کپڑے کے موزہ پر مسح۔

ولی ﷲ مجید قاسمی ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ ؕ
اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں تک (دھو لیا کرو) (سورة المائدة:6)
اس آیت میں بوقت وضو پاؤں دھلنے کاحکم دیاگیا ہے ، اس کا تقاضا ہے کہ بہرصورت وضو میں ہمیشہ پیر دھلے جائیں ، کسی بھی حالت میں اسے ترک نہ کیاجائے ، مگر یہ کہ کسی دوسری آیت یا ایسی حدیث سے جو پایہ ثبوت میں آیت قرآنی کے برابر یا قریب تر ہو ، معلوم ہو کہ کسی خاص صورت میں اس پر عمل نہ ہوگا ، چنانچہ پیر میں چمڑے کا موزہ ہونے کی صورت میں متواتر احادیث موجود ہیں جو ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ اس حالت میں پیر دھونے کے بجائے موزہ پر مسح کرلینا کافی ہے ، اس سلسلہ میں منقول احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ ثبوتی اعتبار سے وہ آیت قرآنی سے قریب تر ہوجاتی ہیں ، جیسا کہ حضرت حسن بصری کا بیان ہے :
’’ ادرکت سبعین بدریا من الصحابۃ کلھم کانوا یرون المسح علی الخفین‘‘
’’میں نے ستر بدری صحابہ کو دیکھا ہے کہ ان میں سے ہر ایک چمڑے کے موزے پر مسح کرنے کا قائل تھا ‘‘۔(التلخیص الحبیر:77/1)
حضرت حسن بصری سے منقول ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں :
’’حدثنی سبعون من اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ المسح علی الخفین‘‘،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر صحابہ نے مجھ سے موزے پر مسح سے متعلق حدیث بیان کی۔(المغنی:359/1)
اور حضرت امام ابوحنیفہ کہا کرتے تھے :
’’ ما قلت بالمسح حتی جاءنی فیہ مثل ضوء النہار‘‘
’’میں چمڑے کے موزے پر مسح کرنے کا قائل اس وقت ہوا جب کہ میرے پاس روز روشن کی طرح دلائل آگئے۔(البدائع:77/1.البحر:173/1)
اور امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ :
’’ لیس فی قلبی من المسح شییٔ ،فیہ اربعون حدیثا عن اصحاب رسول اللّٰہﷺ ما رفعوا الی النبیﷺ وما وقفوا‘‘
’’ مسح کے جواز کے سلسلہ میں مجھے کوئی تردد نہیں ، اس مسئلہ میں تو اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ سے چالیس روایتیں منقول ہیں ، جن میں سے بعض احادیث ہیں اور کچھ صحابہ کرام کے اقوال ‘‘۔۔(المغنی:281/1)
اور حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
’’ قد صرح جمع من الحفاظ بان المسح علی الخفین متواتر وجمع بعضھم رواتہ فجاوزوا ثمانین ‘‘
’’حفاظ حدیث کی ایک جماعت نے صراحت کی ہے کہ موزے پر مسح سے متعلق احادیث متواتر ہیں ، بعض لوگوں نے ان کے رایوں کو شمار کیا تو وہ اسّی سے زائد نکلے ‘‘۔(نیل الاوطار:176/1)
اسی بنیاد پر امام ابوحنیفہؒ سے اہل سنت کی یہ پہچان منقول ہے :
’’ ان تفضل الشیخین وان تحب الختنین وان تری المسح علی الخفین ‘‘
’’حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی افضلیت کا قائل ہو، حضرت عثمانؓ و علیؓ سے محبت رکھتا ہو اور موزے پر مسح کا قائل ہو ‘‘۔(البدائع:77/1)
اللہ کے رسول ﷺ سے موزے پر مسح کے سلسلہ میں جو احادیث منقول ہیں ان میں سے بیشتر میں موزے کے لیے ’’خف ‘‘ کا لفظ استعمال کیاگیا ہے ، ’’خف ‘‘ عربی میں چمڑے کے موزے کو کہتے ہیں اور وہ موزہ ایسا ہوتا تھا کہ لوگ اسے جوتے کے بغیر پہن کر چلا کرتے تھے ، جیساکہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے :
’’عن علیؓ انہ قال لوکان الدین بالرای لکان اسفل الخف اولیٰ بالمسح من اعلاہ…اخرجہ ابوداؤد باسناد حسن‘‘.
’’ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ اگر دین کا تعلق محض انسانی عقل وخیال سے ہوتا تو موزے پر اوپر کے بجائے نچلے حصے کا مسح کرنا بہتر ہوتا ‘‘۔(بلوغ المرام:/30)
اس روایت سے بہ صراحت معلوم ہوتا ہے کہ لوگ صرف موزے ہی سے کام چلا لیتے تھے ، جوتا پہننے کی ضرورت محسوس نہ کرتے ، گرچہ جوتے کے ساتھ موزہ پہننے کا بھی رواج تھا ، کیونکہ صرف موزہ پہننے کی صورت ہی میں عقل کا تقاضا ہے کہ نچلے حصہ پر مسح کیا جائے ،کیونکہ زمین سے اسی کا تعلق رہتا ہے اور اگر موزے کے ساتھ جوتا بھی ہو تو اوپر نیچے دونوں برابر ہیں بلکہ اوپر ی حصہ گرد وغبار سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ،
اور کپڑے کے موزہ پر مسح سے متعلق روایات اس درجہ قوی نہیں ہیں کہ اس کی وجہ سے قرآن میں مذکور کسی حکم کو چھوڑا جاسکے ، کیونکہ کپڑے کے موزہ پر مسح سے متعلق کل تین روایتیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک پر کلام ہے ، ان میں سے پہلی حدیث یہ ہے :
’’ عن المغیرۃ بن شعبۃ ان رسول اللّٰہﷺ توضأ ومسح علی الجوربین والنعلین رواہ الخمسۃ الا النسائی وصححہ الترمذی‘۔‘
’’حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور’’جورب‘‘(کپڑے کا موزہ ) اور جوتے پر مسح کیا ‘‘۔(نیل الاوطار:179/1)
اس روایت کوامام ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے لیکن دوسرے محدثین کو اس سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ سے اس روایت کو نقل کرنے والے تمام راوی ’’خف‘‘ کے لفظ سے روایت کرتے ہیں ، صرف ایک راوی نے ’’جورب ‘‘ کا تذکرہ کیا ہے ، اس حیثیت سے یہ لفظ مشکوک ہوجاتا ہے کہ آیا یہ لفظ حضرت مغیرہ بن شعبہ سے منقول ہے یا نہیں ؟ اسی وجہ سے حدیث کے بلند پایہ راوی اور ناقد عبدالرحمن بن مہدی اس حدیث کو بیان نہیں کرتے تھے ، چنانچہ امام ابو داؤد کہتے ہیں :
’’ وکان عبد الرحمن بن مہدی لایحدث بھذا الحدیث لان المعروف عن المغیرۃ ان النبیﷺ مسح علی الخفین‘‘ .
’’عبدالرحمن بن مہدی اس روایت کو بیان نہیں کرتے تھے کیونکہ حضرت مغیرہ سے مشہور روایت یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ’’خف ‘‘ پر مسح کیا ‘‘۔(حوالہ مذکور۔)
اور امام مسلم کہتے ہیں :
’’ لایترک ظاہر القرآن بمثل ابوقیس وھزیل‘‘ .
’’قرآن کے واضح حکم کو ابو قیس اور ہزیل جیسے راویوں کی روایت کی وجہ سے چھوڑا نہیں جاسکتا ہے ‘‘۔(شرح ابن القیم لابی داؤد مع عون المعبود: 271/1،نیزدیکھئے: تحفۃ الاحوذی:101/1)
اورامام نسائی سے منقول ہے :
’’ لانعلم احدا تابع اباقیس علی ھذہ الروایۃ والصحیح عن المغیرۃ ان النبیﷺ مسح علی الخفین ‘‘
’’ہمارے علم میں نہیں ہے کہ کسی دوسرے راوی نے حضرت مغیرہ سے یہ لفظ نقل کرنے میں ابوقیس کی تائید کی ہو ، حالانکہ حضرت مغیرہ سے منقول صحیح روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ’’خف ‘‘ پر مسح کیا ‘‘۔( نصب الرایۃ:183/1)
اگر اس روایت کو نقل کرنے والے قابل اعتماد ہوتے تو یہ کہہ کر تسلی کی جاسکتی تھی کہ ثقہ اور بھروسہ کے لائق راوی ہیں ، اس لیے ہوسکتا ہے کہ بعض مواقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے ’’جورب ‘‘ پر مسح کیا ، حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اسے بھی دیکھا اور اپنے شاگردوں سے بیان کر دیا لیکن مشکل یہ ہے کہ ائمہ فن نے اس کے راویوں پر کلام کیا ہے ، چنانچہ سفیان ثوری ، یحییٰ بن معین، علی بن مدینی، امام احمد بن حنبل ، امام مسلم ، نسائی ،اور بیہقی وغیرہ نے ابوقیس اور ہزیل کو ضعیف قرار دیاہے ، اور ان حضرات کی تضعیف کے مقابلے میں امام ترمذی کی تصحیح مرجوح ہے ، چنانچہ امام نووی کہتے ہیں :
’’کل واحد من ھؤلاء لوانفرد قدم علی الترمذی مع ان الجرح مقدم علی التعدیل واتفق الحفاظ علی تضعیفہ فلایقبل قول الترمذی انہ حسن صحیح‘‘.
’’جن حضرات نے حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ، ان میں سے کوئی ایک بھی اگر حدیث کو ضعیف کہتا تو اسے امام ترمذی پر ترجیح دی جاتی ، اس کے علاوہ یہ قاعدہ بھی ہے کہ جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے ، لہٰذا امام ترمذی کا اسے صحیح قرار دینا لائق قبول نہیں ہے ‘‘۔(نصب الرایۃ:183/1)
اس طرح کی روایت حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ اور حضرت بلالؓ سے بھی منقول ہے لیکن یہ دونوں حدیثیں بھی اسنادی حیثیت سے ضعیف ہیں ، چنانچہ ابوموسیٰ اشعری کی روایت کے متعلق امام ابوداؤد کہتے ہیں ’’لیس بالمتصل ولابالقوی ‘‘،’’حدیث کی سند متصل نہیں ہے بلکہ درمیان کی کڑی غائب ہے ‘‘ کیونکہ اسے حضرت ابوموسیٰ اشعری سے نقل کرنے والا راوی ضحاک بن عبدالرحمن ہے اور اس کا حضرت ابو موسیٰ اشعری سے حدیث سننا ثابت نہیں ہے نیزحدیث ضعیف بھی ہے کیونکہ اس روایت کا ایک راوی عیسیٰ بن سنان ضعیف ہے ،(نیل الاوطار:178/1)
یہی صورت حال حضرت بلالؓ سے منقول روایت کابھی ہے کیونکہ محدثین کی نگاہ میں اس کے راوی قابل اعتماد نہیں بلکہ ضعیف ہیں ،( نصب الرایۃ:184/1)
غرضیکہ ’’جورب ‘‘ (کپڑے کے موزے ) پر مسح سے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے ، چنانچہ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں :
’’الحاصل انہ لیس فی باب المسح علی الجوربین حدیث مرفوع صحیح خال عن الکلام ‘‘.
’’حاصل یہ ہے کہ جورب پرمسح سے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے ‘‘۔(تحفۃ الاحوذی:102/1)
بعض حضرات نے ’’جورب ‘‘ (کپڑے کاموزہ )سے متعلق روایات کو صحیح مان کر یہ توجیہ کی ہے کہ اس میں ’’جورب ‘‘ کے ساتھ جوتے پر مسح کا تذکرہ ہے ، حالانکہ جوتے پر مسح کسی کے یہاں درست نہیں ہے ، اس لیے حدیث کا مفہوم ہے کہ آپ ﷺ نے ایسے ’’جورب‘‘ پر مسح کیا جو ’’نعل دار‘‘ تھے یعنی نچلے حصے میں چمڑا لگا ہوا تھا اور ایسے کپڑے کے موزے پر تمام ائمہ کے نزدیک مسح جائز ہے ، چنانچہ علامہ عینی لکھتے ہیں :
’’ای کون الجورب منعلا وھومحمل الحدیث الذی رواہ ابوموسیٰ الاشعری وغیرہ واراد بھذا الکلام الجواب عن ھذا الحدیث الذی احتج بہ لانہ یقول ان المسح علی الخف ورد علی خلاف القیاس لان النص یقتضی الغسل فلا یلتحق بہ غیرہ الا ماکان فی معناہ من کل وجہ فثبت بدلالۃ النص لا بالقیاس فلو لم یکن المنعل مرادا فی حدیث ابی موسیٰ وغیرہ یکون زیادۃ علی النص بخبرالواحد وذا لایجوز‘‘۔
’’یعنی ایسا ’’جورب ‘‘ (کپڑے کا موزہ ) ہو کہ اس کے نچلے حصے میں چمڑا لگا ہو، حضر ت ابو موسیٰ اشعریؓ اور دوسرے صحابہ کرام سے روایت کردہ حدیث میں لفظ ’’جورب‘‘ سے ایسا ہی موزہ مراد ہے ، علامہ عینی کہتے ہیں کہ صاحب ہدایہ اس عبار ت کے ذریعہ اس روایت کا جواب دینا چاہتے ہیں جسے لوگ کپڑے کے موزہ پر مسح کے جوازکے سلسلہ میں پیش کرتے ہیں ، اس لیے کہ امام ابوحنیفہؒ کے خیال کے مطابق چمڑے کے موزہ پر مسح کرنا خلاف قیاس ہے ، اس لیے کہ آیت قرآنی کا تقاضا ہے کہ پیر کو ہر حال میں دھلا جائے ، لہٰذ ا ’’خف ‘‘ کے حکم میں دوسرے موزے اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ اپنی خصوصیات میں بالکل چمڑے کے موزے (خف ) کی طرح نہ ہوجائیں ، پس جس موزے میں یہ خصوصیات ہوں ان پر مسح کرنا دلالۃ النص سے ثابت ہوگا نہ کہ قیاس سے اور اگر ابو موسیٰ اشعری وغیر ہ کی حدیث میں ’’منعل‘‘ (نچلے حصے میں چمڑا لگا ہوا ) موزہ مراد نہ ہوتو ’’خبر واحد ‘‘ کے ذریعہ ’’کتاب اللہ ‘‘ میں مذکور حکم پر زیادتی لازم آئے گی اور یہ جائز نہیں ہے ‘‘۔(شرح الھدایۃ للعینی:329/1)
یا حدیث میں ’’جورب ‘‘ سے مراد چمڑے کے موزے ہیں ، کیونکہ عربی زبان میں ’’جورب‘‘ پیرکے لفافے کو کہتے ہیں۔ ( نیل الاوطار:180/1)
اور یہ چمڑے کا بھی ہو سکتا ہے ، چنانچہ مشہور اہل حدیث عالمِ دین علامہ شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں :
’’ ان الجورب یتخذ من الادیم وکذا من الصوف وکذا من القطن ویقال لکل من ھذہ انہ جورب ومن المعلوم ان ھذہ الرخصۃ
بھذا العموم لاتثبت الا بعد ان یثبت ان الجوربین الذین مسح علیھما النبیﷺ کانا من الصوف‘‘
’’جورب چمڑے کا بھی ہوتا ہے ، اون اور روئی کا بھی ، ان میں سے ہر ایک کے موزے کو ’’جورب‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ واضح طور پر معلوم ہے کہ ہر قسم کے موزے پر مسح کرنا اس وقت ثابت ہوگا جب کہ یہ ثابت ہوجائے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے جس موزے پر مسح کیا تھا وہ اونی تھا ‘‘۔(عون المعبود:62/1)
غرضیکہ حدیث میں ’’جورب‘‘ سے مراد چمڑے کا موزہ بھی ہوسکتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت مغیر ہ بن شعبہ نے اس کو کبھی ’’خف ‘‘ کے لفظ سے اور کبھی ’’ جورب‘‘ کے لفظ سے بیان کیا ۔
بالفرض اگر’’جورب ‘‘ سے متعلق حدیث صحیح بھی ہو اور اس سے مراد کپڑ ے کا موزہ ہو تو پورے ذخیرۂ حدیث میں یہی ایک حدیث ہے اور اس کی نسبت بھی آنحضور ﷺ کی طرف قطعی اور یقینی نہیں ہے تو کیا اس کے ذریعہ سے قرآن میں مذکور کسی عام حکم کو ترک کیاجاسکتا ہے ؟ سوچنے کی بات ہے کہ قرآن کریم نے صراحتاً پاؤں دھونے کا جو حکم دیا ہے اسے صرف ایک روایت کی بنیاد پر کیسے چھوڑا جاسکتا ہے ؟ حالانکہ ماقبل میں بیان کیا جاچکا ہے کہ چمڑے کے موزے پر مسح کا حکم اس وقت ثابت ہوا جب کہ اس سے متعلق احادیث تواتر کی حد تک پہنچ گئیں اور کپڑے کے موزے پر مسح سے متعلق احادیث کا تواتر بڑی دور کی بات ہے ۔ کل تین احادیث ہیں جن میں سے دو کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے اور ایک حدیث کو امام ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے تو دوسرے بہت سے ائمہ فن نے شدید تنقید کی ہے ، لہٰذا ایسی حدیث کی وجہ سے قرآن حکیم میں مذکور کسی حکم کو کیسے ترک کیا جاسکتا ہے ، چنانچہ امام ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں :
’’ والاصل فیہ انہ قد ثبت ان مراد الاٰیۃ الغسل علی ما قدمنا فلولم ترد الآثار المتواترۃ عن النبیﷺ فی المسح علی الخفین لما اجزنا المسح……ولما لم ترد الآثار فی جواز المسح علی الجوربین فی وزن ورودھا فی المسح علی الخفین ابقینا حکم الغسل علی مراد الآیۃ ‘‘
’’اس سلسلہ میں اصولی بات یہ ہے کہ آیت قرآنی میں پیر کادھلنا مراد ہے ، جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ، لہٰذا اگر رسول اللہ ﷺ سے ’’خف ‘‘ (چمڑے کے موزے )پر تواتر کے ساتھ مسح کرنا ثابت نہ ہوتا تو ہم کبھی ’’خف ‘‘ پر مسح کو جائز قرار نہ دیتے …اور چونکہ ’’جورب ‘‘پر مسح سے متعلق روایتیں اتنے قوی ذرائع سے منقول نہیں ہیں جتنے قوی طریقے سے ’’خف ‘‘ سے متعلق احادیث منقول ہیں ، اس لیے ہم نے ’’جورب‘‘ پہننے کی صورت میں غسل کے حکم کو باقی رکھا ، جو آیت قرآنی کا مقصود ہے ‘‘۔( احکام القرآن للجصاص:428/2)
اس موقع پر کسی کو یہ خیال آسکتا ہے کہ ’’جورب ‘‘(کپڑے کے موزے ) پر مسح سے متعلق احادیث اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ ان کے ذریعہ قرآن میں مذکور حکم کو ترک کیا جاسکے تو پھر صحابہ کرام سے ’’جورب‘‘ پر مسح کرنا کیوں منقول ہے ، چنانچہ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ ’’جورب ‘‘ پر مسح کرنا سات، آٹھ صحابہ کرام سے ثابت ہے اور علامہ ابن المنذر نے لکھاہے کہ ایسے صحابہ کرام کی تعداد نو( ۹) ہے ،جن میں حضرت علیؓ ، عبداللہ بن مسعودؓ ، عمار بن یاسرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کانام بھی شامل ہے ،( المغنی:295/1) صحابہ کرام کا عمل خود ایک قوی دلیل ہے اور اس کے ذریعہ سے تخصیص کی جاسکتی ہے کیونکہ ایسا انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی اقتدا میں کیاہوگا ۔
اس کاجواب یہ ہے کہ کسی روایت سے ثابت نہیں کہ صحابہ کرام جس ’’جورب ‘‘ پر مسح کرتے تھے وہ کپڑے کے باریک موزے تھے اور جب تک کہ یہ ثابت نہ ہوجائے ، ہرطرح کے موزوں پر مسح کا جواز ثابت نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اس کے برخلاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام سے جس ’’جورب ‘‘ پرمسح ثابت ہے وہ چمڑے کے تھے یا اپنی موٹائی اور مضبوطی کے اعتبار سے چمڑے کے موزے جیسے تھے، مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت سے ہماری اس توجیہ کی تائید ہوتی ہے :
’’عن سعید والحسن انھما قالا یمسح علی الجوربین اذا کانا صفیقین‘‘.
’’حضرت سعید بن مسیب اور حسن بصری کہتے ہیں کہ جورب پر مسح اسی وقت کیا جائے گا جب کہ خوب دبیز ہو ‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبہ:188/1)
یہ حضرات ایسے لوگوں میں سے ہیں جنہیں صحابہ کرام کی طویل رفاقت اور صحبت کا موقع ملا ہے ، ان کی زندگیوں میں صحابہ عظام کی ’’حیات طیبہ‘‘ کا عکس ملتا ہے ، اس لیے انہوں نے ’’جورب ‘‘ پر مسح کے درست ہونے کے لیے دبیز ہونے کی جو شرط لگائی ہے وہ صحابہ کرام کے عمل سے ہی ماخوذ ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمہور فقہا ء کے نزدیک ’’جورب ‘‘ پر مسح کرنا اسی قت درست ہے جب کہ وہ دبیز ہو ، باریک کپڑے وغیرہ پر مسح کے درست نہ ہونے پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے ، چنانچہ علامہ امام ترمذی جمہور فقہاء کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وھوقول غیرواحد من اھل العلم وبہ یقول سفیان الثوری وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق قالوا یمسح علی الجوربین وان لم یکونا نعلین اذا کانا ثخنین‘‘
’’بہت سے اہل علم ’’جورب ‘‘ پر مسح کے قائل ہیں ، اما م سفیان ثوری ، ابن المبارک ، شافعی ،احمد بن حنبل اور اسحاق راہویہ کایہی نقطہ نظر ہے ، یہ تمام حضرات کہتے ہیں کہ ’’جورب ‘‘(کپڑے کے موزے )پرمسح کرنا درست ہے گرچہ ا س کے تلوے میں چمڑا نہ لگا ہو ، بشرطیکہ کپڑے کا موزہ دبیز ہو ‘‘۔۔(سنن ترمذی:142/1)
غرضیکہ صحابہ کرام سے کپڑے کے جس موزے پر مسح کرنا ثابت ہے، وہ اپنی ضخامت اور مضبوطی کے اعتبار سے چمڑے کے موزے کے ہم مثل ہوا کرتا تھا ، چونکہ وہ موزہ چمڑے کے موزہ کے حکم میں ہوجاتا تھا ،اس لیے بطور دلالت اس موزے پر بھی مسح کرنا درست ہے ، کپڑے کا موزہ چمڑے کے موزہ کے حکم میں کب ہوگا ؟ فقہا ئے کرام نے چمڑے کے موزے کی خصوصیات کو سامنے رکھ کر اس کے لیے تین شرطیں لکھی ہیں :
1۔ اس میں پانی نہ چھنتا ہو ۔
2۔ کھڑا رکھنے کے لیے کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہ ہو بلکہ خود بخود ٹکا ر ہے ۔
3۔ اسے پہن کر میل دو میل چلا جاسکتا ہو ۔
لہٰذا صحابہ کرام سے جس کپڑے پر مسح کرنا منقول ہے ، وہ اپنی مضبوطی اور دبیز ہونے کی وجہ سے چمڑے کے حکم میں شامل تھا اور چمڑے کے موزے پر مسح سے متعلق اللہ کے رسول ﷺ کا قول و عمل ان کے سامنے تھا جس کے پیش نظر وہ ان موزوں پر مسح کرتے تھے اور چونکہ چمڑے کے موزے پر مسح سے متعلق روایات متواتر ہیں ، اس سے ان کے ذریعہ قرآن حکیم میں وارد کسی عام لفظ میں تخصیص کی جاسکتی ہے یعنی کسی خاص صورت میں اس حکم کو ترک کیاجاسکتا ہے ۔
ہر طرح کے موزوں پر مسح کے جائز ہونے کے سلسلہ میں بعض لوگوں نے اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے :
’’عن ثوبان قال بعث رسول اللّٰہﷺ سریۃ فاصابھم البرد فلما قدموا علی النبیﷺ شکوا الیہ ما اصابھم من البرد، فامرھم ان یمسحوا علی العصائب والتساخین، رواہ احمد وابوداؤد‘‘.
’’حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر جہاد کے لیے روانہ فرمایا ، منزل مقصود پر جاکر انہیں ٹھنڈک لگ گئی ، واپسی پر اللہ کے رسول ﷺ کو اس سے متعلق باخبر کیا تو آپؐ نے فرمایا ایسے موقع پر اپنے عمامے اور موزے پر مسح کیاکرو ‘‘۔(نیل الاوطار:166/1)
اس حدیث میں وارد لفظ تساخین کی عمومیت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے کہ لغوی اعتبار سے ہر اس چیز کو کہاجائے گا جس سے قدم کو گرمی حاصل ہو ، ’’ویقال اصل ذلک کل ما یسخن بہ القدم‘‘(حوالہ مذکور۔) حالانکہ حدیث کے راوی نے خود وضاحت کر دی ہے کہ اس سے مراد ’’خف‘‘ (چمڑے کا موزہ ) ہے اور حدیث کے بیشتر شارحین نے بھی اس کی تائید کی ہے ،(1)دوسرے یہ کہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ لفظ عربی نہیں بلکہ فارسی ہے ، اصل لفظ ’’تشکن‘‘ ہے اور اسے عربی میں ’’تسخان‘‘ کر دیا گیا ہے اور مراد اس سے ایک خاص قسم کی ٹوپی ہے جو اس دور میں علماء اور مذہبی پیشوا وغیرہ پہنا کرتے تھے ،(2) نیز اگر مان لیا جائے کہ موزے کے لیے عام لفظ استعمال کیا گیا ہے تو عمامہ کے لیے بھی استعمال شدہ لفظ بالکل عام ہے کہ ہر اس چیز کو ’’عصابہ ‘‘ کہاجائے گا جسے سر پہ لپیٹ دیاجائے ( ’’ کل ما عصبت بہ راسک‘‘) اور ایک دوسری روایت میں ’’خمار‘‘ پر مسح کا ذکر ہے اور لغوی اعتبار سے ہر اس چیز کو ’’خمار ‘‘کہا جائے گا جس سے سر ڈھکنے کا کام لیا جاتا ہو ، ’’ (کل ما سترشیئا فھو خمارہ‘‘) ( نیل الاوطار:166/1)
لہٰذا لفظ کی عمومیت کا خیال کرتے ہوئے مسح کے لیے ٹوپی اور سر پہ بندھی ہوئی دستار اتارنے اور ہٹانے کی ضرورت نہیں رہ جائے گی بلکہ جسم کے دیگر حصوں پر بھی کپڑا لپیٹ لیجیے تاکہ وضو کرنے کی زحمت ہی نہ رہے۔
علاوہ ازیں اسنادی حیثیت سے حدیث ضعیف بھی ہے ، چنانچہ اما م احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ’’ لاینبغی ان یکون راشد بن سعد سمع من ثوبان لانہ مات قدیما ‘‘۔ (حوالہ مذکور)
فقہاء کی رائیں :
چمڑے کے موزے پر مسح کے سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اتفاق ہے کہ اس پر مسح کرنا درست ہے اور کپڑے کا وہ موزہ جس کے دونوں طرف چمڑا لگا ہو، جسے مجلد کہا جاتا ہے یا اس کے تلوے میں چمڑا لگا ہوتو اس پر بھی مسح کرنا بہ اتفاق درست ہے اور کپڑے کا وہ موزہ جس میں مذکورہ تین شرطیں پائی جارہی ہوں اس کے سلسلہ میں اختلاف ہے ، جمہور فقہاء اس پر بھی مسح کے قائل ہیں کیونکہ یہ بھی اپنی خصوصیات کے اعتبار سے چمڑے کے حکم میں آجاتا ہے اور امام ابوحنیفہ اس بنیاد پر اس سے اختلاف کرتے رہے کہ چمڑے کے حکم میں نہیں آتا کیونکہ اسے پہن کر مسلسل چلنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کے نچلے حصے میں چمڑا لگا ہو مگر اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے جمہور فقہاء کے نقطہ نظر کو اختیارکر لیا تھا ، اس لیے اب بہ اتفاق کپڑے کے ایسے موزے پر جس میں مذکورہ تینوں شرطیں پائی جائیں مسح کرنا درست ہے ،(البدائع:83/1، المغنی: 374/1)لیکن کپڑے کے جس موزے میں مذکورہ تینوں شرطیں نہ پائی جائیں اس پر مسح کے جائز نہ ہونے پر بھی تمام فقہاء کااتفاق ہے ، چنانچہ علامہ کاسانی لکھتے ہیں :
’’فان کانا رقیقین یشفان الماء لایجوز المسح علیھما بالاجماع‘‘
’’اگر موزے اس قدر باریک ہوں کہ ان میں سے پانی چھن سکتا ہو تو ایسے موزوں پر مسح جائز نہیں ہے ‘‘۔(حوالہ مذکور)
فقہاء کرام نے کپڑے کے موزے پر مسح کے لیے جو شرائط عائد کی ہیں اور باریک موزے پر مسح کو درست قرار نہیں دیا ہے وہ شرطیں ان کے ذہن کی پیداوار نہیں ہیں ، بلکہ وہ شرائط قرآن وحدیث میں غواصی اور گہری سوچ و فکر کا نتیجہ ہت ، یہ لوگ قرآن وحدیث کے ماہر شناور اور باتوں کی تہ تک پہنچنے والے تھے ، چنانچہ علامہ صنعانی ان شرائط کے ماخذ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اذا عرفت فللمسح عند القائلین بہ شرطان: الاول ھو ما اشار الحدیث ھو لبس الخفین مع کمال طہارۃ القدمین…والثانی مستفاد من مسمی الخف فان المراد بہ الکامل لانہ المتبادر عند الاطلاق وذلک بان یکون ساترا قویا مانعا نفوذ الماء غیر مخرق فلا یمسح علی مالا یستر العقبین ولا علی مخرق یبدو منہ محل الفرض ولاعلی منسوج اذ لا یمنع نفوذ الماء‘‘
’’جب تم نے موزے پر مسح کا جائز ہونا جان لیاہے تو جو لوگ اس کے قائل ہیں ان کے نزدیک مسح درست ہونے کے لیے دو شرط ہے : ایک یہ کہ موزے پہنتے وقت پیر پاک ہو ……دوسر ی شرط ’’خف‘‘ کے لفظ سے ماخوذ ہے ، کیونکہ اس سے مراد وہ ’’خف‘‘ ہے جو کامل ہو ، اس لیے کہ علی الاطلاق ذہن اسی کی طرف جاتا ہے اور کامل ’’خف ‘‘ وہ ہے جو ساتر اور مضبوط ہو ، اس سے پانی نہ چھنتا ہو اور نہ ہی پھٹا ہوا ہو، لہٰذا ایسے موزہ پر مسح درست نہیں ے ، جس میں ٹخنہ کھلا ہو یا پھٹا ہوا ہو جس کی وجہ سے مقدار مفروض کھلاہوا ہو اور نہ کپڑے کے موزہ پر
کیونکہ اس سے پانی چھن سکتا ہے ‘‘۔( سبل السلام:58/1)
حاصل بحث:
قرآن حکیم نے وضو میں پیر کے دھونے کاحکم دیا ہے ، اس کا تقاضا ہے کہ ہر حالت میں وضو کے لیے پیر دھونا ضروری ہے ، کسی بھی صورت میں مسح کرلینے سے وضو درست نہ ہوگا اور اس حکم کو اسی وقت ترک کیا جاسکتا ہے جب کہ قرآن کی کسی دوسری آیت سے یا کسی حدیث سے جو ثبوتی اعتبار سے آیت قرآنی سے قریب تر ہو ،ایسا کرنا ثابت ہو، چمڑے کا موزہ پہننے کی صورت میں ایسی احادیث ہیں جو بتلاتی ہیں کہ اس وقت پیر دھونے کے بجائے مسح کرلینا کافی ہے ، چونکہ اس طرح کی احادیث متواتر ہیں ، اس لیے اس حالت میں دھونے کے حکم کو ترک کیا جاسکتا ہے اور کپڑے کے موزے پر مسح سے متعلق ایسی کوئی حدیث نہیں ہے اس لیے اس پر مسح کرنا درست نہیں ہے مگر یہ کہ کپڑا اتنا موٹا اور مضبوط ہو کہ وہ چمڑے جیسا ہو تو چمڑے کے حکم میں رکھ کر اس پر بھی مسح درست ہے ، لیکن جس کپڑے میں یہ خصوصیت نہ ہو اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہے ، اس پر تمام فقہا ء کا اتفاق ہے ، لہٰذا سوتی ، اونی اور نائلون کے مروجـہ موزوں پر مسح کرنا کسی بھی فقیہ کے نزدیک درست نہیں ہے بلکہ تمام ائمہ مجتہدین نے صراحت کردی ہے کہ ایسے موزوں پر مسح ناجائز ہے ۔

حواشی:
(1)چنانچہ علامہ خطابی نے معالم السنن:56/1 میں ، شوکانی نے نیل الاوطار :166/1؍اور صنعانی نے سبل السلام:60/1 میں ’’تسخان‘‘ کی یہی تشریح کی ہے ۔
(2)( قال حمزۃ الاصفہانی اما التسخان فتعریب تشکن وھواسم غطاء من اغطیۃ الراس کان العلماء والموابذۃ یاخذون علی رؤسھم خاصۃ وجاء فی الحدیث ذکر العمائم والتساخین فقال من تعاطی تفسیرہ ھو الخف حیث لم یعرف فارسیتہ،( تحفۃ الاحوذی:104/1)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے