حالت نشہ کی طلاق۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
شریعت و قانون کا مخاطب عقلمند اور باشعور انسان ہی ہوتاہے۔ شعور و آگہی سے محروم شخص احکام شرعیہ کا پابند نہیں ہوسکتا ہے ؛ کیونکہ عقل سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ حیوانات کے زمرے میں آجاتا ہے ، شراب نوشی کی وجہ سے بھی انسان وقتی طور پر ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے ، فرق صرف اس قدر ہے کہ شراب پینے والا اپنے ارادہ و اختیار سے ایک ایسی چیز کو استعمال کرکے پاگل بنا ہے جس کا استعمال شرعاً ممنوع ہے ۔ تو کیا زوال عقل کو دیکھتے ہوئے ایسے شخص کو پاگل کے زمرے میں رکھ کر حالت نشہ تک غیر مکلف سمجھاجائے اور اس حالت میں اس کی طلاق کو واقع نہ قرار دیاجائے یا ارادہ و اختیار کے ہوتے ہوئے ممنوع چیز کے استعمال کرنے کی وجہ سے بطور سزا اس کی طلاق واقع قرار دی جائے؟ بعض فقہاء کے پیش نظر پہلی بات ہے جس کی وجہ سے وہ حالت نشہ کی طلاق کو واقع قرار نہیں دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف بعض دوسرے فقہاء بطور سزا اس کی طلاق کو نافذ قرار دیتے ہیں۔
لیکن اس مسئلہ کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ نشہ کی حقیقت کیا ہے؟ کس کیفیت پر نشہ کا اطلاق ہوگا؟
نشہ کی حقیقت:
کس طرح کی کیفیت کو نشہ کہا جائے گا؟ اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ کا خیال ہے کہ ایسا کیف و وجد جس کی وجہ سے زمین و آسمان میں فرق نہ کرسکے ، نشہ کہلائے گا۔ امام مالک، شافعی، احمدبن حنبل ، ابویوسف اور امام محمد کہتے ہیں کہ عقل پہ سرور کا اس درجہ غلبہ ہوجائے کہ مہمل باتیں بکنے لگے تو اس کیفیت کو نشہ کہا جائے گا۔ عام طور پر فقہاء حنفیہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور اسی پر فتویٰ ہے(رد المحتار 444/4)، کیونکہ قرآن حکیم نے نشہ ختم ہونے کی علامت یہی بتلائی ہے کہ اس میں بات سمجھنے کی صلاحیت آجائے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ جب بات سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجائے تو اسے نشہ کہا جائے گا۔ فرمان خداوندی ہے:
یاایھا الذین آمنوا لاتقربوا الصلاۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ما تقولون۔
ایمان والو! حالت نشہ میں نماز کے پاس مت جاؤ، یہاں تک کہ سمجھنے لگو کہ منھ سے کیا کہتے ہو۔(سورۃ النساء :43)
نیز حضرت عمر سے روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ جس پر شراب پینے کا الزام ہے اس سے قرآن پڑھنے کے لیے کہو یا اس کی چادر کو دوسری چادروں میں ڈال دو، اگر وہ قرآن پڑھ لیتاہے یا اپنی چادر پہچان لیتاہے تو اسے چھوڑدو اور اگر ایسا نہیں کر پاتا ہے تو اس پر حد جاری کرو(مصنف عبدالرزاق 229/9)، اسی طرح حضرت علی سے منقول ہے کہ جب شرابی نشہ میں آتا ہے تو مہمل باتیں بکنے لگتاہے۔(السنن الکبریٰ 320/8)
فقہاء کے اقوال:
تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ نشہ آور شے کے بغیر عقل زائل ہوجائے تو اس حالت کی طلاق واقع نہیں ہوگی جیسے دوا یا کسی جائز شربت پینے کی وجہ سے نشہ طاری ہوجائے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ایسے ہی لاعلمی اور انجانے میں شراب یا کوئی دوسری نشہ آور چیز استعمال کرلینے کی وجہ سے عقل زائل ہوجائے تو بھی طلاق واقع نہیں
ہوگی۔ یہی حکم اس وقت بھی ہے جب کسی کو زبردستی شراب پلادی گئی ہو (المغنی 375/10)، لیکن اگر کوئی شخص بالقصد اور بے ضرورت نشہ آور چیز پی لیتاہے یا کھا لیتاہے تو اس کی طلاق کے سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ صحابہ میں حضرت علیؓ، معاویہ ، ابن عباس اور تابعین میں سعید بن المسیب، عطاء مجاہد، حسن بصری، ابن سیرین ، شعبی اور نخعی کے نزدیک ایسے شخص کی طلاق واقع ہوجائے گی۔ امام ابوحنیفہ ، مالک، ثوری اور اوزاعی کا یہی رجحان ہے ، امام شافعی کا ایک قول یہی ہے اور ابن حجر عسقلانی کے بقول شافعی فقہاء نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے (فتح الباری391/9)، امام ابویوسف اور امام محمد بھی اسی کے قائل ہیں اور امام احمد سے بھی ایک رائے اسی کے مطابق منقول ہے ۔ حنبلی فقہاء میں ابوبکر خلال اور قاضی نے اسی کو ترجیح دی ہے ۔
واضح رہے کہ شراب ہی کے حکم میں افیون اور بھنگ بھی ہے ۔( دیکھئے ردالمحتار 445 /4)
حضرت عثمان ، عمر بن عبدالعزیز، قاسم، طاوس ، ربیعہ ، یحییٰ انصاری کے نزدیک حالت نشہ میں طلاق واقع نہ ہوگی، مشہور محدث اور فقیہ امام لیث بن سعد مصری اور اسحاق بن راہویہ کا یہی مسلک ہے اور امام شافعی اور احمدبن حنبل سے ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے جسے حنبلی فقیہ ابوبکر بن عبدالعزیز نے ترجیح دی ہے ۔ داؤد ظاہری، ابن حزم اور علامہ ابن قیم کا یہی رجحان ہے ، حنفی فقہاء میں امام طحاوی اور ابوالحسن کرخی اور شافعی علماء میں امام شافعی کے مشہور و ممتاز شاگرد امام مزنی اسی کے قائل ہیں۔(دیکھئے: مصنف ابن ابی شیبہ 29/5-37، المغنی 346/10-347، زاد المعاد 210/5-211، فتح الباری 391/9)
قائلین کے دلائل:
جوحضرات حالت نشہ کی طلاق کو درست قرار دیتے ہیں ان کے دلائل یہ ہیں:
1-عن ابی ھریرۃ عن النبی ﷺ انہ قال کل
الطلاق جائز الا طلاق المعتوہ المغلوب علی عقلہ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہر شخص کی طلاق درست ہے سوائے مغلوب العقل آدمی کے ۔ (سنن ترمذی 142/1، باب ماجاء فی طلاق المعتوہ)
امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث عطاء بن عجلان کے واسطے سے ہم کو پہنچی ہے اور وہ ’’ذاھب الحدیث‘‘ ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ ’’وھو ضعیف جدا‘‘ اور ابن معین اور فلاس وغیرہ نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے۔ البتہ حضرت علی کے قول کی حیثیت سے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ صحیح ہے:’’کل الطلاق جائز الا طلاق المعتوہ۔‘‘ (دیکھئے ارواء الغلیل110/7)
اس حدیث میں ہر مکلف انسان کی طلاق کو واقع قرار دیاگیاہے ، صرف پاگل کا استثنا کیاگیا ہے ۔ لہٰذا اس کے عموم میں نشہ کی طلاق بھی شامل ہوگی۔
2-نقل کیاجاتاہے کہ ایک عورت چھری لے کر اپنے شوہر کے سینے پر سوار ہوگئی اور کہاکہ طلاق دے دو ، ورنہ مار ڈالوں گی ۔ شوہر نے جبر اور دباؤ کی وجہ سے اسے طلاق دے دی، بعد میں معاملہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
لاقیلولۃ فی الطلاق۔
طلاق میں واپسی نہیں ہے۔(سنن سعید بن منصور 275/1)
3-عن ابی ھریرۃ قال رسول اللہ ﷺ ثلاث جدھن جد وھزلھن جد؛ الطلاق، والنکاح، والرجعۃ۔
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان کی حقیقت تو حقیقت ہے ہی ، مذاق بھی حقیقت ہے؛ نکاح، طلاق، رجعت۔
امام ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے ، اس کے راوی
قابل اعتماد ہیں ، صرف ایک راوی عبدالرحمن بن حبیب پر بعض لوگوں نے کلام کیا ہے ، اس لیے حدیث ضعیف ہے ، لیکن چونکہ اس طرح کی حدیث بعض دیگر راویوں نیز متعدد صحابہ کرام سے منقول ہے ، گرچہ ان کی سندوں میں بھی کچھ ضعف ہے اس لیے حدیث درجہ حسن میں آجاتی ہے ، اسی کے پیش نظر امام ترمذی نے اس روایت کو حسن قرار دیاہے۔(دیکھئے نصب الرایہ 294/3، نیز ارواء الغلیل 224/6-227)
اس روایت میں کہاگیاہے کہ مذاق میں بھی طلاق ہوجاتی ہے حالانکہ مذاق میں طلاق دینے والا طلاق کا لفظ بولتا ہے مگر حقیقی مفہوم مراد نہیں لیتاہے ، یہی صورت حالت نشہ کے طلاق کی ہے کہ وہ طلاق کا تلفظ کرتاہے مگر اس کا ارادہ نہیں کرتاہے۔
4-شراب کی وجہ سے مدہوش کو حد قذف کے مسئلے میں صحابہ کرام نے باشعور کی طرح قرار دیا اور اسی بنیاد پر اتفاق رائے سے شرابی کو اسی(80) کوڑے لگانے کا فیصلہ کیاگیا۔ چنانچہ ابو وبرہ کلبی سے روایت ہے کہ حضرت خالد نے انھیں حضرت عمر کے پاس بھیجا، مسجد میں ان سے ملاقات ہوئی ، اس وقت ان کے پاس حضرت عثمان، علی، عبدالرحمان ، طلحہ اور حضرت زبیر وغیرہ تشریف فرما تھے۔ میں نے ان سے کہاکہ حضرت خالد نے کہلا بھیجا ہے کہ لوگ شراب کی سزا کو معمولی اور ہلکی سمجھ کر بکثرت شراب پی رہے ہیں، حضرت عمر نے کہاکہ یہ لوگ تمہارے سامنے موجود ہیں ان سے پوچھو کہ روک تھام کی کیا تدبیر کی جائے حضرت علیؓ نے فرمایا:
نراہ اذا سکر ھذی وذا ھذی افتری وعلی المفتری ثمانون۔
میرا خیال ہے کہ شراب پی کر آدمی مہمل باتیں بکنے لگتاہے اور اس میں کسی پر تہمت بھی لگا دیتا ہے اور تہمت لگانے کی سزا اسی کوڑا ہے۔
حضرت عمر ؓ نے فرمایا :
انھوں نے جو سزا تجویز کی ہے اپنے ساتھی کو اس کی اطلاع کردو۔
امام دارقطنی نے اس کی روایت کی ہے (سنن دارقطنی /354) اور؛ان کے واسطے سے علامہ بیہقی نے ’’سنن کبریٰ‘‘ میں نقل کیا ہے(السنن الکبریٰ 320/8)، حدیث کی سند عمدہ ہے ۔ اس کے راوی قابل اعتماد ہیں۔ صرف ایک راوی ابووبرہ کلبی کے متعلق شیخ البانی کہتے ہیں کہ مجھے ان کے متعلق معلوم نہیں ہے.(الارواء 111/7)، لیکن اس طرح کی روایت حضرت عکرمہ کے حوالے سے امام نسائی ، عبدالرزاق اور امام طحاوی وغیرہ نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ۔ اس لیے روایت لائق حجت ہے۔(مصنف عبدالرزاق 378/7حدیث 13542، السنن الکبریٰ 321/7، اعلاء السنن 640/11)
5-ایک شخص نے حالت نشہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ معاملہ حضرت عمر کے پاس آیا۔ انھوں نے چار عورتوں کی گواہی کی روشنی میں طلاق کو واقع قرار دیا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 38/5. سنن کبریٰ 359/7. اس کے راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔حاشیہ زادالمعاد 312/5، تحقیق شعیب ارنووط، عبدالقادر ارنووط)
6-حضرت علی کا قول فیصل ہے :
کل طلاق جائز الا طلاق المعتوہ۔
پاگل کے علاوہ ہر شخص کی طلاق درست ہے۔ ( مصنف عبدالرزاق 409/6.السنن الکبریٰ 359/7.صحیح بخاری 794/4۔تعلیقا ۔ اور سندی حیثیت سے روایت بالکل بے غبار ہے ، اس کے تمام راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں۔الارو۱ء111/7)
7-حضرت سعید بن المسیب سے منقول ہے کہ حضرت معاویہ نے حالت نشہ کی طلاق کو واقع قرار دیا ۔( اجاز طلاق السکران.
المحلی 209/10،اور اس کے راوی ثقہ ہیں، حاشیہ زادالمعاد 212/5)
اور رجاء بن حیوۃ کہتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان نے حضرت معاویہ کی ایک تحریر ہمارے سامنے پڑھی جس میں لکھا ہوا تھا :
ان کل احد طلق امرأتہ جائز الا لمجنون۔
جو بھی اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو اس کی طلاق درست ہے سوائے مجنون کے ۔(سنن کبریٰ 359/7، شیخ البانی نے کہاکہ اس کی سند امام بخاری و مسلم کے معیار اور شرط کے مطابق ہے ۔ الارواء 112/7)
8- نشہ کی حالت میں بھی شرابی احکام شرعیہ کا مکلف ہوا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس حالت میں فوت شدہ نماز کی قضاء لازم ہے ، نیز کسی کو قتل کردے تو بدلے میں قتل اور چوری کرے تو بطور سزا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ کسی پر بدکاری کی تہمت لگادے تو حد قذف لگائی جاتی ہے ، حالانکہ کسی پاگل پر یہ احکام جاری نہیں ہوتے ہیں اور جب حالت نشہ میں بھی احکام شرعیہ کا مکلف ہے تو اس کی طلاق بھی واقع ہوجائے گی۔( المغنی 347/10، البدائع 159/3)
9- بے ضرورت ، جان بوجھ کر برضا و رغبت نشہ کا استعمال شرعاً حرام ہے اور شریعت کی طرف سے اس پر ایک سزا مقرر ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس شراب کی وجہ سے جو اثرات پیدا ہوں ان کا بھی اعتبار کیاجائے جیسے کہ کوئی شخص کسی کے جسم پر کوئی زخم لگادے اور زخم سرایت کرنے کی وجہ سے جسم کا وہ حصہ بے کار ہوجائے تو وہ اس سرایت کرجانے کی وجہ سے ماخوذ ہوگا اور جسم کا جو حصہ ضائع ہوا ہے اسی کے اعتبار سے بدلہ لیاجائے گا
مثلاً ایک انگلی کاٹ دینے کی وجہ سے پورا ہاتھ بے کار ہوجائے تو کاٹنے والے سے پورے ہاتھ کا تاوان لیاجائے گا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ ناجائز کام کی وجہ سے جو اثر مرتب ہوتاہے اس کا بھی اعتبار کیاجاتاہے۔ اس کے برخلاف اگر چوری کی وجہ سے ہاتھ کاٹا گیا اور اس کی وجہ سے پورا ہاتھ بے کار ہوجائے تو کاٹنے والے پر کوئی تاوان نہیں ہے ۔کیونکہ ہاتھ کاٹنا اس کے لیے جائز تھا۔ لہٰذا سرایت کی وجہ سے اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔(حاشیہ رد المحتار446/4)
مانعین کے دلائل:
جو حضرات حالت نشہ کی طلاق کو واقع قرار نہیں دیتے ہیں ان کے دلائل یہ ہیں:
1-احکام شرعیہ کا مکلف اور پابند بنانے کا دارومدار عقل و شعور پر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
رفع القلم عن ثلاثۃ عن النائم حتی یستیقظ وعن الصبی حتی یشبّ وعن المعتوہ حتی یعقل۔ اخرجہ ابوداؤد وابن ماجۃ والترمذی وقال حدیث حسن۔
تین طرح کے لوگوں پر کوئی دار و گیر نہیں ہے ، سونے والے پر یہاں تک کہ بیدار ہوجائے، بچے پر یہاں تک کہ بالغ ہوجائے، پاگل پر یہاں تک کہ اس سے افاقہ ہوجائے۔ (المغنی 50/2 ۔ امام حاکم نے کہاکہ حدیث امام مسلم کے معیار کے مطابق ہے، علامہ ذھبی نے حاکم کی تائید کی ہے ۔ المستدرک 59/2)
پاگل کی طرح شرابی بھی عقل و خرد سے عاری ہوتا ہے لہٰذا وہ احکام شرعیہ کا پابند نہیں ہے ۔ اس کے قول کا کوئی اعتبار نہیں کیاجائے گا۔ اس لیے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ماعز بدکاری میں ملوث ہوجانے کے بعد خوف خداوندی اور خشیت کی وجہ سے بارگاہِ نبوت میں آکر اپنی غلطی کا خود ہی اعتراف اور اقرار کرتے ہیں تو اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں: کیا تو پاگل ہے، تجھ پر جنون کا دورہ تو نہیں پڑتا ہے‘‘؟ انھوں نے کہا:نہیں، فرمایا: شراب پی کر آیا ہے کیا؟ کہا:نہیں، مجلس میں موجود ایک صاحب اٹھے اور جاکر دیکھاکہ منھ سے شراب کی بو تو نہیں آرہی ہے۔ سونگھنے پر شراب کا کوئی اثر معلوم نہیں ہوا تو ان پر شرعی سزا کو نافذ کیاگیا۔(صحیح بخاری 793/2، صحیح مسلم 67/2،کتاب الطلاق باب الطلاق فی الاغلاق والکرہ، صحیح مسلم کتاب الحدود باب حدّالزنا)
آنحضور ﷺ کا یہ سوال کرنا کہ کیا تونے شراب پی ہے ؟ اس بات کی دلیل ہے کہ شرابی کے قول و اقرار کا اعتبار نہیں ہے۔کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہ دریافت کرنے کا کوئی معنی نہیں رہ جائے گا۔
2- بہ اتفاق احکام شرعیہ کا پابند بنانے کے لیے عقل و شعور شرط ہے اور عقل و شعور زائل ہوجانے کے بعد کوئی انسان شریعت کے احکام کا پابند نہیں رہتاہے۔ خواہ عقل و شعور کا زوال کسی قدرتی آفت کی وجہ سے ہو یا کسی اختیار ی معصیت کی وجہ سے جیسے اگرکوئی جان بوجھ کر پاگل بننے کے ارادہ سے کسی چیز سے اپنا سر ٹکرا دے اور اس کے نتیجے میں پاگل ہوجائے تو بہ اتفاق شرعی احکام کا وہ مکلف نہیں رہ جاتاہے۔(المغنی 348/10) اور ایسے پاگل کی طلاق بہ اتفاق واقع نہیں ہوگی۔ حالانکہ وہ اختیاری معصیت کی وجہ سے پاگل بنا ہے۔
3-حضرت عثمان غنی سے منقول ہے کہ جنون اور حالت نشہ کی طلاق کا اعتبار نہیں ہے ۔
امام بخاری نے سند کے بغیر اس کی روایت کی ہے مگر مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ روایت مکمل سند کے ساتھ موجود ہے(فتح الباری 391/9) اور سند صحیح ہے ، امام بیہقی نے بھی اسے نقل کیا ہے جس کی سند کے متعلق شیخ البانی نے کہا کہ یہ امام بخاری و مسلم کے شرط کے مطابق ہے (ارواء الغلیل 112/7) اور اس روایت کے متعلق امام احمدبن حنبل کہا کرتے تھے:
حدیث عثمان ارفع شیء فیہ وھو اصح یعنی من حدیث علی .
حضرت عثمان کی روایت اس مسئلہ میں بلند تر روایت ہے اور حضرت علی کی روایت سے اسنادی حیثیت سے زیادہ صحیح ہے۔(المغنی 347/10)
4-حضرت عبداللہ بن عباس کا فتوی ہے : طلاق السکران والمستکرہ لیس بجائز ۔
حالت نشہ اور اکراہ کی طلاق درست نہیں ہے ۔
امام بخاری نے سند کے بغیر صیغہ جزم کے ساتھ اسے نقل کیا ہے جو ان کے نزدیک صحیح ہونے کی دلیل ہے ، ابن ابی شیبہ نے اسے سند کے ساتھ روایت کی ہے اور اس کے راوی قابل اعتماد ہیں۔(الارواء 113/7)
واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس سے بعض روایتوں میں حالت نشہ کی طلاق کا اعتبار منقول ہے اور اسی کے اعتبار سے ہم نے ان کا نام قائلین کی فہرست میں لکھاہے ۔ لیکن علامہ ابن قیم کا خیال ہے کہ ابن عباس کی طرف اس رائے کی نسبت اسنادی حیثیت سے درست نہیں ہے ۔ (حوالہ مذکور 114/7)
5- بے خیالی یا مجبوری میں شراب پینے کی وجہ سے عقل زائل ہوجائے تو طلاق کا اعتبار نہیں کیاجاتاہے، ایسے ہی پاگل، بے ہوش اور بچے کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ہے ، کیونکہ یہ عقل و خرد سے عاری ہیں اس پر قیاس کا تقاضا ہے کہ بالقصد شراب پینے کی وجہ سے عقل زائل ہوجائے تو اس حالت میں بھی طلاق کا اعتبار نہ کیاجائے۔
دلائل کا ایک جائزہ:
دونوں طرح کے دلائل کے دیکھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ مسئلہ سے متعلق کوئی آیت اور صریح اور صحیح حدیث موجود نہیں ہے ۔ چنانچہ قائلین کی طرف سے پیش کردہ پہلی حدیث درجہ ضعیف ہے، جس کی اشارہ کیا جاچکا ہے اور اس طرح کی حدیث سے احکام میں استدلال نہیں کیاجاسکتاہے۔
اس سلسلہ کی دوسری روایت بھی کافی ضعیف اور کمزور ہے ۔ چنانچہ اس کے ایک راوی صفوان بن عمرو کے ضعف پر اکثر محدثین کا اتفاق ہے ۔ ان کے متعلق امام بخاری کا خیال ہے کہ ’’حدیثہ منکر لا یتابع علیہ‘‘ دوسرے راوی غازی بن جبلہ پر بھی کلام کیاگیاہے ۔ تیسرے راوی ’’بقیہ‘‘ ہیں جن کا ضعف بڑا مشہور ہے اور اس کے ساتھ ہی ’’تدلیس‘‘ کے عادی ہیں۔(زاد المعاد 208/5)
تیسری حدیث اسنادی حیثیت سے درجہ حسن میں آجاتی ہے لیکن یہ اور اس سے پہلے مذکور دونوں حدیثیں اپنے موضوع پر صریح نہیں ہیں کیونکہ ان کا تقاضا تو یہ ہے کہ جائز ذریعہ سے نشہ کی حالت میں اور پاگل کی طلاق بھی واقع ہوجائے۔ حالانکہ کوئی اس کا قائل نہیں ہے ۔ اس لیے لامحالہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حدیث میں وہ طلاق مراد ہے جو مکلف انسان اپنے ارادہ و اختیار سے انجام دے۔
چوتھی روایت اسنادی حیثیت سے بے غبار ہے ، ابن حزم کا اسے نادرست قرار دینا محض شدت پسندی ہے جسے کوئی حقیقت پسند قبو ل نہیں کرسکتا ہے۔ البتہ مفہوم کے اعتبار سے اسے صریح قرار دینا مشکل ہے۔
حضرت عمر اور علی کا اثر بھی ثابت شدہ ہے ۔ البتہ حضرت علی کے اثر کے عموم سے معلوم ہوتاہے کہ پاگل کے سوا ہر شخص کی طلاق واقع ہوجاتی ہے خواہ وہ نابالغ ہی کیوں نہ ہو حالانکہ تمام فقہاء کے نزدیک نابالغ کی طلاق کا اعتبار نہیں ہے ، اس لیے اس روایت کی تاویل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ علامہ ظفر احمد عثمانی نے اس کی تاویل کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’ہر طلاق‘‘ سے مراد ہر بالغ شخص کی طلاق ہے ۔ لہٰذا نابالغ اس کے عموم میں شامل نہیں ہے۔ (اعلاء السنن 176/11)۔ یہ ایک عمدہ تاویل ہے ۔ روایت کے الفاظ میں اس کی گنجائش ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ حضرت علی نابالغ کی طلاق کے قائل ہیں۔ ان کا یہ نقطہ نظر بڑا مشہور ہے اور انھوں نے اپنے اسی خیال کے پس منظر میں یہ بات کہی ہے چنانچہ مکمل روایت یہ ہے:
اکتموا الصبیان النکاح فان کل طلاق جائز الا طلاق المعتوہ۔
بچوں سے نکاح کو پوشیدہ رکھو۔ کیونکہ ہر طلاق واقع ہوجاتی ہے سوائے پاگل کے طلاق کے ۔(معرفۃ الآثار والسنن 77/11)
اس لیے مذکورہ تاویل درست نہیں ہے۔
حضرت معاویہ کا قول اسنادی حیثیت سے صحیح بھی ہے اور صریح بھی۔رہا یہ خیال کہ شرابی حالت نشہ میں احکام شرعیہ کا مکلف ہوا کرتاہے اس وجہ سے فوت شدہ نمازوں کی قضاء لازم ہے تو اس خیال سے اتفاق دشوار ہے کیونکہ بالاتفاق احکام شرعیہ کا مکلف ہونے کے لیے ’’عقل‘‘ شرط ہے اور یہ شرط شرابی میں مفقود ہے اور اگر اس حالت
میں بھی مکلف قرار دیاجائے تو پھر مجبوری اور لاعلمی کی وجہ سے شراب پینے والے کی طلاق کا بھی اعتبار ہوناچاہیے۔ رہا نماز کے قضاء کا مسئلہ تو بہ اتفاق سونے والے پر نماز کی قضاء ہے حالانکہ وہ اس حالت میں احکام شرعیہ کا مکلف نہیں ہوتاہے۔(زادالمعاد 212/5، فتح الباری 391/9)
دوسرے یہ کہ حالت نشہ کے قول و فعل میں فرق ہونا چاہیے کہ اس کے اقوال کا کوئی اعتبار نہ کیاجائے۔ کیونکہ اس سے کوئی مفسدہ پیدا نہیں ہوگا۔ البتہ اس کے افعال کا اعتبار ہوناچاہیے کیونکہ افعال کے وقوع کے بعد اس کو غیر معتبر قرار دینے میں بڑا ضرر ہوگا لہٰذا خریدوفروخت اور اقرار طلاق کی طرح حالت نشہ کی طلاق کا بھی اعتبار نہیں ہوناچاہیے اور حالت نشہ کے قتل اور چوری کا اعتبار ہوناچاہیے کیونکہ ان افعال کو لغو قرار دینے میں بڑا ضرر ہوگا۔ جیساکہ بہ اتفاق مجنوں اور بچے کے قول کا اعتبار نہیں ہے مگر فعل مثلاً قتل اور چوری کی وجہ سے تاوان واجب ہے۔
واضح رہے کہ جو لوگ حالت نشہ کی طلاق کو واقع قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک بھی حالت نشہ کی خرید و فروخت درست نہیں ہے اور نہ ہی حالت نشہ کے اقرار طلاق کااعتبار ہے۔
آٹھویں دلیل کے سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ اس اصول کے مطابق تو اگر کوئی شخص خودکشی کے ارادے سے اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی کوشش کرے لیکن کوشش کامیاب نہ ہو اور جان تو بچ جائے مگر عقل سے ہاتھ دھو بیٹھے یا کسی مسلمان سے لڑائی کی اور اس لڑائی میں چوٹ کی وجہ سے دماغی توازن کھو بیٹھے اور اس پاگل پن کی حالت میں بیوی کو طلاق دے دے تو کیا اس طلاق کا اعتبار کیاجائے گا۔ مذکورہ اصول کے مطابق چونکہ ایک ناجائز کام کا اثر اور نتیجہ ہے لہٰذا اس کا اعتبار ہوناچاہیے حالانکہ کوئی اس کا قائل نہیں ہے۔
مانعین کی طرف سے حضرت ماعز کی جو روایت پیش کی گئی ہے وہ صحیح تو ہے مگر صریح نہیں ہے کیونکہ اقرار طلاق اور وقوع طلاق میں بڑا فرق ہے ۔ ایک خبر ہے
تو دوسرا انشاء۔ حضرت ماعز کے واقعہ میں اقرار ہے اور مانعین بھی حالت نشہ کے اقرار طلاق کا اعتبار نہیں کرتے ہیں اور یہاں اقرار طلاق کی نہیں بلکہ ایقاع طلاق کی بحث چل رہی ہے۔
اس کے سوا جو دلائل ہیں ان تمام کا حاصل صرف یہ ہے کہ احکام شرعیہ کی پابندی کے لیے عقل و شعور ہونا شرط ہے ۔ یہ بڑی قوی دلیل ہے ۔ اسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتاہے۔
غرضیکہ موضوع سے متعلق کسی بھی فریق کے پاس صراحتاً قرآنی آیت یا صحیح اور صریح حدیث موجود نہیں ہے بلکہ مسئلہ کا تمامتر دارومدار آثار صحابہ اور قیاس پر ہے۔ لیکن آثار صحابہ میں بھی اختلاف ہے۔ ایک طرف حضرت عمرؓ، عمر اور حضرت معاویہؓ کے فتاوے اور فیصلے ہیں۔ تو دوسری طرف حضرت عثمانؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا فتویٰ اور طرزعمل ہے بلکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت عثمانؓ نے جس وقت یہ بات کہی صحابہ میں سے کسی نے ان کی مخالفت نہیں کی ۔ گویاکہ اس پر ایک طرح سے اجماع ہے چنانچہ ابن المنذر کہتے ہیں :
ھذا ثابت عن عثمان ولا نعلم احداً من الصحابۃ خالفہ۔(المغنی 347/1)
اور جو لوگ حالت نشہ کی طلاق کو واقع قرار دیتے ہیں ان کے پیش نظر بنیادی طور پر یہ ہے کہ حالت نشہ کی طلاق شراب نوشی کے سدباب کے لیے بہت موثر ہے ۔ یہ ایک طرح سے شوہر کے لیے دوہری سزا ہے لہٰذا اس حالت کی طلاق کو واقع قرار دینے ہی میں مصلحت ہے ۔ یہ ایک معقول اور مناسب بات ہے۔ یقینا اس سے شراب نوشی میں کمی ہوگی لیکن ایسے ماحول اور معاشرہ میں جہاں نکاح کے خرچہ کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہو ، تلک اور جہیز کا رواج نہ ہو، مطلقہ عورتوں کے دوسرے نکاح کے لیے کوئی
پیچیدگی نہ ہو بلکہ شوہر دیدہ عورتوں کی شادی بھی کنواری کی طرح عام ہو۔ یقینا ایسے معاشرہ میں طلاق شوہر کے لیے ایک سزا ہے کیونکہ ایک کثیر مہر دے کر جس عورت کو وہ حبالۂ عقد میں لے آیا ہے اس سے محروم ہوجائے گا۔ نیز دوسری شادی کا خر چ مزید۔ لیکن ہندوستان کے پس منظر میں جہاں جہیز نہ دے سکنے کی وجہ سے لڑکیاں زندگی بھر کنواری رہ جاتی ہیں ۔ ہندو رسم و رواج کے اثر سے طلاق یافتہ عورت سے نکاح کو معیوب سمجھاجاتا ہے، شراب نوشی پر کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ قانوناً اجازت ہے ، ایسے معاشرہ میں طلاق مرد کے بجائے عورت کے لیے سزا بن جاتی ہے ۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ مرد تو دوسرے ہی دن نئی شادی رچا لیتا ہے اور عورت زندگی بھر ناکردہ گناہ کی سزا کاٹتی رہتی ہے۔ اس لیے ایسے ماحول میں طلاق واقع نہ قرار دینا ہی زیادہ مناسب ہے ۔ اس لیے کہ مسئلہ دلائل کے قوی اور کمزور ہونے کا نہیں ہے کیونکہ دلیل ہر ایک کے پاس ہے اور ایسے دلائل ہیں کہ انھیں بالکل رد نہیں کیاجاسکتاہے بلکہ حالات و زمانہ کی تبدیلی کی بات ہے کہ آج کے معاشرہ میں بھی طلاق واقع قرار دینا تقاضائے مصلحت کے مطابق ہے یانہیں؟؟؟
شائع شدہ مجلہ تحقیقات اسلامی علی گڑھ ۔
اکتوبر 2000ء