سلسله(6)

وصیت اور وراثت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

7-طبی آلات کے ذریعے حمل کی تحقیق:

پیٹ میں موجود بچے کے وارث ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مورث کے وفات کے وقت اس کا وجود ہو گرچہ حمل نطفہ ہی کی شکل میں  کیوں نہ ہو لہذا وفات سے دو سال تک کی مدت میں بچہ پیدا ہو جائے تو وفات یافتہ شخص سے اس کا نسب سابق مانا جائے گا بشرطیکہ اس دوران بیوی عدت کے ختم ہو جانے کا اعتراف نہ کرے(1) اور اگر دو سال کے بعد بچہ پیدا ہوا ہے تو وفات یافتہ شخص سے اس کا نسب ثابت نہیں ہوگا اور نہ ہی مورث کے ترکے کا وارث ہوگا ؛ کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وفات کے وقت اس کا وجود نہیں تھا چنانچہ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ بچہ دو سال سے زیادہ مدت تک پیٹ میں نہیں رہتا .  (ماتزید  المرءۃ علی الحمل سنتین. الکبری :15552)
چونکہ اس طرح کی بات قیاس و اجتہاد سے نہیں کہی جا سکتی ہے اس لیے یہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ جدید طبی الات کے ذریعے ایک ہفتے کے اندر جانا جا سکتا ہے کہ حمل ہے یا نہیں؟ اور ایک مہینے کے اندر جنین کی حقیقت معلوم کی جا سکتی ہے اور یہ بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنین کی عمر کیا ہے؟ تو کیا ان پر اعتماد کر کے کوئی فیصلہ لیا جا سکتا ہے؟
جواب یہ ہے کہ وراثت میں سے اس کا حصہ روکنے کے لیے طبی حالات سے مدد لینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان کے ذریعے یہ فیصلہ کرنا صحیح نہیں ہوگا کہ حمل اس کے  شوہر کا ہے یا وفات کے بعد کسی دوسرے شخص کا؟ کیونکہ دو سال تک "فراش” کا ثبوت مانا جائے گا اور اس مدت میں پیدا ہونے والا  وفات یافتہ شخص کا بچہ شمار کیا جائے گا بشرطیکہ عورت نے چار ماہ دس دن گزرنے کے بعد عدت کے ختم ہونے کا دعوی نہ کیا ہو۔

(1)” (قوله: لا يبقى الولد إلخ) الذي في الفتح: الولد لا يبقى في بطن أمه أكثر من سنتين ولو بقدر فلكة مغزل، وفي رواية: ولو بقدر ظل مغزل. وسنخرجه في موضعه. اهـ. وفلكة المغزل كتمرة معروفة مصباح وهو على تقدير مضاف وقد جاء صريحاً في شرح الإرشاد: ولو بدور فلكة مغزل، والغرض تقليل المدة مغرب، (قوله: ومثله لا يعرف إلا سماعاً) لأن المقدرات لا يهتدي العقل إليها، فتح، أي فهو في حكم المرفوع المسموع من النبي صلى الله عليه وسلم”. (رد المحتار3/ 210)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے