بسم الله الرحمن الرحيم.
سلسله(2)
عدت سے متعلق نئے مسائل:
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242
2-عدت میں خوشبودار صابن وغیرہ کا استعمال:
طلاق رجعی کی عدت میں عورت کو کسی طرح کا سوگ نہیں منانا ہے ؛ کیونکہ ابھی رشتہ نکاح ایک طرح سے باقی ہے اس لئے وہ زیب وزینت اختیار کرسکتی اور خوشبو لگا سکتی ۔
طلاق بائن اور شوہر کی وفات کی حالت میں عدت کے دوران وہ سوگ منائے گی یعنی نہ تو بناؤ سنگار کریگی اور نہ خوشبو لگائی گی ؛ کیونکہ نکاح جیسی عظیم نعمت سے وہ محروم ہوگئی ہے جس پر غم کا اظہار ، فطرت اور شریعت کا تقاضا ہے۔ (1)
حضرت ام عطیہ کہتی ہیں:
كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ : أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلَا نَكْتَحِلَ، وَلَا نَتَطَيَّبَ، وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ ، وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ، إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانے سے ہمیں منع فرمایا ہے، البتہ شوہر پہ چار مہینہ دس دن سوگ منایا جائے گا، جس میں نہ ہم سرمہ استعمال کریں گی اور نہ خوشبو اور پٹری دار کپڑے کے علاوہ کوئی رنگ دار کپڑا نہیں پہنیں گی ، البتہ حیض سے پاک ہونے کے وقت ہمیں رخصت دی گئی ہے کہ قسط ہندی جیسی خوشبو استعمال کریں۔(صحیح بخاری : 313۔صحیح مسلم : 938)
اور حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں:
دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُو سَلَمَةَ، وَقَدْ جَعَلْتُ عَلَى عَيْنِي صَبِرًا ، فَقَالَ : ” مَا هَذَا يَا أُمَّ سَلَمَةَ ؟ ” قُلْتُ : إِنَّمَا هُوَ صَبِرٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَيْسَ فِيهِ طِيبٌ. قَالَ : ” إِنَّهُ يَشُبُّ الْوَجْهَ، فَلَا تَجْعَلِيهِ إِلَّا بِاللَّيْلِ، وَلَا تَمْتَشِطِي بِالطِّيبِ، وَلَا بِالْحِنَّاءِ فَإِنَّهُ خِضَابٌ ". قُلْتُ : بِأَيِّ شَيْءٍ أَمْتَشِطُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : ” بِالسِّدْرِ تُغَلِّفِينَ بِهِ رَأْسَكِ ".
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابو سلمہ کی وفات کے بعد میرے گھر آئے ۔میں نے اپنی آنکھ پر ایلوا لگا رکھا تھا ۔آپ نے پوچھا: ام سلمہ ! یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! یہ ایلوا ہے ۔اس میں خوشبو نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ چہرے کو نکھارتا اور رنگین بنا دیتا ہے. لہذا (بوقت ضرورت) صرف رات میں لگایا کرو۔اور خوشبو کے ذریعے کنگھی مت کرو اور نہ مہندی کے ذریعے کیونکہ یہ خضاب ہے ۔میں نے کہا: اللہ کے رسول! کس چیز کے ذریعے میں کنگھی کروں ؟آپ نے فرمایا بیری کے پتی کے ذریعے جس سے تم اپنے سر کو ڈھانک دو۔
(ابو داؤد:2305۔نسائی:3537)
لہذا عدت میں خوشبو دار صابن اور شیمپو اور پیپر کا استعمال کرنا درست نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایسے صابن اور شیمپو کو استعمال کرنا جائز ہے جس سے رنگت میں نکھار ہو اور بالوں کو چمکدار اور ملائم بناتا ہو کہ یہ سب چیزیں زینت میں داخل ہیں۔اور عام طور پر دستیاب شیمپو سے بال چمکدار اور ملائم ہوجاتا ہے اس لئے اس سے بچنا چاہئے ، البتہ اگر ایسا کوئی شیمپو مل جائے جس سے صرف میل کچیل صاف ہوتا ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہے ۔اسی طرح سے رنگت کو نکھارنے اور گورا کرنے والے والے صابن جیسے کہ بیوٹی سوپ یا وائٹننگ سوپ (Beauty soap/whitening soap)کو استعمال کرنا درست نہیں ہے (2)
جسم یا بال کی نظافت و صفائی کے لئے ایسے صابن عام طور پر دستیاب ہیں جن میں خوشبو وغیرہ نہیں ہوتی ہے ان کو استعمال کرنا چاہئے ۔
(1)”وجب في الموت إظهاراً للتأسف علی فوات نعمة النکاح؛ فوجب علی المبتوتة إلحاقاً لها بالمتوفی عنها زوجها بالأولی؛ لأن الموت أقطع من الإبانة … دخل في ترك الزینة الامتشاط بمشط أسنانه ضیقة لا الواسعة، کما في المبسوط، وشمل لبس الحریر بجمیع أنواعه وألوانه ولو أسود، وجمیع أنواع الحلي من ذهب وفضة وجواهر، زاد في التاتارخانیة القصب”.
(البحر الرائق 163/4۔کتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الإحداد، ط:دار الكتاب الإسلامي)
"على المبتوتة والمتوفى عنها زوجها إذا كانت بالغة مسلمة الحداد في عدتها كذا في الكافي. والحداد الاجتناب عن الطيب والدهن والكحل والحناء والخضاب ولبس المطيب والمعصفر والثوب الأحمر وما صبغ بزعفران إلا إن كان غسيلا لا ينفض ولبس القصب والخز والحرير ولبس الحلي والتزين والامتشاط كذا في التتارخانية.”
(الھندیۃ 533/1كتاب النكاح، الباب الرابع عشر في الحداد، ط:دارالفكر)
الحداد شرعا ترك الزينة ونحوها لمعتدة بائن او موت .(رد المحتار 220/5)
الاحداد وهو ترك الزينة والطيب .(تبين الحقائق34/3)
(2) والدهن ولو بلا طيب كزيت خالص اي من الطيب وكالشيرج والسمن وغير ذلك لانه يلين الشعر فيكون زينة وبه ظهر ان الممنوع استعماله على وجه يكون فيه زينة فلا تمنع من مسه بيد لعصر او بيع او اكل . (رد المحتار 221/5)
اور تیل کے استعمال کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ عینی لکھتے ہیں:
لانه يحسنه ويزيد فيه بهجة( البنايه621/5)