سلسله(5)

وصیت اور وراثت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

6-وراثت کے لیے جنس کی تعیین میں جدید وسائل سے مدد:

وہ شخص جس کے بارے میں مرد یا عورت ہونے کا فیصلہ کرنا دشوار ہوتا ہے اسے خنثیٰ مشکل کہا جاتا ہے مثلا کسی شخص میں مرد یا عورت کی کوئی علامت نہ ہو محض پیشاب کرنے کے لیے ایک سوراخ ہو یا دونوں کی علامتیں ہوں ۔
جدید میڈیکل سائنس کے اعتبار سے خنثیٰ مشکل کی دو قسمیں  ہیں:
1-حقیقی خنثیٰ مشکل :
یعنی جس میں خصیہ اور انڈا دانی دونوں موجود ہوں یہ شکل بہت ہی نادر و نایاب ہے ۔اور ایسی حالت میں اگر طبی آلات کے ذریعے بھی کسی ایک جانب کو غالب نہ کہا جاسکے تو اس پر خنثیٰ مشکل کے احکام جاری ہوں گے ۔اور  وراثت  میں اس کو  مرد و عورت کا کمتر حصہ دیا جائے گا یعنی اس کو مرد شمار کرنے میں کم حصہ ملتا ہے تو مرد شمار کیا جائے گا اور اگر عورت شمار کرنے میں کم حصہ ملتا ہے تو اسے عورت سمجھا جائے گا مثلا وارثوں میں ایک لڑکا اور خنثیٰ مشکل ہے تو اسے لڑکی مان کر کے لڑکے کو دہرا حصہ اور خنثیٰ کو اکہرا حصہ ملے گا اور اگر وارثوں میں ایک بیٹی اور خنثیٰ مشکل ہے تو اس کو بھی بیٹی مان کر دونوں کو برابر برابر حصہ دیا جائے گا۔
2-خنثی مشکل کاذب:
جس شخص میں خصیہ اور انڈا دانی میں سے کوئی ایک موجود ہو البتہ خارجی اعضائے تناسل دونوں سے ملتے جلتے ہوں تو اسے خنثیٰ مشکل کاذب کہا جاتا ہے،یہ شکل بہت نادر نہیں ہے بلکہ 25 ہزار بچوں میں ایک بچہ ایسا ہو سکتا ہے اور جدید طبی ذرائع کے ذریعے فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ مرد ہے یا عورت بلکہ علاج کے ذریعے اسے مکمل مرد یا عورت کی شناخت دی جا سکتی ہے۔اور چونکہ جنس کی تعین کے بعد دوسری جنس کی علامتیں عیب کے درجے میں ہیں اس لیے آپریشن کے ذریعے اسے ختم کرنے کی اجازت ہوگی (1)
اور شریعت نے جنس کی تعیین کے سلسلے میں علامتوں کا اعتبار کیا ہے (2) چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس کے حوالے سے منقول ایک حدیث میں ہے:
الخنثى يورث من حيث يبول.
خنثیٰ جس راستے سے پیشاب کرتا ہے اس کا اعتبار کرتے ہوئے اسے ترکہ میں سے حصہ دیا جائے گا۔
(السنن الكبرى: 12518۔ ضعیف)
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے :
انه ورث خنثى ذكرا من حيث يبول.
انہوں نے خنثیٰ کو پیشاب کرنے کے اعتبار سے مرد قرار دیتے ہوئے وارث قرار دیا۔(السنن للدارمي :2970مصنف ابن ابي شيبه:32014 مصنف عبد الرزاق:19204.)ابن حجر نے اس کی سند کو صحیح قراردیا ہے ۔(التلخيص الحبير224/1)
اور جب بعض ظاہری علامتوں کے ذریعے جنس کی تعیین کی جاسکتی ہے تو میڈیکل سائنس کے ذریعے اس کے مرد یا عورت ہونے کا فیصلہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے واقعی صورت حال کا پتہ لگایا جاسکتا ہے ۔اور اس کے فیصلے کے اعتبار سے ترکہ میں سے اسے حصہ دیا جائے گا۔

(1)والشخص الْوَاحِد لَا يكون ذكرا وَأُنْثَى وَلَكِن يحْتَمل أَن يكون ذكرا وَآلَة النِّسَاء فِي حَقه نُقْصَان بِمَنْزِلَة مَوضِع شجة لم تلتئم وَيحْتَمل أَن يكون أُنْثَى وَآلَة الرِّجَال فِي حَقّهَا زِيَادَة بِمَنْزِلَة الْأصْبع الزَّائِدَة.( تحفة الفقهاء 3 /357)
(2)وَالشَّرْع جعل الْعَلامَة الفاصلة بَينهمَا قبل الْبلُوغ هُوَ المبال على مَا رُوِيَ عَن النَّبِي عَلَيْهِ السَّلَام أَنه قَالَ الْخُنْثَى يُورث من حَيْثُ يَبُول فَلَمَّا جعل الأمارة هَذَا فِي حق الْإِرْث فَكَذَا فِي حق الْأَحْكَام الَّتِي تخْتَص بالخنثى يجب أَن يكون هُوَ الْعَلامَة(تحفة الفقهاء357/3)
وأما بيان ما يعرف به أنه ذكر، أو أنثى، فإنما يعرف ذلك بالعلامة، وعلامة الذكورة بعد البلوغ نبات اللحية، وإمكان الوصول إلى النساء وعلامة الأنوثة في الكبر نهود ثديين كثديي المرأة ونزول اللبن في ثدييه والحيض والحبل، وإمكان الوصول إليها من فرجها؛ لأن كل واحد مما ذكرنا يختص بالذكورة والأنوثة فكانت علامة صالحة للفصل بين الذكر والأنثى”. (البدائع 327/7)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے