تعلیم نسواں ایک ناگزیر ضرورت

 

مولانا ولی اللہ مجید قاسمی

 

کس کے وہم و گمان میں تھا کہ عرب کے تپتے ہوئے صحرا میں ایک اَن پڑھ کی زبان سے ’’وحی الٰہی ‘‘کی سب سے پہلی آواز جو سنائی دے گی وہ پڑھنے سے متعلق ہوگی، حالات کا تقاضا تھا کہ اس پراگندہ اور جھگڑالو قوم کو سب سے پہلے اتحاد و اتفاق کی دعوت دی جاتی، مل جل کر رہنے کا سلیقہ سکھایا جاتا یا اس ریگ زار کو سیراب کرنے کا طریقہ بتلایا جاتا، تجارت کے گر سکھائے جاتے، معیشت کے راز بتائے جاتے، مال و دولت حاصل کرنے کے راستے دکھائے جاتے، سیاسی بالادستی اور قومی حکومت قائم کرنے کی بات کی جاتی۔

مگر یہ سب کچھ نہیں ہوا بلکہ اس کے برخلاف سب سے پہلی جو وحی نازل ہوئی اس میں کہاگیا:

’’پڑھو اپنے رب کے نام سے، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، جو سب کا خالق ہے، پڑھ، تیر ا رب بڑا کریم ہے، جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم عطا کیا ‘‘

اس سے اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ تمام مسائل کاحل ’’ربانی تعلیم‘‘ سے وابستہ ہے، اس لیے کہ ناواقفوں اور جاہلوں کا اتحاد و اتفاق ’’فتنۂ چنگیزی ‘‘ کو جنم دیتا ہے اور علم ربانی سے ناآشنا معیشت و تجارت اور بالادستی و سیاست ’’جنگ عظیم ‘‘ کی آگ بھڑکاتی ہے اور سائنس و ٹکنالوجی کے ذریعہ ایٹم بم اور دیگر انسانیت کش ہتھیار ایجاد کرتی ہے۔

نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر علم ’’دینی علم ‘‘ ہے بشرطیکہ وہ رب کے نام سے وابستہ ہو اور اس کا مقصد اللہ کی رضا جوئی ہو اور اس علم کے حصول میں مردو عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے،بلکہ ہر ایک کے لیے یکساں طور پر مذہبی فریضہ ہے اور عبادت کا درجہ رکھتا ہے، اور علم کی اہمیت و فضیلت سے متعلق آیات وروایات کا مصداق مرد و عورت دونوں ہیں، کیونکہ ہرایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کی رضامندی اور ناراضگی کے اسباب کو جانے، حلال وحرام کا علم رکھے اور تمام اسلامی عقائد و اقدار سے واقف ہو، یہی وجہ ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں سے بھی قبول اسلام کے وقت بعض چیزوں کا عہد لیا جاتا تھا، جس میں ایک مطالبہ یہ بھی کیاجاتا تھا کہ وہ ’’معروف چیزوں‘‘ میں رسولؐ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔(سورہ الممتحنہ:12) یہ ایک جملہ تمام اسلامی تعلیمات کو سمیٹے ہوئے ہے اور ظاہر ہے کہ اس مطالبہ کی تکمیل کے لیے ’’معروف ‘‘ کا علم ضروری ہے۔

 

عورتوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ:

 

ماں کی گود وہ پہلی درس گا ہ ہے جہاں ’’اسلامی شخصیت‘‘ کی تعمیر ہوتی ہے اور اسلام کے صحیح نمائندے تیار ہوتے ہیں، اس لیے عمومی اہمیت و فضیلت کے ساتھ عورتوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، کیونکہ ’’امامت صالحہ‘‘ کا قیام ’’امومت صالحہ ‘‘ کے بغیر ممکن نہیں ہے، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

"مَنْ عَالَ ثَلَاثَ بَنَاتٍ فَأَدَّبَهُنَّ وَزَوَّجَهُنَّ وَأَحْسَنَ اِلَیْهِنَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ”(ابو داؤد 107/2.کتاب الادب ۔ باب فضل من عال یتامی)

’’جوشخص تین لڑکیوں کی پرورش کرے،انہیں علم و ادب کے زیور سے آراستہ کرے، ان کا نکاح کردے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو اس کے لیے جنت کی بشارت ہے ‘‘۔

ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:

"من کانت له ابنة فأدّبها وعلّمها فأحسن تعلیمها وأوسع علیها من نعم الله التی أسبغ علیه کانت له منعةً وسترةً من النار”.(معجم کبیر: 10447)

’’جس کی کوئی ایک لڑکی ہو اور وہ اس کی بہتر تعلیم و تربیت کرے اور اللہ نے جن نعمتوں سے اسے نوازا ہے اسے ان پر خوب خرچ کرے تو وہ اس کے لیے دوزخ سے حفاظت کا ذریعہ اور پر دہ بن جائے گی ‘‘۔

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ:

"ثلاث لهم أجران: رجل کانت عنده أمة فأدّبها فأحسن تأدیبها وعلّمها فأحسن تعلیمها ثم أعتقها فتزوّجها…”(صحیح بخاری ۔کتاب العلم۔ باب تعلیم الرجل امتہ و اہلہ.32/1)

’’تین آدمیوں کے لیے دوہرا اجر ہے، ان میں سے ایک شخص وہ ہے جس کے پاس باندی ہو اور وہ اسے علم وادب سے اچھی طرح آراستہ کرکے اسے آزاد کر دے اور پھر اس سے شادی کر لے ‘‘۔

جب باندی کو علم وادب کے زیور سے آراستہ کرنے کی اس قدر اہمیت ہے تو پھر آزاد عورتوں کی تعلیم وتربیت کی کس درجہ وقعت ہوگی؟ چنانچہ اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: ’’ اللہ کی طرف سے فرض کردہ چیزوں اور رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کی تعلیم کے لیے آزاد عورتوں کی خاطر بند و بست کرنا باندیوں کی تعلیم سے زیادہ اہم ہے ‘‘۔(فتح الباری 509/1)

حضرت مالک بن حویرث چند نوجوانوں کے ساتھ حضور ﷺ کی خدمت میں دین سیکھنے کے لیے حاضر ہوئے اور جب ان لوگوں نے گھر واپس آنا چاہا تو آ پ ﷺنے فرمایا:

"ارجعوا إلی أهلیکم فأقیموا فیهم وعلّموهم ومروهم”(صحیح بخاری. کتاب الاذان .باب الاذان للمسافر155/1)

’’گھروالوں میں واپس جاؤ،ان کے ساتھ رہو، انہیں علم سکھاؤ اور شرعی احکام کا پابند بناؤ ‘‘۔

سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں عقائد اور اصول دین سے متعلق ہیں، نبی کریم ﷺ نے ان کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"إن الله ختم سورة البقرة بآیتین أعطیتها من کنزه الذی تحت العرش فتعلموهن وعلّموا نساءکم”(سنن دارمی، کتاب فضائل القران ،باب فضل اول سورۃ البقرۃ)

’’اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کو ایسی دو آیتوں کے ذریعہ ختم فرمایا ہے جو مجھے اس خزانے سے دی گئی ہیں جو عرش کے نیچے ہیں، اس لیے انہیں خود بھی سیکھو اور اپنی عورتوں کو بھی سکھلاؤ‘‘۔

عام حالات میں عورتوں کے لیے گھروں سے نکلنا پسندیدہ نہیں ہے نیز اس بات کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے کہ عورتیں ایسی جگہ جائیں جہاں مردوں کے ساتھ اختلاط ہو اور اسی کے پیش نظر عورتوں کے لیے گھر میں نماز پڑھنے کو بہتر قرار دیاگیا ہے، لیکن حصول علم کے لیے ایک حد تک اسے بھی گوارا کرلیا گیا ہے اور عیدین کے موقع پر عورتوں کو عیدگاہ تک آنے کاحکم دیا گیا ہے تاکہ وہ بھی آپ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکیں۔

 

خصوصی بندوبست:

 

اللہ کے رسول ﷺ کے عہد مبارک میں عورتیں جمعہ اور عیدین کے خطبوں میں شریک ہوکر، آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر،براہ راست سوال کرکے،اور ازواج مطہرات کے ذریعہ اپنی علمی پیاس بجھانے کاسامان کیا کرتی تھیں لیکن اسلام نے ان کے اندر علم کی جو لگن پیدا کردی تھی ان عام ذرائع سے اس کی تکمیل نہیں ہورہی تھی، اس لیے انہوں نے بعض اوقات کو ان کے لیے مخصوص کرنے کی درخواست کی اور معلم انسانیت نے ان کی درخواست کی پذیرائی فرمائی، حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ:

’’عورتوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ آپ کے پاس اکثرمردوں کا ہجوم رہتا ہے (جس کی وجہ سے ہمیں آ پ سے کچھ دریافت کرنے میں دشواری ہوتی ہے)اس لیے آپ اپنی طرف سے ہمارے لیے ایک دن مخصوص کر دیجیے، چنانچہ ایک متعین دن آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں وعظ ونصیحت فرمائی اور نیک کاموں کاحکم دیا‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب العلم ،باب ھل یجعل للنساء یوما علاحدۃ فی العلم 1/34)

حضرت حذیفہؓ کی بہن کہتی ہیں کہ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’اے گروہ خواتین! تمہیں چاندی کے زیور سے دلچسپی کیوں نہیں ہے، سن لو، جو عورت بھی دکھلاوے کے لیے سونے کے زیورات پہنے گی اسے اس سونے کے ذریعہ عذاب دیاجائے گا ‘‘۔(مسند احمد بن حنبل 357/6)

عورتوں کی تعلیم وتربیت کاآپؐ اس درجہ خیال رکھتے کہ اگر عید وغیرہ کے موقع پر آپ کو اندازہ ہوتا کہ عورتوں تک آپ کی بات نہیں پہنچ پائی ہے تو ان کے قریب جاکر دوبارہ وعظ و نصیحت کرتے۔(صحیح بخاری. کتاب العلم. باب عظۃ الامام النساء و تعلیمھن 33/1)

اسی طرح کی ایک حدیث سننے کے بعد اس کے راوی ابن جریح نے اپنے استاذ حضرت عطاء سے پوچھا کہ عورتوں کو وعظ ونصیحت کرنا امام کے لیے ضروری ہے، انہوں نے جواب دیا:

"إنه لحق علیهم وما لهم لا یفعلونه”(صحیح بخاری .کتاب العیدین .باب موعظۃ الامام النساء یوم العید9/2)

’’بے شک ان کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے اور کیا وجہ ہے کہ وہ اس کی پابندی نہ کریں‘‘۔

اور شفا بنت عبداللہ کہتی ہیں کہ ایک دن میں حضرت حفصہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ اللہ کے رسولؐ تشریف لائے اور مجھے دیکھ کر فرمایا :

’’تم نے جس طرح سے حفصہ کو لکھنا سکھایا ہے اسی طرح سے ’’مرض نملہ‘‘ کی دعا بھی کیوں نہیں سکھادیتی ‘‘۔(سنن ابو داؤد۔ کتاب الطب۔ باب الرقی542/1)

 

تعلیمی انقلاب:

 

عورتوں کی تعلیم کے سلسلہ میں خصوصی توجہ اور پیہم کوشش نے عورتوں میں حصول علم کی لگن اور تڑپ پیداکر دی اور ایک ایسی تحریک برپا ہوئی جس نے سارے عرب کو ایک درس گاہ میں تبدیل کر دیا، ہر گھر تدریس کا مرکز بن گیا، اور ایک مختصر سی مدت میں ایسا انقلاب آیا کہ امی اور ان پڑھ کہا جانے والا معاشرہ آفتاب علم و ہدایت بن کر عالم کے افق پر چمکنے لگا، وہ عورت جو بدی کا محور اور جہالت کا سر چشمہ سمجھی جاتی تھی اور جس پر حصول علم کے دروازے بند تھے، و ہ علم و ادب کی محافظ اور نگہبان بن گئی، یہاں تک کہ لونڈی اور باندیوں کے مالکوں کو ترغیب دی گئی کہ انہیں بھی زیور علم سے آراستہ کیاجائے اور بعض عورتیں اس معاملہ میں مردوں سے بھی آگے بڑھ گئیں، چنانچہ حضرت عائشہؓ کے متعلق ان کے بھانجے اور شاگرد حضرت عروہؓ کہتے ہیں:

’’قرآن، فرائض، حلال وحرام،شعر، عرب کی تاریخ اور نسب کے سلسلہ میں میں نے ان سے زیادہ جانکار کسی کو نہیں دیکھا‘‘۔(تذکرۃ الحفاظ 27/1)

اور حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ ……کہاجاتا ہے کہ شریعت کا ایک چوتھائی حصہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے،(فتح الباری 82/7) اور حدیث کو بکثرت بیان کرنے والوں میں دوسرا نام انہیں کا ہے جن سے علامہ سخاوی کی تحقیق کے مطابق ۲۲۱۰حدیثیں نقل کی گئی ہیں، تفسیر میں بھی انہیں نمایاں مقام حاصل تھا اور اس سلسلہ میں انہوں نے بعض صحابہ پر علمی گرفت بھی فرمائی ہے، یہاں تک کہ علم طب میں بھی انہیں غیرمعمولی درک حاصل تھا ،(المستدرک للحاکم 11/4) ان کا گھر ایک مدرسہ بنا ہوا تھا، بہت سے مسائل میں صحابہ کرام ان کی طرف رجوع کرتے اور وہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر ان کے سوالات کا تشفی بخش جواب دیتیں، ان کے شاگردوں میں ان کے بھتیجے قاسم بن محمد، بھانجے عروہ اور عمرۃ بنت عبدالرحمن سرفہرست ہیں۔

حضرت ام سلمہؓ کانام بھی علمی میدان میں بڑا نمایاں ہے، ان کے یہاں بھی قرآن، فن قرأت اور حدیث کی تعلیم دی جاتی تھی، فن قرأت میں اہل مدینہ کے امام شیبہ بن نصاح ہیں، یہ ان کے غلام تھے اور ان کی پوری تعلیم و تربیت انہیں کے ذریعہ ہوئی، اسی طرح سے فن قرأت کے دوسرے بڑ ے امام حضرت نافع بھی اس فن میں ان کے شاگرد ہیں، ان کی بیٹی حضرت زینب اور باندی حضرت خیرہ نے بھی ان سے خصوصی استفادہ کیا۔

یہی حال دیگر ازواج مطہرات کا بھی ہے کہ انہوں نے شمع نبوت سے روشنی حاصل کرکے اس کی اشاعت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا، چنانچہ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:

’’صحابہ کرام میں جب کسی مسئلے میں اختلاف ہوتا اور امہات المومنین میں سے کوئی اللہ کے رسولؐ کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کردیتیں تو وہ اسے فوراً قبو ل کرلیتے اور اپنے تمام اختلافات کوختم کرکے اس کی طرف رجوع کرتے ‘‘۔(زاد المعاد221/4)

اور ایسا کیوں نہ ہوکہ جب خود قرآن انہیں مخاطب بناکرکہتا ہے:

"وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَالْحِکْمَةِ”(سورہ الاحزاب: 34)

’’اللہ کی آیتیں اور حکمت کی باتیں جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں ان کا چرچا کرتی رہو ‘‘۔

ازواج مطہرات کے علاوہ دیگر صحابیات بھی حصول واشاعت علم میں مشغول رہا کرتی تھیں، خود حضرت عائشہ فرماتی ہیں ؛

’’انصار کی عورتیں بھی بہت خوب ہیں، دین کی سمجھ حاصل کرنے میں وہ حیا کو رکاوٹ نہیں بننے دیتیں‘‘۔(صحیح مسلم ۔کتاب الحیض)

علامہ ابن قیم نے فقہ و فتاویٰ میں قلت و کثرت کے اعتبار سے صحابہ و صحابیات کے تین درجے متعین کیے ہیں، پہلے درجے میں سات لوگ ہیں جن میں حضرت عمرؓ، علیؓ، ابن مسعودؓ کے ساتھ حضرت عائشہؓ کانام بھی شامل ہے، دوسرے درجے میں حضرت ابوبکرؓ او ر عثمان غنیؓ کے ساتھ حضرت ام سلمہؓ بھی شریک ہیں اور تیسرے درجے میں حضرت ابوذرؓ، ابوعبیدہؓ وغیرہ کے ساتھ حضرت حفصہؓ،ام حبیبہؓ، صفیہؓ، جویریہؓ، میمونہؓ،فاطمہؓ، اسماء بنت ابی بکرؓ، عاتکہؓ بنت زید، ام درداؓء، ام عطیہؓ، ام سلیمؓ اور یعلی بنت قائمؓ کا شمار ہوتا ہے۔(اعلام الموقعین11/1-9)

حصول علم کی یہ لگن صحابیات کے ذریعہ تابعیات میں منتقل ہوئی اور جیساکہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ حضرت عائشہؓ سے علم حاصل کرنے والوں میں ایک نمایاں نام حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن کا ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے جب حدیثوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی تو مدینہ کے گورنر کو خاص طور پر لکھا ہے کہ حضرت عمرہ کی روایات کو ضرور جمع کریں، ان کے متعلق علامہ ابن حبان لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی حدیثوں کو سب سے زیادہ جانتی تھیں،(تہذیب التہذیب 439/12) اور قاسم بن محمد نے اما م زہری سے کہا کہ میں تمہارے اندر علم کی جستجو محسوس کر رہاہوں، کیا میں تمہیں علم سے لبریز ایک برتن کا پتہ نہ بتادوں؟ انہوں نے کہا : ضرور، حضرت قاسم نے کہا : جاؤ اور عمرہ کی درسگاہ سے چمٹ جاؤ ؛ کیونکہ وہ حضرت عائشہ کی تربیت یافتہ ہیں،امام زہری کہتے ہیں کہ ان کے مشورے کے مطابق جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو معلوم ہوا کہ واقعی وہ علم کا نہ ختم ہونے والا سمندر ہیں۔(تذکرہ الحفاظ 106/4)

اور حضرت ام سلمہ کی صاحب زادی حضرت زینب کے متعلق علامہ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ و ہ اپنے زمانے کی بہت بڑی فقیہ تھیں،(الاستیعاب فی اسماء الاصحاب) اور ابو رافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ کی کسی فقیہ عورت کا ذکر آتا ہے تو حضرت زینب کی یاد آجاتی ہے،(الاصابہ فی تمیز الصحابہ 117/4) اور ان کی باندی حضرت خیرہ کی صلاحیتوں کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں کو جمع کرکے وعظ و نصیحت کیا کرتی تھیں، واضح رہے کہ یہ حضرت حسن بصری کی والد ہ ہیں۔

حضرت ام عطیہ سے علم حاصل کرنے والوں میں ایک نام حفصہ بنت سیرین کا ہے، ان کے متعلق قاضی ایاس بن معاویہ کہتے ہیں، میں نے کسی ایسے شخص کونہیں پایا جسے حضرت حفصہ پر فضیلت دے سکوں۔(تہذیب التہذیب 409/12)

اور حضرت سعد بن وقاصؓ کی صاحب زادی حضرت عائشہ کے شاگردوں میں امام مالکؒ، ایوب سختیانیؒ اور حکم بن عتیبہؒ کے نام شامل ہیں،(حوالہ مذکور436/12) اور جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن مسیب نے اپنی لڑکی کا نکاح اپنے ایک شاگرد سے کردیا تھا، شادی کے بعد جب وہ حضرت سعید کے درس میں جانے لگے تو بیو ی نے کہا یہیں رہو، میرے باپ کے پاس جو علم ہے وہ میں تمہیں سکھا دوں گی،(المدخل لابن الحاج217/1) امام مالکؒ کی صاحب زادی کی معلومات کا یہ عالم تھا کہ ان کے شاگرد مؤطا پڑھتے ہوئے غلطی کرتے تو وہ دروازہ کھٹکھٹا کر متنبہ کرتیں اور امام مالک پڑھنے والے سے کہتے کہ دوبارہ پڑھو یقینی طور پر تم غلط پڑھ رہے ہو،(حوالہ مذکور) اور امام شافعی نے حضرت حسنؓ کی پوتی سیدہ نفیسہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے حدیث سنی۔(وفیات الاعیان لابن خلکان 166/2)

اللہ کے رسول ﷺ کے ذریعہ سے جو تعلیمی تحریک برپا ہوئی تھی اور اس کے نتیجے میں ایک قلیل مدت میں عورتوں اور مردوں کی اکثریت تعلیم یافتہ ہوگئی بلکہ تعلیم کا عمومی ذوق پیدا ہوگیا اور ہرایک نے اشاعت علم کواپنی زندگی کا ایک اہم مقصد بنالیا لیکن تاریخ کے حافظے میں ان میں سے بہت کم لوگوں کا نام محفوظ رہا، لیکن جو کچھ موجود ہے اس سے خواتین کی علمی سر گرمیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

لیکن مسلم حکومتوں کے زوال کے بعد سے مسلمانوں میں جو تعلیمی پستی کا دور شروع ہوا اس سے عورتیں بہت زیادہ متاثر ہوئیں اور رفتہ رفتہ وہ تعلیمی منظر نامے سے بالکل غائب ہوگئیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتوں میں تعلیمی بیداری کے لیے بھرپور کوشش کی جائے اور طالبات کے لیے بھی درسگاہیں قائم کی جائیں اور ان کی فطرت اور خصوصیت کی رعایت کرتے ہوئے نصاب مرتب کیاجائے کہ مسلم معاشرہ اپنے آدھے حصے کو جاہل رکھ کر دنیا و آخرت میں کامیابی اور سرخروئی حاصل نہیں کرسکتا۔

 

شائع شدہ:مجلہ اسلام کا عائلی نظام انسانیت کے لیے رحمت کا پیغام۔۔سیمینار کے مقالات کا مجموعہ ۔منعقدہ 5- 6 نومبر 2016 ء بمقام جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے