غیر مسلموں کے ساتھ سماجی و معاشرتی تعلقات۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔

اسلام ایک آفاقی دین ہے ۔ اس لیے وہ کائنات کی تمام چیزوں کے ساتھ ربط و تعلق اور الفت و محبت کا تقاضا کرتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ تمام چیزیں اللہ کی بنائی ہوئی اور اس کا کنبہ ہیں اس لیے اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے ۔(رواہ البیھقی فی شعب الایمان، مشکاۃ:425/2)
اس لیے کسی طبقہ و گروہ کے ساتھ نفرت و دشمنی ، کینہ اور کپٹ اور بغض و حسد اسلامی تعلیم کے خلاف اور اس کے آفاقی نظریہ کے بر عکس ہے کہ اس کی رحم دلی اور انسانیت نوازی کی تعلیم کسی فرقہ تک محدود نہیں ہے ، بلکہ اپنے اور پرائے ، دوست اور دشمن ، مسلم اور غیر مسلم کے فرق کے بغیر سب کے لیے عام ہے ۔ اس کی نگاہ میں ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف اور حسن سلوک سب سے زیادہ قیمتی اور پسندیدہ صفت ہے ، اور ظلم و زیادتی اور بدخلقی و بد سلوکی سب سے زیادہ نفرت انگیز اور ناقابل برداشت ہے ۔

سلام کرنا:

امن و سلامتی ، اسلام کے خمیر میں شامل ہے ، اس لیے وہ ایک ایسے کلمے کو رواج دنیا چاہتا ہے جس میں زبان و مکان کی حد بندی کے بغیر ہر ایک کے لیے امن و آشتی کی خواہش کی جاتی ہے اور سکون و راحت اور صلح وسلامتی کی دعا دی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’وَ قُوْلُوْلِلنَّاسِ حُسْنًا ‘‘
’’لوگوں سے بھلی بات کہو ‘‘۔(سورۃ البقرۃ:83)
اس آیت میں مسلم و غیر مسلم کے فرق کے بغیر ہر انسان سے بھلی بات کہنے کا حکم دیا گیا ہے ، اور امن و سلامتی کی دعا سے بڑھ کر اچھی اور بھلی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جنہوں نے اس امت کو ’’ مسلم ‘‘ کا لقب دیا اور جو خود بھی رحم و کرم اور امن کے پیکر تھے، شرک میں ڈوبے ہوئے اپنے والد سے کہتے ہیں :
’’ قاَلَ سَلَامٌ عَلَیْکَ سَأَسْتَغْفِرُلَکَ رَبِّیْ إنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیَّا ‘‘
’’آپ پر سلامتی ہو ، میں اپنے رب سے آپ کی مغفرت کی دعا کروں گا ، وہ مجھ پر بہت مہربان ہے‘‘۔(سورۃ مریم:47)
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ اسلام میں سب سے بہتر صفت کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا :
’’تطعم الطعام و تقرء السلام علی من عرفت و علی من لم تعرف‘‘
’’کھانا کھلانا ، اور ہر ایک کو سلام کرنا خواہ وہ تمہاری پہچان کاہو یا نہ ہو ‘‘۔(صحیح بخاری: 6236)
علامہ عینی نے لکھا ہے کہ حدیث کے عموم میں غیر مسلم بھی شامل ہے ، لہٰذا اس سے سلام میں پہل کیا جا سکتا ہے ، لیکن یہ حکم غیر مسلموں کی دلجوئی اور ان کو اسلام سے قریب کرنے کے لیے اسلام کے ابتدائی ایام میں دیا گیا تھا اور اب یہ حکم باقی نہیں رہا ۔ (ردالمحتار: 591/9) لیکن ان کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا ہے ، اس لیے کہ حسن سلوک کے ذریعہ غیر مسلموں کو اسلام کی طرف مائل کرنا اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کوئی وقتی اور عارضی حکم نہیں ہے بلکہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک کہ روئے زمین پر ایک بھی غیر مسلم موجود ہے ۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی مجلس سے گزرے جس میں ، مسلم و مشرک ، بت کے پجاری ، اور یہود سب موجود تھے ۔ ان میں عبد اللہ بن رواحہ بھی شامل تھے ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو سلام کیا ۔(فسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیہم۔ صحیح بخاری4566، مسلم: 1798)
اور صحابی رسول حضرت ابو امامہ باہلی کے متعلق نقل کیا گیا ہے کہ راستے میں چلتے ہوئے ان کے سامنے جو بھی آتا اسے سلام کرنے میں پہل کرتے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، مسلم ہو یا نصرانی ، اور کہتے کہ ہمیں سلام کو رواج دینے اور پھیلانے کا حکم دیا گیا ہے ، (ابن ماجہ: 3693مصنف ابن ابی شیبہ: 26251) بعض روایتو ں میں ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ یہ مسلمانوں کے لیے برکت کی دعا ہے اور ذمیوں ( غیر مسلمو ں ) کے لیے امن و امان کا اظہار ہے ۔ (فتح الباری:36/11)اسی طرح سے حضرت عبد اللہ بن مسعود ، ابو درداء اور فضالہ بن عبید کے متعلق منقول ہے کہ وہ اہل کتاب ( یہود و نصاری) کو سلام کیا کرتے تھے ۔ (عمدۃالقاری:19/12) حضرت علقمہ سے روایت ہے کہ ابن مسعود کے ساتھ ایک سفر میں بعض ذمی بھی تھے ، کچھ فاصلے کے بعد جب ان کا راستہ الگ ہو گیا تو عبد اللہ بن مسعود نے انہیں سلام کیا ، میں نے کہا کہ کیا ان کو سلام کرنا مناسب ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو حق رفاقت ہے ۔ (طبرانی بسند صحیح، فتح الباری:41/11)
علامہ شامی نے لکھا ہے کہ بوقت ضرورت ذمی کو سلام کرنے میں پہل کیا جا سکتا ہے ، اسی طرح سے مصافحہ کرنا بھی درست ہے لیکن بے ضرورت پسندیدہ نہیں ہے ۔ نیز انہوں نے لکھا ہے کہ اگر کسی مسلمان کو احساس ہو کہ سفر سے واپسی پر اگر وہ اپنے نصرانی پڑوسی سے مصافحہ نہ کرے تو اسے تکلیف ہو گی ، تو اس سے مصافحہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (رد المحتار:590/9)
اور جب دنیاوی حاجت و ضرورت کے لیے غیر مسلموں سے سلام میں پہل کرنے کی اجازت ہے تو دینی ضرورت کے پیش نظر نہ صرف اس کی اجازت ہے بلکہ پسندیدہ اور مطلوب ہے ، تاکہ باہمی منافرت ، دشمنی ، دوری ، اور بے گانگی کی دیوار منہدم ہو ، اور ایک دوسرے سے قریب ہونے کا موقع ملے ، اوراسلام کی دعوت و اشاعت کی فضا قائم ہو ۔
مذکورہ آیتوں ، روایتوں اور فقہی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو سلام کرنا درست ہے۔ تاہم بعض روایتوں سے اس کے بر خلاف معلوم ہوتا ہے ، جیسے یہ حدیث :
’’لا تبدوا الیھود و النصاری بالسلام فاذا لقیتم احد ھم فی طریق فا ضطروہ الی اضیقہ‘‘ (صحیح مسلم:2176)
’’یہود و نصاری کو سلام کرنے میں پہل مت کرو اور جب کبھی راہ چلتے ان سے ملاقات ہو جائے تو انہیں تنگ حصے میں چلنے پر مجبور کرو ‘‘۔
لیکن یہ عمومی اور مستقل حکم نہیں ہے بلکہ مخصوص پس منظر میں دیا گیا ایک وقتی حکم ہے یعنی ان غیر مسلموں سے متعلق ہے جو مسلمانوں سے برسر جنگ تھے ، جن کی تلواریں مسلمانوں کے خون کی پیاسی اور جن کی نگاہیں شعلہ برساتی اور زبانیں زہر اگل رہی تھیں، ایسے لوگو ں کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کو سلام کرنے میں پہل نہ کیا جائے ۔نیز مدینہ کے انصار اسلام کی آمد سے پہلے مذہبی حیثیت سے یہودیوں کو اپنے سے بہتر سمجھتے تھے ، اور ان کے احترام میں سلام میں پہل کرتے اور ان کے لیے درمیانی راستہ چھوڑ دیتے ۔ ان کو اس طرز عمل سے منع کیا گیا اور کہاگیا کہ ان کے احترام میں کنارہ کا راستہ اپنے لیے اور درمیانی راستہ ان کے لیے نہ چھوڑا جائے،جیسا کہ مذہبی اور قابل احترام شخصیتوں کے اکرام میں ایسا کیا جاتا ہے ، غرضیکہ مذہبی احترام کی وجہ سے سلام میں پہل کرنے اور ان کے لیے درمیانی راستہ چھوڑنے سے منع کیاگیا ہے ، اور اگر یہ وجہ نہ ہو تو پھر ممانعت نہیں ہے۔

سلام کا جواب دینا:

تمام علماء کا اتفاق ہے کہ غیر مسلم کے سلام کا جواب دینا جائز ہے ، (المنھاج:144/4) بلکہ بعض علماء کے نزدیک مسلمانوں کی طرح ان کے سلام کا جواب دینا بھی واجب ہے ، جیسا کہ عبد اللہ بن عباس ، شعبی اور قتادہ سے منقول ہے ، اور شافعیہ اور حنابلہ اسی کے قائل ہیں ۔(تفسیرقرطبی:3045،حاشیہ الدسوقی:147/2)
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ہر شخص کے سلام کا جواب دو ، خواہ یہودی ہو یا نصرانی یا آگ کا پجاری ، اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحَیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَ حْسَنَ مِنْھَا اَوْرُدُّوْ ھَا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَئٍی حَسِیْبًا‘‘(سورۃ النساء:86، روایت کے لیے دیکھئےالادب المفرد:1107)
’’جب کوئی تمہیں سلام کرے تو بہتر طریقے سے اس کا جواب دو یا اسی طرح ، بلا شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے ‘‘۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت ابو ہریرہ نے غیر مسلم کے خط کے جواب میں سلام لکھا ، اور جب ان سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ اس نے خط میں مجھے سلام لکھا تھا ، اس لیے میں نے جواب میں سلام لکھا ۔ (الادب المفرد: 1101)امام ابو حنیفہ کے استاد محدث شعبی کو ایک نصرانی نے سلام کیا‌ تو انہوں نے جواب میں کہا ’’ و علیک السلام و رحمۃ اللہ ‘‘ اس پر لوگوں نے اعتراض کیا تو فرمایا کہ کیا وہ اللہ کی رحمت میں نہیں جی رہا ہے .(الکشاف:500/1)
ان کے جواب کے سلسلہ میں بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ صرف ’’ علیکم ‘‘ کہا جائے گا ۔ اس لیے کہ حدیث میں ہے کہ :
’’اذاسلم علیکم اھل الکتاب فقولوا و علیکم‘‘ .
’’ جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو صرف ’’علیکم‘‘ کہا کرو ‘‘۔(بخاری:6258، مسلم:2163)
لیکن علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ شرعی دلائل و قواعد کا تقاضا ہے کہ ’’ وعلیکم السلام ‘‘ کہہ کر جواب دیا جائے ،کیونکہ اللہ عزوجل نے عدل و انصاف سے آگے بڑھ کر احسان کرنے کا حکم دیا ہے، فرمان الٰہی ہے کہ جب تمہیں کوئی سلام کرے تو اس سے بہتر طریقے پر یا کم از کم اسی طرح سے جواب دو، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سلام کے جواب میں اس سے بہتر جملہ کہنے کا حکم دیا ہے ، اور برابری اور عدل کو واجب قرار دیا ہے ، رہی وہ حدیث جس میں کہا گیا ہے جب اہل کتاب سلام کریں تو جواب میں ’’ علیکم ‘‘ کہا کرو تو وہ مخصوص لوگوں سے متعلق ہے کہ یہودیوں کی عادت تھی کہ وہ سلام کی آڑ میں بددعا کیا کرتے تھے ۔ اس لیے جہاں یہ سبب موجود نہ ہو وہاں کوئی وجہ نہیں ہے کہ مکمل جواب نہ دیا جائے (احکام اہل الذمۃ:199/1)
چنانچہ بعض روایتوں میں اس کی صراحت ہے :
’’اذا سلم علیکم الیھود فانما یقول احدھم السام علیک فقل و علیک‘‘۔
’’یہودی جب تمہیں سلام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’ السام علیک ‘‘ ( تم پر موت ہو ) اس لیے تم ان کے جواب میں صرف ’’ علیک ‘‘ ( تم پر ) کہا کرو ‘‘۔.(بخاری:6257مسلم: 2164)
برادران وطن میں اس طرح کے کسی بددعائیہ سلام کا تصور نہیں ہے اس لیے اسلامی ادب اور دعوتی روح کا تقاضہ ہے کہ اسلامی سلام کو رواج دیا جائے کیونکہ عین ممکن ہے کہ اگر اس کے مفہوم کو بتایا جائے تو یہ ایک دعوتی گفتگو کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے ۔ اور امن و آشتی کے تعلق سے اسلامی تعلیم کی نشر و اشاعت کا ذریعہ بھی ، نیز اسلامی سلام نہ کرنے کی وجہ سے ان میں وحشت پیدا ہوتی ہے ، اور مسلمانوں سے دوری کا ذریعہ بنتی ہے ، علاوہ ازیں اسے مسلمانوں تک محدود کرنے اور دوسروں سے چھپا کر رکھنے کی وجہ سے غیر اسلامی اور مشرکانہ سلام کو فروغ ملتا ہے ، کتنے مسلمان ہیں جو لفظ سلام کہنے سے احتیاط کرتے ہیں لیکن نمستے وغیرہ کہتے اور انہیں الفاظ کے ذریعہ جواب بھی دیتے ہیں ۔ حالانکہ ان جیسے مشرکانہ الفاظ کے ذریعہ سلام کرنا جائز نہیں ہے ۔

ہدیہ قبول کرنا اور دینا:

غیر مسلموں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے لیے ہدیہ اور تحفے کا لین دین کرنا چاہئے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’ لَا یَنْھَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْ کُمْ فِی الْدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَا رِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَ تُقْسِطُوْا اِلَیْھِمْ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ‘‘۔
’’اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے سے منع نہیں کرتا ہے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھرو ں سے نہیں نکالا ہے ، بلا شبہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں ‘‘۔(سورۃ الممتحنہ:8)
نیکی اور بھلائی کے عموم میں تحائف کا تبادلہ بھی داخل ہے ، بلکہ اگر غیر مسلم کے ساتھ رشتہ داری بھی ہو تو اس میں صلہ رحمی کا ثواب بھی شامل ہو جاتا ہے ۔ (احکام القرآن للجصاص:،179/2 ابن عربی :185/3،تفسیر ابن کثیر:89/8)
ایک دوسری آیت میں ہے :
’’وَاعْبُدُوْا اللّٰہَ وَ لَاتُشْرِکُوْ ابِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْجَارِ ذِیْ الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَ ابْنِ الْسَّبِیْلِ وَ مَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالاً فَخُوْراً ‘‘ ۔
’’اللہ کی بندگی کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ، رشتہ داروں ، یتیموں مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرو ، رشتہ دار ، پڑوسی ، اجنبی ، ہمسایہ ، پہلو کے ساتھی ، مسافر اور باندی اور غلام کے ساتھ اچھا معاملہ کرو ، اور اللہ تعالیٰ کسی مغرور اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے ‘‘۔(سورۃ النساء: 34)
اس آیت میں جن لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے ایک اجنبی ہمسایہ بھی ہے جس کے متعلق مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد غیر مسلم پڑوسی ہے ، (تفسیر ابن کثیر:494/1)اور حسن سلوک میں تحائف کا تبادلہ بھی داخل ہے ۔
اور خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے تحائف قبول کیے ہیں اور انہیں ہدیہ دیا بھی ہے ۔ (بخاری:161، مسلم: 1392) اور صحابہ کرام کو بھی انہیں تحفہ دینے اور ان کے تحفہ کو قبول کرنے کی اجازت دی ہے ۔ چنانچہ حضرت عامر بن عبد اللہ سے روایت ہے :
’’ قدمت قتیلۃ بنت عبد العزی علی ابنتھا اسماء بھدایا ضباب واقط وسمن وھی مشرکۃ فابت اسماء ان تقبل ھدیتھا و تدخلھا بیتھا فسالت عائشۃ نبی اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فانزل اللہ ’’لاینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلو کم فی الدین‘‘ الی آخر الایۃ فامر ان تدخل بیتھا وان تقبل ھدیتھا‘‘( نیل الاوطار:6/3)
’’قتیلہ بنت عبد العزی، اپنی بیٹی حضرت اسماء کے پاس کھجور کا مالیدہ ، پنیر اور گھی لے کر آئیں وہ مشرکہ تھیں ۔ اس لیے حضرت اسماء نے ان کا تحفہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں گھر میں آنے کی اجازت نہیں دی۔ حضرت عائشہ ؓنے اس سلسلہ میں اللہ کے رسول سے دریافت کیا تو یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے سے منع نہیں کرتا ہے جنہوں نے دین کے سلسلہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے ، اس کے بعد اللہ کے رسول نے انہیں حکم دیا کہ ان کے ہدیہ کو قبول کر لیں اور انہیں گھر میں آنے دیں‘‘ ۔
نیز انہوں نے یہ بھی دریافت کیا تھا کہ کیا میں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ،(بخاری:262،مسلم: 1003)علامہ خطابی اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر رشتہ داروں پر مال خرچ کیا جا سکتا ہے (معالم السنن 76/2)، اور حضرت عمرؓ کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے مکہ کے ایک مشرک شخص کو ایک جوڑا کپڑا بطور تحفہ دیا۔(بخاری:2619،مسلم: 3851)
اس کے برخلاف بعض روایتوں میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مشرکوں کا ہدیہ قبول کرنے سے انکار فرما دیا (ابوداؤد:302،مصنف ابن ابی شیبہ:34130) ، ان مختلف روایتوں میں موافقت پیدا کرنے کی متعدد کوششیں کی گئی ہیں ، جن میں سے ایک یہ ہے کہ جس کے متعلق یہ احساس ہو کہ وہ اپنے تحفہ کے ذریعہ احسان جتائے گا یا یہ کہ ہدیہ لینے والے کے دل میں دینے والے کے تعلق سے نرم گوشہ پیدا ہو جاتا ہے، اور جو لوگ برسر جنگ ہوں ان کی طرف میلان درست نہیں ہے ، اس لیے آپ نے ان کے ہدیہ کو قبول نہیں فرمایا جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کے تحفہ کو اسی بنیاد پر قبول کرنے سے انکار فرما دیا تھا ،( فتح الباری:231/5)اور جس کے ہدیہ میں خلوص محسوس ہوا اسے قبول کر لیا ۔دوسری توجیہ یہ کی گئی ہے کہ جن کے متعلق امید تھی کہ ہدیہ لے لینے کی وجہ سے ان کا دل اسلام کی طرف مائل ہوگا ، ان کے تحفہ کو قبول فرمایا ، اور جن کے متعلق اس طرح کی امید نہیں تھی ان کے ہدیہ کو رد کر دیا ۔(فتح الباری:231/5)
حاصل یہ ہے کہ خوشگوار تعلقات قائم کرنے اور اجنبیت و بیگانگی ختم کرنے اور اسلام سے قریب کرنے کے مقصد سے غیر مسلموں کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کرنا چاہئے کہ یہ تعلقات کو سازگار اور بہتر بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے ، شادی بیاہ اور بچوں کے پیدائش کے موقع پر تحفوں کا لین دین کرنا چاہئے ، یہاں تک کہ مذہبی تقریبات اور تہوار کے تحائف میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ، شرط یہ کہ اسے بتوں پر نہ چڑھایا گیا ہو(فتاویٰ رشیدیہ:132/2) ، چنانچہ حضرت علیؓ، عائشہؓ اور ابو برزہؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے آگ کے پجاریوں کے تہوار کے تحفے کو قبول کرنے کو جائز قرار دیا ہے،(مختصر اقتضاء صراط المستقیم:240)البتہ مذہبی تقریبات اور تہوار کے موقع پر انہیں تحفہ دینا درست نہیں کہ یہ ایک طرح سے اس میں تعاون اور ان کے عمل سے راضی ہونے کی علامت ہے ۔ (حوالہ مذکور‌ و فتاوی عبدالحی:403)

دعوت قبول کرنا اور دینا:

غیر مسلموں کو دعوت دینا نہ صرف جائز ہے بلکہ بہتر ہے اگر یہ مقصد ہو کہ وہ اس طرح سے اسلام سے قریب ہوں گے یا کم از کم مسلمانوں کے تعلق سے ان کا رویہ نرم ہوگا ، چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کے مقصد سے اپنے قریبی رشتہ داروں کو جمع فرمایا اور ان کے لیے کھانے کا اہتمام بھی فرمایا ، اسی طرح سے حدیث گزرچکی ہے کہ حضرت اسماء نے اپنی مشرکہ والدہ کو اللہ کے رسول کی اجازت سے اپنے گھر ٹھہرایا اور ان کی ضیافت کی ۔ (نیل الاوطار:107/6)
نیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کی دعوت بھی قبول فرمائی ہے ، حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے جو کی روٹی اور باسی چربی کی دعوت کی تھی اور آنحضور نے اس کی دعوت قبول فرمائی (مسند احمد13224) ، اسی طرح سے جنگ خیبر کے بعد ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی ، اور آپ نے اسے قبول فرمایا ۔ (بخاری وغیرہ)

عیادت کرنا :

نوع انسانی کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی ، دکھ درد میں شرکت اور بیماری میں عیادت ایک اسلامی حکم ہے ، اور انسانیت کا تقاضا بھی ۔ اس میں اپنے اور پرائے کی تفریق ناروا ہے ، متعدد روایتوں میں مسلم و غیر مسلم کے فرق کے بغیر عیادت اور مزاج پرسی کی ترغیب دی گئی ہے ، اور اس پر بہت بڑے اجر و ثواب کی بشارت سنائی گئی ہے ، اور خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ بنو نجار کے ایک غیر مسلم کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اسے اسلام کی دعوت دی ( مسنداحمد:152/3)۔ اسی طرح سے ایک یہودی لڑکا آپ کی خدمت کیا کرتا تھا اور جب وہ بیمار ہوا تو آپ نے اس کی عیادت کی اور اسے اسلام قبول کرنے کے لیے کہا ۔(نیل الاوطار: 68/8)
اور ان احادیث کی روشنی میں علامہ شامی لکھتے ہیں :
’’غیر مسلم کی عیادت جائز ہے خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی ، اس لیے کہ یہ حسن سلوک میں داخل ہے اور ہمیں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے ، اور صحیح حدیث میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں ایک یہودی بیمار ہوا تو آپ نے اس کی عیادت فرمائی‘‘ ۔ (رد المحتار:556/9)

غیر مسلم کی تجہیز و تکفین:

اگر کسی غیر مسلم کی وفات ہو جائے اور اس کے ہم مذہب لوگوں میں سے کوئی اس کے کفن دفن کا نظم نہ کرے تو مسلمان کے لیے اس کی تجہیز و تکفین میں کوئی قباحت نہیں ہے، جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد آپ ﷺ نے حضرت علی کو اس کا حکم فرمایا (نسائی:79/3ابوداؤد:492)اور غزوہ بدر کے موقع پر آنحضور نے کافروں کی نعشوں کو دفن کرنے کا نظم فرمایا ،(صحیح البخاری:816)لیکن ایسی حالت میں کفن و دفن کے مسنون طریقے کی رعایت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کافرانہ رسوم اپنائے جائیں گے بلکہ ایک کپڑے میں لپیٹ کر گڑھا کھود کر دفن کر دیا جائے گا۔ (الھدایۃ:91/1)
اگر اس کے ہم مذہب موجود ہوں ، اور وہ اس کی آخری رسوم کو انجام دینا چاہیں تو اسے ان کے حوالے کر دیا جائے گا اور اس سلسلے میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی ، گر چہ ان کا اس سے کوئی رشتہ نہ ہو ، اور مسلم رشتہ دار اس میں شریک نہیں ہوگا۔ (المغنی:466/3،فتح القدیر:94/2)

جنازہ میں شرکت :

رشتہ داری اور قربت کی بنیاد پر اور بوقت ضرورت غیر مسلم کے جنازہ میں شرکت جائز ہے ، حضرت قیس بن شماس کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری نصرانی ماں کی وفات ہو گئی ہے اور میری خواہش ہے کہ اس کے جنازہ کے ساتھ رہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سواری پر سوار ہوکر جنازہ کے آگے آگے چلو ، سوار ہوکر آگے چلنے کی صورت میں تم اس کے ساتھ نہیں سمجھے جاؤگے ۔ (احکام اہل الذمۃ:203/1،حدیث ضعیف ہے نصب الرایۃ:281/2)
ساتھ چلنے کے باوجود یہ طریقہ اس لیے اپنایا گیا ہے تاکہ محبت اور تعلق کا اظہار بھی ہو جائے اور مسلمانوں کی انفرادیت بھی برقرار رہے کہ وہ اس تعلق اور رشتہ داری کے باوجود اس کے دین سے بیزار اور حق کا پیروکار ہے ۔
جنازہ کے ساتھ اور پیچھے چلنا اور بالکل قریب رہنا اور دفن کی جگہ پر کھڑے رہنا درست نہیں ہے، چاہے کسی قریبی رشتہ دار کا جنازہ ہی کیوں نہ ہو ، فرمان باری ہے :
’’ ولا تصل علی احد منھم مات ابداً ولا تقم علی قبرہ‘‘ ۔
’’منافقوں میں سے کسی کے مرنے پر ان کی نماز جنازہ ہر گز نہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہوں‘‘۔(سورۃ التوبۃ: 84)
حضرت عبد اللہ بن ربیعہ نے ابن عمر سے دریافت کیا کہ میری ماں کی وفات ہوگئی ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ وہ نصرانی تھیں ، عبد اللہ بن عمر نے جواب دیا کہ جاؤ اچھی طرح سے کفن و دفن کا نظم کرو لیکن اس کی قبر کے پاس کھڑے مت رہو ۔ (احکام اہل الذمۃ:726/2)

جنازہ کا احترام:

کسی غیر مسلم کا جنازہ گزر رہا ہو تو احترام انسانیت اور تکریم کے پیش نظر کھڑا ہوجانا بھی درست ہے ، حدیث کی کتابوں میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ حضرت سہل بن حنیف اور قیس بن سعد ، قادسیہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ غیر مسلم کا جنازہ گزرا جسے دیکھ کر یہ دونوں حضرات کھڑے ہو گئے ۔ ان سے کہا گیا کہ یہ تو غیرمسلم کا جنازہ ہے ، انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہو گئے ، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یہ یہودی کا جنازہ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بھی انسان ہے ۔ (صحیح بخاری مع الفتح:179/3)
غزوہ خندق کے موقع پر ایک غیر مسلم خندق پار کرکے آگیا اور حضرت علی کے ہاتھوں مارا گیا ، کفار مکہ نے قیمت دے کر نعش حاصل کرنی چاہی لیکن آپ نے انسانی نعش کو سامان تجارت بنانا گوارا نہیں کیا اور کوئی قیمت لیے بغیر لاش ان کے حوالے کر دی ۔

تعزیت:

غیر مسلموں کی خوشی و غم میں شرکت نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ اور بہتر ہے تاکہ اسلامی رواداری اور خوش اخلاقی کا نقش قائم ہو سکے ، کسی غیر مسلم کے عزیز اور رشتہ دار کی وفات پر اس کے یہاں جانا چاہئے ۔ اور اس سے اظہار ہمدردی اور تسلی کے کلمات کہنے چاہئے ،جس کا طریقہ فقہی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اس کے بچے کے مرنے پر کہا جائے کہ اللہ تجھے اچھا جانشین عطا فرمائے اور تمہیں اچھی طرح سے رکھے ، اور ذہن میں یہ مفہوم رہے کہ اللہ تجھے اسلام کی توفیق دے جس کے ذریعہ دنیا و آخرت دونوں جگہ تمہیں خیر نصیب ہو اور اللہ تعالیٰ تمہیں مسلم اولاد سے نوازے ،(رد المحتار: 557/9)امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ ؒ سے دریافت کیا کہ کسی یہودی یا نصرانی کے بچے یا رشتہ دار کی وفات ہو جائے تو اس کی تعزیت کس طرح کی جائے فرمایا کہ کہو کہ اللہ نے ہر ایک کے لیے موت لکھ دی ہے ، اس سے کسی کو چھٹکارا نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے بہتر چیز عطا کرے اور اس مصیبت پر صبر کرو ۔ (کتاب الخراج:216)
تعزیت کے ان الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس موقع پر بھی کوئی ایسی بات کہنے کی اجازت نہیں ہے جو اسلامی عقیدے اور نظریہ کے خلاف ہو ۔

قبر کی زیارت :

قبر کی زیارت ، موت و آخرت کی یاد دہانی کا ایک اہم ذریعہ ہے ، اور اسی مقصد کے تحت زیارت قبر کی اجازت دی گئی ہے لہٰذا اس غرض کے پیش نظر غیر مسلم کی قبر پر جانے کی اجازت ہے ، حدیث میں ہے کہ :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے گئے ، اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام بھی رونے لگے ، پھر آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے ان کے استغفار کی اجازت مانگی لیکن اجازت نہیں ملی ، میں نے ان کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو وہ مل گئی ، سو تم لوگ قبروں کی زیارت کیا کرو اس سے موت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ (صحیح مسلم:342/1)
علامہ نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں سے ملنے کے لیے ان کی زندگی میں ان کے گھر جایا جا سکتا ہے ، اور ان کے وفات کے بعد ان کی قبر پر جانا درست ہے ، اس لیے کہ جب مرنے کے بعد ان کی زیارت جائز ہے تو زندگی میں بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔(المنھاج:341/1)

دعا دینا:

عمومی یا انفرادی طور پر کسی غیر مسلم کے لیے ہدایت کی دعا کی جا سکتی ہے ، بلکہ کی جانی چاہئے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت رہی ہے ، ان کے تعلق سے یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ یہ نادان اور راستے سے ناواقف لوگ ہیں ، ان کے لیے ہمارے دل میں دشمنی و عداوت کی جگہ محبت و الفت اور ہمدردی و خیر خواہی کے جذبات ہونے چاہئے ، ایک تڑپ اور لگن ہو کہ کس طرح سے اللہ کے بھٹکے ہوئے بندے اور ہمارے بھائی راہ راست پر آجائیں، نہ یہ کہ ان کے لیے دشمنی کے جذبات رکھے جائیں اور لعنت و ملامت کو اپنا شیوہ بنا لیا جائے۔
ہدایت اور راہ یابی کے علاوہ غیر مسلموں کے لیے ایسی دعائیں بھی کی جاسکتی ہیں جس سے ان کی دنیاوی مصالح کی تکمیل ہوتی ہو ، اور اس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کا کوئی نقصان نہ ہوتا ہو جیسے حدیث میں ہے کہ ایک یہودی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پیش کیا تو آپ نے اسے دعا دی کہ اللہ تمہیں حسین و جمیل بنا دے اس دعا کے نتیجے میں اس کے سفید بال سیاہ ہو گئے اور وہ نوے سال تک زندہ رہا لیکن اس کے بالوں میں سفیدی نہیں آئی ۔ (مصنف عبدالرزاق: 392/10، شرح السنۃ:273/12)
اور امام احمد بن حنبل سے دریافت کیا گیا کہ اگر کوئی مسلمان کسی عیسائی سے کہتا ہے کہ اللہ تمہارا اقبال بلند کرے یا تمہیں معزز و مکرم بنائے تو کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ۔ لیکن مسلمان کو چاہئے کہ اس طرح کا جملہ کہتے ہوئے یہ نیت رکھے کہ اللہ تمہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق دے کر مکرم و معزز بنائے ۔ (الاداب الشرعیۃ:391/1)
اور علامہ حصکفی کہتے ہیں کہ اگر مسلمان کسی ذمی سے کہے کہ اللہ تمہیں زیادہ دنوں تک زندہ رکھے اور دل میں ارادہ ہو کہ لمبی عمر پانے کی وجہ سے وہ اسلام قبول کر لے تو اس دعا میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (الدرالمختارمع الرد:592/9)

مالی اعانت:

کتاب و سنت میں راہ خدا میں خرچ کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور غیر مسلموں پر خرچ کرنا اور ان کی مالی اعانت کرنا بھی انفاق فی سبیل اللہ میں داخل مانا گیا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدَاھُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِی مَنْ یَّشَآئُ وَمَا تُنْفِقُوْ ا مِنْ خَیْرٍ فَلِأَ نْفُسِکُمْ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّاابْتِغَآئَ وَجْہِ اللّٰہِ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍیُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَاتُظْلَمُوْنَ‘‘۔
’’ان کو ہدایت دینا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے ، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ، اور تم جو مال بھی خرچ کرو گے اس کا فائدہ تمہیں ہوگا ، اور تم لوگ تو اللہ کی خوشنودی ہی کے لیے خرچ کرتے ہو ، اور تم لوگ جو بھی خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں مل جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا ‘‘۔(سورۃ البقرۃ:272)
اس آیت سے پہلے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کے بعد بھی انفاق اور صدقہ و خیرات کے بعض مصارف کا تذکرہ ہے اور درمیان میں مذکورہ آیت ہے،اس آیت کا اس سے پہلے اور بعد کی آیتوں سے کیا ربط و تعلق ہے ؟ اس کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ آنحضورﷺ اور صحابہ کرام غیر مسلموں کو صدقہ وخیرات دینے سے احتراز کیاکرتے تھے تو اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی ،(جامع البیان:94/3)حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مسلمان پہلے غیر مسلموں پر خرچ کیا کرتے تھے لیکن جب مسلم ضرورت مندوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مسلمانوں ہی کو صدقہ و خیرات دیا کرو اس موقع پر مذکورہ آیت نازل ہوئی اور غیر مسلموں پر خرچ کرنے کی اجازت دی گئی ۔ (الجامع لاحکام القرآن:337/3)
اس آیت میں اس بات کی تلقین کی گئی کہ صدقہ و خیرات دینے کے لیے اصل معیار حاجت و ضرورت ہے اور فقیر بے نوا اس کا اصل حقدار ہے خواہ اس کا تعلق کسی مذہب سے ہو ، اور اس سلسلہ میں دین و مذہب کو رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے ، یہ تصور غلط ہے کہ تعاون اور ہمدردی کے مستحق صرف اپنے دین کے لوگ ہیں بلکہ تمام انسان بلکہ ہر جاندار اس کا حقدار ہے ،اور خدمت خلق کے راستے میں اس طرح کی چیزوں کو حائل نہیں ہونے دینا چاہئے ، بلکہ ہر ضرورت مند کی مدد کرنا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کسی بھی دین کے پیروکار کو صدقہ و خیرات دیا کرو ۔ (تفسیرابن کثیر:324/1،نصب الرایۃ:398/2)
واضح رہے کہ زکوٰۃ کی رقم بہ اتفاق تمام فقہاء کے نزدیک صرف مسلمانوں پر خرچ کی جائے گی اور نفلی صدقہ غیر مسلموں کو دینا جائز ہے ، واجب صدقہ جیسے فطرہ کے بارے میں اختلاف ہے ، امام ابو حنیفہ کے نزدیک اسے بھی غیر مسلموں کو دینا درست ہے ، دوسرے اماموں کے نزدیک واجب صدقہ بھی زکوٰۃ کے حکم میں ہے ۔
ایک دوسر ی آیت میں ہے :
’’وَیُطْعِمُوْنَ الْطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْناً وَّ یَتِیْمًاوَّ أَسِیْراً، إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَانُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآء وَّلاَ شُکُوْراً ‘‘۔
’’وہ مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں حالانکہ خود انہیں اس کی رغبت ہوتی ہے اور (اپنے دل میں ) کہتے ہیں ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے کھلاتے ہیں ، تم سے کسی بدلے اور شکریہ کے طلب گار نہیں ہیں‘‘ ۔(سورۃ الدھر:9،8)
حضرت عبد اللہ بن عباس ، قتادہ ، سعید بن جبیر اور دیگر مفسرین سے منقول ہے کہ مذکورہ آیت میں قیدی سے مراد مشرک ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے قید میں یہی لوگ آیا کرتے تھے ،(جامع البیان: 209/29، الجامع لاحکام القرآن:129/19)اسی طرح سے مسکین و یتیم کا لفظ بھی عام ہے جس میں مومن و مشرک سب شامل ہیں۔
غور کا مقام ہے کہ جنگی قیدیوں کے سلسلے میں عام طور پر ہمدردی کے جذبات نہیں پائے جاتے بلکہ انہیں ہر ناروا سلوک کا مستحق سمجھا جاتا ہے لیکن اسلام نے انسانیت کے ناطے ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے ، یعنی جو لوگ مسلمانوں سے برسر جنگ ہوں ان کے ساتھ بھی انصاف اور عام انسانی رویہ کی ممانعت نہیں ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کے مشرکوں نے جو سلوک کیا تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، اس کے باوجود جب وہ قحط سالی میں مبتلا ہوتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے سونا بھیجتے ہیں اور سردار مکہ حضرت ابو سفیان کو کہلا بھیجتے ہیں کہ اسے اپنی قوم کے درمیان تقسیم کر دیں ۔ (مکارم الاخلاق لابن الدنیا:251)
اور امام محمد لکھتے ہیں :
’’لابأس للمسلم ان یعطی کافرا حر بیا او ذمیا ‘‘
’’کسی غیر مسلم کی مالی اعانت میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ وہ مسلم مملکت کا شہری ہو یا مسلمانوں سے برسر جنگ ملک کا شہری ہو‘‘ ۔
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ شامی کہتے ہیں :
’’رشتوں کا پاس و لحاظ رکھنا ہر دین میں لائق تعریف ہے ، اور غیر مسلموں کو تحفہ دینا اچھے اخلاق میں شامل ہے‘‘۔(رد المحتار:253/2)

حسن سلوک:

اللہ تعالیٰ کا سب سے نمایاں وصف رحمان و رحیم ہے ، اس نے اپنے آخری رسول کو تمام کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور اپنے بندوں کو بھی اس صفت کو اپنی فطرت بنالینے کا حکم دیتا ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا ، اور یہ کہ جو رحم نہیں کھاتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ، لہٰذا ایک مسلمان کو رحم و کرم کا پیکر ہونا چاہئے ، اس کا سینہ مخلوق خدا کی ہمدردی سے لبریز اور سنگ دلی اور شقاوت سے پاک ہو ، شیریں گفتاری اور نرم خوئی اس کی عادت ہو ، اور عفو و درگزر اس کی طبیعت ، ہر ایک کے دکھ درد میں شرکت ، اور مخلوق خدا کی خدمت اس کے لیے اہم عبادت، اور اللہ سے رشتہ جوڑنے اور اسے راضی کرنے کا ایک ناگزیر ذریعہ بن جائے ، اس میں مسلم ، غیر مسلم ، دوست ، دشمن ، اپنے اور پرائے ، طاقت ور اور کمزور ، مالدار اور نادار کی کوئی تفریق روا نہ رکھے ، بلکہ ہر ایک کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے جو رحم دلی اور انسانیت نوازی سے عبارت ہو ، کسی کی دل شکنی اور بے عزتی اسے کسی بھی حال میں گوارا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’واحسنوا ان اللّٰہ یحب المحسین‘‘۔
’’اچھی روش اختیار کرو ، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند کرتے ہیں ‘‘۔(سورۃ البقرۃ:195)
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ اچھے برتاؤ کو ضروری قرار دیا ہے ، اور آنحضورﷺ نے مسلم اور غیر مسلم کے فرق کے بغیر ہر پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور اسے ایذا پہونچانے سے منع فرمایا ہے ، حضرت عبد اللہ بن عمر کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے اپنے گھر والوں سے پوچھا کہ ہمارے فلاں یہودی پڑوسی کو بھی بکری کا گوشت بھیجا گیا ہے یا نہیں؟ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے جبریل امین پڑوسیوں کے سلسلے میں اس درجہ تاکید کیا کرتے تھے کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے ۔
غیر مسلموں کے ساتھ حسن اخلاق کے سلسلہ میں اللہ کے رسول کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ انسانی شرف و کرامت کا جس درجہ لحاظ آپ نے کیا ہے اس آسمان کے نیچے کسی دین اور مذہب کے حامل شخص کے سیرت و کردار میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے ، اس لیے کہ اسلام کی نگاہ میں ہر انسان قابل احترام ہے اور مخلوق خدا کی خدمت اور حاجت روائی ایک اہم عبادت ہے ، لیکن ان تمام تر تعلیمات کے باوجود مسلم معاشرے میں نہ معلوم کہاں سے یہ بات ذہنوں میں رچ بس گئی ہے کہ غیر مسلم ہمارا دشمن ہے اس لیے ہمارے ذہن میں اس کے لیے نفرت و حقارت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ، اور اب ہماری پونجی ہمیں واپس لوٹائی جا رہی ہے۔ لہٰذا اس تصور کو ختم کرنے کے لیے نہ صرف غور و فکر بلکہ عملی اقدام کی ضرورت ہے ، برادران وطن خصوصاً پس ماندہ لوگوں کے ساتھ مسلمانوں کا رویہ عام طور پر حقارت آمیز ہوتا ہے ۔ ان کے ساتھ ہم وہ برتاؤ نہیں کرتے ہیں جس کی اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے ، ان کے ساتھ بڑی ذاتوں کے لوگ جو سلوک کرتے ہیں ۔ اس معاملے میں ان سے کچھ آگے ہی رہتے ہیں ۔ ان کی تحقیر اور استحصال میں کسی سے پیچھے نہیں ، ہم انہیں الفت و محبت نہیں دے سکتے ، ان کے دکھ درد میں شریک نہیں ہو سکتے ، ان کی پسماندگی دور کرنے کے لیے کوئی محنت نہیں کر سکتے ، رقم خرچ کرنا تو بہت دور کی بات ہے ، جس کا نتیجہ ہے کہ ان کے دلوں میں ہمارے خلاف پہاڑ جیسی نفرت بھری ہوئی ہے ، جو اسلام مخالف لوگوں کی تھوڑی سی محنت سے آتش فشاں بن جاتی ہے ، اور یہ مظلوم و مقہور قوم مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے پر آمادہ ہو جاتی ہے ۔
اس لیے ہمیں اپنے طرز عمل اور طرز زندگی پر غور کرنا چاہئے ، آخر کیا بات ہے کہ ہمارے اسلاف جہاں بھی گئے وہاں کے لوگوں کی آنکھوں کا تارا بن گئے ، انہوں نے الفت ، محبت ، عدل و مساوات اور انسانیت نوازی کے ذریعہ لوگوں کے دل جیت لیے ، اور انہوں نے انہیں اپنے یہاں رہنے اور بس جانے پر مجبور کیا ، اس کے برخلاف آج مسلمان جہاں بھی ہیں وہاں کے لوگوں کی نگاہوں کا کانٹا بن گئے ہیں ، اور وہ انہیں وہاں سے نکال باہر کرنے کے لیے کوشاں ہیں ، اس کے بعض دوسرے عوامل بھی ہو سکتے ہیں ، لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے مقصد زندگی کو نظر انداز کر دیا ہے ۔ وہ دوسروں کے لیے جینے کے بجائے خود کے لیے جیتے ہیں اور اپنی کوتاہیوں کو دوسروں کی سازش کے ہینگر پر لٹکا کر سو جاتے ہیں ۔

***********

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے