دوسری جماعت۔

ولی ﷲ مجید قاسمی

علامہ البانی لکھتے ہیں کہ سعید بن منصور نے حضرت انسؓ کے متعلق نقل کیا ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے ، وہاں جماعت ہوچکی تھی ، انہوں نے ایک شخص سے اذان اور اقامت کے لیے کہا اور اس کے ساتھ باجماعت نماز ادا فرمائی ، امام بخاری نے تعلیقاً اس کی روایت کی ہے اور امام بیہقی نے مسلسل اور صحیح سند کے ساتھ اسے نقل کیا ہے ، بعض لوگوں نے اسے ایک مسجد میں متعدد جماعت کے لیے دلیل بنایا ہے لیکن اس سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ روایت موقوف ہے یعنی صحابی کا عمل ہے ، دوسرے صحابہ میں سے ایسے لوگوں سے اس کے برخلاف منقول ہے جو حضرت انسؓ سے زیادہ فقیہ ہیں اور وہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہیں ،چنانچہ محد ث عبدالرزاق اور طبرانی نے بسند حسن نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت علقمہ و اسود کے ساتھ مسجد آئے ، وہاں جماعت ہوچکی تھی ، وہ ان کو لے کر گھر واپس ہوگئے اور وہاں جماعت سے نماز پڑھی ۔
اگرمسجد میں دوسری جماعت مطلقاً جائز ہوتی تو عبداللہ بن مسعود گھر جاکر جماعت نہ کر تے ، اس لیے کہ فرض کی ادائیگی مسجد میں افضل ہے ، ان کے اس عمل کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے صحابی کا یہ عمل مرفوع حدیث کے حکم میں آجاتا ہے ، چنانچہ حضرت ابوبکرہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ مدینہ کے اطراف سے نماز کے لیے مسجد آئے ، دیکھا کہ جماعت ہوچکی ہے ، وہاں سے گھر آگئے اور گھر والوں کو جمع کر کے ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی ، اس حدیث کی سند حسن ہے ، ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں ۔
اور حضرت انسؓ کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ اس مسجد میں کوئی متعین امام اور موذن نہ رہا ہو ، اور اس طرح کی مسجد میں دوسری جماعت مکروہ نہیں ہے ، اس تاویل کی وجہ سے دونوں طرح کی روایتوں میں موافقت پیدا ہوجاتی ہے اور کوئی اختلاف نہیں رہ جاتا ہے ۔
اس سلسلہ میں امام شافعی نے بڑی اچھی بات لکھی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ :
’’اگر کوئی شخص کسی مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے کاعادی ہو اور کسی دن اس کی جماعت چھوٹ گئی تو اگر وہ دوسری مسجد کی جماعت میں جاکر شریک ہوجائے تو زیادہ اچھا ہے اور اگر اپنی مسجد میں تنہا پڑھ لے تو یہ بھی اچھا ہے ، اور اگر کسی مسجد میں امام متعین ہو اور کسی دن ایک شخص کی یا متعدد لوگوں کی جماعت چھوٹ جائے تو یہ لوگ تنہا نماز پڑھیں اور ان کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا میرے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے اور اگر جماعت کے ساتھ پڑھ لیں تو ان کی نماز ہوجائے گی اور یہ مجھے ناپسند اس لیے ہے کہ ہم سے پہلے کے لوگوں نے ایسا نہیں کیا ہے، سلف سے یہ منقول نہیں ہے بلکہ کچھ لوگوں نے اس پر نکیر کی ہے اور جن لوگوں نے اسے ناپسند کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے مسلمانوں میں انتشار پھیلے گا ، ایک شخص مسجد کے امام سے کسی وجہ سے ناراض ہوگا اور اس کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھنا چاہے گا تو وہ اور اس کے ساتھی جماعت میں شریک نہیں ہوں گے اور نماز ہونے کے بعد آئیں گے اور دوبارہ جماعت بناکر نماز پڑھ لیں گے ، اس کی وجہ سے اختلاف برپا ہوگا اور انتشار کی کیفیت پیدا ہوگی اور یہ ناپسندیدہ ہے اور میرے نزدیک یہ ناپسندیدہ اس وقت ہے جب کہ اس مسجد میں امام اور مؤذن مقرر ہوں ، رہی وہ مسجدیں جو راستے کے کنارے پر بنی ہوں یا کسی ایسے گوشے میں جہاں کے لیے امام مقرر نہ ہو اور مسافر وہاں نماز پڑھتے ہوں ، آرام کرتے ہوں تو ایسی مسجد میں مکروہ نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کی وجہ سے انتشار نہیں ہوگا ، ……اور ہمیں یاد ہے کہ کچھ لوگ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ جماعت میں شریک نہ ہوسکے تو انہوں نے انفرادی نماز پڑھی ، حالانکہ وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے پر قادر تھے ‘‘۔
علامہ البانی کہتے ہیں کہ امام شافعی نے یہ روایت بغیرکسی سند کے نقل کی ہے لیکن اسی طرح کی روایت حضرت حسن بصری سے موصولاً منقول ہے ، وہ نقل کرتے ہیں کہ :
’’کان اصحاب محمدﷺ اذا دخلوا المسجد وقد صلی فیہ صلوا فرادی‘‘ (رواہ ابن ابی شیبۃ:۲/۲۲۳)
’’صحابہ کرام اگر کسی مسجد میں پہنچتے اور وہاں نماز ہوچکی ہوتی تو تنہا تنہا نماز ادا کرتے‘‘۔
اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ ایسی مسجد میں جس میں امام متعین ہو ،دوسری جماعت جائز نہیں ہے ، اسی طرح کا قول امام مالک سے بھی منقول ہے ، حاصل یہ ہے کہ جمہور مذکورہ تفصیل کے ساتھ دوسری جماعت کو مکروہ سمجھتے ہیں اور یہی صحیح ہے اور وہ حدیث اس کے برخلاف نہیں ہے جس میں مذکور ہے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور اللہ کے رسولؐ اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھ چکے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون اس پرصدقہ کر ے گا ، اس طور پر اس کے ساتھ نمازپڑھ لے ، قوم میں سے ایک شخص اٹھا اور اس کے ساتھ نماز پڑھی ۔(رواہ احمد وابودائود والترمذی وحسنہ، فقہ السنہ:۱/۲۲۰)
اس لیے کہ اس روایت سے زیادہ سے زیادہ جو بات ثابت ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے ساتھ نماز ادا کرنے والوں کو آمادہ کیا کہ ان میں سے کوئی اس آنے والے کے ساتھ نفلی نماز پڑھ لے تو یہ فرض پڑھنے والے کے پیچھے نفل نماز پڑھنا ہے اور زیر بحث مسئلہ فرض پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے کا ہے ، اس لیے ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ دونوں میں متعدد فرق ہے :
1۔زیر بحث مسئلہ کے سلسلہ میں اللہ کے رسول ﷺ سے کسی طرح کی اجازت منقول نہیں ہے ،حالانکہ آپؐ کے زمانہ میں متعدد لوگوں کی جماعت چھوٹی جیسا کہ حسن بصری کی روایت میں ہے ۔
2۔ اس کی وجہ سے پہلی جماعت کی کثرت متاثر ہوگی ، اس لیے کہ جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ جماعت چھوٹ سکتی ہے تو وہ جلدی کریں گے ، اس طرح سے پہلی جماعت میں بکثرت لوگ حاضر ہوں گے ، لیکن جب یہ معلوم رہے گا کہ دوسری جماعت مل سکتی ہے تو تاخیر کریں گے جس کی وجہ سے جماعت میں افراد کی کمی ہوگی اور تقلیل جماعت مکروہ ہے اور جس صورت کو اللہ کے رسولؐ نے باقی رکھا اس میں یہ قباحت نہیں ہے ، لہٰذا دونوں میں فرق ثابت ہوگیا ۔(تمام المنۃ:۱۵۸)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے