حجت اللہ البالغہ کی روشنی میں باب القضا کا مطالعہ۔

ولی اللہ مجید قاسمی۔

اسلام ایک مکمل نظام حیات اور دستور زندگی کا نام ہے، یہ دوسرے مذاہب کی طرح محض چند رسوم و رواج اور ظاہری عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ ایک "دین” ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے اور حیات انسانی کا کوئی گوشہ خورشید ہدایت کی کرنوں سے محروم نہیں ہے. اور نہ کوئی حصہ باران رحمت سے تشنہ ہے .
زندگی کا کوئی مرحلہ اور مسئلہ نہیں جس سے متعلق واضح رہنمائی موجود نہ ہو۔
اور لوگوں کے درمیان اختلاف اور نزاع پیدا ہو تو اسے اللہ کے نازل کردہ دین کے مطابق حل کرنے اور انسانی زندگی میں اللہ کے اتارے ہوئے قانون کو جاری و نافذ کرنے کا نام قضا چنانچہ علامہ کاسانی اپنی شہرہ افاق کتاب البدائع میں لکھتے ہیں:
هو الحکم بين الناس بالحق و الحكم بما انزل الله عز وجل۔
لوگوں کے درمیان حق اور اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا نام قضا ہے۔
( البدائع278/9. )
نزاعی معاملات کو حل کرنا اور ان کے درمیان حق کے مطابق فیصلہ کرنا انبیاء کی بعثت کا ایک اہم مقصد ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
يا داؤد انا جعلناك خليفة في الارض فاحكم بين الناس بالحق ولا تتبع الهوى فيضلك عن سبيل الله.
اے داؤد! ہم نے تم کو زمین پر حاکم بنایا ہے سو لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے رہنا اور خواہشات نفس کی پیروی مت کرنا ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔(سورہ ص:26۔)
اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے:
فاحكم بينهم بما انزل الله ولا تتبع اهوائهم عما جاءك من الحق.
ان کے درمیان اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب کے موافق فیصلہ کرو اور جو سچی کتاب آپ کو ملی ہے اس سے دور ہو کر ان کی خواہشوں پر عمل مت کرو۔(سورہ المائده: 48۔)
اس سے منصب قضا کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ درحقیقت قضا کار نبوت ہے اور قاضی انبیاء کی نیابت کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ یہ ایک عظیم الشان منصب ہے جو شخص اس عہدے پر فائز ہو کر عدل و انصاف تک پہنچنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دیتا ہے اس کے لیے بڑی بشارت اور بڑا اجر ہے ایسا شخص اللہ کا محبوب ہوتا ہے چنانچہ ارشاد باری ہے:
وان حكمت فاحكم بينهم بالقسط ان الله يحب المقسطين۔
اور اگر فیصلہ کرنا ہو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(سوره المائده :42 )
یہ ایک قابل رشک عہدہ ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لا حسد الا في اثنتين رجل اعطاه الله مالا فسلطه على ھلکته في الحق ورجل اعطاه الحكمة فهو يقضي بها ويعلمها ۔
رشک دو ہی آدمیوں پر ہے ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہو اور وہ اللہ کے راستے میں اسے لٹا رہا ہو دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے حکمت و دانائی عطا کی ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور اسے دوسروں کو سکھاتا ہے۔(صحيح بخاري ومسلم).
ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ میدان حشر میں جہاں سخت تپش ہوگی اور عرش الہی کے سوا کوئی سایہ کی جگہ نہ ہوگی بعض خوش قسمت بندے عرش الہی کے سائے میں ہوں گے .ان میں سے ایک امام عادل بھی ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں کہا گیا ہے کہ ایسے شخص کو اس سایہ میں سب سے پہلے جگہ ملے گی چنانچہ حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هل تدرون من السابقون الى ظل الله يوم القيامه قالوا الله ورسوله اعلم قال الذي اذا اعطوا الحق قبلوه واذا سئلوه بذلوه واذا حكموا للمسلمين حكموا كحكمهم لانفسهم ۔
تم جانتے ہو کہ عرش الہی کے سائے میں کون لوگ سب سے پہلے جگہ پائیں گے ؟صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں . آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے حق آجائے تو اسے قبول کر لیں اور جب حق مانگا جائے جائے تو ادا کردیں اور مسلمانوں کے معاملات میں ایسے ہی فیصلہ کریں جیسا کہ اپنے ذاتی معاملات میں فیصلہ کرتے ہیں۔(رواه احمد) ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
المقسطون على منابر من نور يوم القيامۃ على يمين الرحمن كلتا يده يمين الذين يعدلون في حكمهم واهليهم ۔
انصاف کرنے والے قیامت کے دن نور کے ممبروں پر اللہ عزوجل کے دائیں جانب ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دایاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلے اور اپنے گھر والوں کے سلسلے میں انصاف کرتے ہیں۔(رواه مسلم)
مشہور صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن مسعود کہا کرتے تھے:
لان اقضي يوم احب الي من عباده سبعين سنه.
ایک دن فیصلے میں مشغول رہنا میرے لیے ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے( معین الحکام/ 8)
ایک طرف قرآن حکیم کی آیتیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور صحابہ کے اقوال جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قضا ایک محبوب عمل ہے ،انصاف کرنے والا اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ ہوتا ہے ،یہ ایک ایسا عہدہ ہے جس پر بجا طور پر رشک کیا جا سکتا ہے ،انصاف و دیانت کے ساتھ فیصلہ کرنے والا ایسا خوش نصیب بندہ ہے جسے میدان حشر میں سخت تپش کے موقع پہ عرش الہی کے سائے میں جگہ ملے گی اور قیامت میں اسے اللہ تبارک و تعالی کی خصوصی معیت نصیب ہوگی اور امت کے الجھے ہوئے مسائل کو حل کرنا سالہاسال کی عبادت سے بہتر ہے لیکن دوسری طرف بعض ایسی حدیثیں بھی سامنے آتی ہیں جن سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ قضا کا کام کوئی بہتر اور پسندیدہ عمل نہیں ہے ،اس سے کنارہ کشی، فرار اور گریز ہی بہتر ہے چنانچہ کہا گیا ہے:
من جعل قاضيا بين الناس فقد ذبح بغير سكين.
جو شخص قاضی بنا دیا گیا وہ بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا (سنن ابو داؤد:2/503)
حدیث پڑھنے والے کے سامنے جب دونوں طرح کی روایتیں آتی ہیں تو وہ مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے، شاہ صاحب چاہتے ہیں کہ باب القضا کا مطالعہ کرنے والا کسی الجھن میں گرفتار ہوئے بغیر آگے بڑھے اس لیے وہ تمہید کے بعد سب سے پہلے اسی حدیث کو پیش کر کے اس کی توجیہ بیان فرماتے ہیں:
میں کہتا ہوں یہ اس بات کا اعلان ہے کہ قضا ایک بھاری بوجھ ہے اور اس منصب کو قبول کرنا اپنے اپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔
مختصر جملوں میں حدیث کی توجیہ اور تشریح کر دی گئی ہے کہ اس روایت میں قاضی کو اس اہم منصب کی ذمہ داری اور نزاکت کا احساس دلانا مقصود ہے کہ یہ بڑی کٹھن اور پر پیچ راہ ہے ہر لمحہ بہکنے اور پھسلنے کا خطرہ رہتا ہے، یہ ایک اہم اور اجتماعی امانت ہے اور دائرہ کار بڑا وسیع ہے؛ اس لیے اس عہدے پر وہی شخص آئے جسے اپنی امانت و دیانت پر اطمینان ہو، انصاف اور غیر جانبداری کے ساتھ فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہو نیز بیدار مغز اور زمانہ شناس بھی ہو، بلاشبہ حق اور دیانتداری کے ساتھ فیصلہ کرنے کی بڑی فضیلت ہے لیکن ناانصافی اور کوتاہی کرنے والے کے لیے نہایت زیادہ خطرناک بھی ہے۔
بعض علماء کا خیال ہے کہ اس حدیث سے بھی منصب قضا کی قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے کیونکہ اس عہدے پر فائز شخص اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے جہاد کرتا ہے، اسے کچلتا اور ختم کرتا ہے لہذا اس سے قاضی کی فضیلت معلوم ہوتی ہے ؛کیونکہ اسے "ذبیح حق” کہا گیا ہے لہذا اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہوا جام شہادت نوش کر لے اور ان شہداء کے درجے میں ہے جن کے لیے جنت واجب کر دی گئی ہے (معین الحکام/ 8)
حقیقت یہ ہے کہ قضا ایک دشوار گزار گھاٹی ہے اور اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے خواہش نفس کی قربانی دینی ہوتی ہے، ذاتی رجحانات سے بالا تر ہو کر حق کے سامنے سر کو خم کرنا ہوتا ہے، رشتہ داروں سے دشمنی مول لینی پڑتی ہے اور اپنوں سے قطع تعلق کی نوبت آ جاتی ہے ،دوست کی دوستی سے قطع نظر کر کے بیگانوں کی طرح پیش انا پڑتا ہے، ہر طرف سے لعن طعن اور ملامت کی بوچھاڑ ہوتی ہے ،یقینا یہ شخص اس مجاہد کی طرح ہے جو راہ خدا میں اپنی جان قربان کر دے مگر مذکورہ حدیث کے الفاظ سے یہ مفہوم بہت بعید ہے، زیادہ صحیح اور حدیث کے الفاظ سے قریب تر مفہوم وہی ہے جسے شاہ صاحب نے بیان کیا ہے.
