سنت و نفل نماز
||
ولی اللہ مجید قاسمی
سنت و نفل نماز
حقیقت … حکمت … فضیلت
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
اللہ کے آخری پیغمبر ،رحمت کائنات، احمد و محمد ﷺ کے ارشاد و عمل کا نام سنت ہے، آپ کی ہر ادا پر دیوانہ اور فدا ہوجانا ہی زندگی کامقصد ، شیفتگی و فریفتگی کی نشانی اور وارفتگی کی علامت ہے، آپ کے طور و طریق کو اپنانا اور آپؐ کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھال لینا ہی کامرانی و کامیابی ہے۔
ویسے تو رسول اکرم ﷺ کاہر عمل عبادت ہے۔ آپ کا چلنا، پھرنا، اٹھنا بیٹھنا ، ہنسنا ،بولنا ، رہن سہن غرضیکہ پوری زندگی اللہ کی بندگی سے عبارت ہے، آپ کی ہر ادا بندگی کا مظہر ہے، لیکن اصولی اور قانونی اعتبار سے اس کی دو حیثیتیں ہیں:
1۔وہ کام جو آنحضرت ﷺ نے بطور عادت و ضرورت کیا ہو، مثلاً آپ کے لباس کی ساخت اور بناوٹ ، کھانا اور پینا، رفتار و گفتار میں ایک مخصوص لب ولہجہ اور طریقہ، ان جیسے افعال کو علماء اصول ’’سنت زوائد‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، انہیں اختیار کرنا اور ان پر عمل کرنا بہتر اور پسندیدہ ہے۔ اور نہ کرنے والوں پر کوئی نکیراور داروگیر نہیں۔
2۔وہ کام جو آپ ﷺ نے بطور عبادت اور شریعت انجام دیا ہو،اور دوسروں کواس کی ترغیب دی اور اسکی تبلیغ کی ہو ان کو ’’سنت ہدی ‘‘ کہاجاتا ہے۔اور ان کی دو قسمیں ہیں:
(الف)جن کاموں کی حدیث میں بہت زیادہ فضیلت اور تاکید آئی ہو، دوسروں کو ترغیب دینے کے ساتھ خود بھی آنحضور ﷺ نے بہت اہتمام اور مواظبت فرمائی ہو اور کبھی ترک بھی کیا ہوا تو اس غرض سے کہ اسے واجب نہ سمجھ لیاجائے، ایسے اعمال پر ’’سنت موکدہ‘‘ کااطلاق کیا جاتا ہے، جس پر عمل، شرعی اعتبار سے مطلوب ہے اور بغیر کسی عذر کے چھوڑ دینا لائق ملامت وعتاب ہے۔
(ب)جن چیزوں کو آپ ﷺ نے کبھی کیا ہو اور کبھی چھوڑ دیا ہو اسے سنت غیر موکدہ ، مندوب ، مستحب اور تطوع کہا جاتا ہے، ان پر عمل باعث ثواب اور چھوڑنا خلاف اولیٰ و مکروہ تنزیہی ہے۔ ’’سنت غیر موکدہ ‘‘ کو نفل بھی کہا جاتا ہے مگر بعض موقعوں پر سنت موکدہ وغیرہ موکدہ دونوں کیلئے ’’نفل‘‘ کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے، اس لئے کہ ’’نفل ‘‘ کے معنی لغت میں زیادہ اور اضافہ کرنے کے ہیں، چونکہ سنت، فرض اور واجب سے زائد ہے اس کی وجہ سے اس کو ’’نفل‘‘ بھی کہتے ہیں۔
فرائض اور واجبات کیلئے نفل بمنزلہ خادم اور پہریدار ہے، نفل کی حیثیت چراگاہ کے باڑھ کی سی ہے، اس کی مثال اس خندق کی طرح ہے جو شہر کی حفاظت کیلئے چاروں طرف کھود دی جاتی ہے کہ دشمن اسے پار کئے بغیر شہرمیں داخل نہیں ہوسکتا ہے، جس سے شہریوں کی زندگی مامون و محفوظ ہوجاتی ہے، اسی طرح جو شخص سنت و نفل کا پابند رہے گا تو اس کا سب سے بڑا اور کھلا دشمن شیطان فرائض سے غافل نہیں کرسکتا ہے، یقینی طور پر جو کوئی نوافل کا اہتمام کرے گا وہ فرائض کا اس سے زیادہ خیال رکھے گا، اور جو ایسا نہ کرے تو ایک وقت ایسا بھی آئیگا کہ فرائض کو بھی نظر انداز کردیگا، تاتارخانیہ میں ہے۔
جو آداب میں سستی سے کام لیتا ہے وہ سنت سے محروم ہوجاتا ہے اور جوسنتوں میں کوتاہی کرتا ہے وہ فرائض سے محروم ہوجاتا اور فرائض میں کسلمندی کرنے والا آخرت کی نعمتوں سے ہاتھ دھولیتا ہے ( تا تا رخانیہ 644/1)
علاوہ ازیں اگر فرائض کی ادائیگی میں جو کوتاہی اور نقص رہ جائے تو نوافل سے اس کی تلافی کردی جاتی ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے ۔
عن ابی ھریرۃ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ان اول مایحاسب بہ العبد یوم القیامۃ من عملہ صلاتہ فان صلحت فقد افلح وانجح وان فسدت فقد خاب وخسرفان انتقص من فریضتہ شیئا قال الرب تبارک وتعالیٰ انظر وا ھل لعبدی من تطوع؟ فیکمل بھا ما انتقص من فریضتہ ثم یکون سائر عملہ علی ذالک ۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:قیامت میں سب سے پہلے نماز کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی، نمازیں ٹھیک نکلیں تو کامیابی ہے۔ اور اگر بے کار ثابت ہوئیں تو نامرادی اور خسارہ ہے۔ لیکن فرض میں کچھ کمی رہ گئی ہوگی تو ارشاد ربانی ہوگا، کیا میرے بندہ کے پاس کچھ نفلیں ہیں (اگر نفلیں ہوئیں) تو اس کے ذریعہ فرض کی کمی پوری کردی جائے گی پھر اسی طرح باقی اعمال (روزہ،زکوٰۃ وغیرہ) کاحساب ہوگا (کہ اگر کچھ کمی رہ گئی ہوگی تو ان کی تلافی نفل سے کردی جائے گی۔)
فرائض کی ادائیگی میں جو کمی رہ گئی ہوگئی تو نوافل سے اس کی تکمیل کردی جائے گی اس پر تمام علماء کااتفاق ہے۔ لیکن فرائض چھوٹ گئے ہوں تو کیا نوافل سے ان کی تلافی ہوسکتی ہے؟ اس سلسلہ میں علماء کی رائیں مختلف ہیں، قاضی ابوبکر ابن عربی فرماتے ہیں کہ ہاں فرائض چھوٹ جائیں تو نوافل سے اس کی تلافی ہوسکتی ہے، حافظ حدیث علامہ ابن عبدالبر کا رجحان ہے کہ بھول کر اگر فرائض چھوٹ جائیں تو اس کی تلافی نوافل سے ہوسکتی ہے۔ جان بوجھ کر چھوڑنے پر نہیں، علامہ بیہقی اور حافظ عراقی کا خیال ہے کہ فرائض میں کمی کی تکمیل تو نوافل سے ہوسکتی ہے لیکن خود فرائض چھوٹ جائیں تو زندگی بھر نوافل پڑھنے سے بھی اس کی تلافی نہیں ہوگی،(معارف السنن ۔52,53/4)اس نقطہ نظر کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
من صلی صلاۃ لم یتمھا ز ید علیھا من سبحتہ(رواہ الطبرانی ورجالہ ثقات (مجمع الزوائد288/1)
جوکوئی نماز پڑھے اور مکمل طور پر ادانہ کرسکے تو اس کے نوافل سے اسے پورا کردیا جائے گا۔
نوافل کی سب سے بڑی حکمت اور سب سے بڑا فائدہ یہ کہ اس کے ذریعہ سے بندہ اپنے پروردگار سے اس قدر قریب ہوجاتا ہے کہ اس کے ہر عمل میں اللہ کی رضا شامل ہوجاتی ہے، رب کائنات کی تائید اور اعانت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہر موقع پر توفیق ربانی اس کی دستگیری کرتی ہے، کارخیراس کیلئے محبوب اور پسندیدہ بنادیاجاتا ہے، اور اس کی انجام دہی میں سہولت پیداکردی جاتی ہے، اسی مفہوم کو تمثیلی انداز میں ایک حدیث قدسی میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :
وماتقرب الی عبدی بشئ أحب الی مما افترضت علیہ وما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبہ فاذاحببتہ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصربہ ویدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا وان سالنی لاعطینّہ ولئن استعاذنی لاعیذنہ۔
میرابندہ جن چیزوں سے میری قربت حاصل کرسکتا ہے ان میں سب سے پسندیدہ فرائض ہیں، اورمیرا بندہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میرا محبوب بن جاتا ہے، میں اس کا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور اس کو عطا کروں ، پناہ کا طلب گار ہو تو ضرور اس کو پناہ دوں ۔(صحیح بخاری 963/2کتاب الرقاق)
نماز اسلامی فرائض میں سب سے اہم فریضہ ، دین کا ستون ، مومن اور کافر کے درمیان وجہ فرق ہے، نماز بندہ اور رب کے درمیان ایک اہم رابطہ، مومنین کی معراج اور ترقی کا اہم ذریعہ، جنت کی کنجی اور دوزخ سے برأت کا پروانہ ہے. نماز رزق کی کشادگی ، بیماریوں سے حفاظت کاذریعہ اور صحت کا محافظ ہے، جب بھی کوئی مصیبت، آفت آسمان سے نازل ہوتی ہے تو مسجدوں کے آباد کرنے والے اس سے محفوظ رہتے ہیں، نماز قبر کی تیرہ و تار جگہ میں روشنی ،اس کی وحشت میں بہترین رفیق اور دلداری کرنے والی ہے، منکیر نکیر کے سوالا ت کا جواب ، قیامت کی تپتی اور آگ برساتی ہوئی دھوپ میں سایہ ،اور جہنم کیلئے آڑ ہے۔
نماز اللہ کی رضا مندی کا سبب، فرشتوں کی محبوب چیز، تمام نبیوں کی سنت اور خاتم النبینﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ نماز ہی وہ واسطہ ہے جس سے بندہ اپنے پالنہار سے قریب تر ہوجاتا ہے۔ اپنے دل کی باتیں اس سے بیان کرتا ہے ۔(یہ تمام جملے قرآن و حدیث سے ماخوذ ہیں۔)
اور یہی وہ ذریعہ ہے جس سے جنت میں رسول مقبول کی رفاقت نصیب ہوسکتی ہے، ایک مرتبہ ربیعہ اسلمیؓ سے آنحضورﷺ نے خوش ہوکر فرمایاکہ جو مانگنا چاہو مانگ لو، انہوں نے عرض کیا : جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔ آپؐ نے فرمایا :اس کے سوا بھی کچھ؟ عرض کیا: نہیں، ارشاد ہوا: بکثرت نماز پڑھو تو میری رفاقت مل سکتی ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن ربیعۃ بن مالک الاسلمیؓ قال لی النبی ﷺ سلنی فقلت اسئلک مرافقتک فی الجنۃ فقال اَوَ غیر ذالک فقلت ہوذاک قال فاعنی علی نفسک بکثرۃ السجود ۔(مسلم ،سنن ابوداؤد.جمع الفوائد53/1)
ایک دوسرے صحابیؓ نے خدمت اقدس میں عرض کیا، یارسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل بتلادیجئے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں ،ارشاد ہوا:
علیک بکثرۃ السجود فانک لاتسجد للہ سجدہ الارفعک بھادرجۃ وحط عنک خطیۃ ۔ (مسلم، ترمذی،نسائی(حوالہ سابق)
تم اپنے اوپر بکثرت سجدوں کو لازم کرلو، کیونکہ ہر سجدہ کے بدلے اللہ تمہارے درجہ کو بلند اور گناہ کو معاف کردے گا۔
نماز ہی وہ عبادت ہے کہ جب تک انسان اس میں مشغول رہتا ہے اس پر رحمتوں اور بخششوں کی بارش ہوتی رہتی ہے، بھلائیاں اور اچھائیاں اس پر نچھاور ہوتی ہیں، چنانچہ حدیث میں ہے:
مااذن اللہ لعبد فی شئی افضل من رکعتین یصلیھا وان البر لیذر فوق راس العبد مادام فی صلاتہ۔(مسنداحمدوسنن ترمذی و صححہ السیوطی ، فقہ السنہ 161/1)
اللہ نے اپنے بندہ کو جس چیز کی اجازت دی ہے اس میں سب سے بہتر دو رکعت نماز ہے ، جب تک بندہ نماز میں رہتا ہے اس پر بھلائیوں اور اچھائیوں کی بوچھار ہوتی رہتی ہے۔
صرف اورصرف دورکعت نماز کی کسی قدر فضیلت ہے؟اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک صحابی ؓ رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا: اللہ کے رسول! آج میں نے اتنا نفع کمایا ہے کہ اس پوری وادی میں کسی نے اتنا نفع نہ کمایا ہوگا، ارشاد ہوا کتنا نفع ہوا؟ کہنے لگے اللہ کے رسول تین سو ’’اوقیہ ‘‘ کا نفع ہوا (ایک اوقیہ کا چالیس درہم ہوتا ہے) آنحضور نے فرمایا : میں تمہیں اس سے زیادہ نفع کی چیز نہ بتلادوں؟ عرض کیا:اللہ کے رسول! ضرور بتلایئے، ارشاد ہوا: فرض نماز کے بعد صرف دورکعت ۔(ابوداؤد . جمع الفوائد 53/1)
ترک سنت پر وعید:
سنت ،اتباع نبوی سے عبارت ہے، رسول اللہ ﷺ کے ارشاد وعمل کو شیوہ زندگی بنالینا ہی ایک مومن کی شان ہے۔ بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو اللہ کے رسول ﷺ کے رنگ میں رنگ جائے، جس کی نشست و برخاست ، رفتار و گفتار اور کردار نبوت کے سانچے میں ڈھل جائے۔ طریقہ نبویؐ اس کا اوڑھنا اور بچھونا ہو۔
اور بڑا ہی بدنصیب ہے وہ شخص جس کے کام و دہن لذت سنت سے ناآشنا ہوں، جس کے دل میں سنت کے مطابق زندگی گذارنے کی کوئی تڑپ اور لگن نہ ہو، اس کی سازحیات اس دھن سے ناواقف ہو، صرف نادانی نہ ہو بلکہ جانے بوجھے ایک گونہ اعراض بھی ہوتو ایسے شخص کے بارے میں یہ سخت وعید ہے:
جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں من رغب عن سنتی فلیس منی (رواہ مسلم ۔الترغیب 87/1)
نیز آپؐ نے فرمایا :
ستّۃ لعنتھم ولعنــھم اللہ وکل نبی مجاب الزائد فی کتاب اللہ عـــــزوجل، والمکذب بقـــــدراللہ عزوجل، والمستحل حرمۃ اللہ، والمستحل من عتـــــرتی ماحـــرم اللہ والتارک للسنۃ (1)
چھ شخص ایسے ہیں جن پر میں لعنت کرتا ہوں،اللہ لعنت کرتے ہیں، ہر برگزیدہ نبی لعنت بھیجتا ہے ، (وہ یہ ہیں ) اللہ عزوجل کی کتاب میں زیادتی کرنے والا، تقدیر کو جھٹلانے والا، اللہ کے حرام کردہ کو حلال کرنے والا، اور وہ جو میری اولاد میں سے اس کو حلال کرے جواللہ نے حرام قراردیا ہے اور سنت کو چھوڑنے والا۔
سنت نبویؐ کے تارک کیلئے فقہاء کرام نے احادیث کی روشنی میں جو کچھ لکھا ہے وہ کسی مومن و مسلم کو تڑپا دینے اور لرزا دینے کیلئے کافی ہے، حصکفی لکھتے ہیں ’’سنت موکدہ‘‘ کو چھوڑ نے کی وجہ سے گرچہ کوئی عذاب کا مستحق نہیں ہوگا لیکن نبی مختار ﷺ کی شفاعت سے محروم رہے گا (درمختار 124/5 کتاب الحظر والاباحۃ)
کون ایسا شخص ہے جو اس محرومی کیلئے خود کو آمادہ کرسکتا ہے ؟؟؟
اور تاتارخانیہ میں نوازل کے حوالے سے لکھا ہے :
اگر کوئی سنت کو کسی عذر کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے تو معذور ہے اور بغیر عذر کے چھوڑ نے پر معذور نہ سمجھا جائے گا، اور اللہ قیامت کے دن اس کے متعلق باز پرس کریں گے (تاتارخانیہ 644/1)
سنت نمازوں کے چھوڑنے کے سلسلہ میں فقہی کتابوں میں یہ صراحت ہے کہ کوئی پنجگانہ نماز کی سنتوں کو ترک کردیتا ہے ،اگر وہ سنت کو حق نہیں سمجھتا تو کافر ہوجائے گا،اور سنت کو حق سمجھتاہے مگر اسکے باوجود ترک کردیتا ہے تو بعض لوگوں نے کہا کہ گناہ گار نہیں اور صحیح یہ ہے کہ گناہ گار ہوگا (تاتارخانیہ 644/1)
(1) فیہ عبدالرحمان بن موھب قال یعقوب بن شیبۃ: فیہ ضعف، وضعفہ یحیی بن معین فی روایۃ ووثقہ فی الاخری ،قال ابوحاتم: صالح الحدیث ووثقہ ابن حبان و بقیۃ رجالہ رجالہ الصحیح مجمع الزوائد 176/1