اچھے ناموں کاانتخاب

نام کا مقصد محض تعیین اور پہچان ہی نہیں بلکہ مذہب کی شناخت اس سے وابستہ ہے ، اور فکر و عقیدہ کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے ، اس لیے حدیث میں اس کے متعلق خصوصی ہدایت دی گئی ہیں ، اچھے اور بامعنی نام کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے ، اور ایسے نام سے منع کیا گیا ہے جو بھدا اور معنی و مفہوم کے اعتبار سے ناگوار ہو اور جس سے شرک کی بو آتی ہو ۔ ارشاد نبویؐ ہے :
’’ تدعون یوم القیامۃ باسماء کم واسماء آباء کم فاحسنوا الاسماء‘‘ (۱)
’’ تم قیامت میں اپنے نام اور اپنے با پ کے نام سے پکارے جاؤ گے ، لہٰذا تم بہتر نام رکھا کرو ‘‘۔
میدان آخرت میں کوئی برے نام سے پکارا گیا تو بھری محفل میں بڑی رسوائی اور سبکی ہوگی ، اس لیے اس سلسلہ میں وہ دن آنے سے پہلے ہی توجہ دی جائے اور نام کے انتخاب میں معنی اور مفہوم کی ضرور رعایت رکھی جائے ،حدیث کا یہی پیغام ہے ۔
اچھا اور بامعنی نام رکھنا والدین کے فرائض میں شامل ہے ، بچوں کایہ حق ہے کہ تعلیم وتربیت کے ساتھ ان کا مناسب نام رکھا جائے اور اس میں کوتاہی سے آخرت میں بازپرس ہوسکتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ :
’’ من ولد لہ ولد فلیحسن اسمہ وادبہ فاذا بلغ فلیزوجہ فان بلغ ولم یزوجہ فاصاب اثما فانما اثمہ علی ابیہ‘‘ ۔
’’ جب کسی کے یہاں بچہ پیدا ہو تو اس کا اچھا نام رکھے ، اور تعلیم و تربیت دے ، بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کردے اور بالغ ہونے کے بعد بھی شادی نہیں کی اور وہ لڑکا کسی گناہ میں مبتلا ہوگیا تو اس کا گناہ باپ پر بھی ہے ‘‘۔(مشکوۃ:271/2باب الولی فی النکاح:236/2)
اللہ کے آخری پیامبر نے حکم کے ساتھ عملی طور پر بھی اچھا نام رکھنے کا درس دیا ، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اچھے نام سے محبت رکھتے تھے ’’کان رسول اللہ ﷺ یستحب الاسم الحسن ‘‘( زاد المعاد:336/2) اور برا نام اس قدر ناگوار تھا کہ اسے فوراً بدل دیتے تھے ، ’’کان یغیرالاسم القبیح‘‘(ترمذی: 111/2)
اچھا نام سن کر خوشی سے چہرۂ انور دمکنے لگتا تھا اور ناپسندیدہ نام سے چہرہ مبارک پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوجاتے ، گرچہ وہ کسی جگہ اور بستی ہی کانام کیوں نہ ہو ، حضرت بریدہؓ روایت کرتے ہیں :
’’آنحضور ﷺ جب کسی کو گورنر وغیرہ بناکر کسی جگہ بھیجتے تو اس کا نام پوچھتے ، اگر پسندیدہ نام ہوتا تو خوش ہوتے اور خوشی کااثر چہرہ سے ظاہر ہوتا ، اور ناپسند ہوتا تو ناگواری کا اثر بھی چہرہ سے محسوس ہوتا ، اور جب کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس کا نام پوچھتے ،اگر بہتر نام ہوتاتو خوش ہوتے اور خوشی کی کیفیت چہرۂ انور پر نمایاں ہوجاتی ، اور اگر اچھا نہ ہوتا تو ناپسندیدگی کا اثر بھی چہرہ سے ظاہر ہوجاتا ‘‘۔(ابوداؤد… باب الکہانۃ والتطیر)
افسوس کہ نام کی جو اہمیت اور حیثیت ہے ، اس سے ہماری غفلت انتہا کو پہنچ چکی ہے ، اس سلسلہ میں بڑی بے اعتنائی اور بے توجہی برتی جارہی ہے ، معنی و مفہوم اور اسلامی شناخت و پہچان کی طرف کوئی توجہ نہیں، سننے میں اچھا اور بھلا معلوم ہو ، کچھ چاشنی اور کچھ نیا پن ہو ، آج نام رکھنے کا یہی معیار ہے ، مشرکانہ اور غیر اسلامی ناموں کا عام رواج ہے ……اے کاش! اس کا خیال رکھا جاتا کہ نام سے مذہب کی شناخت ہوجائے، شرک کی آمیزش سے پاک و صاف ہو ، ناموں کی دلکشی اور خوشنمائی کے ساتھ معنی اور مفہوم کی بھی رعایت ہو ۔

نام کا اثر شخصیت پر :

نام اور شخصیت میں جسم و روح کا تعلق ہے ، دونوں میں بڑا گہرا ربط ہے ، اس قدر اہم رشتہ ہے کہ اسے نظر انداز کرنا بڑے خسارے کا باعث ہے ، یہی وجہ ہے کہ حدیثوں میں اچھے نام رکھنے کی بطور خاص توجہ دلائی گئی ہے اور اللہ کے رسول ﷺ ہر ایسے نام کو تبدیل کردیا کرتے تھےجو اپنے معنی و مفہوم کے اعتبارسے غلط ہو،(عن عائشۃان النبیﷺیغیرالاسم القبیح، ترمذی: 111/2)چنانچہ آپؐ نے حضرت عمرؓ کی صاحب زادی کانام ’’عاصیہ‘‘(نافرمان) سے بدل کر ’’جمیلہ‘‘ رکھا، کسی کانام ’’حرب‘‘ (جنگ ) تھا تو تبدیل کرکے ’’سلم‘‘(سلامتی)’’حسن‘‘(اچھائی ) رکھا، ان کے علاوہ بھی آپؐ نے بہت سے ناموں میں تبدیلی کی ہے ، جو حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔(۲)
غلط نام کا انسانی زندگی پر کس قدر خراب اثر پڑتا ہے ، اس کا اندازہ اس حدیث سے لگائیے کہ حضرت سعید ابن المسیب کہتے ہیں کہ ہمارے دادا نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے پوچھا کہ تمہارا نام کیاہے ؟ کہا ، حزن(سختی)، آنحضورؐ نے فرمایا ، آج سے حزن کے بجائے تمہارا نام ’’سہل‘‘ (نرمی) ہے ، وہ کہنے لگے جس نام کو میرے ابا نے رکھا ہے میں اسے بدل نہیں سکتا ، حضر ت سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ نام تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے آج بھی ہمارے اندر اس نام کی وجہ سے سختی بر قرار ہے۔ (بخاری:914/2)
یہ ایک حقیقت ہے کہ نام بڑے دور رس اثرات کا حامل ہوا کرتا ہے ، اور زندگی کے معاملہ میں اس کی اثر انگیزی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ، حدیث میں ہے کہ ’’صلح حدیبیہ‘‘ کے موقع پر جب کفار کی طرف سے سہیل نامی ایک شخص آئے تو آپؐ نے ان کے نام کے معنی پر نظر کرتے ہوئے فرمایا : تمہارا معاملہ اب آسان ہو گیا ،(’’لماجاء سھیل بن عمر قال النبیﷺ قد سھل امرکم ‘‘۔بخاری :379/1کتاب الشروط)
ایسے ہی ایک موقع پر دودھ دوہنے کے لیے ایک صاحب اٹھے تو پوچھا کیا نام ہے ؟ کہا ’’مرۃ‘‘(تلخ)، فرمایا : بیٹھ جاؤ ، دوسرے صاحب اٹھے ، ان کا نام پوچھا گیا تو کہا ’’حرب‘‘(جنگ)، ارشاد ہوا : بیٹھ جاؤ ، تیسرے شخص اٹھے تو پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ان کا نام ’’یعیش ‘‘ (زندگی ) ہے ، آپؐ نے فرمایا : دودھ نکالو ۔(اخرجہ المالک فی الموطا: 383،وھومرسل او معضل وقد وصلہ ابن عبدالبر ورجالہ ثقات ۔حاشیہ زاد المعاد: 337/2)
یہاں تک کہ جگہوں اور آبادیوں کے لیے بھی برا نام گوارا نہ تھا ، (٣)اور آپؐ وہاں سے گزرنا پسند نہ کرتے تھے ، ایک مرتبہ دو پہاڑوں کے درمیان سے گزرنا ہوا تو پوچھا ان کے کیا نام ہیں ؟ لوگوں نے کہا ’’فاضح و مخز‘‘(ذلیل ورسوا کرنے والا)یہ سن کر آپؐ نے راستہ بدل دیا اور ان پہاڑوں کے درمیان سے گزرنا گوارا نہ ہوا ۔( زاد المعاد:337/2)
یہ روایتیں یہ جاننے کے لیے کافی ہیں کہ نام کا شخصیت پر کیا اثر پڑتا ہے ؟ دونوں کے درمیان کیا ربط و تعلق ہے ؟ اللہ کے رسول ﷺ اس کاکس حد تک خیال رکھتے تھے ؟ آنحضورؐ کے طرز عمل سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ناموں کے انتخاب میں حسن معانی کا لحاظ رکھنا چاہیے ، محض جدت اور الفاظ کے تراش و خراش پر توجہ نہیں رکھنی چاہیے ، اگر اس کا خیال نہ رکھا گیا تو غلط نام کا اثر شخصیت پر بھی پڑ سکتا ہے ۔

نام رکھنے کاوقت :

پیدائش کے ساتویں دن بچے کا عقیقہ کرنا ، سرکا بال مونڈنا اور اس کے بقدر چاندی صدقہ کرنا اور نام رکھنا مستحب ہے ،(کل غلام رھینۃ بعقیقۃ تذبح عنہ یوم السابع ویحلق راسہ ویسمی ۔اخرجہ احمد:22/5ترمذی:278/1،وصححہ)
اگر ساتویں روز عقیقہ کا ارادہ نہ ہو تو پھر نام رکھنے کے لیے اس دن کا انتظار نہ کرنا چاہیے ، بلکہ پہلے یا دوسرے روز ہی نام رکھ دینا مناسب ہے ، چنانچہ آنحضور ﷺ نے اپنے صاحب زادے کانام پیدائش کے بعد ہی رکھ دیا تھا ،(ولد لی اللیلۃ غلام فسمیتہ باسم ابی ابراھیم (مسلم شریف)نیز حضرت ابواسیدؓ کے متعلق منقول ہے کہ وہ پیدائش کے بعد ہی اپنے لڑکے کو خدمتِ اقدسؐ میں لے کر حاضر ہوئے تو آپؐ نے اس کانام منذر تجویز کیا ،(اتی النبیؐ بابنہ حین ولد فسماہ المنذر(بخاری کتاب النکاح،فتح الباری:735/9)اسی طرح سے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے لڑکے کانام بھی آنحضور ﷺ نے ولادت کے بعد ہی رکھ دیا تھا ۔(ولد لی غلام فاتیت بہ النبی فسماہ ابراھیم فحنکہ بتمرۃ ۔بخاری:821/2، باب تسمیۃ المولود غداۃ لولد لمن لم یعق عنہ)
ساقط شدہ بچے کے اعضاء ظاہر ہوچکے ہوں تو اس کا بھی نام رکھاجائے گا ، اگر جنس معلوم نہ ہوکہ بچہ ہے یا بچی تو ایسے نام رکھے جائیں جس میں دونوں کی صلاحیت ہو ،(رد المحتار:228/2،کتاب الجنائز ۔ 417/6کتاب الحظر،الاتحاف:204/6) جلیل القدر تابعی عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ ساقط شدہ بچہ اپنے باپ کے پیچھے چیختے ہوئے کہے گا کہ آپ نے مجھے ضائع کردیا ، آپ نے مجھے بغیر کسی نام کے چھوڑدیا ،حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے پوچھا: اس کا نام کیسے رکھا جائے گا؟ جب کہ یہ بھی معلوم نہیں کہ لڑکا ہے یا لڑکی ۔ حضرت عبدالرحمن نے فرمایا کہ بعض نام ایسے ہوتے ہیں کہ جو دونوں پر بولے جاسکتے ہیں ، مثلاً حمزہ ، عمارۃ، طلحہ، عتبہ ۔(الاتحاف:204/6)
بعض ضعیف حدیثوں میں بھی ساقط شدہ بچے کانام رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے ، مثلاً آپ ﷺ نے فرمایا : ساقط شدہ بچوں کا نام رکھو ، کیونکہ یہ تمہارے سفارشی ہیں ، ’’سموا اسقاطکم فانہ من افراطکم‘‘۔(حوالہ مذکور)

لقب :

کسی اچھے یا برے وصف کی وجہ سے جو نام رکھا جاتاہے اسے لقب کہتے ہیں ، اچھا لقب دینا حدیث سے ثابت ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو صدیق، حضرت عمرؓ کو فاروق، حضرت عثمانؓ کو ذوالنورین ، حضرت حمزہؓ کو اسد اللہ اور حضرت خالدؓ کو سیف اللہ کے لقب سے نوازا ، اس لیے حقیقتاً کسی میں کوئی اچھی صفت پائی جارہی ہو تو اسے کوئی خطاب دینا جائز بلکہ بہتر ہے ، کہ اس سے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ، اچھائی کا جذبہ مزید ابھرتا ہے اور کسی کو برے لقب سے یاد کرنا ، گرچہ وہ برائی اس میں موجود ہی کیوں نہ ہو ، نادرست اور ناروا ہے ، قرآن میں صراحتاً اس سے منع کیاگیاہے ۔ حکم ربانی ہے:
’’ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ  بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘۔
’’اور ایک دوسرے کو برے لقب سے نہ پکارو ، ایمان لانے کے بعد گناہ کانام بہت برا ہے ، اور جو (ان حرکتوں سے )باز نہ آویں گے تو وہ ظلم کریں گے ‘‘ (سورۃ الحجرات:11)
تاہم اگر کوئی برے لقب ہی سے مشہور ہو کہ اس کے بغیر پہچان مشکل ہو تو پھر اس لقب سے یاد کرنے کی اجازت ہے بشرطیکہ تحقیر اور تذلیل مقصود نہ ہو ۔(تفسیر قرطبی :329/16)

کنیت:

جن ناموں کے شروع میں ’’اب،ام ، ابن ، بنت ‘‘ لگا ہو ، اسے کنیت کہتے ہیں ۔ جیسے ابوبکر، ام سلمہ، ابن سیرین ، بنت الاسلام وغیرہ ،’’ اب‘‘ کے معنی باپ ، ’’ام‘‘ کے معنی ماں کے ہیں ، لیکن کنیت رکھنے کے لیے باپ یا ماں ہونا ضروری نہیں بلکہ ایسے لوگ بھی کنیت  رکھ سکتے ہیں جن کا کوئی بیٹا بیٹی نہ ہو ، آپ ﷺ سے ایک چھوٹے سے بچے کی کنیت ابوعمیر رکھنا ثابت ہے ،(بخاری:206/2)ایسے ہی حضرت صہیبؓ کے متعلق منقول ہے کہ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اپنی کنیت ’’ابویحییٰ ‘‘ رکھی ہے حالانکہ تمہارا کوئی لڑکا نہیں ہے ، تو انہوں نے جواب دیاکہ یہ کنیت آنحضور ﷺ نے رکھی ہے ۔(رواہ احمد، ابن ماجہ، والطحاوی و صححہ الحاکم۔فتح الباری:712/10)
حقیقت یہ ہے کہ کنیت بھی ایک طرح سے لقب ہے ، کسی صفتی مناسبت کی وجہ سے بھی کنیت رکھی جاسکتی ہے ، چنانچہ آنحضورؐ نے اپنے لیے ابوالقاسم کی کنیت اختیار کی اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ میں قاسم ہوں اور اللہ کے عطایا کو تقسیم کرتا ہوں ۔( ’’انما انا قاسم اقسم بینکم ‘‘۔مسلم:206/2) اور حضرت علیؓ کے متعلق منقول ہے کہ ایک مرتبہ وہ کسی وجہ سے مسجد نبویؐ کے فرش پر لیٹے ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کا پورا کپڑا غبار آلود ہوگیا ، رسول خدا ﷺ تشریف لائے اور ان کے کپڑے سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہا ’’ابوتراب‘‘ (مٹی والے) اٹھو۔(بخاری: 915/2)

ابوالقاسم:

اولاد کی طرف نسبت کرتے ہوئے یا کسی صفتی مناسبت یا بطور نیک فالی ہر طرح کی کنیت اختیار کی جاسکتی ہے ، مگر ابوالقاسم کنیت رکھنے کے سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ، امام شافعی اور ظاہریہ کاخیال یہ ہے کہ ابوالقاسم کنیت رکھنا ممنوع ہے ، خواہ اس کا نام محمد ، احمد ہو یا نہ ہو ، یہ حکم آپؐ کی زندگی میں تھا اور آپؐ کے بعد بھی باقی ہے ، کیونکہ آپ ﷺ کا ارشادہے :  میرے نام کو اختیار کرو مگر میری کنیت نہ رکھو ۔(’’سموا باسمی ولا تکنوا بکنیتی‘‘۔مشکوٰۃ:407،بحوالہ بخاری ومسلم)
بعض حضرات کاخیال ہے کہ محمد ، احمد اور ابوالقاسم دونوں کو جمع کرنا درست نہیں ، لہٰذا کسی کانام محمد یا احمد ہے تو اسے ابوالقاسم کنیت رکھنا جائز نہیں ہے اور اگر کنیت ابوالقاسم ہے توپھر نام محمد یا احمد رکھنا صحیح نہیں ، کیونکہ حدیث میں ہے کہ :
’’ من تسمی باسمی فلایکتنی بکنیتی ومن اکتنی بکنیتی فلایسمی باسمی‘‘ ۔
’’ جو کوئی میرا نام رکھے تو وہ میری کنیت اختیار نہ کرے اور جو میری کنیت اختیار کرے وہ میرا نام نہ رکھے ‘‘۔(رواہ ابوداؤد:675/2،والترمذی:111/2وقال حسن غریب)
نیز حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے نام اور کنیت کو جمع کرنے سے منع فرمایا ہے :
’’ان النبی ﷺ نھی ان یجمع احد بین اسمہ وکنیتہ ویسمی محمد ابا القاسم ‘‘۔(رواہ الترمذی:111/2وقال حسن صحیح)
امام مالک ، احناف اور اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ ممانعت آنحضور ﷺ کی دنیاوی زندگی تک محدود ہے ، آپؐ کے بعد صرف ابوالقاسم کنیت رکھنا جائز ہے ، اور محمد ابوالقاسم نام اختیار کرنا بھی درست ہے ،(نووی علی مسلم:206/2رد المحتار:417/6)
اس لیے کہ ممانعت کی وجہ التباس اور اشتباہ سے بچنا تھا کہ اگر اوروں کو بھی اس کی اجازت دے دی جاتی تو پھر آنحضور ﷺ کی خصوصیت باقی نہ رہتی اور کنیت رکھنے کا ایک خاص مقصد تعارف اور پہچان فوت ہوجا تا ہے ، اس ممانعت کے پس منظر کو دیکھا جائے تو یہ توجیہ مناسب معلوم ہوتی ہے ، چنانچہ بخاری و مسلم کی روایت یہ ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ابوالقاسم کہہ کر آواز دی ، نبی اکرم ﷺ آواز کی سمت متوجہ ہوئے تو آواز دینے والے نے کہا میں آپؐ کونہیں بلکہ کسی اور کو بلا رہا ہوں ، اسی موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا :
’’سموا باسمی ولاتکنوا بکنیتی‘‘ (مشکوٰۃ:407،بحوالہ بخاری ومسلم)
اس نقطہ نظر کی تائید حضرت علیؓ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ !آپؐ کے بعد میرا لڑکا پیدا ہو تو کیا میں اسے آپؐ کے نام اور کنیت سے موسوم کر سکتا ہوں ؟ آنحضور ﷺ نے فرمایا : ہاں ۔(رواہ ابوداؤد، وابن ماجہ و صححہ الحاکم (فتح الباری: 701/10)اس کے علاوہ بعض صحابہ کرام سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے لڑکے کانام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی ، (فتح الباری:701/10) اور اسی پر اکثر لوگوں کا عمل ہے ۔

ابو عیسیٰ:

حضرت عیسیٰ علیہ السلام، اللہ کی قدرت کاملہ سے بن باپ کے پیداہوئے ، لیکن عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں، عیسائیوں کے اس عقیدہ کی وجہ سے ابتدائی دور میں جب کہ ابھی اسلام ذہنوں میں راسخ نہیں ہوا تھا ، فساد عقیدہ کے اندیشہ سے ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کی ممانعت کی گئی ۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں: سمی رجل اباعیسی فقال علیہ السلام ان عیسی لا اب لہ۔قال العراقی سندہ ضعیف۔ الاتحاف: 203/6) لیکن جب اسلامی عقائد اچھی طرح سے ذہنوں میں جاگزیں ہوگئے تو پھراس طرح کنیت رکھنے کی اجازت ہوگئی ، چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کے متعلق صحیح روایتوں سے ثابت ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے ان کی کنیت ابوعیسیٰ رکھی ،(رواہ ابوداؤد: 678/2و اسنادہ صحیح۔ الاتحاف:203/6)نیز بہت سے علماء سے بھی ابوعیسیٰ کنیت رکھنا ثابت ہے ، مشہور محدث علامہ ترمذی کی کنیت بھی ابوعیسیٰ ہے ۔

پسندیدہ نام:

’’عبد کامل‘‘ بن جانا ہی انسان کی ترقی کی انتہا ہے ،اس کی زندگی کا مقصد اور اس کی تخلیق کا راز یہی ہے ، پوری زندگی فداکاری ، خود سپردگی اور بندگی سے عبارت ہو، یہی انسان کا کمال ہے ، اسی لیے نام بھی وہی پسندیدہ ہے جس میں عبودیت ہو ، چنانچہ پیغمبر خدا ﷺ کا ارشاد ہے :
’’احب الاسماء الی اللہ عبد اللہ وعبدالرحمن۔ ‘‘اللہ کے نزدیک سب سے محبوب نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہے۔ (مسلم :206/2 ،ترمذی :110/2) نیز آپؐ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ نام وہ ہے جس میں عبدیت ہو ، ’’احب الاسماء الی اللہ ما تعبد بہ ‘‘۔(حدیث ضعیف ہے، فتح الباری:694/10بحوالہ طبرانی)
اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی اسماء و صفات ہیں ، ان سب کی طرف عبد کی نسبت کرتے ہوئے نام رکھنا افضل ہے ، مثلاً عبدالرحیم ، عبدالصمد ،’’سبحان‘‘اللہ کے اسماء و صفات میں شامل نہیں ہے ، اس لیے ’’عبدالسبحان‘‘ نام رکھنا درست نہیں ، چنانچہ ابوالبرکات مولانا عبدالحی فرنگی محلی لکھتے ہیں :
’’ ان تسمیۃ العوام اطفالھم بعبد السبحان مما لا معنی لہ ویجیب نھیھم عنھا فان العبودیۃ لاتضاف الا الیٰ اسم من اسماء اللہ تعالیٰ والسبحان لیس علما لہ تعالی ولا وصفا لہ بل ہو مصدر‘‘۔
’’ عوام کا اپنے بچوں کا عبد السبحان نام رکھنا ایک بے معنی بات ہے ، ان کو اس سے روکنا واجب ہے ،کیونکہ ’’عبد‘‘کو صرف اللہ کے اسم کی طرف منسوب کیاجاسکتا ہے اور سبحان نہ علم ہے اور نہ صفت ، بلکہ وہ مصدر ہے ‘‘۔(السعایۃ:164/2)
اور اللہ تعالیٰ کی کچھ صفتیں اسی کے ساتھ مخصوص ہیں ، کسی مخلوق پر اس کا اطلاق درست نہیں ، جیسے رحمن ، علام الغیوب وغیرہ ، لیکن بعض صفتیں ایسی ہیں کہ معمولی درجہ میں کسی مخلوق کے اندر بھی پائی جاسکتی ہیں ، گرچہ دونوں کے درمیان کوئی تناسب نہیں ، مثلاً علی، رحیم ، کبیر‌ وغیرہ کہ علی کے معنی بلند، رحیم کے معنی مہربان اور کبیر کے معنی بڑا کے ہیں ، اور بلندی ، مہربانی اور بڑائی کسی نہ کسی حدتک بندوں میں بھی پائی جاتی ہے ، گرچہ خدا اور بندہ کے درمیان ان صفات میں کوئی نسبت نہیں ہے ،پہلی قسم کی صفات سے کسی مخلوق کا نام رکھنا درست نہیں ہے لیکن دوسری قسم کی صفات سے بندوں کو موسوم کیاجاسکتا ہے ،لہٰذا کسی کانام صرف رحمن رکھنا درست نہیں، البتہ صرف رحیم ،کریم ، رکھنا جائز ہے ، چنانچہ ہندیہ میں ہے :
’’قرآن میں موجود اللہ کے اسماء جیسے علی ، کبیر ، رشید ، بدیع سے نام رکھنا درست ہے ، کیوںکہ یہ مشترک اسماء ہیں ، لیکن جس معنی میں اللہ کے لیے استعمال ہوتا ہے بندوں کے حق میں وہ معنی مراد نہیں ہوتا ‘‘۔( والتسمیۃ باسم یوجد فی کتاب اللہ کالعلی والکبیر والرشید والبدیع جائزۃ لانہ من الأسماء المشترکۃ ویراد فی حق العباد غیر ما یراد فی حق اللہ۔ ھندیۃ: 362/5)

اسم محمد:

احمد و محمد اللہ کا منتخب کردہ نام ہے ، خدائے حکیم و رحیم نے جو نام اپنے محبوب اور آخری نبی کے لیے چنا ہو ، اس کی فضیلت کا کیا کہنا ؟ اسی لیے بعض لوگوں کا رجحان ہے کہ یہ دونوں نام تمام ناموں سے افضل اور پسندیدہ ہیں ، یہاں تک کہ عبداللہ اور عبدالرحمن سے بھی ، کیونکہ اگر سب سے  بہتر نام نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے آخری نبی کے لیے کیسے منتخب کرتے؟ اور جن حدیثوں میں یہ کہا گیا ہے کہ سب سے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں تو ان سے مراد و ہ اسماء ہیں جن کے شروع میں عبد لگانا مقصود ہو ، جن ناموں کے شروع میں عبد لگا ہوتا ہے ان میں سب سے بہتر عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں ۔(وتفضیل التسمیۃ بھما محمول علی من اراد التسمی بالعبودیۃ (رد المحتار: 417/6) لیکن علامہ زبیدی کو اس رائے سے اتفاق نہیں ، وہ کہتے ہیں کہ کسی دوسرے مقصد اور حکمت کے تحت نسبتاً کم افضل نام کو بھی ترجیح دی جاسکتی ہے ، یہاں نسبتاً کم افضل نام کو اس بات کی طر ف اشارہ کرنے کے لیے اختیار کیا گیا کہ آنحضور ﷺ ’’مقام حمد‘‘ پر فائز ہیں نیز اللہ کی صفت ’’حمید ‘‘ کے موافقت بھی مقصود ہے ، علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نام عبداللہ بھی ہے ، جیسا کہ سورۂ جن میں کہا گیا ۔
اس نقطہ نظر کے مطابق ناموں میں افضلیت کی ترتیب اس طرح ہے : عبداللہ پھر عبدالرحمن ، ان دونوں کے بعد محمد پھر احمد ، پھر ابراہیم ۔(الاتحاف:202/6)
احمد و محمد کس قدر شیریں اور بابرکت نام ہے ، اس نام میں پھولوں کی پاکیزگی اور شہد کی شیرینی رچی بسی ہے ، اس نام سے کام و دہن ایک عجیب اور انوکھی لذت سے ہم آشنا ہوتے ہیں ، اس نام سے ہماری فکری ، ذہنی اور مذہبی وابستگی کا تقاضا ہے ، اسے زیادہ سے زیادہ رواج دینے کی کوشش کی جائے ۔ ان الفاظ کا آنحضورؐ کی ذات بابرکات کے ساتھ تعلق ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس کا احترام کیاجائے ، اسے آنکھوں سے لگایا جائے ، دلوں میں بسایا جائے ۔ ان سب کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ محمد نام رکھنے کی فضیلت کے سلسلہ میں جو بعض احادیث عوام و خواص میں رائج ہیں ان کی استنادی حیثیت غیر معتبر ہے ، نیز عقل و درایت کی کسوٹی پر بھی پوری نہیں اترتی ، چنانچہ ’’موضوعات کبیر‘‘ میں ہے :
’’ من ھذا الباب احادیث مدح من اسمہ محمد او احمد وان کل من یسمی بھذا الاسم لم یدخل النار فھذا یناقض ماھو معلوم من دینہ ان النار لا یجار منھا بالاسماء والالقاب وانما النجاۃ منھا بالایمان والاعمال الصالحۃ‘‘ ۔
’’اور موضوعات میں سے وہ حدیثیں بھی ہیں جن میں اس کی تعریف آئی ہے جس کا نام محمد و احمد ہو اور یہ کہ جو یہ نام رکھے وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا ، تو یہ روایت دین کے معلوم اور مشہور بات کے خلاف ہے کہ نام اور لقب کے ذریعہ جہنم سے نہیں  بچا جاسکتا ہے ، جہنم سے نجات کے لیے تو ایمان اور نیک عمل کی ضرورت ہے ‘‘۔(الموضوعات الکبیر:157ملاعلی قاری)
واضح رہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ’’من ولد لہ مولود فسماہ محمداً کان ہو ومولودہ فی الجنۃ ‘‘(جس کاکوئی لڑکا پیداہو اور اس کانام محمد رکھے تو وہ اور اس کا لڑکا دونوں جنت میں داخل ہوں گے )اس روایت کو سیوطی نے حسن قرار دیا ہے ، لیکن اس کو ’’حسن ‘‘ کہنے میں سیوطی سے چوک ہوئی ہے ، ان کا خیال ہے کہ اس پر مکحول نامی شخص کی وجہ سے کلام ہے اور اس راوی کے متعلق انہوں نے دفاع کیا ہے ، حالانکہ واقعہ اس کے برعکس ہے ، کیونکہ اس حدیث پر اصل کلام حماد بن حامد کی وجہ سے ہے جس کے ضعف پر تقریباً تمام لوگوں کا اتفاق ہے ۔(الفوائد المجموعۃ مع التعلیق :471، الموضوعات :154/1لابن الجوزی تذکرۃ الموضوعات 109)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے :
’’من ولد لہ ثلاثۃ فلم یسم احدھم محمداً فقد جہل ‘‘ ۔
جس کے تین لڑکے ہوں اور اس نے کسی کا نام محمد نہیں رکھا تو اس نے جہالت کا ثبوت دیا ۔
لیکن یہ روایت حددرجہ ضعیف بلکہ بعض لوگوں کے خیال کے مطابق موضوع ہے ۔(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ:37/1-435،الفوائد المجموعۃ مع التعلیق:470) نیز واقعہ کے بھی خلاف ہے ، چنانچہ حضرت علیؓ کے تین لڑکے پیداہوئے اور تینوں کا نام خود آنحضرت ﷺ نے رکھا لیکن ان میں سے کسی کا نام محمد نہیں ، اس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔
ایسے ہی ایک حدیث میں کہا گیاہے :
’’اذا سمیتم الولد محمداً فعظموہ ووقروہ وبجلوہ ولا تذلوہ ولا تحقروہ‘‘۔
جب تم لڑکے کانام محمد رکھ دو تو اس کی تعظیم ،وقار اور اکرام کرو، اسے ذلیل وحقیر مت سمجھو ۔
لیکن یہ روایت بھی ضعیف بلکہ موضوع ہے ۔(الفوائد المجموعۃ:328)

انبیاء اور فرشتوں کے نام پر:

انبیاء کرام، انسانوں میں چنندہ ،راست گو، پاکباز اور اعلیٰ و اشرف ہوا کرتے ہیں ، یہ بنی آدم کے سربراہ اور رہنما ہیں ، ان کی زندگی اور ان سے وابستہ ہرچیز آئیڈیل اور نمونہ ہے ، ان کا اخلاق سب سے عمدہ ، ان کا عمل سب سے بہتر اور ان کانام سب ناموں سے اشرف ہے ۔(فیض القدیر:242/2)
ان کی شخصیت کی طرح ان کانام بھی پسندیدہ اور چنندہ ہوتا ہے ، ممتاز اور جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک انبیاء کے نام سب سے محبوب ہیں ۔(رواہ ابن ابی شیبۃ بسند صحیح، فتح الباری:707/10)
اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو انبیاء کے نام پر نام رکھنے کی ترغیب دی اور فرمایا کہ انبیاء کانام اختیار کرو ۔(’’ تسموا باسماء الانبیاء ‘‘۔رواہ احمد:345/4،وابوداؤد:676/2)او ر عملی طور پر خود اپنے صاحب زادے کا نام ابراہیم رکھا ،(مسلم) نیز بعض صحابہ کرام کو بھی انبیاء کے نام سے موسوم کیا ، چنانچہ عبداللہ بن سلام کے لڑکے کہتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے میرا نام یوسف رکھا ۔(رواہ البخاری فی الادب المفرد وسندہ صحیح فتح الباری:707/10)
ایک معصوم اور پاکیزہ گروہ کانام ’’فرشتہ ‘‘ ہے ، ان کی شخصیت کا اثر ان کے نام میں بھی ہے ، لہٰذ ا فرشتوں کے نام پر بھی رکھنا چاہیے ، اکثر علماء کا یہی خیال ہے کہ فرشتوں کے نام پر نام رکھنا درست ہے لیکن امام مالک کے نزدیک یہ ناپسندیدہ اور مکروہ ہے ۔(تحفۃ المودود:94،مغنی المحتاج:295/4)

بدترین نام :

انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ واحد کی عبادت اور بندگی ہے ، اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا بدترین جرم ہے ،( ان الشرک لظلم عظیم (القرآن الکریم، سورۃ لقمان، آیت:13)اگر اسی کے ساتھ زندگی تمام ہوجائے تو پھر معافی اور مغفرت نہیں ، (ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء (القرآن الکریم، سورۃ نساء، آیت:114) اور شرک تمام برائیوں کی جڑ ہے ، پچھلی تمام امتیں اسی کے سبب گمراہ ہوئی ہیں، اس لیے اسلام میں ان تمام چیزوں سے بچنے کاحکم دیاگیاہے جس میں شرک کی آمیزش ہو، جو کسی بھی درجہ میں فکر و عقیدہ کے اندر بگاڑ کاذریعہ بن سکتی ہوں، اس سلسلہ میں ذرا سا بھی لچک گوارا نہیں ، جس سے بھی شرک کی ذرا سی بو محسوس ہوئی ،اس پر بند لگا دیاگیا ، اور شرک کے درآنے کا کوئی رخنہ باقی نہیں چھوڑا گیا ۔
نام تو فکر و عقیدہ کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے ، اس لیے ایسے نام کو نہایت ہی برا سمجھا گیا ہے جس میں شرک کا کوئی شائبہ ہو ۔ چنانچہ حدیث میں ہے :
’’ اغیظ رجل علی اللہ یوم القیامۃ اخبثہ و اغیظہ علیہ رجل کان یسمی ملک الاملاک، لاملک الا اللہ۔‘‘
’’قیامت کے دن اللہ کا سب سے زیادہ غصہ اس شخص پر ہوگا جو اپنا نام شہنشاہ رکھے ، حالانکہ اللہ کے علاوہ کسی کی بادشاہت نہیں ، یہ نام سب سے زیاد ہ خبیث اور سب سے زیادہ غصہ دلانے کا سبب ہے ‘‘۔(مسلم: 208/2)
امام بخاری نے اس حدیث کی روایت ان الفاظ کے ساتھ کی ہے :
’’ اخنی الاسماء یوم القیامۃ عند اللہ رجل تسمی ملک الاملاک‘‘
’’ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بدترین اس شخص کانام ہوگا جو اپنے آپ کو شہنشاہ کہلائے ‘‘۔(بخاری:916/2)
اور شریح بن ہانی کے واسطہ سے یہ روایت منقول ہے  :
’’ ان کے والد جب اپنی قوم کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضورؐ نے سنا کہ لوگ انہیں ’’ابوالحکم‘‘ کہہ کر مخاطب کررہے ہیں ، یہ سن کر آنحضورؐ نے انہیں بلایا اور کہا کہ حکم (فیصلہ کرنے والا ) تو اللہ ہے ، اور حکم، اللہ ہی کی شان ہے ، تم نے ’’ابوالحکم‘‘ کنیت کیوں اختیارکی ؟ انہوں نے کہا کہ جب میر ی قوم میں کسی معاملہ میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ لوگ میرے پاس آتے ہیں اور میں ان کے درمیان فیصلہ کردیتا ہوں اور وہ میرے فیصلہ پر راضی بھی ہوجاتے ہیں (اس لیے مجھے ابوالحکم کہتے ہیں )، آپ ﷺ نے فرمایا ، تمہارا یہ کام تو بہت اچھا ہے لیکن یہ نام بہتر نہیں ، کیا تم صاحب اولاد ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں، شریح ،مسلم اور عبداللہ نام کے میرے لڑکے ہیں ، آپ ﷺ نے پوچھا ، ان میں سب سے بڑا کون ہے ؟ کہا کہ شریح ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم ابوشریح ہو ‘‘۔(مشکوۃ:408/2بحوالہ ابوداؤدونسائی)
ان کانام ایک طرح سے واقعہ کے مطابق اور ان کے کام کے مناسب ہے ، مگر اس سے اللہ کی صفت حاکمیت میں ایک گونہ شرکت کا شائبہ ہے ، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے گوارا نہ کیا ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام اس مسئلے میں کس قدر حساس ہے کہ شرک کے معمولی وہم اور رخنہ پر بھی بند لگانا ضرور ی سمجھتا ہے ۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’تم میں سے کوئی اپنے غلام اور باندی کو ’’عبدی ‘‘اور ’’امتی‘‘ کہہ کر ہرگز مخاطب نہ کر ے ، تم میں سے ہر ایک اللہ کا بندہ اور تمہاری عورتیں اللہ کی باندیاں ہیں ، لہٰذا تم اپنے غلام کو ’’غلامی ‘‘ اور ’’فتای‘‘ اور اپنی باندی کو جاریتی اور فتاتی کہہ کر پکارو اور کوئی غلام اپنے آقا کو ’’ربی ‘‘ نہ کہے بلکہ ’’سیدی ‘‘ کہہ کر پکارے‘‘۔(مشکوٰۃ:4072/2بحوالہ مسلم)
عربی میں ’’عبد‘‘ غلام کو اور  ’’امۃ‘‘ باندی کو کہتے ہیں اور ’’عبدی‘‘اور’’امتی‘‘ کہہ کر بلانے والے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے ، لیکن عبد اور امۃ کے مفہوم میں عبودیت اور بندگی بھی شامل ہے ، لہٰذا ان الفاظ کے ذریعہ مخاطب کرنے سے ذہن اس طرف بھی منتقل ہوسکتا ہے ، لہٰذا اس کی بھی ممانعت کردی گئی کہ ا س میں شرک کی جھلک ہے ۔
حضرت ہانی بن یزید روایت کرتے ہیں :
’’رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک وفد آیا ، وہ لو گ کسی کو ’’عبدالحجر‘‘ کہہ کر پکار رہے تھے ، آنحضور ﷺ نے انہیں طلب فرمایا اور کہا کہ تمہارا نام کیاہے ؟ انہوں نے کہا ’’عبدالحجر‘‘ ، رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم’’ عبداللہ‘‘ ہو ‘‘۔(اخرجہ ابن ابی شیبۃ:665/8واسنادہ صحیح الاصابۃ:596/3لابن حجر عسقلانی)
آنحضورﷺ ایسے تمام ناموں کو بدل دیتے تھے ، جن میں ’’عبد‘‘ کی اضافت غیراللہ کی طرف کی گئی ہو ، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق کا نام عبدالکعبہ سے بدل کر عبداللہ رکھا اور حضرت ابوہریرہؓ کانام عبد شمس تھا تو اسے عبدالرحمن سے بدل دیا ، وغیرہ ۔
ان روایتوں سے معلو م ہوتا ہے کہ اللہ کے مخصوص اسما ء و صفات کے ساتھ نام رکھنا نادرست ہے ۔اور ایسے تمام ناموں کی ممانعت ہے جس میں شرک کی آمیزش ہو ، جس سے کسی بھی درجہ میں شرک کا وہم ہوسکتا ہو ، لہٰذا خالق ، قدوس ، احد ، صمد ، رزاق وغیرہ نام رکھنا جائز نہیں ، اسی حکم میں عبدالمصطفیٰ، عبدالنبی، حیدر بخش ، نبی بخش جیسے نام بھی ہیں ، اس طرح کے ناموں کے نادرست ہونے پر تما م فقہاء کا اتفاق ہے ، چنانچہ ’’کشاف القناع‘‘ میں ہے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ ہر وہ نام حرام ہے جس میں عبد کی اضافت غیراللہ کی طرف کی گئی ہو ، جیسے عبدالعزیٰ ، عبد عمرو، عبدعلی ، عبدالکعبہ اور عبدالنبی، عبدالحسین، عبدالمسیح کا حکم بھی یہی ہے ۔(کشاف القناع:27/2،نیز دیکھیے مغنی المحتاج:295/4،تحفۃ المحتاج:373/10)
اور ملا علی قاری حنفی بڑی وضاحت کے ساتھ کہتے ہیں :
’’ولایجوز نحو عبد الحارث ولا عبد النبی ولا غیرہ بما شاع بین الناس‘‘
’’ عبدالحارث اور عبدالنبی نام رکھنا جائز نہیں اور عوام میں رواج کا کوئی اعتبار نہیں‘‘۔(مرقات:105/9،اور ابن عابدین شامی کہتے ہیں ویوخذ من قولہ ولا عبد فلان منع التسمیۃ بعبد النبی۔ رد المحتار:418/6)
اسی زمرے میں تصدق حسین ، الطاف حسین جیسے شرکیہ نام بھی ہیں ، یہ نام شیعوں کے اثر سے مسلمانوں میں داخل ہوگئے ہیں، ان سے بچنا چاہیے ۔

ناپسندیدہ نام:

حدیث میں ایسے نام کو ناپسند کیاگیاہے جس سے ایک طرح سے بدشگونی ہوتی ہو ، حضرت سمرہ بن جندب نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ لاتسمین غلامک یساراً ولا رباحا ولا نجیحا ولا افلح فانک تقول اثم ھو فیقول لا ‘
’’اپنے غلام کا نام یسار (آسانی )، رباح(نفع بخش)،نجیح (کامیاب)، افلح (کامیاب)مت رکھو ، کیونکہ تم پوچھوگے کہ کیاوہ موجود ہے ؟ تو کہا جائے گا کہ نہیں‘‘۔(مشکوٰۃ:407/2بحوالہ مسلم)
بعض روایتوں میں ان ناموں کا اضافہ ہے ، یعلی ،برکت ، نافع ، برہ،(مسلم: 207/2،ترمذی:111/2وغیرہ)
ان ناموں سے ممانعت کی وجہ بدشگونی ہے کہ کسی کا نام برکت ہو اور پوچھا جائے کہ کیا برکت گھر میں ہے ؟ اور موجود نہ ہونے کی صورت میں جواب ملے کہ برکت گھر میں نہیں ہے تو اس سے ایک طرح کی بد شگونی ہوگی ۔
امام نووی نے لکھا ہے کہ ممانعت صرف مذکورہ ناموں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس مفہوم کے جتنے بھی نام ہیں وہ اس ممانعت میں شامل ہیں ، لیکن یہ ممانعت تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے ۔(شرح نووی علی مسلم:207/2)
ایسے نام کو بھی اچھا نہیں سمجھا گیا ہے جس سے تزکیہ ،بڑائی اور اپنی پاکی وصفائی کا اظہار ہو ، حدیث میں ہے کہ حضرت زینب کانام پہلے برۃ (نیکوکار)تھا ، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بدل دیا اور فرمایا کہ خود پاک و صاف مت بنو ، اللہ بخوبی جانتا ہے کہ تم میں نیکوکار کون ہے ۔( ’’لاتزکوا انفسکم فان اللہ اعلم باھل البرمنکم‘‘۔مسلم:208/2)
جو نام واقعہ کے مطابق اور انسانی اوصاف سے مناسب اور قریب تر ہوں ، ان کا اختیار کرنا بہتر ہے اور جن ناموں سے سختی ،ترشی اور لڑائی کا اظہار ہو ، انہیں اپنانا اچھا نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے سچا نام حارث اور ہمام ہے اور سب سے برا نام حرب اور مرۃ ہے ۔(واصدقھا حارث واقبحھا حرب ومرۃ،ابوداؤد)
حارث کے معنی کمانے اور حاصل کرنے والا ، ہمام کے معنی سوچنے اور ارادہ کرنے والا ، ہر انسان کو کچھ نہ کچھ حاصل کرتا ہے ، سوچنا اور غور و فکر تو اس کی فطرت میں شامل ہے ، اس اعتبار سے یہ دونوں نام حقیقت کے مطابق اور سچے ہیں ، حرب لڑائی کو اور مرۃ ترشی کو کہا جاتا ہے ، ترشی اور کڑواہٹ اور لڑائی کا برا ہونا سب پر عیاں ہے ، اس لیے ان ناموں کو سب سے برا نام کہاگیا ۔
ایسے نام اختیار نہ کرنا چاہیے جس سے غیر مسلموں سے مشابہت ہو ، اور مسلمانوں کی اپنی شناخت اور پہچان باقی نہ رہے۔   اورجونام قرآن و حدیث سے ثابت نہ ہو نیز اسلاف میں اس کا رواج نہ ہو تو اس کاانتخاب نہ کرنا ہی بہتر اور افضل ہے ۔( رد المحتار:417/6)

نام بگاڑنا :

ہر انسان کی تعظیم واجب ہے ، کسی کی بھی تحقیر شرعی اعتبارسے نادرست ہے ، نام بگاڑنا بھی ایک طرف سے تحقیر ہے ، لہٰذا اس سے بچنا اور احتیاط کرنا ضروری ہے ۔
نام بگاڑنا دو طرح سے ہوتا ہے ، کبھی اختصار کے لیے کسی حرف یا لفظ کو حذف کردیا جاتا ہے ، جیسے عبدالرحمن کوصرف رحمان کہنا ، اور کبھی آخر میں واو یا الف وغیرہ لگا کر اور کچھ حرفوں کو گرا کر تصغیر کر دیاجاتا ہے ، جیسے رحیم سے رحموا ، قادر سے قدرا وغیرہ ۔
اس سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ اللہ کے اسم صفت کے شروع میں عبد لگا ہو تو عبد کو حذف کرکے پکارنا سخت بے ادبی ہے ، خواہ وہ صفات اللہ کے لیے مخصوص ہوں یا کسی درجہ میں بندوں میں بھی پائی جاسکتی ہوں (جس کی تفصیل گزر چکی ہے ) دونوں کا یہی حکم ہے ، کیونکہ وہ صفتیں جوکسی درجہ میں بندوں میں بھی پائی جاسکتی ہوں ، جب ان کے شروع میں ’’عبد ‘‘ لگاکر نام رکھاجائے تو وہ ذات باری کے لیے متعین ہوجاتی ہیں ، کیونکہ نام رکھنے والے کے ذہن میں ان صفات سے ذات خداوندی مراد ہے ، اسی لیے تو اس نے عبد کی اضافت اس طرف کی ہے ، اورجب اللہ کی ذات مراد ہے تو پھر کسی انسان کو اس نام سے پکارنا کیسے درست ہوگا ؟ بلکہ عقیدہ بھی اس کے موافق ہوتو کفر ہے ، چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں :
’’ من قال لمخلوق یا قدوس او القیوم او الرحمان او قال اسما من اسماء اللہ الخالق کفر انتھی، وھو یفید انہ من قال لمخلوق یا عزیز و نحوہ یکفر ایضاً الا ان اراد بھا المعنی اللغوی، والاحوط ان یقول یا عبد القدیر یا عبد الرحمان‘‘ ۔
’’ کسی مخلوق کو قدوس ، قیوم ، رحمن اور اللہ کے ناموں میں سے کسی نام سے پکارنا کفر ہے ، ا س قول سے معلوم ہوتاہے کہ جوکوئی کسی مخلوق کو عزیز کہہ کر مخاطب کرے تو اسے کافر کہا جائے گا مگر یہ کہ لغوی معنی مراد لے اور احتیاط اس میں ہے کہ عبدالقدیر اور عبدالرحمن کہہ کر آواز دے ‘‘۔(شرح الفقہ الاکبر/ 293)
اللہ کے اسماء کے سوا دوسرے ناموں سے بطور اختصار آخر سے کسی حرف کو حذف کردینے میں کوئی قباحت نہیں ، خود آنحضرت ﷺ سے ایسا کرنا ثابت ہے ، حضرت ابوسلمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے کہا کرتے تھے اے عائش! جبریل تجھے سلام کہہ رہے ہیں ،(فتح الباری: 711/10 بحوالہ الادب المفرد للبخاری) ایسے ہی حضرت عثمانؓ کوکبھی ’’عثم‘‘کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔
بطور اہانت اور تحقیر کسی نام کو بگاڑنا غلط اور باعث گناہ ہے ، خاص کر اللہ کے اسماء وصفات میں یہ گناہ شدید تر ہے ، فقہ و فتاویٰ کی ممتاز اورشہرۂ آفاق کتاب ردالمحتار میں ہے :
’’ من الحق اداۃ التصغیر فی آخر اسم عبدالعزیز ونحوہ مما اضیف الی واحد من اسماء الحسنی ان قال ذلک عمداً کفر، وان لم یدر ما یقول ولا قصد لہ لم یحکم بکفرہ، ومن سمع منہ ذلک یحق علیہ ان یعلمہ‘‘
’’عبدالعزیزاور ایسے ہی اللہ کے جس اسم کی طرف عبد کی اضافت کی گئی ہو ، اس کے آخر میں حرف تصغیر لگانا کفر ہے ، اگر جان بوجھ کر ہو ، اور اگرمعلوم نہیں کہ کیا کہہ رہا ہے اور نہ قصد و ارادہ کودخل ہے تو کفر نہیں ہے ، اور جوکوئی ایسا سنے اس کے لیے اس پر متنبہ کرنا ضروری ہے ‘‘۔(رد المحتار:417/6،نیز دیکھیے شرح فقہ اکبر:293)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حاشیہ __________________________________
(۱) رواہ احمد و ابوداؤد، مشکوٰۃ:408/2، قال النووی: اسنادہ جید و صححہ ابن حبان (د:الاتحفاف: 204/6) قال ابن حجر: رجالہ ثقات الا ان فی سندہ انقطاعا بین عبد اللہ بن  زکریا راویہ وابی الدرداء فانہ لم یدرکہ (فتح الباری:706/10) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ قیامت کے دن اپنے باپ کی طرف منسوب کرکے پکارے جائیں گے اور یہی صحیح ہے ، بخاری کی ایک روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور خود امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے ، چنانچہ وہ عنوان قائم کرتے ہیں ’’باب ما یدعی الناس بآباءھم ‘‘(اس بات کے بیان میں کہ لوگ اپنے باپ کے نام سے پکارے جائیں گے )اور اس عنوان کے ذیل میں یہ حدیث مذکور ہے: ’’عن ابن عمرعن النبیﷺ قال ان الغادر یرفع لہ لواء یوم القیامۃ یقال ھذا غدرۃ فلان بن فلان ‘‘حضرت عبداللہ بن عمر نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ وعدہ وفا نہ کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑ دیاجائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی بے وفائی کا انجام ہے دیکھئے: بخاری مع فتح الباری:،289/10 اور حقیقت کے اعتبار سے جس کا نسب ثابت نہیں ، وہ دنیا میں جس طرح اپنی ماں کے شوہر کی طرف منسوب ہوتا تھا ،آخرت میں بھی اسی نسبت سے پکارا جائے گا ، گرچہ خلافِ حقیقت ہی کیوں نہ ہو (فتح الباری:289/10)تاکہ جس طرح اللہ نے دنیا میں اس کی پردہ پوشی کی ہے اسی طرح سے آخرت میں بھی اس کا پردہ فاش نہ ہو ، لیکن کوئی شخص دنیا ہی میں غیر ثابت النسب مشہور ہے تو پھر آخرت میں اس طرح پکارنے میں کیا قباحت ؟رہی وہ حدیث جس میں کہاگیا ہے کہ : بندوں کی پردہ پوشی کی غرض سے لوگ قیامت میں اپنی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارے جائیں گے ،’’عن ابن عباس ان اللہ یدعو الناس یوم القیامۃ بامھاتھم سترا منہ علی عبادہ‘‘ (رواہ الطبرانی)ایسے ہی یہ حدیث کہ جب تمہارے کسی بھائی کا انتقال ہوجائے اور تم دفن سے فارغ ہوجاؤ تو اس کے قبر کے پاس سرہانے کھڑے ہوکر یہ کہو ،اے فلاں بن فلانہ…ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر اس کی ماں کانام معلوم نہ ہو؟ آنحضورؐ نے فرمایاکہ اس کی ماں حوا کی طرف منسوب کرکے کہے ،’’اذا مات احد من اخوانکم فسویتم التراب علی قبرہ فلیقم احدکم علی رأس قبرہ ثم لیقل یا فلان بن فلانۃ…وفیہ فقال رجل یا رسول اللہ فان لم یعرف امہ فقال فلینسبہ الی امہ حواء،(رواہ الطبرانی)یہ دونوں حدیثیں حددرجہ ضعیف ہیں ، اس لیے ان پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا ہے ، خاص کر جب اس کے مقابلہ میں صحیح حدیث موجود ہو ۔(دیکھیے فتح الباری:689/10عون المعبود:291/13)
(۲) حدیث میں جن ناموں کی تبدیلی کا تذکرہ آیا ہے وہ یہ ہیں : عاص،عزیز،عتلۃ، شیطان،حکم،غراب،حباب،شھاب، ابوالحکم،برۃ وغیرہ(دیکھیے ابوداؤد:677/2،زاد المعاد:236/2،فتح الباری:706/10) ملاعلی قاری نے لکھاہے کہ اگر ’’شہاب ‘‘ کی نسبت دین کی طرف کرکے شہاب الدین رکھاجائے تو مکروہ نہیں ہے ۔ (عون المعبود :298/13)
(٣) ایک وادی کا نام ’’شعب الضلالۃ‘‘(گمراہی کی گھاٹی)تھا، آپؐ نے بدل کراس کانام ’’شعب الھدایۃ‘‘ (ہدایت کی وادی )رکھ دیا۔(زاد المعاد:336/2،ابودائود:677/2)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے