نماز میں ہاتھ باندھنے کی جگہ ۔
ولی ﷲ مجید قاسمی ۔
امام ابوحنیفہ کے نزدیک نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا افضل ہے ، امام احمد بن حنبل سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے اور عام طور پر ان کے ماننے والوں کا عمل اسی پر ہے اور امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے اور اسی کو ابواسحاق مروزی ، شافعی نے اختیار کیا ہے اور یہی رائے امام بخاری کے استاذ اسحاق راہویہ کی ہے ، جن کی خواہش پر انہوں نے صحیح بخاری لکھی ہے ، مشہور محدث سفیان ثوری، امام نخعی اور کوفہ کے دوسر ے علماء اور تابعین میں ابو مجلز اور صحابہ کرام میں سے حضرت علیؓ اور حضرت ابوہریرہؓ اسی کے قائل ہیں ۔(دیکھیے: المغنی :141/2،تحفۃ الاحوذی:561/1، معارف السنن:436/2، فتح الغفور :86، تحقیق ضیاء الرحمن اعظمی ۔)
امام احمد بن حنبل کا دوسرا قول یہ ہے کہ ناف کے اوپر باندھنا بہتر ہے ، تابعین میں سے حضرت سعید بن جبیر سے یہی منقول ہے ، امام مالک کا ایک قول یہی ہے اور امام شافعی کا مشہور قول بھی یہی ہے ، اور اسی پر ان کے ماننے والوں کا عمل ہے اور امام نووی وغیرہ نے اسی کو ترجیح دی ہے ۔(دیکھیے: المغنی :141/2،المجموع للنووی :313/3، فتح الغفور:91)
امام شافعی کا تیسرا قول یہ ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھنا افضل ہے ، یہ ایک غیر معروف قول ہے (وھی روایۃ نادرۃ، معارف السنن:436/2)اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ طریقہ مکروہ ہے ، علامہ ابن قیم بھی اس کی کراہیت کے قائل ہیں ۔(بدائع الفوائد:91/3، مسائل الامام احمد لابی داؤد:31)
حاصل یہ ہے کہ صحابہ ، تابعین اور ائمہ کے دور تک دو ہی طریقے مشہور تھے، ایک ناف کے نیچے باندھنا ، دوسرے ناف کے اوپر اور سینے کے نیچے ،اور ان دونوں طریقوں میں اختلاف محض افضل اور غیر افضل کا ہے ، جائز دونوں طریقے ہیں ،(1)سینے پر ہاتھ باندھنے کے قائل مشہور اماموں میں صرف امام شافعی ہیں اور وہ بھی غیر معروف قول ہے ، صحابہ اور تابعین میں سے کسی کا عمل اس کے مطابق منقول نہیں ہے اور یہ طریقہ اتنا غیر معروف تھا کہ امام ترمذی جیسے صحابہ و تابعین اور ائمہ کے اقوال پر وسیع نگاہ رکھنے والے محدث نے سرے سے اس کا ذکر ہی نہیں کیا ہے ، چنانچہ وہ نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق روایت کے ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
’’والعمل علی ھذا عند اھل العلم من اصحاب النبیﷺ والتابعین ومن بعدھم یرون ان یضع الرجل یمینہ علی شمالہ فی الصلاۃ و رأی بعضھم ان یضعھما فوق السرۃ و رأی بعضھم ان یضعھما تحت السرۃ، وکل ذلک واسع عندھم‘‘
’’صحابہ کرام ، تابعین اور بعد کے اہل علم حضرات کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ نمازی نماز کی حالت میں اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے اور ان میں سے کچھ لوگ ناف کے اوپر اور کچھ لوگ ناف کے نیچے رکھنے کے قائل ہیں اور یہ دونوں طریقے ان کے یہاں جائز ہیں اور اس میں کوئی تنگی نہیں ہے ‘‘۔۔ (جامع ترمذی مع التحفۃ:561/1)۔
سینے پر ہاتھ باندھنے کے دلائل:
جولوگ سینے پر ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں ، ان کے دلائل یہ ہیں :
1۔حدثنا مؤمل قال حدثنا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر قال صلیت مع رسول اللّٰہﷺ فوضع یدہ الیمنی علی یدہ السری علی صدرہ‘‘
’’حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ہے ، میں نے دیکھاکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینے کے اوپر رکھا ‘‘۔ (صحیح ابن خزیمہ:243/1)
یہ روایت حضرت وائل بن حجر سے تقریباً تیس سندوں سے منقول ہے ، جن میں سے ایک سند صحیح مسلم میں بھی ہے اور ان میں سے کسی میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنا مذکور نہیں ہے ، صرف ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے ، کہاں باندھا جائے ، اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔
اسی طرح سے حدیث کے ایک راوی حضرت سفیان ثوری کے متعدد شاگردوں نے ان سے مذکورہ حدیث کو اس اضافے کے بغیر نقل کیا ہے ، صرف ’’مؤمل‘‘ نے یہ زائد بات نقل کی ہے ،(دیکھیے: حاشیہ نصب الرایۃ:316/1، معجم طبرانی: 50/22) جنہیں امام بخاری ’’منکر الحدیث‘‘ کہتے ہیں ، اور جسے امام بخاری ’’منکر الحدیث ‘‘ کہتے ہیں،وہ ان کی نگاہ میں جھوٹا راوی ہوتا ہے اور اس سے روایت لینا حلال نہیں ہے ، (2) امام بخاری کی اس تنقید کو امام ذہبی اور علامہ ابن حجر جیسے امام فن اور قابل اعتماد لوگوں نے نقل کیا ہے ، اس لیے اگر امام بخاری نے ’’تاریخ کبیر‘‘ میں ان کے تعلق سے خاموشی اختیار کی ہے تو اس کی وجہ سے اس نقل میں شک پیدا کرنے کی کوشش ناروا ہے ۔
مؤمل کے متعلق اما م ابوحاتم اور ابو زرعہ کہتے ہیں کہ بہت زیادہ غلطی کرنے والا ہے ، اس کی روایتوں میں بہت ساری غلطیاں ہیں ،( الجوہر النقی مع السنن الکبریٰ للبیہقی:30/2)
محمد بن نصر مروزی کہتے ہیں کہ مؤمل
جب کسی روایت میں منفرد ہو تو اس میں توقف اختیار کرنا چاہیے ، اس لیے کہ اس کا حافظہ بہت خراب اور وہ بکثرت غلطیاں کرنے والا ہے ،( اعلاء السنن:196/2) حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس کی یادداشت بہت بری تھی ۔(التقریب:555۔)
علاو ہ ازیں مؤمل کے استاذ حضرت سفیان ثوری کا عمل اس روایت کے برخلاف ہے ، وہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمزور یادداشت اور بکثرت غلطی کرنے والے نے روایت کے نقل کرنے میں ٹھوکر کھائی ہے ۔
2۔’’قبیصۃ بن ھلب عن ابیہ قال رأیت النبیﷺ ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیت یضع یدہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنی علی الیسری فوق المفصل‘‘
’’قبیصہ بن ہلب اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ نبی ﷺ (نماز کے بعد ) کبھی دائیں طرف سے مڑتے اور کبھی بائیں طرف سے اور انہوں نے آپؐ کو سینے پرہاتھ رکھتے ہوئے دیکھا ، حدیث کے راوی یحییٰ بن سعید نے اس کی کیفیت یہ بتلائی کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر گٹوں کے اوپر رکھا‘‘۔(مسند احمد:226/5،الفتح الربانی:415/1)
اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ امام احمد بن حنبل نے نقل کیا ہے لیکن یہی روایت قبیصہ بن ہلب کے حوالے سے دوسری سند کے ذریعے خود مسند احمد بن حنبل میں ہے لیکن اس میں ہاتھ سینے پر رکھنے کا ذکر نہیں ہے ، اسی طرح سے ابن ابی شیبہ ، ابو داود، ترمذی ، ابن ماجـہ، دارقطنی وغیرہ نے بھی قبیصہ کے حوالے سے روایت کی ہے اور ان میں سے کسی نے اس اضافہ کو نقل نہیں کیا ہے اور اس اضافہ کو ذکر کرنے والے راوی سماک بن حرب کے متعلق خود اما م احمد بن حنبل کا بیان ہے کہ وہ حدیث نقل کرنے میں اضطراب کا شکار ہے ، (مضطرب الحدیث )،ابن معین سے پوچھا گیا کہ اس میں کیا عیب ہے ؟ فرمایا کہ بے سند حدیثوں کو سند کے ساتھ نقل کر دیتا ہے’’اسند احادیث لم یسندھا غیرہ‘‘(حاشیہ فتح الغفور:24)امام نسائی کہتے ہیں جب وہ کسی روایت کے نقل کرنے میں منفرد ہوتو لائق حجت نہیں ہے ،(معارف السنن:440/2)اس کے شاگر سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس کی روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے اور وہ پختہ کار محدثین میں سے نہیں تھا ، (تحفۃ الاحوذی:564/1) اور ظاہر ہے کہ شاگرد سے بڑھ کر استاذ کے متعلق کون جان سکتا ہے ، دوسرے خود سفیان ثوری کا عمل اس کے برخلاف تھا ، جیسا کہ گزر چکا ہے ، جس سے معلو م ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ میں یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔
حدیث کے ایک راوی قبیصہ پر بھی کلام کیاگیا ہے ، امام نسائی اور ابن مدینی جیسے محدثین اور ناقد حدیث نے انہیں مجہول کہا ہے کہ ان کا کچھ اتا پتا نہیں ہے ۔(حاشیہ فتح الغفور:24)
سماک بن حر ب کی اس خصوصی صفت کا زیادہ تر لوگوں نے ذکر کیاہے کہ وہ حدیثوں کو الٹ پلٹ دیتا تھا ، جس کا مشاہد ہ اس روایت میں بھی کیاجاسکتا ہے کہ عام طور پر دوسرے راویوں نے قبیصہ بن ہلب کے حوالے سے صرف دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا ذکر کیا ہے ، کہاں رکھا جائے اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ، گویا کہ روایت کے الفاظ یہ تھے کہ ’’یضع ھذہ علی ھذہ‘‘ اس ہاتھ کو اس ہاتھ پر رکھتے تھے اور اسی کو اس نے ’’یضع ھذہ علی صدرہ‘‘ کردیا ، اس تبدیلی کا اندازہ روایت کے آخر میں یحییٰ بن سعید قطان کے بیان کردہ کیفیت سے بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے حدیث کی تشریح دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ رکھنے سے کی ہے اور سینے پر رکھنے کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے ۔(التعلیق الحسن علی آثار السنن:68/1)
3۔’’عن طاؤس قال کان رسول اللّٰہﷺ یضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری ثم یشد بینھما علی صدرہ و ھو فی الصلاۃ‘‘( سنن ابوداؤد: 350/2مع العون)
’’حضرت طائوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھ لیتے تھے ‘‘۔
حضرت طائوس کی اس روایت کی سند متصل نہیں ہے ، کیونکہ وہ صحابی نہیں ہیں اور انہوں نے یہ روایت کسی صحابی سے سنی ہے یا کسی تابعی سے ؟ اس کا کچھ اتا پتا نہیں ہے ، دوسرے ان سے روایت نقل کرنے والے سلیمان بن موسیٰ کے متعلق امام بخاری کہتے ہیں کہ ان کے پاس منکر روایتیں ہیں (عندہ مناکیر)امام نسائی کابیان ہے کہ وہ مضبوط راوی نہیں ہے ،(التعلیق الحسن:68) ابوحاتم کہتے ہیں کہ ہے تو سچا مگر اس کی روایتوں میں کچھ اضطراب ہے ، ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ فقیہ اور سچا آدمی ہے لیکن اس کی روایتوں میں کچھ کمزوری بھی ہے اور مرنے سے پہلے اختلاط کا شکار ہوگیا تھا ۔(حاشیہ فتح الغفور:27)
اور ان سے روایت لینے والے ثور بن یزید کے متعلق ابن حجر لکھتے ہیں کہ ثقہ ہے لیکن تقدیر کا منکر ہے ، ابن سعد کہتے ہیں کہ اس کے دادا جنگ صفین میں حضرت علیؓ کے مخالفین میں شامل تھا اور لڑائی میں مارا گیا ،اس لیے جب اس کے سامنے حضرت علیؓ کانام آتا تو کہتا کہ میں ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو میرے دادا کا قاتل ہے ،(حوالہ مذکور) جو شخص تقدیر کا منکر ہو اور حضرت علیؓ سے بغض رکھتا ہو وہ قابل اعتماد کیسے ہوسکتا ہے ؟؟؟
4۔ حضرت علیؓ ، ابن عباسؓ اور حضرت انسؓ کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے قرآنی آیت ’’فصل لربک وانحر‘‘میں’’نحر‘‘ کی تفسیر سینے پر ہاتھ باندھنے سے کی ہے ، لیکن اس کے راویوں پر بڑی سخت جرح کی گئی ہے ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے منقول روایت کے ایک راوی روح بن مسیب کے متعلق علامہ ابن حبان کہتے ہیں کہ ثقہ راویوں کی طرف نسبت کرکے وہ موضوع حدیثوں کو بیان کرتا تھا ، دوسرے راوی عمرونکری کے متعلق ابن عدی کہتے ہیں کہ وہ منکر الحدیث اور حدیثوں کے سلسلہ میں چور تھا ۔( الجوہرالنقی:30/2)
حضرت علیؓ سے متعلق روایت کے سلسلہ میں ابن الترکمانی کہتے ہیں کہ اس کی سند و متن میں اضطراب ہے ،(حوالہ مذکور:29/2)ابن کثیر کہتے ہیں کہ صحیح نہیں ہے ،(تفسیر ابن کثیر:528/8) اور علامہ ساعاتی کا بیان ہے کہ اس تفسیر کی نسبت حضرت علیؓ و ابن عباسؓؓ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے کہا ہے ، صحیح یہ کہ’’ نحر‘‘ سے مراد جانور کی قربانی ہے ۔(۳(۳)الفتح الربانی:516/1)
یہی حال حضرت انسؓ سے منقول روایت کا بھی ہے کہ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے جس کا نام مذکور نہیں ہے ۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کے دلائل:
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے دلائل یہ ہیں :
1۔’’عن علی بن ابی طالب قال السنۃ وضع الکف علی الکف فی الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(
’’حضرت علی بن ابی طالب کہتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھاجائے ‘‘۔۔( سنن ابی داؤدمع العون:350/2،الفتح الربانی:315/1)
صحابی جب کسی عمل کے متعلق کہے کہ یہ سنت ہے تو اس سے مراد نبی ﷺ کی سنت ہوتی ہے ،(نصب الرایۃ:314/1)بلکہ یہ لفظ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا یا کہا جیسے الفاظ سے زیادہ اہم ہے ، کیونکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے رسول ﷺ کے عمومی اور اکثریتی عمل کو بیان کیاجاتا ہے ۔
اس حدیث کے ایک راوی عبدالرحمن بن اسحاق پر کلام کیاگیاہے ، امام احمد اور ابوحاتم کہتے ہیں کہ منکر الحدیث ہے ، ابن معین کا خیال ہے کہ یہ بے حیثیت ہے (لیس بشییٔ) ، امام نسائی نے ضعیف کہا ہے اور امام بخاری کہتے ہیں کہ ’’فیہ نظر‘‘(حوالہ مذکور) لیکن اس کے برخلاف محدث اور ناقد حدیث امام عجلی کہتے ہیں کہ اس سے روایت لینا جائز ہے اور اس کی حدیث لکھی جائے گی ،( اعلاء السنن:193/2) اور علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ امام ترمذی نے یہ کہنے کے باوجود کہ یاد داشت کے اعتبار سے ان پر کلام کیاگیا ہے ، ان کی ایک حدیث کو حسن قرار دیا ہے اور امام حاکم نے ان کی سند سے منقول ایک روایت کو صحیح کہا ہے ، اسی طرح سے ابن خزیمہ نے اپنی کتاب میں ان سے روایت لی ہے اور کہا ہے کہ عبدالرحمن کے سلسلہ میں دل میں کچھ ہے ۔( حاشیہ نصب الرایۃ:314/1)
2۔ ’’قال ابوھریرۃ اخذ الکف علی الکف فی الصلاۃ تحت السرۃ‘‘
’’حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ نماز میں ہاتھ کو ہاتھ پر رکھ کے ناف کے نیچے باندھنا ہے ‘‘۔۔( سنن ابی داؤد مع العون: 350/2، المحلی:74/4)
یہ روایت بھی عبدالرحمن کے واسطے سے منقول ہے ، جسے عام طور پر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ، لیکن روایت کی صحت پر اس کی وجہ سے کوئی خاص اثر نہیں پڑتا ہے ، اس لیے کہ یہ امام ابوحنیفہ اور دوسرے لوگوں نے اس روایت کو سیار بن ابی الحکم سے لیا ہے جوان کے استاذ ہیں ۔( اوجزالمسالک:15/2)
4۔’’ عن وائل بن حجر قال رأیت النبیﷺ یضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاۃ تحت السرۃ‘‘
’’وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے ہوئے دیکھا ‘‘۔
ابن ابی شیبہ نے اسے نقل کیا ہے اور سند کے اعتبار سے بالکل بے غبار ہے ، اس کے تمام راوی قابل اعتماد ہیں ، البتہ مصنف ابن ابی شیب کے دستیاب نسخوں میں ’’تحت السرۃ‘‘
موجود نہیں ہے لیکن حافظ حدیث علامہ قاسم بن قطلوبغا، علامہ محمد ابو الطیب، شیخ عابد اور شیخ قائم سندھی جیسے محدثین نے مصنف ابن ابی شیبہ میں ’’تحت السرۃ‘‘(ناف کے نیچے) کے اضافہ کے ساتھ دیکھا ہے ، بلکہ علامہ محمد قائم سندھی کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ بیشتر نسخوں میں موجود ہے ، اس لیے کسی نسخہ میں نہ ہونا نقصان دہ نہیں ہے ، جیسے کہ صحیح بخاری کے متعدد نسخے ہیں ، جن میں کمی بیشی پائی جاتی ہے اور شارحین حدیث نے ان تمام اضافوں کو قبول کیا ہے ۔ ( حاشیہ فتح الغفور:53، اعلاء السنن:199/2، شیخ محمد عوامہ کی تحقیق کے ساتھ مصنف ابن ابی شیبہ شائع ہوئی ہے ،اس میں یہ اضافہ موجود ہے)
4۔’’عن انس قال ثلث من اخلاق النبوۃ تعجیل الافطار وتاخیر السحور ووضع الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ تحت السرۃ‘‘.
’’حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ تین چیزیں نبوت کے اخلا ق میں سے ہیں ، افطار کے لیے جلدی کرنا اور سحری کے لیے تاخیر کرنا اور نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھنا ‘‘۔۔(المحلی:74/4)
علامہ ابن حزم وغیرہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور نہ تو اس کی کوئی سند ذکر کی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی کلام کیا ہے ، چونکہ اس کی سند معلوم نہیں ہے اس لیے یہ ضعیف ہے ۔
5۔ حضرت ابراہیم نخعی اور ابو مجلز جیسے جلیل القدر تابعین سے نماز میں ہاتھ باندھنے کی کیفیت سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھا جائے اور خود ان کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ: 39/1،سنن البیھقی مع الجوہر:31/2)
ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے والوں کے دلائل :
1۔’’ عن جریر الضبی قال رأیت علیا یمسک شمالہ بیمینہ علی الرسغ فوق السرۃ‘‘۔
’’حضرت جریر ضبی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کودیکھا کہ وہ اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں سے گٹے کے پاس ناف کے اوپر پکڑے ہوئے تھے‘‘۔ (سنن ابی داؤد:350/2 مع العون)۔
اس روایت کا ایک راوی جریر ضبی غیر معروف ہے ، اس کے حالات کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہے، اسی طرح سے دوسرے اور تیسرے راوی پر بھی کلام ہے ، (عون المعبود:135/2، معارف السنن:441/2)اور یہی وجہ ہے کہ علامہ البانی وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔(ضعیف سنن ابی داؤد للالبانی رقم: 130)
2۔ حضر ت ابو الزبیر کہتے ہیں کہ حضرت عطا ء نے مجھ سے کہا کہ سعید بن جبیر (جلیل القدر تابعی)سے معلوم کرو کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں ، ناف کے نیچے یا اوپر ، میں نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ناف کے اوپر ۔(سنن البیہقی:31/2)
اس روایت کے ایک راوی یحییٰ بن ابی طالب پر کلام کیا گیا ہے ، یہاں تک کہ بعض محدثین نے ان کی طرف جھوٹ کی نسبت کی ہے ۔(ملحق رقم (2)از ضیاء الرحمن اعظمی مع الفتح الغفور:91۔)
حاصل گفتگو :
حاصل یہ ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے کی جگہ سے متعلق کوئی صریح اور صحیح حدیث موجود نہیں ہے ، چنانچہ علامہ ابن المنذر کہتے ہیں :
’’ لم یثبت من النبیﷺ فی ذلک شییٔ‘‘
’’اس مسئلے میں نبی ﷺ سے کچھ ثابت نہیں ہے ‘‘۔
البتہ ناف کے اوپر اور نیچے باندھنے کے سلسلہ میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کا عملی تواتر موجود ہے اور چار مشہور اماموں نے انہیں دونوں طریقوں میں سے کسی ایک کو اختیار کیا ہے ، سینے پر ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں نہ تو کوئی صحیح حدیث موجود ہے اور نہ صحابہ وتابعین کا عمل ، دوسرے ہاتھ باندھنے سے متعلق بعض صحیح حدیثوں کی اگر عملی شکل اختیار کی جائے تو ہاتھ بلاتکلف یا تو ناف کے نیچے پہنچے گا یا اوپر لیکن سینے پر کسی بھی حال میں نہیں پہنچ سکتا ہے ، جیسے یہ روایت :
1۔’’عن وائل بن حجرانہ رأی النبیﷺ رفع یدیہ حین دخل فی الصلاۃ وکبرثم التحف بثوبہ ثم وضع الیمنی علی الیسریٰ… رواہ احمد ومسلم، وفی روایۃ الاحمد وابی داؤد ثم وضع یدہ الیمنی علی کفہ الیسری والرسغ والساعد‘‘.
’’حضرت وائل بن حجر نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپؐ نے نماز میں داخل ہوتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور تکبیر کہی ، پھر اپنے کپڑے میں لپٹ گئے اور پھر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا ، اس کی روایت امام احمد اور مسلم نے کی ہے اور امام احمد اور ابو داؤد نے یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں کہ آپ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی ، گٹہ اور کلائی پر رکھا ‘‘۔ (نیل الاوطار:186/2)
علامہ البانی کہتے ہیں کہ امام احمد اور ابوداؤد کی اس روایت کی سند متصل ہے اور صحیح مسلم کے مطابق ہے ،( اصل صفۃ الصلاۃ:209/1)امام احمد نے اسی روایت کو دوسری سند سے نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ۔
2۔’’رأیت رسول اللّٰہﷺ یضع یدہ الیمنی علی الیسری قریبا من الرسغ…‘‘
’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپؐ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر گٹے کے قریب رکھتے تھے ‘‘۔(حوالہ مذکور)
حضرت وائلؓ سے مذکور ہ روایت کے الفاظ سے مجموعی طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے اور انگلیاں گٹے اور کلائی پر ہوتی تھیں ، اس کیفیت کے ساتھ اگر ہاتھ کو باندھا جائے تو وہ ناف سے نیچے ہی ہوگا یا زیادہ سے زیادہ ناف کے اوپر ۔
3۔ ’’عن سھل بن سعد قال کان الناس یؤمرون ان یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلاۃ، رواہ احمد والبخاری‘‘(نیل الاوطار:187/2)
’’سہل بن سعد کہتے ہیں کہ لوگوں کو حکم دیاجاتا تھا کہ وہ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھیں ، اس حدیث کو امام احمد اور بخاری نے نقل کیا ہے ‘‘۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ اس روایت میں کلائی کی جگہ غیر متعین ہے کہ اس کے کس حصے پر دایاں ہاتھ رکھا جائے گا اور ابو داؤد و نسائی کی روایت میں اس کی تعیین کر دی گئی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی کلائی گٹے اور ہتھیلی پر رکھتے تھے (فتح الباری:933/1)یہی بات علامہ شوکانی نے بھی لکھی ہے ۔(نیل الاوطار:187/2)
اگر کسی کو اصرار ہو کہ کلائی ، کہنی تک کے حصہ کو کہا جاتا ہے تو اسے مان لینے کے باوجود سینے پر ہاتھ نہیں پہنچے گا ، بس ناف کے اوپر تک رہے گا ، بے تکلف تجربہ شرط ہے ۔
حواشی:
(1) کل ذلک واسع عندھم، ان الاختلاف بینھم فی الوضع فوق السرۃ وتحت السرۃ انما ھو فی الاختیار والافضلیۃ، (تحفۃ الاحوذی:561/1)
(2)وکذلک قولہ منکرالحدیث یرید بہ الکذابین نقل ابن القطان ان البخاری قال کل من قلت منکرالحدیث فلا تحل الروایۃ عنہ (الباعث الحثیث شرح اختصار علوم الحدیث)