قضا ایک اہم اور اجتماعی ذمہ داری ہے ،اگر ایک طرف انصاف کرنے والے کی فضیلت ہے تو دوسری طرف بے انصاف قاضی کے لیے اس سے زیادہ شدید وعید بھی ہے؛ اس لیے قرآن و حدیث میں انصاف کے پیمانے اور عدل تک پہنچنے کے لیے اصول وضابطے متعین کر دیے گئے ہیں ۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ قضا کی ذمہ داری ایسے شخص کے حوالے نہ کی جائے جو خود ہی خواستگار ہو اور طالب بن کے آئے چنانچہ حدیث میں ہے:
من ابتغى القضاء وساله وکل الی نفسه ومن اكره عليه انزل الله ملكا يسدده. (ابو داؤد 1/504)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
يا عبد الرحمن بن سمره لا تسال الامارۃ فان اعطيتها عن مسالۃ وكلت اليها وان اعطيتها من غير مسالۃ اعنت عليها (صحيح بخاري )۔
شاہ صاحب اس حدیث کی حکمت بیان کرتے ہیں:
اس کی حکمت یہ ہے کہ منصب قضا کا طالب عام طور پر نفسانی تقاضوں کی وجہ سے اسے طلب کرتا ہے ،اس عہدے کو طلب کرنے کا مقصد حصول جاہ یا مال ہے یا اس منصب پر فائز ہو کر دشمن سے انتقام لینے کی نیت ہوگی تو اس طلب کے ساتھ خلوص نیت نہیں پائی جائے گی اور خلوص نیت ہی برکات کے نزول کا سبب ہے۔
ایک اصول یہ بھی ہے کہ منصب قضا پر ایسے شخص کو فائز کرنا چاہیے جو قرآن و سنت پر گہری نظر رکھتا ہو ،آثار صحابہ اور فقہ پر حاوی ہو اور طریقہ اجتہاد سے واقف، سچا، دیانت دار اور پاکباز ہو ،مروت اور شرافت کا پیکر ہو، ہر اس چیز سے بچنے والا ہو جس کی وجہ سے اس پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہو ،قانونی زبان میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ گناہ کبیرہ سے اجتناب کرنے والا اور صغیرہ پر اصرار نہ کرنے والا ہو نیز اس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر غالب ہوں، ایسا شخص اپنی پوری کوشش لگا دینے کے باوجود صحیح فیصلہ تک نہ پہنچ سکے جب بھی وہ اجر کا مستحق ہوگا چنانچہ حدیث میں ہے:
اذا حكم الحاكم فاجتهد فاصاب فله اجران واذا حكم فاجتهد فاخطا فله اجر واحد.
جو کوئی حاکم فیصلہ کرنا چاہے اور حق تک پہنچنے کے لیے پوری طاقت لگا دے اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو جائے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور پوری طاقت لگا دینے کے باوجود وہ حق تک نہ پہنچ سکا تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔
شاہ صاحب اس کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اجتہاد کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ دلیل کو تلاش کرنے میں اپنی پوری طاقت لگا دے، اس کے بعد غلطی ہو جانے پر اجر کا مستحق اس لیے ہے کہ انسان اپنی طاقت کے بقدر مکلف ہوتا ہے اور اس کے بس میں کوشش کرنا ہے، لازمی طور پر حق تک پہنچنا اس کی طاقت سے باہر ہے۔
لیکن کسی کے اندر قضا کی اہلیت اور لیاقت نہیں ہے تو وہ مستحق عذاب ہے اگرچہ وہ صحیح فیصلے تک پہنچ جائے جیسا کہ حدیث میں ہے:
القضاه ثلاثه واحد في الجنه واثنان في النار فاما الذي في الجنه فرجل عرف الحق وقضى به ورجل عرف الحق فجار في الحكم فهو في النار ورجل قضى للناس على جهل فهو في النار.
قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں ایک جنت میں جائے گا اور دو جہنم میں، جنت میں جانے والا وہ قاضی ہے جو حق کو جانتا ہو اور اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور جو قاضی حق جاننے کے باوجود ظالمانہ فیصلہ کرے تو وہ جہنمی ہے اور جو شخص جہالت اور لاعلمی کے باوجود فیصلہ کرتا ہے وہ بھی جہنمی ہے۔
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس کی روشنی میں شاہ صاحب نے قاضی کے لیے وہ شرائط بیان کی ہیں جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے اور ان شرائط کی مصلحت یہ ہے کہ اس کے بغیر انصاف کا حصول اور قیام عدل ممکن نہیں۔
قضا کا مقصد عدل کا قیام اور انصاف کا حصول ہے اس لیے قاضی کے لیے ضروری ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے پوری کوشش کرے اور ایسی حالت میں فیصلہ نہ کرے جبکہ بے انصافی کا خدشہ ہو، ان میں سے ایک حالت غضب بھی ہے کہ اس وقت انسان خود پر قابو نہیں رکھ پاتا اس لیے اس وقت فیصلہ کرنے سے منع کیا گیا ہے:
لا يقضین حكم بين اثنين وهو غصبان.
غصے کی حالت میں دو شخصوں کے درمیان کوئی فیصلہ ہرگز نہ کرے۔
اس حدیث کی حکمت بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ انسان حالت غضب میں خود پر قابو نہیں رکھ پاتا جس کی وجہ سے دلائل و قرائن پر غور کرنا ،حق تک پہنچنا دشوار ہوتاہے اور نزاع کی حقیقت اور تہ تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے قضا کا مقصد ہی باقی نہیں رہ جاتا ہے۔
اور اسی مقصد کے حصول کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رہنمائی بھی فرمائی ہے کہ فیصلہ اسی وقت کیا جائے جبکہ دونوں فریقوں کی بات اچھی طرح سے سن لے چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
اذا تقاضى اليك رجلان فلا تقضی للاول حتى تسمع كلام الاخر فانہ احری ان يتبين لك القضاء۔
جب دو آدمی تمہارے پاس مقدمہ لے کر ائیں تو دوسرے کی بات سننے سے پہلے کوئی فیصلہ مت کرو کیونکہ دونوں کی بات سننے کے بعد تمہارے لیے فیصلہ واضح ہو جائے گا۔
منصب قضا کی مسئولیت، قاضی کے لیے شرائط اور آداب قضا سے متعلق احادیث اور ان کی حکمتوں کو بیان کرنے کے بعد شاہ صاحب طریقہ قضا سے متعلق باتوں کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فیصلہ کرتے ہوئے دوباتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے:
1-فریقین کے درمیان نزاعی معاملہ سے متعلق صحیح صورتحال کی تحقیق.
2-صورتحال واضح ہو جانے کے بعد عدل کے مطابق فیصلہ کرنے کی کوشش اور اس مسئلے میں حکم شرعی کی تطبیق.
قاضی کے لیے کبھی تو دونوں باتوں کے لیے کوشش کرنی ہوتی ہے اور کبھی ان میں سے ایک واضح ہوتا ہے صرف دوسرے کے لیے تحقیق اور حکم شرعی کی تخریج کی ضرورت پڑتی ہے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں باتوں کے لیے کچھ اصول وضابطے اور قواعد کلیہ متعین کر دیے ہیں تاکہ انصاف تک رسائی آسان ہو سکے چنانچہ صورت حال کے ثبوت کے لیے شہادت اور قسم کو مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی تحقیق اور ثبوت کا ذریعہ دو ہی ہے یا تو وہ لوگ خبر دیں جو موقع پر موجود ہیں یا صاحب معاملہ خود اپنی بات اس طرح پیش کرے کہ اس میں جھوٹ کا گمان نہ ہو چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو يعطي الناس بدعواهم لادعی ناس دماء رجال واموالهم ولكن البينۃ على المدعي واليمين على المدعى عليه.
اگر محض دعوے کی وجہ سے لوگوں کی بات مان لی جائے تو لوگ دوسرے کے مال اور خون کے سلسلے میں دعوی کرنے لگیں لیکن مدعی پر گواہی ہے اور مدعا علیہ پہ قسم۔
اس اصول و ضابطہ کی حکمت خود حدیث میں موجود ہے کہ محض کسی کے دعوے پر فیصلہ کر دیا جائے، اس کے لیے ثبوت اور دلیل کی ضرورت نہ ہو تو ہر شخص دوسرے کی جان اور مال کے سلسلے میں دعوی کر سکتا ہے اس فیصلے کی بنیاد پہ جو بگاڑ اور فساد ہوگا وہ محتاج بیان نہیں۔
مذکورہ حدیث کے ذیل میں شاہ صاحب نے مدعی اور مدعا علیہ کی تعریف ان الفاظ میں لکھی ہے:
فالمدعي هو الذي يدعي خلاف الظاهر ويثبت الزياده والمدعی عليه هو مستصحب الاصل والمتمسك بالظاهر.
مدعی وہ ہے جو خلاف ظاہر دعوی اور کسی زائد کو ثابت کرے اور مدعی علیہ وہ ہے جو اصل پر باقی ہو اور ظاہر کو پکڑے ہوئے ہو۔
مدعی اور مدعی علیہ کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں مذکورہ تعریف کافی مشہور ہے لیکن اس سے بہتر وہ تعریف ہے جسے علامہ قدوری وغیرہ نے اختیار کیا ہے:
المدعي من لا يجبر على الخصومه اذا تركها والمدعی عليه من يجبر.
مدعی وہ ہے جو مقدمہ سے دستبردار ہو جائے تو اسے اس کے لیے مجبور نہ کیا جائے اور مطالعہ وہ ہے جسے مجبور کیا جائے۔(المختصر للقدروری/238)
علامہ شوکانی کے بقول یہ تعریف زیادہ محفوظ ہے، انہوں نے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ مدعی کے ذمہ گواہی اور مدعا علیہ پر قسم کیوں ہے، وہ کہتے ہیں کہ مدعی کا پہلو کمزور ہے؛ کیونکہ وہ خلاف ظاہر کا دعوی کرتا ہے. لہذا اس کے ثبوت کے لیے مضبوط دلیل کی ضرورت ہے اور وہ گواہی ہے کہ دوسرے لوگ جن کو اس سے کچھ حاصل نہیں وہ مدعی کے دعوے کی صداقت پر گواہی دے رہے ہیں .اس کے برخلاف مدعی علیہ کا پہلو مضبوط ہے اس لیے کہ اصل یہی ہے کہ کسی کے ذمے کسی کا حق نہ ہو۔ لہذا اس میں قسم پر اکتفا کر لیا گیا ہے جو کہ ایک کمزور دلیل ہے (نیل الاوطار 8 /305)۔
جو لوگ موقع پر موجود ہیں اور نزاعی معاملے میں گواہی دے رہے ہیں ان میں ایسی صفات و خصوصیات کا ہونا ضروری ہے جن کی موجودگی میں ان کی بات پر اعتماد کیا جا سکے قرآن حکیم نے اس کے لیے ایک جامع لفظ "رضا” استعمال کیا ہے:
ممن ترضون من الشهداء.
شاہ صاحب کہتے ہیں کہ کوئی شخص مرضی اور پسندیدہ اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ اس میں مذکورہ ذیل خصوصیات اور صفات پائی جائیں :
عقل ،بلوغ ،ضبط ،قوت گویائی ، اسلام ، عدالت ، مروت و شرافت اور عدم تہمت ۔ان اوصاف کا ماخذ قرآن کریم کی آیتیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں چنانچہ قرآن میں ایسے لوگوں کی گواہی قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے جو کسی پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور اسے چار گواہوں سے ثابت نہ کر سکیں اور تہمت قدف ہی کے حکم میں تمام کبائر ہیں ۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لا تجوز شهادۃ خائن ولا خائنۃ ولا زان ولا زانيۃ ولا ذي غمر علی اخيہ۔ وترد شهادۃ القانع لاهل البيت (ابو داوود 1/507).
خیانت کرنے والے مرد و عورت کی گواہی جائز نہیں ہے اور نہ بدکار مرد و عورت کی اور نہ اپنے بھائی سے کینہ رکھنے والے کی اور نہ اس شخص کی جس کا گزارا کسی گھر والے سے متعلق ہو ۔
ان اوصاف کو ملحوظ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ کسی خبر کے اندر فی نفسہ سچ اور جھوٹ دونوں کا احتمال ہے اور ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کے لیے قرینہ کی ضرورت ہے اور مذکورہ صفات کے پائے جانے کی وجہ سے سچ کا پہلو قوی ہو جاتا ہے۔
اور اس کے ساتھ معاملے کی اہمیت کے اعتبار سے شریعت نے گواہوں کی تعداد میں کم و بیش کا بھی لحاظ رکھا ہے چنانچہ زنا کے ثبوت کے لیے چار لوگوں گواہی ضروری قرار دی گئی ہے ارشاد ربانی ہے:
والذين يرمون المحصنات ثم لم ياتوا باربعۃ شهداء.
وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں پھر اس کے لیے چار گواہ پیش نہ کر سکیں۔
حدود و قصاص کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس میں صرف مردوں کی گواہی کا اعتبار کیا گیا ہے چنانچہ امام زہری کا قول ہے:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے یہ سنت جاری ہے کہ حدود کے سلسلے میں عورتوں کی گواہی قبول نہ کی جائے۔
البتہ مالی حقوق میں مرد و عورت دونوں کی گواہی کا اعتبار کیا گیا ہے اس طور پر کہ کسی معاملے میں ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں تو دو عورتیں ایک مرد کی جگہ سمجھی جائیں گی اور گواہی کی تعداد پوری ہو جائے گی اس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے خود قران حکیم گویا ہے:
وان لم يكونا رجلين فرجل وامراتان ان تضل احداهما فتذكر احداهما الاخرى.
اگر دو مرد گواہ نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہوں گی تاکہ ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے۔
شاہ صاحب کہتے ہیں کہ عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں لہذا زیادہ تعداد کر کے اس نقصان اور کمی کی تلافی کی جائے گی۔
بسا اوقات بعض معاملات میں صرف ایک گواہ اور مدعی کی قسم پر فیصلہ کرنے کی مثال بھی احادیث میں ملتی ہے چنانچہ حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ کیا۔
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى بيمين وشاهد.
شاہ صاحب اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عادل گواہ کے ساتھ جب صاحب معاملہ قسم کھا لے تو بات میں پختگی آجاتی ہے اور جھوٹ کا گمان کم ہو جاتا ہے اور گواہی کا معاملہ ایسا ہی ہے کہ اس میں کچھ وسعت ناگزیر ہے۔
واضح رہے کہ امام مالک شافعی اور احمد بن حنبل کے نزدیک مالی معاملات میں ایک گواہ اور مدعی کی قسم پر اعتماد کر کے فیصلہ کیا جا سکتا ہے ،ان حضرات کے نقطہ نظر کی بنیاد مذکورہ حدیث ہے ۔اس ک بر خلاف امام زہری ،نخی اور ابو حنیفہ کے نزدیک اس پر فیصلے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی ہے بلکہ اگر مدعی کے پاس دو گواہ نہ ہوں تو مدعا علیہ سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا ۔ان حضرات کے نقطہ نظر کی تائید قرانی آیت اور بعض احادیث سے ہوتی ہے جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔
قضا کا مقصد انصاف کا حصول اور قیام عدل ہے ؛اس لیے قاضی گواہ اور قسم کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی حقیقت کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرے اور محض گواہوں کی ظاہری حالت پر اعتماد نہ کرے بلکہ پوشیدہ طور پر ان کے اخلاق و کردار سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں ؛کیونکہ ان کی بات کا اعتبار کچھ اوصاف کی وجہ سے کیا گیا ہے اور یہ اوصاف ایک نظر ظاہر پر ڈالنے سے معلوم نہیں ہو سکتے لہذا چھان بین ضروری ہے۔
ایسے ہی مدعی کی قسم کے سلسلے میں کچھ شک ہو تو قسم کے الفاظ یا زمان و مکان کے ذریعے اس میں شدت اور سختی پیدا کرے مثلا عصر کے بعد ،کعبہ ،مسجد نبوی یا دیگر مساجد میں ممبر کے پاس قسم لے چنانچہ قران میں کہا گیا ہے:
تحبسونهما من بعد الصلاه.
تم نماز کے بعد ان دونوں کو روک لو۔
ایسے ہی حدیث میں کہا گیا ہے:
ثلاثۃ لا يكلم الله ولا ينظر اليهم رجل حلف على سلعۃ لقد اعطي بها اكثر مما اعطى وهو كاذب ورجل حلف على يمين كاذبۃ بعد العصر ليقتطع بها مال امرئ مسلم ورجل منع فضل ماء.
تین ادمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالی نہ تو ان سے بات کریں گے اور نہ ان کی طرف دیکھیں گے۔ ایک وہ آدمی ہے جو قسم کھا کر سامان بیچتا ہے کہ اس نے جتنے میں خریدا ہے اس سے کم میں بیچ رہا ہے حالانکہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جو عصر کے بعد جھوٹی قسم کھاتا ہے تاکہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کے مال کو حاصل کر لے۔ تیسرا وہ آدمی ہے جو بچے ہوئے پانی کو کسی پیاسے کو دینے سے انکار کر دے۔
عصر کے بعد کی خصوصیت اس لیے ہے کہ فرشتوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اس وقت کو خصوصی حیثیت اور درجہ تقدس حاصل ہے اور کعبہ، مسجد نبوی ،ممبر رسول اور دیگر مساجد کے ممبر کو جو اہمیت حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ اور ان جگہوں پہ آ کر جھوٹی قسم وہی شخص کھا سکتا ہے جس کے دل میں ایمان کی کوئی چنگاری نہیں ورنہ تو لوگ سچی قسم کھانے کے لیے بھی ان جگہوں پر جانے سے کانپ اٹھتے ہیں۔
ایسے ہی موقع اور حال کے مناسبت سے اللہ کے اسماء و صفات کا ذریعہ قسم دلائے چنانچہ ایک شخص سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں قسم لیا تھا:
احلف بالله الذي لا اله الا هو عالم الغيب والشهاده.
اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور جو غائب اور حاضر کو جاننے والا ہے۔
ان سب کے علاوہ قاضی کے لیے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ وہ فریقین اور گواہوں کو جھوٹی گواہی، قسم اور دعوی سے متعلق قرآن و حدیث میں مذکور لرزہ خیز وعیدوں اور اخروی سزاؤں سے آگاہ کریں ۔شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں مذکور وعیدوں کی بنیاد تین باتوں پر ہے:
1- اللہ تعالی نے جن چیزوں سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے ان کا ارتکاب اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص گناہ اور اللہ کی نافرمانی کے سلسلے میں بڑا جری اور نڈر ہے. ایسا شخص یقینی طور پہ جہنم کے لائق اور جنت سے محرومی کا مستحق ہے
2-جھوٹی گواہی اور قسم ایک طرح سے ڈاکا زنی چوری اور ظلم کے لیے تعاون ہے .جھوٹا گواہ اس شخص کی طرح ہے جو کسی چور کو چوری کے لیے رہنمائی اور راہزن کی پشت پناہی کرے. لہذا جو شخص اس جرم کا ارتکاب کر کے زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کو دعوت دیتا ہے اور اپنے آپ کو جہنم کا مستحق بناتا ہے.
3-قسم کا مقصد حق کی معرفت اور گواہی کا مقصد صحیح صورتحال کی تحقیق ہے اور اگر جھوٹی گواہی اور قسم کا رواج ہو جائے تو پھر انصاف اور حقیقت تک پہنچنا دشوار ہو جائے گا .جھوٹا گواہ حق تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے اور اللہ تعالی نے حصول انصاف کے لیے جو ذرائع متعین کیے تھے ان کی مخالفت کرتا ہے.
جھوٹی گواہی کی طرح موقع پر موجود لوگوں کا گواہی سے گریز اور فرار بھی ہے چنانچہ قران میں کہا گیا ہے:
ومن يكتمها فانه آثم قلبه.
نیز جھوٹی گواہی کے سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ہے:
الا انبئكم باكبر الكبائر قلنا بلى يا رسول الله قال الاشراک بالله وعقوق الوالدين وكان متكئا فجلس وقال الا وقول الزور وشهادۃ الزور فما زال يكررها حتى قلنا ليتہ سكت.
میں تم کو سب سے بڑے گناہ کے متعلق نہ بتاؤں ؟ہم نے کہا ضرور بتلائیے. آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا ،والدین کی نافرمانی کرنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے پس سیدھی طرح بیٹھ گئے اور فرمایا :سنو جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی آپ اسے بار بار کہتے رہے یہاں تک کہ ہم نے سوچا کہ کاش آپ خاموش ہو جاتے ۔
جھوٹی قسم کے متعلق یہ سخت وعید ہے:
من حلف على يمين صبر ليقطع بها حق امرء مسلم لقى الله يوم القيامه وهو عليه غصبان.
جو کوئی جھوٹی قسم کھائے تاکہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کے مال کو حاصل کر لے تو قیامت کے دن اللہ تعالی اس سے سخت ناراض ہوں گے۔
جھوٹے دعوے کے سلسلے میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من ادعى ما ليس له فليس منا و ليتبوا مقعده من النار.
جو کوئی جھوٹا دعوی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے اور اسے اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لینا چاہیے۔
اس بات پر بھی وعید آئی ہے کہ کوئی شخص قاضی کے فیصلے کو بنیاد بنا کر ناحق کسی کی چیز لے لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انما انا بشر مثلكم وانكم تختصمون الي ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض فاقضى له على نحو ما اسمع منه فمن قضيت له بشيء من حق اخيه فلا ياخذ منه فانما اقطع لہ قطعۃ من النار.
میں تمہاری طرح انسان ہوں، تم میرے پاس مقدمہ لے کر آتے ہو ،تم میں سے کچھ لوگ چرب زبان ہوتے ہیں اور میں اس کی بات سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے مال کا فیصلہ کرتا ہوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ وہ اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا ہے۔
جھگڑے کی عادت بنا لینے اور مقدمہ بازی پر بھی وعید آئی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا آپسی بگاڑ اور فساد محتاج اظہار نہیں ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان ابغض الرجال الى الله الالد الخصم.

اور صلح پسندی، لڑائی اور جھگڑے سے کنارہ کشی کی ترغیب دی گئی ہے کہ یہی احتیاط کا راستہ ہے۔
صورت حال کی تحقیق کے بعد حصول انصاف کے لیے بھی شریعت نے کچھ اصول و ضابطے متعین کیے ہیں، اس میں بنیادی طور پر اس بات کو ذہن میں رکھنا ہے کہ جس چیز کے فریقین دعویدار اور طلبگار ہیں وہ مباح الاصل ہے یا نہیں؟ یعنی بذات خود دونوں میں سے ہر ایک اس کا حقدار ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ ایسی صورت میں قرعہ کے ذریعے کسی ایک کو ترجیح دیں گے یا جس نے اس پر پہلے قبضہ کیا ہے یا جس کے قبضے میں خود اس چیز کے لیے یا مسلمانوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے اسے بنیاد بنا کر فیصلہ کریں چنانچہ حضرت حمزہ کی بیٹی کے حق میں پرورش کے لیے حضرت علی ،زید اور جعفر نے دعوی کیا اور ہر ایک نے اپنے دعوے کی پشت پر موجود دلیل بھی بیان کی، ہر ایک کے دعوی اور دلیل کو سننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر کے لیے فیصلہ فرمایا ؛کیونکہ اس بچی کی خالہ ان کے نکاح میں تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترجیح کی وجہ بیان کرتے فرمایا :الخالۃ الام۔
ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ تھی کہ سفر کے موقع پر ازواج مطہرات میں سے کسی کو ساتھ لے جانے کے لیے قرع اندازی فرماتے اور جس کا نام نکل آتا اسے رفاقت کا شرف حاصل ہوتا۔
اور اگر مباح الاصل نہیں ہے بلکہ ایک ہی شخص اس کا مالک ہو سکتا ہے ،مگر اس کے دعوی دار دو شخص ہیں ایک یہ کہتا ہے کہ دوسرے کے قبضے میں جو سامان ہے اس کا مالک میں ہوں ،اس نے مجھ سے غصب کر کے اس پر قبضہ کر لیا ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ میرا سامان ہے ؛کیونکہ میں نے اسے اس سے خرید کر قبضے میں لیا ہے. اور ہر ایک کے دعوے کے صحیح ہونے کا شبہ ہے ایسی صورت میں قاضی کے لیے ضروری ہے کہ فریقین کے یہاں رائج عرف اور معاملات و عقود کے الفاظ سے آگاہی حاصل کرے کیونکہ اسی ذریعے سے وہ انصاف تک پہنچ سکتا ہے جیسے کہ حضرت براء بن عازب کے واقعے میں —جب ان کے جانور نے ایک دوسرے صحابی کے باغ کو نقصان پہنچا دیا تھا —عرف و عادت کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ باغ اور کھیت کے مالک دن میں اس کی نگرانی کریں اور مویشی کے مالک رات میں اپنے جانوروں کو باندھے رکھیں۔
آخر میں شاہ صاحب نے چند اصول وضابطے اور ان کی تشریح اور حکمتوں پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے بعد بارگاہ نبوت سے صادر ہونے والے چند فیصلوں کو ذکر کر کے اس بحث کو ختم کر دیا ہے۔
حاصل مطالعہ:
قضا سے متعلق شاہ صاحب کی تحریر مختصر مگر جامع ہے اور دریا بہ کوزہ کا مصداق ہے ۔اور انھوں نے قضا سے متعلق آیات اور بیشتر احادیث کو سمیٹ لینے نیز ان کو ایک لڑی میں پرو دینے کی کامیاب کو کوشش کی ہے ۔
آیات اور احادیث کی حکمتوں پر بڑے اچھے اور دل کو چھوتے ہوئے اسلوب اور انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے ۔نیز اختلافی مسائل میں نقطہ عدل کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اس مختصر تحریر میں قاضی کی ذمہ داری ،اہلیت قضا کے لیے شرائط، آداب قضا اور فیصلے کے طریقے جیسے مباحث پر عمدہ اور مدلل اور حکیمانہ گفتگو کی گئی ہے۔
سب سے پہلے مسئلہ قضا کی مسئولیت اور نزاکت کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد قاضی کے اوصاف سے متعلق ایک حدیث نقل کر کے اس کی تشریح اس سے مستنبط ہونے والے قاضی کے اوصاف اور حکمت کو ذکر کیا ہے۔
مقصد قضا کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ قاضی معتدل حالت میں اس وقت فیصلہ کرے جب کہ فریقین کی باتوں کو سن لے اس سے متعلق دو حدیثوں کو ذکر کر کے ان کی حکمتوں پر روشنی ڈالی ہے۔
اس کے بعد طریقہ قضا کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قاضی کے سامنے جب کوئی مقدمہ آئے تو وہ دو باتوں کی تحقیق کرے۔ صحیح صورتحال اور یہ واضح ہو جانے کے بعد اس سے متعلق حکم شرعی کی تخریج ۔ان دونوں باتوں کے لیے قرآن کریم اور احادیث نبوی میں تفصیلی اور اصولی رہنمائی ملتی ہے چنانچہ صورتحال کی تحقیق کے لیے گواہی اور قسم کو مشروع کیا گیا ہے اور گواہوں میں ایسی شرائط کا لحاظ رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے ان پر اعتماد کیا جا سکے نیز معاملے کی اہمیت کے اعتبار سے گواہوں کی تعداد میں کم و بیش کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے ایسے ہی گواہوں کے متعلق چھان بین اور قسم میں زمان و مکان اور الفاظ کے ذریعے شدت کی نظیریں بھی قرآن و حدیث میں ملتی ہیں۔
نیز قاضی کو چاہیے کہ وہ فیصلے سے پہلے فریقین اور گواہوں کے سامنے جھوٹی گواہی جھوٹی قسم اور جھوٹا دعوی سے متعلق قرآن و حدیث میں مذکور وعیدیں بیان کرے اور صلح جوئی کی ترغیب دے ۔ان مباحث سے متعلق شاہ صاحب نے پانچ آیتیں اور دس احادیث ذکر کی ہیں نیز جھوٹی گواہی اور قسم سے متعلق احادیث میں وارد وعیدوں کی حکمت اور وجہ پر گفتگو کی گئی ہے۔
صورت حال کی تحقیق کے بعد شرعی حکم کی تخریج اور تطبیق کے لیے بھی قرآن و حدیث میں واضح ہدایتیں موجود ہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے تفصیل سے ان کا تذکرہ کیا ہے اس کے بعد بارگاہ نبوت سے صادر ہونے والے چند فیصلوں کو ذکر کر کے اس بحث کو ختم کر دیا ہے۔

 

 

Related Post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے