ماحولیات کا تحفظ ۔

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

یہ حسین وجمیل کائنات ایک خاص مقصد اور انسانیت کے فائدے کے لیے ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ‘‘۔
’’وہ اللہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ‘‘۔(سورۃ البقرہ:29)
اورایک دوسری آیت میں ہے :
’’وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْن‘‘۔
’’ ہم نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ‘‘۔(سورۃ الدخان:38)
یہ سب انسان دوست اور اس کے لیے معاون و مددگار اور ایک نپی تلی مقدار میں ہیں نیز ان میں حد درجہ تواز ن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے ، چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
’’ اِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ‘‘۔
’’ہم نے ہرچیز کوایک انداز سے پیدا کیا ہے ‘‘۔(سورۃ القمر:49)
اور ایک دوسری آیت میں ہے :
’’وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰھَا وَاَلْقَیْنَا فِیْھَا رَوَاسِیَ وَاَمنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ مَّوْزُوْنٍo وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِیْنَo وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُہٗ وَمَا نُنَزِّلُہٗ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ‘‘۔
’’ اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا اور اس پر پہاڑ گاڑ دیے اور ہم نے اس میں ہر چیز ایک متعین مقدار سے اگادی ،اور اسی میں ہم نے تمہارے لیے زندگی گزارنے کے اسباب پیدا کر دیے اور انہیں بھی جن کو تم روزی دینے والے نہیں ہو ، اور تمام چیزوں کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم ہر چیز کو ایک متعین مقدار میں اتارتے ہیں ‘‘۔(سورۃ الحجر:21/19)
انسان اس کائنات میں اللہ کا خلیفہ ہے ، یعنی اللہ کے احکام کو قائم رکھنے اور اس کے حکموں کے نفاذ میں اس کا نائب ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کائنات کا مالک نہیں بلکہ امین اور محافظ ہے ، وہ یہاں خود مختار نہیں اور نہ ہی وہ ہر طرح کے تصرف کا حقدار ہے ، بلکہ وہ اللہ کے حکموں کا پابند ہے اور اس نے اس کائنات میں جس موزونیت اور تناسب کوقائم کیا ہے ، اس کو باقی رکھنے کا ذمہ دار ہے اور ایسا کوئی بھی کام جس کی وجہ سے توازن اور تناسب میں خلل واقع ہو، روئے زمین پر فساد پھیلانے کے مترادف اور دنیاوی مصیبت اور اخروی عذاب کا باعث ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا ‘‘ ۔
’’ اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو ‘‘۔(سورۃ الأعراف:85)
لیکن آج کا انسان اپنے ہی ہاتھوں اپنا گلا گھونٹنے کے لیے کوشاں ہے ، اس نے اپنی مفسدانہ حرکتوں سے کائنات کے توازن کو بگاڑ دیا ہے اور کوئی چیز اپنی اصلی اور طبعی حالت پر باقی نہیں رہی ، جس کے نتیجے میں خود اس کا اپنا وجود خطرے میں ہے ، بلکہ اس کے کرتوتوں کی وجہ سے چرند ، پرند ، نباتات و جمادات ہر ایک کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے ، گویا آج کے حالات پر یہ آیت پوری طرح سے صادق آرہی ہے کہ :
’’ ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَاکَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْالَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ‘‘۔
’’ لوگوں کی بد اعمالی کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے تاکہ انہیں ان کے کرتوت کا پھل مل جائے ، ہوسکتاہے کہ اس کی وجہ سے وہ باز آجائیں‘‘۔(سورۃ الروم:41 )
مذکورہ آیت میں ماحولیاتی آلودگی ، اس کی خطرناکی ، اس کے اسباب اور اس کے علاج کوایک اچھوتے انداز میں اور نہایت اختصار کے ساتھ بیان کر دیاگیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کا نتیجہ خشکی اور تری ہر جگہ فساد کا ظہور ہے اور اس کا سبب انسانوں کے کرتوت اور ان کی غلط حرکتیں ہیں ،اور اس کا علاج یہ ہے کہ انسان ان مفسدانہ کاموں سے باز آجائے ۔
یہ صحیح ہے کہ انسان کو کچھ آزادی دی گئی ہے ، لیکن یہ آزادی بھی مشروط ہے کہ اس سے کسی دوسرے کو ضرر اور تکلیف نہ پہنچے ، اگر اس کی آزادی سے دوسرے کو نقصان پہنچتا ہے خواہ یہ نقصان اجتماعی ہویا انفرادی تو اس کے ہاتھ کو پکڑنا ایک مذہبی فریضہ ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
’’ مثل القائم علی حدود اللّٰہ والواقع فیھا کمثل قوم استھموا علی سفینۃ فأصاب بعضھم اعلھا وبعضھم اسفلھا، فکان الذین فی اسفلھا اذا استقوا من الماء مروا علی فوقھم فقالوا لو انا اخرقنا فی نصیبنا خرقا ولم نوذ من فوقنا، فان یترکوھم وما ارادوا ھلکوا جمیعا وان اخذوا علی ایدیھم نجوا ونجوا جمیعا ‘‘۔
’’ اللہ کی حدوں پر قائم رہنے اور اسے پھلانگنے والے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ کچھ لوگوں نے کشتی میں بیٹھنے کے لیے قرعہ اندازی کی اور اس کے نتیجے میں بعض لوگوں کے حصے میں اوپری منزل آئی اور بعض کے حصے میں نچلی منزل ، جو لوگ نچلی منزل میں تھے ، انہیں پانی لینے کے لیے اوپر آنا پڑتا تھا ، اس لیے انہوں نے سوچا کہ اگر ہم نچلے حصے میں سوراخ کرلیں تو ہمیں اوپر جانے کی ضرورت نہ ہوگی اور ہمارے بار بار آنے جانے کی وجہ سے اوپر والوں کو جو تکلیف ہورہی تھی وہ لوگ بھی اس سے نجات پاجائیں گے ، لیکن اگر وہ لوگ انہیں ایسا کرنے کے لیے چھوڑدیں تو سب ہلا ک ہوجائیں گے اور اگر انہیں روک دیں تو سب بچ جائیں گے ‘‘۔ (الصحیح للبخاری:2361 الجامع للترمذی:2173،المسند لاحمد:18378)
اس حدیث میں کشتی کے نچلے حصے میں رہنے والوں کو ان کی نیک نیتی اور سہولت کی تلاش کی وجہ سے معذور نہیں سمجھا گیاہے ، کیونکہ ان کی حسن نیت اور آسانی کا نتیجہ تمام لوگوں کی ہلاکت کی شکل میں ظاہر ہونے والا ہے ، اس لیے ’’عمومی مصلحت ‘‘ اور ’’ضررعام ‘‘ کو دور کرنے کے لیے ان کے ہاتھ کو پکڑنا ضروری ہے ، لہٰذا ایسی کوشش کی حوصلہ شکنی بھی لازمی ہے جس سے ماحولیات کو نقصان پہنچے ، جس کا نتیجہ جسم ، عقل اور نسل کے ضرر اور تباہی کی شکل میں بالکل سامنے ہے ، اور اللہ کے رسول کا ارشاد ہے :
’’ لا ضرر ولا ضرار‘‘ ۔
’’ کسی کونقصان پہنچا نا اور پریشان کرنا صحیح نہیں ہے ‘‘۔( السنن لابن ماجہ:2340الموطا لمالک:1429، المسند لاحمد:2567 وقال الحاکم صحیح علی شرط مسلم ووافقہ الذھبی المستدرک:2345)
علامہ ابن عبد البر وغیرہ نے اس حدیث کی شرح کر تے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ضرر‘‘ یہ ہے کہ انسان اپنے فائدے کے لیے کسی کو نقصان پہنچائے اور ’’ضرار ‘‘یہ ہے کہ بلاوجہ اور بے فائدہ کسی کو نقصان پہنچائے ،(جامع العلوم والحکم: 304 لابن رجب)غرضیکہ ہر طرح کے ضرر اور نقصان سے خود بچنا اور دوسروں کو بچانا ضروری ہے جس کے لیے ماحولیات اور کائنات میں موجود توازن کی حفاظت ناگزیر ہے ۔

پانی کی حفاظت:

اللہ کی نعمتوں میں سے پانی ایک اہم نعمت ہے اور ہر جاندار کے لیے ذریعہ وجود اور سبب حیات ہے ، چنانچہ قرآن مجید میں ہے :
’’ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ‘‘۔
’’ اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے بنایا ‘‘۔(سورۃ الانبیاء:30)
پانی کی اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز میں اور متعدد جگہوں پر تقریباً ترسٹھ مرتبہ پانی کا ذکر کیاہے اور اس کی یہ صفت بیان کی ہے : الطہور(پاک )، المبارک(بابرکت )،الغدق(کثیر)،الفرات(میٹھا) الثجاج (بہت بہنے والا)۔
اور پاک و صاف پانی کو بطور احسان ذکر فرمایاہے :
’’ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً طَھُوْرًا ‘‘۔
’’اور ہم نے آسمان سے پاکیزہ پانی نازل کیا ‘‘۔(سورۃ الفرقان:48)
کہا جاتا ہے کہ ایک انسان کھائے بغیر تقریباً ایک ماہ تک زندہ رہ سکتا ہے مگر پانی کے بغیر زیادہ سے زیادہ صرف ایک ہفتہ۔ پانی کی اس لازمی اور بنیادی ضرورت کے پیش نظر اسے مشترکہ ملکیت قرار دیا گیاہے ، چنانچہ اللہ کے رسول کا ارشاد ہے کہ :
’’ المسلمون شرکاء فی ثلاث الماء والکلاء والنار‘‘ (السنن لابی داؤد: 3477ولابن ماجہ: 2472والمسند لأحمد:23132)
’’پانی ، گھاس اور آگ میں تمام مسلمان شریک ہیں ‘‘۔
اور بوقت ضرورت لوگوں کو اس سے محروم رکھنے پر شدید وعید بیان کی گئی ہے ، حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ ثلاثۃ لا یکلمھم اللہ ولا ینظر الیھم ولایزکیھم ولھم عذاب الیم: رجل علی فضل ماء بطریق یمنع منہ ابن السبیل ورجل بایع رجلا لا یبایعہ الا للدنیا، فان اعطاہ ما یرید وفی لہ والا لم یف لہ، ورجل ساوم رجلا بسلعۃ بعد العصر فحلف باللہ لقد اعطی بھا کذا و کذا فاخذھا ‘‘۔
’’ تین لوگوں سے اللہ تعالیٰ نہ تو بات کریں گے اور نہ ان کی طرف دیکھیں گے اور نہ انہیں پاک صاف کریں گے ، ایک و ہ شخص جس کے پاس زائد پانی ہو لیکن وہ کسی مسافر کو دینے سے انکار کر دے ، دوسرا وہ شخص جو کسی سے صرف دنیا حاصل کرنے کے لیے بیعت کر ے ، اگر اس کو دنیاوی فائدہ ملتا رہے تو وہ اس کا وفادار رہے ورنہ نہیں، تیسرا وہ شخص جو عصر کے بعد کسی سامان کا بھاؤ تاؤ کرے اور جھوٹی قسم کھا کر کہے کہ یہ سامان اس کو اتنے میں ملا ہے اور خریدنے والا اس کی قسم پر اعتماد کرکے اسے اس قیمت پر خرید لے ‘‘۔(الصحیح للبخاری:2527ولمسلم:108)
اور ایک دوسری روایت میں ہے :
’’ فیقول اللہ یوم القیامۃ: الیوم امنعک فضلی کما منعت فضل مالم تعمل یداک‘‘۔
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے کہیں گے کہ جس طرح تونے اس زائد پانی کو نہیں دیا تھا جسے حاصل کرنے میں تمہارے ہاتھوں کوکوئی دخل نہیں تھا ، اسی طرح سے آج میں تم سے اپنے فضل کو روک لوں گا ‘‘۔(الصحیح للبخاری:7008)
پانی زندگی کا ایک بنیادی حصہ ہے اور اسی کے ساتھ ایک مسلمان کے لیے نماز اور تلاوت قرآن جیسی اہم عبادت کے لیے بھی ناگزیر ہے ،اس لیے حدیث اور فقہ کی کتابوں میں اس سے متعلق تفصیلی بحث ملتی ہے ، جس سے پانی کی طہارت و نظافت اور نجاست و قذارت کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کو معلوم کیا جاسکتاہے اور خود کلام پاک میں کہاگیاہے:
’’وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَآئً لِّیُطَھِّرَکُمْ‘‘۔
’’اور آسمان سے تمہارے لیے پانی برساتا ہے تاکہ تمہیں پاک کرے ‘‘۔(سورۃ الانفال:11)
اور حدیث میں ہر ایسی کوشش کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے ، اور دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کی بشارت دی گئی ہے ، جس کے ذریعہ لوگوں کے لیے پانی کا نظم کیاجائے ،حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا :
’’ سبعۃ یجری علی العبد اجرھن من بعد موتہ فی برہ، من علم علما، او اکری نھرا، او حفر بئرا او غرس نخلا او بنی مسجدا او ورث مصحفا او ترک ولدا یستغفر لہ‘‘۔
’’ سات چیزوں کا فائدہ مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ،جو کسی کوعلم سکھا دے یا نہر اور کنواں کھود دے ، یا درخت لگادے یا مسجد بنادے یا قرآن چھوڑ جائے یا اس کا کوئی بچہ ہو جو اس کی مغفرت کی دعا کر ے‘‘۔ (المسند للبزار:7289 صحیح الجامع للالبانی:3602)
اور حضرت عثمان کے گھر کو جب بلوائیوں نے چاروں طر ف سے گھیر لیا تو انہوں نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا :
’’ انشدکم ولا انشد الا اصحاب النبیﷺ الستم تعلمون ان رسول اللہﷺ قال من حفر رومۃ فلہ الجنۃ، فحفرتھا‘‘۔
’’میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں اور اس قسم کے مخاطب صرف صحابہ کرام ہیں ، کیا تمہیں معلو م نہیںکہ رسول اللہ نے فرمایا تھاکہ جو کوئی رومہ نامی کنویں کو خرید کر مسلمانوں کو دے دے تو اس کے لیے جنت ہے اور میں نے اسے خرید کر مسلما نو ں کے حوالے کردیا ‘‘۔(الصحیح للبخاری2626،الجامع للترمذی3699 السنن للنسائی:3182،المسند لاحمد: 420)
اور آبی ذخائر کی حفاظت کاحکم دیا گیا ہے اور اس میں اسراف سے منع کیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
’’ کُلُوْاوَاشْرَبُوْاوَلَاتُسْرِفُوْا ج اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ‘‘۔
’’کھاؤ اور پیو مگر فضول خرچی نہ کرو ، اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ‘‘۔(سورۃ الاعراف:31)
اسراف اور فضول خرچی درحقیقت فساد کی ایک شکل ہے ، اس لیے دوسری جگہ فرمایا گیا ہے :
’’ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ‘‘۔
’’اللہ کی روزی میں سے کھاؤ پیو مگر زمین میں فساد نہ پھیلاؤ ‘‘۔(سورۃ البقرۃ:60)
اور سورۃ الشعراء میں کہا گیا ہے :
’’ وَلَا تُطِیْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَO الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ‘‘۔
’’اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی بات مت مانو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے ‘‘۔(سورۃ الشعراء:152،151)
اور حضرت عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد کو وضو کرتے ہوئے دیکھا اور فرمایا :
’’ ما ھذا الاسراف؟ فقال: افی الوضوء اسراف؟ قال نعم، وان کنت علی نھر جار‘‘۔
’’یہ کیسی فضول خرچی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : کیا وضومیں بھی فضول خرچی ہے؟ فرمایا : ہاں اگر چہ تم بہتے ہوئے نہر کے کنارے پر وضو کر رہے ہو ‘‘۔(السنن لابن ماجہ: 425المسند لاحمد:7065،الصحیحۃ للالبانی2843)
پاکی حاصل کرنا ایک عبادت ہے اور حضرت سعدؓ کے تصور سے یہ بالاتر تھا کہ عبادت کے لیے پانی استعمال کر نے میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے اور حد سے تجاوز فضول خرچی ہے ، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس خیال کو ختم کرنے کی کوشش کی اور فرمایا کہ ہاں عبادت کے لیے بھی حد سے زیادہ پانی خرچ کرنا فضول خرچی ہے اور علامہ نووی لکھتے ہیں کہ علماء کا اس پراتفاق ہے کہ پانی میں فضول خرچی ممنوع ہے گر چہ وہ سمندر کے کنارے پر ہو ۔(المنھاج:4/2)
اور پانی کو آلودہ کرنے سے منع کیا گیاہے ، بلکہ پانی کو ڈھانک کر رکھنے کاحکم دیا گیا ہے ، تاکہ اس میں بیماری کے جراثیم سرایت نہ کریں، حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ :
’’ غطوا الاناء اوکوا السقاء، فان فی السنۃ لیلۃ ینزل فیھا وباء لا یمر باناء لیس علیہ غطاء او سقاء لیس علیہ وکاء الا نزل فیہ من ذلک الوباء‘‘۔
’’ برتن کو ڈھانک دو اور مشک کو باندھ دو ، کیونکہ سال میں ایک بار رات میں وبائیں نازل ہوتی ہیں اور اگر کوئی برتن کھلا ہوا ہو تو وبا اس میں داخل ہوجاتی ہے ‘‘۔(الصحیح لمسلم:2014 المسند لاحمد:14871)
اور حضرت ابوہریرہؓ سے منقول روایت میں ہے :
’’ نھی النبی ﷺ ان یشرب من فی السقاء‘‘۔
’’ نبی ﷺ نے مشک میں منھ لگا کر پانی پینے سے منع فرمایا ہے ‘‘۔(الصحیح للبخاری:5305وغیرہ)
اس حدیث کی شرح میں کہاگیا ہے کہ پانچ وجہوں سے آنحضرت ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایاہے :
1۔ ہوسکتا ہے کہ مشک میں کوئی کیڑا یا تنکا ہو اور وہ حلق میں چلاجائے ۔
2۔ یکبارگی بڑی مقدار میں پانی جانے کی وجہ سے گلے میں پھانس لگنے کا اندیشہ ہے ۔
3۔ پانی چوس کر پینا ممکن نہیں اور یکبارگی منھ بھر کر پینے کی وجہ سے جگر کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے
4- مشک میں بد بو پیدا ہوجائے گی ۔
5۔ دوسروں کو یہ خیال ہوگا کہ پینے والے کے منھ سے کچھ پانی واپس مشک میں چلاگیا ہوگا اور وہ اس سے پانی پینے میں گھن محسوس کریں گے ۔(کشف المشکل من حدیث الصحیحین:574/1)
جدید اکتشافات کی روشنی میں ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس طرح پانی پینے سے متعدی جراثیم دوسروں کو منتقل ہوسکتے ہیں ۔
اور علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھاہے کہ مشک سے پانی پینے کی بعض روایتیں حالت ضرورت پر محمول ہیں ۔(فتح الباری:92/10)
اور حضرت ابوہریرہؓ ہی سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ اذا شرب احدکم فلا یتنفس فی الاناء فاذا اراد ان یعود فلینح الاناء ثم لیعد ان کان یرید‘‘۔
’’ جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے ، اگر دوبارہ پینا چاہے تو پہلے برتن منہ سے الگ کردے ، پھر دوبارہ پئے ‘‘۔( السنن لابن ماجہ:3427)
اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے :
’’ ان النبیﷺ نھی عن النفخ فی الشرب فقال رجل القذاۃ اراھا فی الاناء قال اھرقھا قال فانی لا اروی من نفس واحد قال فاَبِن القدح اذن عن فیک ‘‘۔
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پینے میں سانس لینے سے منع فرمایا ، ایک شخص نے کہا کہ اگر برتن میں تنکا نظر آئے ؟ آپؐ نے فرمایا کہ پانی گرادو ، اس نے کہا میں ایک سانس میں آسودہ نہیں ہوتا ہوں ، فرمایا کہ برتن اپنے منہ سے الگ کر دو ‘‘۔(الجامع للترمذی:,1887، المسند لاحمد:11219)
اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن عبد البر کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ بر تن میں سانس لینے کی ممانعت کی وجہ کیا ہے؟اس میں علما ء کے درمیان اختلاف ہے ، بعض لوگوں کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک سانس میں پانی پینا علماء طب کے یہاں ناپسندیدہ ہے ، کیونکہ اس سے جگر کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور بعض لوگوں کا کہناہے کہ یہ آدابِ مجلس کے خلاف ہے کیونکہ برتن میں سانس لینے کی وجہ سے اس کے ذریعہ تھوک اور لعاب اس میں منتقل ہوسکتا ہے ، اور یہ بے ادبی ہے کہ کوئی ایسی چیز اپنے ہم نشیں کو دے جس میں اس کے لعاب کی آمیزش ہو ۔(التمھید:397/1)
اور علامہ ابن دقیق العید کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اس کے منہ سے کوئی چیز نکل کر اس میں شامل ہوجائے جس سے دوسروں کو گھن محسوس ہو ، اس لیے ایسا کرنے میں دوسروں کے لیے پانی کو خراب کرنا ہے کیونکہ اس کی طبیعت اسے پینا گوارہ نہیں کرے گی ۔(احکام الاحکام شرح عمدۃ الاحکام:46/1)
اور حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ پانی کو صاف رکھنے کے مقصد سے یہ ممانعت بطور ادب ہے ، اس لیے کہ سانس کے ساتھ تھوک ، ناک کی ریزش ، یا خراب ہوا پانی میں منتقل ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے اس میں بدبو پیدا ہوجائے گی ، اس لیے وہ خود یا کوئی دوسرا اسے پینے میں گھن محسوس کر ے گا ۔(فتح الباری:253/1)
اور جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہے کہ برتن میں سانس لینے کی وجہ سے منہ میں موجود بعض جراثیم اس میں منتقل ہوجاتے ہیں اور اس برتن اور پانی کے ذریعہ بہت سے امراض دوسروں تک متعدی ہوسکتے ہیں ۔
اور پانی کو آلودگی سے بچانے ہی کے لیے ایک حدیث میں کہا گیا ہے :
’’ اتقوا الملا عن الثلاثۃ البراز فی الموارد وقارعۃ الطریق والظل‘‘۔
’’ لعنت کی تین جگہوں سے بچو یعنی پانی میں ، عام گزر گاہوں پر اور سایہ کی جگہوں میں پائخانہ کرنے سے‘‘۔(السنن لابی داؤد:26،وابن ماجہ:238)
اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ لا یبولن احدکم فی الماء الدائم الذی لا یجری ثم یغتسل منہ‘‘۔
’’ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہتا نہ ہو ، پیشاب نہ کرے اورپھر اس میں غسل کر ے ‘‘۔(الصحیح لمسلم:281السنن لابن ماجہ:343)
علامہ نووی کہتے ہیں کہ پانی میں پیشاب کرنا ہر حال میں ممنوع ہے خواہ اس میں اس کے بعد غسل کیاجائے یا نہ کیا جائے ، نیز وہ کہتے ہیں کہ پیشاب کی طرح اس میں پائخانہ کرنا بھی ممنوع ہے ، بلکہ یہ اس سے بھی زیادہ قبیح ہے اور یہی حکم اس وقت بھی ہے جب کہ کسی برتن میں پیشاب کرے اور پھر اسے پانی میں ڈال دے یا کسی تالاب کے کنارے پیشاب کرے اور وہ بہہ کر پانی میں پہنچ جائے ۔(المنھاج:188/3)
اور حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ایک دوسری حدیث میں ہے :
’’ لا یغتسل احدکم فی الماء الدائم وھوجنب، فقال کیف ,یفعل یا ابا ھریرۃ؟ قال یناولہ تناولا ‘‘۔
’’تم میں سے اگر کوئی ناپاک ہو تو ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے ، ایک صاحب نے حضرت ابوہریرہؓ سے یہ پوچھا کہ پھر غسل کیسے کرے گا ؟ توانہوں نے کہا کہ اس میں سے پانی لے کر غسل کرے گا ‘‘۔(الصحیح لمسلم:283السنن للنسائی:220)
اسلام اس سلسلے میں کس درجہ حساس ہے، اس کا اند ازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے :
’’ اذا استیقظ احدکم من نومہ فلا یغمسن یدہ فی الاناء حتی یغسلھا ثلاثا فانہ لایدری این باتت یدہ‘‘۔
’’جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوتو پانی کے برتن میں ہاتھ نہ ڈالے یہاں تک کہ اسے تین مرتبہ دھولے ، کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ اس کے ہاتھ نے کہاں رات گزاری ہے؟ ‘‘۔(الصحیح لمسلم:278،السنن لابی داؤد:103)
یعنی محض شک کی بنیادپر پانی کو آلودگی سے بچانے کے لیے ہاتھ دھونے سے پہلے اسے پانی کے برتن میں ڈالنے سے منع کیاگیاہے ، حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ ممانعت کی وجہ اس بات کا احتمال ہے کہ اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی چیز تو نہیں لگی ہوئی ہے جو پانی کو خراب کر دے ؟ اور اس حدیث کا تقاضا ہے کہ اگر کسی کو بیداری کی حالت میں بھی اس طرح کا شک پیش آجائے تو اسے بھی ہاتھ دھلے بغیر بر تن میں نہیں ڈالنا چاہیے ۔( فتح الباری)
آج کے دور میں پانی کی آلودگی کا مسئلہ محض پیشاب پائخانے تک محدود نہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ خطرناک اور زہریلے مادوں کے ذریعے پانی کو مسلسل آلودہ کیاجارہا ہے ، صنعتی اور کیمیاوی فضلات اور دیگر آلودگی پیداکرنے والی چیزوں کے ذریعے ندی ،تالاب اور سمندر کو آلودہ کیاجارہا ہے ، جس کی وجہ سے آبی جانوروں اور خود انسانوں کی زندگی ایک بڑی مصیبت اور ایک زبردست خطرے سے دوچار ہے ، اس لیے لوگوں کو اس معاملے میں بیدار ہونے کی ضرورت ہے ، ورنہ تو وہ خود اپنے ہاتھوں لگائی گئی آگ میں جل کر ختم ہوجائیں گے ۔

ہوا کو آلودگی سے بچانا:

ہوا بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت ہے ، جس کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے ،چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
’’ لا تسبوا الریح فانھا من روح اللہ تبارک وتعالی و سلوا اللہ خیرھا وخیر مافیھا وخیر ما ارسلت بہ و تعوذوا باللہ من شر ما فیھا و شر ما ارسلت بہ‘‘۔
’’ہوا کو گالی مت دو ، کیونکہ وہ اللہ کی رحمت ہے ، اور اللہ سے اس کی بھلائی اور جس کے لیے وہ بھیجی گئی ہے ،اس کی بھلائی کے طلب گار بنو اور اللہ سے اس کے شر اور جس کے لیے وہ بھیجی گئی ہے ، اس کے شر سے پناہ مانگو ‘‘۔ (السنن لابی داؤد:5097،وابن ماجہ:3727، المسند لاحمد:21177)
اور علامہ ابن قیم لکھتے ہیں کہ تم ہوا کے بارے میں غور کرو کہ وہ سب سے پہلے ناک میں داخل ہوتی ہے اور وہاں اس کی ٹھنڈک ختم ہوجاتی ہے اور پھر حلق تک پہنچ کر اس کا مزاج معتدل ہوجاتا ہے ، اور پھر ایک پاکیزہ لطیف ہوا پھیپھڑے میں پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے دل کے ذریعہ تمام نسوں سے ہوتے ہوئے جسم میں پھیل جاتی ہے اور وہاں جاکر وہ ہوا جب گرم ہوجاتی ہے اور انتفاع کے لائق نہیں رہتی تو پھر پھیپھڑے کے ذریعے حلق اور ناک کے راستے سے وہ جسم سے خارج ہوجاتی ہے اور پھر دوبارہ اسی طرح سے صاف ستھری ہوا داخل ہوجاتی ہے ، اور اس مختصر سی مدت میں جسم میں ہم سانس لیتے اور چھوڑتے ہیں، اللہ کی بے شمار نعمتیں پنہاں ہیں ۔( التبیان فی اقسام القرآن:190/1)
اور جدید سائنس میں کہا جاتا ہے کہ سانس کے ذریعہ آکسیجن جسم میں داخل ہوجاتا ہے اور جسم کے ہر حصے میں پہنچ کر غذا کو تحلیل کرنے اور توانائی بنانے کا کام انجام دیتا ہے ، اس عمل کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائڈ بھی تیار ہوجاتی ہے جو جاندار کے لیے ایک زہریلی گیس ہے ، اور خون اسے جسم کے ہر حصے سے لاکر پھیپھڑوں میں چھوڑ دیتا ہے ، جہاں سے یہ سانس کے ذریعہ باہر نکل جاتا ہے ۔
اور علامہ خطابی کہتے ہیں کہ ہوا کا بہتر اور خوشگوار ہونا انسانی صحت کو برقرار رکھنے میں سب سے زیادہ معاون ہے اور ہوا کا خراب ہونا جسم کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہے ، اور اس کی وجہ سے بیماری بہت جلد قدم جما لیتی ہے ۔(معالم السنن:236/4)
اور علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ آفات و بلیات اور امراض سے حفاظت اور سلامتی کے لیے ہوا کا خوشگوار ہونا ضروری ہے ، اس لیے کہ اگر وہ ہوا ٹھہری ہوئی اور ناگوار ہو یا خراب پانی اور بد بودار جگہ سے قریب ہو تو اس میں بھی بدبو پھیل جاتی ہے اور اس کی وجہ سے کسی بھی جاندار کا بیمار ہونا یقینی ہے ، اور یہ مشاہدہ میں آرہا ہے کہ جن شہروں میں اچھی ہوا کی رعایت نہیں کی گئی وہاں کثرت سے بیماریاں پائی جاتی ہیں ۔(مقدمہ ابن خلدون: 148)
اسلامی شریعت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد جسم و جان کی حفاظت بھی ہے ، چنانچہ علامہ شاطبی لکھتے ہیں کہ :
’’ پوری امت بلکہ تمام مذاہب کے لوگ اس پر متفق ہیں کہ شریعت اور قانون پانچ ضروری چیزوں کی حفاظت کے لیے بنایا جاتا ہے ، دین ، نفس ، نسل ، مال اور عقل ‘‘۔(الموافقات: 31/1)
اور حدیث میں کہا گیا ہے :
’’ ان اللہ کتب الاحسان علی کل شیئ ‘‘۔
’’ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ حسن سلوک کو فرض کیاہے ‘‘۔(الصحیح لمسلم:1955، السنن لابی داؤد، وغیرہ)
علامہ ابن رجب حنبلی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں احسان کے ضروری ہونے کی صراحت ہے اور خود اللہ تعالیٰ نے اس کاحکم دیا ہے ، چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
’’ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ‘‘۔
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کاحکم دیتا ہے ‘‘۔(سورۃ النحل:90)
اور ایک دوسری آیت میں ہے :
’’ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘۔
اور احسان کا یہ حکم کبھی واجب ہو گا اور کبھی مستحب ، اور مذکورہ حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہر عمل میں احسان ضروری ہے ، لیکن ہرچیز کا احسان اس کے اعتبار سے ہے ، (جامع العلوم والحکم:152/1،باختصار) یعنی اگر فعل واجب ہے تو احسان بھی واجب ہوگا ، اور اگر فعل مستحب ہے تو احسان بھی مستحب ہوگا ۔
اور علامہ عز بن عبدالسلام لکھتے ہیں کہ احسان منحصر ہے مصلحت کوحاصل کرنے اور مفسدہ کو دور کرنے میں، اور یہی تقویٰ اور پرہیزگاری کی انتہا اور مقصود ہے اور اس کا سب سے اعلیٰ درجہ عبادات میں احسان ہے …اور دوسرا درجہ مخلوقات کے ساتھ احسان ہے اور اس کی شکل مصلحت کوحاصل کرنا اور مفسدہ کو دور کرنا ہے …اور یہ احسان انسان کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ملائکہ کے حق میں بھی ضروری ہے کیونکہ وہ بھی انسان کی طرح تکلیف دہ چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں بلکہ ہر طرح کے جاندار کے ساتھ اس کا لحاظ رکھنا ہوگا ۔(الفوائد فی اختصار المقاصد:33)
ان عمومی دلیلوں سے ہوا اور فضا کی حفاظت کے سلسلے میں اسلامی شریعت کے نقطہ نظر کااندازہ کیاجاسکتا ہے اور ظاہر ہے کہ فضائی آلودگی کے سلسلے میں آج ہم جس خطرناک صورت حال سے دوچار ہیں ماضی میں اس کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے ، تاہم بعض روایتوں کے اشارات سے اس سلسلے میں کچھ مدد مل سکتی ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ :
’’ اطفئوا المصابیح اذا رقدتم وغلقوا الابواب‘‘۔
’’ جب تم سونے جاؤ تو چراغ کو بجھا دو اور دروازہ بند کردو ‘‘۔(الصحیح للبخاری:5301، المسند لاحمد:15057)
اور ایک دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
’’ لا تترکوا النار فی بیوتکم حین تنامون‘‘۔
’’ سوتے وقت اپنے گھروں میں جلتی ہوئی آگ نہ چھوڑو‘‘۔(الصحیح للبخاری: 5935،ولمسلم:2015)
گزشتہ ادوار میں اس حدیث کی تشریح میں یہی کہا جاسکتا تھا کہ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے گھر میں آگ لگ جانے کاخطرہ تھا ، اس لیے آگ بجھا کر سونے کاحکم دیاگیا ، لیکن جدید تحقیق کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آگ جلنے کی وجہ سے آکسیجن ختم ہوتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائڈ میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان اور دیگر حیوانات کی زندگی خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے ، اس لیے حدیث میں جلتی ہوئی آگ چھوڑ کر سونے سے منع کیا گیا ہے اور اس پر قیاس کرتے ہوئے کہاجاسکتا ہے کہ ہر ایسا عمل نادرست ہے جس کی وجہ سے فضا ئی آلودگی میں اضافہ ہو اورزندگی گزار نا مشکل ہوجائے ۔
اور متعدد حدیثوں میں میت کو جلد دفنانے کاحکم دیا گیا ہے ، جس کا ایک مقصد پھٹنے اور سڑنے سے پہلے ہی اسے اس کے ٹھکانے پر پہنچا دیاجائے ، کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس کی بے حرمتی نیز بدبو کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف ہوگی ، نیز بہت سی حدیثوں میں پیڑ پودے لگانے کاحکم دیا گیاہے ،جس کی ایک مصلحت فضائی آلودگی سے حفاظت بھی ہوسکتی ہے ۔
اسی طرح سے بعض فقہی عبارتوں سے بھی ہمیں اس مسئلے میں رہنمائی ملتی ہے ، جیسے کہ ہوا کے سلسلے میں علامہ ابن نجیم مصری نے لکھاہے :
’’اگرکسی کے درخت کی شاخوں نے دوسرے کے گھر کی ہوا کو روک رکھا ہے اور گھر کے مالک نے ان شاخوں کو کاٹ دیا تو دیکھاجائے گا کہ اگر شاخیں ایسی ہوں کہ انہیں رسی سے باندھ کر ہوا کی جگہ کو فارغ کیا جاسکتا ہے تو کاٹنے والا ضامن ہوگا اور اگر ایسا نہ ہوتو ضامن نہیں ہوگا ، جب کہ ایسی جگہ سے کاٹا ہو کہ اگر معاملہ عدالت میں پہنچ جاتاتو قاضی اس جگہ سے کاٹنے کا حکم دیتا ‘‘۔(البحرالرائق:197/7)
اسی طرح کی بات علامہ ابن رشد ، امام نووی اور علامہ ابن قدامہ نے بھی لکھی ہے (البیان‌ و التحصیل :409/9 ، المجموع: 410/13 ،المغنی: 22/5)اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ ہوا انسان کی بنیادی ضرورت ہے ، جسے روکنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے ، اسی طرح سے حنفی ، مالکی اور حنبلی فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے گھر میں تنور، حمام ، لوہار یا سنار کی بھٹی لگالے جس کے دھویں سے پڑوسیوں کو تکلیف ہوتی ہو تواسے اس سے منع کیاجائے گا ،الا یہ کہ وہ دھوئیں کو زائل کرنے کی کوئی تدبیر اختیار کرے ، (الفقہ الاسلامی وادلتہ : 465/6 ،الموسوعۃ الفقھیۃ:241/20)
بعض شافعی علماء کی رائے اس کے برخلاف ہے ، لیکن ان میں سے بہت سے لوگوں نے جمہور کی رائے کو اختیارکیا ہے ، چنانچہ فقہ شافعی کی بعض کتابوں میں ہے کہ :
’’حدیث کے(من ضار ضار اللہ بہ ومن شاق شاق اللہ علیہ، الجامع للترمذی:1940،والی حدیث مراد ہے)ظاہر کا تقاضا ہے کہ ضرر کی تمام صورتیں حرام ہوں ، خواہ اس سے کم نقصان ہویا زیادہ ، الا یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کا جائز ہونا معلوم ہو، اس لیے کہ حدیث کے الفاظ بالکل عام ہیں ، لہٰذا کسی شخص کے لیے اپنے گھر میں کوئی ایسا روشن دان کھولنا حرام ہے جس کے ذریعہ وہ پڑوسی کی عورتوں کو دیکھ سکے اور اسی طرح سے تنور ، حمام ، چکی وغیرہ بھی حرام ہے ، کیونکہ دھوئیں اور چکی کی آواز سے دوسروں کو تکلیف ہوگی ‘‘۔(تحفۃ الحبیب علی شرح الخطیب:411/3)
اور علامہ ابن قدامہ حنبلی نے لکھاہے کہ کسی شخص کا ایسا عمل جو دوسرے پڑوسی کے لیے ضرر رساں ہو ، جائز نہیں ہے اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ’’لاضرر ولاضرار ‘‘چوں کہ اس کی وجہ سے پڑوسی کو نقصان پہنچ رہاہے ، لہٰذا جائز نہیں ہے ، جیسے کہ کوئی شخص کسی چیز کو اس طرح سے کوٹتا ہے کہ اس سے پڑوسی کی دیوار ہل رہی ہے اور کمزور ہو رہی ہے ، یا اس کی دیوار کی جڑ میں کھاد یا پانی لاکر رکھ دے جس سے اس کی دیوار کو نقصان پہنچے ، یاکسی نے پانی کا حوض بنا رکھاہے اور اس کے پڑوسی نے قریب میں انجیر وغیرہ کا درخت لگادیا ہے جس کی جڑیں پانی کے حوض کی دیوار میں شگاف ڈال رہی ہیں تو اسے ایسا کرنے کا حق نہیں اوراسے اس درخت کے لگانے سے منع کیاجائے گا اور اگر لگا دیا ہے تو اکھاڑ دینا درست ہے ۔(المغنی:202/6)
اور علامہ عبدالرحمن بن نصر شیزری نے تنور وغیرہ کے سلسلے میں محتسب کے فرائض کے بیان میں لکھا ہے کہ مناسب ہے کہ روٹی پکانے کی دوکان کی چھتیں اونچی ہوں ، ان کے دروازے کھلے ہوئے ہوں اور چھتوں میں دھواں نکلنے کے لیے بڑی اور کشادہ چمنی ہوتاکہ اس کی وجہ سے لوگوں کو ضرر نہ پہنچے ۔(نہایۃ الرتبۃ الظریفۃ فی طلب الحسبۃ الشریفۃ:22)
ان تفصیلات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں :
1۔ اگر کوئی پکوان کے لیے ایندھن کے طور پر ایسی چیز کے استعمال پر قادر ہو جس سے کم دھواں پیدا ہوتا ہے لیکن وہ زیادہ دھواں پیداکرنے والے ایندھن سے قدرے مہنگی ہوں تو اجتماعی ضرر سے بچنے کے لیے اسے کم دھواں چھوڑنے والے یا دھواں نہ پیدا کرنے والے ایندھن کا استعمال کرناضروری ہوگا ۔
2۔ اگر حکومت کی طرف سے کسی خاص گاڑی کے لیے گیس کے استعمال کو لازم کردیاجائے تواس قانون کی پابندی شرعاً واجب ہوگی، نیز اگر حکومت کی طرف سے کوئی ہدایت نہ ہو، جب بھی اس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ لوگوں کو ضرر سے بچانے ، ماحول کوپاک و صاف رکھنے ،ضروریاتِ زندگی کو فساد سے بچانے اور جسم و جان اور عقل و نسل کی حفاظت کے لیے کم آلودگی پیداکرنے والے ایندھن کو اختیار کرے ۔
3۔ اگرحکومت کی طرف سے جنریٹر کے لیے ہوا کو آلودگی سے بچانے کے مقصد سے ڈیزل اور مٹی کے تیل کے استعمال کی ممانعت کردی گئی ہے تو اس کی تعمیل لازم ہے تاکہ ماحول کو نقصان سے بچایا جاسکے اور اگر حکومت کی طرف سے کوئی پابندی نہ ہو تو بھی حسب استطاعت ایسے ایندھن کو استعمال کرنا چاہیے جس سے کم سے کم دھواں پیداہو ۔
4۔ لوگوں کو چاہیے کہ جہاں تک ہوسکے وہ روشنی اور دیگر سہولیات کے لیے آلودگی سے محفوظ توانائی کا استعمال کریں ، جیسے کہ شمسی توانائی وغیرہ ۔
5۔ کارخانے وغیرہ کو آبادیوں سے باہر ہونا چاہیے اور ان کی چمنیوں کو ایک خاص سطح تک اونچا رکھاجائے اور ان میں ایسا ایندھن استعمال کیاجائے جس سے کم سے کم آلودگی پیدا ہو ، یہ ہر ایک کی اخلاقی ذمہ داری ہے ، اور اگر حکومت کی طرف سے اس کے متعلق کوئی قانون بنا دیا جاتا ہے تو اس کی پابندی ضروری ہے ، کیونکہ قرآن حکیم میں نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کاحکم دیاگیا ہے اور گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں تعاون سے منع کیاگیاہے ۔ ارشاد ربانی ہے :
’’وَتَعَاوَنُوْاعَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَلَاتَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ‘‘۔
’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں مدد نہ کرو ‘‘۔(سورۃ المائدہ:2)
قرآن حکیم میں اس سلسلے میں کسی فرد یا جماعت کو معیار نہیں بنایا گیا ہے کہ کن لوگوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور کن لوگوں کے ساتھ نہیں ، بلکہ ان چیزوں کو معیار بنایا گیاہے جن میں تعاون کرنا مطلوب ہے ، اور جن میں تعاون کرنا درست نہیں ہے ، اس لیے غیر مسلم حکومت کی طرف سے بھی مفاد عامہ سے متعلق کسی حکم کا پابند بنایا جارہاہے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے ، نیز کسی ملک کی شہریت کو قبول کرنے میں اس بات کا معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ اس ملک کے قوانین کا پابند ہوگا ، اس لیے غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان قوانین کی پابندی کریں جس سے کسی شرعی حکم کی مخالفت لازم نہ آتی ہو، اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں معاہدہ کی خلاف ورزی اور معصیت ہوگی ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
*’’ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْد‘‘۔
’’ ایمان والو ! عہد و پیمان پور ے کرو‘‘۔(سورۃ المائدہ:1)
*’’ وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاً ‘‘۔
’’اور عہد و پیمان پورا کرو کیونکہ قول و قرار کی باز پرس ہوگی ‘‘۔(سورۃ بنی اسرائیل:34)
اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
’’ المسلمون عند شروطھم‘‘۔
’’مسلمانوں کو شرط پر عمل کرنا ہوگا ‘‘۔(صحیح بخاری کتاب الاجارۃ)
نیز ایک مسلمان سے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت بھی مطلوب ہے جو حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں ضائع ہوسکتی ہے ۔

زمین کی حفاظت اور اس میں فساد پھیلانے کی ممانعت :

اللہ تعالیٰ نے زمین کو انسانوں اور دیگر جانداروں کی رہائش اور کاشت کے لائق بنایا ہے ، چنانچہ کلام پاک میں ہے :
’’ وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَّبَوَّاَکُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُھُوْلِھَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًا فَاذْکُرُوْٓا اٰلَآئَ اللّٰہِ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ‘‘۔
’’ یاد کرو اس وقت کو جب اللہ تعالیٰ نے عاد کے بعد تمہیں جانشین بنایا اور تم کو زمین پر رہنے کا ٹھکانہ دیا کہ نرم زمین پر محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش کر ان میں گھر بناتے ہو، اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ ‘‘۔(سورۃ الاعراف:47)
نیز زمین ہی سے انسان کی خلقت بھی ہوئی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :
*’’ ھُوَ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیْھَا‘‘۔
’’اسی نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور زمین کو بسانے اور آباد کرنے کی صلاحیت تم میں پیدا کی ‘‘۔(سورہ ھود61)
*’’ ھُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذْ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ‘‘۔
’’ وہ تمہیں بخوبی جانتا ہے جب کہ اس نے تمہیں زمین سے پیداکیا ‘‘۔(سورۃ النجم:32)
اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ انسان کی تخلیق زمینی مادے سے ہوئی ہے ، جدید سائنس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ انسان جن عناصر سے مرکب ہے وہ تمام عناصر زمین کی مٹی میں موجود ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں انسان کی پیدائش زمین سے اس حیثیت سے ہے کہ زمین سے پیداہونے والی غذا سے مادۂ منویہ اور حیض کا خون تیار ہوتا ہے اور ان دونوں سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے ۔(الدر المنثور: 444/4،البحرالمحیط:239/5)
نیز اسی زمین سے ایک اہم عبادت طہارت اور صلاۃ بھی متعلق ہے ، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
’’……وجعلت لی الارض مسجداً وطھوراً فایما رجل من امتی ادرکتہ الصلاۃ فلیصل‘‘۔
’’ …اور پوری روئے زمین میرے لیے صلاۃ کی جگہ اور پاکی کا ذریعہ بنادی گئی ہے ، اس لیے جس جگہ بھی صلاۃ کا وقت ہوجائے وہاں اسے ادا کرلو ‘‘۔(الصحیح للبخاری:328وغیرہ)
زمین کی اسی خصوصیت کے پیش نظر قرآن حکیم میں چارسو تیس مرتبہ اس کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اس کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں : فراش (بستر) ، مہد ، مہاد (بستر )، قرار (ٹھہرا ہوا )، ذلول(نرم )، بساط (بستر)، کفات(برتن )۔
زمین کی اس خصوصیت اور اہمیت کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جس مقصد کے لیے بنایا ہے اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہ کی جائے ، اس لیے کہ زمین میں ایسی کوئی تبدیلی جس سے اس کی یہ حیثیت متاثر ہوتی ہے ، اس میں بگاڑ پیدا کرنا اور فساد برپا کرنا ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کاارشاد ہے :
’’ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا‘‘۔
’’ اور روئے زمین پر اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ‘‘۔
ابوحیان اندلسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں زمین میں فساد پھیلا نے سے منع کیاگیا ہے اور اس میں فساد کی تمام شکلیں داخل ہیں ، چاہے اس کا تعلق جسم و جان سے ہو یا دین و عقل سے یا نسب اور مال سے ، اور اصلاح کے بعد کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح سے بنایا ہے کہ وہ مخلوقات کی منفعت اور مکلفین کی مصلحت کے لائق ہے ، اور اس سلسلے میں بعض مفسرین نے فساد اور اصلاح کی جو نوعیت متعین کرنے کی کوشش کی ہے تو وہ بطور مثال ہے ، اس لیے کہ ان چیزوں کے ساتھ مخصوص ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔(البحرالمحیط:313/4)
اور علامہ قرطبی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے فساد سے منع فرمایا ہے ، چاہے وہ کم ہو یا زیادہ ……تو صحیح قول یہی ہے ، آیت بالکل عام ہے ۔ (الجامع لاحکام القرآن:2267/7)
اور ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کی خصلت یہ بیان فرمائی ہے :
’’وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ‘‘۔
’’ جب وہ لوٹ کرجاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ فساد کو ناپسند کرتا ہے ‘‘۔( البقرۃ:205)
یعنی زمین میں فساد کا نتیجہ یا فساد کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ کھیتی کو تباہ و برباد کیاجائے ، جس کی وجہ سے نسل انسانی اور حیوانی تباہی و ہلاکت سے دوچار ہو ، کیونکہ زمین کا مقصد وجود اس کی تعمیر اور اصلاح ہے ،اور اس میں کسی طرح کی تخریب اور فساد ناروا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’ ھُوَ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیْھَا‘‘۔
’’وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور زمین کو بسانے اور آباد کرنے کی صلاحیت عطاکی ‘‘۔(سورۃ ھود:61)
اس آیت کی تفسیر میں حضرت زید بن اسلم کہتے ہیں :
’’ امرکم بعمارۃ ما تحتاجون الیہ فیھا من بناء مساکن و غرس الاشجار‘‘۔
’’ اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے مطابق گھر بنانے اور درخت لگانے کاحکم دیا ہے ‘‘۔(الجامع لاحکام القرآن:56/9)
اور بعض مفسرین نے لکھاہے :
’’ المعنی الھمکم عمارتھا من الحرث والغرس وحفر الانھار وغیرھا‘‘۔
’’مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھیتی کرنے ، درخت لگانے اور نہر کھودنے کا طریقہ سکھایا ‘‘۔(الجامع لاحکام القرآن:56/9)
اور ’’استعمرکم‘‘ کے لفظ سے یہ سمجھا گیا ہے کہ زمین کی تعمیر انسان پرواجب اور ضروری ہے ۔
’’ لان الطلب المطلق من اللہ تعالیٰ علی الوجوب‘‘۔
’’ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر کسی چیز کا مطلق مطالبہ ہوتو اس سے وجوب مراد ہوگا ‘‘۔(حوالہ مذکور)
اور اسی بنیاد پر زمخشری نے لکھا ہے کہ تعمیر کی چار قسمیں ہیں ، واجب ، مستحب ، مباح اور مکروہ اور نقل کیا ہے کہ زمین کی تعمیر لمبی عمر پانے کاسبب ہے ، چنانچہ ایرانی حکمرانوں نے خوب درخت لگوائے اور نہریں بنوائیں، اور لمبی عمریں پائیں ، حالانکہ وہ رعایا کے ساتھ ظلم کیا کرتے تھے ، ان کے زمانے کے ایک نبی نے اللہ تعالیٰ سے ان کی درازی عمر کی وجہ معلوم کی تو جواب ملا کہ :
"انھم عمروا بلادی فعاش فیھا عبادی”۔
’’ انہوں نے میرے شہروں کو آباد کیا ، جس میں میرے بندوں نے رہائش اختیارکی ‘‘۔(الکشاف:101/3)
اور احادیث میں بھی زمین کی تعمیر اور اسے زندہ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے ، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
’’ من احیا ارضا میتۃ فھی لہ‘‘۔
’’ جوکوئی بیکار زمین کو کارآمد بنادے تو زمین اسی کی ہوجائے گی ‘‘۔(السنن لابی داؤد:3073، المسند لاحمد: 14310)
اور ایک دوسری حدیث میں زمین کی تعمیر کی مختلف شکلوں کو صدقہ جاریہ قرار دیا گیا ہے ، حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ سبعہ یجری علی العبد اجرھن من بعد موتہ فی برہ، من علم علما، او اکری نھرا، او حفر بئرا او غرس نخلا او بنی مسجدا او ورث مصحفا او ترک ولدا یستغفرلہ‘‘۔
’’سات چیزوں کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ، کسی کو علم کی بات بتادے ، نہر کھود دے ، یا کنواں بنادے، یا درخت لگادے ، یا مسجد تعمیر کردے یا قرآن چھوڑ جائے یا اس کی اولاد اس کے لیے مغفرت کی دعا کرے ‘‘۔(المسند للبزار:7289،ابن ماجہ:242)
اور ایسی چیزوں سے منع کیاگیاہے جو زمین کی زندگی کو تباہ وبرباد اور وہاں رہنے والوں کے لیے دشواری پیداکرتی ہوں اور تکلیف دہ چیزوں کو زمین سے ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ فرمایا گیاہے :
’’ الایمان بضع وسبعون شعبۃ فافضلھا قول لا الہ الا اللہ وادناھا اماطۃ الاذی عن الطریق‘‘۔
’’ ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں جن میں سب سے افضل لاالٰہ الا اللہ کہنا اور سب سے کمتر تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ‘‘۔(الصحیح لمسلم:58)
اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ :
’’ یمیط الاذی عن الطریق صدقۃ‘‘۔
’’ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا صدقہ ہے ‘‘۔(الصحیح للبخاری:2827)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح سے تکلیف دہ چیز کے مفہوم میں راستے سے اینٹ ، پتھر ، کانٹا وغیرہ کا ہٹانا شامل ہے ، اسی طرح سے و ہ چیزیں بھی داخل ہیں جو انسانی صحت کے لیے خطرناک یا ضرر رساں ہوں ۔
اور ایک روایت میں ہے :
’’ بینما رجل یمشی بطریق وجد غصن شوک علی الطریق فاخرہ فشکراللہ لہ فغفرلہ‘‘
’’ ایک شخص کہیں جارہا تھا ، راستے میں کانٹے دار ٹہنی ملی ، اس نے اسے ہٹادیا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی ‘‘۔(الصحیح للبخاری:234)
اور مشہور صحابی رسول حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ درخواست کرتے ہیں :
’’ یا نبی اللہ! علمنی شیئا انتفع بہ‘‘
’’ اللہ کے نبی! مجھے ایسی چیز بتلا دیجیے جس سے مجھے نفع ہو ‘‘۔جواب ملتا ہے :
’’ اعزل الاذی عن طریق المسلمین‘‘۔
’’ مسلمانوں کے راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دو ‘‘۔(الصحیح لمسلم:2618)
اور گزر گاہوں کی طرح گھر اور صحن کو بھی صاف ستھرا رکھنے کاحکم دیا گیاہے ، ایک حدیث میں ہے :
’’طھروا افنیتکم فان الیھود لاتطھر افنیتھا‘‘۔
’’ صحن کو صاف رکھو ، کیوںکہ یہودی صحن کو صاف نہیں رکھتے ‘‘۔(المعجم الاوسط: 231/4)
اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
’’نظفوا افنیتکم فان الیھود انتن الناس‘‘۔
’’ صحن کوصاف رکھو ،کیونکہ یہودی سب سے گندے ہیں‘‘۔(الجامع للترمذی : 2799 ، المسند لابی یعلی:790)
اور گھر اور صحن کی طرح گزرگاہوں میں بھی گندگی اور آلودگی پھیلانے سے منع کیا گیا ہے ، نبی ﷺ کا ارشاد ہے :
’’ اتقوا اللعانین، قالوا وما اللعانان یارسول اللہ؟ قال الذی یتخلی فی طریق الناس او فی ظلھم‘‘۔
’’ لعنت کی دو جگہوں سے بچو ، لوگوں نے عرض کیا کہ وہ دو جگہیں کیاہیں؟ فرمایا کہ جو شخص راستے میں یا سائے میں قضائے حاجت کرتا ہے ‘‘۔(الصحیح لمسلم:269)
ظاہر ہے کہ کوڑا کرکٹ اور گندگی کی وجہ سے بدبو پھیلتی ہے ، جس سے لوگ پریشان ہوتے ہیں ، اسی طرح سے یہ بہت سے امراض کے پھیلانے کا ذریعہ بھی بنتی ہے ، ان گندگیوں میں بیماری کے جراثیم جنم لیتے ہیں اور پھلتے پھولتے ہیں ، یہاں تک کہ صرف ایک مکھی انسان میں بیالیس قسم کی بیماریاں منتقل کر سکتی ہے ،اورکسی جگہ صرف ایک ہفتے کے لیے کوڑے کو چھوڑ دیاجائے تو مکھیوں کی پوری ایک نسل اور فوج تیار ہوسکتی ہے ۔
فقہی کتابوں میں راستے اور عمومی جگہوں پر کسی ایسے عمل کی ممانعت کی متعدد مثالیں ملتی ہیں ، جن سے دوسروں کو تکلیف یا نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ (الفتاوی الھندیۃ:41،40/6)
اور اس سلسلے میں امام غزالی کی یہ تحریر بڑی جامع اور تمام شکلوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ، وہ راستوں کے منکرات کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ اسی طرح سے اگر قصاب اپنی دوکان کے سامنے راستہ میں جانور ذبح کرتا ہے ،جس کی وجہ سے راستہ خون سے آلودہ ہوجاتا ہے تو یہ بھی ایک منکر ہے اور ایسا کرنے سے اسے منع کیاجائے گا ، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دوکان ہی میں ذبح کرنے کی کوئی صورت نکالے ،کیونکہ اس کی وجہ سے راستے میں تنگی ہوگی ، نیز لوگوں پر ناپاک چھینٹے پڑنے کاخطرہ ہے اور اس گندگی کی وجہ سے لوگ گھٹن محسوس کریں گے ۔
اسی طرح عام راستوں پر کوڑا یا تربوز کے چھلکے ڈال دینا یا پانی بہا دینا ، جس سے لوگوں کے پھسل جانے کا اندیشہ ہے ، یہ بھی ایک منکر ہے ‘‘۔(احیاء علوم الدین:339/2)
اس زمانے میں اس طرح کی چیزوں سے چند لوگ ہی متاثر ہوتے تھے اور نقصان کا دائرہ بڑا محدود ہوتا تھااور آج ایک گھر کی گندگی سے پورا سماج اور ماحول متاثر ہوتا ہے اور نقصان کا دائرہ بہت وسیع ہے ، اس لیے روئے زمین پر آلودگی پھیلانے کا کوئی بھی عمل سخت ناروا ہوگا ، کہ اس سے زمین کی زرخیزی متاثر ہوتی ہے ، فضائی اور آبی آلودگی پھیلتی ہے ، لہٰذا :
1۔ جانور ذبح کرنے کے بعد اس کے ناقابل استعمال اجزاء کو کسی کھلی جگہ چھوڑ دینا جائز نہیں ، جیساکہ عام طور پر قربانی کے دنوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، بلکہ اسے محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگا دینا ضروری ہے ۔
2۔ سامان کی پیکنگ اور حمل ونقل کے لیے ممکن حد تک پلاسٹک کے استعمال سے پرہیز کرناچاہیے کہ یہ زمینی اور فضائی آلودگی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے ۔
3۔ سڑک کے کنارے یا عوامی مقامات پر قضاء حاجت کرنا حرام اور لعنت کا سبب ہے ، اسی طرح سے گندہ پانی اور فضلات کھلی نالیوں یا گلیوں میں بہانا درست نہیں ہے ۔
4-سڑک یا عوامی مقامات پر تھوکنا خلاف ادب ہے اور اگر حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو اس کی پابندی لازمی ہے ، چنانچہ متعدد حدیثوں میں مسجد میں تھوکنے سے منع کیا گیاہے ، ایک حدیث میں ہے :
’’عرضت علی اعمال امتی حسنھا وسیئھا فوجدت فی محاسن اعمالھا الاذی یحاط عن الطریق ووجدت فی مساوی اعمالھا النخامۃ تکون فی المسجد لا تدفن‘‘۔
’’ میرے سامنے میری امت کے اچھے برے اعمال لائے گئے ، اچھے اعمال میں تکلیف دہ چیزوں کا راستے سے ہٹا دینے کا عمل بھی دکھائی دیا ،اور برے اعمال میں دیکھا کہ مسجد میں بلغم ڈالنا بھی ہے ، جسے دفن نہ کیاگیا ہو ‘‘۔(صحیح مسلم:553)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ :
’’ اذا تنخم احدکم فی المسجد فلیغب نخامتہ ان تصیب جلد مومن وثوبہ فتوذیہ‘‘۔
’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں بلغم پھینکے تو اسے چھپا دے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی مومن کے جسم یا کپڑے میں لگ جائے اور اسے تکلیف پہنچائے ‘‘۔(مسند احمد:1543)
عوامی جگہوں پر تھوکنا گندگی پھیلانے کا سبب اور لوگوں کی ایذا رسانی کا ذریعہ ہے ، اوراسی کے ساتھ بہت سے امراض کے منتقل ہونے اور پھیلنے کاباعث بھی ، خصوصاً اس وقت جب کہ تھوکنے والے کوکوئی متعدی مرض لاحق ہو یا وہ کوئی نشیلی چیز کھائے ہوئے ہو ۔

شجر کاری :

اس کائنات کی تمام چیزیں ایک دوسرے سے مربوط ہیں ، بلکہ بہت سی چیزوں کی زندگی ایک دوسرے سے وابستہ ہے ، چنانچہ انسان اور حیوانات کے وجود کے لیے درختوں کا ہونا ضروری ہے کہ ان کے ذریعہ آکسیجن حاصل ہوتا ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے ، اور درختوں کے وجود کے لیے حیوانات کا پایا جانا ناگزیر ہے کہ ان کو کاربن ڈائی آکسائڈ کی ضرورت ہے جو جاندار کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے ۔
اسی کے ساتھ نباتات انسانی غذا کا سرچشمہ ہیں کہ بلاواسطہ وہ غلے ، پھولوں اور پھلوں سے استفادہ کرتا ہے ، یا بالواسطہ گوشت اور دودھ کے ذریعہ ، کیونکہ ایسے جانور نباتات سے غذا حاصل کرتے ہیں ، ا س لیے کتاب وسنت میں بھی کھیتی کرنے اور پودا وغیرہ لگانے کی ترغیب دی گئی ہے ، چنانچہ قرآن حکیم میں کھیتی اور باغات کو اللہ کی نعمتوں میں شمار کیاگیا ہے اور اس کا ذکر بطور احسان کیاگیاہے ، اور حدیث میں ہے کہ :
’’ ما من مسلم یغرس غرسا او یزرع زرعا فیاکل منہ طیر او انسان او بھیمۃ الا کان لہ بہ صدقۃ‘‘۔
’’ مسلمان جو بھی باغ لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے اور اس میں سے کوئی پرندہ ، انسان یا مویشی کھا لیتا ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے ‘‘۔ (الصحیح للبخاری:2195،ولمسلم:1552)
اور حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ام مبشر انصاریہؓ کے باغ میں داخل ہوئے اور ان سے پوچھا :
’’ من غرس ھذا النخل امسلم ام کافر؟ فقالت بل مسلم، فقال لا یغرس مسلم غرسا ولایزرع زرعا فیاکل منہ انسان ولا دابۃ ولا شیئ الا کانت لہ صدقۃ ‘‘۔
’’ اس کھجور کو کس نے لگا یا ہے ؟ مسلمان نے یا کافر نے؟ ام مبشر نے عرض کیا مسلمان نے ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے اور پھر اس میں سے کوئی انسان یا جانور کھا لیتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے ‘‘۔(الصحیح لمسلم:1552)
حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیںکہ حدیث کے ظاہر سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کی ملکیت میں بھی کوئی پودا لگادے تو اسے مذکورہ ثواب ملے گا ، اس لیے کہ حدیث میں ہے کہ وہ باغ ام مبشر کا تھا اور اس کے باوجود آپؐ نے پوچھا کہ اسے کس نے لگایا ہے ۔(فتح الباری 4/5)
اور علامہ سرخسی کہتے ہیں کہ مذکورہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کھیتی اور باغ کے ذریعہ آمدنی حاصل کرنا مستحب ہے ، کیونکہ یہ اخروی ثواب کا ذریعہ ہے۔( المبسوط 24/23)
اور حضرت معاذ بن انس جہنیؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
’’ من بنی بنیانا من غیر ظلم ولا اعتداء او غرس غرسا فی غیر ظلم ولا اعتداء کان لہ اجر جار ما انتفع بہ من خلق اللہ تعالیٰ‘‘۔
’’ جوکوئی ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی عمارت بنائے یا درخت لگائے تو جب تک اس سے اللہ کی مخلوق فائد ہ اٹھاتی رہے گی ، اس کا ثواب ملتا رہے گا ‘‘۔(المسند لاحمد:15654، المعجم الکبیر: 17167)
اور حضرت انسؓ سے منقول حدیث میں ہے :
’’ان قامت الساعۃ وفی ید احدکم فسیلۃ فان استطاع ان لا یقوم حتی یغرسھا فلیفعل‘‘۔
’’ اگر قیامت آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو تو اگر قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے گاڑ سکتا ہے تو اسے گاڑ دینا چاہیے‘‘۔(المسند لاحمد:13004 الادب المفرد للبخاری:479)
علامہ مناوی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں درختوں کے لگانے اور نہر بنانے پر خوب ابھارا گیاہے ، تاکہ یہ دنیا قیامت تک آباد اور سر سبز و شاداب رہے ، تو جس طرح سے دوسروں نے تمہارے لیے درخت لگائے ہیں تو تم بھی اپنے بعد آنے والوں کے لیے درخت لگا جاؤ ،گرچہ دنیا کی زندگی بہت معمولی رہ گئی ہو ۔(فیض القدیر:40/3)
حقیقت یہ ہے کہ شجر کاری اور کھیتی اور باغبانی سے متعلق اس حدیث میں جوکچھ کہا گیا ہے وہ مومنانہ فطرت اور طبیعت کابیان ہے کہ وہ ہر حال میں خیر کا حریص ہوتا ہے اور بھلائی اور فائدہ پہنچانے کا سرچشمہ ، جو نہ خشک ہوتا ہے اور نہ رکتا ہے ، یہاں تک کہ وہ زندگی کی آخری سانس تک نفع رسانی کی کوشش کرتا ہے ۔
اور یحییٰ بن آدم نے اپنی کتاب ’’الخراج‘‘ میں لکھاہے کہ ایک شخص حضرت علیؓ کے پاس آیا اور کہا میں ایک ویران زمین پر پہنچا ، وہاں کے لوگ اسے چھوڑ کر جاچکے تھے ، میں نے وہاں تک پانی پہنچانے کے لیے نالی بنائی اور اس میں کاشت کاری کی ، حضرت علیؓ نے فرمایا کہ خوش دلی کے ساتھ اس کے غلے کو استعمال کرو ، کیونکہ تم اصلاح کرنے والے ہو ، فساد کرنے والے نہیں ، تعمیر کرنے والے ہو ، تخریب کرنے والے نہیں ۔(الخراج:99)
کھیتی اور باغبانی سے غلہ اور آمدنی کے ساتھ بعض دوسرے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں، جیسے ہریالی میں اضافہ، کیونکہ ہرے پودوں کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی میں کمی ہوتی ہے ، وہ زہریلی گیس یعنی کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرتے ہیں اور جاندار کی زندگی کے لیے مطلوب گیس یعنی آکسیجن فراہم کرتے ہیں، ان کے ذریعہ آندھی ، طوفان اور گرد و غبار میں کمی آتی ہے ، اور بارش کا سبب ہے ۔
اور اسی بنیاد پر اسے بلاوجہ کاٹنے سے منع کیاگیاہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
’’ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا‘‘۔
’’اصلاح کے بعد زمین میں فساد نہ پھیلاؤ‘‘۔(سورۃ الاعراف:56)
مفسر ضحاک کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ پانی کے چشمے کو بند نہ کرو اور نہ کسی پھلدار درخت کو ضرر پہنچانے کے مقصد سے کاٹو۔(الجامع لاحکام القرآن :226/7)
اور حدیث میں ہے :
’’ من قطع سدرۃ صوب اللہ راسہ فی النار‘‘۔
’’ جوکوئی بیری کے درخت کو کاٹے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں جھونک دیں گے ‘‘۔(السنن لابی داؤد:5239)
امام ابو داؤد کہتے ہیں کہ حدیث کامطلب یہ ہے کہ جوکوئی بلاوجہ صحرا میں موجود بیری کے درخت کو کاٹ دے جس کے سائے میں انسان اور جانور پناہ لیا کرتے تھے ، تو اللہ تعالیٰ اسے سیدھے جہنم میں ڈال دیں گے ۔(السنن لابی داؤد:5239)
اور علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق حدیث اس صورت پر محمول ہے ، جب کہ بیری کے درخت کو بلا فائدہ کاٹا جائے ، گرچہ وہ اس کی ملکیت میں ہو ۔(روح المعانی:128/22)
اور ملا علی قاری وضاحت کرتے ہیں کہ حدیث میں خاص طور سے بیری کے درخت کانام اس لیے مذکور ہے کہ دوسرے درختوں کی بہ نسبت ا س کے سائے میں زیادہ ٹھنڈک ہوتی ہے ، لیکن مذکورہ وعید صرف اسی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام سایہ دار درختوں کا بھی یہی حکم ہے ، جس کے سائے میں انسان اور جانور پناہ لیتے ہوں ۔(مرقات المفاتیح: 423/9)
اور حضرت ابوبکرؓ فوجیوں کو روانہ کرتے ہوئے یہ نصیحت اور وصیت کرتے تھے :
’’ولا تخربوا عمرانا ولا تقطعوا شجرۃ الا لنفع ولا تعقرن بھیمۃ الا لنفع‘‘۔
’’ آبادی کو ویران مت کرو ، بے فائدہ کسی درخت کونہ کاٹو، اور نہ ہی بے فائدہ کسی جانور کو ذبح کرو‘‘۔(الموطاء مالک:965)
اور اسی بنیادپر جنگ کے موقع پر درخت کاٹنے کے لیے فقہاء نے یہ شرط لگائی ہے:
’’ ھذا اذا لم یغلب علی الظن انھم ماخوذون بغیر ذلک، فان کان الظاھر انھم مغلوبون، وان الفتح بادٍ کرہ ذلک، لانہ افساد فی غیرمحل الحاجۃ وما ابیح الا لھا‘‘۔
’’درخت کاٹنے کی اجاز ت اس وقت ہے جب کہ ظن غالب ہو کہ دشمن پر اس کے بغیر قابو نہیں پایا جاسکتا ہے ، اور اگر بظاہر یہ معلوم ہو کہ وہ شکست کھانے والے ہیں اور فتح بالکل قریب ہے تو درخت کاٹنا مکروہ ہے ، کیونکہ یہ بے ضرورت برباد کرنا ہے اور درخت کاٹنے کی اجازت ضرورت کی بنیاد پر دی گئی ہے ‘‘۔(فتح القدیر:447/5)

حیوانات کی حفاظت اور رعایت :

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو انتہائی اعتدال اور توازن پر قائم کر رکھاہے اور ہماری بےاعتدالی اور بےاحتیاطی سے اس کائنات کی تمام چیزیں متاثر ہوتی ہیں ، غور کیجیے کہ اگر جاندار چیزوں کی بہتات ہوجائے تو وہ آکسیجن کو ختم کر دیں گے اور ساتھ ہی زہریلی گیس خارج کرکے ماحول کو آلودہ بنادیں گے ، نیز ان جانوروں میں جو سبزی خور ہوں گے وہ اپنی خوراک حاصل کرنے کے لیے ہریالی میں مزید کمی کریں گے ، اور اگر ہریالی زیادہ ہوجائے تو انہیں زندہ رہنے کے لیے زیادہ مقدار میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی ضرورت ہوگی ، جو کم تعداد میں موجود جانور مہیا نہیں کر پائیں گے ، اور اسی کے ساتھ فضا میں آکسیجن کی مقدار بڑھ جائے گی ، جس کی وجہ سے ہرے پودوں کے بڑھنے کا عمل سست پڑ جائے گا، کائنات میں موجود اسی توازن کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے قرآن حکیم میں کہاگیا ہے :
’’ وَاَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ مَّوْزُوْنٍ‘‘۔
’’ اور ہم نے ہر چیز ایک متعین اور موزوں مقدار میں اگا دی ‘‘۔(سورۃ الحجر:19)
اور دوسری آیت میں کہاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے فائدے ہی کے لیے جانوروں کو پیداکیا ہے :
’’ وَالْاَنْعَامَ خَلَقَھَا لَکُمْ‘‘۔
’’ او ر مویشیوں کو ا س نے تمہارے فائدے کے لیے پیدا کیا ہے ‘‘۔(سورۃ النحل:5)
غرضیکہ یہ بھی اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے اور حسن وجمال کا سبب بھی ، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ بھی انسانوں کی طرح سے ایک جاندار گروہ ہے ، ارشاد ربانی ہے :
’’وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَاطَآئِرٍ یَّطِیْرُبِجَنَاحَیْہِ اِلَّااُمَم’‘ اَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمْ یُحْشَرُوْنَ‘‘۔
’’اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرندے ہیں جو اپنے دونوں پروں سے اڑتے ہیں ، ان میں سے کوئی قسم ایسی نہیں ہے جو کہ تمہاری طرح گروہ نہ ہوں اور ہم نے کتاب (لوح محفوظ) میں کوئی چیز نہیں چھوڑی ہے ، اور پھر وہ سب اپنے رب کی طرف اٹھائے جائیں گے‘‘۔(سورۃ الانعام:38)
یعنی یہ بھی ہماری طرح ایک مخلوق ہے ،اور بلاوجہ اور بے فائدہ پیدا نہیں کیاگیا ہے ، علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ یہ بھی تمہاری طرح ایک گروہ ہے جسے اللہ نے پیدا کیاہے اور ان کی روزی کی ضمانت لی ہے، اور ان کے سلسلے میں عدل و توازن کا خیال رکھاہے ، لہٰذا ان پر ظلم کرنا اور ان کے سلسلے میں جو حکم دیاگیاہے اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے ،(الجامع لاحکام القرآن:419/4)اور اسی لیے بے ضرورت جانوروں کو تکلیف پہنچانا باعث عذاب ہے ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ :
’’عذبت امرأۃ فی ھرۃ حبستھا حتی ماتت جوعا فدخلت فیھا النار‘‘۔
’’ ایک عورت نے بلی کو بند کر رکھا تھا اور وہ بھوک کی وجہ سے مر گئی تو اسے اس کی سزا ملی اور جہنم میں داخل کردی گئی ‘‘۔(الصحیح للبخاری: 2236،ولمسلم:2242)
علامہ نووی کہتے ہیں کہ حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت مسلمان تھی اور بلی کو ستانے کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی ، (المنھاج:207/6)
اور حافظ ابن حجر وضاحت کرتے ہیں کہ بلی کی طرح دوسرے جانوروں کا بھی یہی حکم ہے ، (فتح الباری:358/6)بلکہ علامہ شوکانی لکھتے ہیں کہ جب بلی کے سلسلے میں یہ حکم ہے تو وہ جانور جو کسی کی ملکیت میں ہوں ، ضرور اس حکم میں شامل ہوں گے کیونکہ وہ مالک کے فائدے کے لیے باندھ کر رکھے گئے ہیں (نیل الاوطار:91/7)اور علامہ نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ جانور کو کھلانا پلانا اس کے مالک پر فرض ہے ۔(المنھاج:207/6)
اور جانوروں کے سلسلے میں اسلام کس درجہ حساس ہے، اس کا کچھ اندازہ اس حدیث سے بھی لگایا جاسکتا ہے ، حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ اذا سافرتم فی الخصب فاعطوا الابل حظھا من الارض واذا سافرتم فی السنۃ فاسرعوا علیھا السیر واذا عرستم اللیل فاجتنبوا الطریق فانھا ماوی الھوام باللیل‘‘۔
’’ جب تم سرسبز راستے میں سفر کرو تو اونٹ کو راستے میں چرنے کا موقع دو اور جب خشک سالی میں سفر کرو تو جلدی سے وہاں سے گزر جاؤ ، اور جب تم رات میں پڑاؤ ڈالو تو راستے سے ہٹ جاؤ کیونکہ وہ کیڑے مکوڑے کا ٹھکانہ ہے ‘‘۔ (الصحییح لمسلم:1926)
اس حدیث کی شرح میں علامہ مناوی لکھتے ہیں کہ جانور اور کیڑے مکوڑے انسانی راستوں پر رات میں آتے ہیں تاکہ گزرنے والوں کے ذریعہ کھانے کی جو چیزیں گر گئی ہیں وہ انہیں اپنی غذا بنالیں (التیسیرشرح الجامع الصغیرللمناوی:205/1)اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہاں پڑاؤ ڈالنے سے ان کو وہاں سے اپنی غذا حاصل کرنے میں پریشانی ہوگی ، اس حدیث میں جانوروں کے سلسلے میں جس دقت نظری اور رحم و کرم کا مظاہرہ کیا گیا ہے، کسی دوسر ے مذہب میں اس کی مثال نہیں مل سکتی ہے ،اور ایک حدیث میں جانور پر ترس کھانے کی وجہ سے جنت کی بشارت سنائی گئی ہے ، حضرت ابوہریرہؓ نقل کرتے ہیں :
’’ بینما رجل یمشی فاشتد علیہ العطش فنزل بئراً فشرب منھا ثم خرج فاذا ھو بکلب یلھث یاکل الثری من العطش فقال لقد بلغ ھذا مثل الذی بلغ بی فملأ خفہ ثم امسکہ بفیہ ثم رقی فسقی الکلب فشکر اللہ فغفرلہ قالوا یارسول اللہ! ان لنا فی البھائم اجرا، قال فی کل کبد رطبۃ اجر‘‘۔
’’ ایک آدمی کہیں جارہا تھا ، اسے پیاس لگی اور ایک کنوئیں میں اتر کر اپنی پیاس بجھائی ، باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے ، اس نے کہا کہ اس کتے کو بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جیسے کہ مجھ کو لگی تھی ، اس نے کنوئیں میں اتر کر اپنے موزے میں پانی بھرا اور پھر لاکر کتے کو پلایا ، اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی وجہ اس کی مغفرت کر دی ، صحابہ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا جانور کی وجہ سے بھی ثواب ملے گا ؟ آپؐ نے فرمایا : ہاں ، ہر تر جگر والے کی وجہ سے ثواب ملے گا ‘‘۔(الصحیح للبخاری :2234ولمسلم: 2244)
اس سلسلے کی بعض روایتوں میں کہاگیا ہے کہ پیاسے کتے کو پانی پلانے والی ایک بدکار عورت تھی ، اور اللہ تعالیٰ کواس کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اس کی مغفرت کر دی گئی ، اور ہماری فقہی کتابوں میں اس سلسلے میں بڑی حیرت انگیز مثالیں ملتی ہیں، چنانچہ حاشیہ دسوقی میں ہے کہ اگر کسی بلی کی بینائی ختم ہوجائے اور اس کی وجہ سے وہ کسی کے گھر سے باہر نہیں جاسکتی ہے تو گھر کے مالک کے لیے اسے کھلانا پلانا ضروری ہے ، جب کہ وہ وہاں سے جانے پر قادر نہ ہو اور اگر قادر ہو تو پھر کھلانا پلانا ضروری نہیں ہے ۔(حاشیہ الدسوقی:)522/2
اور جانوروں کو بلاوجہ ستانے اور مارنے سے منع کیاگیاہے ، حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
’’ ما من انسان قتل عصفوراً فما فوقھا بغیر حقھا الا سألہ اللہ منھا، قیل یا رسول اللہ وما حقھا؟ قال یذبحھا فیأکلھا ولا یقطع راسھا یرمی بھا‘‘۔
’’جو کوئی کسی گوریا یا اس سے چھوٹے پرندے کو ناحق مارد ے تو اللہ تعالیٰ اس سے پوچھ گچھ کریں گے ، عرض کیاگیا کہ اس کاحق کیا ہے ؟فرمایا کہ ذبح کرکے کھائے ، ایسا نہ کرے کہ سر کاٹ کر پھینک دے‘‘۔(السنن للنسائی :4349 المسند لاحمد:6550)
اور اسی بنیاد پر تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ ایسے کیڑے مکوڑے کو مارنا مکروہ ہے جو نقصان نہ پہنچائے بلکہ فقہ حنفی میں بڑی دقت نظر پائی جاتی ہے ، چنانچہ فقہائے حنفیہ کہتے ہیںکہ چیونٹی کو اسی وقت مارنا درست ہے جب وہ کاٹ لے اور اس سے پہلے مارنا مکروہ ہے ۔ (البحر:232/8 الھندیۃ : 361/5)
اور علامہ شامی لکھتے ہیں :
’’ طرح القمل فی المسجد ان کان میتا حرم لنجاستہ، وان کان حیا ففی کتب المالکیۃ کذالک لان فیہ تعذیبا لہ بالجوع‘‘۔
’’ مرے ہوئے جوں کو مسجد میں پھینکنا حرام ہے ، کیونکہ وہ ناپاک ہے اور زندہ جوں کو بھی مسجد میں چھوڑنا جائز نہیں ہے ، جیسا کہ فقہ مالکی کی کتابوں میں ہے ، کیونکہ اس صورت میں اسے بھوکا رکھ کر ستانا ہے ‘‘۔(رد المحتار:653/1)
اور فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
’’ قتل الزنبور والحشرات ھل یباح فی الشرع ابتداء من غیر ایذاء وھل یثاب علی قتلھم، قال لا یثاب علی ذلک، وان لم یوجد منہ الایذاء فالاولی ان لا یتعرض بقتل شیئ منہ‘‘۔
’’بھڑ یا کیڑے مکوڑے کو کاٹنے سے پہلے مارنا جائز ہے ؟ اور کیا اس کے مارنے پرکوئی ثواب ہے ؟ کہا کہ نہیں ، اس کے مارنے پر کوئی ثواب نہیں ، اور اگر وہ تکلیف نہ دے تو بہتر ہے کہ اسے مارا نہ جائے ‘‘۔(الفتاوی الھندیۃ:361/5)
فقہ اسلامی میں چیونٹی ، مچھر ، جوں وغیرہ کے سلسلے میں جو تفصیلات ملتی ہیں ، اس سے جانوروں کے تعلق سے لطف و مہربانی اور رحمت و رافت اور نرمی کا اندازہ کیاجاسکتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب اللہ کی مخلوقات اور ذی روح ہیں ، ان کے ساتھ بہتر سلوک انسانیت کا تقاضا ہے اور برا سلوک قساوت قلبی اور بے رحمی کی دلیل ہے اور تمام جانور اس حدیث کے عموم میں شامل ہیں جس میں روئے زمین پر رہنے والوں پر رحم کرنے میں آسمان والے کے رحم کی بشارت سنائی گئی ہے ،اور ایک حدیث میں خصوصیت کے ساتھ کہا گیا ہے :
’’ والشاۃ ان رحمتھا رحمک اللہ
’’ اگر تم بکری پر رحم کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر رحم کریں گے ‘‘۔‘‘۔ (المسند لاحمد:15630)
اور اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو بے مقصد پیدا نہیں کیاہے بلکہ ان سے اس کائنات کا مفاد وابستہ ہے ، اس لیے حکمت الٰہی کا تقاضا ہے کہ تمام جانوروں کی نسل بر قرار رہے ، چنانچہ طوفانِ نوحؑ کے وقت اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے انہیں حکم دیا کہ تمام جانوروں کے ایک ایک جوڑے کو کشتی میں‌جگہ دیں ۔
’’حَتّیٰٓ اِذَا جَآئَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ لا قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ‘‘۔
’’ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا، ہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے جانداروں میں سے ایک جوڑے کو سوار کر لو اور اپنے گھروالوں کو بھی ، سوائے ان کے جن کے ڈوبنے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور ایمان والوں کو بھی ‘‘۔(سورۃ ھود:40)
علامہ قرطبی کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ طوفان کے بعد ان کی نسل برقرار رہے (’’لبقاء اصل النسل بعدالطوفان‘‘.الجامع لاحکام القرآن:34/9)
لہٰذا ہمیں جانوروں کی نسل کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور کسی ایسے عمل سے بچنا چاہیے جس سے ان کے کم یا ختم ہونے کا خطرہ ہو، کیونکہ ماحولیاتی تحفظ میں پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کا بھی بڑا حصہ ہے ، اور ایسی مشینوں کے بے ضرورت استعمال سے بچنا چاہیے جن کی شعاعوں کی وجہ سے پرندے ناپید ہوتے جارہے ہیں ، جیسے کہ فریج ، واشنگ مشین ، ایئر کنڈیشن ، ٹی وی اور موبائل وغیرہ ۔

صوتی آلودگی :

آواز میں بھی توازن اور اعتدال برقرار رکھنا ضروری ہے کہ حد اعتدال سے زیادہ آواز ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور اس سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ، جیسے قوت سماعت میں کمی ، چڑچڑاہٹ کی شکایت اور ذہـنی تناؤ میں اضافہ ، بے خوابی ، دل کے امراض ، ہاضمے کی خرابیاں، بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر وغیرہ ہے۔
بے وجہ اور بے ضرورت چیخنا اور چلانا کسی انسان کے لیے خوبی نہیں بلکہ خامی ہے ، ماضی میں اور آج بھی عام طور پر یہ ذہنیت پائی جاتی ہے کہ بلند آواز سے بولنا مردانگی اور بہادری کی علامت اور باعث افتخار ہے ، اور معتدل آواز سے بولنا بزدلی اور پستی کی نشانی ہے ، قرآن مجید میں اس ذہنیت اور فکر کی تردید کی گئی اور کہاگیا کہ اگر تیز آواز سے بولنا کوئی پسندیدہ صفت ہوتی تو انسان کو بھی گدھے کی طرح بولنے کی صلاحیت عطا کردی جاتی ، اور گدھے کی آواز سب سے اچھی آواز سمجھی جاتی ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ، ارشاد ربانی ہے :
’’ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ اِنَّ اَنْکَرَالْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ‘‘۔
’’اور اپنی آواز کو ذرا پست رکھ اور سب آوازوں میں سب سے ناپسندیدہ آواز گدھے کی ہوتی ہے ‘‘۔(سورۃ لقمان:19)
مذکورہ آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ بے فائدہ اپنی آواز کو بلند نہ کرو ………اور آیت میں بلند آواز کو گدھے کے ساتھ تشبیہ دینے کا تقاضا یہ ہے کہ ایسا کرنا حرام ہو اور حد درجہ لائق مذمت ،(تفسیرابن کثیر:1811/3)اور علامہ قرطبی کہتے ہیں کہ خواہ مخواہ آواز بلند نہ کرو اور ضرورت کے بقدر آواز بلند کرو کیونکہ ضرورت سے زیادہ بلند آواز سے بولنا تکلیف کا سبب اور باعث ایذا ہے ،(الجامع لاحکام القرآن:483/16)اور علامہ وہبہ زحیلی کہتے ہیںکہ تیز آواز سے بولنا قوت سماعت کے لیے نقصان دہ ہے ۔(التفسیر المنیر: 166/11)
اور نماز و ذکر جیسی اہم عبادت میں بھی آواز کو پست رکھنے کاحکم دیاگیاہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’ وَلَاتَجْھَرْبِصَلَا تِکَ وَلَاتُخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا ‘‘۔
’’نہ تو اپنی نماز بہت آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیدہ ، بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کر‘‘۔(سورۃ الاسراء:110)
اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں :
’’ کنا مع رسول اللہﷺ فکنا اذا اشرفنا علی واد ھللنا وکبرنا ارتفعت اصواتنا فقال النبیﷺ یا ایھا الناس اربعوا علی انفسکم فانکم لا تدعون غائبا ولا اصم، انہ معکم انہ سمیع قریب‘‘۔
’’ رسول اللہ ﷺ کے ہمرا ہ ہم ایک سفر میں تھے ، ہم جب کسی وادی میں پہنچتے تو بلند آواز میں اللہ اکبر اور لا الٰہ الا اللہ کہتے ، نبی ﷺ نے فرمایا : لوگو! سکون اور آرام سے رہو ، تم کسی غائب اور بہرے کو نہیں پکار رہے ہو ، بلکہ وہ تمہارے ساتھ ہے اور سننے والا اور تم سے بالکل قریب رہنے والا ہے ‘‘۔(الصحیح للبخاری:2992)
اور حضرت ابوقتادہؓ نقل کرتے ہیں :
’’ ان النبیﷺ خرج لیلۃ فاذا ھو بابی بکر یصلی یخفص من صوتہ قال: ومر بعمر بن الخطاب وھویصلی رافعا صوتہ، قال فلما اجتمعا عند النبیﷺ قال یا ابابکر مررت بک وانت تصلی تخفض صوتک قال قد اسمعت من ناجیت یا رسول اللہ! قال وقال لعمر مررت بک وانت تصلی رافعا صوتک قال فقال یا رسول اللہ! اوقظ الوسنان واطرد الشیطان فقال النبیﷺ یا ابابکر ارفع من صوتک شیئا وقال لعمر اخفض من صوتک شیئا‘‘۔
’’نبی ﷺ ایک رات باہر نکلے ، دیکھاکہ ابوبکرؓ پست آواز میں نماز تہجد پڑھ رہے ہیں اور حضرت عمرؓ کو دیکھاکہ وہ بلند آواز میں پڑھ رہے ہیں ، صبح کے وقت جب دونوں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا کہ ابوبکر! میں تمہارے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ تم پست آواز میں تلاوت کر رہے ہو ، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسولؐ! جس ذات سے میں سرگوشی کررہا تھا وہ سن رہا تھا ، آپؐ نے حضرت عمرؓ سے فرمایاکہ تمہارے پاس سے گزر ا تو تم بلند آواز سے پڑھ رہے تھے ، انہوں نے عرض کیا : میں سونے والوں کو جگا رہا تھا ،اور شیطان کو بھگا رہا تھا، آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ تم اپنی آواز قدرے بلند کرو اور حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ تم اپنی آواز قدرے پست کرو ‘‘۔(السنن لابی داؤد:1329)
اور حضرت ابوسعیدؓ روایت کرتے ہیں :
’’اعتکف رسول اللہﷺ فی المسجد فسمعھم یجھرون بالقراء ۃ فکشف الستر وقال الا ان کلکم مناج ربہ فلا یوذین بعضکم بعضا ولا یرفع بعضکم علی بعض فی القراءۃ‘‘۔
’’رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف کیا ، دیکھاکہ لوگ بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے ہیں ، آپؐ نے پردہ اٹھایا اور فرمایا: تم سب اپنے رب سے گفتگو کررہے ہو اس لیے ایک دوسرے کو پریشان نہ کرو ، اور بلند آواز سے قرآن نہ پڑھو ‘‘۔(السنن لابی داؤد:1332)
اور خود اللہ کے رسول ﷺ کی صفت توریت وغیرہ میں یہ بیان کی گئی تھی کہ ’’ولا صخابا بالاسواق ‘‘(السنن للدارمی:5)اور حضرت قیس بن عباد کہتے ہیں :
’’ کان الصحابۃ یکرھون رفع الصوت عند الذکر وعند القتال وعند الجنائز‘‘۔
’’صحابہ کرامؓ ذکر لڑائی اور جنازہ میں بلند آواز کو ناپسند کیاکرتے تھے ‘‘۔(عمدۃ القاری:245/14)
اور ان احادیث کی روشنی میں فقہاء کرام نے لکھاہے :
’’ویجھر الامام وجوبا بحسب الجماعۃ فان زاد علیہ اساء‘‘۔
’’جماعت کے اعتبار سے آواز کو بلند کرنا واجب ہے لیکن اس سے زیادہ غلط ہے ‘‘۔(الدر مع الرد:249/2)
اور علامہ شامی کہتے ہیں کہ اتنی بلند آواز جو خود اس کو تھکا دے اور دوسروں کے لیے تکلیف کا ذریعہ ہو ، بہتر نہیں ہے ،(رد المحتار:249/2،از اسلام اور جدید فکری مسائل :282) اور فقہی کتابوں میں یہ مسئلہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص تہجد کی نماز میں اتنی بلند آواز سے قرآن پڑھتا ہے جس سے کسی کی نیند خراب ہوتی ہو تو جائز نہیں ہے ، اسی طرح سے اگرکوئی شخص اپنے گھر کی چھت پر بلند آواز سے تلاوت کرے جب کہ لوگ سورہے ہوں تو تلاوت کرنے والا گنہ گار ہوگا ۔(خلاصۃ الفتاوی:103/1،رد المحتار:403 از ذکروفکر:28)
اور عمر بن شیبہ نے نقل کیا ہے کہ ایک واعظ حضرت عائشہؓ کے مکان کے بالکل سامنے بلند آواز سے وعظ کہا کرتے تھے ، جس سے حضرت عائشہؓ کی یکسوئی میں فرق آتا تھا ، انہوں نے حضرت عمرؓ سے اس کی شکایت کی ، انہوں نے انہیں وعظ کہنے سے منع کردیا لیکن کچھ عرصے کے بعد انہوں نے دوبارہ شروع کردیا ، حضرت عمرؓ کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے ا ن کو اس پر سزا دی ۔(اخبار المدینۃ:15/1از ذکروفکر:27)
ان آیات و روایات اور فقہی عبارتوں کی روشنی میں کہا جائے گاکہ کارخانے وغیرہ کی پرُشور مشینوں کے بارے میں اگر حکومت کی طر ف سے ان کو آبادی سے باہر لگانے کی ہدایت کی جاتی ہے تو شرعاً اس کی تعمیل ضروری ہے ۔
اور بے ضرورت گاڑیوں کا ہارن بجانا نیز ایمبولنس کی طرح سائرن لگانا درست نہیں ہے کہ اس سے صوتی آلودگی پھیلتی ہے اور دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے ۔
تقریبات یا جلوس وغیرہ کے موقع پر ڈی جے کا استعمال ناجائز ہے ، کیونکہ وہ مزامیر میں شامل ہے ، نیز اس سے صوتی آلودگی پھیلتی ہے اور لوگوں کو خصوصاً مریضوں کو اس سے بڑی کوفت ہوتی ہے ، بلکہ اس کی وجہ سے ہارٹ اٹیک کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں ۔
اگر حکومت کی طرف سے مذہبی ، سیاسی جلسوں اور مشاعروں کی آواز وغیرہ میں کوئی تحدید عائد کی جاتی ہے تو شرعاً اس کی پابندی ضروری ہے ۔

_________________________________

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے