دعا کرنے لگے: اے اللہ! ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں اور تجھ سے فریاد کرتے ہیں کہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دے، اور اس گھٹن سے نکلنے کا راستہ مہیا فرما۔ یا علي! یاعظیم! یا حلیم! یا علیم! آپ کے اسمِ اعظم کے ذریعے رحم وکرم کی بھیک مانگتا ہوں جس کے ذریعے دعا کرنے سے دعا قبول ہوتی ہے، جس مصیبت سے ہم دوچار ہیں اس سے نجات دے۔
دعا ختم ہوتے ہی ہم نے دیکھا کہ یکے بعد دیگرے ہمارے پاس تین گاڑیاں آکر رک گئیں، ان میں سے ایک صاحب نے گاڑی سے اتر کر ہمیں سلام کیا، حال چال پوچھنے کے بعد کہا کہ یہاں ٹھہرے رہنے کی کیا وجہ ہے؟ میں نے صورت حال بتلائی، یہ سن کر انہوں نے اپنے صاحب زادوں سے کہاکہ دونوں پہئے لے جاؤ اور ٹھیک کراکے لاؤ۔ وہ لوگ وہاں سے قریب کسی گیرج سے ٹھیک کراکے اور نیا ٹائر لگوا کے بہت جلد واپس آگئے، مجھے شدید شرمندگی کا احساس ہورہا تھا، کیونکہ میرے پاس ٹائر کی قیمت دینے کے لیے رقم موجود نہیں تھی، اس لیے خاموش رہا، لیکن اس شخص نے میرے چہرے کو پڑھ لیا اور میرے قریب آکر آہستہ سے پوچھا کہ کیا جیب میں کچھ نقدی ہے؟ اور میرے جواب کے بغیر اس نے محسوس کرلیا کہ میں خالی ہاتھ ہوں، چنانچہ اس نے تین سو ریال مجھے دیا اور کہا: برائے مہربانی اس رقم کو قبول کر لیجیے، مجھے امید ہے کہ کویت تک کے سفر کے لیے یہ رقم کافی ہوگی۔ لیکن میں نے اسے لینے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا، اور شرمندگی کی وجہ سے میرا جسم پسینے سے بھیگ گیا اور اس کے قطرے میری پیشانی پر چھلکنے لگے، لیکن ان کا اصرار بڑھتا ہی رہا اور کہنے لگے: واپس مت کیجیے… یہ میرا مال نہیں ہے، بلکہ میرے اوپر قرض ہے جسے میں ادا کررہا ہوں، مجھے اس جملے پر بڑی حیرت ہوئی اور پوچھا: کیا مطلب؟
انہوں نے کہا: گزشتہ سال اسی جگہ میرے ساتھ بھی اس طرح کا حادثہ پیش آچکا ہے اور میرا ہاتھ بالکل خالی تھا، ایک کویتی نوجوان کی گاڑی میرے پاس آکر رکی اور اس نے میرا تعاون کیا اور نیا ٹائر خرید کر مجھے دیا اور پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ کے پاس کچھ نقدی ہے؟ اور میرے جواب دینے سے پہلے اس نے تین سو ریال میرے حوالے کیا، اور کہا: اس رقم کو دورانِ سفر خرچ کیجیے۔ میں نے کہا: اس قرض کو لوٹانے کی کیا شکل ہوگی؟ اس نے کہا: فکر کی کوئی بات نہیں، اسے اپنی ضرورت پر خرچ کیجیے اور جس طرح سے آپ چاہیں واپس کردیں۔ میں نے کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ مجھے آپ کے گھر کا پتہ معلوم نہیں ہے؟ اس نے کہا غم نہ کیجیے، یہ آپ کے لیے ہدیہ ہے، اور اگر آپ چاہیں تو کبھی کسی محتاج کو بطورِ صدقہ دے دیجیے گا۔ اور آج وہ لمحہ آگیا ہے جس میں اس نوجوان کے قرض کو کسی ضرورت مند کے حوالے کرسکتا ہوں، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے بعد اس جگہ پر کسی دوسرے کے ساتھ وہی حادثہ پیش آیا جو میرے ساتھ ہوچکا تھا، اور اللہ نے مجھے مدد کے لیے بھیج دیا۔
جناب عبدالوہاب الفہید نے حیرت وحیا اور رشک کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس رقم کو لے لیا اور وہم وگمان میں نہ آنے والے واقعے کو سن کر اور اللہ کی طرف سے آئی ہوئی اس مدد کو دیکھ کر دنگ رہ گئے، اور اس آیت کو بار بار پڑھتے رہے:
﴿وَمَنْ يَّـتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۲ۙ وَّيَرْزُقْہُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۳ ﴾
[سورۃ الطلاق:۲-۳]
”اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ پیدا کردیتے ہیں اور اس کو ایسی جگہ سے روزی دیتے ہیں جس کا اس کو گمان بھی نہ تھا۔“
اور اپنی اہلیہ سے کہا: یہ ایک کویتی نوجوان کا صدقہ ہے جو ایک سعودی دوست کے ذریعے ہم تک پہنچا اور میری مصیبت وپریشانی کو دور کرنے کا ذریعہ بنا اور دو لوگوں کے لیے صدقۂ جاریہ بن گیا، اللہ تعالیٰ سب کو بہتر بدلہ عطا فرمائے۔
سبحان اللہ! اللہ کی قدرت کے کیا کرشمے ہیں! سڑک پر موجود ایک لوہے کی وجہ سے گاڑی کا ٹائر پھٹ جاتا ہے، اور پھر اسی طرح کا واقعہ ایک سال بعد اُسی جگہ پیش آتا ہے… اور اس وقت وہاں سے وہی شخص گزرتا ہے جس کے ساتھ پچھلے سال حادثہ ہوچکا ہے، اور اس نے سال بھر سے تین سو ریال کو اپنے پاس محفوظ رکھا ہے تاکہ کسی مستحق کے حوالے کرسکے۔ کس نے یہ تمام تدبیریں کیں! کس نے یہ اسباب مہیا کیے جس کی وجہ سے ایک نوجوان کا صدقہ دوسرے ضرورت مند تک منتقل ہوا! بلاشبہ وہ اللہ کی ذات ہے جو بڑی عظمت والا اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، وہ نہایت کریم، مہربان اور شفیق ہے۔
۱۹-مفت کا گھر
میرے دوست عمر البدر کہتے ہیں کہ ۱۹۸۰ء کی ابتدا میں ایک رات اپنی بیوی کے پاس پہنچا، خوشی کے مارے میرا پیر زمین پر نہیں پڑرہا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ میں اڑرہا ہوں، کیونکہ میرا وہ خواب پورا ہونے کے قریب تھا جسے برسوں سے اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئےتھا، سر چھپانے کے لیے ایک گھر کا نظم ہوچکا تھا، میرے پاس اتنی رقم جمع ہوچکی تھی جس سے میں ایک عمدہ گھر خرید سکتا تھا اور ماہانہ کرایے کے بوجھ سے چھٹکارا ملنے والا تھا۔
ہم دونوں بیٹھ کر گھر کے محلِ وقوع، کشادگی اور ڈیزائن وغیرہ پر تبادلۂ خیال کر رہے تھے کہ اتنے میں میرے ابو کا فون آگیا، اور وہ اپنی پریشانی بیان کرنے لگے، انہوں نے کہا: بیٹے! تمہیں معلوم ہے کہ ہمارا گھر پرانا ہوچکا ہے اور گرنے کے قریب ہے، اور ایک پراپرٹی ڈیلر نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ مجھے الروضہ کے علاقے میں ایک عمدہ مکان دلا دے گا جس کی قیمت نوے ہزار دینار ہے۔ میرے بیٹے! میں اس مکان کو خریدنا چاہتا ہوں جو کویت شہر سے بالکل قریب ہے۔
شیخ عمر کہتے ہیں کہ انہیں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی، معاملہ بالکل واضح تھا، ان کی طرف سے صاف لفظوں میں پیغام تھا کہ میں اس گھر کے خریدنے میں ان کا تعاون کروں، اور میں نے کسی تردد اور پس وپیش کے بغیر ان کے پیغام کو قبول کرلیا، حالانکہ خود مجھے ایک مکان کی شدید ضرورت تھی اور ہم لوگ کرایے کے مکان میں زندگی گزار رہے تھے۔ میں نے اپنی تمام جمع پونجی اس مکان کو خریدنے میں لگا دی تاکہ ابو کو کوئی پریشانی نہ ہو اور وہ مجھ سے خوش رہیں، کیونکہ ان کی خوشی میرے لیے زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
فون بند کرنے کے بعد میں نے اپنی بیوی سے صورتحال بتلائی اور اللہ کی اس بندی نے بھی اللہ کے فیصلے پر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے نہایت سکون ووقار کے ساتھ کہا کہ جب آپ کی یہ نیت اور مقصد ہے تو اللہ پر بھروسہ کیجیے اور جو فیصلہ آپ نے کیا ہے اسے نافذ کیجیے، اور اس معاملے میں آپ سے وہی کہوں گی جو سیدنا اسماعیل نے اپنے والد سیدنا ابراہیم سے کہا تھا کہ
﴿قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤمَرُ۰ۡسَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ۱۰۲ ﴾
[سورۃ الصافات:۱۰۲]
”بیٹے نےکہا: ابو جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے اسے کرگزریئے، إن شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔“
بلکہ اس نے مجھے یہ حدیث بھی یاد دلائی کہ:
«مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ، يَسَّرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ»().
”جو کوئی کسی مؤمن کی پریشانی کو دور کردے گا تو اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پریشانی کو ختم کردیں گے، اور جو کوئی کسی تنگدست کے لیے آسانی پیدا کردے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کے لیے آسانی پیدا کردیں گے۔“
اس کی اس گفتگو میں شبنم جیسی لطافت اور پاکیزگی تھی جس میں یقین اور توکل کی آمیزش تھی، جس نے میرے دل پر پڑے ہوئے گرد وغبار کو صاف کردیا، اور میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ ایمان اور قربانی کے جذبے سے دمک رہا ہے، خواہشاتِ نفس اور شیطان سے مقابلے کے لیے وہ کس قدر ذہین اور مضبوط مددگار تھی۔
دوسرے دن میں نے ابو کی مطلوبہ رقم چیک کی شکل میں ان کی خدمت میں پیش کردی جنہیں میری حالت اور میرے پروگرام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ میرے پاس موجود رقم گھر کی خریداری کے لیے کافی نہیں تھی، اس لیے میں نے اپنے ایک دوست سے قرض کی درخواست کی اور اس نے میری بات سنتے ہی کہا: عمر! اللہ تم سے محبت کرے، آج ہی صبح میں میرے ایک دوست نے میرا قرض چیک کی شکل میں واپس کی ہے، اور وہ چیک تمہارے حوالے ہے۔
اس طرح سے ابو کی خواہش کے مطابق ایک نیا گھر خرید لیا گیا، اور جس وقت وہ اس گھر میں منتقل ہوئے تو انہیں جو مسرت اور فرحت ہوئی اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتاہے، گویا کہ انہوں نے اپنی گمشدہ دولت پالی ہو۔ اور ان کی خوشی کی وجہ سے مجھے جو نعمت، سعادت اور فرحت حاصل ہورہی تھی اس کے ذریعے قرض کا کوئی بوجھ محسوس نہیں ہورہا تھا اور نہ ہی اس بات کا کوئی غم تھا کہ ہم اپنے لیے گھر حاصل نہ کرسکے۔
اور پھر اس کے بعد میں نے دو مہینے کی پوری تنخواہ اپنے والد کے ہاتھ پر رکھ دی اور اس میں سے ایک پیسہ بھی اپنے لیے نہیں رکھا، وہ میرے اس طرزِ عمل کو دیکھ کر رو پڑے اور اس میں سے کچھ مجھے واپس کرنا چاہا، لیکن میں نے قسم کھاکر کہا کہ آپ پوری تنخواہ رکھیے اور اپنی ضرورت میں صرف کیجیے۔
اور اس وقت سے میں مالی پریشانیوں سے دوچار ہوگیا، گویا کہ میری زندگی کی کشتی سخت بھنور میں پھنس گئی ہو، کیونکہ میری کُل تنخواہ گیارہ سو دینار تھی جس میں سے ایک ہزار دینار قرض کی ادائیگی میں خرچ کردیتا اور بقیہ سو دینار پانچ افراد پر مشتمل ہماری فیملی کے لیے کافی نہ ہوتا، جس کی وجہ سے بڑی مشکل سے گزارا ہورہا تھا، اور میرے والد کو ہماری ان مشکلات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، اور میں چاہتا بھی نہیں تھا کہ انہیں واقفیت ہو، کیونکہ انہیں تکلیف پہنچتی جو مجھے کسی بھی حال میں گوارا نہیں تھا، میری خواہش اور کوشش تھی کہ وہ میری حالت کے بارے میں جان نہ سکیں تاکہ ان کی خوشی برقرار رہے۔
وہ سخت ٹھنڈک کا زمانہ تھا اور ہمارے پاس جاڑے سے بچاؤ کا سامان بہت محدود تھا، اس لیے میں نے ایک روم ہیٹر خرید لیا، دشواریوں اور پریشانیوں کے عالم میں ایک مدت گزر گئی، ہم زندگی کی راحت اور آسائش سے محروم تھے، بسا اوقات فاقے کی نوبت بھی آجاتی، یہاں تک کہ مسلسل دو سال تک ہم عیدِ فطر اور عیدِ قرباں میں نہ اچھا کھانا پکا سکے اور نہ ہی نیا کپڑا خرید سکے، اور پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے میری بیوی نے اپنے زیورات تک بیچ دیے لیکن اللہ کی بندی کی زبان پر کبھی شکایت کا کوئی لفظ نہیں آیا بلکہ صبر وشکر کے ساتھ وہ حالات کا مقابلہ کرتی رہی اور سفید پوشی کے بھرم کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی رہی، اس لیے ہمارے پاس پڑوس کے لوگوں کو بھی ہماری حالت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا، بلکہ لوگ ظاہری رکھ رکھاؤ سے ہمیں مالدار خیال کرتے تھے۔
میں نے اہلیہ سے کہا: صبر کرو اور اللہ سے اجر وثواب کی امید رکھو، یقیناً ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ مجھے اللہ کی ذات سے یقین ہے کہ وہ ہماری مصیبت کو دور کرے گا، اس تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا کرے گا، اور ہمیں ایسی جگہ سے رزق دے گا جو ہمارے خواب وخیال میں بھی نہیں۔ نا امیدی اور مایوسی کی جگہ میرا دل اللہ کی ذات پر یقین اور اعتماد سے بھرا ہوا تھا، اور میرے ذہن میں قرآن کی یہ آیت گونجتی رہتی تھی کہ
﴿اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ۸۱﴾ [سورۃ ھود: ۸۱]
”کیا صبح بالکل قریب نہیں ہے۔“
اور اہلِ عرب کا یہ مقولہ میرے دل میں آتا تھا کہ جب رسّی کی بندش سخت ہوتی ہے تو ٹوٹ جاتی ہے، تو مجھے اس صبح کا انتظار تھا جو میری تاریک زندگی کو روشن کردے، اور فتح وکامیابی بخشنے والی ذات سے فتح وکشادگی کی امید لگائے ہوئے تھا، اور اس حدیث کو بار بار دہراتا تھا:
«أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، فَلْيَظُنَّ بِي مَا شَاءَ»().
”میں اپنے بندے کی سوچ کے مطابق معاملہ کرتا ہےو تو وہ میرے متعلق جو چاہے سوچے۔“
اس لیے میں اپنے رنج وغم اور دشواری وپریشانی کا اظہار صرف اپنے پروردگار کے سامنے کیا کرتا تھا اور اس سے دعائیں کرتا تھا، اس امید کے ساتھ کہ وہ میری مصیبت، آزمائش اور تنگی وسختی کو ختم کردے گا۔ لیجیے وہ گھڑی آہی گئی اور میں قرض کی تنگی کی جگہ دنیا کی فراخی وآسائش اور سختی وآزمائش کی جگہ راحت اور مالداری کی لذت سے ہم آشنا ہوگیا، یہ کیسےہو۱؟
بہت ہی حیرت انگیز اور تعجب خیز واقعہ ہے:
۱۹۸۷ء کا وہ بڑا خوبصورت اور پُررونق دن تھا جس میں میری زندگی کی روٹھی ہوئی بہار واپس آگئی۔ اپنے دوست نادر کے دیوانیہ (بیٹھک) میں بیٹھا ہوا تھا اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں مصروف تھا کہ اچانک اس نے کہا: عمر! کیا تم ایسے کسی شخص کو جانتے ہو جو مجھ سے یہ گھر خریدلے اور اس کی بقیہ قسطیں حکومت کو ادا کردے تاکہ میں اس کی جگہ دوسرے گھر کے لیے حکومتی قرض حاصل کرسکوں۔
میں نے کہا: کیا مطلب؟ میں تمہاری بات سمجھ نہیں سکا، اس لیے واضح انداز میں کہو۔ اس نے کہا کہ کویتی حکومت کی طرف سے صباح سالم میں مجھے ایک گھر ملا ہے، اور مجھے اور میرے بھائیوں کو دوسرے علاقے میں بطورِ وراثت ایک وسیع زمین ملی ہے اور ہم سب وہیں اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں تاکہ سب بھائی ایک جگہ رہیں، اور اگر کوئی گھر میرے نام سے ہے تو قانونی اعتبار سے میرے لیے دوسرے گھر کی خاطر قرض حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے کیا تم کسی ایسے شخص سے واقف ہو جو اس گھر کو اپنے نام سے کرانے کے لیے آمادہ ہوجائے اور ماہانہ اس کی بقیہ قسطیں حکومت کو ادا کرکے اس کا مالک بن جائے، کیونکہ مجھے گھر کی نہیں بلکہ قرض کی ضرورت ہے، اور تم دیکھ رہے ہو کہ میرا یہ گھر ایک عمدہ جگہ پر واقع ہے اور پانچ سو مربع میٹر پر محیط ہے، اور اس کے سامنے ایک وسیع کھلی جگہ ہے جہاں ایک اچھا گارڈن بن سکتا ہے۔
اس کی بات مکمل ہوتے ہی میں نے انکار کردیا کہ میرے لیے تو ممکن نہیں، اس لیے کہ میں قرض سے بالکل گھرا ہوا تھا اور ابھی کسی مکان کو خریدنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اس لیے نرمی کے ساتھ میں نے معذرت کرلی اور کہا کہ میرے حالات اس لائق نہیں ہیں کہ میں کسی طرح کا مالی معاملہ کرسکوں، اس لیے مجھے معاف رکھو، البتہ میں اپنے برادرِ نسبتی سے بات کرتا ہوں، کیونکہ وہ مکان کی تلاش میں ہے۔
میرے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے کہا: عمر! تم ابھی تک ان کے مقصد کو سمجھ نہیں سکے، یہ اس گھر کا معاملہ بس تم سے کرنا چاہتےہیں، تمہارے علاوہ کسی اور سے نہیں، اور یہ بھی جان لو کہ اس گھر کی مرمت کے نام پر تم بینک سے دس ہزار دینار کا قرض حاصل کرسکتے ہو۔ ان سب کے باوجود میری کوشش یہی رہی کہ میں اپنے دوست کو خواب وخیال کی دنیا سے باہر لے آؤں اور اسے حقیقی صورتِ حال سے باخبر کر دوں، اس لیے میں نے اس سے کہا کہ کسی پراپرٹی ڈیلر سے معاملہ طے کرلو، لیکن اس نے سختی کے ساتھ میری تجویز کو ٹھکرا دیا اور قسم کھاکر کہا کہ یہ گھر تمہیں کو لینا ہے۔ غرض یہ کہ اللہ کی طرف سے ایک طے شدہ معاملہ تھا، میں نے کہا کہ مجھے سوچنے سمجھنے کی مہلت دو۔
وہاں سے اٹھ کر سیدھے گھر کی طرف روانہ ہوگیا اور میرے دل ودماغ میں دسیوں طرح کے سوالات گردش کررہےتھے: کیا یہ معقول بات ہے؟ کیا آسانی کے ساتھ اپنے دوست نادر کی جگہ گھر کو اپنے نام کراسکتا ہوں؟ اور کیا اس کی ماہانہ قسط بینک میں جمع کرسکتا ہوں؟ اسی کشمکش اور سوچ بچار میں حیران وپریشان اپنے گھر پہنچا اور اہلیہ سے نادر کی پیشکش کے بارے بتلایا، اس نے مجھ سے زیادہ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یہ کیسےہوسکتا ہے؟ میں نے اس سے کہا: سمجھ لو کہ یہ پلان ایک طرح سے خواب وخیال ہے، لیکن اس میں کیا حرج ہے کہ ہم دونوں ساتھ چل کر اس گھر کو دیکھ لیتے ہیں جو ایک طرح سے آسمان سے ہمارے لیے نازل ہوا ہے اور اس میں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہے۔
چنانچہ ہم دونوںوہاں پہنچے اور اسے دیکھنے کے بعد طے پایا کہ نادر کی پیشکش کو قبول کرلینا چاہیے اور پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ اور آخر کار وہ گھر میرے نام سے رجسٹرڈ ہوگیا اور میں نےمرمت کے نام پر قرض بھی حاصل کرلیا، اس وقت میں سابقہ قرض کا زیادہ تر حصہ ادا کرچکا تھا۔ گھر کی مرمت کا کام شروع ہوگیا اور ۱۹۸۸ء سے اس گھر میں رہنے لگا، اور دو سال بعد ۱۹۹۰ء میں صدام حسین کے ذریعے کویت پر غاصبانہ قبضہ کرلیا گیا، اور پھر آزادی ملنے کے بعد ہمارے حکمراں شیخ جابر احمد نے اعلان کیا کہ تمام شہریوں سے گھر کے قرض کو معاف کیا جارہا ہے۔ میں نے قبضے سے پہلے صرف دو ہزار دینار ادا کیے تھے، اور اس طرح سے وہ گھر محض اس معمولی قسط میں میرے نام سے منتقل ہوگیا۔ اور پھر میں نے اس گھر کو ایک لاکھ پینتیس ہزار دینار میں فروخت کردیا اور اس کے عوض میں ایک دوسرا گھر اس سے زیادہ عمدہ اور نیا خرید لیا جو میرے والد کے گھر سے قریب تھا اور وہاں کی زمین پہلے گھر کے مقابلے میں سستی تھی۔ اور اس طرح سے مفت میں یا صرف دو ہزار دینار کے بدلے ایک نئے اور خوبصورت گھر کا مالک بن گیا، اور اس کے بعد سے مشکلات کے بادل چھٹنے لگے اور میرے سر سے قرض کا بوجھ اتر گیا، آزمائش کا زمانہ ختم ہوگیا اور خوشی وشادمانی کا دور شروع ہوگیا، اور ملازمت کے ساتھ میں نے تجارت بھی شروع کردی جس کی وجہ سے میرے لیے رزق کے دروازے کھل گئے۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ
﴿وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَہُوَيُخْلِفُہٗ۰ۚ وَہُوَخَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ۳۹﴾ [سورۃ سبأ: ۳۹]
’’اور تم جو بھی خرچ کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ عنایت کردیتے ہیں۔‘‘
چنانچہ اللہ کی رضا مندی اور ابو کی خوشنودی کے لیے میں نے جو کچھ خرچ کیا مجھے اس سے زیادہ اور بہتر مل گیا۔
اور اللہ کے آخری فرستادے نے فرمایا ہے کہ:
«مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ العِبَادُ فِيهِ، إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلاَنِ، فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُولُ الآخَرُ: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا»().
”روزانہ صبح میں آسمان سے دو فرشتے اترتے ہیں اور ان میں سے ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ عنایت کر اور دوسراکہتاہے اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو برباد کردے۔“
۲۰-شیریں گفتگو
یہ امریکہ ہے جہاں ہر جگہ سے آنے والوں کا ایک قافلہ چلا آرہاہے۔ ہوائی جہاز، ٹرین اور بس کے ذریعے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہورہے ہیں، ان میں کالے بھی ہیں اور گورے بھی، عربی بھی اور عجمی بھی، یورپی بھی اور ایشیائی بھی، چینی بھی اور جاپانی بھی، گویا کہ انسانی سروں کا ایک سمندر ہے جس میں طوفان برپا ہے اور رات میں بھی دن کی طرح شور اور ہنگامہ ہے، بلندپہاڑوں کی اوٹ میں سورج نے اپنا منہ چھپا لیا ہے، لیکن رات بھی دن کی طرح روشن ہے، البتہ کسی کو کسی سے کوئی مطلب نہیں، تو پھر بھلا کسی اجنبی کا کون پرسانِ حال ہوگا جو راستے کے کنارے پر کھڑا ہے اور اسے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس سے پوچھے اور کیسے پوچھے؟
شیخ عبد المحسن الصالح کہتے ہیں جب وہ اور ان کے دوست عبدالرحمٰن امریکہ پہنچے تو ہمیں ایسا لگا کہ ہمیں ایک گہرے سمندر میں ڈال دیا گیا ہے اور ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے، کیونکہ ایئر پورٹ سے باہر آتے ہی معلوم ہوا کہ ٹیلی فون ڈائری گم ہوگئی ہے جس میں یونیورسٹی کا ایڈریس اور رہائش کی جگہ اور اہم نمبرات محفوظ تھے، اس طرح سے ہیلتھ انشورنس کے کاغذات اور واشنگٹن میں کویتی سفارتخانے کا ایڈریس اور فون نمبر بھی موجود نہیں رہا۔
وہ ہماری نو عمری کا زمانہ تھا اور پہلی مرتبہ ہم امریکہ آئے تھے اور وہاں کی زبان سے اچھی طرح واقف نہیں تھے، اس لیے ہم گھبرا گئے اور خوف محسوس کرنے لگے اور اس مصیبت سے نجات پانے کے طریقے پر غور کرنے لگے۔ عبدالرحمٰن کا بگڑا ہوا چہرہ میرے سامنے تھا، اس نے کہا: عبد المحسن! کیا حل ہے؟ اب کیاکریں؟ کہاں جائیں؟ اور میں خود پر قابو رکھنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا اور چاہ رہا تھا کہ گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار میرے چہرے سے ظاہر نہ ہوں ورنہ تو میرے سامنے بھی دسیوں سوالات پتنگوں کی طرح سے گردش کررہے تھے۔ میں نے اس سے کہا: چلو یہ سب چھوڑو اور اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ، کیونکہ اس نے فرمایا ہے:
﴿اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ﴾ [سورۃ النمل: ۶۲]
”کون ہے جو بے قرار کے دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے؟“
وہی گم کردہ راہ کو راستہ دکھاتا ہے، اور پریشان کی پریشانی کو دور کرتا ہے۔
اور اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ ﴾ [سورۃ غافر:۶۰]
”اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھے پکارو، میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔“
تو آؤ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائیں اور فریاد کریں جس کے ہاتھ میں زمین وآسمان کے خزانے ہیں، اسے پکاریں اور مدد طلب کریں، اس کے در سے چمٹ جائیں اور اس کی مہربانی ونوازش کا انتظار کریں، اور اس کے سامنے روئیں اور گڑگڑائیں یہاں تک کہ وہ ہماری مصیبت کو دور کردے، یاد رکھو! ہم مسافر ہیں اور حالتِ سفر کی دعا قبول ہوتی ہے۔
چنانچہ ہم دونوں کامل یکسوئی اور گرمجوشی کے ساتھ دعا میں مشغول ہوگئے، اور ابھی دعا ومناجات کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ہمارے بغل میں موجود عوامی ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے لگی لیکن کوئی بھی فون اٹھانے کے لیے آگے نہیں بڑھا، مجبوراً میرے دوست عبدالرحمٰن نے جاکر فون اٹھایا اور جو نتیجہ سامان آیا وہ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ فون کرنے والے نے انگریزی زبان میں پوچھا: کون؟ فلاں صاحب ہیں؟ اور اس نے ایک عربی نام لیا، عبدالرحمن نے کہا: وہ نہیں ہیں، لیکن آپ کون ہیں؟ جواب ملا کویتی سفارتخانے کا ایک فرد، عبدالرحمٰن کو اپنی سماعت پر یقین نہیں ہوا اور دوبارہ پوچھا براہِ کرم بتلائیے آپ کون ہیں؟ فون کرنے والے نے کہا: میرے بھائی! آپ نے سنا نہیں، میں کویتی سفارتخانے سے بات کررہا ہوں، ایک شخص اِسی وقت کویت سے پہنچنے والا تھا اور ہم نے اس سے کہا تھا کہ فلاں وقت وہ عوامی ٹیلیفون کے پاس رہے، ہم اس سے ربط کرکے ایڈریس اور بعض چیزوں کے بارے میں اطلاع کریں گے، لیکن آپ کون ہیں؟
میرے دوست نے کہا: لا الہ الا اللہ، مجھے اللہ پر یقین ہے اور اس بات پر بھی کہ وہ ہماری ہر بات کو سنتا اور جواب دیتا ہے، اور وہ اپنے بندوں کے ساتھ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے، اِس وقت آپ سے گفتگو کرنا کس قدر فرحت بخش اور لطف انگیز ہے! اور پھر انہیں اپنی صورتحال بتلائی اور کہا کہ ہم دو گھنٹے سے حیران وپریشان اور سرگرداں ہیں، یہ سن کر انہوں نے اس حیرت انگیز واقعے پر مسکراتے ہوئے قرآن کی یہ آیت پڑھی:
﴿وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ۰ۙ﴾ [سورۃ الأنفال: ۴۲]
”اگر تم کسی متعین تاریخ کا عہد کرتے تو اس کی تعین میں اختلاف ہوجاتا۔“
پھر انہوں نے ہمیں اطمینان دلایا اور ایڈریس بتایا اور کہا: آپ تشریف لائیے، ہم آپ کے انتظار میں ہیں، اور آپ کے لیے ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنا ہماری ذمے داری ہے۔ ہم وہاں سے روانہ ہوئے، اور راستے بھر میرے دل میں طرح طرح کے سوالات آتے رہے: کون ہے وہ ذات جس نے اس فون کے پاس ٹھہرنے کو ہمارے لیے مقدر فرمایا؟ اور کس نے ہمیں فون کا جواب دینے کے لیے آمادہ کیا؟ کون ہے وہ جس نے سفارتخانے کے ذمے دار کو اُس وقت فون کرنے کے لیے کہا؟ اور ان تمام سوالات کا جواب ایک ہی تھا جسے قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے:
﴿وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ رَمٰى۰ۚ﴾ [سورۃ الأنفال: ۱۷]
’’اور جو کنکری تم نے پھینکی تھی وہ تم نے نہیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھی ۔“
۲۱-ایئر پورٹ پر
دوسروں کے ساتھ خیر خواہی تقویٰ کی علامت ہے، اللہ کے بندے دوسروں کو راحت اور فرحت دے کرخوشی محسوس کرتے ہیں اور دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتےہیں گرچہ اس کی وجہ سے وہ خسارے سے دوچار ہوجائیں ۔ ان کی مثال شہد کی مکھی کی طرح ہے جو پھولوں کا رس چوس کر لوگوں کو شہد دیتی ہے اور اگر کسی شاخ پر بیٹھ جائے تو اس کی وجہ سے کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم خلیفی کا واقعہ اِسی طرح کے اخلاق کا آئینہ دار ہے۔ وہ کہتے ہیں:
قطری ٹیلی ویژن پر میرا ایک پروگرام نشر ہونا تھا، چنانچہ اسے ریکارڈ کرانے کے بعد اسٹوڈیو سے ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوگیا، راستے میں ڈرائیور سے بات چیت ہونے لگی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ محتاج ہے اور اسے مدد کی ضرورت ہے، چنانچہ میں نے اپنے پاس موجود سارا سرمایہ اس کے حوالے کردیا۔ اور میری عادت تھی کہ کبھی سفر سے خالی ہاتھ واپس نہیں آتا تھا، بلکہ بیوی اور بچوں کے لیے ضرور تحفہ لے آتا، یہاں تک کہ کبھی کبھار مجبوراً مجھے ایئر پورٹ سے ان کے لیے کچھ خریدنا پڑتا، لیکن اس مرتبہ میرا ہاتھ بالکل خالی تھا اور میں دوحہ ایئر پورٹ میں اس حال میں داخل ہواکہ میرے پاس ایک پائی بھی نہیں تھی۔
میں نے معاملہ اللہ کے حوالے کیا اور ویٹنگ روم میں داخل ہوگیا اور ایک کتاب پڑھنے میں مشغول ہوگیا، اچانک میری گود میں ایک لفافہ آگرا، میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ میرے دوست حمود قشعان مسکرا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ قطری ٹیلی ویژن کی طرف سے آپ کا اکرامیہ ہے، اسٹوڈیو سے آپ کے چلے جانے کے بعد وہاں کے ایک ذمے دار میرے پاس آئے او رکہنے لگے کہ یہ آپ کا اور آپ کے دوست ڈاکٹر ابراہیم خلیفی کا اکرامیہ ہے، اور ہمیں ان کے چلے جانے کی اطلاع نہیں ہوسکی، اس لیے آپ ان تک پہنچا دیجیے۔
میں نے لفافہ کھول کر دیکھا تو اس میں تین ہزار ریال تھے، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے مجھ پر احسان کیا اور کویت پہنچنے سے پہلے ہی میرے صدقے کا بہتر بدلہ عنایت کردیا۔ اور پھر عادت کے مطابق میں نے گھر والوں کے لیے تحفہ خرید لیا۔ بہت کریم ہے وہ ذات جس نے مجھے ناکام واپس نہیں کیا اور میرے وہم وگمان سے زیادہ نوازش کی بارش کی۔
یہ واقعہ سن کر مجھے عائض قرنی کا وہ مضمون یاد آگیا جس کا عنوان ہے:
’’دوسروں کے ساتھ احسان کرنا دل کی وسعت کا ذریعہ‘‘
اس کے تحت انہوں نے لکھا ہے کہ:
اچھے برتاؤ اور بھلائی اور نیکی کا فائدہ سب سے پہلے اسے کرنے والے کو پہنچتا ہے۔ بہت جلد ان کی ذات، ان کے دل اور ان کے اخلاق کو اس کا پھل مل جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ فرحت، کشادگی، سکون واطمینان اور راحت محسوس کرتے ہیں۔
اس لیے اگر کبھی غم وفکر لاحق ہو، دنیا کی الجھنوں میں گرفتار ہوجائیں اور رنج والم کا شکار ہوجائیں تو سب سے پہلے دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک کیجیے، دوسروں کے کام آئیے، ناداروں اور کمزوروں کی مدد کیجیے، تو آپ کو غم وفکر سے چھٹکارا مل جائے گا۔
کسی محتاج کا تعاون کیجیے، کسی مظلوم کی مدد کیجیے، پریشان حال کی پریشانی دور کیجیے، بھوکے کو کھانا کھلائیے، مریض کی عیادت کیجیے، مصیبت زدہ کے کام آئیے، تو آپ کو خوش قسمتی اور نیک بختی کا احساس ہوگا اور ہر طرف سعادت اور برکت کا دور دورہ ہوگا، کیونکہ نیکی اور بھلائی ایک ایسا عمل ہے جس سے خوشبو فروخت کرنے والے کی طرح بیچنے والا، اٹھانے والا اور خریدار ہر ایک پر فائدہ اٹھاتا ہے۔ بلاشبہ خوشخبری اور بشارت کو عام کرنا اور لوگوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرنا ’’صدقۂ جاریہ‘‘ ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
«لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ المَعْرُوفِ شَيْئًا، وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ»().
’’کسی بھی بھلے کام کو حقیر نہ سمجھو، گرچہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو۔‘‘
اور منہ بسورنا اور پیشانی پر شکن کا ہونا بداخلاقی کی علامت ہے۔ ایک فاحشہ عورت نے کاٹنے والے کتے کو چِلّو بھر پانی پلا دیا تو وہ جنت کی حقدار ہوگئی، اس لیے کہ اجر وثواب عطا کرنے والا بہت معاف کرنےو الا اور تھوڑے عمل کی قدر کرنےو الا ہے۔ وہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، ہر ایک سے بے نیاز اور ہر طرح کی تعریف اور شکر کے لائق ہے۔
اے وہ لوگو جو گھبراہٹ، خوف اور ڈپریشن کا شکار ہو! آؤ اور بھلائی کو پھیلاؤ، دوسروں کے کام آؤ، اللہ کی مخلوق کی مدد کرو، خدمتِ خلق میں مشغول ہوجاؤ، اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو، تمہارا خوف واضطراب خود بخود ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓى۱۹ۙ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰى۲۰ۚ وَلَسَوْفَ يَرْضٰى۲۱ۧ ﴾ [سورۃ اللیل: ۱۹-۲۱]
’’اس کے اوپر کسی کا احسان نہیں ہے جس کا وہ بدلہ چکارہا ہے، بلکہ صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کررہا ہے، اور یقیناً وہ اس سے راضی ہوجائے گا۔‘‘
آداب وفضائل
دعا کی فضیلت
کتاب وسنت میں دعا کی بڑی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ دعا سب سے اہم عبادت، سب سے عظیم اطاعت اور سب سے زیادہ نفع اور فائدہ پہنچانی والی قربت ہے۔ قرآن حکیم کی ابتدا بھی دعا سے ہے اور انتہا بھی دعا پر ہے، چنانچہ سورہ فاتحہ ایک مکمل اور جامع دعا پر مشتمل ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی اور عبادت کے لیے مدد طلب کی گئی ہے، اور سورہ ناس میں انسانی اور جناتی خناس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہی گئی ہے۔ اور بلا شبہہ دعا کے ذریعے ابتدا اور اختتام دعا کی عظمتِ شان کی دلیل ہے۔ اور دعا واقعی عبادت کی روح اور مغز ہے، اور وہ اپنے پروردگار کے سامنے انتہائی تذلّل، انکساری، خشوع وخضوع اور خودسپردگی اور محتاجی کی علامت ہے، اور اس لیے دعا نہ کرنے کو کبر وغرور میں شمار کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِيْنَ۶۰ۧ ﴾ [سورۃ غافر:۶۰]
”تمہارے رب کا فرمان ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منھ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دعا کو عبادت کہا ہے اور حدیث میں یہ صراحت ہے کہ:
«اَلدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ»().
”دعا ہی عبادت ہے۔“
اس جملے کو کہنے کے بعد آنحضور ﷺ نے مذکورہ آیت کی تلاوت فرمائی۔
اور حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ:
«لَا يَرُدُّ القَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَلَا يَزِيدُ فِي العُمْرِ إِلَّا البِرُّ»().
”تقدیر کے فیصلے کو صرف دعا ہی ٹال سکتی ہے، اور صرف بھلائی کے ذریعے ہی عمر میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔“
اور امام شوکانی کہتے ہیں کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کے ذریعے تقدیر بھی بدل سکتی ہے اور اس کی تائید قرآن سے بھی ہوتی ہے، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:
﴿يَمْحُوا اللہُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ۰ۚۖ وَعِنْدَہٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ۳۹ ﴾ [سورۃ الرعد: ۳۹]
”اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، اور اُم الکتاب اُسی کے پاس ہے۔“
غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ کبھی کوئی ایسا فیصلہ فرماتےہیں جس میں یہ قید لگی ہوتی ہے کہ دعا نہ کرنے کی صورت میں ایسا ہوگا اور دعا کرنے کی حالت میں وہ فیصلہ نافذ نہیں ہوگا()۔
اور حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
«لَا يُغْنِيْ حَذَرٌ مِنْ قَدَرٍ، وَالدُّعَاءُ يَنْفَعُ مِـمَّا نَزَلَ وَمِـمَّا لَـمْ يَنْزِلْ، وَإِنَّ الْبَلَاءَ لَيَنْزِلُ فَيَتَلَقَّاهُ الدُّعَاءُ فَيَعْتَلِجَانِ إِلَـى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»().
”تقدیر کے معاملے میں احتیاط اور تدبیر کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے، البتہ دعا اس چیز میں بھی کارگر ہوتی ہے جو پیش آچکی ہے اور اس چیز میں بھی جو ابھی پیش نہیں آئی ہے اور آسمان سے مصیبت اترتی ہے اور راستے میں دعا سے مڈبھیڑ ہوجاتی ہے تو دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے الجھے رہتے ہیں۔“
حاصل یہ ہے کہ تقدیر تدبیر سے زیادہ قوی ہے، اور دعا تقدیر سے طاقتور ہے، بلکہ وہ بھی تقدیر کا ایک حصہ ہے۔
مخلوق اور خالق کی ناراضگی
تعجب خیز بات یہ ہے کہ مخلوق تو مانگنے سے ناراض ہوتی ہے لیکن خالق نہ مانگنے سے غضب ناک ہوتا ہے، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ لَمْ يَدْعُ اللَّـهَ سُبْحَانَهُ، غَضِبَ عَلَيْهِ»().
”جو لوگ اللہ سبحانہ سے دعا نہیں کرتے وہ ان سے ناراض ہوجاتا ہے۔“
اور ایک عربی شاعر نے کہا ہے:
لَا تَسْأَلَنَّ بَنِيْ آدَمَ حَاجَةً | وَسَلِ الَّذِيْ أَبْوَابُهُ لَا تُـحْجَبُ |
اَللهُ يَغْضَبُ إنْ تَرَكْتَ سُؤَالَهُ | وَبُنَيَّ آدَمَ حِينَ يُسْأَلُ يَغْضَبُ! |
”انسان سے اپنی کسی ضرورت کے بارے میں درخواست نہ کرو، بلکہ اس سے مانگو جس کے دروازے پر کوئی پہریدار اور کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اللہ اس وقت ناراض ہوتا ہے جب اس سےمانگنا چھوڑ دیا جاتا ہے، اور اس کے برخلاف انسان اس وقت خفا ہوتا ہے جس اس سے کوئی چیز مانگی جائے۔“
اور بعض سلف سے منقول ہے کہ وہ یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! جس طرح سے تو نے میرے سر کو دوسرے کے سامنے جھکنے سے محفوظ رکھا ہے اسی طرح سے دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بھی میری حفاظت فرما۔
لہٰذا اپنی ضرورت، فقر ومسکنت، بے چارگی وبے بسی اور محتاجی کا اظہار صرف عزیز وجبار کے سامنے کرنا چاہیے۔ امام شافعی کہتے ہیں:
أَتَهْزَأُ بِالدُّعَاءِ وَتَزْدَرِيْهِ | وَمَا تَدْرِيْ بِمَا صَنَعَ الدُّعَاءُ |
سِهَامُ اللَّيْلِ لَا تُـخْطِيْ وَلَكِنْ | لَـهَا أَمَدٌ وَلِلْأَمَدِ انْقِضَاءُ |
فَیُمْسِكُهَا إذَا مَا شَاءَ رَبِّـيْ | وَیُرْسِلُهَا إذَا نَفَذَ الْقَضَاءُ |
”کیا تم دعا کا مذاق اڑاتے ہو اور اسے ہلکا سمجھتے ہو!؟ تمہیں دعا کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ رات میں چلایا گیا تیر ہمیشہ نشانے پر لگتا ہے، البتہ اس کے لیے ایک متعین وقت ہے اور وہ وقت ختم ہوجائے گا۔ میرا رب جب تک چاہتا ہے اس تیر کو روکے رکھتاہے، اور جب اس کا وقت آجاتا ہے تو اسے چھوڑ دیتا ہے۔“
لہٰذا یہ بڑی کمزوری اور ذلت کی بات ہوگی کہ ایسے لوگوں کے پاس جایا جائے جو اپنے دروازے کو بند رکھتے ہیں، اور اس ذات کو چھوڑ دیا جائے جس کے تمام دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور اسی کے ہاتھ میں زمین وآسمان کے خزانے ہیں، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعَاءِ، وَأَبْخَلُ النَّاسِ مَنْ بَخِلَ بِالسَّلَامِ»().
”لوگوں میں سب سے زیادہ کمزور، بے بس اور عاجز وہ ہے جو دعا نہ کرسکے، اور سب سے زیادہ کنجوس وہ ہے جو سلام کرنے میں کنجوسی کرے۔“
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللہِ بَاقٍ۰ۭ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۹۶ ﴾ [سورۃ النحل:۹۶]
”تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہوجائے گا اور اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ باقی رہنے والا ہے، اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم ضرور ان کے عمل سے بہتر بدلہ عطا کریں گے۔“
اور حدیثِ قدسی میں ہے کہ:
«يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ، فَاسْتَهْدُونِي أَهْدِكُمْ،….. يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِـمَّا عِنْدِي إِلَّا كَمَا يَنْقُصُ الْـمِخْيَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ»().
”میرے بندو! تم میں سے ہر ایک راستے سے بھٹکا ہوا اور ناواقف ہے، اس لیے مجھ سے رہنمائی طلب کرو میں تمہیں راستہ دکھاؤں گا…… میرے بندو! اگر دنیا کی ابتدا سے لے کر انتہا تک کے سارے انسان کسی میدان میں جمع ہوجائیں اور ہر ایک مجھ سے اپنے دل کی مراد مانگے اور پھر میں ہر ایک کو اس کی خواہش کے مطابق دے دوں تو بھی میرے پاس موجود خزانے میں سے صرف اتنا کم ہوگا جتنا کہ سمندر میں سوئی ڈال کر نکالنے سے سمندر کا پانی کم ہوتا ہے۔“
اس حدیث سے اللہ کی قدرت، کمالِ مالکیت اور عظمت کا اندازہ ہوتا ہے کہ داد ودہش کی وجہ سے اس کے خزانے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔
ہر خیر کی کنجی دعا ہے
علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ دعا ہر خیر کی کنجی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جس کے ہاتھ میں یہ چابی دے دی تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بھلائی کے دروازے کو کھول دیا ہے، اور جس نے اسے گم کردیا تو وہ سمجھ لے کہ اس کے لیے بھلائی کا دروازہ بند ہے()۔
اور اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں کہ جو شخص گمراہی اور تاریکی میں پڑا ہوا ہو اور واحدِ قہار کی عبادت سے سرتابی کرتا ہے تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی:
﴿قُلْ مَا يَعْبَؤا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاۗؤكُمْ۰ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا۷۷ۧ ﴾ [سورۃ الفرقان:۷۷]
”اے نبی! کہہ دیجیے کہ میرے رب کو تمہاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اس کو نہ پکارو!؟ تب کہ تم نے اسے جھٹلا دیا ہے عنقریب وہ سزا پاؤ گے کہ جان چھڑانی محال ہوگی۔“
اللہ تبارک وتعالیٰ چاہتے ہیں کہ اس کا بندہ ا س کی معرفت حاصل کرے، پرہیزگاروں کی روش پر چلے اور اس بات سے واقف ہو کہ وہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے، لغزشوں کو نظر انداز کردیتا ہے، برائیوں سے درگزر کرتا ہے اور معصیت کو معاف کردیتا ہے اور فریاد کرنے والے کی مدد کرتاہے، مجبور وبے کس کی پکار کو سنتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے اور وہ اپنے بندے سے اس کے شہ رگ سے زیادہ قریب ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک دیہاتی نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! ہمارا رب ہم سے قریب ہے تو چپکے سے اسے پکاریں؟ یا دور ہے تو خوب زور سے ندا دیں؟ تو اللہ کے رسول ﷺ اس کے جواب سے خاموش رہے اور پھر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۱۸۶ ﴾ [سورۃ البقرۃ:۱۸۶]
”اور اے نبی! میرے بندے جب آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دیجیے کہ میں ان سے قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار کا جواب دیتا ہوں، لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہِ راست پا جائیں۔“()
اور حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ ہم ایک جنگ کے لیے جارہے تھے، اور راستے میں کسی ٹیلے یا پہاڑی پر چڑھتے ہوئے یا کسی وادی میں اترتے ہوئے زور زور سے اللہ اکبر کہتے، اللہ کےر سول ﷺ ہمارے پاس آئے اور فرمایا:
«أَيُّهَا النَّاسُ اِرْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ مَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِيعًا بَصِيرًا. إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِهِ. يَا عَبْدَ اللَّـهِ بْنَ قَيْسٍ، أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَةً مِنْ كُنُوزِ الْـجَنَّةِ؟ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّـهِ»().
”اے لوگو! اپنے اوپر رحم کرو، تم کسی بہرے یا دور رہنے والے کو نہیں پکار رہے ہو، بلکہ دیکھنے والے اور سننے والے کو پکار رہے ہو۔ جسے تم پکار رہے ہو وہ تمہاری سواری کے گردن سے بھی زیادہ تم سے قریب ہے۔ عبداللہ بن قیس (ابو موسیٰ اشعری کا نام)! کیا میں تمہیں جنت کے خزانے میں سے ایک کلمہ نہ بتلاؤں؟ سنو وہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ ہے۔“
اللہ سننے اور جاننے والا ہے، وہ دلوں کے بھید سے اور دماغ میں آنے والے خیالات سے بخوبی واقف ہے، چنانچہ سورہ مجادلہ کے ذریعے اسی حقیقت کو دل ودماغ میں اتارنے کی کوشش کی گئی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ قَدْسَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِہَا وَتَشْـتَكِيْٓ اِلَى اللہِ۰ۤۖ وَاللہُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۱ ﴾ [سورۃ المجادلۃ:۱]
”یقیناً اللہ نے اس عورت کی سن لی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں بار بار کہہ رہی تھی اور اللہ سے شکایت کررہی تھی، اور اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے اوردیکھنے والا ہے۔“
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ بابرکت ہے وہ ذات جس کی قوتِ سماعت ہر آواز کو حاوی ہے، بار بار پوچھنے اور اپنی کیفیت کا اظہار کرنے والی عورت (خولہ بنت ثعلبہ) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور اس نے آپ سے گفتگو کی، میں کمرے کے ایک گوشے میں تھی اس کی بات کا کچھ حصہ سن پاتی اور کچھ نہیں سن سکتی، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی پوری بات سن لی، وہ اپنے شوہر کی شکایت کررہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اس نے میری جوانی ختم کردی، میں نے اس کے لیے اپنے پیٹ کو نچوڑ دیا، یہاں تک کہ جب میری عمر زیادہ ہوگئی اور بچے پیدا کے لائق نہیں رہی تو اس نے مجھ سے ظہار کرلیا یعنی کہہ دیا کہ تیری پشت مجھ پر میری ماں کی طرح ہے۔ اے اللہ! میں تجھ ہی سے شکایت کررہی ہوں۔ اور وہ ابھی اپنی جگہ پر ہی تھی کہ جبریلِ امین مذکورہ آیت لے کر آگئے۔
علامہ زمخشری کہتے ہیں کہ اس آیت میں سننے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بات سنی اور اس کا جواب بھی دیا، محض اس کی بات کے بارے میں علم ہونا مراد نہیں ہے۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ صلاۃ پڑھنے والا کہتا ہے کہ «سَمِعَ اللهُ لِـمَنْ حَمِدَهُ» (اللہ نے اس شخص کی بات کو قبول کرلیا جس نے اس کی حمد بیان کی)۔
قبولیتِ دعا کا یقین
دعا کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ دعا کی قبولیت کے سلسلے میں شک وشبہے کا شکار نہ رہے، بلکہ اللہ کی رحمت وقدرت پر یقین واعتماد کے ساتھ دعا کرے۔ حضرت انس سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمِ المَسْأَلَةَ، وَلاَ يَقُولَنَّ: اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِي، فَإِنَّهُ لاَ مُسْتَكْرِهَ لَهُ»().
”جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو پختہ یقین رکھے، اور یہ نہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا کردے، کیوں کہ سب کچھ اس کے چاہنے ہی سے ہوتا ہے اور کوئی زبردستی اس سے کوئی کام نہیں کراسکتا ہے۔“
اور حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ يَمِينَ اللَّـهِ مَلْأَى لاَ يَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَنْقُصْ مَا فِي يَمِينِهِ»().
”اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، دن رات لٹانے کے باوجود اس میں سے کچھ کم نہیں ہوتا ہے، تم نے کبھی غور کیا کہ آسمان وزمین کی پیدائش کے وقت سے اللہ تعالیٰ نے کتنا خرچ کیاہے، اس کے باوجود اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔“
اور انہیں سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلَا يَقُلْ: اللهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ، وَلَكِنْ لِيَعْزِمِ الْـمَسْأَلَةَ وَلْيُعَظِّمِ الرَّغْبَةَ، فَإِنَّ اللهَ لَا يَتَعَاظَمُهُ شَيْءٌ أَعْطَاهُ»().
”جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو یہ نہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو میری مغفرت کردے، بلکہ پختہ یقین کے ساتھ دعا کرے اور خوب بڑی بڑی چیز مانگے، کیونکہ اللہ کے لیے کوئی چیز بڑی نہیں ہے۔“
قبولیتِ دعا کی جگہیں
بعض اوقات میں اور بعض جگہوں پر دعا کی قبولیت کی زیادہ امید ہوتی ہے، جیسے کہ سجدے میں، رات کے آخری حصے میں اور فرض صلاۃ کے بعد، چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
«أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ»().
”سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، لہٰذا اس دوران خوب دعا کیا کرو۔“
اور حضرت ابو امامہ کہتے ہیں:
قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّـهِ: أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟ قَالَ: «جَوْفَ اللَّيْلِ الآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ المَـكْتُوبَاتِ»().
دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول!کس وقت سب سے زیادہ دعا قبول ہوتی ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ”رات کے آخری حصے میں اور فرض صلاۃ کے بعد۔“
اور ابو بکر طرطوسی اپنی کتاب «الدعاء المأثور وآدابه» میں لکھتے ہیں کہ اس شخص کو ہرگز عقلمند اور سمجھدار نہیں کہا جاسکتا جو اللہ سے اپنی حاجت وضرورت پوری کرانا چاہتا ہو اور پھر سحر کے وقت سوتا رہتا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر رات میں ایک ایسی گھڑی ہوتی ہے کہ اس وقت دنیا وآخرت کی بھلائی کی جو چیز مانگی جاتی ہے وہ عطا کردی جاتی ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے۔
اور کسی شاعر نے اسی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
ہر رات کے پچھلے حصے میں اک دولت بٹتی رہتی ہے |
جو جگتا ہے وہ پاتا ہے، جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے |
عبادتوں کے درجات
دعا کی فضیلت واہمیت اور اللہ کی نگاہ میں اس کے مقام ومرتبے سے متعلق بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں عام طور سے لوگوں نے ذکر کو دعا سے افضل، اور تلاوت کو ذکر سے بھی افضل قرار دیا ہے، اور علامہ ابن تیمیہ نے عبادتوں کی جنس، وقت اور زمان ومکان کے اعتبار سے ان کے درمیان فرقِ مراتب سے متعلق ضابطہ یہ بیان کیا ہے کہ
”افضل کی کئی صورتیں اور شکلیں ہیں، کبھی عبادتوں کی جنس کے اعتبار سے فرقِ مراتب کا لحاظ کیاجاتا ہے، جیسے کہ جنسِ صلاۃ جنسِ قرأت سے افضل ہے، اور جنسِ قرأت جنسِ ذکر سے، اور جنسِ ذکر جنسِ دعا سے افضل ہے۔
اور کبھی اوقات کے اعتبار سے ان میں فرق کیا جاتا ہے، جیسے کہ عصر اور فجر بعد ذکر اور دعا درست ہے، صلاۃ درست نہیں ہے۔ اور کبھی انسان کے عمل کے اعتبار سے فرق کیا جاتا ہے، جیسے کہ رکوع اور سجدے کی حالت میں ذکر ودعا جائز ہے، مگر قرأت جائز نہیں ہے، اسی طرح سے طواف کی حالت میں ذکر ودعا بہ اتفاق درست ہے مگر قرأت کے سلسلے میں اختلاف ہے۔
اور کبھی مکان اور جگہ کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے، جیسے کہ عرفہ اور مزدلفہ میں اور جمرات کو رمی کرنے کے وقت اور صفا ومروہ کے پاس ذکر ودعا مشروع ہے نہ کہ صلاۃ، اور مکہ کے علاوہ دوسری جگہ کے رہنے والوں کے لیے طواف صلاۃ سے افضل ہے اور مکہ میں رہنے والوں کے لیے صلاۃ افضل ہے۔
اور کبھی عبادت کرنے والے کی جنس کے اعتبار سے فرق کیا جاتا ہے، جیسے کہ مردوں کے لیے جہاد حج سے افضل ہے، البتہ عورتوں کے لیے حج ہی جہاد ہے، اور شادی شدہ عورت کے لیے والدین کے بالمقابل شوہر کی اطاعت افضل ہے، البتہ غیرشادی شدہ عورت کے لیے و الدین کی اطاعت ہی افضل ہے۔ اور اس سے واضح ہوگیا کہ کسی کے لیے علم میں مشغول ہونا افضل ہوتا ہے اور کسی کے لیے جہاد میں۔“()
جامع ترین دعائیں
اللہ کے رسول ﷺ دعا کے لیے ایسا اسلوب اختیار کرتے جس میں الفاظ کم ہوتے لیکن معانی کا ایک سمندر موجزن ہوتا۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ:
«كَانَ رَسُولُ اللَّـهِ ﷺ يَسْتَحِبُّ الْـجَوَامِعَ مِنَ الدُّعَاءِ»().
”رسول اللہ ﷺ جامع ترین دعا کو پسند کیا کرتے تھے۔“
وہ دعا جسے سید الاستغفار کہا گیا ہے اس میں غور وفکر کی نگاہ اس حقیقت سے پردہ اٹھا دے گی، کیونکہ اس کے تھوڑے سے الفاظ میں بلند مقاصد اور اہم مطالب کا خزانہ پوشیدہ ہے۔ محمد مصطفیٰ ﷺ کہا کرتے تھے:
«اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّـيْ لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِيْ وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَـى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَـيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِيْ فَاغْفِرْ لِـيْ، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ»().
”اے اللہ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا غلام ہوں، اور اپنی وسعت کے بقدر تجھ سے کیے ہوئے عہد ووعدے پر قائم ہوں، میں نے جو کچھ کیا ہے اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، تو نے مجھے جو نعمتیں دے رکھی ہیں میں ان کااعتراف کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنی کوتاہی اور گناہ کا بھی اقرار کرتا ہے، تو مجھے معاف کردے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا ہے۔“
حدیث میں کہا گیا ہے کہ جو شخص یقین کے ساتھ اس دعا کو دن میں پڑھ لے اور شام سے پہلے اس کی وفات ہوجائے تو وہ جنتی ہے، اور جو کوئی یقین کے ساتھ رات میں پڑھ لے اور صبح ہونے سے پہلے وفات پاجائے تو وہ جنتی ہے۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ سے دریافت کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ جب آپ کے پاس ہوتے تھے تو کون سی دعا بکثرت مانگتے تھے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ زیادہ تر ان الفاظ کے ذریعے دعا کرتے:
«يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلَى دِينِكَ»().
”اے دلوں کے پلٹنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔“
اور حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بعض دعاؤں کے الفاظ یہ ہوتے تھے:
«اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ، وَالنَّجَاةَ بِعَوْنِكَ مِنَ النَّارِ»().
”اے اللہ! ہم تجھ سے رحمت اور مغفرت کے اسباب مانگتے ہیں، اور ہر گناہ سے سلامتی وحفاظت، اور ہر نیکی میں حصہ، اور جنت کی کامیابی اور آگ کے نجات کے سوالی ہیں۔“
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: عائشہ! جامع ترین دعا کیا کرو، اور کہا کرو:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْـخَيْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِهِ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْـجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ قَضَيْتَهُ لِي خَيْرًا»().
”اے اللہ! میں تجھ سے تمام بھلائیاں مانگتا ہوں، خواہ وہ موجودہ وقت سے متعلق ہوں یا آئندہ سے، میں اُس سے واقف ہوں یا ناواقف، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں تمام شر سے، خواہ وہ موجودہ وقت سے متعلق ہو یا آئندہ سے، اور اُس کا مجھے علم ہو یا نہ ہو۔ اے اللہ! تجھ سے اُن تمام بھلائیوں کا خواستگار ہوں جو تجھ سے تیرے بندے اور نبی محمد ﷺ نے طلب کی ہیں، اور اُن تمام شر سے پناہ مانگتا ہوں جن سے تیرے بندے اور نبی نے پناہ مانگی ہے۔ اے اللہ! میں جنت کا طلب گار ہوں اور اُس قول وفعل کا بھی جو مجھے جنت سے قریب کردے، اور جہنم سے پناہ چاہتا ہوں اور اُس تمام قول وفعل سے بھی جو مجھے جہنم سے قریب کردے۔ اور اِس بات کی درخواست کرتا ہوں کہ آپ نے میرے حق میں جو فیصلہ کردیا ہے اسے میرے لیے بہتر بنا دیجیے۔“
اور حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ نبی ﷺ جس اہتمام کے ساتھ ہمیں قرآن کی سورہ سکھاتے تھے اسی طرح سے یہ دعا بھی سکھاتے تھے:
«اللهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْـمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْـمَحْيَا وَالْـمَمَاتِ»().
”اے اللہ! ہم تجھ سے جہنم کے عذاب سے پناہ چاہتے ہیں، میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں مسیحِ دجال کے فتنے سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کی آزمائش سے۔“
جامع دعاؤں میں وہ دعائیں بھی شامل ہیں جنہیں ابن مسعود نے نقل کیا ہے کہ نبی ﷺ کہا کرتے تھے:
«اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى، وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى»().
”اے اللہ! تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاکدامنی اور مالداری کا طلب گار ہوں۔“
اور اسی طرح سے رسول اللہ ﷺ بکثرت یہ دعا کیا کرتے تھے:
«اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ»().
”اے اللہ ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی اچھائی عطا کر اور آخرت میں بھی، اور ہمیں آگ سے بچا۔“
دعا میں سادگی اور بے تکلّفی
دعا میں سادگی اور بے تکلفی مطلوب ہے، اور تکلف کے ساتھ شاعرانہ انداز میں دعا کرنا پسندیدہ نہیں ہے، کیونکہ دعا دل سے نکلی ہوئی آواز کا نام ہے نہ کہ بناوٹی الفاظ کا، اور سب سے افضل وہی دعا ہے جس میں زبان کے ساتھ دل بھی شامل ہو، چند رٹے رٹائےالفاظ کو دہرا لینے کا نام دعا نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صاحب سے پوچھا کہ تم صلاۃ میں کیا پڑھتے ہو؟ اس نے کہا کہ وحدانیت ورسالت کی گواہی دیتا ہوں، پھر اللہ سے جنت مانگتا ہوں اور جہنم سے پناہ چاہتا ہوں، اور اللہ کی قسم مجھے معلوم نہیں کہ آپ یا معاذ کیا دعا مانگتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہم لوگ بھی اسی طرح کی دعا کرتے ہیں()۔
انتہائی سادگی اور وضاحت کےساتھ اس نے اپنی بات کہہ دی اور نبی ﷺ نے اس کی تائید فرمائی، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک مسلمان کا اس کے سوا اور کیا مقصد ہے کہ اسے جنت حاصل ہوجائے اور جہنم سے نجات مل جائے؟
اور ایک دوسرے دیہاتی نے ہاتھ اٹھاکر ان الفاظ میں دعا کی:
«اللَّهُمَّ إنَّكَ أَعْطَيْتَنَا الْإِسْلَامَ مِنْ غَيْرِ أَنْ نَسْأَلَكَ، فَلَا تَـحْرِمْنَا الْـجَنَّةَ وَنَحْنُ نَسْأَلُكَ»().
”اے اللہ! آپ نے درخواست کے بغیر ہمیں اسلام کی دولت سے نواز دیا، اور جنت کی تو ہم درخواست کررہے ہیں اس لیے ہمیں اس سے محروم نہ کیجیے۔“
دعا میں سچائی، گرمجوشی اور قوت اس وقت اور زیادہ آجاتی ہے جب اس میں تکرار واصرار ہو جیسے کہ بچہ روتے ہوئے اپنی ماں سے کسی چیز کے لیے ضد کرتا ہے، اور اس وقت اللہ کی رحمت ضرور برستی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ جو شخص کسی در سے چمٹ جائے اور بار بار دروازہ کھٹکھٹائے تو اسے ضرور گھر میں داخل ہونے کا موقع مل جائے گا۔
مسلمانوں کے لیے دعا کی فضیلت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِہِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۱۰ۧ ﴾ [سورۃ الحشر:۱۰]
”اور اُن کے لیے جو ان کے بعد آئیں، جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں معاف کردے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں، اور ایمان والوں کے تعلق سے ہمارے دل میں کینہ اور دشمنی نہ ڈال، اے ہمارے رب! بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے۔“
اور اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ:
﴿فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَلِلْمُؤمِنِيْنَ وَالْمُؤمِنٰتِ۰ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوٰىكُمْ۱۹ۧ ﴾ [سورۃ محمد:۱۹]
”جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، اور اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرو اور مؤمن مردوں اور عورتوں کے گناہوں کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کی آمد ورفت اور رہنے سہنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے۔“
اور حضرت ابو درداء سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَدْعُوْ لِأَخِيْهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ، إِلَّا قَالَ الْـمَلَكُ: وَلَكَ بِمِثْلٍ»().
”جب کوئی مسلمان بندہ اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تمہارے لیے بھی اسی طرح سے ہو۔“
اور انہیں سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کہا کرتے تھے:
«دَعْوَةُ الْـمَرْءِ الْـمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ، كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْـمَلَكُ الْـمُوَكَّلُ بِهِ: آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ»().
”مسلمان شخص کی دعا اپنے غیر موجود بھائی کے لیے قبول کی جاتی ہے، اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ رہتاہے، جب وہ اپنے بھائی کے لیے کسی خیر کی دعا کرتا ہے تو اس کام پر مامور فرشتہ کہتا ہے کہ اے اللہ! اس کی دعا کو قبول کرے اور اس کے لیے بھی اسی طرح کی خیر مہیا کردے۔“
مذکورہ آیات وروایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کو اپنے ساتھ اپنے بھائی کے لیے بھی دعا کرنا چاہیے، تاکہ اس کی دعا بھی قبول ہوجائے اور جو بھلائی اپنے بھائی کے لیے مانگ رہا ہے وہی اس کو بھی مل جائے۔
چپکے چپکے دعا کرنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۵۵ۚ ﴾ [سورۃ الأعراف:۵۵]
”تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو، گڑگڑا کر اور چپکے چپکے، واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔“
اس آیت میں دعا کے بارے میں ایک اہم ادب کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ دعا کے وقت چلانا یا شور مچانا مطلوب نہیں ہے، بلکہ آہستہ سے دعا کرنا پسندیدہ ہے، اس لیے دوسری آیت میں کہا گیا ہے کہ:
﴿وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَــہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ۲۰۵ ﴾ [سورۃ الأعراف:۲۰۵]
”تم اپنے رب کو صبح وشام یاد کیا کرو دل ہی دل میں الحاح وزاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ، اور ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہیں۔“
محدث ابن جریح کہتے ہیں کہ دعا میں چیخنا چلانا اور آواز بلند کرنا مکروہ، اور الحاح وزاری،انکساری اور آواز کو پست رکھنا مطلوب ہے()۔
علامہ ابن تیمیہ نے آہستہ سے دعا کرنے کے بہت سے فوائد ذکر کیے ہیں، جن میں ایک یہ ہے کہ اس طرح سے خشوع وخضوع اور گریہ وزاری طاری ہوتی ہے جو دعا کی روح، مغز اور مقصود ہے، کیونکہ خشوع وخضوع اور انکساری اختیار کرنے والا ایک مسکین فقیر کی طرح سے دعا کرتا ہے جس کا دل ٹوٹا ہوا ہے، اس کا پور پور اللہ کے سامنے جھکا ہوا ہے، اور اس کی آواز بالکل پست ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا کی دعا کے وقت کی کیفیت کی اِن الفاظ میں تعریف کی ہے:
﴿اِذْ نَادٰى رَبَّہٗ نِدَاۗءً خَفِيًّا۳ ﴾ [سورۃ مریم: ۳]
”جب کہ انہوں نے چپکے سے اپنے رب کو پکارا۔“
تو اگر دل میں اللہ کی قربت کا احساس ہو اور یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہر چیز سے زیادہ قریب ہے تو جہاں تک ہوسکے گا دعا میں آواز کو پست رکھنے کی کوشش کرے گا۔
دعا میں حد سے تجاوز
دعا میں تکلّف سے بچنا چاہیے، کتاب وسنت میں دعا میں تکلّف اور حد سے تجاوز کی ممانعت کی گئی ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں ہے کہ:
﴿اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۵۵ۚ ﴾ [سورۃ الأعراف:۵۵]
”تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو، گڑگڑا کر اور چپکے چپکے، واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔“
اس آیت میں دعا کرنے کا حکم اور اس میں حد سے تجاوز کی ممانعت ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ دعا کرنے میں بھی کبھی آدمی حد سے نکل جاتا ہے، اس لیے جہاں تک ہوسکے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ دعا میں شاعروں کی طرح سے تُک بندی سے بچو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام کو اس سے احتراز کرتے ہوئے دیکھا ہے()۔
اور حضرت عبداللہ بن مغفل نے سنا کہ اُن کا بیٹا اِن الفاظ میں دعا کر رہا ہے:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْقَصْرَ الْأَبْيَضَ عَنْ يَمِينِ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلْتُهَا».
”اے اللہ! تجھ سے جنت میں دائیں طرف سفید محل مانگتا ہوں جب میں اس میں داخل ہوں۔“
یہ سن کر انہوں نے کہا: اللہ سے جنت مانگو اور جہنم سے پناہ چاہو، کیونکہ میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے کہ :
«إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الطَّهُورِ وَالدُّعَاءِ».
”اس امت میں جلد ہی ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دعا اور طہارت میں حد سے تجاوز کریں گے۔“()
اور محدث ابن جریج کہتے ہیں کہ دعا میں بھی حد سے تجاوز پایا جاتاہے، اور اس میں چیخنا اور آواز بلند کرنا مکروہ ہے، اور گریہ وزاری اور پوشیدگی مطلوب ہے۔
دعا میں حد سے تجاوز کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آدمی ایسی چیز کا خواستگار ہو جسے اللہ تعالیٰ نے نہ ہونا طے کردیا ہو، جیسے کہ کوئی دعا کرے کہ اسے قیامت تک دنیا میں زندہ رکھا جائے، یا اسے غیب کا عالم بنا دیا جائے، یا اسے گناہوں سے معصوم قرار دے دیا جائے۔
دعا کا انبیائی طریقہ
قرآن وحدیث میں مذکور نبیوں کے قصوں میں غور وفکر کرنے سے دعا کے آداب، طریقے اور سلیقے معلوم ہوتے ہیں۔
- یہ حضرت ایوب ہیں جو کئی سالوں سے طرح طرح کے امراض اور حالات کا شکار ہیں()۔ لیکن زبان پر حرفِ شکایت نہیں، بلکہ صبر وشکر کے ساتھ اللہ کی رحمت کے خواستگار ہیں اور اس حالت میں ایک طویل مدت گزر جانے کے بعد شرم وحیا کے ساتھ دعا کررہے ہیں:
﴿اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَـمُ الرّٰحِمِيْنَ۸۳ۚۖ ﴾ [سورۃ الأنبیاء: ۸۳]
”مجھے بیماری لگ گئی ہے، اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والاہے۔“
اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوراً اس کا جواب آتا ہے کہ:
﴿فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَكَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرٍّ وَّاٰتَيْنٰہُ اَہْلَہٗ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِكْرٰي لِلْعٰبِدِيْنَ۸۴ ﴾ [سورۃ الأنبیاء: ۸۴]
”تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ اسے تھا اسے دور کردیا اور اس کو اہل وعیال سے نوازا، بلکہ مال واولاد پہلے سے دوگنا دیا، اپنی خاص مہربانی سے تاکہ سچے بندوں کے لیے سببِ نصیحت ہو۔“
علامہ ابن قیم لکھتے ہیں کہ حضرت ایوب کی اِس دعا میں وحدانیت کا اقرار بھی ہے اور اپنی فقر ومسکنت کا اظہار بھی اور اللہ کی صفتِ رحمت کا اعتراف بھی، اور یہ بھی کہ وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ نیز اس بات کی دلیل ہے کہ دعامیں اللہ کی صفات کا وسیلہ اختیار کرنا چاہیے، اپنی انتہائی محتاجی اور بے بسی وبے کسی کو بیان کرنا چاہیے۔ اور کسی آزمائش سے دوچار شخص جب اس شعور کے ساتھ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت کو دور کردیتے ہیں()۔
- اور یہ حضرت زکر ہیں جنہوں نے چپکے چپکے اپنے رب کو پکارا اور عرض کیا:
﴿رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ۸۹ۚۖ ﴾ [سورۃ الأنبیاء: ۸۹]
”میرے پروردگار! مجھے تنہا نہ چھوڑ، تو سب سے بہتر وارث ہے۔“
اور پروردگار کی طرف سے فوراً قبولیت کی سند مل گئی:
فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ۰ۡوَوَہَبْنَا لَہٗ يَحْــيٰى وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ۰ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَہَبًا۰ۭ وَكَانُوْا لَنَا خٰشِعِيْنَ۹۰ [سورۃ الأنبیاء: ۹۰]
”ہم نے اس کی دعا قبول کی، اور انہیں بیٹے کی شکل میں یحییٰ دیا، اور ان کی بیوی کو ان کے لیے درست کر دیا۔ یہ لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف سے پکارتے تھے، اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔“
کیسے ایسے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوگی جن کے اس طرح کے اوصاف ہوں اور دعا کے ایسے طریقے اور سلیقے سے آراستہ ہوں؟ علامہ ابن قیم کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ جس کے لیے خیر اور بھلائی چاہتے ہیں اس کے لیے انکساری، فروتنی اور عاجزی کے دروازے کھول دیتے ہیں، اور اسے ہمیشہ اپنی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا کر دیتے ہیں، اور اسے اپنے نفس کے عیوب، اس کی جہالت وناواقفیت اور سرکشی سے آگاہ کردیتے ہیں، اور اسے اپنی رحمت، فضل واحسان، جود وسخا اور بے نیازی کا مشاہدہ کرا دیتے ہیں()۔
- اور یہ حضرت نوح ہیں جو مسلسل ساڑھے نو سو سال تک نہایت تندہی اور جانفشانی کے ساتھ اپنی قوم میں دعوت وتبلیغ کا کام کرتے ہیں اور انہیں رحمٰن ورحیم کی عبادت کی طرف بلاتے ہیں، لیکن ان کی سرکشی اور بغاوت میں کوئی کمی نہیں آتی ہے، اور پھر ان کی طرف سے مایوس ہوکر دعا کرتے ہیں:
﴿وَنُوْحًا اِذْ نَادٰي مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَنَجَّيْنٰہُ وَاَہْلَہٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ۷۶ۚ ﴾ [سورۃ الأنبیاء:۷۶]
”اور نوح کے اُس وقت کو یاد کرو جبکہ اُس نے اِس سے پہلے دعا کی تو ہم نے اُس کی دعا قبول کی اور اُسے اور اُس کے گھر والوں کو بڑے کرب سے نجات دی۔“
اور پھر آسمان سے موسلا دھار بارش شروع ہوجاتی ہے، اور زمین سےہر طرف پانی کے چشمے ابل پڑتے ہیں اور وہ ایک سمندر میں تبدیل ہوجاتی ہے، اور حضرت نوح کی کشتی پہاڑ کی طرح سے اس طوفانِ بلاخیز میں رواں دواں ہے، اور پھر کچھ دنوں کے بعد اللہ کا حکم آتاہے:
﴿وَقِيْلَ يٰٓاَرْضُ ابْلَعِيْ مَاۗءَكِ وَيٰسَمَاۗءُ اَقْلِـعِيْ وَغِيْضَ الْمَاۗءُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ وَاسْـتَوَتْ عَلَي الْجُوْدِيِّ وَقِيْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَ۴۴ ﴾ [سورۃ ہود:۴۴]
”اے زمین! اپنے پانی کو نگل جا، اور اے آسمان! بس کر، تھم جا، اسی وقت پانی سکھا دیا گیا اور کام پورا کردیا گیا اور کشتی جودی نامی پہاڑ پر جالگی، اور کہہ دیا گیا کہ ظالموں پر لعنت ہو۔“
اور زمین پر پھر سے ایک نئی زندگی کی شروعات ہوئی جو صاف، ستھری اور شرک کے میل کچیل سے پاک تھی۔
- اور سورۃ الأنبیاء ہی میں حضرت یونس کا قصہ بیان کیا گیا ہےکہ اپنی قوم کی سرکشی اور روگرانی سے ناراض ہوکر ان کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے گئے:
﴿وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْہِ فَنَادٰي فِي الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ۰ۤۖ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ۸۷ۚۖ ﴾ [سورۃ الأنبیاء:۸۷]
”اور مچھلی والے کو یاد کرو جب کہ وہ غصے سے چلا گیا اور خیال کیا کہ ہم اس پر اس کی گرفت نہیں کریں گے، اور بالآخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا: الٰہی! تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو پاک ہے، بیشک میں ظالموں میں سے ہوگیا ہوں۔“
اور اللہ کی طرف سے بجلی جیسی تیزی کے ساتھ ان کی پکار سنی گئی:
﴿فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ۰ۙ وَنَجَّيْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ۰ۭ﴾ [سورۃ الأنبیاء:۸۸]
”ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم اور گھٹن سے نجات دی۔“
اور اس کے بعد کہا گیا کہ:
﴿وَكَذٰلِكَ نُـــــْۨــجِي الْمُؤْمِنِيْنَ۸۸ ﴾ [سورۃ الأنبیاء:۸۸]
”اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح سے بچالیا کرتے ہیں۔“
یعنی قبولیتِ دعا کی نعمت صرف رسولوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر مؤمن کے لیے عام ہے کہ جو بھی مصیبت ومشکلات میں اللہ کو پکارے گا، اس سے مناجات اور دعا کرے گا تو وہ اسے اس سے چھٹکارا دلا دے گا()۔
خاتم النبیین اور سید المرسلین کا طرزِ عمل
آخری نبی اور رسولوں کے سردار کی سیرت میں ہر معاملے میں اللہ کی طرف رجوع، التجاء اور دعا کے بہت سے واقعات ملتے ہیں، جن میں سے کچھ نقل کیے جا رہے ہیں:
۱- جنگِ بدر
اسلامی تاریخ میں جنگِ بدر ایک بے مثال واقعہ ہے، آسمان کی نگاہوں نے اس سے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی زمین اس طرح کے کسی واقعے سے کبھی ہم آشنا ہوئی تھی۔ قریش اپنے لاؤ لشکر اور مکمل تیاری کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے جن کے ساتھ ناچنے اور گانے والی عورتیں بھی تھیں، اور دوسری طرف مٹھی بھر مسلمان جن کے پاس اللہ پر اعتماد کے علاوہ بچاؤ کا کوئی اور سامان نہ تھا۔ انہیں دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا:
«اللَّهُمَّ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ بِخُيَلَائِهَا وَفَخْرِهَا، تُـحَادُّكَ وَتُكَذِّبُ رَسُولَكَ، اللَّهُمَّ فَنَصْرَكَ الَّذِيْ وَعَدْتَنِيْ»().
”اے اللہ! قریش کے لوگ اپنے لاؤ لشکر اور فخر وغرور کے ساتھ حملہ آور ہوئے ہیں، یہ تیری مخالفت کرتےہیں اور تیری رسول کو جھٹلاتے ہیں، اے اللہ! اُس مدد کو بھیج دیجیے جس کا آپ نے مجھ سے وعدہ کیاہے۔“
جنگ شروع ہونے سے پہلے آنحضرت ﷺ اپنے خیمے میں تشریف لائے، آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر تھے، اور حضرت سعد بن معاذ تلوار لیے خیمے کے دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ آنحضور ﷺ نے آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھا کر عرض کیا:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ»().
”اے اللہ! اپنے عہد اور وعدے کو پورا کیجیے، اے اللہ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی عبادت نہ کی جائے!؟“
حضرت ابو بکر نےکہا: اللہ کے رسول! بس یہ کافی ہے، یقیناً اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ نبھائے گا۔ پھر اللہ کے رسول وہاں سے باہر آئے اس حال میں کہ آپ کا چہرہ دمک رہا تھا اور آپ کہہ رہے تھے:
﴿سَيُہْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۴۵ ﴾ [سورۃ القمر: ۴۵]
”جلد ہی جتھے شکست کھا جائیں گے اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔“
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ قبلہ رُو ہوکر اور دونوں ہاتھ پھیلا کر یہ دعا کرنے لگے:
«اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِـيْ مَا وَعَدْتَنِيْ، اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِيْ، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِيْ الْأَرْضِ»().
”اے اللہ! مجھ سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کردیجیے، اے اللہ! آپ نے مجھ سے جس چیز کا وعدہ کیا تھا وہ عطا کر دیجیے، اے اللہ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ختم ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی۔“
آپ ﷺ اسی طرح سے دعا کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کی چادر کندھے سے گرگئی، حضرت ابو بکر نے اسے اٹھا کر آپ کے کندھے پر رکھا اور پھر پشت کی طرف سے آپ سے چمٹ گئے اور کہنے لگے: اللہ کے نبی! آپ کی یہ دعا کافی ہے، اللہ تعالیٰ جلد ہی آپ سے کیے گئے وعدے کو پورا کریں گے، اور پھر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَ۹ ﴾ [سورۃ الأنفال: ۹]
”اور وہ موقع یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔“
۲-جنگِ خندق
۵ہجری میں کافروں کی تمام جماعتیں، گروہ اور قومیں ایک ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوئیں تاکہ روئے زمین سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹا دیں، اور مدینہ میں رہنے والے یہودیوں نے بھی اس موقع کو غنیمت سمجھا اور وہ بھی حملہ آوروں میں شامل ہوگئے۔ اس طرح سےمسلمان چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں آگئے، جس کی وجہ سے مدینہ کے لوگ سخت خوف اور اضطراب کا شکار ہوگئے۔ قرآن نے اس کیفیت کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
﴿اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللہِ الظُّنُوْنَا۱۰ ہُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا۱۱ ﴾ [سورۃ الأحزاب:۱۰ -۱۱]
”جب وہ اوپر اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منھ کو آگئے اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے، اُس وقت مؤمنوں کو آزمایا گیا اور وہ پوری طرح سے جھنجھوڑ دیے گئے۔“
خوف کے ساتھ ٹھنڈک اور بھوک کا قہر بھی جاری تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ اور مخلص مسلمانوں پر نہ تو کوئی گھبراہٹ طاری ہوئی اور نہ وہ خوف کا شکار ہوئے، بلکہ مکمل سکون واطمینان اور کامل یکسوئی کے ساتھ اللہ کے سامنے دست بدعا ہوگئے۔ آپ ﷺ کے الفاظ یہ تھے:
«اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، سَرِيعَ الحِسَابِ، اهْزِمِ الأَحْزَابَ، اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ»().
”اے اللہ! اے کتاب کے نازل کرنے والے! جلد حساب لینے والے! اِن تمام اقوام کو شکست دے دے۔ اے اللہ! انہیں شکست دے دے اور ان کو ہلا کر رکھ دے۔“
اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور طوفان وآندھی کی شکل میں اللہ کی طرف سے مدد آئی جس کی وجہ سے دشمن وہاں سے فرار پر مجبور ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَرَدَّ اللہُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِغَيْظِہِمْ لَمْ يَنَالُوْا خَيْرًا۰ۭ وَكَفَى اللہُ الْمُؤمِنِيْنَ الْقِتَالَ۰ۭ وَكَانَ اللہُ قَوِيًّا عَزِيْزًا۲۵ۚ وَاَنْزَلَ الَّذِيْنَ ظَاہَرُوْہُمْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَيَاصِيْہِمْ وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ وَتَاْسِرُوْنَ فَرِيْقًا۲۶ۚ ﴾ [سورۃ الأحزاب:۲۵ -۲۶]
”اللہ تعالیٰ نے کافروں کو غیظ وغضب کی حالت میں ناکام واپس کردیا، انہیں کچھ بھی ہاتھ نہیں لگا، اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مؤمنوں کی طرف سے کافی ہوگیا، اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا اور غالب ہے۔ اور جن اہلِ کتاب نے اُن سے ساز باز کر لی تھی انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے اُن کے قلعوں سے نکال دیا اور اُن کے دلوں میں رعب ڈال دیا کہ تم اُن کے ایک گروہ کو قتل کررہے تھے اور دوسرے کو قیدی بنا رہے تھے۔“
۳-سفرِ طائف
دعوت وتبلیغ کے لیے آنحضرت ﷺ نے طائف کا سفر فرمایا، لیکن وہاں کے سرداروں نے آپ کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ بچوں اور پاگلوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا جو آپ پر پتھر برساتے رہے، یہاں تک کہ آپ زخموں سے چور چور ہوگئے اور جسمِ مبارک لہولہان ہوگیا۔ رحمتِ عالم ﷺ وہاں سے واپس آتے ہوئے ایک انگور کے باغ میں پہنچے اور دعا کے لیے دونوں ہاتھ کو پھیلا دیا۔ اس دعا کے ذریعے تسلیم ورضا، صبر وشکر اور تواضع وانکساری کا ایک بے مثال نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ آپ ﷺ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا:
«اللَّهُمَّ إِلَيْكَ أَشْكُوْ ضَعْفَ قُوَّتِـيْ، وَقِلَّةَ حِيلَتِيْ، وَهَوَانِـيْ عَلَـى النَّاسِ، أَرْحَمَ الرَّاحِـمِيْنَ، أَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِـمِيْنَ، إِلَـى مَنْ تَكِلُنِيْ؟ إِلَـى عَدُوٍّ يَتَجَهَّمُنِيْ؟ أَوْ إِلَـى قَرِيبٍ مَلَّكْتَهُ أَمْرِيْ؟ إِنْ لَـمْ تَكُنْ غَضْبَانَ عَلَـيَّ فَلَا أُبَالِيْ، غَيْرَ أَنَّ عَافِيَتَكَ أَوْسَعُ لِـيْ، أَعُوذُ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِيْ أَشْرَقَتْ لَهُ الظُّلُمَاتُ، وَصَلَحَ عَلَيْهِ أَمَرُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ أَنْ تُنْزِلَ بِـيْ غَضَبَكَ، أَوْ تُـحِلَّ عَلَـيَّ سَخَطَكَ، لَكَ الْعُتْبَى حَتَّى تَرْضَى، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ»().
”اے اللہ! تجھی سے شکایت کرتا ہوں اپنی کمزوری، کم مایگی اور لوگوں کی نظروں میں بے وقعتی کی۔ اے ارحم الراحمین! آپ سب رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں، آپ مجھے کس کے حوالے کررہے ہیں؟ کسی دشمن کے جو مجھ پر زور آزمائی کرتا ہے؟ یا کسی قریبی رشتے دار کو میرا مالک بنا دیا ہے؟ اگر آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں تو مجھے کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں ہے، البتہ آپ کی طرف سے عافیت میرے لیے زیادہ بہتر ہے۔ آپ کی ذاتِ گرامی کے نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور اس کی وجہ سے دنیا وآخرت کے امور درست رہتے ہیں اِس بات سے کہ آپ مجھ سے ناراض وناخوش ہوں، اور آپ کی ناراضگی کو دور کرنا ہے یہاں تک کہ مجھ سے خوش ہوجائیں، اور گناہ سے بچنے کی طاقت اور عبادت کرنے کی قوت آپ کی مدد ہی سے ملتی ہے۔“
اور دنیا نے اُس موقع پر آپ کی بردباری اور عفو ودرگزر کا منظر بھی دیکھا جب فرشتے نے عرض کیا کہ مجھے حکم دیجیے کہ دونوں پہاڑوں کو ملاکر انہیں پیس کے رکھ دوں، تو آپ نے جواب دیا: ہرگز نہیں، ہوسکتا ہے کہ اِن میں کچھ لوگ ایسے ہوں جو ایمان کی دولت سے سرفراز ہوجائیں، اور پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ:
«اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِيْ فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ».
”اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ نادان ہیں۔“
اور پھر چند سالوں کے بعد حنین میں شکست کھا جانے کے باوجود طائف کے لوگ راہِ راست پر نہیں آئے تو بعض نوجوان مسلمانوں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! ان کے خلاف بددعا کردیجیے، تو آپ نے ہاتھ اٹھایا، لیکن بددعا کے لیے نہیں بلکہ دعا کے لیے، آپ نے دوسری مرتبہ ان کی ہدایت کے لیے دعا فرمائی:
«اللَّهُمَّ اهْدِ ثَقِيفًا، وَائْتِ بِـهِمْ».
”اے اللہ! ثقیف کے لوگوں کو ہدایت دے اور انہیں میرے پاس لے آ۔“
قبولیتِ دعا کی شرائط
قبولیتِ دعا کے لیے بعض ضروری شرطیں اور کچھ مطلوبہ آداب ہیں کہ جو شخص ان کا لحاظ رکھے گا اس کی دعا ضرور قبول ہوگی، وہ شرائط وآداب یہ ہیں:
۱- اخلاص
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَيُؤتُوا الزَّكٰوۃَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَۃِ۵ۭ ﴾ [سورۃ البینۃ:۵]
”انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں اور اسی کے لیے یکسو رہیں، صلاۃ قائم کریں اور زکاۃ دیں، یہی اس سیدھی ملت کا دین ہے۔“
اس لیے اللہ کے سوا کسی دوسرے سے دعا نہیں مانگنی چاہیے، اس لیے کہ دعا عبادت اور خالص اللہ کا حق ہے، اور اس کے ساتھ شرک کرنا حرام ہے۔ صرف اللہ کی ذات ہی دعا قبول کرتی ہے اور مصیبتوں اور مشکلات کو دور کرتی ہے۔ تمام بھلائیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ کوئی اس کے فیصلے کو رد نہیں کرسکتا ہے۔ نادار کو مالدار بنانے والا، وحشت، گھٹن اور اضطراب وپریشانی کو ختم کرنے والا اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ کمزور اور مغلوب کی مدد وہی کرتا ہے، مجبور اور بے کس کی فریاد وہی سنتا ہے اور بے در وبے گھر کو وہی پناہ دیتا ہے۔ وہ دینے پر آئے تو کوئی روک نہیں سکتا اور روک لے تو کسی میں دینے کی طاقت نہیں۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بادشاہت اسی کے لیے ہے۔
۲- توبہ
دعا سے پہلے گناہوں اور خطاؤں سے توبہ ضروری ہے، کیونکہ گناہوں کے میل کچیل کے ساتھ دعا قبول نہیں ہوسکتی ہے۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ اس صورت میں دعا کی قبولیت کی امید مت رکھو جبکہ معصیت کے ذریعے تم نے اس کی راہوں کو بند کر رکھا ہے۔ اور حضرت عمر کے متعلق نقل کیا گیا ہے کہ وہ بارش کی دعا کے لیے نکلے اور استغفار کرکے واپس آگئے اور پھر خوب بارش ہوئی، لوگوں نے کہا کہ آپ نے بارش کی دعا تو نہیں مانگی؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ان اسباب کو اختیار کیا جس کے ذریعے بارش ہوتی ہے، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفَّارًا۱۰ۙ يُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا۱۱ۙ ﴾ [سورۃ نوح:۱۰-۱۱]
”میں نے ان سے کہا: اپنے رب سے مغفرت طلب کرو، وہ بہت معاف کرنے والا ہے، وہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا۔“()
۳- حمد وثنا
دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ کی حمد وثنا بیان کی جائے اور پھر نبی ﷺ پر درود وسلام بھیجا جائے، اور پھر آخر میں بھی یہی کیا جائے۔
۴- قبلہ کی طرف رخ کرنا اور دونوں ہاتھوں کو اٹھانا
۵- بار بار دعا کرنا
اکتاہٹ کے بغیر بار بار دعا کرنی چاہیے اور جلد بازی کاا ظہار نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت عطا کہتے ہیں کہ جو بندہ تین مرتبہ ”اے میرے رب“ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی طرف نظرِ رحمت فرماتے ہیں۔ حضرت حسن بصری سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: کیا تم قرآن کی یہ آیتیں نہیں پڑھتے ہو:
﴿الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا۰ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۱۹۱ رَبَّنَآ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَہٗ۰ۭ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۱۹۲ رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا۰ۤۖ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ۱۹۳ۚ رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰي رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۰ۭ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۱۹۴ فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى۰ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۰ۚ فَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَاُوْذُوْا فِيْ سَبِيْلِيْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَيِّاٰتِھِمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ۰ۚ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللہِ۰ۭ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ۱۹۵ ﴾ [سورۃ آل عمران:۱۹۱-۱۹۵]
”جو لوگ اللہ کا ذکر کھڑے، بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا، تو پاک ہے، بس ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔ اے ہمارے رب! تو جسے جہنم میں ڈالے یقیناً تو نے اسے رسوا کیا، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔ اے ہمارے رب! ہم نے سنا کہ منادی کرنے والا بلند آواز کے ساتھ ایمان کی طرف بلا رہا ہے کہ لوگو! اپنے رب پر ایمان لاؤ، پس ہم ایمان لائے، اے ہمارے رب! تو ہمارے گناہ معا ف فرما اور ہماری برائیاں ہم سے دور کردے اور ہماری موت نیک لوگوں کے ساتھ کر۔ اے ہمارے رب! ہمیں وہ دے جس کا وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی زبانی کیا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر، یقیناً تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول کرلی کہ تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کرتا، تم آپس میں ایک دوسرے جیسے ہو۔ اس لیے وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دیے گئے اور جنہیں میری راہ میں ایذا دی گئی اور جنہوں نے جہاد کیا اور شہید کیے گئے، میں ضرور ضرور ان کی برائیاں ان سے دور کردوں گا اور بالیقین انہیں جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہ ہے اجر اللہ کی طرف سے، اور اللہ ہی کے پاس بہترین اجر ہے۔ “()
اس آیت میں تین مرتبہ ”اے ہمارے رب“ کہہ کر دعا مانگی گئی ہے اور اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرلی۔ اور یہی وجہ ہے کہ عام طور پر قرآن میں مذکور دعائیں ’’رب‘‘ کے لفظ سے شروع کی گئی ہیں۔
۶- نیک اور بزرگ کی دعا
نیکو کار اور پرہیزگار کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے، اور بہت سے فقیر اور مسکین اللہ کی نگاہ میں بڑے قدر ومنزلت کے حامل ہوتے ہیں گرچہ دنیا والوں کے نزدیک وہ بے وقعت اور بے حیثیت شمار ہوں، اس لیے کسی فقیر ومسکین کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
«رُبَّ أَشْعَثَ، مَدْفُوعٍ بِالْأَبْوَابِ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَـى اللَّـهِ لَأَبَرَّهُ»().
”بہت سے پراگندہ بال اور دروازوں سے دھتکارے ہوئے ایسے ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کردیتےہیں۔“
اور ایک حدیثِ قدسی میں ہے کہ:
يَقُولُ اللهُ : «أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِـيْ، وَأَنَا مَعَهُ حِيْنَ يَذْكُرُنِـيْ، إِنْ ذَكَرَنِـيْ فِـيْ نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِـيْ نَفْسِيْ، وَإِنْ ذَكَرَنِـيْ فِـيْ مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِـيْ مَلَإٍ هُمْ خَيْرٌ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ مِنِّيْ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَـيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِـيْ يَمْشِيْ أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً»().
اللہ فرماتے ہیں: ”میں اپنے بارے میں بندے کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں، اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے کسی مجمع میں یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر مجمع میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوجاتا ہوں، اور اگر وہ ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کے قریب ہوجاتا ہوں، اور اگر وہ میرے پاس چلتے ہوئے آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑتے ہوئے آتا ہوں۔“
”جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں“ کا مطلب یہ ہے کہ میں اس کی نگہداشت کرتا اور اس پر رحمت نازل کرتا ہوں اور اس کی رہنمائی کرتا اور اسے نیک عمل کی توفیق دیتا ہوں، یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ :
﴿وَہُوَمَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ۰ۭ﴾ [سورۃ الحدید: ۴]
”وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم رہو۔“
۷- تنگی اور فراخی میں دعا
محض وقت پڑنے پر دعا نہیں کرنی چاہیے بلکہ خوشحالی، بدحالی، مصیبت وخوشی، تنگی وسختی اور فراخی وکشادگی ہر حال میں اللہ کو یاد رکھنا چاہیے۔ فراخی، خوشی اور مسرت وراحت میں دعا کی پابندی کی وجہ سے سختی وشدت اور کرب ومصیبت میں دعا قبول ہوتی ہے، چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ:
«مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالكَرْبِ فَلْيُكْثِرِ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ»().
”جسے اس بات سے خوشی ہو کہ اللہ تعالیٰ مصیبت اور رنج وغم کے وقت اس کی دعا قبول کریں تو اسے فراخی اور خوشی کی حالت میں خوب دعا کرنی چاہیے۔“
اور حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«تَعَرَّفْ إِلَيْهِ فِي الرَّخَاءِ، يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّةِ»().
”فراخی میں اللہ کو یاد رکھو تو تنگی کے وقت تمہیں یاد رکھے گا۔“
وہ انسان نہایت ہی برا ہے جو صرف مصیبت کےو قت اللہ کو پکارے، اور اس کے ٹلتے ہی پھر اپنی پہلی حالت کی طرف پلٹ آئے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہٗ مُنِيْبًا اِلَيْہِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَہٗ نِعْمَۃً مِّنْہُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُوْٓا اِلَيْہِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلہِ اَنْدَادًا لِّيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِہٖ۰ۭ قُلْ تَمَــتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيْلًا۰ۤۖ اِنَّكَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ۸ ﴾ [سورۃ الزمر:۸]
”جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اللہ کی طرف رجوع ہوکر اسے خوب پکارتا ہے، اور پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس سے نعمت عطا کردیتے ہیں تو وہ اس سے پہلے جو دعا کرتا تھا اسے بالکل بھول جاتا ہے اور اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے جس سے وہ دوسروں کو بھی اللہ کی راہ سے بھٹکا دے۔ تم کہہ دو کہ اپنے کفر کا فائدہ کچھ دن اور اٹھالو اور آخر میں تو دوزخیوں میں سے ہونے والے ہو۔“
اور ایک دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے:
﴿وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَي الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ۰ۚ وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَاۗءٍ عَرِيْضٍ۵۱ ﴾ [سورۃ فصلت: ۵۱]
”جب ہم انسان کو نعمتوں سے نواز دیتے ہیں تو وہ رخ پھیر لیتا ہے اور ہم سے دور ہوجاتا ہے، اور جب اس پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو وہ لمبی چوڑی دعا کرنے لگتا ہے۔“
۸- حلال غذا
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
«أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْـمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْـمُرْسَلِينَ، فَقَالَ:
﴿يٰٓاَيُّہَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۰ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۵۱ۭ ﴾ [المؤمنون: 51]
وَقَالَ:
﴿يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ﴾ [البقرة: 172]
ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَـى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ! يَا رَبِّ! وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْـحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ»()؟
”اے لوگو! اللہ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے، اور اللہ نے اپنے رسولوں کو جو حکم دیا ہے وہی حکم مؤمنوں کو بھی دیا ہے، چنانچہ فرمایا:
اے رسولو! پاکیزہ چیزوں کو کھاؤ اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کرتےہو میں اسے اچھی طرح سے جانتا ہوں۔
اور مؤمنوں کو مخاطب کرکےفرمایا:
اے ایمان لانے والو! اس پاک رزق کو کھاؤ جو ہم نے تمہیں دیا ہے۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو ایک طویل سفر پہ ہے، جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور جسم غبار سے اٹا ہوا ہے، وہ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے: اے میرے رب! اے میرے رب! اس حال میں کہ اس کا کھانا پینا اور لباس سب حرام ہے اور حرام غذا سے اس کی پرورش ہوئی ہے تو بھلا اس کی دعا کیسے قبول ہوگی!؟“
اور حضرت سعد بن وقاص سے پوچھا گیا کہ آپ کی دعا کیسے قبول ہوجاتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جب بھی کوئی لقمہ منہ میں ڈالتا ہوں تو اس سے پہلے معلوم کرلیتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے()۔
مذکورہ حدیث میں قبولیت دعا کے چار اسباب ذکر کیے گئے ہیں:
۱-سفر: حضرت ابو ہریرہ سے منقول ایک حدیث میں ہے کہ تین لوگوں کی دعا یقینی طور پر قبول ہوتی ہے: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور باپ کی دعا اپنے بیٹے کے حق میں()۔
۲-تواضع اور فروتنی۔
۳-آسمان کی طرف ہاتھ پھیلانا: حضرت سلمان فارسی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ اللهَ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِيْ إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا خَائِبَتَيْنِ»().
”اللہ تعالیٰ حیادار اور کریم ہے، اور بندہ جب اس کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے تو اسے نامراد خالی ہاتھ واپس کرتے ہوئے حیا محسوس کرتا ہے۔“
۴-بار بار دعاکرنا: حضرت عطا کہتے ہیں کہ جو بندہ تین مرتبہ ”اے میرے رب“ کہتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ضرور نظرِ رحمت فرماتے ہیں۔
۹- خشوع وخضوع کے ساتھ دل لگاکر دعا کرنا
دعا دل کی آواز کا نام ہے، محض زبان سے پکارنے کا نہیں، اس لیے قبولیت کے یقین، خشوع وخضوع، دل کی حضوری اور یکسوئی کے ساتھ کی جانے والی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں کہ دل کی غفلت اور دوسری چیزوں میں مشغولیت قبولیتِ دعا کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اور جب کوئی بندہ مکمل یکسوئی اور حضورِ قلب کےساتھ قبولیت کے اوقات میں دعا کرتا ہے یعنی رات کے آخری حصے میں، اذان کے وقت، اذان واقامت کے درمیان، فرض صلاۃ کے بعد، جب جمعہ کے دن امام منبر پر جانے لگے یہاں تک کہ صلاۃ مکمل ہوجائے، اور عصر کے بعد کی آخری گھڑی، اور دعا کے وقت باوضو اور قبلہ رو ہوتا ہے، اللہ کی طرف دونوں ہاتھوں کو اٹھاتا ہے، اور سب سے پہلے حمد وثنا اور پھر درود وسلام کہتا ہے، اور اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرتاہے، اور رغبت وخشیت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بار بار دعا کرتا ہے، اللہ کی ذات وصفات کا وسیلہ اختیار کرتا ہے، اور دعا سے پہلے صدقہ وخیرات کرتا ہے، تو ایسے شخص کی دعا کبھی بھی رد نہیں کی جاتی ہے، خصوصاً جب اس کے ساتھ ان جملوں کو شامل کرلیا جائے جو اسمِ اعظم پر مشتمل ہیں۔
اور حالات کیسے بھی ہوں مگر مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنا اور اس سے التجا کرنا چاہیے۔ چنانچہ قرآن میں ہے کہ:
﴿ قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۵۳ ﴾ [سورۃ الزمر:۵۳]
”(اے نبی!) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور ورحیم ہے۔“
اللہ کی رحمت سے ناامیدی ایک بری خصلت اور قبیح حرکت ہے، حضرت ابراہیم نے فرمایا:
﴿وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ۵۶ ﴾ [سورۃ الحجر:۵۶]
”اور اپنے رب کی رحمت سے صرف بھٹکے ہوئے لوگ ہی ناامید ہوسکتے ہیں۔“
اور اس معاملے میں حضرت یعقوب ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ حضرت یوسف کی گمشدگی کی وجہ سے رنج وغم کے باعث روتے روتے ان کی آنکھ کی سیاہی سفیدی سے بدل گئی اور بینائی جاتی رہی، اور اس کیفیت میں ایک طویل زمانہ گزر گیا، لیکن وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئے، نہ گھبرائے، نہ اکتائے، نہ ڈگمگائے، بلکہ اللہ کی رحمت کے امیدوار رہے، یہاں تک کہ لوگ کہنے لگے:
﴿قَالُوْا تَاللہِ تَفْتَؤا تَذْكُرُ يُوْسُفَ حَتّٰى تَكُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَكُوْنَ مِنَ الْہٰلِكِيْنَ۸۵﴾ [سورۃ یوسف: ۸۵]
”ان لوگوں نے کہا کہ خدارا! آپ تو بس یوسف ہی کو یاد کیے جاتے ہیں، نوبت یہ آگئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے یا اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے۔“
انہوں نے رب پر کامل یقین اور اعتماد کے ساتھ جواب دیا:
﴿قَالَ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللہِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۸۶﴾
[سورۃ یوسف:۸۶]
”میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا، اور اللہ کے متعلق جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔“
اور وہ اس گھڑی کا انتظار کرتے رہے جس میں رات کا تیر نشانے پر بیٹھ جائے اور رب کی بارگاہ میں ان کی دعا کی رسائی ہوجائے، اور اپنی اولاد کو بھی اس بات کی تلقین کرتے رہے کہ وہ تلاش جاری رکھیں اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں:
﴿يٰبَنِيَّ اذْہَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُوْسُفَ وَاَخِيْہِ وَلَا تَايْــــَٔــسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۰ۭ اِنَّہٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ۸۷﴾ [سورۃ یوسف:۸۷]
”میرے بچو! تم جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو پوری طرح تلاش کرو، اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، یقیناً اللہ کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتےہیں۔“
اور آخرکار ان کی مراد پوری ہوئی، امید کے دیپ جل اٹھے اور فرحت بخش ہوائیں چلنے لگیں:
﴿وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ قَالَ اَبُوْہُمْ اِنِّىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ۹۴ ﴾ [سورۃ یوسف:۹۴]
”اور جب قافلہ مصر سے آگے بڑھا تو ان کے والد نے کہا: مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے، اگر تم مجھے بہکی بہکی بات کرنے والا نہ سمجھو۔“
اور حضرت یوسف کی بازیابی کی خوشخبری لانےو الوں سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے ان کی خوشبو کے ذریعے مشامِ جاں کو معطر کردیا اور ان کی تصویر ان کی نگاہوں کے سامنے آگئی اور اس طرح سے اس آزمائش کا خاتمہ ہوگیا جس کی ابتدا حضرت یوسف کی پھٹی ہوئی قمیص سے ہوئی تھی اور انتہا بھی حضرت یوسف کی قمیص سے ہوئی جسے حضرت یعقوب کے چہرۂ انور پر ڈال دیا گیا جس سے ان کی بینائی واپس آگئی۔
اس لیے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ امید کے دامن سے وابستہ رہنا ضروری ہے کہ جب رات کی تاریکی شدید ہوجاتی ہے تو صبحِ نو کی امید جاگ اٹھتی ہے، اور جب زنجیر کی بندش تنگ ہوجاتی ہے تو ٹوٹ جاتی ہے۔ اور جو دعا کے بعد مایوس ہوجاتا تو بقول علامہ ابن قیم ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی کھیتی کرے یا درخت لگائے لیکن پکنے میں تاخیر ہوجائے تو پھر کنارہ کشی اختیار کرلے اور اس کی دیکھ ریکھ چھوڑ دے۔
قبولیتِ دعا کے اوقات واحوال
بعض اوقات اور حالتیں ایسی ہیں جن میں قبولیتِ دعا کی زیادہ امید ہوتی ہے، جیسے کہ سجدے میں، رات کے آخری حصے میں اور فرض صلاۃ کے بعد۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ، وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ»().
”سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اس لیے اس میں خوب دعا کیا کرو۔“
۱-وقتِ سحر
سحر کے وقت یعنی رات کے آخری حصے میں دعا قبول ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے پرہیزگار بندوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَہْجَعُوْنَ۱۷ وَبِالْاَسْحَارِہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۱۸﴾
[سورۃ الذاریات:۱۷-۱۸]
”وہ رات کو بہت کم سویا کرتے، اور سحر کے وقت استغفار کیا کرتے۔“
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
«يَنْزِلُ رَبُّنَا كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ، يَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ، مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ»().
”اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری حصے میں دنیاوی آسمان کی طرف نزول فرماتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے اور میں اس کی دعا قبول کرلوں؟ کون ہے جو میرے سامنے ہاتھ پھیلائے اور میں اس کے دامنِ مراد کو بھر دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے اور میں اسے معاف کردوں؟“
۲- جمعہ کا دن
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
«فِيهِ سَاعَةٌ، لاَ يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّـيْ، يَسْأَلُ اللَّـهَ تَعَالَـى شَيْئًا، إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ» وَأَشَارَ بِيَدِهِ يُقَلِّلُهَا().
”جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے کہ اس وقت میں جو بھی مسلمان بندہ صلاۃ کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے جو کچھ بھی مانگتا ہے وہ اسے مل جاتا ہے“۔ او رپھر آپ ﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ گھڑی بہت مختصر ہوتی ہے۔
۳-رمضان کا مہینہ
ماہِ رمضان میں دعا قبول ہوتی ہے، خصوصاً لیلۃ القدر میں جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
۴- عرفہ کا دن
عرفہ کے دن دعا قبول ہوتی ہے، لغزشوں کو معاف کردیا جاتا ہے اور گناہوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔
۵- اذان واقامت کے درمیان
اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
«إِنَّ الدُّعَاءَ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ، فَادْعُوا»().
”اذان واقامت کےد رمیان کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے، اس لیے اس وقت دعا کیا کرو۔“
۶-فرض صلاۃ کے بعد
حضرت ابو امامہ باہلی کہتے ہیں کہ:
قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّـهِ! أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟ قَالَ: «جَوْفَ اللَّيْلِ الآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ المَكْتُوبَاتِ»().
دریافت کیا گیا: اللہ کے رسول! کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ فرمایا: ”رات کے آخری حصے اور فرض صلاۃ کے بعد کی دعا۔“
۷- صیام وسفر کی حالت میں دعا، اور مظلوم کی بددعا، اور باپ کی دعا بیٹے کے لیے قبول ہوتی ہے
چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ لَا تُرَدُّ، دَعْوَةُ الْوَالِدِ، وَدَعْوَةُ الصَّائِمِ، وَدَعْوَةُ الْـمُسَافِرِ»().
”تین دعائیں رد نہیں کی جاتی ہیں: باپ کی دعا، صائم کی دعا اور مسافر کی دعا۔“()
کیا ہر دعا قبول ہوتی ہے؟
حضرت عمر فاروق کہتے ہیں: مجھے دعا قبول ہونے کی کوئی فکر نہیں ہے، البتہ اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ دعا کی توفیق مل جائے، کیونکہ اگر دعا کی توفیق مل گئی تو وہ قبول ہی ہوگی۔ اور متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ مانگنے والے کو نوازتے ہیں، ہاتھ پھیلانے والے کو نامراد واپس نہیں کرتے ہیں اور مؤمنوں کی امید کو توڑتے نہیں ہیں۔ حضرت سلمان فارسی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ رَبَّكُمْ حَيِيٌّ كَرِيمٌ، يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ، أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا»().
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ باحیا اور کریم ہیں، اس لیے جب کوئی بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے خالی ہاتھ واپس کرتے ہوئے وہ شرم محسوس کرتے ہیں۔“
بعض لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ ہم نے دعا کی اور بار بار دعا کی، لیکن مقصود حاصل نہیں ہوا، ایسا کیوں ہوتاہے؟ علامہ ابن حجر عسقلانی اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ قبولیتِ دعا کی مختلف صورتیں ہیں: کبھی مطلوبہ شکل میں دعا فوراً قبول ہوجاتی ہے، اور کبھی دعا تو قبول ہوجاتی ہے البتہ کسی حکمت ومصلحت کے پیشِ نظر اس کے ملنےمیں تاخیر ہوجاتی ہے، اور کبھی مطلوبہ شکل کے علاوہ دوسری صورت میں دعا قبول ہوتی ہے، کیونکہ مطلوبہ شکل مصلحت کے خلاف ہوتی ہے اور جو چیز عطا کی جاتی ہے اس میں مصلحت ہوتی ہے()۔ چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَا عَلَـى الأَرْضِ مُسْلِمٌ يَدْعُو اللهَ بِدَعْوَةٍ إِلَّا آتَاهُ اللهُ إِيَّاهَا أَوْ صَرَفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا»().
”روئے زمین پر موجود جو بھی مسلمان دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مطلوبہ چیز اسےعطا کردیتے ہیں یا اسی جیسی کسی مصیبت کو اس سے دور کردیتے ہیں۔“
اور علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ ہر خیر کی بنیاد یہ ہے کہ تم جا ن لو کہ اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا ہے وہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے، اور اس بات پر یقین رکھو کہ نیکیوں کی توفیق اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے، اس لیے اس پر شکر ادا کیا کرو اور اللہ سے رو رو کر دعا کرو کہ وہ تم سے اس کی توفیق کو نہ چھینے۔ اور بدعملی اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تم سے ناراض ہے اور وہ تمہیں سزا دے رہا ہے، اس لیے گڑگڑا کر دعا کرو کہ وہ تم سے را ضی ہوجائے اور معصیت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کردے اور نیکی کے کرنے میں اور برائی کو چھوڑنے میں وہ تمہیں تمہارے نفس کے حوالے نہ کر دے۔ اور اللہ کی معرفت حاصل کرنے والوں کا اس پر اتفاق ہے کہ بندے کو خیر کی توفیق صرف اللہ کی طرف سے ملتی ہے، اور شر کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے چھوڑ رکھا ہے۔ اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ خیر کی توفیق یہ ہے کہ اللہ تمہیں تمہارے نفس کے حوالے نہ کرے، اور ناراضگی اور ترکِ تعلق یہ ہے کہ وہ تمہیں تمہارے نفس کے حوالے کردے۔ اور جب ہر خیر کی بنیاد توفیق ہے اور توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے، بندے کے ہاتھ میں نہیں، پس اس کی کنجی دعا اور اللہ کی طرف رجوع کرنا، اس کے سامنے اپنی محتاجی کا اظہار کرنا اور رغبت وخشیت کے ساتھ اسے پکارنا ہے۔ تو جب اللہ نے اپنے بندے کے حوالے یہ کنجی کر دی تو گویا اس نے چاہ لیا ہے کہ اس کے لیے خیر کا دروازہ کھل جائے، اور جب یہ کنجی اس کے ہاتھ نہ لگے تو گویا اس کے لیے خیر کا دروازہ بند ہے()۔
خیر اور بھلائی کی دعا
انسان بڑا ہی جلد باز اور انجام سے ناواقف ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ غصے اور گھبراہٹ کی حالت میں خود اپنے لیے یا اپنی اولاد اور مال وجائیداد کے لیے بددعا کر گزرتا ہے، اور جب غصہ اُتر جاتا ہے اور نارمل حالت میں آجاتا ہے تو پھر اپنے کیے پر پچھتاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَيَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاۗءَہٗ بِالْخَيْرِ۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا۱۱﴾
[سورۃ الاسراء:۱۱]
”اور انسان برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے بالکل اس کی اپنی بھلائی کی دعا طرح، اور انسان بڑا ہی جلد باز ہے۔“
اس آیت کی کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ انسانوں کی جلد بازی کو بیان کررہے ہیں کہ وہ اس کی وجہ سے کبھی اپنے لیے، اپنی اولاد کے لیے یا اپنے مال کے لیے برائی کی دعا کر گزرتا ہے، مثلاً موت وہلاکت، تباہی وبربادی کی دعا کرتاہے یا لعنت بھیج دیتا ہے، تو اگر اس کی دعا قبول ہوجائے تو وہ خود ان چیزوں کی تباہی کا ذریعہ ہوگا۔
چنانچہ ایک دوسری آیت میں ہے کہ:
﴿ وَلَوْ يُعَجِّلُ اللہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَھُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ اِلَيْہِمْ اَجَلُھُمْ۰ۭ فَنَذَرُ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا فِيْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَہُوْنَ۱۱ ﴾
[سورۃ یونس:۱۱]
”اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے مطالبے کے مطابق جلدی سے نقصان واقع کر دیتا جیسے کہ وہ فائدے کے لیے جلدی مچاتے ہیں تو ان کی موت کبھی پوری ہوچکی ہوتی، سو ہم ان لوگوں کو جن کو ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں ہے ان کے حال پر چھوڑے رکھتے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔“
یہ اللہ کا بڑا رحم وکرم ہےکہ غصے اور گھبراہٹ کی حالت میں کی گئی برائی کی دعا کو اس طرح سے قبول نہیں کرتا ہے جیسے کہ نیکی اور بھلائی کی دعا کو قبول کرلیتا ہے، اس لیے انسان کو اپنے لیے یا اپنی اولاد یا جانور یا دوسرے اموال کے لیے تباہی وبربادی یا عذاب کی دعا نہیں کرنی چاہیے اور نہ ان پر لعنت کرنی چاہیے۔
او رنیکی وبھلائی کے کاموں کے لیے خوب خوب دعا کرنی چاہیے اور مسلسل کرنی چاہیے، اور کسی طرح سے گھبراہٹ اور جلد بازی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دیر سویر دعا قبول کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«لَا يَزَالُ يُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ مَا لَـمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ، مَا لَـمْ يَسْتَعْجِلْ»، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَا الِاسْتِعْجَالُ؟ قَالَ: يَقُولُ: «قَدْ دَعَوْتُ وَقَدْ دَعَوْتُ، فَلَمْ أَرَ يَسْتَجِيبُ لِـيْ، فَيَسْتَحْسِرُ عِنْدَ ذَلِكَ وَيَدَعُ الدُّعَاءَ»().
”اللہ تعالیٰ بندے کی دعا قبول کرتے رہتے ہیں بشرطیکہ وہ گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور جلد بازی نہ کرے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ جلد بازی کیا ہے؟ فرمایا کہ بندہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی، بار بار دعا کی، لیکن کچھ نہیں ہوا، میرا خیال ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوگی۔ اور یہ سوچ کر تھک جائے اور دعا کرنا چھوڑ دے۔“
گزشتہ زمانے کے واقعات
محمد سلامہ جبر نے اپنی کتاب «لا یرد القضاء إلّا الدعاء» (دعا کے ذریعے تقدیر بدل سکتی ہے) میں قبولیتِ دعا کے متعلق گزشہ اور موجودہ زمانے کے بہت سے واقعات نقل کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شہاب الدین محمد الأبشیھی نے «المستطرف» میں لکھا ہے:
صقلیہ کے بادشاہ کو ایک رات نیند نہیں آرہی تھی، وہ بستر پر کروٹ بدلتے رہے، لیکن نیند کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ انہوں نے سمندری فوج کے سپہ سالار کو پیغام بھیجا کہ ابھی ایک کشتی افریقہ کی طرف روانہ کرو اور وہاں کے بارے میں اطلاع دو۔ اس سپہ سالار نے اپنے ماتحت تک اس پیغام کو پہنچا دیا، لیکن صبح میں دیکھا تو کشتی اپنی جگہ پر تھی، اس نے اس کے بارے میں باز پرس کی تو اس نے ایک عجیب وغریب قصہ بیان کیا جسے سننے کے بعد سپہ سالار نے کہا کہ تم بادشاہ سلامت کے پاس چلو اور ان سے یہ قصہ بیان کرو، اس نے وہاں جاکر کہا:
حکم کے مطابق میں کشتی لے کر روانہ ہوگیا اور آدھی رات کے وقت جب ہر طرف سناٹا تھا اور لوگ نیند کی آغوش میں تھے ایک آواز آئی: یا اللہ! یا اللہ! یا غیاث المستغیثین! اور بار بار یہ آواز آتی رہی۔ ہم آواز کی سمت میں روانہ ہوئے اور قریب پہنچ کر کہا: اللہ کے بندے! ہم یہاں موجود ہیں، ہم نے دیکھا کہ ایک شخص سمندر میں ڈوب رہا ہے اور زندگی کے بالکل آخری مرحلے میں ہے، ہم نے اسے بچایا اور پھر اس کا قصہ پوچھا۔ اس نے کہا: ایک کشتی میں سوار ہوکر ہم لوگ افریقہ سے چلے، راستے میں ہماری کشتی ڈوب گئی اور اس میں موجود تمام لوگ غرق ہوگئے، صرف میں بچ گیا اور اللہ سے فریاد کرنے لگا، یہاں تک کہ اس نے تمہیں بھیج دیا اور میں ڈوبنے سےبچ گیا۔
الأبشیھی کہتے ہیں : سبحان اللہ! تمام حمد وشکر اس ذات کے لیے ہے جس نے بادشاہ کی نیند اُڑا دی تاکہ اس کے ذریعے سمندر میں ڈوبنے والے کو بچایا جاسکے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ومہربانی سے ہلاکت کی تاریکیوں سے اسے نجات دی۔
اور شیخ علی الطنطاوی کہتے ہیں:
ہماری عادت تھی کہ صلاۃِ تراویح کے بعد علماء اور ادباء کی ایک جماعت کے ساتھ سحری تک جاگتے رہتے تھے، ایک رات مجھے سخت گھبراہٹ کا احساس ہوا اور دوستوں کی علمی وادبی محفل کو چھوڑ کر گھر واپس آگیا، حالانکہ وہ اصرار کے ساتھ مجھے روکنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن میرا دل وہاں رکنے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔ اس گھبراہٹ اور بے چینی کی کوئی وجہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہی تھی، اس لیے اللہ پر بھروسہ کرکے میں گھر سے باہر نکل گیا، ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ ایک نوجوان عورت کو روتے ہوئے پایا جس کے پاس ایک شیرخوار بچہ تھا، میں رُک گیا اور اس کی حالت دریافت کی، اس نے اپنے شوہر کی سنگ دلی اور بدسلوکی کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس درجہ پتھر دل ہے کہ آدھی رات کو اس دودھ پیتے بچے کے ساتھ مجھے گھر سے باہر نکال دیا ہے۔ میں نے اس سے کہا: صبح میں قاضی کے پاس جاؤ، إن شاء اللہ وہ تمہیں انصاف دلائے گا۔ اس نے کہا: مجھ جیسی غریب اور مسکین عورت کی رسائی قاضی تک کیسے ہوسکتی ہے؟ کیسے میری آواز وہاں تک پہنچی گی؟ میں نے اس سے کہا: میری بہن! میں قاضی ہوں اور اس کاغذ کو لے کر کل میرے پاس آجانا۔ شیخ طنطاوی اس وقت دمشق کے قاضی تھے اور اپنے عدل وانصاف اور حکمت کے ساتھ میاں بیوی کے مسائل کو حل کرنے میں مشہور تھے۔
اِن دونوں قصوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ ایک بندے کی فریاد اور چیخ وپکار نے سلطانِ صقلیہ اور قاضیِ دمشق دونوں کو مجبور کردیا کہ وہ اس کی مدد کو پہنچیں، کیونکہ دونوں کے دل اس رحمٰن وکریم کی مٹھی میں تھے جس سے مدد طلب کی جا رہی تھی۔
اور اس نے فرمایا ہے:
﴿اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۶۲ۭ ﴾ [سورۃ النمل:۶۲]
”بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے کون قبول کرکے سختی کو دور کردیتا ہے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو۔“
حرفِ آخر
یہ ایک کم علم کی کوشش ہے، جو نقص وخلل اور غلطی سے خالی نہیں ہے، جیسا کہ عماد اصفہانی نے لکھا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ انسان ایک دن کوئی مضمون لکھتا ہے اور دوسرے دن کہتا ہے اگر اس میں کچھ تبدیلی کردی جائے تو اچھا ہوتا، کچھ اضافہ کردیا جائے تو بہتر ہوگا، اگر اسے حذف کردیا جائے تو زیادہ خوبصورت لگے لگا۔ اس میں بڑی عبرت ونصیحت ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کی کوئی کوشش نقص سے خالی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری کوشش کو شرفِ قبولیت بخشے اور ہمیں اس کے اجر وثواب سے محروم نہ کرے اور یہ واقعات صرف وقت گزاری کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ لوگ ان سے عبرت ونصیحت حاصل کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۰ۭ مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ يُّؤمِنُوْنَ۱۱۱ۧ ﴾ [سورۃ یوسف:۱۱۱]
”ان کے قصوں میں عقل والوں کے لیے یقیناً نصیحت اور عبرت ہے، یہ قرآن کوئی گھڑا ہوا کلام نہیں ہے، بلکہ یہ تصدیق ہے ان کتابوں کا جو اس سے پہلے کی ہیں، اور کھول کھول کر بیان کرنے والا ہر چیز کو، اور ہدایت ورحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔“
اور اسی کے ساتھ وہ غور وفکر کا ذریعہ بنیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
﴿فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ۱۷۶ ﴾ [سورۃ الأعراف: ۱۷۶]
”یہ قصے بیان کیجیے، تاکہ وہ غور وفکر کریں۔“
اور اس کتاب کے پڑھنے والے سے گزارش ہے کہ وہ ہمیں اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔
مراجع ومصادر
- فقه الأدعیة والأذکار: عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر.
- رياض الصالحين: أبو زكريا محي الدين يحي النووي.
- بهجة الناظرين شرح رياض الصالحين: سليم بن عيد الهلالي.
- لا یرد القضاء إلّا الدعاء: محمد سلامة جبر.
- لا تحزن: عائض القرني.