(10)

 

زکات: تقسیم دولت کا عادلانہ نظام

 ولی اللہ مجید قاسمی

ہمیشہ سے یہ ہوتا چلا آرہا ہے کہ صاحب اقتدار، حکمراں اور غالب طبقہ مختلف عنوانوں اور حیلے اور بہانوں سے رعایا سے مال وصول کرتا رہاہے ، لیکن اس کا بہت ہی کم حصہ ناداروں کے کام آتا ہے اور زیادہ تر حصہ ان کی عیاشیوں کے نذر ہوجاتاہے ، مال کو جمع کرنا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے، دشوار تر اور اس کے ساتھ ہی اہمیت کا حامل ہے مال کو اس کے حقداروں تک پہنچانا، شاید اسی حقیقت کی طرف توجہ دلانے کے لئے قرآن میں زکات کی ادائیگی کے حکم کے ساتھ مال زکات ، نصاب اور مقدار اور ادائیگی کے وقت جیسی اہم تفصیلات ذکر نہیں کی گئی ہیں، لیکن زکات کہاں خرچ کی جائیگی؟ اسے تفصیل سے بیان کیاگیاہے، ارشادربانی ہے:

انما الصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیھا والمؤلفۃ قلوبھم و فی الرقاب و الغارمین و فی سبیل اللہ وابن السبیل فریضۃ من اللہ واللہ علیم حکیم(التوبہ:60)

زکات تو ان لوگوں کے لئے ہے جو فقیرو مسکین ہوں، اس کی وصولی پر مامور ہویا ان کی دل جوئی مقصود ہویا کسی غلام کو آزاد کرناہویا وہ قرض دار ہو یا اللہ کے راستہ میں جہاد کررہا ہو یا حالت سفرمیں ہو ۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر اور متعین کیا ہوا فریضہ ہے اور اللہ بڑا علم اور بڑی حکمت والاہے۔

اورحدیث میں ہے کہ

اللہ کے رسول ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ صدقہ و خیرات میں سے مجھے کچھ دیجئے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے زکات کی تقسیم کسی نبی اور غیرنبی کی صواب دید پر نہیں چھوڑاہے بلکہ اس نے خود ہی حقدار وں کی آٹھ قسمیں بیان کردی ہیں، اگر تم ان میں شامل ہو تو میں تمیں ضرور دوں گا۔(ابوداؤد)

زکات کے ان مصارف پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس نظام کے ذریعہ معاشرہ کے دبے کچلے، غریب و بے کس اور بے سہارا افراد کو سہارا فراہم کرنا ہے، آفت زدہ اور مصیبت کے مارے اور معاشرہ کے کماؤ اور لائق افراد کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔

یہ نظام مسافروں اور بے ٹھکانوں کے لئے ایک پناہ گاہ فراہم کرتاہے، جو لوگ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں یا قید خانوں کے سلاخوں کے پیچھے ہیں انھیں آزادی اور رہاہی کی دولت سے ہم کنار کرنے کے لئے ایک مضبوط سہارا ہے، اسلامی عقائد وتعلیمات کے تحفظ کے لئے اپنے سر دھڑ کی بازی لگانے والوں کے لئے یہ امید کا ایک روشن چراغ ہے، اسی طرح سے وہ غریب اور نادار نومسلم جن کے متعلق اندیشہ ہو کہ مالی تعاون نہ ملنے کی صورت میں معاشی پریشانی کی وجہ سے اسلام کو خیرباد کہہ دیں گے، ایسے لوگوں کے دین کی حفاظت کی ضمانت بھی اس نظام میں موجود ہے۔

غرض یہ کہ یہ نظام ہر طرح کے ضرورت مندوں کو ان کی ضرورت کی تکمیل کے لئے پہلی اور آخری امیدگاہ ہے، یہ ایک طرح سے انشورنس ہے جو مغربی نظام انشورنس سے کہیں اچھا اور بہترہے، کیوں کہ مغربی نظام انشورنس میں صرف اسی شخص کی مدد کیجاتی ہے جس نے بیمہ کمپنی کو اس کی طرف سے مقرر کردہ قسط کی ادائیگی کی ہو ، نیز ضرورت کی تکمیل نہیں کی جاتی بلکہ جمع کردہ رقم کے اعتبار سے تعاون کیاجاتاہے، اس کے برخلاف اسلامی نظام میں پہلے سے کچھ ادا کرنے کی شرط نہیں ہے ، نیز ضرورت مند کو اس کی ضرورت کے بقدردیاجاتاہے تاکہ وہ آفت و مصیبت کے بھنور سے چھٹکارا پاسکے۔

غربت کا خاتمہ

زکات کے حقداروں کی فہرست میں سب سے پہلے فقیر اور مسکین کا تذکرہ کیاگیاہے، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ زکات کا سب سے اہم مقصد مسلم معاشرہ سے غربت کا خاتمہ ہے اور گداگری کی حوصلہ شکنی ہے،نوع انسانی کی محتاجی اور مسکینی کو دور کرنا ، غربت، مفلسی اور بدحالی کے دلدل سے نکالنا ہی زکات کا بنیادی مقصد ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض حدیثوں میں زکات کے حقداروں میں صرف فقیر کا تذکرہ کیاگیاہے، چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن روانہ کرتے ہوئے فرمایا:

اعلمہم ان علیھم صدقۃ توخذ من اغنیاء ھم و ترد علی فقراء ھم(صحیح بخاری )

انھیں بتلاؤ کہ ان پر زکات فرض ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائیگی اور ان کے فقیروں میں تقسیم کردی جائیگی

اللہ تعالیٰ نے مالداروں پہ زکات کی اتنی مقدار فرض کی ہے کہ یقینی طور پر اس کی ادائیگی کے بعد مسلم معاشرہ میں کوئی نادار اور محتاج باقی نہیں رہے گا، اگر مسلمانوں میں فقروغربت بڑھتی جارہی ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ زکات ادا نہیں کی جارہی ہے یا اداکی جارہی ہے توصحیح طریقہ سے اس کی تقسیم عمل میں نہیں آرہی ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشادہے:

’’ان اللہ فرض علی الاغنیاء فی اموالھم بقدر ما یکفی فقراء ھم وان جاعوا و عروا و جھدوا فمنع الاغنیاء وحق علی اللہ ان یحاسبھم یوم القیامۃ و یعذبھم‘‘(کنزل العمال ج3ص300)

اللہ تعالیٰ نے مالداروں پر زکات کی اتنی مقدار فرض کی ہے کہ فقیروں کی ضرورت کے لئے کافی ہوجائے،اگریہ بھوکے، بے لباس اورپریشان رہیں تویہ اہل ثروت کے زکات ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہوگا اور اللہ کو حق ہے کہ قیامت کے دن ان سے بازپرس کرے اور انھیں سزادے۔

حضرت معاذ بن جبلؓ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں یمن سے ایک بڑی رقم مدینہ روانہ کرتے تھے ، حضرت عمرؓ ان سے باز پرس کرتے ہیں کہ میں نے تمہیں وہاں ٹیکس وصول کرکے دارالحکومت کا خزانہ بھرنے کے لئے نہیں بھیجا ہے، جواب ملتاہے کہ یہ زکات کی رقم ہے جسے یہاں لینے والا کوئی نہیں ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے عہد خلافت میں انھیں مختلف گورنروں کی طرف سے پیغام ملتاہے کہ ہمارے یہاں زکات کا لینے والا کوئی نہیں ہے، اس رقم کا کیا کیاجائے۔

لیکن آج صورت حال اس کے برعکس ہے ، اربوں اور کھربوں زکات کی ادائیگی کے باوجود غربت میں بے تحاشا اضافہ ہوتاچلا جارہاہے ، زکات کی یہ رقم غربت کے خاتمہ کے بجائے اضافہ کا ذریعہ بن رہی ہے اور گداگروں کی جماعت کو پروان چڑھا رہی ہے، اس لئے موجودہ صورت حال ہمیں غوروفکر کی دعوت دے رہی ہے اور زکات کی تقسیم میں اجتماعیت اور منصوبہ بندی کی طرف متوجہ کررہی ہے ، اللہ کرے کہ اس کے نتیجے میں وہ سنہرا دور پھر لوٹ آئے جہاں کوئی نادار اور محتاج باقی نہ رہے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ زکات کو محض وقتی امداد نہ سمجھاجائے بلکہ اسے فقرو غربت کے خاتمہ کا ایک علاج قرار دیاجائے اور لوگوں کو زندگی بھرفقیر رکھنے کے بجائیمالدار بنانے کی کوشش کی جائے۔

رزق میں فرق مراتب ایک فطری چیز ہے، اس کو مٹایانہیں جاسکتاہے، البتہ معیار زندگی میں جو نمایاں تفاوت ہے اسے کم کیاجاسکتاہے، ایک شخص عیاشی میں دولت پانی کی طرح بہارہاہے اور دوسرا نان شبینہ سے محروم ہے، اس کے گھر کا چولہا سرد ہے ، لیکن دل میں محرومی اور کمتری کی آگ سلگ رہی ہے اور یہ آگ کبھی عیش کدوں کو جلا بھی سکتی ہے، اسلام نظامِ زکات کے ذریعہ اس نمایاں فرق کو کم کرنا چاہتاہے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہواہے۔

اسلام میں خاندانی فقیروں کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ وہ گداگری کے دروازے کو بند کرتا ہے، مانگنے اور لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی حوصلہ شکنی کرتاہے، لیکن اس کے لئے صرف وعظ و نصیحت کا فی نہیں ہے بلکہ عملی اقدام کی ضرورت ہے ، جن لوگوں میں کام کرنے کی صلاحیت ہے، ان کو وقتی امداد دے کر ٹالنا کافی نہیں ہے بلکہ روز گار مہیا کرنے کی ضرورت ہے، مشہور حدیث ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس ایک شخص سائل بن کرآیا تو آپ نے اس کے گھریلو سامان کو منگاکر اسے فروخت کردیا اور ان پیسوں سے کلہاڑی خریدکر اسے دیا اور کہاکہ جاؤ لکڑی کاٹو اور فروخت کرو۔

اور جو لوگ کام کرنے سے معذور ہیں جیسے چھوٹے بچے، اپاہج ، مریض وغیرہ ان کے گذربسر کا معقول انتظام کیاجائے۔

ادائیگی کا اجتماعی نظم

پانی کے چندقطروں کو کسی برتن میں جمع کرکے زمین کے کسی حصہ پر ڈال دیاجائے تو اس میں زندگی آسکتی ہے، لیکن اگر یہی چند قطرے مختلف جگہوں پر بکھیر دئے جائیں تو زمین پہلے کی طرح سوکھی اور بنجر رہ جائے گی۔

بالکل یہی صورت آج زکات کی ادائیگی کی ہے کہ چند روپئے مختلف محتاجوں میں بانٹ دئے جاتے ہیں جن سے وہ کسی بھی طور پر زندگی کے معیار کو بلند نہیں کرسکتے اور نتیجہ یہ نکلتاہے کہ وہ پوری عمر محتاجی کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں،لیکن اگر یہی مال جمع کرکے پروگرام اورپلان کے تحت چندایسے لوگوں کو دیاجائے جو زندگی کی دوڑمیںآگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن وسائل سے محروم ہیں، چند سالوں میں حیرت انگیز نتیجے کا مشاہدہ کیاجائے گا اور زکات لینے والے زکات دینے والے بن جائیں گے۔

واقعہ ہے کہ نماز کی طرح زکات بھی ایک اجتماعی عبادت ہے اور جس طرح سے اجتماعیت کی روح برقرار رکھنے کے لئے ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دیاگیاہے اور متعدد صحابہ کرام نے عملی طور پر حجاج جیسے حکمرانوں کی اقتداء میں نماز پڑھی ہے ، اسی طرح سے انھوں نے ہر حال میں حاکم وقت کو زکات ادا کرنے کی کوشش کی ہے ، بعض صحابہ کرام سے پوچھا گیا کہ کیا ہم ان حکمرانوں کو زکات ادا کریں جو اس رقم کو عیاشی اور شراب نوشی میں خرچ کردیتے ہیں تو انھوں نے فرمایا:اَدوا الیھم وان شربوا الخمر(رواہ البیہقی وقال النووی صحیح المجموع ج6ص162)

اور زکات کا یہ اجتماعی نظم خلافت عباسیہ کے آخری دور تک برقرار رہا، یہاں تک کہ ایسے حکمرانوں کا دور آیا جو بالکل ہی شرعی نظام کے پابند نہیں رہے اور بقول سید ابوالحسن علی ندوی ’’اور جن کو اخلاقی ضابطوں ، اجتماعی خصائص اور مالی سیاست میں خلافت نبوت کا وارث کہنا مشکل ہے، اس کے نتیجے میں تمام اسلامی ملکوں میں سخت انتشار برپا ہوا، مسلمان شریعت اسلامی کی برکتوں سے محروم ہوگئے اور اس کی سزا ہے کہ آج ان کو ظالمانہ سرمایہ داری ، پرفریب سوشلزم اور انتہا پسند انہ اور غیرمتوازن کمیونزم کا مزا چکھنا پڑرہاہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

’’ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون (السجدہ:21)

اور ہم نے انھیں قریب کا عذاب بھی علاوہ اس بڑے عذاب کے چکھاکررہیں گے شاید کہ یہ لوگ باز آجائیں۔(ارکان اربعہ:200)

انتشار اور باہم جنگ و جدال کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان اجتماعیت کی روح سے محروم ہوگئے، خلافت و امارت کا تصور دھندلا گیا، حالانکہ مسلمان ایسے شہروں اور ملکوں میں بھی اجتماعیت برقرار رکھنے کے مکلف ہیں جہاں انھیں اقتدار حاصل نہ ہو، اس میں کوتاہی اور سہل انگاری و لاپرواہی انھیں گناہ میں مبتلا کرسکتی ہے، چنانچہ علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں کہ ایسے علاقوں میں جہاں کافروں کا غلبہ ہوگیا ہو جیسے قرطبہ وغیرہ وہاں کے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے میں سے کسی کی امارت پر متفق ہوجائیں۔

(فتح القدیرج6ص265)

ہندوستان کے پس منظر میں اس طرح کے مسائل کے لئے کسی ایک امیر پر اتفاق مشکل نظرآتاہے، اس لئے یہاں کی بڑی جماعتوں اور اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے حلقہ اثر میں ایک امیر کا انتخاب کریں اور اس کی ماتحتی میں زکات کی وصولی کا نظم قائم کریں، چنانچہ مفتی کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں:

زکات وغیرہ فرائض مالیہ کا وجوب جن حکم شرعیہ اور مصالح بشریہ پر مبنی ہے ان کا تقاضا ہے کہ ادائے زکات وعشر اور مستحقین پر ان کی تقسیم میں تنظیم کا کامل لحاظ رکھاجائے اور ظاہر ہے کہ انفرادی تصرفات میں تنظیم مفقود ہوتی ہے ، اس غلامی کے دورمیں جو تفرق اور تشتت کا دور ہے امکانی صورت یہی نظرآتی ہے کہ اہل حل و عقد کی کوئی جماعت اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔(کفایت المفتی ج4 ص269)

ہندوستان جیسے ممالک کے مدارس اسلامیہ چھوٹے پیمانہ پر زکات کا اجتماعی نظم ایک طرح سے قائم کئے ہوئے ہیں اور غربت کو مٹانے اور تعلیم کو بڑھانے میں گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی اکائیوں کو ایک یونٹ میں تبدیل کردیاجائے اور مثلاًدارالعلوم دیوبند جیسے ادارے دیوبندی مدارس کی زکات کی وصولی کا ایک اجتماعی نظام بنالیں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ناظم بننے کی خواہش کی بنیاد پر بلاضرورت جو نئے نئے مدرسے وجودمیں آرہے ہیں ان میں کمی آئے گی اور ’’چندہ‘‘ کو ’’دھندہ‘‘ بنالینے کے رواج پر پابندی لگے گی اور جائز و صحیح چندہ وصول کرنے والوں کی جو بے آبرو ئی ہوتی ہے اس پر بند لگ سکے گا۔

علاوہ ازیں انفرادی طور پر زکات دینے میں اس کا امکان رہتاہے کہ احسان جتلاکر ، محتاجوں کو طعنہ دے کر یا کم از کم یہ خواہش رکھ کر جس کو اس نے زکات دی ہے وہ اس کے سامنے سراٹھا کر نہ رہے، اپنا اجر ضائع کردیتاہے ، بیت المال میں زکات کی ادائیگی ان محرومیوں سے حفاظت کا ذریعہ ہے، دوسرے یہ کہ افراد کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی وجہ سے ہونے والی بے وقاری اور بے آبروئی سے بچاتاہے۔

ان جیسے اداروں کو طالب علموں پر خرچ کرنے کے ساتھ سماج کے ناداروں ، محتاجوں ، یتیموں اور بیماروں کی بھی خبر گیری کرنی ہوگی کہ محض ایک طرف کی توجہ سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے حق سے محروم رہ جاتاہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے