عقد نکاح میں سرپرست کی حیثیت ۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
نابالغی اور جنون کی حالت میں اپنے حقوق کی حفاظت، مصالح کی رعایت اور مفاسد سے احتراز مشکل ہے ۔’’بہتر‘‘ اور ’’بدتر‘‘ میں فرق کرنا دشوار ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ کوئی باشعور ، ذی عقل انسان جس کا اس سے قریبی تعلق ہو اس کی دیکھ ریکھ اور نگرانی کا ذمہ دار ہو اور شرعی دائرہ میں رہتے ہوئے اس کی ذات سے متعلق فیصلہ کرنے اور اس کے مال میں تصرف کا مجاز ہو اور اس کے لیے کسی کی اجازت اور مرضی معلوم کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ شریعت کی زبان میں ایسے شخص کو ’’ولی‘‘ اور اس ختیار کو ’’ولایت ‘‘ کہا جاتا ہے۔
عاقل و بالغ اور باشعور شخص میں اچھے اور برے کی تمییز، نفع اور نقصان میں فرق، کھرا اور کھوٹا پرکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ، اس لیے اسلامی شریعت اسے اپنے مال میں تصرف اور اپنی ذات سے متعلق فیصلہ لینے میں خود مختار قرار دیتی ہے ، جہاں چاہے وہ اپنے مال کو خرچ کرسکتاہے، اسے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اپنی پسند اور مرضی کے مطابق کسی کو بھی زندگی کا ساتھی چن سکتاہے، اس کے لیے سرپرست کی مرضی معلوم کرنا ضروری نہیں ہے ۔ لیکن یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مال خرچ کرنے میں زیادہ تر لوگ اپنے نفع اور نقصان کا خیال رکھتے ہیں اور عقل کا استعمال کرتے ہیں۔ نیز وہ ایک آنی جانی چیز ہے ۔ اس کے برخلاف رفیق حیات منتخب کرنے میں نوخیز جوانی عقل کم اور جذبات زیادہ استعمال کرتی ہے اور جذبات کے رو میں بہہ کر اکثر غلط فیصلے کرجاتی ہے اور بادل چھٹنے کے بعد جب تیز اور گرم شعاعوں سے نگاہیں چار ہوتی ہیں،گھنیری چھاؤں کی جگہ تیز دھوپ اور جھلسا دینے والی ہواؤں سے سابقہ پڑتا ہے تو فرار کی راہیں تلاش کرتے ہیں یا گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس لیے شریعت نے بہتر سمجھا کہ ان کو آزمائش اور آفت میں ڈالے بغیر ان کے رشتہ کی ڈور ایسے لوگوں کے حوالے کردیاجائے جو آزمودہ کار، سردو گرم سے آشنا اور زمانہ شناس ہوتے ہیں۔ وہ جذباتی ابال کی وجہ سے فیصلہ کرنے کے بجائے اس کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر اقدام کرتے ہیں، شریعت کی اصطلاح میں یہ لوگ بھی ’’ولی‘‘ کہلاتے ہیں۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے سرپرست کے لیے اپنے ماتحت کی مرضی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ناپسندیدگی کے باوجود اس کے رشتہ نکاح کو منظور کرسکتاہے۔ اس لیے ایسی ’’ولایت‘‘ کو ’’ولایت اجبار‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے برخلاف دوسری قسم کی ولایت میں ماتحت کی پسند کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاسکتا ہے ، رشتہ نکاح کو قبول یا رد کرنے میں وہ مختار مطلق ہوتاہے، درمیان میں سرپرست کو واسطہ بنانا محض مستحب اور بہتر ہے اس لیے اسے ’’ولایت استحباب‘‘ کہاجاتاہے۔
سرپرست کون؟
جن رشتہ داروں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ قریبی تعلق کی وجہ سے نفع و نقصان کاخیال رکھیں گے، فطری شفقت و محبت کی وجہ سے حقوق کی اچھی طرح حفاظت کریں گے انھیں کو نکاح میں سرپرستی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ ان سرپرستوں کی ترتیب وار تفصیل یہ ہے:
1-بیٹا، پوتا وغیرہ
2- باب، دادا وغیرہ
3-حقیقی بھائی، باپ شریک بھائی، حقیقی بھتیجا، باب شریک بھتیجا، وغیرہ
4- حقیقی چچا، باپ شریک چچا، حقیقی چچا کے لڑکے، باپ شریک چچا کے لڑکے وغیرہ
5- ذوالارحام یعنی ماں، بیٹی، بھتیجی، نواسی وغیرہ
6- خلیفہ یا اس کا نائب۔
مذکورہ ترتیب کے مطابق ہر ایک کو سرپرستی کا حق حاصل ہوگا اور جب تک کہ پہلے درجہ کا کوئی سرپرست موجود ہے ، دوسرے کو یہ حق نہیں ملے گا۔
سرپرستوں کی یہ تفصیل فقہ حنفی کے مطابق ہے، دیگر فقہی مکاتب میں بعض تفصیلات کے اندر اختلاف ہے مثلاً امام احمد کے نزدیک باپ کی موجودگی میں بیٹے کو سرپرستی کا حق حاصل نہیں بلکہ باپ کا حق پہلے ہے اور بیٹے کا اس کے بعد۔ جبکہ امام شافعی کے یہاں بیٹا سرپرستوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے اور امام مالک کے خیال کے مطابق دادا کا درجہ بھائی اور بھتیجے کے بعد ہے اور ا ن تینوں اماموں کے نزدیک ذوی الارحام یعنی ماں وغیرہ کو ولایت حاصل نہیں بلکہ چچا وغیرہ کی غیرموجودگی میں یہ حق خلیفہ کو منتقل ہوجاتاہے اور مسلم حکمراں نہ ہونے کی صورت میں عورت کسی مسلمان مرد کو نکاح کے لیے ولی بنادے۔(دیکھئے رد المحتار 190/4-196، بدایۃ المجتہد 13/2، الفقہ الاسلامی وادلتہ 199/7-207)
سرپرستی کے لیے مطلوبہ لیاقت:
ولی اور سرپرست کے لیے آزاد اور عاقل و بالغ ہونا ضروری ہے ، نیز ماتحت اور سرپرست کا دین ایک ہونا بھی شرط ہے ، حنفیہ کے نزدیک سرپرست کے لیے مرد ہونا لازم نہیں بلکہ مرد سرپرست کی غیرموجودگی میں عورت بھی یہ ذمہ داری سنبھال سکتی ہے، جبکہ دوسرے فقہاء کے یہاں مرد ہونا بھی شرط ہے ۔ سرپرست کے لیے دیندار اور عادل ہونا ضروری ہے یا نہیں اس سلسلہ میں بھی اختلاف ہے ۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ شرط نہیں جبکہ امام شافعی اور احمدکے نزدیک شرط ہے۔(الفقہ الاسلامی 196/7-197)
ولایت اجبار کی بنیاد:
ولایت اجبار یعنی سرپرست کو ماتحت کی مرضی کے بغیر نکاح کردینے کا اختیار کس صورت میں حاصل ہوگا؟ اس مسئلہ میں لڑکے کے متعلق تمام ائمہ کا اتفاق ہے کہ وہ نابالغ ہو تو ’’ولایت اجبار‘‘حاصل ہوگی اور بلوغت کے بعد اس پر کسی کو ولایت حاصل نہیں ہے۔ گویا کہ لڑکے کے مسئلہ میں اتفاق ہے کہ یہاں ’’ولایت اجبار‘‘ کی بنیاد نابالغی ہے اور لڑکی کے سلسلہ میں بھی امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہی معیار ہے، امام اوزاعی، ثوری اور اکثر اہل علم کی یہی رائے ہے اور امام احمد سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے۔ دیگر ائمہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان فرق کرتے ہیں کہ لڑکے میں تو ’’ولایت اجبار‘‘ کا سبب نابالغی ہے لیکن لڑکی میں ’’بکارت‘‘ ہے یعنی ’’باکرہ‘‘ لڑکی کا نکاح خواہ وہ بالغہ ہو یا نابالغہ اس کی اجازت کے بغیر درست ہے اور ’’ثیبہ‘‘ (شوہر دیدہ) عورت کے رشتہ کے لیے گرچہ وہ نابالغہ ہی کیوں نہ ہو اجازت ضروری ہے ، یہ امام شافعی اور امام احمد کا دوسرا قول ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ لڑکی میں ولایت اجبار کا سبب بکارت اور نابالغی ہے۔ان میں سے کوئی ایک ہو تو سرپرست کو ولایت اجبار حاصل ہوگی۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں مسئلہ کی کل چار صورتیں ہوںگی جس میں سے دو میں اتفاق ہے اور دو اختلافی۔
(الف)نابالغہ کنواری (باکرہ) اس پر بہ اتفاق ’’ولایت اجبار‘‘ حاصل ہوگی۔
(ب) بالغہ شوہر دیدہ: (ثیبہ)اس پر بالاتفاق ’’ولایت اجبار ‘‘حاصل نہ ہوگی۔
عورت کا مرد سے جنسی تعلق قائم نہ ہو تو اسے بکارت (کنواراپن)کہتے ہیں اور ایسی عورت کو ’باکرہ‘ کہاجاتاہے اور اگر یہ تعلق قائم ہوجائے تو ’بکارت‘ ختم ہوجاتی ہے اور ایسی عورت کو ’ثیبہ‘ کہاجاتاہے۔ ’بکارت‘ کے ختم ہونے کے لیے جنسی تعلق کا جائز طور پر ہونا ضروری ہے، ناجائز جنسی تعلق سے بکارت ختم نہیں ہوتی ہے ، یہ امام مالک کا نقطہ نظر ہے ۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اگر ایسا صرف ایک مرتبہ ہوا ہے اور شرعی سزا سے عورت بچ گئی ہے تو اسے بھی باکرہ ہی سمجھاجائے گا ۔ امام شافعی اور احمد کے نزدیک جنسی تعلق سے خواہ کسی بھی طور سے ہو بکارت زائل ہوجائے گی ۔(دیکھئے المغنی496/6، الفقہ علی المذاہب 32/4)
(ج) بالغہ کنواری:اس پر حنفیہ کے نزدیک ولایت اجبار حاصل نہ ہوگی اور دیگر ائمہ کے نزدیک حاصل ہوگی۔
(د)نابالغہ شوہردیدہ: اس پر امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک ولایت اجبار حاصل ہوگی ، دوسرے کے یہاں نہیں۔(المغنی 487/6، البدائع 241/2، بدایۃ المجتہد 6/2، )
چونکہ نابالغی کی اجازت کا بھی اعتبار نہیں ہے، اس لیے امام شافعی اور احمد کے نزدیک بچپنے میں شوہر دیدہ لڑکی سے نکاح نہیں ہوسکتاہے اور بلوغت کے بعد اس کی اجازت سے رشتہ منظور کیاجائے گا۔ (الأم 18/5، الفتح 193/9، رحمۃ الامۃ/213)
امام شافعی وغیرہ کے دلائل:
جن حضرات کے نزدیک ولایت اجبار کی بنیاد ’’بکارت‘‘ پر ہے ان کے دلائل یہ ہیں:
1-عن ابن عباس أن رسول اللہ ﷺ قال الأیم أحق بنفسھا من ولیھا والبکر تستأذن فی نفسھا واذنھا صماتھا۔
حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ شوہر دیدہ عورت سرپرست سے زیادہ اپنی ذات پر حق رکھتی ہے اور کنواری عورت سے رشتہ کے سلسلہ میں اجازت لی جائے اور اس کی خاموشی بھی اجازت ہے۔(رواہ مسلم۔ معرفۃ السنن و الآثار 43/1)
اس روایت میں وارد لفظ’’الایم‘‘ سے مراد شوہر دیدہ عورت (ثیبہ) ہے، جیساکہ خود ابن عباس ہی سے منقول ایک دوسری روایت میں ’’الایم‘‘ کی جگہ ’’الثیب‘‘ (شوہردیدہ عورت) استعمال ہوا ہے ۔ (صحیح مسلم ۔بلوغ المرام مع سبل السلام 119/3) نیز روایت میں وارد لفظ ’’البکر‘‘(کنواری) بھی اس کے لیے واضح دلیل ہے کہ ’’الایم‘‘ سے مراد ’’شوہر دیدہ‘‘ عورت ہے اور حدیث میں کہا گیا ہے کہ شوہر دیدہ عورت اپنے اوپر سرپرست سے زیادہ حق رکھتی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ کنواری عورت سرپرست سے زیادہ اپنی ذات پر حق نہیں رکھتی ہے بلکہ اس کی ذات سے متعلق سرپرست اس سے زیادہ حق رکھتاہے ۔ لہٰذا وہ اپنی پسند کے مطابق جہاں چاہے اس کا نکاح کرسکتاہے۔ اس کی مرضی معلوم کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ محض مستحب اور بہترہے اور حدیث میں اجازت لینے کا حکم اسی استحبابی معنیٰ پر محمول ہے جیساکہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ لڑکیوں کے رشتہ سے متعلق ان کی ماں سے اجازت لو ( ’’آمروا النساء فی بناتھن‘‘رواہ احمد و الترمذی و أبوداؤد ، وفیہ رجل مجھول. نیل الاوطار 122/6)
جس طرح سے یہا ں اجازت لینے کا حکم بالاتفاق مستحب اور بہترہے ، کوئی واجب اور ضروری نہیں ہے ۔ ایسے ہی کنواری لڑکی کی مرضی معلوم کرنا صرف بہتر اور اچھا ہے، لازم نہیں ۔ (فتح الباری 100/9، المغنی 488/6، نیل الاوطار 123/6)
امام بیہقی نے مذکورہ روایت کی ایک دوسری توجیہ کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت میں محفوظ لفظ ’’البکر تستامر‘‘(کنواری لڑکی سے اس کی پسند معلوم کی جائے) ہے اور انھیں سے منقول صالح بن کیسان کی روایت میں ’’البکرتستامر‘‘ کی جگہ ’’الیتیمۃ تستامر‘‘ہے (فتح الباری 100/9)، ایسے ہی حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت ابوہریرہؓ سے منقول روایت میں کہاگیاہے :
تستامر الیتیمۃ فی نفسھا فان سکتت فھو اذنھا وان أبت فلا جواز علیھا رواہ الخمسہ الا ابن ماجہ، (نیل الاوطار 121/6)
یتیم لڑکی کی پسند معلوم کی جائے ، اگر وہ خاموش رہے تو وہی اجازت ہے اور اگر انکار کرے تو اسے مجبور نہ کیاجائے۔ ایک ہی مسئلہ سے متعلق ان تمام روایتوں کے دیکھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ اصلاً حدیث میں یتیم لڑکی کا حکم بیان کیاگیاہے اور راوی نے کہیں تو اس کی صراحت کردی ہے اور کہیں’’الیتیمۃ‘‘ کی جگہ ’’البکر‘‘ استعمال کردیاہے اور مقصود اس سے بھی یتیم لڑکی ہی ہے لیکن اس توجیہ کی پوری عمارت اس وقت زمین بوس ہوتی نظر آتی ہے جبکہ ہمارے سامنے ایک دوسری روایت آتی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ ’’البکر یستامر أبوھا ‘‘ (کنواری عورت سے اس کا باپ اجازت طلب کرے) یہاں ’’البکر‘‘ سے ’’الیتیمۃ‘‘ مراد لینا ممکن نہیں ہے ، اس لیے لامحالہ کہنا ہوگا کہ یہ دو الگ الگ روایتیں دو مختلف مسئلوں سے متعلق ہیں ، امام بیہقی کی نگاہ سے بھی یہ روایت گذری ہے لیکن وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ابن عیینہ کا یہ اضافہ محفوظ اور ثابت نہیں ہے ، لیکن خود شافعی علماء نے بیہقی کی اس توجیہ سے اتفاق نہیں کیا ہے اور واقعہ ہے کہ کوئی انصاف پسند اس سے متفق نہیں ہوسکتاہے کیونکہ یہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ ابن عیینہ جیسے حافظ حدیث اور قابل اعتماد راوی کا اضافہ لائق اعتبار اور محفوظ نہیں ہے ۔(فتح الباری 100/9)
2-حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت سالم وغیرہ کنواری لڑکیوں کا نکاح ان کی اجازت کے بغیر ہی کردیتے تھے۔(حوالہ مذکور)
3-’’ولایت اجبار‘‘ کی وجہ زن و شو کے تعلقات سے ناواقفیت ہے ، یہ وجہ بالغہ اور نابالغہ ہرطرح کی لڑکی میں پائی جاتی ہے ، بشرطیکہ کسی مرد سے جنسی تعلق قائم نہ ہواہو، اس کے برخلاف جس عورت کا کسی مرد سے جنسی تعلق قائم ہوجاتاہے ، گرچہ ناجائز ہی سہی وہ تجربہ کے مرحلے سے گذر چکی ہوتی ہے ، اس لیے اس کی مرضی کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن جسے تجربہ اور آگاہی نہ ہو اس کی مرضی معلوم کرنے سے کیا فائدہ۔(الھدایۃ مع الفتح 161/3)
اما م ابوحنیفہ وغیرہ کے دلائل:
جن لوگوں کے نزدیک ’’ولایت اجبار‘‘ کا سبب نابالغی ہے ان کے دلائل یہ ہیں:
1- عن أبی ھریرۃ ان النبی ﷺ قال لاتنکح الایم حتی تستامر ولاتنکح البکر حتی تستاذن قالوا یا رسول اللہ کیف اذنھا قال ان تسکت
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ شوہر دیدہ عورت کی صراحتاً مرضی معلوم کیے بغیر نکاح نہ کیاجائے اور بے اجازت کنواری لڑکی کا رشتہ منظور نہ کیاجائے، لوگوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ ! اس کی اجازت کی کیا صورت ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: خاموشی (صحیح بخاری 771/2۔)
2- عن عائشۃ قال قلت یا رسول اللہ تستامر النساء فی بضاعھن قال نعم قلت ان البکر تستامر فتستحی فتسکت فقال سکوتھا اذنھا وفی روایۃ قالت: قال رسول اللہ ﷺ البکر تستاذن قلت ان البکر تستأذن وتستحی قال اذنھا صماتھا۔
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیاکہ کیا عورتوں کے رشتہ سے متعلق ان کی پسند کو معلوم کیاجائے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، میں نے کہا: کنواری لڑکی تو اجازت کے وقت شرم کی وجہ سے کچھ بول نہیں پائے گی پھر اس کی مرضی کیسے معلوم ہوگی؟ تو آپ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اجازت ہے ، ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ کنواری لڑکی سے اجازت لی جائے تو حضرت عائشہؓ نے کہاکہ وہ تو اجازت کے وقت شرم کی وجہ سے خاموش رہے گی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اجازت ہوگی۔ (متفق علیہ۔ نیل الاوطار 121/6)
3- عن ابن عباس قال رسول اللہ ﷺ: الثیب أحق بنفسھا من ولیھا والبکر تستاذن فی نفسھا واذنھا صماتھا۔ رواہ الجماعۃ الا البخاری وفی روایۃ لأحمد ومسلم وأبی داؤد والنسائی والبکر یستامر أبوھا۔
حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : شوہر دیدہ عورت اپنی ذات پر سرپرست سے زیادہ حق رکھتی ہے اور کنواری لڑکی سے اجازت لی جائے اور اس کی خاموشی ہی اجازت ہے ، اس حدیث کو امام بخاری کے سوا صحاح کے تمام مصنفین نے نقل کیا ہے اور مسند احمد، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ کنواری لڑکی سے اس کا باپ اجازت طلب کرے۔(نیل الاوطار 120/6)
مذکورہ احادیث میں کنواری اور شوہر دیدہ دونوں طرح کی عورتوں سے نکاح کے وقت اجازت لینے اور مرضی معلوم کرنے کاذکر ہے اور ظاہرہے کہ کنواری سے بالغہ مراد ہے کیونکہ نابالغہ سے اجازت لینے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے.( تحفۃ الاحوذی 2179/2) اور جب ایک ہی سلسلہ کلام میں دونوں سے اجازت کاتذکرہ ہے تو پھر اس فرق کے لیے کیا دلیل ہے کہ شوہر دیدہ کے لیے اجازت ضروری ہے اور کنواری کے لیے مستحب؟ بلکہ یہ فرق حدیث کے مفہوم سے بہت بعید ہے ۔ حدیث صاف طور پر بتلا رہی ہے کہ دونوں کی مرضی معلوم کرنا ضروری ہے ۔ البتہ فرق صرف اجازت کے طریقے میں ہے کہ شادی شدہ عورت سے جھجک ختم ہوجاتی ہے ، اس لیے اس کی پسند معلوم کرنے کے لیے زبان سے اظہار ضروری ہے ، اس کے برخلاف کنواری لڑکیوں میں فطری طور پر شرم و حیا زیادہ ہوتی ہے ، ان کے لیے زبان سے رضامندی کا اظہار بڑا کٹھن ہوتاہے ، اس لیے اجازت کے وقت ان کی خاموشی ہی کو آمادگی سمجھا جاتا ہے لیکن اگر وہ زبان کھول کر رشتہ سے ناگواری کا اظہار کردیتی ہے تو سرپرستوں کے لیے اس پر اپنی مرضی تھوپنا جائز نہ ہوگا اور زور زبردستی سے نکاح کردیاجائے تو عورت کے لیے اسے ختم کردینے کا حق حاصل ہے ، چنانچہ عہد رسالت میں اس طرح کے واقعات رونما ہوئے تو آپ ﷺ نے لڑکی کی مرضی معلوم کرکے رشتہ ختم کردیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس نقل کرتے ہیں:
4- ان جاریۃ بکرا أتت رسول اللہ ﷺ فذکرت ان اباھا زوّجھا وھی کارھۃ فخیرھا رسول اللہ ﷺ۔
ایک کنواری لڑکی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہاکہ میرا نکاح میرے باپ نے میری ناپسندیدگی کے باوجود کردیا ہے تو اللہ کے رسول ﷺ نے اسے نکاح ختم کردینے کا اختیار دیا۔ (اخرجہ احمدوابوداؤدوالنسائی وابن ماجہ، نصب الرایۃ 190/3)
اس حدیث کو حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کرنے والے مشہور تابعی حضرت عکرمہ ہیں۔ وہ اسے دو طرح سے روایت کرتے ہیں ، کبھی تو حضرت عبداللہ بن عباس کا نام لے کر ان کے واسطے سے روایت کرتے ہیں اور کبھی ان کا نام لیے بغیر براہ راست اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہیں، چونکہ حضرت عکرمہ صحابی نہیں ہیں اس لیے یہ روایت مرسل ہوگی۔ ناقد حدیث امام ابوحاتم اور ابوزرعہ کا خیال ہے کہ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عباس کے واسطے کے بغیر(مرسل) ہی درست ہے ، جن راویوں نے واسطے کا تذکرہ کیا ہے ان سے غلطی ہوئی ہے ۔(فتح الباری 103/9) امام بیہقی اور دارقطنی کا بھی یہی
نقطہ نظر ہے۔(نیل الاوطار121/6، اعلاء السنن 68/11 ) لیکن دیگر محدثین اور ناقدین حدیث نے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا ہے ، کیونکہ واسطے کے ساتھ روایت کرنے والے جریر بن حاتم ثقہ اور قابل اعتماد راوی ہیں اور ثقہ راوی کا اضافہ بالاتفاق قابل اعتبار ہے ، دوسرے یہ کہ وہ اس میں تنہا بھی نہیں ہیں بلکہ سفیان ثوری اور زیدبن حبان جیسے اساطین علم حدیث بھی ان کے ساتھ ہیں (نیل الاوطار122/6، سبل السلام122/3، اعلاء السنن68/11، )اسی لیے یحییٰ بن قطان نے ابن عباس کے واسطے کے ساتھ روایت کو صحیح قرار دیاہے۔(نصب الرایۃ190/3، عمدۃ القاری130/20)اور علامہ ابن حجر شافعی نے بھی اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔(الدرایۃ 61/2)اور علامہ شوکانی اور صنعانی نے ان کی تائید کی ہے۔ (نیل الاوطار122/6، سبل السلام 122/3 اور ابن قیم نے لکھا ہے کہ اکثر فقہاء تمام اہل اصول بلکہ خود امام بیہقی کے طریقے کے مطابق حدیث صحیح ہے(شرح ابوداؤد لابن القیم مع العون120/6)
لہٰذا حدیث کی صحت بالکل بے غبار ہے اور اس کو مرسل قرار دینا مشکل ہے ، نیز حدیث اپنے موضوع پر بالکل صریح ہے ۔ اس سے واضح اور دو ٹوک انداز میں معلوم ہوتا ہے کہ سرپرست کسی کنواری لڑکی کو اپنی مرضی کے رشتہ پر مجبور نہیں کرسکتاہے، بلکہ لڑکی کی آمادگی اور پسندیدگی ضروری ہے۔
امام بیہقی کہتے ہیں کہ حدیث صحیح ہو تو اس کی یہ توجیہ اور تاویل ممکن ہے کہ لڑکی کو نکاح ختم کردینے کا اختیار اس وجہ سے دیا گیا کہ باپ نے ’’غیرکفو‘‘ میں نکاح کردیا تھا اور غیرکفو میں کیے ہوئے نکاح کو عورت بالاتفاق فسخ کرسکتی ہے ،لہٰذا اس سے ’’باکرہ‘‘ کے مطلق اختیار پر استدلال نہیں کیاجاسکتاہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے یہ کہہ کر اس تاویل کی تائید کی ہے :
ھذا الجواب ھو المعتمد لأنھا واقعۃ عین
فلا یثبت الحکم فیھا لتعمیما۔
یہ جواب قابل اعتماد ہے کیونکہ یہ ایک خاص واقعہ ہے ، اس سے کوئی عمومی حکم ثابت نہیں ہوسکتاہے(۔فتح الباری 103/9)
اس کے برخلاف علامہ صنعانی کہتے ہیں کہ یہ ایک بے دلیل تاویل ہے ، حدیث کے الفاظ اس جواب کا ساتھ نہیں دیتے ہیں بلکہ حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ نکاح ’’کفو‘‘ میں ہوا تھا لیکن کسی دوسری وجہ سے لڑکی کو پسند نہ تھا کیونکہ اس نے رشتہ قبول نہ کرنے کی وجہ اپنی ناپسندیدگی کو قرار دیا ہے ۔ یہ نہیں کہاکہ میرا نکاح بے جوڑ اور غیرکفو سے کیا گیا ہے۔ اس لیے میں اس پر آمادہ نہیں اور اللہ کے رسول ﷺ نے بھی اختیار فسخ کی بنیاد اسی ناپسندیدگی پر رکھی ہے ، رہا حافط ابن حجر کا یہ کہنا کہ ’’ایک خاص واقعہ ہے اس سے کوئی عمومی حکم ثابت نہیں ہوسکتاہے‘‘ تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ حکم کی بنیاد جس وجہ پر ہے وہ عام ہے ۔ لہٰذا جہاں بھی کراہت اور ناپسندیدگی پائی جائے گی یہ حکم ثابت ہوگا۔ (سبل السلام 122/3)
5- عن عطاء عن جابر أن رجلا زوج ابنتہ وھی بکر من غیر أمرھا فأتت النبی ﷺ ففرّق بینھما۔
حضرت عطاء سے روایت ہے کہ حضرت جابر فرماتے تھے کہ ایک شخص نے اپنی کنواری لڑکی کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کردی، وہ لڑکی نبی ﷺ کے پاس شکایت لے کر آئی تو آپ ؐ نے اس کے نکاح کو فسخ کردیا۔
یہ روایت بھی دو طرح سے مروی ہے ، بعض راوی اسے حضرت عطاء سے حضرت جابر کے واسطے کے ساتھ نقل کرتے ہیں اور بعض حضرت جابر کے واسطے کے بغیر نقل کرتے ہیں، چونکہ حضرت عطاء تابعی ہیں ، اس لیے روایت مرسل ہوگی، امام نسائی نے واسطے کے ساتھ نقل کیا ہے اور حافظ ابن حجر کا خیال ہے کہ اس کی سند بظاہر ٹھیک
ٹھاک ہے ۔(ھذا سند ظاہرہ الصحۃ.فتح الباری 103/9) تاہم بعض حضرات نے اس پر کلام بھی کیا ہے ۔ البتہ واسطے کے بغیر یہ روایت صحیح ہے (نصب الرایہ 191/3) اور مرسل حدیث بھی محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک لائق دلیل ہے۔
6- عن عبد اللہ بن بریدۃ عن أبیہ قال جاءت فتاۃ الی رسول اللہ ﷺ فقال ان ابی زوّجنی ابن أخیہ لیرفع بی خسیستہ قال فجعل الامر الیھا فقالت قد اجزت ما صنع أبی ولکن اردت أن اعلم النساء ان لیس الی الآباء من الأمر شیء۔
حضرت عبداللہ اپنے والد بریدہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دوشیزہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہاکہ میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے تاکہ میرے ذریعہ اسے پستی سے اوپر اٹھا سکیں، راوی کہتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس لڑکی کو نکاح ختم کردینے کا اختیار دیا تو اس نے کہاکہ میرے والد نے جو کچھ کیا میں اس پر راضی ہوں اور آپ کے سامنے معاملہ لانے کا مقصد یہ ہے کہ عورتیں اس سے آگاہ ہوجائیں کہ ان کی زندگی کے معاملہ میں باپ کو کوئی دخل نہیں ہے ۔(رواہ ابن ماجہ ، ورواہ ابن والنسائی من حدیث ابن بریدۃ .نیل الاوطار 127/6)
محدث ابن ماجہ نے اس کی روایت کی ہے اور تمام راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں۔ (رجالہ رجال الصحیح۔ نیل الاوطار 128/6) ساتھ ہی حدیث متصل بھی ہے یعنی درمیان کی کوئی کڑی غائب نہیں ہے لیکن محدث نسائی نے اسی روایت کو ابن بریدہ سے حضرت عائشہؓ کے واسطے سے نقل کیا ہے حدیث کی سند یہ ہے :
حدثنا زیادبن ایوب قال حدثنا علی بن غراب قال حدثنا کھمس بن الحسن عن عبداللہ بن بریدۃ عن عائشۃ ۔ (سنن نسائی 87/6) اور یہ روایت بھی اسنادی حیثیت سے صحیح ہے۔ (نیل الاوطار 128/6) لیکن امام بیہقی کا خیال ہے کہ حدیث کی سند متصل نہیں کیونکہ ابن بریدہ کی ملاقات حضرت عائشہ سے ثابت نہیں ہے ۔ لہٰذا درمیان کی کڑی غائب ہونے کی وجہ سے یہ روایت قابل استدلال نہیں مگر دوسرے محدثین کو امام بیہقی کی اس رائے سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ امام مسلم وغیرہ نے صراحت کردی ہے کہ ملاقات ثابت ہونا ضروری نہیں بلکہ محض امکان ملاقات کافی ہے اور ابن بریدہ کا حضرت عائشہ سے ملاقات ممکن ہے کیونکہ ان کی پیدائش 15ھ میں ہوئی ہے اور حضرت عائشہ کی وفات 50 ھ کے بعد ہوئی ہے ۔ دوسرے یہ کہ صاحب اِکمال نے صراحت کردی ہے کہ حضرت عائشہ سے انھوں نے حدیث سنی ہے ۔ لہٰذا اس دوسری سند کو بھی غیر متصل کہنا درست نہیں ہے ،صحیح یہ ہے کہ ابن بریدہ نے یہ روایت اپنے والد اور حضرت عائشہ ؓ دونوں سے سنی ہے ، اس لیے وہ کبھی اپنے والد کے حوالے سے نقل کرتے ہیں اور کبھی حضرت عائشہؓ کے واسطے سے۔ (اعلاء السنن 68/11)
اس حدیث میں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ یہ ایک عورت نے اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے صاف لفظوں میں اعلان کیاکہ باپ کو لڑکی کے نکاح کے معاملہ میں دخل اندازی کا حق نہیں ہے اور اس نے ایک عام لفظ ’’نساء‘‘(عورت) استعمال کیا ہے جو کنواری اور شوہردیدہ دونوں کے لیے استعمال ہوتاہے اور روایت کے لب و لہجہ سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ عورت خود کنواری تھی اور اللہ کے رسول ﷺ نے اس اعلان پر کوئی نکیر نہیں فرمائی جو اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا اعلان درست ہے۔
بعض لوگوں نے اس روایت میں بھی تاویل کی ہے کہ باپ نے غیرکفو میں نکاح کیاتھا اس لیے آپ ﷺ نے لڑکی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار دیا لیکن اس تاویل کی
تردید خود روایت میں موجود ہے کہ اس عورت کی شادی باپ نے اپنے بھتیجے سے کی تھی اور عربوں میں صرف نسبی کفاءت کا تصور تھا، پیشہ وغیرہ میں کفاءت کا لحاظ ان کے یہاں نہیں تھا اور ظاہرہے کہ بھتیجے سے بڑھ کر کون کفو ہوگا۔(فتح القدیر 163/3۔ سبل السلام 123/3)
امام شافعی وغیرہ کے دلائل پر ایک نظر:
حضرت امام شافعی کی طرف سے پیش کردہ روایت اپنے موضوع پر صریح نہیں ہے بلکہ مفہوم مخالف کے ذریعہ سے استدلال کیاگیاہے اور مفہوم مخالف مراد لینے کی گنجائش اسی وقت ہے جبکہ صراحت اس کے خلاف نہ ہو، لیکن یہاں اس کے برخلاف صریح اور صحیح روایات موجود ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے ’’مفہوم مخالف‘‘ کو کیسے مراد لیا جاسکتا ہے؟
رہا عقلی استدلال تو وہ بھی درست نہیں کیونکہ ’’ولایت اجبار‘‘ کے لیے تجربہ کو بنیاد بنانا غلط ہے اس لیے کہ نابالغی کے تجربہ کا کوئی اعتبار ہی نہیں ، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ تجربہ ہوتا ہی نہیں ہے ، اس لیے کہ تجربہ بھی بلوغ کے بعد ہی ہوتاہے، لہٰذا تجربہ کے بجائے ’’قصور عقل‘‘ کو ولایت اجبار کی بنیاد بنانا زیادہ درست ہے کہ اس صورت میں معاملات نکاح اور فائدہ و نقصان سے آگاہی نہیں ہوتی ہے ، اس لیے اس سے اجازت لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے برخلاف بلوغت کے بعد لڑکا اور لڑکی دونوں معاملات نکاح سے واقف ہوجاتے ہیں اور فائدہ و نقصان کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس لیے اب ان پر سرپرست کی مرضی کو تھوپنا درست نہیں۔
ولایت اجبار کن سرپرستوں کو حاصل ہے؟
’’ولایت اجبار‘‘کاحق کن سرپرستوں کو حاصل ہوگا ؟ اس میں بھی اختلاف ہے امام مالک اور احمد کے نزدیک یہ حق صرف باپ یا وصی کو حاصل ہوگا، امام شافعی کے نزدیک باپ کے ساتھ دادا کو بھی یہ حق ملے گا اور ان کے سوا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے، امام ابوحنیفہ کے یہاں تمام سرپرستوں کو ’’ولایت اجبار‘‘حاصل ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ باپ و دادا کا کیا ہوا نکاح لازم ہے اور بلوغت کے بعد فسخ کرنے کا اختیار نہ ہوگا اور دیگر سرپرستوں کا کیا ہوا نکاح غیرلازم ہے یعنی بالغ ہونے کے بعد اس نکاح کو ختم کرنے کا حق ملے گا جسے خیار بلوغ کہا جاتا ہے ۔ امام احمد اور مالک سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے ۔ صحابہ میں سے حضرت علیؓ، عبداللہ بن مسعود، ابن عمر، ابوہریرہ اسی کے قائل ہیں اور حسن بصری ، عمربن عبدالعزیز ، عطاء ، طاؤس ، قتادہ ، اوزاعی اور ابن شبرمہ کا یہی مسلک ہے ۔(دیکھئے الفقہ الاسلامی 180/7، فتح القدیر 189/1، فقہ السنہ 116/2)
جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ ولایت اجبار کا حق صرف باپ کو ملے گا اور باپ کے علاوہ دیگر سرپرستوں کو یہ حق نہیں کہ اپنے ماتحتوں کا نکاح نابالغی کی حالت میں کردیں ۔ ان کے دلائل یہ ہیں:
1- عن أبی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ تستامر الیتیمۃ فی نفسھا فان سکتت فھو اذنھا وان أبت فلا جواز علیھا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ یتیم لڑکی سے اس کی ذات کے سلسلہ میں اجازت طلب کی جائے اگروہ خاموش رہے تو یہ خاموشی ہی اجازت ہے اور اگر انکار کرے تو کسی کو اسے مجبور کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔(سنن ابوداؤد 231/2، با ب فی الاستئمار ، سنن ترمذی 408/4، رقم 1109، وقال حدیث حسن، سنن نسائی 87/6 باب استئذان البکر فی نفسھا، مسند احمد 256/2، مسند ابویعلیٰ312/13، یہ روایت حضرت ابوموسیٰ اشعری سے بھی منقول ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ تسامر الیتیمۃ فی نفسھا فان سکتت فقد اذنت وان ابت لم تکرہ ، مسند احمد 408/4، کشف الاستار 160/2، رقم 1422، سنن دارقطنی 242/3، ورجالہ رجال الصحیحین۔)
طریقہ استدلال یہ ہے کہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ رشتہ نکاح کے مسئلہ میں یتیم لڑکی سے اجازت لی جائے، حالانکہ نابالغی میں اس کی اجازت یا انکار کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اس لیے حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نابالغی میں یتیم لڑکی کی شادی نہ کی جائے بلکہ بالغہ ہوجانے کے بعد اس کی مرضی سے اس کا نکاح کیاجائے۔ (لاتنکح الیتیمۃ حتی تبلغ فتستامر ۔شرح السنہ 37/9، فتح الباری 104/9)
سوال یہ ہے کہ یتیمی تو نابالغی تک ہوتی ہے ، بالغ ہونے کے بعد کوئی یتیم نہیں رہ جاتاہے تو پھر اس حدیث میں بالغہ کو یتیم کیوں کہا گیا ہے، اس کا جواب یہ دیا گیا کہ گذشتہ کا اعتبار کرتے ہوئے یتیم کہہ دیاگیاہے کہ وہ نام جو نابالغی میں تھا بالغ ہونے کے بعد بھی باقی رکھا گیا ہے، اس طرح کا استعمال خود قرآن میں مذکور ہے:
وآتوا الیتامیٰ أموالھم۔
یتیموں کا مال ان کے حوالے کردو۔(سورۃ النساء :2)
یہاں بہ اتفاق ’’یتیم‘‘ سے بالغ مراد ہے اور ایسا ہر زبان اور محاورہ میں ہوتاہے۔ چنانچہ اگرکوئی منصب قضا پر فائز ہو تو سبکدوشی کے بعد بھی اسے قاضی کہاجاتاہے۔(معالم السنن 202/3، عون المعبود 82/6)
2- حضرت قدامہ بن مظعون نے اپنی بھتیجی کی شادی اپنے بھانجے عبداللہ بن عمر سے کردی تھی،لیکن لڑکی کی ماں اور لڑکی اس رشتہ کے لیے آمادہ نہ تھی اس لیے معاملہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا:
انھا یتیمۃ ولا تنکح الا باذنھا۔
وہ یتیم لڑکی ہے اس کا رشتہ اس کی مرضی ہی سے کیاجاسکتاہے۔(مسند احمد 130/2، وقال الھیثمی رجالہ ثقات المجمع 208/4)
3- باپ کے سوا دیگر سرپرستوں میں شفقت کی کمی ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ وہ بہترین کا انتخاب نہ کریں بلکہ کسی غیر مناسب جگہ رشتہ منظور کرلیں۔ لہٰذا ان کی حیثیت بھی عام لوگوں کی طرح ہے کہ جس طرح سے کوئی غیر متعلق شخص نابالغ یتیم کا نکاح نہیں کرسکتاہے اسی طرح سے باپ کے سوا دیگر رشتہ داروں کو بھی یہ حق نہیں۔ نیز جس طرح باپ و دادا کے سوا دیگر رشتہ داروں کو نابالغ کے مال پر ولایت حاصل نہیں ہے اسی طرح سے جسم پر بھی ان کے علاوہ کسی کو ولایت حاصل نہ ہوگی۔(دیکھئے المغنی 490/6)
جولوگ اس کے قائل ہیں کہ باپ کے سوا دیگر سرپرستوں کو بھی ولایت اجبار کاحق حاصل ہے، ان کے دلائل یہ ہیں:
1- وان خفتم ان لاتقسطوا فی الیتامی فانکحوا ما طاب لکم من النساء۔
اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں سے انصاف نہ کر سکوگے تو اور عورتوں سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند ہوں۔(سورۃ النساء /3)
اس آیت کے شان نزول پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایسا ہوتاتھا کہ یتیم لڑکی کا سرپرست اس کی خوبصورتی اور مال و دولت کی وجہ سے خود اس سے نکاح کرلیتا اور مہر کم سے کم رکھنے کی کوشش کرتا، قرآن نے ایسا کرنے سے منع کیا اور حکم دیا کہ مہر کم دینا چاہتے ہو تو پھر اس یتیم سے رشتہ نہ کرو ، اس کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کر لو اور اگر انھیں سے نکاح کرنا ہے تو پھر ان کے خاندانی مہر کو مکمل طور پر ادا کرو۔(وھذہ الیتیمۃ تکون فی حجر ولیھا فیرغب فی جمالھا ومالھا وترید ان ینقص من صداقھا فنھو عن نکاحھن الا ان یقسطوا لھن فی اکمال صداقھن وامروا بنکاح من سواھن من النساء ۔ صحیح بخاری مع الفتح 104/9)
اس سے بہ صراحت معلوم ہوتاہے کہ نابالغ یتیم کی شادی باپ کے سوا دوسرے سرپرست بھی کرسکتے ہیں، کیونکہ آیت میں ’’یتامیٰ‘‘ کا لفظ استعمال کیاگیاہے اور باعتبار حقیقت یتیم، نابالغ ہی ہوتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے :
’’لایتم بعد احتلام‘‘۔
بلوغت کے بعد یتیمی نہیں ہے۔
(قال الھیثمی رواہ الطبرانی فی الصغیر ورجالہ ثقات، المجمع 334/4، وقال النووی رواہ ابوداؤد باسناد حسن، ریاض الصالحین /569)
2- اللہ کے رسول ﷺ نے عمارہ بنت حمزہ کی شادی نابالغی میں کردی تھی اور آنحضور نے یہ نکاح بطور سرپرست کیا تھا، منصب نبوت کی وجہ سے آپ کو تمام مسلمانوں پر جو عمومی ولایت حاصل تھی اس کے تحت یہ نکاح نہیں ہواتھا۔(فتح القدیر 174/3)
امام بیہقی نے اس روایت کو تفصیل سے نقل کیا ہے جس کا آخری ٹکڑا یہ ہے :
فزوجھا رسول اللہ ﷺ سلمۃ بن ابی سلمۃ۔ امام بیہقی کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ یہ ایک متروک اور ضعیف راوی واقدی کے واسطے سے منقول ہے، نیز روایت میں اس کی بھی صراحت نہیں ہے کہ عمارۃ بنت حمزہ نکاح کے وقت نابالغہ تھیں(السنن الکبریٰ 121/7) گرچہ بیہقی کی اس روایت میں عدم بلوغت کی وضاحت نہیں ہے لیکن ابن اسحاق کی روایت میں اس کی صراحت ہے اور اسنادی حیثیت سے روایت قوی بھی ہے ، روایت کے الفاظ یہ ہیں:
عن عبد اللہ بن شداد قال کان الذی زوج رسول اللہ ﷺ أم سلمۃ ابنھا سلمۃ فزوجہ رسول اللہ ﷺ ابنۃ حمزۃ وھما صبیان صغیران فلم یجتمعا حتی ماتا فقال رسول اللہ ﷺ ھل جزیت سلمۃ بتزویجہ ایای أمہ۔
حضرت عبداللہ بن شداد کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ام سلمہ کی شادی کرانے والے ان کے لڑکے سلمہ ہیں تو اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی شادی حضرت حمزہ کی لڑکی سے کردی حالانکہ دونوں ابھی بچے تھے اور ایک ساتھ زندگی گذارنے سے پہلے ہی دنیا سے گذر گئے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس نکاح کے بعد فرمایاکہ سلمہ نے میرا رشتہ منظور کیا تھا تو میں نے ان کا نکاح کردیا کیا میں نے بدلہ چکا نہیں دیا؟۔(دیکھئے السیرۃ لابن اسحاق /261)
یہ روایت اسنادی حیثیت سے جید اور عمدہ ہے ، البتہ مرسل ہے کیونکہ عبداللہ بن شداد تابعی ہیں اور انھوں نے کسی صحابی کے واسطے کے بغیر براہ راست آنحضور سے نقل کیا ہے۔(دیکھئے تہذیب التہذیب 252/5)
3- مقاصد نکاح کے حصول کے لیے میاں بیوی کے درمیان مناسبت اور کفاءت کا لحاظ ضروری ہے اور بسااوقات بروقت ایک مناسب رشتہ آجاتا اور اگر اس رشتہ کو قبول نہ کیاجائے تو پھر ویسا ملنا مشکل ہے ، اس لیے مصلحت کا تقاضا ہے کہ اسے رد نہ کیاجائے اور جو بھی سرپرست موجود ہو وہ اس رشتہ کو منظور کرلے کیونکہ رشتہ داری کی وجہ سے اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے ماتحت کے مفاد اور مصلحت کا پاس و لحاظ کرے گا اور اگر وہ بے اعتنائی اور لاپرواہی سے غلط انتخاب کرجائے تو باشعور اور بالغ ہونے کے بعد انھیں رشتہ ختم کردینے کا اختیار ہوگا۔(فتح القدیر174/3)
4- جولوگ ولایت اجبار کو محض باپ تک محدود رکھتے ہیں ان کی طرف سے پیش کردہ پہلی روایت میں ’’یتیمہ‘‘ سے مراد بالغہ ہے جیساکہ خود انھیں تسلیم ہے اور حدیث کا واضح مفہوم یہ ہے کہ بالغہ یتیم لڑکی سے رشتہ کے وقت اس کی مرضی معلوم کی جائے جیساکہ عام بالغہ لڑکیوں کا حکم ہے ، چونکہ اس بات کا امکان تھا کہ یتیم کی مرضی کو کوئی اہمیت نہ دی جائے اور ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر جہاں جی میں آئے رشتہ طے کردیاجائے اس لیے آنحضور ﷺ نے انفرادی طور پر تاکید کے ساتھ حکم دیا کہ ان کی پسند و ناپسند کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور ایسی صفت کا تذکرہ کیا کہ اسے یاد کرکے ان کے لیے شفقت و محبت کے جذبات ابھر آئیں۔ حضرت قدامہ بن مظعون کے واقعہ میں یہی ہوا تھاکہ انھوں نے نکاح کرتے ہوئے لڑکی کی رضامندی اور خواہش پرکوئی توجہ نہیں دی اور ایک ایسی جگہ رشتہ طے کردیا جسے لڑکی پسند نہ کرتی تھی۔ چونکہ لڑکی اور اس کی ماں کی مرضی کے خلاف یہ نکاح ہوا تھا اس لیے انھوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے معاملہ کو پیش کیا اور آنحضرت ﷺ نے یہ کہہ کر نکاح کالعدم قرار دے دیا:
ھی یتیمۃ ولا تنکح الا باذنھا۔
وہ یتیم لڑکی ہے ، اس کی شادی اس کی مرضی ہی سے ہوسکتی ہے۔(رواہ احمد و الدارقطنی و سکت عنہ الحافظ فی التلخیص وقال الھیثمی رجال احمدثقات ، نیل الاوطار 122/6)
مذکورہ روایت میں نکاح ختم کرنے کی وجہ آپ ﷺ نے یہ بیان نہیں کیاکہ یہ باپ و دادا کے علاوہ کا کیا ہوا نکاح ہے ، اس لیے درست نہیں ہے بلکہ یہ فرمایاکہ نکاح کے لیے یتیم کی مرضی معلوم کرنا بھی ضروری ہے۔
5- یہ صحیح ہے کہ باپ و داد اکے علاوہ دیگر لوگوں میں شفقت کی کمی ہوتی ہے، اس لیے امکان ہے کہ رشتہ کرتے ہوئے وہ غیرذمہ داری کا ثبوت دے جائیں لیکن اس کی تلافی کی صورت تو ہے کہ بالغ و باشعور ہوجانے کے بعد انھیں موقع دیاجاتا ہے کہ اس رشتہ کو مناسب سمجھیں تو باقی رکھیں ورنہ ختم کردیں۔
رشتہ نکاح کو مال پر قیاس کرنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ مال کی ضرورت بلکہ شدید محبت کو دیکھتے ہوئے باپ و دادا کے علاوہ دیگر سرپرستوں کو بھی اس میں تصرف کی اجازت دے دی جائے تو قصور شفقت کی وجہ سے خیانت اور خرد برد کرلیں گے اور پھر تلافی کی بھی کوئی صورت نہیں ہوگی۔(فتح القدیر17/4)
خیار بلوغ:
باپ نے حق ولایت اجبار کو استعمال کرتے ہوئے جو نکاح کیاہے وہ لازم ہے یعنی بلوغت کے بعد اس نکاح کو فسخ کردینے کا اختیار حاصل نہ ہوگا، اس پر چاروں اماموں کا اتفاق ہے ۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک یہی حکم دادا کے کیے ہوئے نکاح کا بھی ہے ۔(دیکھئے احکام القرآن للجصاص 346/2، المبسوط 213/4 وغیرہ) اس نکاح کے لزوم کے دلائل یہ ہیں:
(الف) حضرت عائشہؓ کا نکاح ان کے والد حضرت ابوبکرؓ نے نابالغی میں کیا تھا اور بلوغت کے بعد ان سے یہ نہیں کہا گیا کہ سابق نکاح کو باقی رکھنے یا ختم کردینے کا اختیار تمہیں حاصل ہے ،جو اس کے لیے دلیل ہے کہ انھیں ایسا کرنے کا حق نہیں تھا کیونکہ انھیں یہ حق حاصل ہوتا تو ضرور انھیں آگاہ کیاجاتا جیساکہ فراخی نفقہ کے مطالبہ کے وقت انھیں اختیار دیا گیا تھا، چنانچہ روایتوں میں آتاہے کہ فتوحات کی وجہ سے جب کچھ کشادگی حاصل ہوگئی تو ازواج مطہرات نے نفقہ میں فراخی و کشادگی کا مطالبہ کیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
یا ایھا النبی قل لأزواجک ان کنتن تردن الحیاۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن و اسرحکن سراحاً جمیلاً وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الآخرۃ فان اللہ أعدّ للمحسنات منکن اجراً عظیماً۔
اے نبی!اپنی بیویوں کو باخبر کردیجئے کہ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی بہار چاہتی ہو تو آؤ میں تم کو کچھ مال و متاع دے کر خوبی کے ساتھ رخصت کردوں اور اگر تم اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو ترجیح دیتی ہو تو بلاشبہ اللہ نے تم میں سے نیکو کاروں کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ الاحزاب /27-28)
امام بخاری وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ سب سے پہلے حضرت عائشہؓ کے پاس آئے اور کہاکہ میں تمہارے سامنے ایک معاملہ رکھ رہاہوں لیکن جواب دینے سے پہلے اس سلسلہ میں اپنے والدین سے مشورہ کرلینا ، اس کے بعد آپ نے ان کے سامنے مذکورہ آیت پڑھی۔ یہ سن کر حضرت عائشہؓ نے کہا مجھے اس معاملہ میں والدین سے مشورہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ مجھے اللہ اور اس کے رسول کی چاہت ہے۔ اس کے سوا کوئی اور خواہش نہیں۔ یہی جواب دیگر ازواج مطہرات نے بھی دیا۔ (تفسیر ابن کثیر 591/3-592)
اس موقع پر آپ ﷺ کا ازواج مطہرات کو اختیار دینا اور بلوغت کے موقع پر اختیار کا تذکرہ نہ کرنا دلیل ہے کہ باپ کے کیے ہوئے نکاح میں حق فسخ حاصل نہیں ہے۔
(ب) باپ و دادا اپنی اولاد کے حق میں حددرجہ مشفق اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں، نیز زمانہ کے سردوگرم سے آگاہ بھی ہوتے ہیں، ان کی بھرپور شفقت و محبت اور تجربہ کاری سے یہی امید ہے کہ انھوں نے مصلحت اور مفاد کا لحاظ رکھ کر بہتر رشتہ کا انتخاب کیا ہے۔ اس لیے اس رشتہ کو ختم کردینے کا اختیار دینا خلاف مصلحت اور باعث ضرر ہے۔
واضح رہے کہ حنفی مسلک کے مطابق باپ و دادا کا کیا ہوا نکاح اسی وقت لازم ہے جبکہ ان میں تین شرطیں پائی جائیں:
1-تجربہ کار، عاقبت بیں اور مخلص ہوں۔ بد تدبیر، ناعاقبت اندیش اور لاپرواہ نہ ہوں۔ لہٰذا کسی باپ نے کسی غرض یا حماقت کی وجہ سے محض اپنے نفع کے لیے خلاف مصلحت نکاح کردیا ہے تو وہ لازم اور نافذ نہ ہوگا۔
2-بے غیرت، گناہ پر جری اور بدنام نہ ہو۔
3-نکاح کے وقت ہوش و حواس میں ہو،نشہ کی حالت میں نہ ہو۔(دیکھئے رد المحتار 153/4، نیز جواہر الفقہ /117-119)
اگر یہ شرطیں پائی جائیں تو ان کا کیا ہوا نکاح لازم ہے گرچہ غیرکفو میں نکاح کیا ہو۔ لیکن امام شافعی ، احمد، ابویوسف اور محمد کے نزدیک غیر کفو میں کیا ہوا نکاح درست نہیں ہے(فتح القدیر 194/2، المغنی 489/6، الفقہ علی المذاہب 32/6، الفقہ الاسلامی182/7-183)، علامہ ابن ہمام نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک بھی غیر دیندار سے کیاہوا نکاح درست نہ ہونا چاہیے۔(فتح القدیر 194/3)
امام شافعی و احمد کے نزدیک ’’ولی‘‘ کا عادل اور دیندار ہونا بھی ضروری ہے ، نیز امام شافعی کے یہاں یہ بھی شرط ہے کہ مردوعورت کے درمیان دشمنی نہ ہو۔ مرد مہر ادا کرنے پر قادر ہو ، ایسا نہ ہو کہ اس کے ساتھ گذارا کرنا دشوار ہو، مثلاً اندھا یا بوڑھا ہو، مہر مثل پر نکاح کیاجائے یعنی اس عورت کے خاندان میں جتنے مہر کا رواج ہو اس کا لحاظ رکھاجائے، اس آخری شرط میں امام ابویوسف اور محمد بھی ان کے ساتھ ہیں۔ اس کے برخلاف امام ابوحنیفہ ، مالک اور احمد کے نزدیک مہر مثل ہونا شرط نہیں ہے ۔ (الفقہ الاسلامی /182-183، الفقہ علی المذاہب 35/4)
یہ تمامتر تفصیل ائمہ اربعہ کے مسلک کے مطابق ہے جن میں باہم اس پر اتفاق ہے کہ باپ کا کیا ہوا نکاح اصلاً نافذ ہے ، بلوغت کے بعد فسخ کا اختیار نہ ہوگا لیکن جلیل القدر تابعی قاضی شریح اور طاؤس بن کیسان کا خیال ہے کہ دیگر رشتہ داروں کی طرح ان کا کیا ہوا نکاح بھی غیرلازم ہے اور بالغ ہونے کے بعد لڑکے اور لڑکی کو سابق نکاح ختم کردینے کا اختیار حاصل ہوگا۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ یقینا باپ و دادا کو اپنی اولاد سے شدید محبت ہوتی ہے اور دوسری طرف وہ پختہ کار اور صاحب نظر بھی ہوتے ہیں لیکن شریعت نے اس پر مسئلہ نکاح کا مدار نہیں رکھا ہے ، اگر ایسا ہوتا تو بلوغت کے بعد بھی انھیں اولاد کی مرضی معلوم کرنے کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ ان کی رضا کے بغیر نکاح کردینے کے مجاز ہوتے، حالانکہ ایسانہیں ہے ۔ لہٰذا جس طرح سے ابتداء نکاح کے لیے بالغ مردوعورت کی پسند کا خیال رکھنا ضروری ہے اسی طرح سے بقاء نکاح کے لیے بھی بلوغت کے بعد ان کی مرضی شرط ہے ۔ چاہے باپ و دادا نے وہ نکاح کیا ہو یا کسی اور رشتہ دار نے ۔ کیونکہ جس طرح سے ابتداء نکاح کے لیے اس طرح کی کوئی تفریق نہیں ہے ایسے ہی بلوغت کے بعد بقاء نکاح کے لیے بھی کوئی تفریق نہ ہوگی۔
دوسرے یہ کہ نابالغی میں عام طور پر بچے اور بچیوں کے حالات وکردار مناسب ہوتے ہیں اور اس کے پیش نظر ایک رشتہ طے کردیا جاتا ہے لیکن بعد میں وہ حالات باقی نہیں رہتے تو کیا محض اس مفروضے کی بنیاد پر کہ باپ و دادا نے ان کے لیے بہتر رشتہ ہی کا انتخاب کیاہوگا ایسے ساتھی کے ہمراہ زندگی گذارنے پر مجبور کیاجاسکتاہے جس سے کوئی ذہنی وابستگی نہیں بلکہ بے شعوری کے عالم میں ان پر تھوپ دیاگیاہے نیز باپ و دادا نے جس توقع پر رشتہ منظور کیاتھا اس کا بھی وجود نہیں ہے۔(قال اذا زوج الرجل ابنہ او ابنتہ فالخیار لھما اذا شبا ۔اذا انکح الصغیرین ابوھما فھما بالخیار اذا کبرا ، مصنف عبدالرزاق 164/6، ابن ابی شیبہ 140/4)
خیار بلوغ کا طریقہ:
باپ و دادا کے سوا کسی اور سرپرست نے نابالغی میں بچے یا بچی کی شادی کردی ہے تو بلوغت کے بعد اسے سابق نکاح کو باقی رکھنے اور ختم کردینے کا اختیار ہوگا۔ جس کا طریقہ یہ ہوگا۔
(الف) کنواری لڑکی بلوغت کے فوراً بعد زبان سے ناپسندیدگی کا اظہار کرے، خواہ وہاں کوئی موجود ہو یا نہ ہو، بلوغت کے بعد تھوڑی دیر بھی خاموش رہی تو اس کا یہ حق ساقط ہوجائے گا۔ عام طور پر فقہاء حنفیہ اسی کے قائل ہیں (الہدایہ مع الفتح 178/3)، البتہ ابوبکر جصاص رازی کا
خیال ہے کہ یہ حق بلوغ کی مجلس تک باقی رہے گا(فتح القدیر 178/3)، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بلوغت کے بعد عورت شوہر کے متعلق دریافت کرے کہ وہ کون ہے یا مہر کی مقدار معلوم کرے تو بھی اس کا اختیار باطل ہوجائے گا لیکن علامہ ابن ہمام نے لکھاہے کہ یہ بے دلیل بات اور شدت پسندی ہے ۔ (تعسف لا دلیل علیہ ۔حوالہ مذکور 179/3)
اس کے بعد فوراً دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں بطور گواہ تلاش کرے اور گواہ بناکر ان کے سامنے کہے میں بالغہ ہوچکی ہوں اور حالت نابالغی کے نکاح کو رد کرتی ہوں اور اگر اس وقت گواہ نہ مل سکیں تو زبان سے فسخ کا اظہار کردے اور جب گواہ مل جائیں تو ان سے کہے کہ میں ابھی بالغہ ہوئی ہوں اور نابالغی کے نکاح کو ختم کرتی ہوں ، آپ اس پر گواہ رہئے۔ امام محمد سے دریافت کیاگیا کہ یہ تو جھوٹ ہوا تو انھوں نے جواب دیاکہ اپنے حق کو بچانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے ۔ (فجاز لھا ان تکذب کی لایبطل حقھا۔فتح القدیر 178/3)
تیسرے مرحلہ میں عورت قاضی سے رجوع کرے اور وہ عورت کی خواہش کے مطابق نکاح کو فسخ کردے۔ اظہار ناپسندیدگی اور گواہ بنانے میں قدرت کے باوجود تاخیر سے یہ حق باطل ہوجاتاہے لیکن یہ دونون مرحلے طے ہوجانے کے بعد قاضی کے پاس آنے میں مہینہ، دو مہینہ تاخیر بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس کی وجہ سے اس کا حق ساقط نہ ہوگا۔ البتہ شرط یہ ہے کہ اس دوران وہ زبانی یا عملی طور پر رضامندی کا اظہار نہ کرے۔ (الہندیۃ 210، البحرالرائق 122/3)
(ب) لڑکا اور شوہر دیدہ(ثیبہ) لڑکی کا خیار بلوغت کے بعد اس وقت تک باقی رہے گا جب تک کہ وہ زبانی یا عملی طور پر یعنی بوسہ وغیرہ لے کر رضامندی کا اظہار نہ کردے۔ نیز تاخیر کی وجہ سے ان کا حق باطل نہ ہوگا(الہدایہ مع الفتح 178/3) اور نہ ہی ان کے لیے گواہ بنانے کی ضرورت ہے بلکہ جب بھی موقع ملے قاضی کی مجلس میں جاکر نکاح فسخ کراسکتے ہیں۔
لڑکا ، شوہر دیدہ لڑکی اور کنواری لڑکی کے درمیان یہ فرق کیوں رکھا گیا ہے؟ اس سلسلہ میں صاحب ہدایہ کہتے ہیں ۔اعتباراً لھذہ الحالۃ بحالۃ ابتداء النکاح (الہدایہ مع الفتح 178/3) یعنی ابتداء نکاح میں جس طرح سے کنواری اور شوہر دیدہ کے درمیان فرق رکھا گیا ہے کہ حدیث کے مطابق اجازت کے وقت کنواری لڑکی کی خاموشی رضامندی سمجھی جاتی ہے لیکن شوہر دیدہ عورت کے لیے خاموشی کافی نہیں بلکہ صراحتاً اجازت ضروری ہے، ایسے ہی بقاء نکاح کے لیے بھی بلوغت کے بعد کنواری لڑکی کی خاموشی، پسندیدگی کی علامت ہوگی اور شوہر دیدہ عورت اور لڑکے کے لیے بہ صراحت زبانی یا عملی پسندیدگی ضروری ہوگی۔ لیکن یہ قیاس اس اعتبار سے قابل غور ہے کہ ابتداء نکاح میں کنواری لڑکی کی خاموشی کو دلیل رضامندی اس لیے قرار دیا گیا کہ وہ شرم و حیاء کی وجہ سے بولنے پر قادر نہیں ہوتی ہے اس لیے شریعت نے اسے حیا کی چادر سے باہر نکالنا مناسب نہ سمجھا لیکن اس مسئلہ میں تو اس سے زبردستی حیا کی چادر اتروائی جارہی ہے کہ وہ بلوغت کے بعد فوراً گواہوں کے سامنے جاکر بالغ ہونے پر گواہ بنائے۔ کیا کسی کنواری باحیا لڑکی سے اس کی امید رکھی جاسکتی ہے؟ کیا یہ شرط لگانا حقیقتاً اس کا حق چھین لینے کے مترادف نہیں ہے ؟ اس لیے خیال ہوتاہے کہ کنواری لڑکی کا بھی وہی حکم ہونا چاہیے جو شوہر دیدہ عورت کا ہے۔
ان میں سے کوئی نکاح سے ناواقف ہو ، انھیں اپنے نکاح کی اطلاع ہی نہ ہو اور اس کی وجہ سے اختیار کا استعمال نہ کرسکیں تو نکاح کا علم ہونے تک یہ حق برقرار رہے گا (حوالہ مذکور) لیکن انھیں اگر یہ علم نہ ہو کہ نابالغی کی شادی میں بلوغت کے بعد نکاح فسخ کردینے کا اختیار ہوتا ہے اور لاعلمی کی وجہ سے اس حق کو استعمال نہ کرسکیں تو انھیں معذور نہ سمجھاجائے گا اور فسخ کا اختیار ختم ہوجائے گا کیونکہ طلب علم ایک اسلامی فریضہ ہے۔ خصوصاً جبکہ آزادی میسر ہو اور سیکھنے کے مواقع موجود ہوں۔ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
ولم یشترط العلم بالخیار لأنھا تتفرغ لمعرفۃ أحکام الشرع والدار دار العلم فلم تعذر بالجھل بخلاف المتعقۃ لأن الامۃ لاتتفرغ لمعرفتھا فتعذر بالجھل۔
اختیار کے متعلق جاننا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ عورت خود کو احکام شریعت کو جاننے کے لیے فارغ کرسکتی ہے (اور اسے مواقع بھی میسر ہیں) کیونکہ ’’دارالاسلام‘‘ ایک علمی شہر ہوا کرتا ہے ، اس لیے جہالت کی وجہ سے معذور قرار نہ دیں گے، برخلاف آزاد کردہ باندی کے کہ (اسے اگر علم نہ ہو کہ آقا کے حکم سے غلامی میں کئے ہوئے نکاح کے متعلق آزادی کے بعد اختیار ملتاہے اور لاعلمی کی وجہ سے وہ اس حق کو استعمال نہ کرسکے تو وہ معذور سمجھی جائے گی اور علم ہونے تک اس کا اختیار باقی رہے گا) کیونکہ وہ اس طرح کے مسائل کو سیکھنے کے لیے خود کو فارغ نہیں کرسکتی ہے۔ لہٰذا جہالت کی وجہ سے معذور سمجھی جائے گی۔(الہدایہ مع الفتح 177/3-178)
صاحب ہدایہ کی اس وضاحت سے معلوم ہوتاہے کہ اگر آزاد عورت کے لیے بھی حصول علم کی راہیں بند ہوں ، تعلیم کے مواقع میسر نہ ہوں تو اس کے لیے بھی لاعلمی ایک عذر ہوگی اور جب تک کہ اسے اس کے متعلق معلوم نہ ہوجائے خیار باقی رہے گا۔ آزاد عورت کے لیے جہالت عذر نہیں ہے ، یہ امام ابوحنیفہ اور ابویوسف کی رائے ہے ۔ لیکن امام محمد کے نزدیک آزاد عورت کے لیے بھی جہالت عذر ہے اور علم ہونے تک اس کا اختیار برقرار رہے گا۔ (ان خیارھا یمتد الی ان تعلم ان لھا الخیار رد المحتار 189/4) موجودہ حالات کے پس منظر میں جبکہ دینی تعلیم عام نہیں ہے ، خصوصاً جن طبقوں میں بچپنے کی شادی کا رواج ہے وہ عام طور سے ناخواندہ غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، بچوں کو شروع ہی سے معاش کی ڈور سے باندھ دیاجاتاہے۔ ضرورت ہے کہ امام محمد کے نقطہ نظر کو اختیار کیاجائے۔
ولایت استحباب:
جس طرح سے ایک عاقل و بالغ مرد کے لیے یہ درست ہے کہ سرپرست کی مرضی کے بغیر بھی وہ محفل نکاح میں حاضر رہ کر رشتہ کو قبول کرے، اسی طرح سے ایک باشعور اور بالغہ عورت کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ سرپرست کی اجازت کے بغیر خود محفل نکاح میں حاضر ہوکر نکاح کو قبول کرے۔ مرد کی طرح عورت کے لیے بھی عقد نکاح کے لیے نہ تو سرپرست کی اجازت ضروری ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو واسطہ اور وکیل بنانے کی حاجت ہے۔ جلیل القدر تابعی محمدبن سیرین، امام زہری، شعبی اور قتادہ کا یہی نقطہ نظر ہے(احکام القرآن للجصاص 474/1، بدایۃ المجتہد 8/2) اور امام ابوحنیفہ، ابویوسف ، محمد کا یہی مسلک ہے۔ ظاہر روایت یہ ہے کہ عورت نے سرپرست کی اجازت و مرضی کے بغیر کفو میں نکاح کیا ہو یا غیرکفو میں بہرصورت درست ہے ، البتہ کفو نہ ہونے کی صورت میں سرپرست کو نکاح فسخ کردینے کا اختیار ہے ، لیکن امام ابوحنیفہ سے منقول دوسری روایت-جس کے راوی حسن بن زیاد ہیں- میں ہے کہ غیرکفو میں سرپرست کی مرضی کے بغیر کیا ہوا نکاح باطل ہے ، بعد کے حنفی فقہاء اسی کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں کیونکہ غیرکفو میں کیے ہوئے نکاح کو فسخ کرنے کے لیے قاضی کی ضرورت ہے اور ہر قاضی سے انصاف کی امید فضول ہے ، نیز سب میں مقدمہ بازی کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے اور بہت سے لوگ شرم و حیا اور بات پھیلنے کی ڈر سے معاملہ کو آگے بڑھانے سے گریز کرتے ہیں لہٰذا نکاح کو صحیح قرار دینے کی صورت میں سرپرست کے حق کو باطل قرار دینا ہوگا، اس لیے موجودہ حالت کے پیش نظر اس کے حق کی حفاظت کے لیے سرے سے نکاح ہی کو جائز قرار نہیں دیاجائے گا، امام ابویوسف سے بھی ایک روایت یہی ہے اور ان سے منقول تیسرا قول یہ ہے کہ سرپرست کے بغیر کفو اور غیرکفو دونوں میں کیا ہوا نکاح باطل ہے، لیکن ان اقوال سے ان کا رجوع کرنا ثابت ہے، جیساکہ امام سرخسی کا بیان اور صاحب ہدایہ کا رجحان ہے ۔ (دیکھئے المبسوط 10/5، فتح القدیر 157/3، تبیین الحقائق 117/2)
حضرت عمرؓ، علیؓ، ابن مسعودؓ، عائشہؓ ، ابوہریرہؓ اور ابن عباسؓ کا خیال ہے کہ عورت کے نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت ضروری ہے نیز سرپرست یا اس کا نائب محفل نکاح میں موجود رہ کر رشتہ کو منظور کرے۔ سرپرست کی اجازت کے باوجود بھی عورت خود جاکر منظور نہیں کرسکتی ہے اور نہ ہی قبولیت نکاح کے لیے کسی دوسری عورت کو وکیل بناسکتی ہے۔ مشہور تابعی حضرت سعید بن المسیب ، حسن بصری، عمربن عبدالعزیز اور سفیان ثوری ، وابن المبارک اسی کے قائل ہیں اور امام شافعی و احمدبن حنبل کا یہی مذہب ہے۔ شریف عورتوں کے سلسلہ میں امام مالک کابھی یہی خیال ہے ۔ البتہ غیرشریف عورتوں کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ سرپرست کے بغیر بھی اپنا نکاح کرسکتی ہیں۔(المغنی 449/6، بدایۃ المجتہد 8/2، نیل الاوطار 119/6، سبل السلام 117/3)
امام داؤد ظاہری کا خیال ہے کہ سرپرست کی اجازت بن بیاہی عورتوں کے لیے ضروری ہے اور شوہردیدہ عورتیں سرپرست کے بغیر خود اپنا نکاح کرسکتی ہیں۔(نیل الاوطار 119/6، سبل السلام 117/3) قاسم بن محمد ، حسن صالح، اوزاعی اور ابوثور کا خیال ہے کہ صرف ولی کی اجازت شرط ہے ، اس لیے سرپرست کی اجازت سے کوئی عورت اپنا نکاح خود قبول کرسکتی ہے اور اگر بے اجازت نکاح کرے تو سپرست کی اجازت پر موقوف ہوگا ، اجازت دے دے تو درست ہے ، ورنہ باطل۔ امام محمد کا بھی ایک قول یہی ہے ۔ (دیکھئے فتح القدیر 157/3، المغنی 449/6، فتح الباری 49/9)
جمہور کے دلائل:
1- واذا طلقتم النساء فبلغن أجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن۔
جب تم عورتوں کو طلاق دیدو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو انھیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔(سورۃ البقرۃ :232)
امام شافعی کہتے ہیں کہ نکاح میں سرپرست کی اجازت ضروری ہونے سے
متعلق یہ آیت واضح اور صریح دلیل ہے۔ کیونکہ اس میں سرپرستوں کو منع کیا گیا ہے کہ وہ عورتوں کو شادی کرنے سے نہ روکیں۔ روکنے کی ممانعت دلیل ہے کہ نکاح کرنے کا حق انھیں کو حاصل ہے کیونکہ اگر حق نہ ہوتا تو پھر منع کرنے کا کوئی مطلب نہیں۔ اس لیے کہ کسی ایسے شخص سے جسے عورت کے رشتہ کے سلسلہ میں کوئی حق نہیں ہے کیسے کہاجاسکتا ہے کہ اسے نکاح کرنے سے نہ روکو۔ (سبل السلام 120/3)
آیت کے شان نزول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جیساکہ امام بخاری وغیرہ نے روایت کی ہے مذکورہ آیت حضرت معقل بن یسار کے متعلق نازل ہوئی ۔ وہ خود ہی بیان کر تے ہیں کہ میں نے اپنی بہن کی شادی ایک شخص سے کردی، لیکن کچھ دن گذار کر اس نے طلاق دے دی۔ (بعض روایتوں میں صراحت ہے کہ طلاق رجعی دی تھی) عدت کے بعد اس شخص نے دوبارہ نکاح کے لیے پیغام دیا، میں نے کہا اپنی بہن کو میں نے تمہارے نکاح اور ماتحتی میں دیا، تمہارا اعزاز و اکرام کیااور اس کا صلہ تم نے طلاق کی شکل میں دیا اور اب دوبارہ پیغام لے کر آئے ہو، خدا کی قسم اب وہ عورت کبھی بھی تمہارے پاس نہیں جاسکتی ہے حالانکہ اس شخص میں کوئی کمی نہ تھی اور خود میری بہن تجدید نکاح کے لیے آمادہ تھی تو اللہ نے اس پر یہ آیت نازل فرمائی ’’فلاتعضلوھن الخ‘‘ میں نے کہا اللہ کے رسول! میں اس رشتہ کے لیے تیار ہوں اور ان سے اپنی بہن کا نکاح کردیا۔(صحیح بخاری مع الفتح 89/9)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ اگر عورت کے لیے بذات خود نکاح کرنا درست ہوتا تو ان کے بھائی سے نہ کہا جاتا کہ اپنی بہن کو شادی سے مت روکو بلکہ حکم نازل ہوتا کہ انھیں روکنے کا کوئی حق نہیں اور یہ کہ عورت خود اپنا نکاح کرسکتی ہے ، اسے سرپرست کے روکنے کی پرواہ نہ کرنا چاہیے ۔ نیز آیت کے نزول کے بعد اللہ کے رسول ﷺ حکم دیتے ہیں کہ وہ خود ہی اپنے رشتہ نکاح کو منظور کرلیں ۔ان کے بھائی کی موجودگی اور اجازت شرط نہیں ہے ۔ اس سے ایک طرح سے حکم شریعت کی وضاحت بھی ہوجاتی نیز ان کے بھائی کو قسم توڑکر کفارہ دینے کی ضرورت نہ پڑتی۔ حالانکہ اس طرح کا کوئی حکم روایتوں میں مذکور نہیں ہے بلکہ اس کے برخلاف منقول ہے کہ ان سے کہا گیا کہ جاؤ اپنی بہن کا نکاح ان کے سابق شوہر سے کردو اور اس کی وجہ سے انھیں قسم توڑنے کی بناپر کفارہ دینا پڑا۔(فتح الباری 94/9، سبل السلام 120/3)
2- ولاتنکحوا المشرکین حتی یومنوا۔
اور مشرکوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔(سورۃ البقرہ :221)
3- وانکحوا الأیامیٰ منکم۔
اور تم میں جو بے نکاح ہیں ان کا نکاح کردو۔(سورۃ النور :32)
4- فانکحوھن باذن أھلھن۔
باندیوں سے ان کے مالک کی اجازت سے نکاح کرو۔(سورۃ النساء:25)
ان آیتوں میں نکاح کرنے یا نہ کرنے کا مخاطب مردوں کو بنایا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ذمہ داری مردوں کے سپرد ہے ، عورتوں کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے کیونکہ انھیں خود نکاح کرلینے کا حق ہوتا تو پھر مردوں کو مخاطب بنانے کی ضرورت نہ تھی بلکہ انھیں کو خطاب کیاجاتا۔(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 72/3-73,239/12)
5- عن عائشۃ ان النبی ﷺ قال أیما امرأۃ نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل، فان دخل بھا فلھا المھر بما استحل من فرجھا فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ۔ (رواہ احمدوالترمذی و أبوداؤدوالدارمی ،مشکوۃ238/2، وحسنہ الترمذی وصححہ ابن عوانۃ وابن حبان والحاکم ، وقال ابن کثیر صححہ یحییٰ بن معین وغیرہ من الحفاظ ۔ بلوغ المرام مع السبل 118/3)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاکہ جو عورت سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے ، لیکن اگر شوہر کے ساتھ خلوت ہوجائے تو صحبت کی وجہ سے عورت کے لیے مہر ہے اور اگر متعدد سرپرستوں میں عورت کے نکاح کے مسئلہ میں اختلاف و نزاع ہوجائے (تو ان کی سرپرستی ختم ہوجائے گی) اور جب کوئی سرپرست نہ رہے تو سلطان سرپرست بن جاتاہے۔
یہ روایت اپنے موضوع پر بالکل صریح ہے کہ جو عورت بھی سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے وہ باطل اور نادرست ہے۔ اور حدیث صحیح بھی ہے چنانچہ محدث ابوعوانہ ، ابن حبان اور حاکم وغیرہ نے اسے صحیح قرار دیاہے اور امام ترمذی نے کہا کہ حدیث حسن ہے ۔ رہا ابن جریج کا یہ کہنا کہ میں نے راوی حدیث امام زہری سے ملاقات کرکے دریافت کیاکہ آپ نے یہ حدیث روایت کی ہے؟ تو انھوں نے کہاکہ مجھے اس حدیث کے متعلق علم نہیں(’’فلم یعرفہ‘‘)تواس کا جواب یہ ہے کہ اس واقعہ کو ابن جریج سے نقل کرنے والے اسماعیل بن ابراہیم ہیں اور ان کا ابن جریج سے سماع مشکوک ہے۔ اسی لیے یحییٰ بن معین ، ابن حبان اور ابن عبدالبر نے اس واقعہ کی صحت پر کلام کیا ہے اور
امام احمد بن حنبل کہا کرتے تھے کہ ابن جریج کی مرویات کتاب کی صورت میں موجود ہیں لیکن اس میں اس واقعہ کاتذکرہ نہیں ہے اور اگر اسے صحیح بھی مان لیاجائے تو اس کی وجہ سے حدیث کو غلط نہیں قرار دیا جاسکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ امام زہری روایت کرنے کے بعد بھول گئے ہوں کہ بھولنا انسانی فطرت ہے ، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت کو امام زہری سے نقل کرنے والے صرف سلیمان بن موسیٰ نہیں ہیں بلکہ قرۃ، موسیٰ بن عقبہ، محمدبن اسحاق، ایوب بن موسیٰ، ہشام بن سعد وغیرہ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ لہٰذا اتنے لوگوں کو غلط قرار دینے سے بہترہے کہ کہاجائے کہ امام زہری کو بھول ہوئی ہے۔ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے یہ مذکورہ روایت سن کر دوسروں کے سامنے اس کا تذکرہ کیا اور پھر ایک زمانہ گذرنے کے بعد انھیں یاد نہ رہا۔(دیکھئے سنن ترمذی 130/1، نصب الرایہ 185، نیل الاوطار 119/6، ارواء الغلیل 244/6-245)
6- عن ابی موسیٰ اشعری قال رسول اللہ ﷺ لا نکاح الا بولی۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ سرپرست کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے۔
امام احمدبن حنبل،ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ اور محدث دارمی وغیرہ نے اس حدیث کی روایت کی ہے (المشکوٰۃ 938/2) اور حافظ ابن حجر عسقلانی کے بقول محدث ابن مدینی ، ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیاہے۔(بلوغ المرام مع السبل 117/3) لیکن بعض دوسرے حضرات نے اضطراب سند کی وجہ سے حدیث پر کلام کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ مذکورہ حدیث چار مختلف سندوں سے منقول ہے۔
(الف) امام سفیان ثوری اورشعبہ اس حدیث کو ابواسحاق سے اور وہ ابوبردہ سے اور وہ اللہ کے رسولﷺ سے نقل کرتے ہیں، اس سند سے حدیث مرسل ہے کیونکہ ابوبردہ تابعی کسی صحابی کے واسطے کے بغیر حدیث نقل کررہے ہیں۔
(ب) امام سفیان ثوری نقل کرتے ہیں ابواسحاق سے اور وہ ابوبردہ سے اور وہ حضرت ابوموسیٰ اشعری سے اور وہ آنحضور ﷺ سے۔
(ج) یونس کبھی اس حدیث کو نقل کرتے ہیں اپنے والد اسحاق سے اور وہ ابوبردہ سے اور وہ ابوموسیٰ اشعری سے اور کبھی اپنے والد ابواسحاق کے واسطے کے بغیر براہ راست ابوبردہ سے نقل کرتے ہیں اور وہ ابوموسیٰ اشعری سے۔
(د) اسرائیل، شریک بن عبداللہ، ابوعوانہ، زھیر بن معاویہ وغیرہ اسے نقل کرتے ہیں، ابواسحاق سے اور وہ ابوبردہ سے اور وہ ابوموسیٰ اشعری سے ۔ ان تینوں سندوں کے اعتبار سے حدیث متصل ہے۔
غرضیکہ حدیث کے مرسل اور متصل ہونے میں اختلاف ہے، اس لیے لائق دلیل نہیں ہے۔
امام ترمذی نے اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ سند میں کوئی اختلاف اور اضطراب نہیں ہے کیونکہ سفیان ثوری اور شعبہ کی سند سے حدیث کا ارسال ہی صحیح ہے ۔ اس سند سے جن لوگوں نے متصلاً نقل کیا ہے وہ غلطی پر ہیں۔ البتہ اسرائیل وغیرہ کا اتصال سفیان ثوری اور شعبہ کے ارسال سے قابل ترجیح ہے کیونکہ گرچہ شعبہ اور سفیان ثوری دیگر راویوں کی بہ نسبت زیادہ اچھی یادداشت رکھنے والے اور زیادہ قابل اعتماد ہیں (احفظ و اثبت) لیکن ان دونوں حضرات نے مذکورہ حدیث ایک ساتھ سنی ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ ابواسحاق سے سفیان ثوری دریافت کررہے تھے کہ کیا آپ نے یہ روایت ابوبردہ سے سنی ہے تو انھوں نے کہا: ہاں۔ اس کے برخلاف اسرائیل وغیرہ نے یہ روایت مختلف اوقات میں سنی ہے اور تمام راوی اپنی سند میں ابوموسیٰ اشعری کا تذکرہ کرتے ہیں جو حدیث کے متصل ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ متعدد راویوں کا مختلف اوقات میں سنی ہوئی حدیث میں کسی بات پر متفق ہونا دلیل ہے کہ انھوں نے اچھی طرح سے اسے محفوظ رکھاہے، نیز اسرائیل، ابواسحاق کے سلسلہ میں قابل اعتماد ہیں ، چنانچہ عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں کہ میں نے ابواسحاق کی مرویات سفیان ثوری سے سننے کی کوشش اس لیے نہیں کی کہ میں نے اسرائیل پر اعتماد کرلیا تھاکیونکہ وہ ابواسحاق کی روایت مکمل طریقے پر نقل کرتے ہیں۔ (مافاتنی من حدیث الثوری علی أبی اسحاق الذی فاتنی الا لما اتکلت بہ علی اسرائیل لأنہ یاتی بہ أتم۔سنن ترمذی 130/1)
اور یونس کے سند میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے یہ روایت دونوں طرح سے سنی ہے ، اس لیے وہ کبھی ایک طریق سے روایت کرتے ہیں اور کبھی دوسرے طریق سے ۔ لہٰذا یہ اختلاف بھی مضر نہیں ہے ۔ چنانچہ امام حاکم کہتے ہیں:
لست أعلم بین ائمۃ العلم خلافاً علی عدالۃ یونس بن ابی اسحاق و ان سماعہ من ابی بردۃ مع أبیہ صحیح ثم لم یختلف علی یونس فی وصل ھذا الحدیث۔ (المستدرک 171/2-172)
لہٰذاصحیح یہی ہے کہ اس اعتبار سے حدیث پر کلام نہیں کیاجاسکتاہے کیونکہ جن لوگوں نے متصلاً نقل کیا ہے وہ ثقہ اور قابل اعتماد ہیں، اس لیے ان کا اضافہ لائق قبول ہے۔ البتہ امام ترمذی نے جو وجہ ترجیح بیان کیا ہے ، اس پر کلام کی گنجائش ہے کیونکہ امام شعبہ اور ثوری کے ایک ہی محفل میں حدیث سننے کی دلیل واضح نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کا امکان ہے کہ انھوں نے حدیث تو مختلف مجلس میں سنی ہو اور کسی دوسرے موقع پر جبکہ شعبہ بھی موجود رہے ہوں ثوری نے ابواسحاق سے حدیث کے براہ راست سماع کے متعلق دریافت کیا ہو۔ دوسرے یہ کہ ابواسحاق اختلاط کا شکار ہوگئے تھے اور یہ معلوم نہیں کہ انھوں نے مذکورہ روایت متصلاً اختلاط سے پہلے روایت کی ہے یا بعد میں ۔ اس لیے اس حیثیت سے روایت مخدوش ہوجاتی ہے ، لیکن چونکہ یہ روایت ان کے لڑکے سے بھی متصلاً ثابت ہے جیساکہ محدث حاکم کا بیان گذر چکا ہے ، نیز ’’ابوحصین‘‘ کی سند سے بھی متصلاً منقول ہے گرچہ اس میں کچھ ضعف ہے، اس لیے حدیث قابل استدلال ہے۔(الارواء 238/6)
مذکورہ حدیث حضرت جابر اور حضرت ابوہریرہ سے بھی متعدد سندوں سے منقول ہے لیکن ہر سند پر کلام کیا گیا ہے ، ایسے ہی حضرت عکرمہ اسے حضرت عبداللہ بن عباس سے اور وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں، لیکن اس کے ایک راوی حجاج بن ارطاۃ پر کلام کیاگیا ہے نیز حضرت عکرمہ سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے ۔ البتہ حضرت عبداللہ بن عباس کے قول کی حیثیت سے صحیح سند سے منقول ہے ۔
اس طرح کی روایات بعض دوسرے صحابہ کرام سے بھی منقول ہیں لیکن ان تمام کی سندیں ضعیف ہیں۔(دیکھئے نصب الرایۃ 111/3، الارواء 240/6-246)
7- عن أبی ھریرۃ قال رسول اللہ ﷺ لا تزوج المرءۃ المرءۃ ولا تزوج المرءۃ نفسھا فان الزانیۃ ھی التی تزوج نفسھا۔
حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ عورت خود ہی نکاح کرے، کیونکہ بدکار وہی عورت ہے جو خود ہی نکاح کرلیتی ہے۔
محدث ابن ماجہ، دارقطنی اور بیہقی نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے بلوغ المرام میں لکھا ہے کہ اس کے راوی قابل اعتماد ہیں۔ (’’رجالہ ثقات‘‘بلوغ المرام مع السبل 120/3) بعض لوگوں نے حدیث کے راوی جمیل بن حسن عتکی اور محمدبن مروان عقیلی کی وجہ سے حدیث کو ضعیف قرار دیاہے ، کیونکہ ان دونوں راویوں پر کلام کیاگیا ہے۔(دیکھئے التہذیب 113/2، 435/9)
عبدالرحمن بن محمد مذکورہ حدیث نقل کرتے ہیں، عبدالسلام بن حرب سے اور وہ ہشام بن حسان سے اور وہ محمدبن سیرین سے اور وہ ابوہریرہ سے اور وہ اللہ کے رسول ﷺ سے جس کے الفاظ یہ ہیں:
لاتزوج المرءۃ المرءۃ ولا تزوج المرءۃ نفسھا قال أبوھریرۃ کنا نعد التی تنکح نفسھا ھی الزانیۃ۔
کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ ہی کوئی عورت خود نکاح کرے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ جو عورت خود ہی نکاح کرے ہم اسے بدکار سمجھتے تھے۔
اس روایت کے اعتبار سے آخر کا جملہ حضرت ابوہریرہؓ کا قول ہے ، آنحضور ﷺ کا ارشاد نہیں ہے۔ چونکہ اس سند کے تمام راوی قابل اعتماد ہیں ، اس لیے محدثین کا عام رجحان یہی ہے کہ آخری جملہ حدیث نہیں بلکہ ابوہریرہ کا اپنا قول ہے لیکن امام اوزاعی نے ابن سیرین کے حوالے سے پوری روایت حضرت ابوہریرہ ؓ کے قول کی حیثیت سے نقل کیا ہے۔(الارواء 249/6) اور علامہ ابن کثیر نے لکھاہے کہ صحیح یہی ہے۔( الصحیح وقفہ علی أبی ھریرۃ.نیل الاوطار 119/6) لیکن امام بیہقی نے لکھاہے کہ عبدالسلام بن حرب نے آنحضورﷺ کے ارشاد اور حضرت ابوہریرہ کے قول کو الگ الگ کرکے بیان کیاہے جو اس کے لیے دلیل ہے کہ انھوں نے اچھی طرح سے یاد رکھاہے لہٰذا یہی قابل ترجیح ہے۔(الارواء 249/6)
مذکورہ روایت مختلف سندوں سے حضرت ابوہریرہؓ کے علاوہ متعدد صحابہ کرام سے بھی منقول ہے لیکن ان تمام کی سندیں بالکل لغو اور کمزور ہیں۔(نصب الرایۃ 188/3، الدرایۃ علی ھامش الھدایۃ 317/2)
8- عن عکرمۃ بن خالد…فجعلت امرءۃ منھن ثیبا امرھا بید رجل غیر ولی فانکحھا فبلغ ذالک عمر فجلد الناکح والمنکح ورد نکاحھا۔
عکرمۃ بن خالد سے روایت ہے کہ …ایک شوہر دیدہ عورت نے اپنے نکاح کے لیے سرپرست کے سوا کسی دوسرے آدمی کو ذمہ دار بنادیا اور اس نے اس کا نکاح کردیا۔ حضرت عمر کو جب اس بات کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے نکاح کرنے والے اور نکاح پڑھانے والے کو درے لگوائے اور اس رشتہ کو ختم کردیا۔
امام شافعی، دارقطنی، ابن ابی ثیبہ وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے اور روایت کرنے والے قابل اعتماد ہیں لیکن سلسلہ اسناد متصل نہیں ہے کیونکہ عکرمہ بن خالد کا سماع حضرت عمر سے ثابت نہیں ۔
9- عن عبدالرحمن بن معبد ان عمر رد نکاح امرء ۃ نکحت بغیر ولی۔
عبدالرحمن بن معبد سے روایت ہے کہ کسی عورت نے سرپرست کے بغیر نکاح کرلیا تھا تو حضرت عمر نے اسے ختم کردیا ۔
10- عن سعید بن المسیب عن عمر قال لاتنکح المرءۃ الا باذن أھلھا او ذی الرأی من أھلھا أو السلطان۔
حضرت سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر نےفرمایا کہ کوئی عورت اپنے گھر والے کی اجازت یا گھر کے باشعور لوگوں کی اجازت یا سلطان کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے۔
یہ دونوں روایتیں بھی قابل اعتماد ذرائع سے منقول ہیں لیکن سلسلہ اسناد متصل نہیں ہے کیونکہ حضرت عبدالرحمن اور سعید کا سماع حضرت عمر سے ثابت نہیں ہے۔(الارواء /249-250) –
11- قال ابن عباس لا نکاح الا بشاھدی عدل وولی مرشد۔
حضرت عبداللہ بن عباس نے کہاکہ نکاح تو دو عادل گواہوں اور معاملہ فہم سرپرست کی موجودگی ہی میں ہوتا ہے ۔
امام طبرانی وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے اور گذرچکاہے کہ ابن عباس کے قول کی حیثیت سے روایت صحیح ہے۔
12- عن علی قال لا نکاح الا بولی یاذن۔
حضرت علی کہتے ہیں کہ سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہے۔(مصنف عبدالرزاق 196/6)
13- عورت جذبات سے مغلوب، ظاہری چمک دمک پر ریجھ جانے والی اور ناتجربہ کار ہوتی ہے ، اس کے لیے معاملات کی گہرائی اور اس کے انجام تک پہنچنا مشکل ہے ، اس سے اس بات کی امید نہیں لگائی جاسکتی ہے کہ وہ جذبات کی تکمیل کے علاوہ نکاح کے مقاصد پر نظر رکھ سکے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کی عصمت و عفت کو آزمائش میں ڈالے بغیر ان کے رشتہ کی ڈور کو ایسے لوگوں کے حوالے کردیاجائے جو آزمودہ کار سردوگرم سے آگاہ، زمانہ شناس اور مزاج سے واقف ہوتے ہیں۔ جو جذباتی ابال کی وجہ سے رشتہ منظور نہیں کرتے بلکہ اپنی زندگی کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسا جیون ساتھی تلاش کرتے ہیں جو زندگی کی کٹھن راہوں میں اس کے قدم سے قدم ملاکر منزل کی طرف گامزن ہو۔
حنفیہ کے دلائل:
جو حضرات سرپرست کی اجازت اور مجلس عقد میں اس کی موجودگی واجب و ضروری کے بجائے محض مستحب اور بہتر قرار دیتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ باشعور اور بالغہ لڑکی سرپرست کی اجازت اور قبولیت نکاح کے لیے کسی کو واسطہ اور وکیل بنائے بغیر خود مجلس نکاح میں حاضر ہوکر نکاح سے رضامندی کا اظہار کرسکتی ہے ۔ ان کے دلائل یہ ہیں:
1- اذا طلقتم النساء فبلغن أجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوا بینھم بالمعروف۔
جب تم عورتوں کو طلاق دیدو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو انھیں اپنے انہی خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ وہ باہم دستور کے مطابق راضی ہوجائیں۔(سورۃ البقرہ :232)
سرپرست کے بغیر نکاح کو باطل کہنے والوں کی دلیل میں بھی یہ آیت سرفہرست ہے اور بقول امام شافعی اس سلسلہ کی سب سے واضح اور صریح دلیل ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور آیت سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ عقد نکاح سرپرست کے بغیر بھی ہوسکتا ہے کیونکہ آیت میں فعل نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے اور کہاگیا ہے کہ انھیں نکاح کرنے سے نہ روکو’’فلاتعضلوھن ان ینکحن‘‘ جو اس بات کے لیے واضح دلیل ہے کہ عورت خود ہی یہ فعل انجام دے سکتی ہے ، اس لیے کہ اصل یہی ہے کہ فعل کی نسبت اس کے فاعل کی طرف ہو۔
اور سرپرستوں کو دخل اندازی سے منع کرنے کا یہ مفہوم لینا کہ انھیں دخل اندازی کا حق ہے خلاف ظاہرہے، قرآن کے لب و لہجہ اور آیت کے شان نزول سے یہ معلوم نہیں ہوتاہے بلکہ یہ علم ہوتا ہے کہ سرپرست قدیم رواج کے تحت عورتوں کو اپنا محکوم سمجھتے تھے اور ان کی مرضی کے بغیر جو جی میں آیا کرگذرتے۔ چنانچہ حضرت معقل کے واقعہ میں مذکور ہے کہ ان کی بہن دوبارہ نکاح پر رضامند تھیں اس کے باوجود انھوں نے قسم کھاکر کہاکہ یہ نکاح نہیں ہونے دوں گا۔ ’’واللہ لا تعود الیک ابدا ‘‘ قرآن حکیم نے اس پر تنبیہ کی اور حق جل مجدہ کا حکم آیاکہ تمہیں روکنے کا حق نہیں ہے اور تمہارا یہ خیال کہ سرپرست ماتحت عورت کا مالک ہے ، غلط اور نادرست ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ایک دوسرے موقع پر کہا گیا ہے:
یا ایھا الذین آمنوا لاترثوا النساء کرھا ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما آتیتموھن۔
ایمان والو! تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ عورتوں کو زبردستی میراث میں لے لو اور انھیں اس غرض سے (اپنی مرضی کا) نکاح کرنے سے نہ روکو کہ تم نے جو مال انھیں (بطور مہر یا تمہارے کسی رشتہ دار نے بطور تحفہ) دیاہے اسے واپس لے لو۔(سورۃ النساء:19)
کیا اس آیت کی وجہ سے یہ کہنا درست ہوگاکہ سرپرست وغیرہ کو عورت کو بطور میراث لے لینے اور دئے ہوئے مال کو واپس لینے کے مقصد سے روکے رکھنے کا حق حاصل ہے ۔ بہ اتفاق آیت سے یہ مفہوم مراد لینے کی گنجائش نہیں ہے اور جب اس آیت میں یہ مراد نہیں لیا جاسکتا ہے تو اسی طرح سے پہلی آیت میں بھی یہ مراد لینا درست نہیں ہے ، کیونکہ انداز بیان دونوں کا بالکل یکساں ہے ۔ دوسرے یہ کہ عقد نکاح کے لیے
سرپرست کا وجود ضروری ہوتا اور اس کا عمل دخل ہوتا تو ایسے موقع پر یہ تعبیر اختیار کی جاتی کہ ’’فلاتمتنعوا من انکاحھن‘‘اگر عورت کسی سے نکاح پر راضی ہو تو اس کا نکاح کردو اور نکاح کرنے سے روکو مت۔(دیکھئے فتح الملھم 465/3)
2- فاذا بلغن أجلھن فلا جناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن بالمعروف۔
(شوہر کی وفات کے بعد) جب عورتوں کی عدت پوری ہوجائے تو وہ اپنی ذات کے متعلق قاعدے کے موافق جو کریں اس سلسلہ میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔(سورۃ البقرہ :234)
اس آیت سے بھی بہ صراحت معلوم ہورہاہے کہ عدت کے بعد دوسری شادی کرنے میں عورت آزاد اور خودمختار ہے۔ چنانچہ فعل کی نسبت ان کی طرف کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ وہ اپنی ذات سے متعلق جو کچھ بھی کریں اس سلسلہ میں تم پر کوئی داروگیر نہیں ہے ۔ یہ الفاظ بالکل عام ہیں اور شوہر کے انتخاب اور کسی واسطہ کے بغیر رشتہ نکاح قبول کرلینے کو شامل ہے۔(احکام القرآن للجصاص 474/1)
3- فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا ان ظنا ان یقیما حدود اللہ۔
تو اگر کوئی عورت کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ دوسرے کسی مرد سے نکاح نہ کرلے پھر اگر دوسرا شوہر بھی طلاق دیدے تو ان دونوں پر اب کوئی گناہ نہیں ہے کہ نکاح کرکے ایک ساتھ رہیں، اگر انھیں اعتماد ہو کہ آئندہ خداوندی ضابطوں کو قائم رکھیں گے۔(سورۃ البقرہ :230)
اس آیت میں بھی نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے ، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ فعل نکاح میں عورت خود مختار ہے ۔ اس میں سرپرست کاکوئی عمل دخل نہیں ہے۔
4- عن ابن عباس ان النبی ﷺ قال الایم أحق بنفسھا من ولیھا والبکر تستاذن فی نفسھا واذنھا صماتھا۔
حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ’’بے شوہر عورت‘‘ اپنی ذات کے سلسلہ میں سرپرست سے زیادہ حق رکھتی ہے اور کنواری لڑکی سے نکاح کے لیے اجازت لی جائے اور اس کی خاموشی ہی اجازت ہے۔(صحیح مسلم 455/1)
حدیث میں وارد لفظ ’الایم‘‘ بے شوہر عورت کے معنیٰ میں ہے جو کنواری اور شوہر دیدہ کو شامل ہے، یعنی کسی عورت کی شادی ہوچکی ہو مگر طلاق یا شوہر کی وفات کی وجہ سے فی الحال بے شوہر ہو یا شادی ہوئی نہ ہو بلکہ ابھی کنواری ہو دونوں کو ’الایم‘ کہاجائے گا۔(شرح السنہ 38/9، فتح القدیر 159/3)اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بن بیاہی اور شوہردیدہ دونوں نکاح کے مسئلہ میں سرپرست سے زیادہ حق رکھتی ہیں۔ لہٰذا وہ خود ہی اپنا نکاح کرسکتی ہیں اور اگر سرپرست کے ذریعہ نکاح ہو تو پھر اس کے لیے ان کی مرضی معلوم کرنا ضروری ہے اور اس سلسلہ میں کنواری اور شوہر دیدہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ البتہ طریقۂ اجازت میں فرق ہے کہ شوہر دیدہ عورت سے صراحتاً مرضی معلوم کرنا ضروری ہے اور اس کے برخلاف کنواری لڑکی کی خاموشی بھی اجازت سمجھی جائے گی۔ اسی فرق کو بتلانے کے لیے علاحدہ سے کنواری لڑکی کا تذکرہ کیاگیاہے۔(دیکھئے اعلاء السنن /11)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو سرپرست کی اجازت کو ضروری قرار دیتے ہیں کیونکہ حدیث میں کہاگیاہے کہ عورت نکاح کے مسئلہ میں سرپرست سے زیادہ حق رکھتی ہے، اس کا مطلب یہ ہواکہ سرپرست بھی عورت کے نکاح کے سلسلہ میں کچھ حق رکھتا ہے، گرچہ عورت کا حق زیادہ ہے اور سرپرست کا اس کی بہ نسبت کچھ کم اور وہ اس طور پر کہ سرپرست کے لیے عورت کی مرضی معلوم کرنا ضروری ہے اور اس کی رضامندی کے بغیر وہ نکاح نہیں کرسکتاہے۔ گویا کہ سرپرست کا حق عورت کے حق پر موقوف ہوا یعنی وہ اپنے حق کو اسی وقت استعمال کرسکتا ہے جبکہ عورت اپنا حق اس کے حوال کردے۔ لہٰذا عورت کا حق زیادہ ہوا اور سرپرست کا اس سے کم۔ بہرکیف سرپرست کا بھی کچھ حق ہے ، حدیث میں یہی بیان کیاگیاہے۔(سبل السلام 121/3)
امام جصاص رازی اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ایک حدیث میں یہ مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہ طلاق یا شوہر کی وفات کے بعد نابالغ بچے کی پرورش کا حقدار کون ہوگا؟ بچے کی ماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاگیاہے انت أحق بہ مالم تنکحی(تم اس بچے پر زیادہ حق رکھتی ہو جب تک کہ دوسری شادی نہ کرلو۔)(رواہ احمد وابوداؤد وصححہ الحاکم ، بلوغ المرام مع السبل227/3)کیا اس روایت کی وجہ سے کہاجاسکتاہے کہ حق پرورش ماں اور باپ دونوں کو حاصل ہے ، البتہ ماں کا زیادہ ہے اور باپ کا اس سے کچھ کم۔ ایسے ہی قرآن میں متعدد جگہوں پر کہاگیاہے کہ اللہ أحسن الخالقین (اللہ سب سے اچھا خالق ہے )کیا اس طرح کے الفاظ کی بنیاد پر کہنا درست ہوگا کہ اللہ کے سوا اور بھی خالق ہیں، البتہ اللہ ان میں سب سے اچھا خالق ہے؟ ظاہرہے کہ کوئی بھی اس کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتاہے، بلکہ کہاجائے گا کہ اس طرح کی تعبیر محض تاکید اور بات میں وزن پیدا کرنے کے اختیار کی جاتی ہے ۔ ہم کہیں گے کہ یہی بات مذکورہ حدیث میں بھی ہے ۔(احکام القرآن 475/1)
اور اگر تسلیم کرلیاجائے کہ عورت کے نکاح کے معاملہ میں سرپرست بھی کچھ حق رکھتاہے تو وہ حق یہ ہے کہ عورت راضی ہوجائے تو وہ جاکر رشتہ منظور کرلے، اس کے علاوہ بالاتفاق کوئی اور حق سرپرست کو حاصل نہیں ہے ، یہاں تک کہ عورت نے کسی رشتہ کا انتخاب کرلیاہے اور کفاءت و مناسبت موجود ہے مگر سرپرست کسی وجہ سے آمادہ نہیں ہے تو پھر عورت عدالت کے ذریعہ نکاح کرسکتی ہے ، نیز سرپرست کے انتخاب پر عورت آمادہ نہیں ہے تو سرپرست اسے نکاح پر مجبور نہیں کرسکتاہے، اس سے اندازہ ہوتاہے کہ سرپرست کا حق محض اتنا ہے کہ عورت کے انتخاب کردہ رشتہ کو جاکر منظور کرلے اور اسی سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ عورت سرپرست سے زیادہ حق رکھتی ہے اور جب وہ رشتہ نکاح منظور کرلینے میں سرپرست سے زیادہ حق رکھتی ہے تو پھر اس کا منظور کردہ رشتہ نکاح کیونکر درست نہ ہوگا۔ چنانچہ علامہ ابن ہمام کہتے ہیں:
انہ اثبت لکل منھا ومن الولی حق فی ضمن قولہ احق و معلوم أنہ لیس للولی سوی مباشرۃ العقد اذا رضیت وقد جعلھا أحق منہ بہ (فتح القدیر 140/3)
5- عن أم سلمۃ قلت ولدت سبیعۃ الاسلمیۃ بعد وفاۃ زوجھا بنصف شھر فخطبھا رجلان أحدھما شاب والآخر کھل فحطت الی الشاب فقال الکھل لم تحلی بعد وکان أھلھا غیبا ورجأ اذا جاء أھلھا ان یوثروہ بھا جاءت الی رسول اللہ فذکرت لہ ذالک فقال قد حللت فانکحی من شئت۔
حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ سبیعہ نامی عورت کو شوہر کی وفات کے پندرہ دن بعد بچہ پیدا ہوا (واضح رہے کہ حاملہ عورت کی عدت وفات بچے کی پیدائش ہے ، وفات کے بعد بچہ جب بھی پیدا ہوجائے اس کی عدت ختم ہوجائے گی) تو دو آدمیوں نے اسے نکاح کا پیغام دیا، ایک جوان تھا اور دوسرا ادھیڑ۔ اس عورت نے نوجوان کے پیغام کو منظور کرلیا ، یہ دیکھ کر ادھیڑ نے کہاکہ تمہارے لیے ابھی نکاح کرنا حلال نہیں ہوا ہے۔ یہ اس نے اس لیے کہا کہ عورت کے گھر والے موجود نہیں تھے اور اسے امید تھی کہ جب گھر والے آجائیں گے تو وہ جوان کے بجائے اسے ترجیح دیں گے۔ یہ سن کر وہ عورت اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئی اور صورتحال بتلائی تو آنحضور ﷺ نے کہاکہ تمہارے لیے نکاح کرنا حلال ہوچکا ہے ، لہٰذا تم جس سے چاہو نکاح کرلو۔(موطا امام مالک /589، کتاب الطلاق ، عدۃ متوفی عنھا زوجھا، سنن نسائی 114/2)
اس روایت میں صراحت ہے کہ عورت کے سرپرست موجود نہیں ہیں مگراس کے باوجود اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ تم جس سے چاہو نکاح کرسکتی ہو۔
6- امام مالک اور امام بخاری وغیرہ نے روایت کی ہے کہ ایک عورت نے اللہ کے رسول ﷺ سے نکاح کی خواہش کی لیکن آنحضور ﷺ نے بے رغبتی ظاہر فرمائی اور موقع پر موجود ایک صحابی کی درخواست پر اس عورت کا نکاح ان سے کردیا۔(موطا امام مالک /526، صحیح بخاری 761/2، باب تزویج المعسر)
اس روایت میں کوئی وضاحت نہیں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عورت سے پوچھا ہوکہ تمہارا کوئی سرپرست ہے یا نہیں؟ حالانکہ نکاح کے لیے سرپرست کا وجود اور اجازت کی ضرورت ہوتی تو اللہ کے رسول ﷺ اس کے متعلق ضرور سوال کرتے۔ رہا یہ خیال کہ آنحضور کو اپنی تمام امت پر ولایت حاصل ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم۔
نبی مومنین کے ساتھ ان کی ذات سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔(سورۃ الاحزاب /6) ۔ لہٰذا اس عورت کا نکاح آپ ﷺ کی زیر سرپرستی ہوا۔ تو اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ آیت کا مفہوم صرف یہ ہے کہ نبی کے حکم کی اطاعت اور بجاآوری ہر مومن پر واجب اور لازم ہے یہاں تک کہ جان قربان کردینے کا بھی حکم نبی کی طرف سے آجائے تو اس کی تعمیل ضروری ہے۔ رہا یہ کہ کیا نبی ﷺ کو کسی مومن کے جان و مال میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کا حق حاصل ہے ؟ تو آیت میں اس مفہوم کی گنجائش نہیں ہے (دیکھئے فتح الملھم 467/3-468) اور نہ ہی کسی دوسری آیت یا حدیث سے یہ ثابت ہے۔ لہٰذا نبی ﷺ کو اجازت کے بغیر کسی کے نکاح یا کسی کے مال میں تصرف کا حق حاصل نہیں ہے ۔ البتہ ایک عمومی سرپرستی حاصل ہے لیکن اس کے استعمال کا موقع اس وقت آتا ہے جبکہ کوئی قریبی رشتہ دار نہ ہو حالانکہ یہاں کوئی وضاحت نہیں کہ اس کا کوئی قریبی رشتہ دار موجود تھا یا نہیں اور اگر سرپرست کی اجازت ضروری ہوتی تو اللہ کے رسول ﷺ اس کے متعلق ضرور پوچھ گچھ کرتے اور سرپرست کی اجازت کے بغیر اس کے حق میں تصرف نہ کرتے۔
دوسرے یہ کہ اس سلسلہ کی بعض روایتوں میں ہے کہ اس عورت نے آپ ﷺ کو اپنے نکاح کا وکیل بنا دیا تھا اور اس کا وکیل بنانا اسی وقت صحیح ہوگا جبکہ وہ بذات خود نکاح کرسکتی ہو۔( فی بعض الفاظ الحدیث انھا فوضت امرھا الیہ وذالک توکیل۔سبل السلام 115/3)
7- عن أمّ سلمۃ قالت دخل علی رسول اللہ ﷺ بعد وفاۃ أبی سلمۃ فخطبنی الی نفسی فقلت یا رسول اللہ لیس أحد من أولیائی شاھد فقال أنہ لیس منھم شاھد ولا غائب یکرہ ذالک، قالت قم یا عمر فزوج النبی ﷺ فتزوجھا۔
حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ابوسلمہ کی وفات کے بعد ان کے پاس آئے اور انھیں نکاح کا پیغام دیا، میں نے کہا: یارسول اللہ! میرے سرپرستوں میں سے کوئی موجود نہیں ہے تو آنحضور ﷺ نے کہاکہ تمہارے سرپرستوں میں سے کوئی بھی اس رشتہ کو ناپسند نہیں کرے گا۔ انھوں نے کہا: عمر! اٹھو اور نبی ﷺ سے نکاح کردو ، پس عمر نے ان کا نکاح کردیا۔
امام طحاوی نے اس کی روایت کی ہے اور اس کے تمام راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں (دیکھئے العلل لابن ابی حاتم 405/1)، امام احمد اور نسائی نے بھی اس کی روایت کی ہے ۔ جس میں صراحت ہے کہ عمر سے مراد ام سلمہ کے لڑکے عمر ہیں، حضرت عمر فاروق مراد نہیں ہیں۔ (فتح الملھم 468/3)، لیکن ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ نکاح منظور کرنے والے ام سلمہ کے لڑکے سلمہ ہیں اور یہ روایت بھی اسنادی حیثیت سے درست ہے (السیرۃ لابن اسحاق /261)۔ ایسا لگتا ہے کہ مجلس نکاح میں اپنی ماں کی طرف سے بحیثیت وکیل سلمہ تھے اور نکاح پڑھانے والے حضرت عمر فاروق، کیونکہ جن روایتوں میں یہ مذکور ہے کہ عمر ام سلمہ کے لڑکے مراد ہیں وہ اسناد ی اعتبار سے کمزور ہیں۔
اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے براہ راست حضرت ام سلمہ کو نکاح کا پیغام دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ عورت خود بھی اپنا نکاح کرسکتی ہے نیز جب حضرت ام سلمہ نے کہاکہ میرا کوئی سرپرست موقع پر موجود نہیں ہے تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ تمہارا کوئی سرپرست اس رشتہ کو ناپسند نہیں کرے گا ۔ یہ نہیں فرمایا کہ میں خود ہی تمہارا سرپرست ہوں جو اس کے لیے دلیل ہے کہ یہ نکاح آنحضور ﷺ کی زیر سرپرستی نہیں ہوا، کیونکہ آپ ﷺ کو یہ سرپرستی اس وقت حاصل ہوتی ہے جبکہ نسبی سرپرست باحیات نہ ہوں۔
اللہ کے رسول ﷺ کے اس ارشاد کے بعد کہ تمہارے سرپرستوں میں سے کسی کو یہ رشتہ ناگوار نہیں ہوگا، حضرت ام سلمہ نے اپنے لڑکے عمر (یا سلمہ) سے کہا کہ اٹھو اور نبی ﷺ کے رشتہ کو منظور کرلو۔ عمر یا ابوسلمہ دونوں اس وقت نابالغ تھے، اس لیے وہ سرپرست تو نہیں ہوسکتے کیونکہ سرپرست ہونے کے لیے بالغ ہونا ضروری ہے ، البتہ وکیل بن سکتے ہیں اور انھوں نے بحیثیت وکیل رشتہ کو منظور کیا اور وکیل کا فعل موکل کی طرف منسوب ہوتاہے ، اس لیے گویا کہ یہ نکاح خود حضرت ام سلمہ ہی نے منظور کیا(فتح الملھم 468/3) لیکن امام بیہقی نے اس دلیل کو یہ کہہ کر رد کردیا ہے کہ عمر کا نابالغ ہونا کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے ، نیز سرپرست کے بغیر نکاح جائز ہوتا تو پھر ام سلمہ خود نکاح منظور کرلیتیں دوسرے کو حکم دینے کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ یہ نکاح سرپرست کی موجودگی اور اجازت سے ہوا کیونکہ ام سلمہ کے لڑکے عمر ہی ان کے سرپرست تھے(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی 40/10
لیکن علامہ بیہقی کی رائے کو اس لیے درست نہیں کہاجاسکتاہے کہ اگر عمر سرپرست ہوتے تو حضرت ام سلمہ کی اس بات کے جواب میں کہ میرا کوئی سرپرست موجود نہیں ، آنحضور ﷺ فرماتے کہ عمر تمہارا سرپرست موجود ہے ، رہا عمر کو نکاح کے لیے مامور کرنا تو یہ بحیثیت وکالت ہے جیساکہ گذرچکا ہے، نیز عمر کا نابالغ ہونا بھی صحیح سند سے ثابت ہے۔
8- عن أبی سلمۃ بن عبدالرحمن قال جاءت امرأۃ الی رسول اللہ ﷺفقالت ان أبی انکحنی رجلا وأنا کارھۃ فقال رسول اللہ ﷺ لأبیھا لا نکاح لک اذھبی فانکحی من شئت۔
ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ایک عورت اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئی اور کہاکہ میرے والد نے میرا نکاح ایک شخص سے کردیاہے ، حالانکہ مجھے یہ رشتہ ناگوار تھا، اللہ کے رسول ﷺ نے اس کے والد سے کہاکہ تمہارے کیے ہوئے نکاح کا کوئی اعتبار نہیں اور اس عورت سے کہاکہ تم جاؤ اور جس سے چاہو نکاح کرو۔(اخرجہ سعید بن المنصور وقال الحافظ ھذا مرسل جید ، الدرایہ 59/2)
یہ روایت اسنادی حیثیت سے صحیح ہے، البتہ سلسلہ سند متصل نہیں ہے بلکہ مرسل ہے۔ کیونکہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں۔ اس حدیث میں بھی فعل نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے جو اس کے لیے دلیل ہے کہ عورت بذات خود نکاح کرسکتی ہے۔
9- صحیح سند سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے اپنی بھتیجی حفصہ کی شادی اپنے بھائی عبدالرحمن کی غیرموجودگی میں کردی تھی اور آنے کے بعد جب انھیں معلوم ہوا تو کافی برہم ہوئے، تاہم انھوں نے اس رشتہ کو باقی رکھا۔(ان عائشۃؓ زوجت حفصۃ بنت عبدالرحمن أخیھا من المنذر بن الزبیر وعبدالرحمان غائب فلما قدم غضب ثم اجاز، اخرجہ مالک باسناد صحیح۔الدرایۃ 60/2)
اس روایت سے بھی معلوم ہوتاہے کہ سرپرست کے بغیر نکاح درست ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر حضرت عائشہ اپنے بھائی کے غیر حاضری میں اپنی بھتیجی کا نکاح نہ کرتیں، نیز حضرت عبدالرحمن نے واپسی پر غصہ فرو ہونے کے بعد تجدید عقد کی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ سابق نکاح کو باقی رکھا۔ یہ بھی عقد نکاح میں سرپرست کی اجازت ضروری نہ ہونے پر دلالت کرتاہے۔
امام بیہقی نے اس واقعہ کی توجیہ کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ نکاح حضرت عائشہ ؓ
نے نہیں کیاتھا بلکہ انھوں نے رشتہ سے متعلق تمام باتیں طے کردی تھیں اور جب صرف عقد کا معاملہ رہ گیا توان کے بھائی کی غیرموجودگی میں لڑکی کے جو سرپرست تھے ان سے نکاح منظور کرنے کے لیے کہا، بذات خود انھوں نے رشتہ کو منظور نہیں کیاتھا، چونکہ یہ رشتہ انھوں نے منتخب کیاتھا اس لیے نکاح کی نسبت ان کی طرف کردی گئی۔ چنانچہ بعض روایتوں میں خود اس کی صراحت ہے ۔ عبدالرحمن بن قاسم کہتے ہیں:
کنت عند عائشۃ یخطب الیھا المرءۃ من أھلھا فتشھد فاذا بقیت عقدۃ النکاح قالت لبعض أھلھا زوِّج فان المرءۃ لا تلی عقد النکاح وفی لفظ فان النساء لاینکحن۔
میں حضرت عائشہؓ کے پاس تھا کہ ان کے گھر کے کسی عورت کے متعلق پیغام آتا تو وہاں موجود رہتیں اور جب صرف عقد نکاح کا معاملہ رہ جاتا تو گھر کے کسی مرد سے فرماتیں کہ نکاح کرادو کیونکہ عورت عقد نکاح کے لیے سرپرست نہیں بنتی اور ایک روایت ہے کہ عورتیں نکاح نہیں کراتیں۔(نصب الرایہ186/3، مصنف ابن ابی شیبہ 135/4، اسنادہ ضعیف لتدلیس ابن جریج ، حاشیۃ شرح السنہ 41/9)
امام بیہقی کی اس توجیہ سے ہمیں اتفاق ہے کہ حضرت عائشہ بذات خود مجلس عقد میں جاکر کسی کے رشتہ کو منظور نہیں کرتی تھیں بلکہ نکاح کے تمام معاملات کو طے کرکے عقد کے لیے کسی مرد کو وکیل بنادیا کرتی تھیں لیکن یہ ثابت کرنا بڑا دشوار ہے کہ جسے وہ عقد نکاح کے لیے آگے بڑھاتی تھیں وہ لڑکی کا سرپرست ہوا کرتا تھا اور ہماری گفتگو اسی سے متعلق ہے کہ باشعور اور بالغہ لڑکی کے عقد نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت ضروری ہے یا نہیں؟ بلکہ حضرت حفصہ کے واقعہ کی تفصیلات کو دیکھنے اندازہ ہوتا ہے کہ جس نے بھی یہ رشتہ منظور کیاتھا اسے سرپرستی کا حق حاصل نہ تھا۔(فتح الملھم 470/3) رہا حضرت عائشہؓ کا یہ خیال کہ عورت عقد نکاح کی سرپرستی نہیں کرتی تو انھوں نے عمومی طرزعمل اور عام رواج کو بیان کیا ہے کہ عام طور پر یہ کام عورت انجام نہیں دیتی ہے، لیکن اگر کوئی عورت ایسا کر گذرتی ہے تو نکاح درست ہوگا یا نہیں؟ اس روایت میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
10- حضرت علیؓ کے متعلق منقول ہے کہ وہ سرپرست کے بغیر نکاح سے شدت کے ساتھ منع کیاکرتے تھے اور ایسا کرنے والے کو مارا پیٹا کرتے، چنانچہ امام شعبی کا بیان ہے کہ ماکان احدمن اصحاب النبی ﷺ أشد فی النکاح بغیر ولی من علی حتی کان یضرب فیہ۔(۱مصنف ابن ابی شیبہ120/4، سنن دارقطنی ، نیل الاوطار 118/6)
لیکن اس طرح سے کوئی نکاح ہوجاتا تو اسے نافذ قرار دیتے، چنانچہ محدث ہزیل کہتے ہیں:
رفعت الی علی امرأۃ زوجھا خالھا قال فأجاز علی نکاحھا(مصنف ابن ابی شیبہ134/4) وفی روایۃ زوجتھا امھا و خالھا (مصنف ابن عبدالرزاق196/6)
یعنی حضرت علی کے پاس ایک عورت کا معاملہ آیا جس کی شادی اس کے ماموں نے کی تھی اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کی شادی ماں اور ماموں نے کی تھی تو حضرت علیؓ نے اس نکاح کو باقی رکھا۔
ایک دوسری روایت میں ان کا عمومی طرز عمل یہ بیان کیاگیا ہے کہ سرپرست کی اجازت کے بغیر کیے ہوئے نکاح میں زوجین کے درمیان یکجائی کے بعد اسے برقرار کھتے۔ (کان علی اذا رفع الیہ رجل تزوج امرء ۃ بغیر ولی فدخل بھا امضاہ ۔ حوالہ مذکور)
اور ابوقیس اودی نے ان کا یہ فرمان نقل کیاہے کہ سرپرست کی اجازت کے بغیر کیے ہوئے نکاح میں زوجین باہم یکجا ہوجائیں تو اسے باقی رکھاجائے گا اور اگر ابھی ہم بستری کی نوبت نہ آئی ہو تو تفریق کرادی جائے گی۔ (ان علیا یقول اذا تزوج بغیر اذن ولی ثم دخل بھا لم یفرق بینھما وان لم یصبھا فرق بینھا۔مصنف ابن ابی شیبہ196/6)
امام بیہقی نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد کہ حضرت علیؓ نے ایک ایسے نکاح کو نافذ قرار دیا جسے لڑکی کی مرضی سے اس کی ماں نے منظور کیاتھا لکھا ہے کہ اس کا دار و مدار ابوقیس پر ہے اور ان کی عدالت کے سلسلہ میں اختلاف ہے، علامہ ظفر احمد عثمانی نے اس پر نقد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابوقیس کی حدیث سے امام بخاری نے استدلال کیا ہے، امام ترمذی نے ان کی حدیث کو صحیح اور ابن حبان نے انھیں ثقہ قرار دیاہے ، اس شان کے محدث کے متعلق مجھے علم نہیں کہ بیہقی کے سوا کسی نے ان کی عدالت پر حرف رکھا ہو، علاوہ ازیں اس کا مدار صرف انھیں پر نہیں بلکہ دوسرے راویوں سے بھی منقول ہے۔(دیکھئے اعلاء السنن 71/12)
ان روایتوں سے ثابت ہوتاہے کہ حضرت علی ؓ سرپرست کے بغیر نکاح کو درست سمجھتے تھے کیونکہ صحیح نکاح ہی کو باقی رکھا جاسکتا ہے ۔ باطل نکاح کو نافذ کرنے کا کوئی مفہوم نہیں ہے، البتہ وہ اسے بہتر نہیں سمجھتے تھے ، اسی لیے ایسا کرنے پر سرزنش کرتے۔(فتح الملھم 464/3)
11- بالغ اور باشعور مرد کے نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت ضروری نہیں ہے ۔ لہٰذا اسی طرح سے بالغہ اور باشعور عورت کے لیے بھی سرپرست کی اجازت لازمی نہیں ہونی چاہیے۔ نیز بالغہ اور عاقلہ عورت کے لیے اپنے مال میں کسی کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا جائز ہے ، اس پر بھی قیاس کا تقاضا ہے کہ مال کی طرح اسے اپنی ذات کے متعلق فیصلہ کرنے میں بھی کسی کی اجازت کی ضرورت نہ ہو۔
12- جمہور کی طرف سے پیش کردہ آیت قرآنی کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ عورتوں کے نکاح کے مسئلہ میں مردوں کو مخاطب بنانے کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر عورتوں کا نکاح ان کے سرپرست کے واسطہ ہی سے ہوتا ہے اور مستحب اور بہتر بھی یہی ہے ، اس عرف و عادت اور رواج کی وجہ سے نیز استحباب کے پیش نظر مردوں سے خطاب کیاگیاہے لیکن کوئی عورت بجائے اس کے بذات خود محفل نکاح میں موجود رہ کر رشتہ نکاح کو منظور کرتی ہے تو نکاح ہوگا یا نہیں؟ آیت میں اس کی کوئی صراحت نہیں ہے ۔ البتہ دیگر آیات و احادیث کے ذریعہ معلوم ہوتاہے کہ سرپرست کے بغیر بھی نکاح درست ہے۔ جیساکہ گذرچکا ہے۔(دیکھئے البدائع 248/2)
دوسرے یہ کہ آیت میں وارد لفظ ’’ایامی‘‘ ’’ایم‘‘ کی جمع ہے اور ’’ایم‘‘ باعتبار لغت بے جوڑ مردوعورت دونوں کو کہاجاتاہے چنانچہ علامہ بغوی لکھتے ہیں:
’’ایم‘‘وہ عورت ہے جس کا شوہر مرچکا ہو یا اس نے اسے طلاق دے دی ہو، بے شادی شدہ کنواری لڑکی کو بھی ’’ایم‘‘ کہاجاتاہے، ایسے ہی جس مرد کی بیوی نہ ہو اسے بھی ’’ایم‘‘کہتے ہیں۔(شرح السنہ 38/9)
لہٰذا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں میں سے جو بے جوڑ ہوں انھیں رشتہ ازدواج میں منسلک کردو اور ظاہرہے کہ مرد کے لیے سرپرست کی اجازت اور موجودگی ضروری نہیں بلکہ محض مستحب اور بہترہے ۔ لہٰذا یہی حکم عورت کا بھی ہوگا ۔ دونوں کا حکم یکساں طور پر بیان کیاگیاہے ۔ لہٰذا دونون کے لیے سرپرست کی اجازت اور موجودگی محض مستحب اور بہترہے۔
چوتھی آیت ’’فانکحوھن باذن أھلھن‘‘(باندیوں سے ان کے آقا کے اجازت سے نکاح کرلو) کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہاں آزاد عورتوں کے بجائے باندیوں کا حکم بیان کیاگیاہے۔ اور آزاد عورت کو باندی پر قیاس نہیں کیاجاسکتاہے۔ بلکہ اس کے برخلاف اشارہ ملتا ہے کہ عقد نکاح میں عورت کی اجازت کا بھی اعتبار ہے کیونکہ باندیوں کے مالک مرد و عورت دونوں ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا کسی باندی کی مالکہ عورت ہو تو اس کی اجازت ہی سے شادی ہوگی ۔ معلوم ہوا کہ عورت کی عبارت اور اجازت کا بھی اعتبار ہے۔
13- جن احادیث سے عورت کے نکاح کے سرپرست کی موجودگی اور اجازت ضروری معلوم ہوتی ہے اگر انھیں صحیح مان لیاجائے تو بے تکلف ان کی توجیہ کی جاسکتی ہے، مثلاً حضرت عائشہؓ سے منقول روایت میں ’’ایما امرأۃ‘‘ گرچہ لفظ کے اعتبار سے عام ہے مگر مفہوم خاص ہے ، یعنی اس سے نابالغہ، باندی اور پاگل عورتیں مراد ہیں کہ ان میں سے جو عورت بھی سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو درست نہیں ہے یا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو عورت بھی غیرکفو میں نکاح کرلے تو وہ باطل ہے اور حنفیہ کے نزدیک بھی فتویٰ اسی پر ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے اور کسی عام لفظ کو مفہوم کے اعتبار سے خاص کرلینا قیاس کی بنیاد پر بھی درست ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی اسی مسئلے سے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وھو عمل سائغ فی الاصول وھو جواز تخصیص العموم بالقیاس۔
قیاس کے ذریعہ کسی عام لفظ میں تخصیص کرنا اصولی اعتبار سے جائز اور درست ہے۔(فتح الباری 94/9)
حالانکہ اس تخصیص کے لیے صرف قیاس ہی نہیں بلکہ بہت سی قرآنی آیات اور
متعدد احادیث موجود ہیں ، بعض حضرات نے یہ تاویل بھی کی ہے کہ یہ روایت دراصل باندی ہی سے متعلق ہے ، کیونکہ یہی روایت اسی سند کے ساتھ سنن ابوداؤد میں بھی ہے لیکن اس میں ’’ولی‘‘ کی جگہ ’’موالی‘‘ کا لفظ استعمال کیاگیاہے۔ پوری حدیث یہ ہے:
ایما امرأۃ نکحت بغیر اذن موالیھا فنکاحھا باطل ثلاث مرات (سنن ابوداؤد284/1)
اور ’’موالی‘‘مولیٰ کی جمع ہے اور زیادہ تر آقا اور مالک کے مفہوم میں استعمال ہوتاہے، اسی اعتبار سے حدیث کا ترجمہ ہوگا کہ جو عورت بھی اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو وہ باطل ہے اور جو حکم باندی کے نکاح کا ہے وہی حکم غلام کے نکاح کا بھی ہے۔ چنانچہ دوسری حدیث میں غلام کے متعلق کہاگیاہے: ایما عبد تزوج بغیر اذن موالیہ فھو عاھر.
جو غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو وہ زانی ہے۔(حوالہ مذکور)
ایسے ہی حضرت ابوموسیٰ اشعری سے منقول روایت کا مفہوم یہ ہے کہ مردوعورت میں سے جو ولایت کے محتاج ہوں ان کا نکاح سرپرست کے بغیر درست نہیں اور ولایت و سرپرستی کے حاجت مند نابالغ بچہ ، بچی، غلام اور باندی اور پاگل مرد و عورت ہیں نیز یہ کہ بالغ و باشعور آزاد مرد و عورت کسی کی سرپرستی کے ضرورت مند نہیں بلکہ وہ اپنی ذات کے سرپرست و نگراں خود ہیں اس حیثیت سے ان کا نکاح بھی ذاتی سرپرستی کے ماتحت ہوا کرتا ہے۔ اس توجیہ کے اعتبار سے حدیث کی عمومیت باقی رہتی ہے کہ کسی بھی مرد و عورت کا نکاح سرپرست کے بغیر درست نہیں۔ اس کے برخلاف دیگر فقہاء کی رائے کے مطابق حدیث کی عمومیت برقرار نہیں رہتی بلکہ عام لفظ (جس میں مردو عورت دونوں شامل ہیں) ایک صنف کے لیے خاص ہوجاتاہے۔(دیکھئے احکام القرآن لجصاص 476/1، فتح القدیر 161/2، مرقاۃ المفاتیح 417/3، فتح الملھم 469/3-470)
حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث کا بھی یہی مفہوم ہے کہ کوئی عورت کسی بے شعور اور نابالغہ لڑکی کی شادی قریب ترین مرد سرپرست کے ہوتے ہوئے نہ کرے یا نابالغہ لڑکی کسی نابالغہ لڑکی کی شادی نہ کرے اور نہ ہی یہ عورتیں خود نکاح کے لیے اقدام کریں یا یہ کہ ممانعت محض تنزیہی ہے کہ ایسا کرنا اچھا نہیں ہے ۔
رہا یہ کہ عورتیں جذبات سے مغلوب ہوتی ہیں ان سے اس کی امید نہیں رکھی جاسکتی ہے کہ وہ جذبات کی تسکین کے علاوہ نکاح کے تقاضے اور مصالح پر نظر رکھ سکیں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے نکاح کی ذمہ داری کسی ایسے شخص کے حوالے کردیاجائے جو ان باتوں کی رعایت کرسکے ۔ تو اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ ایسا ہونا لازمی اور ضروری نہیں ہے بلکہ اکثر ایسا نہیں ہوتاہے ، نیز کفاءت کی شرط لگا کر پیش بندی ہوچکی ہے، لہٰذا اگر سرپرست محسوس کرے کہ اس عقد میں مصالح نکاح کی رعایت نہیں کی گئی ہے تو وہ عدم کفاءت کی وجہ سے نکاح ختم کرسکتاہے اور ایک روایت کے مطابق ایسا نکاح درست ہی نہیں ہے ۔
دوسرے یہ کہ شوہر کا انتخاب بہ اتفاق عورت کی مرضی پر منحصر ہے ، اگر وہ مناسب جگہ رشتہ منتخب کرلیتی ہے تو تمام فقہاء کے نزدیک سرپرست کے لیے اس کے انتخاب پر راضی ہونا ضروری ہے ۔ اگر وہ اس پر آمادہ نہ ہو تو عورت عدالت کے ذریعہ اس رشتہ کو منظور کراسکتی ہے اور اگر سرپرست مناسبت و کفاءت کا لحاظ کرتے ہوئے کوئی رشتہ طے کردے لیکن عورت اس کے لیے تیار نہ ہو تو اسے مجبور نہیں کیاجاسکتا بلکہ اس کی رائے کا پابند رہنا ضروری ہوگا۔ لہٰذا جو خرابی عورت کے براہ راست اقدام سے ہوسکتی ہے اس خرابی کا امکان عورت کو انتخاب کی آزادی دینے میں بھی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ عورت کو انتخاب کا حق تو دیاجائے مگر براہ راست اقدام کی اجازت نہ دی جائے، زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتاہے کہ اس اقدام کی وجہ سے بے شرمی اور بے حیائی کو شہ دینا ہوگا تو ہمیں بھی اس سے اتفاق ہے اور اسی وجہ سے اس کو اچھا نہیں سمجھتے ہیں۔(دیکھئے فتح القدیر 159/3)
دلائل کا ایک جائزہ:
دونوں طرح کے دلائل کو دیکھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ نفس مسئلہ سے متعلق کوئی صریح آیت نہیں ہے ، چنانچہ جمہور کی طرف سے پیش کردہ آیت میں متعدد احتمالات ہیں، بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ آیت میں سرپرستوں سے خطاب ہی نہیں ہے بلکہ شوہر کو مخاطب بناکر کہا گیا ہے :جب تم کسی عورت کو طلاق دے دو تو پھر ڈرا دھمکا کر اسے دوسری شادی کرنے سے نہ روکو، عیب اور الزام لگاکر اس کی شادی میں رکاوٹ نہ ڈالو، اس سے نکاح پر آمادہ شخص کو جو جلد ہی اس کا شوہر ہونے والا ہے اس سے متنفر نہ کرو۔
اس توجیہ اور حضرت معقل کے واقعہ میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ آیت حکم کے اعتبار سے عام ہے اور جولوگ بھی عورت کے نکاح میں رکاوٹ ثابت ہوں ان تمام کو یہ حکم شامل ہے ، خواہ سابق شوہر ہو ، سرپرست ہوں یا اور کوئی ۔ لہٰذا آیت کے عام حکم کو کسی مخصوص واقعہ کے ساتھ خاص نہیں کیاجاسکتاہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتاہے کہ نزول آیت کے وقت ہی حضرت معقل کا واقعہ پیش آیا تھا چونکہ اس آیت سے اس واقعہ کا حکم بھی معلوم ہورہاتھا اس لیے یہ کہہ دیاگیا کہ یہ آیت حضرت معقل کے واقعہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے ۔
اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ آیت میں سرپرستوں ہی سے خطاب ہے تو بھی یہ معلوم نہیں ہوتاہے کہ عقد نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت اور موجودگی ضروری ہے ، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو کہا جاتا کہ تم اپنے ماتحت عورتوں کو نکاح سے نہ روکو بلکہ ان کی خواہش کے مطابق رشتہ منظور کرلو ۔ (فلاتعضلوھن ان تنکحوھن ازواجھن) بلکہ فعل نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف کرنے کی وجہ سے بظاہر معلوم ہوتاہے کہ عورت خود براہ راست نکاح کرنے کا حق رکھتی ہے ۔ البتہ یہ کہاجاسکتاہے کہ اگر سرپرست کی موجودگی ضروری نہیں ہے تو پھر سرپرست کو مخاطب بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے بلکہ ایسے موقع پر تو عورت کو خطاب کرکے کہنا چاہیے کہ سرپرست اگر تمہیں نکاح سے روکیں تو تم خود ہی اپنا نکاح کرلو کیونکہ تمہیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے ، یہ کیوں کہا گیاکہ سرپرستو! اپنے ماتحت عورتوں کو نکاح کرنے سے نہ روکو، اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرز تعبیر میں ایک عظیم حکمت اور مصلحت ہے اور وہ ہے رشتوں کا باہمی احترام ، ورنہ تو وہ عورت جو پہلے ہی سے سرپرست کے طرز عمل سے شکوہ سنج ہے اسے اس طرح مخاطب کرکے بغاوت پر آمادہ اور سرکشی پر ابھارنا ہوگا اور اس کی وجہ سے رسہ کشی، منافرت اور باہمی ٹکراؤ کی راہ ہموار ہوگی۔ کشیدگی اور تناؤ کی فضا پیدا ہوگی ، رشتوں کا احترام باقی نہ رہ جائے گا، حالانکہ شریعت اسلامیہ میں رشتوں کے احترام کا بڑا خیال رکھا گیا ہے، دلوں کو جوڑنے اور الفت و محبت کی بہت اہمیت اور قطع رحمی کی بڑی مذمت کی گئی ہے ، ٹکراؤ اور تناؤ کے بجائے اتحاد و اتفاق اور شیر و شکر ہوکر رہنے کی تلقین کی گئی ہے ، کشیدگی اور منافرت کی جگہ میل جول اور الفت و محبت کی ترغیب دی گئی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا اسلوب اختیار کیاجائے ، ایسا انداز اپنایا جائے کہ رشتوں کا احترام بھی باقی رہے اور مقصد بھی حاصل ہوجائے اور اس کے لیے اس سے بہتر کوئی اسلوب نہیں ہے کہ سرپرست ہی کو خطاب کرکے کہا جائے کہ اپنی زیر کفالت عورت کو اس کی مرضی اور پسند کے نکاح سے مت روکو بلکہ اس کے انتخاب پر راضی ہوکر خود ہی اس کا رشتہ منظور کرلو، اس طرز تعبیر سے اصل مقصد بھی حاصل ہوجائے گا اور الفت و محبت کی فضا بھی برقرار رہے گی۔
یہی صورت حال اس سے متعلق دوسری آیتوں کا بھی ہے کہ ان سے سرپرست کی اجازت اور موجودگی ضروری معلوم نہیں ہوتی ہے جیساکہ گذرچکا ہے۔
جہاں تک جمہور کی طرف سے پیش کردہ احادیث کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں حضرت عائشہ کی حدیث کو بالکل بے غبار نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ امام زہری کا اس روایت سے انکار اور اس کے برخلاف نقطہ نظر اختیار کرنا اور خود حضرت عائشہؓ کا طرز عمل اس کی صحت پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے اور امام زہری کے انکار والی روایت کو بے اصل قرار دینا مشکل ہے کیونکہ ابن علیہ کے متعلق خود ابن معین کا بیان ہے کہ وہ ثقہ اور پرہیز گار اور متقی ہیں اور امام احمدبن حنبل کہتے ہیں : الیہ المنتھی فی التثبت بالبصرۃ. اور امیر المومنین فی الحدیث امام شعبہ کا خیال ہے کہ ابن علیہ سید المحدثین ہیں۔ امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ ہر محدث سے غلطی اور چوک ہوگئی ہے سواء ابن علیہ اور بشربن مفضل کے ۔ ایسے ہی ابن جریج کی ثقاہت پر بھی تمام لوگوں کا اتفاق ہے ، لہٰذا اس کی صحت پر کلام مشکل ہے ، نیز امام احمد بن حنبل کے اس خیال سے بھی اتفاق ممکن نہیں ہے کہ چونکہ ابن جریج کی کتابوں میں یہ واقعہ مذکور نہیں ہے اس لیے درست نہیں ، کیونکہ کتاب میں مذکور نہ ہونے سے سرے سے واقعہ ہی سے انکار نہیں کیاجاسکتاہے۔(دیکھئے اعلاء السنن 70/11، فتح الملھم 470/3)
دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ حدیث کے ایک راوی سلیمان بن موسیٰ کے متعلق امام بخاری کہتے ہیں کہ ’’عندہ مناکیر‘‘ اور امام نسائی کا خیال ہے کہ ’’لیس بالقوی فی الحدیث‘‘ اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے تقریب میں لکھا ہے کہ ’’صدوق فقیہ فی حدیثہ بعض لین و خلط قبل موتہ بقلیل‘‘(سچے اور فقیہ ہیں لیکن ان کی حدیث میں کچھ نرمی پائی جاتی ہے اور اپنی موت سے کچھ پہلے مختلط بھی ہوگئے تھے ) اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ان پر بھی کلام کیاگیاہے ۔ اس لیے حدیث کو صحیح قرار دینا دشوار ہے ۔ (نصب الرایۃ 187/3، الارواء 246/6)
متن کی حیثیت سے بھی یہ حدیث واضح نہیں ہے کیونکہ نکاح کے باطل ہونے کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتاہے کہ سرپرست کی مرضی کے بغیر کیاہوا نکاح ناپائیدار ہوا کرتا
ہے، کیونکہ باطل ناپائیدار کے معنیٰ میں استعمال ہوتاہے جیساکہ لبید کے اس شعر میں ہے:
الا کل شیء ما خلا اللہ باطل (فتح الملھم3/470)
اور خود اس حدیث میں بعض اشارے ایسے موجود ہیں جو اس کی تائید کرتے ہیں کہ سرپرست کے بغیر بھی نکاح درست ہے ، البتہ ایسا نکاح ناپائیدار ، بے فائدہ اور لاحاصل ہوا کرتاہے، کیونکہ حدیث کا ایک ٹکڑا یہ ہے فلھا المھر بما استحل من فرجھا (اگر کوئی عورت سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے اور شوہر سے ہم بستری ہوجائے توشرمگاہ کو حلال کرلینے کی وجہ سے عورت کے لیے مہر ہوگا) اس ٹکڑے سے معلوم ہوتاہے کہ نکاح درست ہے کہ وطی کے بعد مہر کا حکم اور اس کے لیے ’’استحلال فرج‘‘ کی تعبیر اس کے لیے واضح دلیل ہے ، کیونکہ اگر نکاح باطل ہوتاتو پھر مہر کا کیا سوال؟ اس کے بجائے ایسی صورت میں دونوں پر شرعی سزا کو نافذ کیا جانا چاہیے۔(بذل المجھود 228/3)
حضرت ابوموسیٰ اشعری سے منقول روایت کو بھی اسناد ی حیثیت سے صحیح نہیں کہا جاسکتا؛کیونکہ اس روایت کا دارومدار ابواسحاق اور ان کے بیٹے یونس پر ہے اور ابواسحاق اختلاط کا شکار ہوگئے تھے اور یہ معلوم نہیں ہے کہ مذکورہ روایت متصلاً انھوں نے اختلاط سے پہلے نقل کی ہے یا بعد میں ؟ اور ان کے بیٹے یونس کے متعلق علی بن مدینی سے منقول ہے کہ وہ شدید غفلت برتتے ہیں۔ امام احمدبن حنبل ان کی روایت کو ضعیف قرار دیتے تھے اور ابوحاتم کا بیان ہے کہ وہ سچے تو ہیں لیکن ان کی حدیث کو حجت کے طورپر پیش نہیں کیاجاسکتاہے(تہذیب 433/11) اور متن کی حیثیت سے کوئی اس کے عموم کا قائل نہیں ہے کیونکہ حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ کوئی نکاح -خواہ مرد کا ہو یا عورت کا- سرپرست کے بغیر نہیں ہے ۔ لہٰذا اگر اس کی عمومیت سے مردوں کو خارج کیاجاسکتاہے تو دلیل کی روشنی میں بالغ و باشعور عورت کو بھی اس حکم میں شامل نہ ماننے کی گنجائش ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول روایت کو بھی اس سلسلہ میں واضح نہیں کہاجاسکتا ہے ۔ جیساکہ گذرچکاہے۔
جو حضرات عورت کے عقد نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت ضروری قرار نہیں دیتے ہیں ان کی طرف سے پیش کردہ قرآنی آیت بھی موضوع سے متعلق قطعی نہیں ہے بلکہ دوسرے مفہوم کی بھی اس میں گنجائش ہے البتہ بظاہر عورت کی طرف فعل نکاح کی نسبت دلیل ہے کہ وہ سرپرست کے بغیر خود یہ فعل انجام دے سکتی ہے کیونکہ اصل یہی ہے کہ فعل کی نسبت اس کے فاعل کی طرف ہو ، نیز اس سلسلہ کی دوسری آیت میں کہا گیا ہے کہ عورت اپنی ذات سے متعلق دستور کے موافق جوکچھ کریں اس سلسلہ میں تم پر (سرپرست پر) کوئی داروگیر نہیں ہے ۔ اس سے ابن رشد مالکی کے بقول یہ سمجھا جارہاہے :
فان المفھوم منہ النھی عن التثریب علیھن فیما استبددن بفعلہ دون أولیاء ھن ولیس ھٰھنا یمکن ان تستبد بہ المرءۃ الا عقد النکاح فظاہرہ الحالۃ-واللہ أعلم- ان لھا ان تعقد النکاح وللأولیاء الفسخ اذا لم یکن بالمعروف وھو الظاھر من الشرع الا ان ھذا لم یقل بہ أحد۔(بدایۃ المجتہد11/2)
آیت سے یہ سمجھا جارہا ہے کہ جس کام کو عورت سرپرست کے بغیر تنہا انجام دے سکتی ہو اس میں سرپرست کو رکاوٹ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے اور یہاں عقد نکاح کے سوا کوئی اور عمل نہیں ہے جسے عورت بذات خود تنہا انجام دے سکتی ہو ، لہٰذا اس آیت سے بظاہر معلوم ہورہا اور -اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے- کہ عورت کے لیے عقد نکاح کا اختیار ہے اور سرپرست کو فسخ کا حق ہے جبکہ دستور کے موافق نہ ہو اور شرعاً بھی بظاہر یہی معلوم ہوتاہے مگر یہ کہ کوئی اس کا قائل نہیں ہے ۔
لیکن علامہ ابن رشد مالکی کا یہ خیال کہ کوئی اس کا قائل نہیں ہے غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ خود امام ابوحنیفہ کا بعینہٖ یہی نقطہ نظر ہے جیساکہ گذرچکا ہے۔
مانعین کی طرف سے پیش کردہ احادیث کو بھی بالکل صریح اور دوٹوک نہیں کہا جاسکتا ہے بلکہ ان کی بھی تاویل اور توجیہ ممکن ہے۔
حاصل یہ ہے کہ دونوں طرح کی آراء کے لیے قرآن و سنت میں بنیاد موجود ہے، کسی ایک رائے کو بالکل بے اصل نہیں کہا جاسکتا ہے ، البتہ شخصی آزادی دیگر معاملات میں کسی فرق کے بغیر مرد و عورت کو تصرف کی اجازت اور نصوص کے ظاہر سے حنفی نقطہ نظر زیادہ قوی معلوم ہوتاہے، تاہم عورت کی فطری حیاء رشتہ نکاح کو نتیجہ خیز بنانے، خاندانی نظام کی رعایت، معاشرتی قدروں کے تحفظ کے پیش نظر سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے۔ اس سلسلہ میں ہمارے لیے حضرت علیؓ کا طرز عمل مشعل راہ ہے ۔ اس کی روشنی میں ہم اپنے لیے راہ عمل متعین کرسکتے ہیں کہ وہ سرپرست کے بغیر نکاح پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے تھے لیکن ایسا واقعہ ہوجاتا تو پھر نکاح کو باقی رکھتے۔
ولایت سے متعلق کچھ اہم مسائل
قریب تر سرپرست غائب ، مجنون یا نابالغ ہو تو سرپرستی کا حق اس کے بعد والے کو منتقل ہوجائے گا جیسے باپ موجود نہ ہو تو بھائی کو اپنے ماتحت کے نکاح کا حق حاصل ہوگا، بشرطیکہ قریب تر سرپرست ایسی جگہ پر ہو کہ اس کی آمد یا اجازت کا انتظار کیاجائے تو مناسب رشتہ (کفو) فوت ہوجائے۔ کیونکہ پیغام دینے والا اتنی مدت تک مہلت نہ دے سکتا اور مناسب رشتو ں کا ملنا مشکل ہوتاہے ، اس لیے بہتر جگہ سے پیغام آیا ہے تو اسے قبول کرلینے ہی میں مصلحت ہے اور غائب سرپرست کو آنے کے بعد اعتراض کا حق نہ ہوگا(رد المحتار 199/4)، یہی حکم اس وقت بھی ہے جبکہ وہ قید میں ہو اور اس سے ربط قائم نہ ہوسکے۔(المغنی 475/6) قریب تر سرپرست کی موجودگی میں نسبتاً دور کا رشتہ دار نکاح کردے تو وہ قریب تر کی اجازت پر موقوف ہوگا۔(رد المحتار 4/199)
ایک ہی درجہ کے دوسر پرست دو مختلف جگہوں پر نکاح کردیں تو جو نکاح پہلے ہوا ہے اسی کا اعتبار ہوگا اور دوسرا باطل قرار دیاجائے گا اور دونوں نکاح ایک ساتھ ہوں یا معلوم نہ ہوکہ کون پہلے اور کون بعد میں ہواہے تو دونوں نکاح کو باطل قرار دیاجائے گا(رد المحتار 199/4) اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
ایما امرأۃ زوجھا ولیان فھی للأول منھما۔
جس عورت کا نکاح دو سرپرست الگ الگ شخص سے کردیں تو عورت اس شخص کی بیوی مانی جائے گی جس سے پہلے نکاح ہوا ہے۔(رواہ احمد واصحاب السنن وصححہ الترمذی ، فقہ السنۃ /120)
کسی مناسب جگہ (کفو) سے لڑکی کے لیے پیغام آیا ہے اور بچی اس رشتہ سے راضی ہے لیکن سرپرست انکار کرتاہے تو اسے حق ہے کہ عدالت میں یہ معاملہ پیش کرے اور قاضی اس کے نکاح کا انتظام کردے، یہ نکاح قاضی کے ذمہ داریوں میں شامل ہے، ایسی صورت میں یہ حق بعد کے سرپرست کو حاصل نہ ہوگا کیونکہ ماتحت کو ’’کفاءت ‘‘ میں رشتہ سے روکنا ایک طرح سے ظلم ہے اور ظلم کے ازالہ کا تعلق قاضی سے ہے۔
بعض حنفی فقہاء کا خیال ہے کہ اس صورت میں یہ حق بعد والے سرپرست کو حاصل ہوگا اور وہ مناسب جگہ سے آئے ہوئے رشتہ کو منظور کرے گا۔ امام احمد سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے۔
البتہ قریب تر سرپرست رشتہ غیر مناسب ہونے کی وجہ سے یا مہر کی کمی یا اس سے بہتر رشتہ آیا ہے اور اس کی وجہ سے اس رشتہ کو نامنظور کررہاہے تو پھر عورت کو مسئلہ عدالت میں لے جانے کا حق نہ ہوگا۔(ردالمحتار 201/4 ، المغنی 476/6) واضح رہے کہ حنفیہ کے یہاں عاقلہ و بالغہ کے نکاح کے لیے سرپرست کا ہونا ضروری نہیں ہے ، نابالغہ اور غیرعاقلہ کے نکاح کے لیے ولی کا ہونا شرط ہے ، اس لیے بالغہ لڑکی نے کفو میں کوئی رشتہ منتخب کرلیاہے اور سرپرست کو منظور نہیں ہے تو عورت بذات خود یا کسی کو اپنا وکیل مقرر کرکے نکاح کرسکتی ہے، اسے عدالت میں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور نابالغہ میں اس طرح کے مسئلہ کا وجود بہت کم ہے ۔ البتہ دیگر فقہاء کے یہاں اس کی ضرورت ہوگی۔
سرپرست اپنی ماتحت لڑکی سے نکاح کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے کسی کو وکیل بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ خود ہی اس نکاح کو منظور کرسکتاہے جیسے چچازاد (چچا کی لڑکی) سے رشتہ کرنا چاہے اور اس کے سوا لڑکی کا کوئی قریبی سرپرست نہ ہو تو اسے اپنے بعد والے کو سرپرست یا وکیل بنانے کی ضرورت نہیں ہے (فتح القدیر196/3)، مثلاً روایتوں میں آتا ہے کہ ام حکیم بنت قارظ نے عبدالرحمن بن عوف سے کہا:
انہ قد خطبنی غیر واحد فزوجنی ایھم رأیت قال وتجعلین ذالک الی؟ فقالت نعم قال قد تزوجتک(صحیح بخاری مع فتح الباری 94/9-95)
متعدد لوگوں نے مجھے نکاح کا پیغام دیاہے، جس سے مناسب سمجھیں میرا نکاح کردیں، انھوں نے کہا کیا تم معاملہ میرے حوالے کررہی ہو ، انھوں نے کہا: ہاں۔ حضرت عبدالرحمن نے کہا میں نے خود ہی تم سے نکاح کرلیا۔
٭٭٭
شائع شدہ:سہ ماہی مجلہ ترجمان الاسلام جامعہ اسلامیہ بنارس ۔جنوری 2000ء